شیعہ قاتلان حسین، ثبوت شیعہ کتب سے

 *شیعہ غدار مکار بزدل مفادی مطلبی بےوفا دھوکےباز شیعہ اور یزید پلید ہی قاتلانِ حسین ہیں...ثبوت و حوالہ جات شیعہ کتب سے.........!!*

شیعہ کتابوں سے ہم ثابت کریں گے کہ
①شیعہ طاقت میں تھے....اہل کوفہ شیعہ تھے... 80ہزار کے قریب قریب شیعوں نے امام حسین کے نائب مسلم بن عقیل کے ذریعے امام.حسین کی بیعت کی، یہی اہل کوفہ شیعہ نے امام حسین کو ہزاروں خطوط لکھ کر کوفہ آنے کی پرزور دعوت دی
.
②پھر یہی طاقتور کوفی شیعہ یزید کی دھمکیوں منافقتوں لالچوں میں آکر بے وفا غدار منافق نکلے اور امام حسین کے نائب مسلم بن عقیل کا ساتھ چھوڑ دیا بے، یزیدی فوج میں شامل ہوئے اور مسلم بن.عقیل کو شہید کرایا
.
③مسلم بن عقیل نے شہادت کے وقت امام حسین کے نام وصیت و خط لکھوایا کہ کوفی شیعوں نے بے وفائی غداری منافقت کی ہے اس لیے اے امام حسین آپ کوفہ مت آئیں
.
④مسلم بن عقیل کا خط پہنچنے سے پہلے ہی امام حسین کربلا کے قریب پہنچ چکے تھے....انہیں کوفی شیعوں کی بے وفائی غداری منافقت کا خط ملا تو اہلبیت نے اہل کوفہ کی اس وقت سے لیکر رہتے دم تک اہل کوفہ کو بے وفا غدار قاتل فرمایا اور خوب مذمت و بد دعاءیں دیں
.
⑤میدان کربلا میں یزیدی فوج کے ساتھ کوفی شیعہ کی فوج بھی تھی بلکہ شیعہ کوفی فوج آگے آگے تھی حتی کہ مشہور قاتلِ حسین شمر بھی کٹر شیعہ تھا جو بے وفا اور غدار بن گیا تھا..اور یزید سے جاملا اور امام حسین کے قاتلان میں تھا
.
⑥جب مدینہ میں صحابہ کرام اور انکی اولادوں کو پتہ چلا کہ بے وفا غدار کوفی شیعوں نے یزیدی فوج کے ساتھ مل کر لختِ جگر امام حسین کو شہید کر دیا ہے تو اس پر اکثر صحابہ کرام و انکی اولادوں اور دیگر مسلمانوں نے یزید سے بغاوت کا اعلان کر دیا اور شدید مخالف ہو گئے اور امام حسین کا بدلہ لینے لے لیے تیار ہونے لگے....جب یزید کو پتہ چلا تو اس نے بہت ہی بڑا لشکر مدینہ بھیجا اور بے دردی سے اہل مدینہ.کے لشکر پر حملہ آور ہوا، اہل مدینہ کا لشکر کے مقابلے میں یزیدی فوج بہت بہت ہی زیادہ تھی، اہل مدینہ کے لشکر کو شکست ہوئی،یزیدی فوج نے اس پر بس نہیں کیا بلکہ کئ صحابہ کرام اور انکی اولاد و خاندان کو شہید کیا...مدینہ میں لوٹ مار کی، اور اہل تشیع کی کتب میں لکھا ہے کہ تین دن تک سب کچھ جائز کر دیا یزید اور یزیدی سپہ سالاروں نے.... اس طرح صحابہ کرام اور انکی اولادوں نے امام حسین اور اسلام و حق کی خاطر شہادت تو قبول کی مگر کوفی شیعوں کی طرح بے وفائی غداری منافقت نہیں کی.......!!
.
.
اب آپ کے سامنے شیعہ کتب سے اقتسابات پیش خدمت ہیں جن سے اوپر بیان کی گئ ہر بات ثابت ہوگی....غور سے پڑھیے
.
