باغ فدک سنت اور خلفاء راشدین اور شیعہ کتب....؟؟

*کیا رسول کریمﷺکے اموال یعنی فدک وغیرہ کو سیدنا صدیق اکبر اہلبیت میں خرچ نہ کرتے تھے؟میراث رسولﷺ شیعہ کتب سے،مال رسولﷺ میں خلفاء راشدین کا طرز عمل......؟؟ اور کیا رسول کریم نے فدک سیدہ فاطمہ کو دے دیا تھا جیسے اہلسنت کتاب درمنثور و بزاز میں ہے....؟؟*

تمھید:

 فیس بک پے ایک صاحب نے لکھا کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کہتے تو یہ تھے کہ اہل بیت مجھے میرے رشتہ داروں سے زیادہ پیارے ہیں انہیں اموال رسول میں سے خرچہ دیا کروں گا لیکن ابوداؤد کی حدیث میں ہے کہ لَمْ يَكُنْ يُعْطِي قُرْبَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

یعنی صدیق اکبر نے اہل بیت کو کچھ مال نہ دیا… پھر مذکورہ فیسبکی مجتہد بن کر اس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ صدیق اکبر خائن غاصب مکار جھوٹے تھےخیانت کرنے والے تھے دھوکہ دینے والے تھے جھوٹ بولنے والے تھے اہل بیت سے بغض رکھنے والے اہل بیت کو محروم کرنے والے تھے....(نعوذ باللہ)

نوٹ:

ادب کے ساتھ لفظ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ تو میں نے لکھا ہے ورنہ اس نے تو فقط ابوبکر لکھا تھا

.

*تحیق.و.جواب......!!*

الحدیث:فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا

جاہل(کم علم) فتویٰ دیں گے تو وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے( لہذا ایسوں سے بچو)

(بخاری حدیث100)

.


 احادیث مبارکہ روایات آثار وغیرہ کو سمجھے بغیر ، احاطہ کییے بغیر، وسیع مطالعہ کییے بغیر دو چار احادیث روایات پڑھ کر مجتہد بن بیٹھنا اور نعوذ باللہ اس قسم کے فتوے لگانا اور وہ بھی صحابہ کرام پر.......؟؟ خدا کا خوف کیجیے کسی علم والے سے پوچھئیے، روایات کی تحقیق کیجئیے، شروحات پڑہیے سمجھیے،مزید اس متعلق روایات پڑھئیے، اور پھر انصاف سے اپنا نقطہ نظر ادب کے ساتھ سوال کے انداز میں پیش کیجئیے ورنہ گمراہی فساد انتشار تفرقہ پھیلانا کہلائے گا نعوذ باللہ بات کفر تک جاسکتی ہے

.

*مسئلہ ترکہ رسول کریمﷺ باغ فدک وغیرہ کا نچوڑ یہ ہے کہ......!!*

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو بھی اپنے اموال میں سے ذرا برابر کا بھی مالک نہیں بنایا بلکہ اہل بیت ازواج مطہرات و دیگر مسلمانوں پر خرچ کرتے رہے اسی طرح رسول کریم نے فرمایا کہ میرا جو ترکہ ہے وہ صدقہ ہے...اس قسم کی حدیث پاک کو سیدنا علی نے بھی تسلیم کیا ، سیدنا عباس نے بھی تسلیم کیا ، سیدنا ابوبکر اور عمر صحابہ کرام نے بھی تسلیم کیا کہ ایسی حدیث واقعی میں ہے، ہاں ممکن ہے کسی کی توجہ نہ گئ ہو اور ترکہ کا مطالبہ کر دیا ہو لیکن بحرحال توجہ دلانے عرض کرنے پر سب نے تسلیم کیا کہ ہاں ایسی حدیث پاک ہے.... جب یہ صدقہ تھا تو یہ کہیں بھی خرچ ہو سکتا تھا اہل بیت پر خرچ ہو سکتا تھا اہل بیت کو چھوڑ کر رسول کریم کے دیگر رشتہ داروں پر خرچ ہو سکتا تھا  یا دیگر رشتہ داروں کو چھوڑ کر مسلمانوں پر خرچ ہو سکتا تھا یا تھوڑا تھوڑا کرکے سب میں خرچ کیا جا سکتا تھا... لیکن سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کا کمال انصاف دیکھیے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت اور ان کی پیروی اتنی کرتے تھے کہ اس کی مثال دیکھیے کہ سیدنا صدیق اکبر نے اہلبیت و دیگر رشتے داران رسول و فقراء مسلمین و اللہ کی راہ میں اسی طرح خرچ کیا جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خرج کیا کرتے تھے.... پھر سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی اسی طرح خرچ کیا کرتے تھے جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کیا کرتے تھے

.

