کا ایجنٹ سرسید؟ انگریزوں سرسیدوں کا مشن؟پاکستان، دو قومی نظریہ اور سرسید؟

 *آزادیِ پاکستان، دو قومی نظریہ اور سر سید......؟؟*

نوٹ:

جن کتب کا حوالہ دیا گیا ہے وہ یا تو سرسیدوں کے ہاں معتبر ہیں یا پھر ان کتب میں سرسیدی ماخذ سے ہی بات لکھی گئ ہے...لیھذا یہ حقائق ہیں، الزام تراشیاں نہیں

.

 دو قومی نظریہ کا بانی و مشتہر سرسید کو سمجھا جاتا ہے پھیلایا جاتا ہے پڑھایا جاتا ہے اور سرسید کو مسلمانوں کی آزادی اور ترقی کا ہیرو کہا جاتا ہے….. کیا یہ سچ ہے یا پھر یہ جھوٹ.....؟؟ مختصرا کتب سے چند اقتباسات حاضر ہیں جن سے آپ بخوبی اندازہ لگا سکیں گے کہ سچ کیا ہے جھوٹ کیا ہے......!!

.

*انگریزوں کا منصوبہ.........؟؟*

 ہمیں ایسی نسل تیار کرنا چاہیے جو دیسی آبادیوں کے لئے ہماری افکار و نظریات کی ترجمان ہو اور جو رنگ و نسل کے اعتبار سے بلاشبہ ہندوستان کا باشندہ ہوں لیکن فکر و نظر اور سیرت و کردار اور عادات و اخلاق کے اعتبار سے خالص انگریز ہو....(نظام تعلیم ص88)

 جی ہاں یہ ہے وہ بھیانک خطرناک منصوبہ جس کے لیے سر سید نے اپنی ساری زندگی ساری توانائیاں خرچ کی اور قادیانیوں نے بھی اسی منصوبے پر عمل کیا اور کرتے رہے ہیں اور آج بھی سرسیدی لوگ لیڈرز اور قادیانی لوگ لیڈرز اس منصوبے پر عمل پیرا ہیں...سر سید صاحب نے اگر انگریزی سکھانا شروع کی تو اس وجہ سے نہیں کہ مسلمان ترقی کریں بلکہ اس وجہ سے کہ وہ سیکیولر ملحد انگریز بن جائیں

.

*اسی نقطے منصوبے کو علامہ اقبال نے یوں بیان کیا......!!*

 اور یہ اہل کلیسا کا نظام تعلیم

ایک سازش ہے فقط دین و مروّت کے خلاف

 خوش تو ہم بھی ہیں جوانوں کی ترقی سے مگر

 لب خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ

 ہم تو سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم

 کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ

 آیا ہے مگر اس سے عقیدوں میں تزلزل

دنیا تو ملی مگر طائر دین کر لیا پرواز

(بحوالہ کتاب سرسید کا اصلی روپ ص45)

.

*سرسید اور سرسیدی سوچ کے لوگوں کی محنت رنگ لائی اور انگریز کے وفادار تیار ہوئے….....!!*

 سرسید اپنے کاغذات لائل محمڈنز آف انڈیا میں یہاں تک کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالی کا شکر ہے کہ اب مسلمانوں میں ٹیپو سلطان اور سراج الدولہ جیسے غدار اور قوم دشمن افراد پیدا ہونے بند ہوگئے ہیں اور میر جعفر اور میر صادق جیسے محب وطن اور اقوام کے بہی خواہ پیدا ہو رہے ہیں جو سرکار برطانیہ کے وفادار ہیں بلکہ اس راج کو مستحکم کرنے والے ہیں...(سرسید کا اصلی روپ ص30)

.

*علی گڑھ کالج کا مقصد........؟؟*

سر سید کہتا ہے کہ:

 کالج(علی گڑھ) کے مقاصد اہم میں سے نہایت اہم مقصد یہ ہے کہ یہاں کے طلباء کے دلوں میں حکومت برطانیہ کی برکات کا سچا اعتراف اور انگلش کیریئر(انگریزی عادات اطوار و تہذیب) کا نقش پیدا ہو اور اس سے خفیف سا انحراف بھی حق امانت سے انحراف کے مترادف ہے..(خود نوشت ص32)

.