*①شیعوں کے مطابق سارا کوفہ شیعہ تھا اور شیعہ کمزور نہیں بلکہ بڑی طاقت و تعداد میں تھے، چالیس ہزار اور ایک روایت کے مطابق ایک لاکھ کے قریب قریب شیعوں نے بیعت بھی کی.......!!*
*②ہزاروں اہل کوفہ شیعوں نے امام حسین کو خطوط لکھے اور بلوایا اور امام حسین نے جوابی خطوط لکھے اور جلد کوفہ پہنچے کا فرمایا*
حوالہ جات:
 أهل الكوفة لكثرة من بها من الشيعة
 اکثر اہل کوفہ شیعہ ہی تھے
(شیعہ کتاب الاحتجاج - الشيخ الطبرسي2/17)
(شیعہ کتاب أعيان الشيعة - السيد محسن الأمين1/27)
.

أن أهل الكوفة كتبوا إليه: انا معك مائة ألف، وعن داود بن أبي هند عن الشعبي قال: بايع الحسين عليه السلام أربعون ألفا من أهل الكوفة
بے شک کوفیوں نے امام حسین کی طرف خط لکھے بے شک ہم آپ کے ساتھ ہیں اور ہم ایک لاکھ کے قریب ہیں۔۔۔شعبی کی روایت کے مطابق چالیس ہزار کوفیوں نے امام حسین کی بیعت کی 
(شیعہ کتاب بحار الانوار44/337)
.
وتواترت الکتب حتی اجتمع فی نوب متفرقۃ اثنا عشر الف کتاب...
کوفیوں کی طرف سے متواتر خطوط آئے یہاں تک کہ حضرت حسین کے پاس بارہ ہزار کے قریب خطوط جمع ہو گئے 
(شیعہ کتاب ناسخ التواریخ2/262)
.
.
حضرت امام حسین  کا کوفیوں کو جواب
 أما بعد  فان هانيا وسعيدا قدما علي بكتبكم وكانا آخر من قدم علي من رسلكم وقد فهمت كل الذي اقتصصتم وذكرتم ومقالة جلكم انه ليس علينا امام فاقبل لعل الله يجمعنا بك على الحق والهدى وانا باعث إليكم أخي وابن عمي وثقتي من أهل بيتي مسلم بن عقيل فان كتب إلي انه قد اجتمع رأي ملئكم وذوي الحجى  والفضل منكم على مثل ما قدمت به رسلكم وقرأت في كتبكم فاني أقدم إليكم وشيكا إن شاء الله تعالى
اما بعد ! بہت سے قاصدوں اور خطوط بیشمار آنے کے بعد جو تم نے مجھے خط ہانی وسعید کے ہاتھ بھیجا مجھے پہنچا تمہارے سب خطوط کے مضامین سے مطلع ہوا …… واضح ہو کہ میں بالفعل تمہارے پاس اپنے برادر و پسرعم و محل اعتماد مسلم بن عقیل کو بھیجتا ہوں۔اگر مسلم مجھے لکھیں کہ جو کچھ تم نے مجھے خطوط میں لکھا ہے بمشورۂ عقلا و دانایان و اشراف و بزرگان قوم لکھا ہے اس وقت میں ان شاء ﷲ بہت جلد تمہارے پاس چلا آؤں گا۔‘‘
(شیعہ کتاب اعیان الشیعۃ1/589)
.
سیدنا مسلم بن عقیل کا سیدنا حسین کو خط کہ سارا کوفہ آپ کے ساتھ ہے، جلد آئیے:
حتی بایعہ فی ذالک الیوم ثمانون الف رجل فلما رای مسلم کثرۃ من بایعہ من الناس کتب الی الحسین ان قد بایع ثمانون الف فعجل بالقدوم
حتی کہ اس ایک دن میں آٹھ ہزار کوفیوں نے امام مسلم کی بیعت کی جب امام مسلم بن عقیل نے دیکھا کہ لوگ کثرت سے بیعت کر رہے ہیں تو آپ نے حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف خط لکھا کہ آٹھ ہزار نے بیعت کر لی ہے آپ جلدی تشریف لائیں 
(شیعہ کتاب ناسخ التواریخ2/266)
.
وبايعه الناس حتى بايعه منهم ثمانية عشر ألفا فكتب إلى الحسين ع اما بعد فان الرائد لا يكذب أهله وان جميع أهل الكوفة معك وقد  بايعني منهم ثمانية عشر ألفا فعجل الاقبال حين تقرأ كتابي هذا والسلام
(سیدنا مسلم بن عقیل کے ذریعے)اٹھارہ ہزار کوفیوں نے امام حسین کی بیعت کی اور سیدنا مسلم بن عقیل نے امام حسین کی طرف خط لکھا کے سارے کوفہ والے آپ کے ساتھ ہیں اور ان میں سے 18 ہزار نے میری بیعت کر لی ہے تو جب آپ کو یہ میرا خط ملے تو آپ جلدی تشریف لائیں وسلام 
(شیعہ کتاب اعیان الشیعۃ1/589)

.