*چند دلائل و حوالہ جات ملاحظہ کیجیے…...!!*

قَالَ عُمَرُ : تَيْدَكُمْ ، أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ، هَلْ تَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " لَا نُورَثُ، مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ ". يُرِيدُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَفْسَهُ ؟ قَالَ الرَّهْطُ : قَدْ قَالَ ذَلِكَ. فَأَقْبَلَ عُمَرُ عَلَى عَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ فَقَالَ : أَنْشُدُكُمَا اللَّهَ، أَتَعْلَمَانِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ قَالَ ذَلِكَ ؟ قَالَا : قَدْ قَالَ ذَلِكَ. قَالَ عُمَرُ : فَإِنِّي أُحَدِّثُكُمْ عَنْ هَذَا الْأَمْرِ، إِنَّ اللَّهَ قَدْ خَصَّ رَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْفَيْءِ بِشَيْءٍ لَمْ يُعْطِهِ أَحَدًا غَيْرَهُ. ثُمَّ قَرَأَ : { وَمَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْهُمْ }. إِلَى قَوْلِهِ : { قَدِيرٌ }. فَكَانَتْ هَذِهِ خَالِصَةً لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاللَّهِ مَا احْتَازَهَا دُونَكُمْ، وَلَا اسْتَأْثَرَ بِهَا عَلَيْكُمْ، قَدْ أَعْطَاكُمُوهَا وَبَثَّهَا فِيكُمْ، حَتَّى بَقِيَ مِنْهَا هَذَا الْمَالُ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ نَفَقَةَ سَنَتِهِمْ مِنْ هَذَا الْمَالِ، ثُمَّ يَأْخُذُ مَا بَقِيَ فَيَجْعَلُهُ مَجْعَلَ مَالِ اللَّهِ، فَعَمِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ حَيَاتَهُ. أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ، هَلْ تَعْلَمُونَ ذَلِكَ ؟ قَالُوا : نَعَمْ. ثُمَّ قَالَ لِعَلِيٍّ وَعَبَّاسٍ : أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ، هَلْ تَعْلَمَانِ ذَلِكَ ؟ قَالَ عُمَرُ : ثُمَّ تَوَفَّى اللَّهُ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ : أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فَقَبَضَهَا أَبُو بَكْرٍ فَعَمِلَ فِيهَا بِمَا عَمِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُ فِيهَا لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ،

ترجمہ:

