شاپنگ،ہراسگی احتیاط عید تفریح مذاق

*شاپنگ،ہراسگی،احتیاط…عید،جمعہ،ملاقات، برتھ ڈے،شادی وغیرہ پے لباس، سنورنا ،میک اپ،تفریح،مذاق......؟؟*
.
*بچوں،بچیوں کی احتیاط*
اپنی اولاد کو مہذب لباس پہنائیں...اپنی بیٹیوں،بہنوں کو بچپن سے ہی ننگے لباس نہ پہناٸیں...پورا لباس ایک ایسی حیا ہے جسے آپ بچپن سے ہی بچیوں  کے خمیر میں ڈال کے انفرادی معاشرتی بھلائی کا حصہ بن سکتے ہیں، بناسکتے ہیں...اللہ و رسولﷺکے حضور سرخرو ہوسکتے ہیں…‎‎‎‎‎‎‎‎‎‎‎سوچ بدلیں ، معاشرہ بدلیں،جو کچھ بچپن میں بچوں کے ذہنوں میں ڈالیں گے، بڑی عمر میں بھی ان کے ذہنوں میں وہی کچھ پروموٹ ہو گا… ہوسکےتو اس پیغام کو عام کریں
.
*بڑوں کی احتیاط......؟؟*
سجییے سنوریے مگر بےپردگی سے بچیے
الحدیث:
صنفان من اهل النار، لم ارهما قوم معهم سياط كاذناب البقر يضربون بها الناس، ونساء كاسيات عاريات مميلات مائلات، رءوسهن كاسنمة البخت المائلة، لا يدخلن الجنة ولا يجدن ريحها، وإن ريحها ليوجد من مسيرة كذا وكذا "
ترجمہ:
‏‏رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو قسم کے جہنمی جو میری حیات ظاہری میں ظاہر نہیں ہوئے مگر بعد میں ظاہر ہونگے
 ایک(قسم کے جہنمی) تو وہ لوگ(فوجی پولیس ریجنر وغیرہ) جن کے پاس کوڑے ہیں بیلوں کی دموں کی طرح کے لوگوں کو اس سے ناحق مارتے ہیں۔
دوسرے(قسم کے جہنمی) وہ عورتیں ہیں جو پہنتی ہیں مگر ننگی ہیں (یعنی ستر کے لائق اعضا کھلے ہیں ایسے باریک ہوتے ہیں جن میں سے بدن نظر آتا ہے تو گویا ننگی ہیں یا ایسے تنگ کپڑے پہنتی ہین جس سے بےپردگی ہوتی ہو) سیدھی راہ سے بہکانے والی، خود بہکنے والی، ان کے سر بختی (ایک قسم ہے اونٹ کی) اونٹ کی کوہان کی طرح ایک طرف جھکے ہوئے ہیں وہ جنت میں نہ جائیں گی بلکہ اس کی خوشبو بھی ان کو نہ ملے گی حالانکہ جنت کی خوشبو اتنی دور سے آتی ہے۔
(مسلم حدیث5582)
.
الحدیث:
قال: " لا يدخل الجنة من كان في قلبه مثقال ذرة من كبر "، قال رجل: إن الرجل، يحب ان يكون ثوبه حسنا، ونعله حسنة، قال: إن الله جميل يحب الجمال، الكبر بطر الحق وغمط الناس.
ترجمہ:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
جس کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہو وہ جنت میں نہیں جاے گا،،ایک شخص نے عرض کیا: کوئی شخص پسند کرتا ہے کہ اسکے کپڑے اور جوتے اچھے ہوں،صاف ستھرے ہوں(تو کیا یہ بھی تکبر ہے.؟)آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا:
"بے شک اللہ عزوجل جمیل ہے اور جمال (سنورنے، صفائی ستھرائی رکھنے والوں)کو پسند فرماتا ہے، (یہ سب تکبر نہیں)تکبر تو یہ ہے کہ
حق کی پرواہ نا کی جاے،حق کو ٹھکرایا جائے اور لوگوں کو حقیر سمجھا جاے..(مسلم حدیث نمبر..265..147)
.
