محرم میں غم کریں یا خوشی؟ کھچڑا؟ دس محرم کو قبرستان جانا پانی چھڑکنا اور غلط نظریات؟

 *سوال:نو، دس محرم کو قبرستان جانا، قبروں کی دیکھ بھال کرنا، پانی چھڑکنا،پھول ڈالنا، فاتحہ کرنا، قبر کے اوپر چادریں ڈالنا، اور یہ سب کام سورج نکلنے سے پہلے پہلے کرنا جائز ہے یا غلط...؟؟ بالخصوص9.10محرم کیسے گذارا جائے..؟؟کھچڑا اور قرآن خوانی؟ محرم میں غم کریں یا خوشی...؟؟*

.

جواب:

سنن ابن ماجہ میں ہے کہ:

وَرَشَّ عَلَى قَبْرِهِ مَاءً.

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی قبر پر پانی چھڑکا..(ابن ماجہ حدیث1551)

.

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بیٹے کی قبر کے اوپر کنکریاں ڈالیں...(سنن کبری حدیث6740)

.

ابوداود شریف میں ہے کہ:

حَمَلَهَا فَوَضَعَهَا عِنْدَ رَأْسِهِ وَقَالَ : " أَتَعَلَّمُ بِهَا قَبْرَ أَخِي

ترجمہ:

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی قبر کے سرہانے بڑا پتھر رکھا اور فرمایا: یہ نشانی کے لیے ہے...(ابوداؤد حدیث3206)

.

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَزُورُ قُبُورَ الشُّهَدَاءِ فِي رَأْسِ كُلِّ حَوْلٍ، فَيَقُولُ لَهُمْ: {سَلامٌ عَلَيْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ} وَكَذَا أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ

 بے شک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال شہداء کی قبور پر تشریف لے جاتے اور اسی طرح سیدنا ابو بکر صدیق اور سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنھما بھی تشریف لے جایا کرتے تھے

(تفسير ابن كثير ت سلامة ,4/453)

.

انْزَعْهُ يَا غُلَامُ فَإنَّمَا يُظِلُّهُ عَمَلُهُ

قبر سے خیمہ(جو قبر والے کو سایہ کرنے کی غرض سے ہے اس)کو ہٹا دو، قبر والے کو تو اسکے عمل سایہ دیتے ہیں..(بخاری قبل الحدیث1361)

.

إِنَّهُ لَوْ كَانَ مُسْلِمًا فَأَعْتَقْتُمْ عَنْهُ أَوْ تَصَدَّقْتُمْ عَنْهُ أَوْ حَجَجْتُمْ عَنْهُ بَلَغَهُ ذَلِكَ...ترجمہ

وفات پانے والا مسلمان ہوتو اس کےلیےغلام آزاد کرو یا صدقہ کرو یا حج کرو(الغرض تلاوت درود ذکر نوافل صدقہ نیکیاں وغیرہ نیک اعمال کرو اور ایصال ثواب کرو تو اسے اسکا) ثواب پہنچتا ہے(سنن أبي داود ,3/118 حدیث2883)

اس کے علاوہ اور بھی کافی احادیث و روایات ہیں....!!

.

ان احادیث  مبارکہ و روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ:

سالانہ یا ہفتہ وار قبروں کی طرف جانا جائز ہے، قبروں کی دیکھ بھال، پانی چھڑکنا، کنکریاں ڈالنا جائز ہے، نشانی کے لیے نام کی تختی لگانا جائز ہے، ایصال ثواب کرنا، دعا استغفار کرنا جائز ہے.... یہ سب کام سال میں کسی بھی دن کیے جاسکتے ہیں بلکہ ایصال ثواب تو وقتا فوقتا کرنا چاہیے... آج کل بالخصوص دس محرم کو یہ کام کیے جاتے ہیں جوکہ جائز ہے مگر یاد رہے کہ دس محرم کو یہ سب ضروری سمجھنا غلط ہے..سورج نکلنے سے پہلے پہلے جانا ضروری سمجھنا، اور سایے کے لیے کپڑا اوپر ڈالنا ٹھیک نہیں ہے جہالت ہے...اگر کنکریوں مٹی پانی کی حاجت بالکل ہی نہ ہو مثلا قبر بالکل نئ نئ ہے تو اب مٹی پانی مت ڈالیں بلاحاجت مٹی پانی کنکریاں ڈالنا منع ہےاس حالت میں فقط زیارت قبور کیجیے دعا ایصال ثواب کیجیے...عزیز و اقارب کو گھر بلوا کر قران خوانی کرنا درود ذکر کرنا پھر انہیں خیرات و نیاز شہداء  کھچڑا وغیرہ کھلانا بھی جائز عمل ہے

.

*قبر کے اوپر اگربتی جلانا ٹھیک نہیں...ہاں قبرستان میں خوشبو کے لیے قبر کے قریب اگربتی جلا سکتے ہیں*

.