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ‘ اچھا ‘ تو پھر ذرا ٹھہرئیے اور دم لے لیجئے میں آپ لوگوں سے اس اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس کے حکم سے آسمان اور زمین قائم ہیں۔ کیا آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ”ہم پیغمبروں کا کوئی مالی اعتبار سے وارث نہیں ہوتا ‘ جو کچھ ہم (انبیاء) چھوڑ کر جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ “ جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد خود اپنی ذات گرامی بھی تھی۔ ان حضرات نے تصدیق کی ‘ کہ جی ہاں ‘ بیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا  اب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ، سیدنا علی اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہما کی طرف مخاطب ہوئے ‘ ان سے پوچھا۔ میں آپ حضرات کو اللہ کی قسم دیتا ہوں ‘ کیا آپ حضرات کو بھی معلوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا ہے یا نہیں؟ انہوں نے بھی اس کی تصدیق کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیشک ایسا فرمایا ہے۔۔(پس ثابت ہوا کہ یہ حدیث سیدنا ابوبکر سیدنا عمر سیدنا علی سیدنا عباس وغیرہ کے مطابق بھی برحق و ثابت ہے)سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اب میں آپ لوگوں سے اس معاملہ کی شرح بیان کرتا ہوں۔ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس غنیمت کا ایک مخصوص حصہ مقرر کر دیا تھا۔ جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کسی دوسرے کو نہیں دیا تھا(جب نبی کریم نے اپنا حصہ کسی کو زندگی میں نہیں دیا تو ثابت ہوا کہ انبیاء کرام کے مال صدقہ ہوتے ہیں، کسی کی ملکیت نہیں بنتے) پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی «وما أفاء الله على رسوله منهم‏» سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد «قدير‏» تک اور وہ حصہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص رہا۔ مگر قسم اللہ کی یہ جائیداد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم کو چھوڑ کر اپنے لیے جوڑ نہ رکھی ‘ نہ خاص اپنے خرچ میں لائے ‘ بلکہ تم  لوگوں کو(بغیر مالک بنائے صرف خرچہ اٹھانے کے لیے)دیں اور تمہارے ہی کاموں میں خرچ کیں۔ یہ جو جائیداد بچ رہی ہے اس میں سے آپ اپنی بیویوں کا سال بھر کا خرچ لیا کرتے اس کے بعد جو باقی بچتا وہ اللہ کے مال میں شریک کر دیتے... خیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنی زندگی میں ایسا ہی کرتے رہے۔ حاضرین تم کو اللہ کی قسم! کیا تم یہ نہیں جانتے؟ انہوں نے کہا بیشک جانتے ہیں پھر عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہما سے کہا میں آپ حضرات سے بھی قسم دے کر پوچھتا ہوں ‘ کیا آپ لوگ یہ نہیں جانتے ہیں؟ (دونوں حضرات نے جواب دیا ہاں!) پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یوں فرمایا کہ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا سے اٹھا لیا تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ ہوں ‘ اور اس لیے انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مال و جائیداد اپنی نگرانی میں لیے اور جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم خرچ کرتے تھے اسی طرح سیدنا صدیق اکبر(اہلبیت وغیرہ پر)خرچ کرتے رہے۔ اللہ خوب جانتا ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے اس طرز عمل میں سچے مخلص ‘ نیکوکار اور حق کی پیروی کرنے والے تھے...(پھر سیدنا عمر نے بھی رسول کریم اور سیدنا ابوبکر کے طرز پر خرچ کرنے کا فیصلہ کیا جسے سیدنا علی سیدنا عباس رضی اللہ تعالیٰ عنھما نے بھی تسلیم کیا)

(صحیح بخاری 3094)

.

دَخَلَ الْعَبَّاسُ وَعَلِيٌّ عَلَى عُمَرَ، وَعِنْدَهُ طَلْحَةُ، وَالزُّبَيْرُ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ، وَسَعْدٌ، وَهُمَا يَخْتَصِمَانِ، فَقَالَ عُمَرُ  لِطَلْحَةَ ، وَالزُّبَيْرِ  ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ ، وَسَعْدٍ : أَلَمْ تَعْلَمُوا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " كُلُّ مَالِ النَّبِيِّ صَدَقَةٌ إِلَّا مَا أَطْعَمَهُ أَهْلَهُ وَكَسَاهُمْ، إِنَّا لَا نُورَثُ " ؟ قَالُوا : بَلَى. قَالَ : فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنْفِقُ مِنْ مَالِهِ عَلَى أَهْلِهِ، وَيَتَصَدَّقُ بِفَضْلِهِ، ثُمَّ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَلِيَهَا أَبُو بَكْرٍ سَنَتَيْنِ، فَكَانَ يَصْنَعُ الَّذِي كَانَ يَصْنَعُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ:

سیدنا علی اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہما سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آ گئے اور ان کے پاس سیدنا طلحہ، سیدنا زبیر، سیدنا عبدالرحمٰن اور سیدنا سعد رضی اللہ عنہم (پہلے سے) بیٹھے تھے، یہ دونوں (یعنی سیدنا عباس اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما) جھگڑنے لگے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے طلحہ، زبیر، عبدالرحمٰن اور سعد رضی اللہ عنہم سے کہا: کیا تم لوگوں کو معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”نبی کا سارا مال صدقہ ہے سوائے اس کے جسے انہوں نے اپنے اہل کو کھلا دیا یا پہنا دیا ہو، ہم لوگوں کا کوئی مالی وارث نہیں ہوتا“، لوگوں نے کہا: کیوں نہیں (ہم یہ بات جانتے ہیں آپ نے ایسا ہی فرمایا ہے) اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مال میں سے اپنے اہل پرخرچ کرتے تھے اور جو کچھ بچ رہتا وہ صدقہ کر دیتے تھے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے آپ کے بعد اس مال کے متولی سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ دو سال تک رہے، وہ ویسے ہی خرچ کرتے رہے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خرچ کرتے تھے

(ابوداود 2975)

.