اس حدیث پاک میں دو چیزیں بیان ہیں
نمبر ایک تکبر
نمبر دو سنورنا
.
*تکبر...........!!*
توانگرانہ تکبر... عاجزانہ، فقیرانہ تکبر...
شعورانہ تکبر... عالمانہ تکبر... عملی تکبر... وڈیرانہ تکبر... لیڈرانہ تکبر.. منصب کا تکبر.. دولت کا تکبر... طاقت کا تکبر...
گروپ،پارٹی،قومیت کا تکبر..
علم،تعلیم،ایجوکیشن کا تکبر...
اپنی خاصیت.و.خوبی کا تکبر...
الغرض
اللہ ہر قسم کے تکبر سے محفوظ فرماے...حق کی پرواہ اور حقوق کی ادائیگی کرنے والا بنائے...دوسروں کی عزت و احترام کرنے والا بنائے...اپنی علمیت لیڈریت سیاست خدمات سیادت(سید ہونا)صاحبزادیت تونگری فقیریت سخاوت وغیرہ صفات و خصوصیات جتانے سے محفوظ فرمائے....آمین
.
حقیقی بڑے وہ، حقیقی علماء وہ، حقیقی لیڈر وہ، حقیقی استاد وہ جو خود کو عقل کل نہیں سمجھتے، جو دوسروں سے مشاورت کرتے ہیں،جو دوسروں کی عزت و ترقی کا سوچتے ہیں،کردار ادا کرتے ہیں،جو عوام کو چھوٹوں کو دوسروں کو حقیر و کیڑے مکوڑے نہیں سمجھتے، جو دوسروں کی اصلاح و ترقی کے ساتھ ساتھ اپنی اصلاح و ترقی چاہتے رہتے ہیں،اعتراف و رجوع کا دل جگرہ رکھتے ہیں
.
جعلی برے کھوٹے منافق بد کی وجہ سے اصلی سے نفرت نہ کیجیے بلکہ خود بھی اصلی معتدل سچا نیک بااخلاق بنیے اور اصلیوں کی پہچان کیجیے انہیں عزت ووٹ ساتھ دیجیے اور جعلیوں کی پہچان کیجیے،جعلیوں کی حمایت تعریف واہ واہ مت کیجیے،انکی اصلاح کیجیے، جعلی ضدی فسادی کی مذمت کیجیے،ہر طرح کے مقدور بھر بائیکاٹ کیجیے،ایسوں کو ووٹ و عزت نہ دیجیےیہ اپنی موت آپ مرجائیں گے....ان شاء اللہ عزوجل
.
*سنورنا، میک اپ، تفریح، مذاق..........؟؟*
 مذکورہ اس بات میں واضح ارشاد موجود ہے کہ انسان کو حتی المقدور صاف ستھرا رہنا چاہیے، اچھا پاکیزہ بااخلاق باشعور پروقار رہنا چاہیے،اچھا لباس پہننا چاہیے....اچھے،جائز مقصد کےلیے جائز حد تک سجنے سنورنے کو اللہ پسند فرماتا ہے بےپردگی بےحیائی برا مقصد ہو تو جائز نہیں مگر اچھے،جائز مقصد کےلیےجائز حد تک عید جمعہ شادی بلکہ وقتا فوقتا سجنا،سنورنا،معتدل میک اپ کرنا،بیوٹی سوپ، بیوٹی کریم لگانا،اچھا پہننا،جائز تفریح غیرموذی جائز مذاق کرنا وغیرہ جائز بلکہ اچھی نہیت ہو تو ثواب ہیں
.