سرسید کہتا ہے کہ

مدرسۃ العلوم(علی گڑھ کالج) بے شک ایک ذریعہ قومی ترقی کا ہے قومی ترقی سے مراد ہندو مسلمان دونوں کی ترقی ہے...اس کالج کا بڑا مقصود یہ ہے کہ مسلمانوں اور انگریزوں میں اتحاد ہو اور وہ ایک دوسرے کے اغراض میں یک جان دو قالب ہو کر شریک رہیں..( حیات سر سید ص251,251ملخصا ملتقطا)

.


*سرسید اور ایجنٹ سرسیدی لوگ انگریزی ایجنٹ تھے اور ہیں اور انکی وفاداریاں..........!!*

سرسید اور سرسیدی لوگوں کا نظریہ و عمل ہے کہ:

 گورنمنٹ انگلشیہ خدا کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے اور مسلمانوں کے لیے آسمانی برکت کا حکم رکھتی ہے..(مکتوبات سرسید ص632)

.

سرسید اور سرسیدی لوگوں کا نظریہ و عمل ہے کہ:

 مسلمان بمقابلہ انگریزوں کے خلاف نہ جہاد کر سکتے ہیں نہ بغاوت اور نہ کسی قسم کا فساد... ان کو ہندوستان میں انگریزی گورنمنٹ کے زیر حکومت اطاعت و فرمانبرداری سے رہنا واجب ہے..(حیات جاوید ص176ملتقطا)

.

سرسید اور سرسیدی لوگوں کا نظریہ و عمل ہے کہ:

 خدا کا شکر ہے کہ ہم ملکہ معظمہ کوئین وکٹوریہ قیصرہ ہند کے زیر سایہ ہیں، ہمارا مذہبی فرض ہے کہ ہم ملکہ معظمہ قیصرہ ہند کی اطاعت دل و جان سے کریں اور ان کی دولت اور حکومت کی درازی اور قیام و استحکام کی دعا کرتے رہیں...(خودنوشت ص240)

.

سرسید اور سرسیدی لوگوں کا نظریہ و عمل ہے کہ:

ہمارا مذہبی فرض ہے کہ ہم گورنمنٹ انگریزی کے خیر خواہ اور وفادار رہیں اور کوئی بات قولاً و فعلاً ایسی نہ کریں جو گورنمنٹ انگریزی کی خیر خواہی اور وفاداری کے برخلاف ہو، گورنمنٹ کے خلاف جہاد و بغاوت نہیں کرسکتے اگرچہ انگریز دست درازی کریں..(افکار سر سید ص238..239 ملخصا)


.

*دو قومی نظریہ اور سرسید........!!*

 وہ جو مشہور کردیا گیا ہے کہ دو قومی نظریہ کا بانی و مشتہر سرسید ہے یہ سراسر جھوٹ ہے سر سید انگریزوں کا ایجنٹ و وفادار تھا، انگریزوں کی غلامی و ماتحتی میں رہنا ہی نعمت سمجھتا تھا اور ہندو مسلم اتحاد  کا دعوےدار تھا ، اسی کے لیے متحرک تھا،  ہندو مسلم انگریز سب کو ایک قوم سمجھتا تھا، سب کو ایک قوم بن کر رہنے کا کہتا تھا.......!! چند ثبوت ملاحظہ کر چکے، چند مزید حاضر ہیں

سرسید کہتا ہے:

ہندو مسلمان اور عیسائی جو بھی اس ملک میں رہتے ہیں اسی اعتبار سے ایک قوم ہیں...(حیات جاوید ص731)

.

سر سید کہتا ہے:

 مگر میں ہندو اور مسلمان دونوں کو بطور ایک آنکھ کے سمجھتا ہوں...(خود نوشت ص262)

.

 سرسید کہتا ہے کہ

 یہاں قوم سے میری مراد صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ہندو اور مسلمان دونوں سے ہے... ہندوؤں کی ذلت سے مسلمانوں کی اور مسلمانوں کی ذلت سے ہندوؤں کی ذلت ہے، جب تک یہ دونوں بھائی ایک ساتھ پرورش نہ پائیں ساتھ ساتھ یہ دونوں دودھ نہ پئیں ایک ہی ساتھ تعلیم نہ پائئیں، ایک ہی طرح کے وسائل ترقی دونوں کے لیے موجود نہ کیے جائیں ہماری عزت نہیں ہو سکتی..(حیات سرسید ص251)

.