 وُلِّيتُهَا بَعْدَ أَبِي بَكْرٍ فَصَنَعْتُ فِيهَا الَّذِي كَانَ يَصْنَعُ، ثُمَّ أَتَيَانِي فَسَأَلَانِي أَنْ أَدْفَعَهَا إِلَيْهِمَا، عَلَى أَنْ يَلِيَاهَا بِالَّذِي وَلِيَهَا بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالَّذِي وَلِيَهَا بِهِ أَبُو بَكْرٍ، وَالَّذِي وُلِّيتُهَا بِهِ، فَدَفَعْتُهَا إِلَيْهِمَا، وَأَخَذْتُ عَلَى ذَلِكَ عُهُودَهُمَا،

 سیدنا عمر فرماتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے بعد میں خلیفہ ہوا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اموال میں وہی تقسیم اور خرچہ جاری رکھا کہ جس طرح سیدنا ابوبکر صدیق کیا کرتے تھے... پھر ان اموال سے خرچہ اٹھانے کے لئے میں نے آپ اہل بیت کو یہ مال دیا اس شرط پر کہ آپ لوگ اسی طرح خرچہ اٹھاتے رہو جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ میں خرچہ دیا کرتے تھے جس طرح سیدنا ابوبکر صدیق آپ میں خرچہ کیا کرتے تھے اور آپ لوگوں سے اس پر عہد بھی لیا

(نسائی روایت4148)

.

جَمَعَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بَنِي مَرْوَانَ حِينَ اسْتُخْلِفَ، فَقَالَ : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ لَهُ فَدَكُ، فَكَانَ يُنْفِقُ مِنْهَا، وَيَعُودُ مِنْهَا عَلَى صَغِيرِ بَنِي هَاشِمٍ، وَيُزَوِّجُ مِنْهَا أَيِّمَهُمْ، وَإِنَّ فَاطِمَةَ سَأَلَتْهُ أَنْ يَجْعَلَهَا لَهَا فَأَبَى، فَكَانَتْ كَذَلِكَ فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ، فَلَمَّا أَنْ وَلِيَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَمِلَ فِيهَا بِمَا عَمِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَيَاتِهِ حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ، فَلَمَّا أَنْ وَلِيَ عُمَرُ عَمِلَ فِيهَا بِمِثْلِ مَا عَمِلَا حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ، ثُمَّ أُقْطِعَهَا مَرْوَانُ، ثُمَّ صَارَتْ لِعُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ. قَالَ عُمَرُ - يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ : فَرَأَيْتُ أَمْرًا مَنَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَامُ لَيْسَ لِي بِحَقٍّ، وَأَنَا أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ رَدَدْتُهَا عَلَى مَا كَانَتْ. يَعْنِي عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

 سیدنا عمر بن عبدالعزیز جب خلیفہ ہوئے تو انہوں نے فرمایا کہ فدک وغیرہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اموال تھے  اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اہلبیت و مسلمانوں و فی سبیل اللہ خرچ کیا کرتے تھے... سیدہ فاطمہ نے اپنی ملکیت کے لیے کچھ لینا چاہا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کر دیا... پھر سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے اسی عمل و خرچے کو جاری رکھا پھر سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے بھی اس عمل کو جاری رکھا پھر یہ مروان کے حوالے کر دیا گیا اور پھر یہ مجھے ملا تو میں عمر بن عبدالعزیز کہتا ہوں کہ جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ کی ملکیت قرار نہ دیا وہ میرا حق نہیں ہو سکتا میں تمہیں گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں اس کو اسی حال پر واپس لوٹا رہا ہوں کہ جس حال پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خرچ کیا کرتے تھے

(ابوداود روایت2972)

.

*اموالِ رسول کریمﷺ سب مسلمانوں کے لیے صدقہ ہے کسی کے لیے ملکیت نہیں اور خلفاء راشدین نے ان اموال کو کیسے خرچ کیا.........؟؟*

 اوپر حدیث گزری ہے جس کی گواہی سیدنا علی نے دی سیدنا ابوبکر صدیق نے دی سیدنا عمر نے دی سید عباس نے دی ان سب نے تمام صحابہ کرام نے گواہی دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چھوڑا ہوا مال صدقہ ہے، اور صدقہ تو کسی کے لئے خاص نہیں ہوتا وہ تو تمام مسلمانوں کو دیا جا سکتا ہے... کمال عشق و محبت دیکھئے کمال اطاعت و پیروی دیکھئے کہ سیدنا ابوبکر صدیق نے اہل بیت کو بھی دیا مسلمانوں کو بھی دیا... اللہ کی راہ میں خرچ کیا، اور سیدنا عمر نے بھی ایسا ہی کیا جیسے کہ اوپر روایات میں دوٹوک لکھا ہے

.