*③یزیدیوں کی دھمکیوں اور لالچوں نسلی تعصب و منافقت وغیرہ میں اکر اہل کوفہ نے امام حسین کے نائب مسلم بن عقیل سے بے وفائی غداری کی اور امام مسلم بن عقیل کو شہید کرایا اور امام مسلم نے اسی بے وفائی غداری منافقت کا احوال امام حسین کو بھیجنے کی وصیت کی*
.
حوالہ جات:
یزید و ابن زیاد کی دھمکیوں لالچوں میں اکر کوفی شیعوں نے امام حسین کی بیعت توڑ دی
ولاینبغی علینا باغ فمن لم یفعل برئت منہ الذمۃ و ھلال لنا دمہ و مالہ...فلما سمع اہل الکوفۃ  جعل ینظر بعضھم بعضا و نقضوا بیعۃ الحسین
ابن زیاد نے دھمکی دی کہ کہ ہم پر کوئی بغاوت نہ کریں اگر کسی نے بغاوت کی تو وہ اپنا خود ذمہ دار ہے اس کا خون ہمارے لئے حلال ہے اس کا مال ہمارے لئے حلال ہے۔۔۔پس جب اہل کوفہ نے یہ دھمکی سنی تو ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے اور انہوں نے حضرت حسین کی بیعت توڑ ڈالی 
(شیعہ کتاب ناسخ التواریخ ملتقطا2/273,274)
.
شام تک صرف تیس شیعہ سیدنا مسلم کے ساتھ رہے
فما زالوا يتفرقون ويتصدعون حتى أمسى ابن عقيل وما معه ثلاثون نفسا في المسجد حتى صليت المغرب فما صلى  مع ابن عقيل الا ثلاثون نفسا
ابن زیاد کی دھمکی کے بعد کوفی شیعہ  متفرق ہونے لگے اور بیعت توڑنے لگے یہاں تک کہ شام کے وقت حضرت مسلم بن عقیل کے ساتھ 30 تیس لوگ بچے جنہوں نے نماز مغرب پڑھی 
(شیعہ کتاب مقتل الحسین ص45)
.
شام کے بعد سیدنا مسلم بن عقیل کے ساتھ ایک بھی کوفی شیعہ نہ تھا سب نے بےوفائی غداری کی
کوفی شیعوں نے سیدنا مسلم بن عقیل سے غداری بےوفائی کی اپنے گھر سے نکال دیا...آپ نے ایک انجان عورت کے گھر پناہ لی:
فقام وقال: يا أمة الله ما لي في هذا المصر منزل ولا عشيرة، فهل لك في أجر ومعروف، لعلي مكافئك بعد اليوم، فقالت: يا عبد الله وما ذاك؟ قال: أنا مسلم بن عقيل كذبني هؤلاء القوم وغروني وأخرجوني،
حضرت مسلم بن عقیل اٹھے اور ایک انجان گھر کی طرف آئے ایک عورت گھر سے نکلیں تو ان سے فرمایا میرا اس شہر کوفہ  میں اب کوئی ٹھکانہ رہا کوئی خاندان نہ رہا تو کیا تم مجھے پناہ دے کر اجر اور نیکی کماؤں گی شاید کہ میں آج کے دن کا اچھ بدلہ تمہیں لوٹا دو۔۔۔۔عورت نے کہا کہ  اللہ کے بندے آپ کون ہیں تو آپ نے فرمایا کہ میں مسلم بن عقیل ہوں ان کوفی شیعوں نے مجھے جھٹلا دیا ہے اور مجھے دھوکا دیا ہے اور مجھے در بدر کر دیا ہے  
(شیعہ کتاب الارشاد2/55)
.
*شہادت امام مسلم اور انکی وصیت امام حسین کے لیے کہ کوفی شیعہ غدار مکار جھوٹے نکلے ہیں انکی باتوں میں مت آئیے، اگر کوفہ کی طرف روانہ ہیں تو واپس چلے جائیے*
.