*انگیزوں سے وفاداری کا صلہ کہ دولت و حکومت سرسیدی سوچ کے لوگوں کو ملی اور شاید آج تک مل رہی ہے.......!!*

.

غدر(انگریزوں سے جہاد) کے زمانے میں  انگریز گورنمنٹ کی خیر خواہی اور وفاداری سرسید سے ظاہر ہوئی اس کے صلے میں انگریز حکومت نے ایک ہزار روپے دیے اور دو سو روپے ماہوار کی پینشن دو نسلوں تک مقرر کی...(دیکھیے حیات جاوید ص93)

.

 ہماری منصف گورنمنٹ مسلمانوں(سرسیدی سوچ والے مسلمانوں) کے ساتھ ہے اس کی بہت روشن دلیل یہ ہے کہ ہماری قدردان گورنمنٹ نے خیر خواہ مسلمانوں( سرسیدی سوچ والے مسلمانوں)کی کیسی قدر و منزلت اور عزت و آبرو کی انعام و اکرام اور پینشن و جاگیر نے نہال کردیا ترقی عہدہ اور افزونی مراتب سے سرفراز کیا...(حیات جاوید ص109)

.

سر سید کہتا ہے:

 مجھ کو نہایت خوشی ہے کہ گو وہ میرے آقا نے میری نسبت بات کہی ہو میں کیوں نہ اس کو کہوں اور کس لیے نہ لکھوں کہ اپنے آقا کی بات سے خوش ہونا اور اس کو بیان کرنا اپنا فخر کرنا نوکر کا کام ہے یعنی میرے آقا مسٹر جان کری کرافٹ ولسن صاحب بہادر دام اقبالہ میری عزت بڑھانے مجھے دیکھنے کے لئے آئے اور مجھ سے یہ بات کہی کہ تم ایسے نمک حلال نوکر ہو کہ تم نے اس نازک وقت میں بھی سرکار کا ساتھ نہیں چھوڑا کہ جب ہندو اور مسلمان دونوں انگریزوں کے خلاف تھے، سرکار نے ایسے نازک وقت میں تم کو اپنا خیر خواہ اور نمک حلال نوکر جان کر کمال اعتماد سے سارے ضلع کی حکومت تم کو سپرد کی اور تم اس طرح وفادار اور نمک حلال نوکر سرکار کے رہے ، اس کے صلے میں اگر تمہاری ایک تصویر بنا کر پشت با پشت کی یادگاری اور تمہاری اولاد کی عزت اور فخر کو رکھی جائے تو بھی کم ہے..(خودنوشت ص29)

.

 مذکورہ بالا چند حوالہ جات سے یہ بات انتہائی روزِ روشن کی طرح روشن اور واضح ہو جاتی ہے کہ سر سید ہندو مسلمان انگریز سب کا اتحاد چاہتا تھا دو قومی نظریے کا حامل نہیں تھا،آزادی پاکستان کا ہیرو نہیں تھا... انگریز کے خلاف جہاد کا منکر تھا ، انگریزوں سے آزادی حاصل کرنا اس کا منشا نہیں تھا بلکہ وہ تو دعائیں کرواتا تھا اور لوگوں کو ایسی عادات و اطوار دیتا تھا کہ لوگ عادات و اطوار و تہذیب کے لحاظ سے انگریز بن جائیں، انگریزوں کی حکومت کے استحکام کے لیے دعائیں کرواتا تھا اور مدد کرتا تھا اور مسلمانوں نے جو جہاد کیا تھا انگریزوں سے اس میں یہ مسلمانوں کے بجائے انگریزوں کا حامی و وفادار تھا جس کا صلہ اسے دولت و حکومت ملی اور شاید آج تک ایسے ہی لوگوں کو دولت و حکومت مل رہی ہے...ہم آزاد ہو کر بھی مکمل آزاد نہیں.....!!

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574


Tags

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.