*اوپر روایات میں سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تذکرہ نہیں...سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کس طرح کا معاملہ فرمایا...ملاحظہ کیجیے......!!*

قَالَ : فَهُمَا عَلَى ذَلِكَ إِلَى الْيَوْمِ.

سیدنا زهري فرماتے ہیں کہ سیدنا ابو بکر صدیق سے لے کر سیدنا علی وغیرہ تک یہ اسی طریقے پر جاری ہے( کہ اموال رسول  کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی کی ملکیت نہیں ہے وہ صدقہ ہیں وہ اہل بیت و دیگر رشتہ داروں اور دیگر مسلمانوں اور اللہ کی راہ میں خرچ ہوتا رہا سب خلفاء راشدین کے دور میں)

(ابوداؤد روایت2968)

.

ولهذا لَمَّا صارت الخِلافة إلى عليٍّ لم يُغيِّرْها عن كونها صدَقة

 جب سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے اسی طریقے کو جاری رکھا جو سیدنا ابوبکر صدیق نے جاری رکھا تھا اور اموالِ رسول کریم کو صدقہ قرار دیا

(اللامع الصبيح بشرح الجامع الصحيح9/156)

(كتاب منحة الباري بشرح صحيح البخاري6/209)


.

ومما يدل على ما قلناه: ما قاله أبو داود: أنه لم يختلف على - رضى الله عنه - أنه لما صارت الخلافة إليه لم يغيرها عن كونها صدقة

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مال صدقہ ہیں اس بات پر یہ بھی دلیل ہے کہ امام ابو داؤد فرماتے ہیں کہ جب سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے اسے صدقہ قرار دیا اور جس طرح سیدنا صدیق اکبر نے خرچہ جاری کیا تھا سیدنا علی نے اسی طریقے پر اسی طرز کو جاری رکھا اس سے تبدیل نہ کیا کسی کی ملکیت قرار نہ دیا

(إكمال المعلم بفوائد مسلم6/79)


.

*سیدنا عثمان نے فدک مروان کو کیوں دیا.......؟؟*

 اوپر روایت میں اشارہ ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے باغ فدک مروان کو دیا تھا... تو اس کا جواب یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ترکہ جو بھی تھا وہ سب مسلمانوں کے لئے صدقہ تھا وہ اہل بیت پہ خرچ ہو سکتا تھا دوسرے مسلمانوں پر بھی خرچ ہو سکتا تھا کسی اہل بیت پر خرچ کرنا فرض واجب نہیں تھا... عین ممکن ہےکہ سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے دیگر صدقات میں سے اہل بیت کو خرچہ دیا اور فدک صدقہ ان سے لے کر کسی اور کو دے دیا ہو.....؟؟

.

 سنی یا شیعہ نجدی تمام کتب میں لکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی مالی ترکہ نہ تھا جو بھی تھا وہ سب صدقہ تھا جیسے اوپر احادیث گزریں... تو صدقہ کسی بھی مسلمان پر خرچ ہو سکتا ہے لہذا سیدنا عثمان پر کوئی اعتراض نہیں... ہاں یہ طرز جاری تھا کہ سیدنا ابو بکر صدیق نے سیدنا عمر نے سیدنا علی نے اسی طرح اہل بیت وغیرہ پر خرچ کیا جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خرچ کیا کرتے تھے

سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ قرآن اور حدیث سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

فَلَمْ يَبْقَ أَحَدٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ إِلَّا لَهُ فِيهَا حَقٌّ

 (رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا چھوڑا ہوا مال صدقہ ہے تو )اس صدقے میں ہر مسلمان کا حق ہے(وہ کسی کے لیے خاص نہیں)

(ابوداود روایت2966)

.

بين المسلمين ومصالحهم، وأن أمره إلى من يلي أمره بعد، متفق عليه بين الصحابة حتى العباس وعلي

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مال صدقہ ہیں وہ مسلمانوں میں اہلبیت وغیرہ میں خرچ ہوتے رہیں گے اور اس کی نگرانی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس کے خلیفہ کے سپرد ہے اس بات پر تمام صحابہ کا اتفاق ہے حتی کہ سیدنا عباس اور سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہما کا بھی اسی بات پر اتفاق ہے

(لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح7/146)

.