ثم قال لمحمد بن الأشعث: يا عبد الله إني أراك ستعجز عن أماني، فهل عندك خير؟ أتستطيع أن تبعث من عندك رجلا على لساني يبلغ حسينا، فإني لأراه قد خرج إليكم اليوم مقبلا أو هو خارج غدا وأهل بيته معه، وإن ما ترى من جزعي لذلك، فيقول: إن مسلما بعثني إليك وهو في أيدي القوم أسير لا يرى أن يمسي حتى يقتل وهو يقول: إرجع بأهل بيتك ولا يغرك أهل الكوفة فإنهم أصحاب أبيك الذي كان يتمنى فراقهم بالموت أو القتل، إن أهل الكوفة قد كذبوك وكذبوني، وليس لمكذوب رأي، فقال محمد: والله لأفعلن
حضرت مسلم بن عقیل نے محمد بن اشعث سے کہا کہا کہ کیا آپ کسی قاصد( یا خط )کے ذریعے میرا پیغام امام حسین کی طرف پہنچائیں گےآپ نے فرمایا جی بالکل
حضرت مسلم بن عقیل نے پیغام یہ دیا کہ امام حسین کی طرف پیغام بھیجو کہ بے شک کوفی وہ لوگ ہیں کہ جن کے متعلق آپ کے والد صاحب نے کہا تھا کہ کہ میں مر جاؤں لیکن ان کا ساتھ نہ رہو بے شک انہوں نے آپ کو جھٹلا دیا ہے اور مجھے بھی جھٹلا دیا ہے تو آپ اہل کوفہ کے دھوکے میں مت آئیے واپس لوٹ جائیے
(شیعہ کتاب, ناسخ التواریخ، ابصار العین ص83)
.
.
*④امام حسین کو کوفیوں کی بے وفائی غداری منافقت کی خبر پہنچی تو کوفی شیعوں کی مذمت کی انہیں غدار بے وفا اپنا قاتل قرار دیا اور کوفی شیعہ لشکر یزیدی لشکر کے ساتھ مل کر امام حسین کے قاتل بنے بلکہ شیعہ کتب کے مطابق تو یزیدی فوج دور ٹہری رہی اور امام حسین کے مدمقابل وہی 80ہزار کوفی شیعہ تھے جنہوں نے عہد و وفا کے وعدے کرکے بلوانے کے بعد آپ سے غداری منافقت کرتے ہوئی اپ کے قتل کے لیے اپ کے سامنے تھے*
.
حوالہ جات:
جب کوفیوں نےبےوفائی،غداری کی…مسلم بن عقیل کو شہید کیا،جسکی خبر امام حسین کو یہ خبر کربلا کےقریب ملی تو آپ نےفرمایا:
قد خذلتنا شيعتنا
ہمارے کہلانےوالےشیعوں نے ہمیں رسوا کیا،دھوکہ دیا،بےوفائی کی.(شیعہ کتاب موسوعہ کلمات الامام الحسین ص422)
.

أني أقدم على قوم بايعوني بألسنتهم وقلوبهم، وقد انعكس الأمر لأنهم استحوذ عليهم الشيطان فأنسيهم ذكر الله، والآن ليس لهم مقصد إلا قتلي وقتل من يجاهد بين يدی
میں(امام حسین)تو یہ سمجھ کر کوفیوں کے پاس جا رہا تھا کہ انہوں نے زبان اور دلوں سے میری بیعت کی ہے لیکن معاملہ اس کےالٹ نکلا۔۔۔ان کوفیوں پر شیطان نے غلبہ حاصل کر لیا ہے اور اللہ کی یاد سے بھلا دیا ہے اب ان کوفی شیعوں کا مقصد مجھے اور میرے ساتھیوں  اہل بیت کو  قتل کرنا ہی ہے (شیعہ کتاب موسوعہ کلمات الامام الحسین ص483)
ثابت ہوا کہ سیدنا حسین نے بھی کوفی شیعوں کو اپنا قاتل غدار مکار جھوٹا منافق دھوکے باز کہا
.