بَيْرُحَاءَ، قَالَ: - وَكَانَتْ حَدِيقَةً كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْخُلُهَا، وَيَسْتَظِلُّ بِهَا وَيَشْرَبُ مِنْ مَائِهَا
بَيْرُحَاءَ باغ۔۔۔جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (سیر.و.تفریح)کے لئے داخل ہوا کرتے تھے اور اس کے سائے میں بیٹھا کرتے تھے اور اس کا پانی پیا کرتے تھے 
(بخاری2758)اس سے ثابت ہوا کہ وقتا فوقتا جائز تفریح ، سرسبز اچھے مناسب علاقے و جگہ پے باپردہ پکنک و تفریح جائز ہےبلکہ اچھی نیت ہو تو ثواب ہے
.
*عید شادی بلکہ وقتا فوقتا مشروط مباح تفریح کرنی چاہیے،مہیا کرنی چاہیے...*
الحدیث:
رَوِّحُوا القُلُوبَ سَاعَةً فَسَاعَةً
ترجمہ:
وقتا فوقتا دِلوں(دل،دماغ،جسم)کو تفریح دو
(جامع صغیر حدیث6885)
.
حضرت سیدنا علی فرماتے ہیں:
 أجموا هذه القلوب فإنها تمل كما تمل الأبدان
ترجمہ:
دلوں(دل،دماغ،جسم) کو راحت و تفریح دیا کرو کیونکہ دل و دماغ بھی جسم کی طرح اکتا جاتے ہیں تھک جاتے ہیں
(فیض القدیر 4/40)
.
الحدیث:
الهوا والْعَبُوا فإنّي أكْرَهُ أنْ يُرَى فِي دِينِكُمْ غلظة
ترجمہ:
(عید،منگنی،شادی برتھ ڈے،وغیرہ مواقع بلکہ وقتا فوقتا) لھو.و.لعب(جائز باپردہ غیرفحش رقص کھیل کود تفریح)کرو کہ بےشک مجھے پسند نہیں کہ تمھارے دین میں بےجا سختی دیکھی جائے
(الجامع الصغير وزيادته حدیث3146)
(شعب الإيمان ,8/485حدیث6122)
(جامع الأحاديث ,6/269حدیث5168)
(فتاوی رضویہ1/742)
.
وسنده ضعيف وفي معناه أحاديث تشهد له
مذکورہ حدیث کی سند ضعیف ہے لیکن اس حدیث کے معنی میں دیگر احادیث ہیں جو اس کی شاہد ہیں 
(المداوي لعلل الجامع الصغير وشرحي المناوي ,2/240)
.
دیگر شرائط کے علاوہ وقتا فوقتا کی شرط لگائی کیونکہ کھیل کود تفریح دنیاداری میں مگن ہوجانا ، دنیا کی رنگینیوں میں مگن ہوجانا، دین کی پرواہ نہ کرنا بےعملی بدعملی میں چلے جانا جائز نہیں
الحدیث،ترجمہ:
حسد نہ کرو،(ناحق)بےرخی نہ کرو،قطع تعلق نہ کرو،دنیا کی رنگینیوں میں مت پڑو،بھائی بھائی ہوجاؤ(نسائی سنن کبری حدیث10652)
.
فَيَجُوزُ لَهُمْ إِظْهَارُ الْفَرْحَةِ فِي مِثْلِ هَذَا الْيَوْمِ
عید شادی وغیرہ کی مثل کے دنوں میں جائز خوشی کا اظہار جائز ہے 
(حاشية السندي على سنن ابن ماجه ,1/587)
.
*نبی پاک کا سچا غیر موذی مزاح*
قَالَ أَبُو عِيسَى....أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ كَانَ يُمَازِحُ
امام ترمذی فرماتے ہیں کہ بے شک نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم مزاح(سچا غیرموذی مذاق) فرمایا کرتے تھے 
(الترمذي،مختصر الشمائل ,page 125)
.
قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّكَ تُدَاعِبُنَا، قَالَ: «إِنِّي لَا أَقُولُ إِلَّا حَقًّا
ترجمہ:
صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ ہم سے مزاح فرماتے ہیں تو آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ میں مزاح میں بھی حق بات کہتا ہوں 
(سنن الترمذي ت شاكر ,4/357)
(البخاري، الأدب المفرد ,page 116)
.
مثلا
أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، احْمِلْنِي. قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّا حَامِلُوكَ عَلَى وَلَدِ نَاقَةٍ ". قَالَ : وَمَا أَصْنَعُ بِوَلَدِ النَّاقَةِ ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " وَهَلْ تَلِدُ الْإِبِلَ إِلَّا النُّوقُ
بے شک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور عرض کیا یا رسول اللہﷺمجھے سواری کے لئے کچھ دیجئے حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہم آپ کو اونٹنی کی اولاد میں سے سواری کے لیےدیں گے(اس نے اونٹنی کی اولاد سے اونٹنی کا بچہ سمجھا اور )عرض کیا یا رسول اللہ میں اونٹنی کے بچے کو کیا کروں گا......۔؟حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا بڑا اونٹ/اونٹی بھی تو اونٹنی کی اولاد ہوتا ہے  
(ابوداود حدیث4998)
.
*مگر مذاق نہ اڑاو...........!!*
القرآن:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ
اے ایمان والو ایک دوسرے پے مت ہنسو(ایک دوسرے سے دل دکھانے والا مزاق نہ کرو،ایک دوسرے کا مذاق نہ اڑاو)
(سورہ الحجرات آیت11)
.
صحابہ کرام علیھم الرضوان کبھی جائز ہنسی مذاق تفریح شاعری کرتےتو کبھی زہد و کثرتِ عبادت میں خوب مشغول ہوتے(دیکھیے المصنف استادِ بخاری26326..ترمذی2850) اسلام تو بےشک دین و جائز دنیا کا حسِین امتزاج ہے
.
*عید جمعہ منگنی شادی برتھ ڈے وغیرہ خوشی کے مواقعے پےلباس سنورنا سجنا تفریح.......!!*
 تفریح اور مذاق کے متعلق اوپر بتایا جا چکا ہے کہ جائز حد تک ہوں بے پردگی نہ ہو، بے حیائی نہ ہو ، تکلیف کسی کو نہ پہنچائی گئی ہو تو یہ جائز بلکہ ثواب ہیں
 جائز حد تک سجنے سنورنے کےمتعلق بھی اوپر بتایا جا چکا ہےجب عام حالات کا یہ حکم ہے تو خاص عید وغیرہ مواقع پے تو ضرور سجنا سنورنا چاہیے،خوشی کرنی چاہیے، ملاقاتیں کرنی چاہیے، مبارکیں دینی چاہیے،
3208 - عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يَلْبَسُ يَوْمَ الْعِيدِ بُرْدَةً حَمْرَاءَ» رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْأَوْسَطِ وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ
 سیدنا ابن عباس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید کے دن خاص طور پر سرخ دھاری دار چادر پہنتے تھے....اس حدیث کو طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے راوی ثقہ معتبر ہیں
(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد ,2/198)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عید شادی منگنی ملاقات وغیرہ موقعہ مناسبت سے اچھے نئے عمدہ پردےوالا لباس ،اسپیشل لباس پہننا چاہیے
.
الحدیث:
وَإِنَّ هَذِهِ الْأَيَّامَ أَيَّامُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ وَذِكْرِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ
بےشک یہ ایام(عید کے دن)کھانے پینے(جائز تفریح خوشی)کے دن ہیں اور اللہ کا ذکر کرنے کے دن ہیں
(ابوداود حدیث2813)
.
عید نہ تو محض تفریح و خوشی و دنیاوی تہوار ہے اور نہ ہی خالص عبادتی تہوار ہے....یہ دین و عبادت و ذکر اذکار و درود اور جائز دنیا سجنے سنورنے و خوشی کرنے و جائز تفریح کرنے کا حسین امتزاج ہے
.