 اب جب ثابت ہوگیا کہ احادیث اور صحابہ کرام اور اہل بیت عظام کے مطابق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اموال صدقہ ہیں تو  لازم نہیں ہے کہ صرف اہل بیت میں ہی خرچ ہو وہ کہیں بھی خرچ ہو سکتے ہیں...یہ سب خلیفہ کی صوابدید پر ہے کہ وہ کہاں پر زیادہ حاجت کو محسوس کرتا ہے وہاں پر خرچ کرے گا

لیھذا

 سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے جب دیکھا کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اموال اہل بیت میں خرچ کرنا لازم نہیں ہے تو انہوں نے دیگر اموال اہل بیت کو دیے اور اموال رسول دیگر معاملات میں خرچ کییے

.

إِنَّمَا أَقْطَعَ عُثْمَانُ فَدَكَ لِمَرْوَانَ لِأَنَّهُ تَأَوَّلَ أَنَّ الَّذِي يَخْتَصُّ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَكُونُ لِلْخَلِيفَةِ بَعْدَهُ فَاسْتَغْنَى عُثْمَانُ عَنْهَا بِأَمْوَالِهِ

 باغ فدک سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے مروان کو دیا تھا خرچے کیلئے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ دلیل پکڑی کہ اموال رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نگرانی خلیفہ کے لئے سپرد ہے تو سیدنا عثمان نے دیگر مال اہل بیت کو دے کر اموال رسول کریم سے مستغنی کر دیا

(كتاب فتح الباري لابن حجر6/204)

.

عَلَيْهِ وَكَانَ تَأْوِيلُهُ فِي ذَلِكَ وَاللَّهُ أَعْلَمُ مَا بَلَغَهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ مِنْ قَوْلِهِ إِذَا أَطْعَمَ اللَّهُ نَبِيًّا طُعْمَةً فَهِيَ لِلَّذِي يَقُومُ مِنْ بَعْدِهِ وَكَانَ رَسُولُ الله يَأْكُلُ مِنْهَا وَيُنْفِقُ عَلَى عِيَالِهِ قُوتَ سَنَةٍ وَيَصْرِفُ الْبَاقِي مَصْرِفَ الْفَيْءِ فَاسْتَغْنَى عَنْهَا عُثْمَانُ بِمَالِهِ

 سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے مروان وغیرہ کو اموال میں سے دیا تو اس کی تاویل یہ تھی کہ آپ کو یہ دلیل معلوم تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ جو رسول اللہ کے مال ہیں وہ رسول اللہ کے بعد آنے والے خلیفہ کی نگرانی میں ہوں گے ان کی صوابدید پر ہوں گے لہذا سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی صوابدید یہ تھی کہ انہوں نے دیگر اموال اہل بیت کو دے کر اموال رسول کریم سے ان کو مستغنی کردیا

(عون المعبود وحاشية ابن القيم8/138)

.

*صدیق اکبر نے قربی رسول اللہ کو نہ دیا کا معنی.......؟؟*

امام ابوداود و دیگر محدثین سے ہم نے ثابت کر دیا کہ خلفائے راشدین رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کو قریبی رشتہ داروں کو اور دیگر مسلمانوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اموال میں سے خرچہ دیا کرتے تھے، معترض نے جو امام ابو داود کے حوالے سے لکھا ہے کہ سیدنا صدیق اکبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کو کچھ نہ دیتے تھے یہ سراسر جھوٹ ہے....امام ابوداود نے ایسی کوئی حدیث نہیں لکھی بلکہ یہ سیدنا جبیر کا قول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذووی القربی کو سیدنا صدیق اکبر نہ دیتے تھے اور باقی تقسیم رسول اللہ علیہ والی فرماتے تھے

پہلی بات:

پہلی بات تو یہ ہے سیدنا جبیر کا قول دیگر محدثین کے بظاہر خلاف ہے تو غیر معتبر ہے

وهذا الحديث يخالفه فيما يأتي قريبًا من حديث

(بذل المجهود في حل سنن أبي داود10/166)

دوسری بات:

 امام ابو داؤد نے ذووی القربی باب لکھا ہے مطلب دور کے رشتہ دار یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے رشتہ داروں کو سیدنا صدیق اکبر نہ دیتے تھے کیونکہ مال اتنا زیادہ تھا کہ وہ سب کو دیتے بلکہ نبی پاک نے بھی اپنے بعض ذوی قربی یا دور کے رشتے داروں نہ دیا جیسا کہ ابوداود کے اس باب میں ہے

بَابٌ.فِي بَيَانِ مَوَاضِعِ قَسْمِ الْخُمُسِ، وَسَهْمِ ذِي الْقُرْبَى

(ابوداود قبیل 3/255)

.