ناسخ التواریخ میں لکھا ہے کہ ابن زیاد سپہ سالار لشکر یزید جس نے امام حسین کو شہید کیا 80 ہزار کوفی شیعوں پر مشتمل تھا۔ملاحظہ ہو:۔
’’وابی مخنف لشکر ابن زیاد را ہشتاد ہزار سوار نگاشتہ و گوید ہمگاں کُوفی بودند و حجازی و شامی با ایشاں نہ بود۔
 یعنی ابو مخنف نے ابن زیاد کا لشکر(جو امام حسین سے لڑنے کے لیے سب سے آگے تھا)80 ہزار بتایا ہے اور کہا ہے کہ وہ سب کے سب کوفی شیعہ تھے ۔ان میں نہ کوئی حجازی تھا اور نہ شامی۔
(شیعہ کتاب ناسخ التواریخ فارسی 2/183)
۔
حتی کہ قاتل غدار شمر بھی شیعہ تھا...شمر بھی پکہ کوفی شیعہ تھا مگر اہل کوفہ کی طرح یہ بھی منافق غدار بے وفا ہوگیا اور شیعہ کے مطابق قاتلانِ حسین میں شمار کیا جاتا ہے
شهد صفين معه شبث بن ربعي وشمر بن ذي الجوشن الضبابي ثم حاربوا الحسين ع يوم كربلاء
شبث بن ربعي اور شمر بن ذي الجوشن شیعان علی میں سے تھے حضرت علی کے ساتھ مل کر جنگ صفین لڑی لیکن پھر یہ غدار ہوگئے اور امام حسین سے جنگ لڑی کربلا کے دن  
(شیعہ کتاب اعیان الشیعۃ1/326)
.
امامِ اعلی مقام سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی شہادت سے پہلے سختی سے حکم دیا تھا کہ:
لا تشقي علي جيبا، ولا تخمشي علي وجها، ولا تدعي علي بالويل والثبور
ترجمہ:
جب میں شہید ہوجاؤں تو اپنے کپڑے مت پھاڑنا، اپنا چہرہ(سینہ، پیٹھ) زخمی مت کرنا(ماتم مت کرنا) اور یہ مت پکارنا کہ ہائے مصیبت، ہائے ہم ہلاک ہوگئے(مطلب نوحے ماتم چیخ و پکار مت کرنا)
(شیعہ کتاب بحار الانواز45/3)
.
*⑤سیدنا زین العابدین سیدہ  زینب و دیگر اہل بیت کی تقریریں جس میں کوفی شیعوں کو مکار منافق غدار اور قاتلانِ حسین کہا گیا....ملاحظہ کیجیے*
سیدہ بی بی زینب کی تقریر:
ثم قالت - بعد حمد الله تعالى والصلاة على رسوله صلى الله عليه وآله - أما بعد يا أهل الكوفة يا أهل الختل والغدر، والخذل!! ألا فلا رقأت العبرة  ولا هدأت الزفرة، إنما مثلكم كمثل التي نقضت غزلها من بعد قوة أنكاثا تتخذون أيمانكم دخلا بينكم  هل فيكم إلا الصلف والعجب، والشنف والكذب، وملق الإماء وغمز الأعداء  أو كمرعى على دمنة  أو كفضة على ملحودة  ألا بئس ما قدمت لكم أنفسكم أن سخط الله عليكم وفي العذاب أنتم خالدون، أتبكون أخي؟! أجل والله فابكوا فإنكم أحرى بالبكاء فابكوا كثيرا، واضحكوا قليلا، فقد أبليتم بعارها، ومنيتم بشنارها  ولن ترحضوا أبدا وأنى ترحضون قتل سليل خاتم النبوة ومعدن الرسالة، وسيد شباب أهل الجنة، وملاذ حربكم، ومعاذ حزبكم ومقر سلمكم، واسى كلمكم ومفزع نازلتكم، والمرجع إليه عند مقاتلتكم ومدرة حججكم ومنار محجتكم، ألا ساء ما قدمت لكم أنفسكم، وساء ما تزرون ليوم بعثكم، فتعسا تعسا! ونكسا نكسا! لقد خاب السعي، وتبت الأيدي، وخسرت الصفة، وبؤتم بغضب من الله، وضربت عليكم الذلة والمسكنة، أتدرون ويلكم أي كبد لمحمد صلى الله عليه وآله فرثتم؟! وأي عهد نكثتم؟! وأي كريمة له أبرزتم؟! وأي حرمة له هتكتم؟! وأي دم له سفكتم؟! لقد جئتم شيئا إدا تكاد السماوات يتفطرن منه وتنشق الأرض وتخر الجبال هدا! لقد جئتم بها شوهاء صلعاء، عنقاء، سوداء، فقماء خرقاء كطلاع الأرض، أو ملأ
 السماء
اما بعد،اے اہل کوفہ ! اے غدارو،  اے مکارو، ابےحیلہ بازو
تم ہم پر گریہ کرتے ہو اور خود تم نے ہم کو قتل کیا ہے۔ ابھی تمہارے ظلم سے ہمارا رونا موقوف نہیں ہوا اور تمہارے ستم سے ہمارا فریاد و نالہ ساکن نہیں ہوا اور تمہاری مثال اس عورت کی ہے جواپنے رسّہ کو مضبوط بٹتی اور پھر کھول ڈالتی ہے…………تم ہم پر گریہ و نالہ کرتے ہو حالانکہ خود تم ہی نے ہم کو قتل کیا ہے۔ سچ ہے وﷲ! لازم ہے کہ تم بہت گریہ کرو اور کم خوش ہو۔ تم نے عیب و عارِ ابدی خود خرید کیا ۔اس عار کا دھبّہ کسی پانی سے تمہارے جامے سے زائل نہ ہوگا۔جگر گوشہ خاتم پیغمبران و سید جوانانِ بہشت کے قتل کرنے کا کس چیز سے تدارک کر سکتے ہو! …… اے اہل کوفہ! تم پر وائے ہو !! تم نے کن جگر گوشہ ہائے رسول کو قتل کیا اور کن باپردے گان اہل بیت رسول کو بے پردہ کیا؟ کس قدر فرزندانِ رسول کی تم نے خونریزی کی ،ان کی حرمت کو ضائع کیا ۔تم نے ایسے بُرے کام کئے جن کی تاریکیوں سے زمین و آسمان گھر گیا۔‘‘
(شیعہ کتاب الاحتجاج - الشيخ الطبرسي2/29)
(أعيان الشيعة - السيد محسن الأمين1/613)
.