*جنسی ہراسگی کا حل................؟؟*
*کو ایجوکیشن،اکیلےشاپنگ........؟؟*
آئے دن خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں کہ عورت یا طالبات کو چھیڑا گیا ، جنسی طور پے ہراساں کیا گیا۔۔۔۔یہ تو بہت ہی کم خبریں ملتی ہیں کیونکہ عورتیں طالبات ایسے واقعات کو چھپاتی ہیں تاکہ ان کی معاشرے میں عزت و وقار مجروح نہ ہو....اور بےحیا ہوکر خفیتا براءی کرنے والی بھی چھپاتی ہیں
۔
ایک خبر پڑھی کہ بچیوں کو ، طالبات کو ہراساں کرنے والے کچھ  استاتذہ وغیرہ کو نکال دیا گیا اور تحقیقاتی کمیٹی بٹھا دی گئ ہے۔۔۔۔نکال دینا ، کمیٹی بٹھانا یہ کوئی مسئلہ کا اصلی حل نہیں ہے۔۔۔عورتوں کو گھروں میں مطلقا قید کر لینا بھی مسئلہ کا حل نہیں
.
مسئلہ کا حل یہ ہے کہ
 عورت محرم مرد کے بغیر نہ نکلے اور "کو ایجوکیشن" کا خاتمہ کیا جائے۔۔۔لڑکیوں اور لڑکوں کے اکٹھے پڑھنے پر پابندی لگائی جائے
اور
لڑکیوں کے لئے الگ سکول کالج یونیورسٹی ہو جس میں مکمل اسٹاف اساتذہ وغیرہ سب عورتیں ہی ہوں۔ ۔۔۔اور لڑکوں کے لئے الگ اسکول کالج یونیورسٹی ہو جس میں تمام اسٹاف اساتذہ سب مرد ہوں...اس طرح نوکریاں ، اسامیاں بھی زیادہ نکلیں گی اور گناہ و معاشرتی تباہی مغربیت سے بھی نجات ملے گی...جنسی ہراسگی وغیرہ گناہوں کا شرعا اخلاقا عقلا یہی ایک حل ہے۔۔۔اس حل کےباوجود کوئی ہراساں کرتا ہے تو اسے عبرتناک سزا دینا مفید ہے.....آزادی بھی ہو اختلاط بھی ہو اور ہراسگی نہ ہو ایسا بہت مشکل...ایسے ماحول میں ہراسگی پر سزا بھی مفید نہیں ہوگی....ہراسگی کو جڑ سے اکھاڑنا ہے تو
"کو ایجوکیشن،مغربی آزادی" کو ختم کرنا ہوگا
.

اسی طرح بازاروں میں بھی اکیلی گھومنے والی،شاپنگ کرنے والی عورتون کو ہراساں کیا جاتا ہے.....پھر واویلا مچایا جاتا ہے کہ ہراساں کیا جا رہا ہے....اسکا علاج بھی یہی ہے کہ شریعت کے ھکم کے مطابق عورت محرم مرد کے ساتھ باہر نکلے
.
کسی نے کیا خوب کہا:
"جب بھی بکری آزادی مانگے گی بھیڑئیے حمایت کریں گےکیوں باپ بھائی شوہر بیٹے کے مضبوط حصار میں کسی عورت کو دبوچنا اور نوچنا مشکل ہے...پس پہلے عورت کو یہ احساس دلایا جائے گا کہ تم قید ہو پابند ہو آزادی حاصل 
کرو جب آزاد ہوگئی تب اس کی عزت و جان کو تارتار کرنا آسان ہے"
.