(ذَوُو الْقُرْبَى)الْمُرَادُ بِهِمْ الْمَذْهَبُ الأَْوَّل: أَنَّهُمْ بَنُو هَاشِمٍ فَقَطْ، وَهُوَ مَا ذَهَبَ إِلَيْهِ أَبُو حَنِيفَةَ وَمَالِكٌ...الْمَذْهَبُ الثَّانِي: أَنَّ ذَوِي الْقُرْبَى هُمْ بَنُو هَاشِمٍ وَبَنُو الْمُطَّلِبِ فَقَطْ وَهُوَ الْمَذْهَبُ عِنْدَ الشَّافِعِيَّةِ (٥) ، وَالْحَنَابِلَةِ...الْمَذْهَبُ الثَّالِثُ: أَنَّ ذَوِي الْقُرْبَى هُمْ بَنُو قُصَيٍّ وَذَلِكَ مَرْوِيٌّ عَنْ أَصْبَغَ مِنَ الْمَالِكِيَّةِ،...الْمَذْهَبُ الرَّابِعُ: أَنَّ ذَوِي الْقُرْبَى قُرَيْشٌ كُلها

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذووی القربی(دور کے ) رشتہ دار کون سے ہیں.....؟؟ اس میں اختلاف ہے کچھ فرماتے ہیں کہ فقط بنو ہاشم ہیں اور اور یہ امام اعظم ابو حنیفہ اور امام مالک کا قول ہے..کچھ فرماتے ہیں کہ بنو ہاشم اور بنو مطلب ہیں اور یہ امام شافعی کا قول ہے اور حنبلیوں کا قول ہے اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد بنو قصی ہیں اور یہ بعض مالکیوں سے مروی ہے اور ایک قول یہ ہے کہ سب قریش ذووی القربی ہیں

(كتاب الموسوعة الفقهية الكويتية،70 33/67) 

.

تیسری بات:

 ایک توجیہ یہ لکھی ہے کہ بےشک سیدنا صدیق اکبر دیتے تھے تو لہذا سیدنا جیبر کا قول کم علمی غلط فھمی پر مبنی ہے معتبر نہیں ہے

" هذا إما مبني على عدم علمه بإعطاء أبو بكر إياهم وسيجيء عن علي ما يدل على أنه كات يعطي، فلعله كان يعطي ولم يطلع عليه جبير والإثبات مقدم علي النفی

 سیدنا جبیر رضی اللہ عنہ نے یہ جو فرمایا ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ذووی القربی کو نہ دیا کرتے تھے تو یہ سید جبیر کی کم علمی ہے کہ انہیں معلوم نہیں تھا... سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ تو دیا کرتے تھے جیسے کہ اگلی والی حدیث سے ثابت ہے... اور ثبوت والی حدیث نفی والی روایت پر مقدم ہے

(فتح الودود في شرح سنن أبي داود3/307)

.

*رسول کریم کی مالی میراث نہیں، انکا مال صدقہ ہے،شیعہ کتب سے کچھ حوالے جات......!!*

رسول الله صلى الله عليه وآله يقول: " نحن معاشر الأنبياء لا نورث ذهبا ولا فضة ولا دارا ولا عقارا وإنما نورث الكتاب والحكمة والعلم والنبوة وما كان لنا من طعمة فلولي الأمر بعدنا أن يحكم فيه بحكمه

 شیعہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہم گروہ انبیاء کسی کو وارث نہیں بناتے سونے کا نہ چاندی کا نہ ہی گھر کا نہ ہی زمینوں کا... ہم تو کتاب اور حکمت اور علم کا وارث بناتے ہیں... جو کچھ ہمارا مال ہے وہ ہمارے بعد جو خلیفہ آئے گا اس کے سپرد ہے اس کی صوابدید پر موقوف ہے کہ وہ کس طرح خرچ کرتا ہے

(شیعہ کتاب الاحتجاج - الشيخ الطبرسي1/142)

.

، وإن العلماء ورثة الأنبياء إن الأنبياء لم يورثوا دينارا ولا درهما ولكن ورثوا العلم

 شیعہ کہتے ہیں کہ بے شک علماء انبیاء کرام کے وارث ہیں اور انبیائے کرام نے کسی کو درہم اور دینار( مالی وراثت )کا وارث نہیں بنایا انکی وراثت تو فقط علم ہے

(شیعہ کتاب الكافي - الشيخ الكليني1/34)


.