حضرت فاطمہ بنت امام حسین نے بھی اہل کوفہ کی سخت مذمت کی قاتل قرار دیا.....!!
أما بعد يا أهل الكوفة! يا أهل المكر والغدر والخيلاء، أنا أهل بيت ابتلانا الله بكم، وابتلاكم بنا، فجعل بلائنا حسنا، وجعل علمه عندنا وفهمه لدينا، فنحن عيبة علمه، ووعاء فهمه وحكمته، وحجته في الأرض في بلاده لعباده، أكرمنا الله بكرامته، وفضلنا بنبيه صلى الله عليه وآله على كثير من خلقه تفضيلا، فكذبتمونا، وكفرتمونا، ورأيتم قتالنا حلالا، وأموالنا
 نهبا،
سیدنا حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی بیٹی فاطمہ فرماتی ہیں کہ اے اہل کوفہ تم مکار ہو غدار ہو تکبر والے ہو.... اللہ نے ہم اہل بیت کا امتحان تمہارے ذریعے سے لیا اور تمہارا امتحان ہمارے ذریعہ سے لیا.. تو ہماری آزمائشوں کو اچھا بنایا اور اپنا علم ہم میں رکھا اور اور اس کی فہم ہمیں دی، ہم اللہ کے علم والے ہیں اسکی حکمتوں کے خزانے ہیں اور زمین میں اسکے دلائل ہیں، اللہ نے ہم پر خصوصی کرم و فضل فرمایا ہے لیکن تم کوفیوں نے ہمیں جھٹلایا اور ہمارا انکار کیا اور ہمیں ہمارا مال و خون حلال سمجھا
(شیعہ کتاب بحار الأنوار - العلامة المجلسي45/110)
(شیعہ کتاب الاحتجاج - الشيخ الطبرسي2/27)

.

اس کے بعد حضرت ام کلثوم  خواہر امام حسین  نے ہودج میں سے مندرجہ ذیل تقریر فرمائی:
يا أهل الكوفة سوأة لكم، مالكم خذلتم حسينا وقتلتموه وانتهبتم أمواله وورثتموه، وسبيتم نساءه ونكبتموه، فتبا لكم وسحقا ويلكم أتدرون أي دواه دهتكم؟ وأي وزر على ظهوركم حملتم؟ وأي دماء سفكتموها؟ وأي كريمة أصبتموها؟ وأي صبية سلبتموها، وأي أموال انتهبتموها؟ قتلتم خير رجالات بعد النبي، ونزعت الرحمة من قلوبكم
اے اہل کوفہ ! تمہارا حال اور مآل برا ہو اور تمہارے منہ سیاہ ہوں!تم نے کس سبب سے میرے بھائی حسین کو بلایا اور ان کی مدد نہ کی اور انہیں قتل کرکے مال و اسباب ان کا لوٹ لیا؟اور ان کی پردیگان عصمت و طہارت کو اسیر کیا؟وائے ہو تم پر اور لعنت ہو تم پر،کیا تم نہیں جانتے کہ تم نے کیا ظلم و ستم کیا ہے اور کن گناہوں کا اپنی پشت پر انبار لگایا اور کیسے خون ہائے محترم کو بہایا دخترانِ رسولِ مکرم کو نالاں کیا، کس محترم مال و دولت کو لوٹا، تم نے تو بہترین لوگوں کو شہید کیا اور تمھارے دل سے رحمت نکل گئ ہے
(شیعہ کتاب بحار الأنوار - العلامة المجلسي45/112)
.