یہ کہنا کہ عورت بھی آزاد اکیلی ہو مرد عورت کا اختلاط بھی ہو مگر ہراسگی نہ ہو....یہ نہیں ہوسکتا کیونکہ مرد کے اندر فطری طور پر عورت کی چاہت سموئی ہوئی ہے
القرآن: 
زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ 
ترجمہ:
مردوں کے لئے عورتوں سے خواہشات خوش نما بنا دی گئی ہے....(سورہ آل عمران آیت14)
 اس لیے آزاد اکیلی عورت دیکھ کر مرد عورت اکثر دونوں یا کوئی ایک شیطان کے بہکاوے میں جلد آجاتا ہے....کچھ مرد مجاہد عورت مجاہدہ ہوتے ہیں جو بہکاوے میں نہیں آتے...لیھذا اس کا علاج مرد کو بانجھ بنانا، عورت کو گھر میں قیدی بنانا نہیں
بلکہ
مرد عورت کو حیاء کی تعلیم دینا اور "کو ایجوکیشن" ختم کرنا اور عورت کا کم باہر نکلنا اور محرم مرد کے ساتھ باہر نکلنا ہی واحد و مفید حل ہے....اسی میں انفرادی معاشرتی بھلائی ہے
.

الحدیث:
 أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِيَّاكُمْ وَالدُّخُولَ عَلَى النِّسَاءِ
بےشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ (نامحرم،جن سےخلوت و اختلاط ممنوع ہو ان)عورتوں کے ساتھ خلوت،اختلاط،میل جول سے خود کو بچاؤ 
(بخاري حدیث5232)
.
الْخَلْوَةُ بِالْأَجْنَبِيَّةِ مَكْرُوهَةٌ وَإِنْ كَانَتْ مَعَهَا أُخْرَى كَرَاهَةَ تَحْرِيمٍ.....هَذَا أَنَّ الْخَلْوَةَ الْمُحَرَّمَةَ تَنْتَفِي بِالْحَائِلِ، وَبِوُجُودِ مَحْرَمٍ أَوْ امْرَأَةٍ ثِقَةٍ قَادِرَةٍ....وَيَظْهَرُ لِي أَنَّ مُرَادَهُمْ بِالْمَرْأَةِ الثِّقَةِ أَنْ تَكُونَ عَجُوزًا
غیر محرم عورت کے ساتھ ہونا(اختلاط، کو ایجوکیشن) مکروہ تحریمی و گناہ ہے اگرچہ عورت کے ساتھ دوسری عورت ہو پھر بھی گناہ ہے....ہاں اگر مرد اور عورت کے بیچ میں دیوار ہو یا مضبوط پردہ ہو یا عورت کے ساتھ محرم مرد ساتھ ہو یا عورت کے ساتھ دوسری ثقہ قادرہ عورت ساتھ ہو...ثقہ قادرہ عورت سے مراد ایسی ایجڈ عورت جو حفاظت وغیرہ پر قادر ہو تو  اختلاط و باہر نکلنا جائز ہے 
[رد المحتار,6/368ملتقطا]
.
الحدیث:
 يَقُولُ: «لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ إِلَّا وَمَعَهَا ذُو مَحْرَمٍ، وَلَا تُسَافِرِ الْمَرْأَةُ إِلَّا مَعَ ذِي مَحْرَمٍ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کوئی بھی شخص عورتوں کے ساتھ(تعلیم شاپنگ وغیرہ کےلیے)
خلوت و اختلاط(میل جول، بات چیت)نہیں کر سکتا ہاں اگر عورت کا محرم مرد اس کے ساتھ ہو تو جائز ہے اور عورت باہر نہیں جا سکتی مگر یہ کہ محرم مرد کے ساتھ  
[مسلم حدیث1342]
.