مجدد دین و ملت سیدی امام احمد رضا علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:

اگر بتی قبر کے اوپر رکھ کر نہ جلائی جائے کہ اس میں سوء ادب(بےادبی) اور بدفالی ہے۔ہاں قریب قبر زمین خالی پر رکھ کر سلگائیں کہ خوشبو محبوب ہے

(فتاوی رضویہ 9/526بحذف)

.

*پھول...نیکیاں..... ایصال ثواب*

إِنَّهُ لَوْ كَانَ مُسْلِمًا فَأَعْتَقْتُمْ عَنْهُ أَوْ تَصَدَّقْتُمْ عَنْهُ أَوْ حَجَجْتُمْ عَنْهُ بَلَغَهُ ذَلِكَ..ترجمہ

وفات پانے والا مسلمان ہوتو اس کےلیےغلام آزاد کرو یا صدقہ کرو یا حج کرو(الغرض تلاوت درود ذکر نوافل صدقہ نیکیاں وغیرہ نیک اعمال کرو اور ایصال ثواب کرو تو اسے اسکا) ثواب پہنچتا ہے..(سنن أبي داود ,3/118 حدیث2883)

.

إِنَّ الْمَعْنَى فِيهِ أَنَّهُ يُسَبِّحُ مَا دَامَ رَطْبًا فَيَحْصُلُ التَّخْفِيفُ بِبَرَكَةِ التَّسْبِيحِ وَعَلَى هَذَا فَيَطَّرِدُ فِي كُلِّ مَا فِيهِ رُطُوبَةٌ مِنَ الْأَشْجَارِ وَغَيْرِهَا وَكَذَلِكَ مَا فِيهِ بركَة كالذكر وتلاوة الْقُرْآن من بَاب أولى

(نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دو قبروں پر "سرسبز و تر ٹہنی" ڈالی تو)اسکا مطلب یہ ہے کہ تروتازہ سرسبز چیز جب تک تروتازہ ہوتی ہے وہ تسبیح کرتی ہے اور اسکی برکت قبر والی کو ملنے کی امید ہے تو دیگر تروتازہ سبزہ پھول وغیرہ اور تلاوت قرآن ذکر اذکار کی برکات ملنے کی بھی امید ہے

(حاشية السيوطي على سنن النسائي1/30)

.

قَبْرِهِ، مِنْ حَيْثُ إنَّ الْمَعْنَى الَّذِي ذَكَرْنَاهُ فِي التَّخْفِيفِ عَنْ صَاحِبَيْ الْقَبْرَيْنِ هُوَ تَسْبِيحُ النَّبَاتِ مَا دَامَ رَطْبًا فَقِرَاءَةُ الْقُرْآنِ مِنْ الْإِنْسَانِ أَوْلَى بِذَلِكَ

 نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے جو قبر پر سرسبز تروتازہ ٹہنی رکھی تو اسکا معنی یہ ہے کہ جب تک یہ سرسبز چیز تروتازہ رہتی ہے ذکر کرتی ہے اور اس کی برکت قبر والے کو ملتی ہے اسی طرح انسان جب قرآن پڑھے(یا دیگر نیک اعمال کرے ایصال ثواب کرے) تو برکت کی امید ہے

(كتاب إحكام الأحكام شرح عمدة الأحكام1/107)

.

بُرَيْدَةُ بْنُ الْحُصَيْبِ الصَّحَابِيُّ بِذَلِكَ فَأَوْصَى أَنْ يُوضَعَ عَلَى قَبْرِهِ جَرِيدَتَانِ كَمَا سَيَأْتِي فِي الْجَنَائِزِ مِنْ هَذَا الْكِتَابِ وَهُوَ أَوْلَى أَنْ يُتَّبَعَ

 بعض علماء نے اس چیز کی نفی کی ہے کہ قبروں پر سرسبز و تازہ پھول وغیرہ رکھنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا لیکن سیدنا بریدہ صحابی نے وصیت کی تھی کہ ان کی قبر پر دو ٹہنیاں رکھی جائیں جو سرسبز اور تروتازہ ہوں تو نفی کرنے والے علماء کے قول کو نہیں اختیار کرنا چاہیے بلکہ صحابی کے قول کی اتباع کرنی چاہیے(اور سرسبز تازہ ٹہنیاں و پھول وغیرہ رکھ کر اور ذکر اذکار دروس تلاوت نوافل صدقہ دعا  وغیرہ کرنا چاہیے کہ امید ہے کہ قبر والے کو نفع پہنچے گا)

(فتح الباري لابن حجر1/320)

لیکن

عام طور پر قبروں پر زیادہ پھول ڈالنے کے بجائے اسکی رقم حاجت و زیادہ مفید جگہ میں دیں

الْأَفْضَلِيَّةُ مِنَ الْأُمُورِ النِّسْبِيَّةِ، وَكَانَ هُنَاكَ أَفْضَلَ لِشِدَّةِ الْحَرِّ وَالْحَاجَةِ وَقِلَّةِ الْمَاءِ

 نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف امور کو افضل صدقہ قرار دیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی صدقہ کس نسبت سے افضل ہوتا ہے اور کوئی صدقہ کس نسبت سے افضل ہوتا ہے اور اس حدیث پاک میں افضل صدقہ پانی اس لیے ہے کہ اس کی حاجت زیادہ تھی

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ,4/1342)

بلکہ

 تھوڑا تھوڑا کرکے ہر نیکی میں دیں، تھوڑے پھول ڈالیں،  تھوڑا صدقہ کریں کچھ قران پڑہیں حدیث پرہیں معتبر کتب سے قران و حدیث کو سمجھیں سمجھائیں پھیلاءیں عمل کریں نوافل درود پڑہیں نیکیان کریں گناہوں سے بچیں، حسن اخلاق اپنائیں، علم و شعور اگاہی پھیلائیں، مدد کریں، فلاحی کام کریں. غرباء کو جس کی حاجت زیادہ ہو وہ دیں...جس کا نفع عام و زیادہ ہو وہ کریں، مدارس میں دیں.. علماء لکھاری مبلغین کی مدد کریں.......کسی بھی نیکی کو کمتر نہ سمجھیں کہ نہ جانے کونسی نیکی کونسی ادا اللہ کے ہاں محبوب و مقبول ہوجائے...الحدیث:لَا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوفِ شَيْئًا، کسی بھی نیکی کو کمتر نہ سمجھو

(مسلم حدیث2626...6690)


.

*#محرم میں غم کریں یا خوشی......؟؟*

آیات و احادیث کو دلیل بناتے ہوئے علماء کرام نے لکھا ہے کہ نہ تو ماتم و غم کرنا ہے اور نہ ہی وفات پر خوشی منانی ہے بلکہ صحیح روایات کے ساتھ اہلبیت و صحابہ و اسلاف کا تذکرہ کرنا چاہیے،مستند معتبر ذرائع سے انکی سیرت کا مطالعہ کرکے خود کو انکی سیرت پر ڈھالنا چاہیے، تلاوت روزہ نوافل وغیرہ عبادات کرنی چاہیے، ایصالِ ثواب کرنا چاہیے.. جو کچھ عام حالات میں انسان کرتا ہے وہی کرتا رہے... بغیر خوشی مناتے ہوئے تمام جائز کام جائز ہیں... اور غم یا سوگ مناتے ہوئے جائز کاموں کو ترک کرنا ٹھیک نہیں... ہاں غم یا سوگ منائے بغیر جائز کاموں کو ترک کرنا جائز ہے

.

صواعق محرقہ میں ہے:

ولا يشتغل إلا نحوه من عظائم الطاعات كالصوم وإياه ثم إياه أن يشغله ببدع الرافضة من الندب والحزن والنياحة أو ببدع الناصبة أو الجهال من إظهار غاية الفرح والسرور واتخاذه عيدا وإظهار الزينة فيہ

ترجمہ:

محرم میں(بالخصوص نو دس محرم میں)روزہ وغیرہ عظیم نیک کاموں مین مشغول رہنا چاہیے، روافض والی بدعتوں مثلا غم اور نوحے سے بچنا لازم لازم ہے، اور ناصبیوں اور جاہلوں والی بدعتوں مثلا خوشی کا اظھار کرنا ان دنوں کو عید بنا دینا اور(ناصبیوں کی.طرح وفات پر خوشی کرتے ہوئے)زینت.و.آرائش کا خوب اظھار کرنا وغیرہ بدعتوں سے بھی دور رہنا لازم ہے

(صواعق محرقہ ملخصا جلد2 ص534)

(اسی قسم کی بات علامہ مولا علی قاری سنی حنفی کی کتاب  اسرار مرفوعہ ص341میں بھی ہے)

.

معتبر کتب سے سیرتِ حسین پڑھیے، پھیلائیے... حسینی کردار کے لیے اپنےآپ کو تیار کیجیے....حسینی مشن اختیار کیجیے...نماز روزہ سبیل صدقہ خیرات ذکر درود  نیکیوں عبادات کی کثرت کیجیے...اور تمام اہل اسلام کو ایصال ثواب کیجیے، بالخصوص شہداء کربلا کو ایصال ثواب کیجیے....!!

.

الحدیث،ترجمہ:

عاشورہ(9,10محرم،یا 10,11محرم)کا روزہ رکھنا گذرے ہوئے ایک سال کے(صغیرہ)گناہوں کا کفارہ ہے

(مسلم حدیث1162،شیعہ کتاب وسائل الشیعہ10/457)

.

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " صُومُوا يَوْمَ عَاشُورَاءَ، وَخَالِفُوا فِيهِ الْيَهُودَ، صُومُوا قَبْلَهُ يَوْمًا، أَوْ بَعْدَهُ يَوْمًا

ترجمہ:

رسول کریمﷺنے فرمایا کہ عاشورء(دس محرم)کا روزہ رکھو اور یہودیوں کی مخالفت کرنے کےلیےایک دن پہلے یا ایک دن بعد کا بھی روزہ رکھو

(مسند احمد حدیث2154)

(صحيح ابن خزيمة حديث2095)

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.