.
امام زین العابدین کی تقریر:
أيها الناس من عرفني فقد عرفني ومن لم يعرفني فانا أعرفه بنفسي انا علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب انا ابن من انتهك حريمه وسلب نعيمه وانتهب ماله وسبي عياله انا ابن المذبوح بشط الفرات من غير ذحل ولا ترات انا ابن من قتل صبرا وكفى بذلك فخرا أيها الناس ناشدتكم بالله هل تعلمون انكم كتبتم إلى أبي وخدعتموه وأعطيتموه من أنفسكم العهد والميثاق والبيعة وقتلتموه وخذلتموه فتبا لما قدمتم لأنفسكم وسوأة لرأيكم بآية عين تنظرون إلى رسول الله إذ يقول لكم قتلتم عترتي وانتهكتم حرمتي فلستم من أمتي.
فارتفعت أصوات الناس بالبكاء من كل ناحية وقال بعضهم لبعض هلكتم وما تعلمون فقال ع: رحم الله امرأ قبل نصيحتي وحفظ وصيتي في الله ورسوله وأهل بيته فان لنا في رسول الله أسوة حسنة فقالوا بأجمعهم نحن كلنا سامعون مطيعون حافظون لذمامك غير زاهدين فيك ولا راغبين عنك فمرنا بامرك يرحمك الله فانا حرب لحربك وسلم لسلمك لنأخذن يزيد ونبرأ ممن ظلمك وظلمنا فقال ع هيهات هيهات أيتها الغدرة المكرة حيل بينكم وبين شهوات أنفسكم أ تريدون ان تأتوا إلي كما أتيتم إلى آبائي من قبل كلا ورب الراقصات فان الجرح لما يندمل قتل أبي بالأمس وأهل بيته معه ولم ينسني ثكل رسول الله ص وثكل أبي وبني أبي ووجده بين لهاتي  ومرارته بين حناجري وحلقي وغصصه تجري في فراش
صدري
امام زین العابدین نے اہل کوفہ سے خطاب کیا اور فرمایا:میں تم کو خدا کی قسم دیتا ہوں ! تم جانتے ہو کہ میرے والد سیدنا حسی  کو تم نے خطوط لکھے اور ان کو فریب دیا اور ان سے عہد و پیمان کیا اور ان سے بیعت کی۔آخر کار ان سے جنگ کی اور دشمن کو ان پر مسلط کیا۔پس لعنت ہو تم پر...تم نے اپنے پاؤں سے جہنم کی راہ اختیار کی اور بری راہ اپنے واسطے پسند کی۔ تم لوگ کن آنکھوں سے حضرت رسول کریم ﷺکی طرف دیکھو گے جس روز وہ تم سے فرمائیں گے۔ تم نے میری عزت کو قتل کیا اور میری ہتک حرمت کی۔ کیا تم میری امت سے نہ تھے۔‘‘ یہ سن کر پھر صدائے گریہ ہر طرف سے بلند ہوئی۔آپس میں ایک دوسرے سے کہتا تھا ہم لوگ ہلاک ہوئے۔جب صدائے فغاں کم ہوئی ،حضرت نے فرمایا۔خدا اس پر رحمت کرے جو میری نصیحت قبول کرے سب نے فریاد کی کہ یا ابن رسول ﷲ !
ہم نے آپ کا کلام سنا،ہم آپ کی اطاعت کریں گے …… جو آپ سے جنگ کرے اس سے ہم جنگ کریں اور جو آپ سے صلح کرے اس سے ہم صلح کریں۔ اگر آپ کہیے آپ کے ستمگاروں سے آپ کا طلبِ خون کریں۔حضرت نے فرمایا۔ہیہات ہیہات !! اے غدّارو !
اے مکّارو !