کو ایجوکیشن ، مخلوط تعلیم اور عورت کی مغربی آزادی میں برائی ہراسگی فحاشی اور فتنے کی راہیں بالکل ہموار ہوتی ہیں برائی ہراسگی کرنا آسان ہوتا ہے
جبکہ
اسلام ہمیں تعلیم دیتا ہے کہ اس طرح کا نظام ہو کہ کسی کو برائی کرنے کا موقع ہی نہ ملے۔۔۔۔اسلام برائیوں فتنوں کی راہیں مسدود کرنے کا درس دیتا ہے۔۔۔برائی فتنے کا باعث نہ بننے کا درس دیتا ہے
الحدیث، ترجمہ
تم کسی فتنے کا باعث نا بنو
(ابو داود حدیث791)
۔
صوفیاء کرام فرماتے ہیں کہ: إن من العصمة أن لا تجد
ترجمہ:
بے شک پاک دامنی میں سے یہ بھی ہے کہ تم(موقعہ وقت برائی کے اسباب.و.ذرائع ہی) نا پاو
(الدرر المنتثرہ روایت نمبر146)
.
گناہ کے اسباب ہوں.. طاقت ہو.. موقعہ ہو مگر پھر بھی نا کیا جائے تو یہ بے شک بڑی فضیلت.و.جراءت کی بات ہے.. اسکی اپنی ہی الگ شان ہے
مگر
آسان ضروری اور بچت کی راہ یہ ہے کہ کسی کو برائی کا موقعہ ہی نا ملے.. کوئی ذریعہ سبب سوچ ہی نا ملے..اصل مقصد چور کو پکڑنا نہیں... برائی کو پکڑنا نہین... بلکہ اصل مقصد یہ ہے کہ کوئی چوری کرنے نا پائے.. برائی کرنے نا پائے... برائی کے ذرائع اسباب کا سدِ باب کرنا چاہیے... سزاؤں کا بھی اصل مقصد یہ بھی ہوتا ہے تاکہ دوسرے لوگ ایسے جرائم کرنے نا پائیں...برائیوں کی راہیں ہموار کرنا اور پھر ہراسگی پے واویلا کرنا حماقت و دھوکے کے سوا کچھ نہیں
.
لازم ہےکہ برائیوں فحاشیوں ہراسگی وغیرہ کے اسباب و ذرائع کا سدباب کیا جائے۔۔۔ مردوں کے لئے الگ ، عورتوں کے لئے الگ اسکول کالج یونیورسٹیاں بنائیں جائیں یا کلاس روم میں مردوں کے لئے الگ کرسیاں ہوں عورتوں کے لئے الگ کرسیاں ہوں اور بیچ میں سخت پردہ ہو اور ٹیچر سے بھی پردہ ہو۔۔۔اسکول کالج یونیورسٹی میں داخل ہونے کے لئے عورتوں کے لئے الگ دروازہ ہو ، مردوں کے لئے الگ دروازہ ہو، چھٹی ہو تو پہلے بچیوں کو روانہ کیا جائے اس کے بعد مردوں کی چھٹی ہو اگر اتنی پابندی نہیں ہو سکتی تو پھر الگ الگ اسکول یونیورسٹیاں کالج بنائے جائیں۔۔۔"کو ایجوکیشن" مخلوط تعلیم پر پابندی لگائی جائے۔۔۔بازاروں میں عورتوں کا اکیلے پھرنے پر ،اکیلے شاپنگ کرنے پے پابندی لگائی جائے۔۔۔محرم مرد کا ساتھ ہونا ضروری قرار دیا جائے
الغرض:
برائیوں فحاشیوں ہراسگی وغیرہ کے اسباب و ذرائع پر پابندی لگائی جائے۔۔۔سد باب کیا جائے۔۔۔اس کے باوجود برائی ہراسگی ہو تو عبرتناک سزا دی جائے...تب سزا سے فائدہ بھی ہوگا کہ اسباب و ذرائع کا سدباب بھی پہلے سے ہے اور اب سزا بھی۔۔اسباب و ذرائع کا سدباب نہ ہو تو سزا کا بھی کوئ خاص فائدہ نہیں۔۔۔۔۔!!
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
whats App nmbr
00923468392475
03468392475
other nmbr
03062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.