اب پھر دوبارہ میں تمہارے فریب میں نہ آؤں گا اور تمہارے جھوٹ کو یقین نہ جانوں گا۔ تم چاہتے ہو مجھ سے بھی وہ سلوک کرو جو میرے بزرگوں سے کیا۔بحق خداوند آسمانہائے دوّار!میں تمہارے قول و قرار پر اعتماد نہیں کرتا اور کیونکر تمہارے دروغ بے فروغ کو یقین کروں،حالانکہ ہمارے زخم ہائے دل ہنوز تازہ ہیں،میرے پدر اور ان کے اہل بیت کل کے روز تمہارے مکر سے قتل ہوئے اور ہنوز مصیبت حضرت رسول و پدر و برادر و عزیزو اقرباء میں نہیں بھولا اور اب تک ان مصیبتوں کی تلخی میری زبان پر ہے اور میرے سینے میں ان محبتوں کی آگ بھڑک رہی ہے
(شیعہ کتاب أعيان الشيعة - السيد محسن الأمين1/614)
(شیعہ کتاب الاحتجاج - الشيخ الطبرسي2/32)
(شیعہ کتاب بحار الأنوار - العلامة المجلسي45/113)

.
ان سب تقاریر سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں۔
اوّل:۔ قاتلین امام حسین شیعہ تھے اور حضرت امام حسین کے مبایعین تھے

دوم:۔ سب سے پہلے عالمگیر ماتم کرنے والے (یزید کے بعد) خود اہل کوفہ شیعہ قاتلین امام حسین ہی تھے مگر اہل بیت نے ماتم و چیخ و پکار کو ناپسند کیا...
.
.
*⑥جب مدینہ میں صحابہ کرام کو پتہ چلا کہہ بے وفا غدار کوفی شیعوں نے یزیدی فوج کے ساتھ مل کر لختِ جگر امام حسین کو شہید کر دیا ہے تو اس پر اکثر صحابہ کرام نے یزید سے بغاوت کردی اور شدید مخالف ہو گئے اور امام حسین کا بدلہ لینے لے لیے تیار ہونے لگے....جب یزید کو پتہ چلا تو اس نے بہت ہی بڑا لشکر مدینہ بھیجا اور بے دردی سے کئ صحابہ کرام اور انکی اولاد و خاندان کو شہید کیا......اس طرح صحابہ کرام اور انکی اولادوں نے امام حسین کی خاطر اور اسلام و حق کی خاطر شہادت تو قبول کی مگر کوفی شیعوں کی طرح بے وفائی غداری منافقت نہیں کی...*
.
حوالہ جات:
واقعہ کربلا کے بعد اصحاب محمد نے مدینہ منورہ میں یزید کے خلاف آواز اٹھائی اور مقابلے کے تیار ہوگئے، یزید نے ایک بڑا لشکر اہل مدینہ کی طرف بھیجا اور قتل عام کا حکم دیا..جس میں کئ صحابہ انصار و مہاجرین اور انکی اولادین شہید کی گئیں اس واقعہ کو واقعہ حرہ کہا جاتا ہے،
۔
کل المورخین و اجمعوا علی ان اہل الشام قتلوا فی ھذہ الواقعۃ جمعا کبیرا من الصحابۃ و من ابناء المھاجرین و الانصار..
یعنی تمام مورخین کا اجماع ہے کہ واقعہ حرہ میں صحابہ اور انصار و مہاجرین کی اولاد کی ایک بری تعداد قتل کی گئ.(شیعہ کتاب قراءۃ فی مقتل الحسین1/81)
.
فبلغ عدۃ قتلی الحرۃ یومئذ من قریش و الانصار و المھاجرین و وجوہ الناس الفا و سبع مائۃ
یعنی واقعہ حرہ میں اس دن قریش میں سے اور انصار و مہاجرین صحابہ میں سے اور بڑے ذی شرف لوگوں میں سے ایک ہزار سات سو قتل ہوئے
(شیعہ کتاب بھج الصباغۃ شرح نھج البلاغۃ ص20)
.
یہاں ایک بچگانہ سا سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ صحابہ کرام اور انکی اولادیں  کربلا کے بعد تو یزید کے خلاف نکلے مگر کربلا سے پہلے امام حسین کے ساتھ کیوں نا نکلے.......؟؟
اس کا جواب واضح ہے کہ امام حسین جنگ کے لیے نہیں نکلے تھے کہ صحابہ کرام اور انکی اولادیں اہل مکہ اہل مدینہ وغیرہ بھی ساتھ جاتے.....امام عالی مقام تو بیعت کے لیے کوفہ جا رہے تھے کوفی شیعوں کے بلانے پر...شاید امام حسین کوفہ کو اپنا مرکز بنانا چاہتے تھے شاید اسی لیے اپنے اہل و عیال سمیت ہجرت کرکے کوفہ روانہ ہوئے...
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
whats App nmbr
00923468392475
03468392475
other nmbr
03062524574

Post a Comment

1 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.