أني سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله يقول: نحن معاشر الأنبياء لا نورث ذهبا ولا فضة ولا دارا ولا عقارا وإنما نورث الكتب (3) والحكمة والعلم والنبوة، وما كان لنا من طعمة فلولي الامر بعدنا ان يحكم فيه بحكمه

شیعہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہم گروہ انبیاء کسی کو وارث نہیں بناتے سونے کا نہ چاندی کا نہ ہی گھر کا نہ ہی زمینوں کا... ہم تو کتاب اور حکمت اور علم کا وارث بناتے ہیں... جو کچھ ہمارا مال ہے وہ ہمارے بعد جو خلیفہ آئے گا اس کے سپرد ہے اس کی صوابدید پر موقوف ہے کہ وہ کس طرح خرچ کرتا ہے

(شیعہ کتاب بحار الأنوار - العلامة المجلسي29/231)


.

وإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: (إنا معاشر الأنبياء لا نورث ذهبا ولا فضة، ولا دارا ولا عقارا. وإنما نورث الكتاب والحكمة، والعلم والنبوة

شیعہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہم گروہ انبیاء کسی کو وارث نہیں بناتے سونے کا نہ چاندی کا نہ ہی گھر کا نہ ہی زمینوں کا... ہم تو کتاب اللہ اور حکمت اور علم کا وارث بناتے ہیں

قال: فلما وصل الأمر إلى علي بن أبي طالب عليه السلام كلم  في رد فدك، فقال: إني لأستحي من الله أن أرد شيئا منع منه أبو بكر وأمضاه عمر

شیعہ لکھتے ہیں کہ جب سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے باغ فدک کے بارے میں بات کی اور فرمایا کہ مجھے اللہ سے حیا آتی ہے کہ میں ایسا کام کرو کہ سیدنا ابو بکر صدیق نے جس سے منع کیا ہو اور اس کو سیدنا عمر نے جاری کیا ہو

(شیعہ کتاب الشافي في الامامة - الشريف المرتضى4/76)

.

ویسے تو ہم شیعہ کتب کے متعلق کہتے ہیں کہ جھوٹ تضاد گستاخی سے بھری پڑی ہیں مگر کچھ سچ بھی لکھا ہے انہون نے لیھذا کتب شیعہ کی بات قرآن و سنت معتبر کتب اہلسنت کے موافق ہوگی تو وہی معتبر...مذکورہ حوالہ جات موافق قرآن و سنت ہیں، موافق کتب اہلسنت ہین لیھذا معتبر

کیونکہ شیعہ ناصبی جیسے جھوٹے بھی کبھی سچ بول جاتے ہیں ، لکھ جاتے ہیں اگرچہ الٹی سیدھی تاویلیں اپنی طرف سے کرتے ہیں جوکہ معتبر نہیں

قَدْ يَصْدُقُ الْكَذُوبَ

ترجمہ:

بہت بڑا جھوٹا کبھی سچ بول دیتا ہے

(فتح الباری9/56، شیعہ کتاب شرح اصول کافی2/25)

.

سوال:

علامہ صاحب ایک شیعہ دوست نے اسکین بھیجا ہے مجھے بھی کنفیوز کردیا ہے...براءے مہربانی اس کا تسلی بخش تفصیلی جواب عنایت فرمائیں

اسکین میں ایک شیعہ کا دعوی تھا کہ بزاز مسند ابو یعلی تفسیر درمنثور وغیرہ کتب اہلسنت میں صحیح سند کے ساتھ حدیث ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے باغ فدک اپنی حیات مبارکہ ہی میں بی بی فاطمہ کو دے دیا تھا

.

جواب و تحقیق:

تفسیر در منثور کی پوری روایات یہ ہے:

أخرج الْبَزَّار وَأَبُو يعلى وَابْن أبي حَاتِم وَابْن مرْدَوَيْه عَن أبي سعيد الْخُدْرِيّ رَضِي الله عَنهُ قَالَ: لما نزلت هَذِه الْآيَة {وَآت ذَا الْقُرْبَى حَقه} دَعَا رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فَاطِمَة فَأَعْطَاهَا فدك

ترجمہ:

الْبَزَّار وَأَبُو يعلى وَابْن أبي حَاتِم وَابْن مرْدَوَيْه نے ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ نہ  سے روایت کی ہے کہ جب آیت نازل ہوئی کہ رشتے داروں کو ان کا حق تو حضور نے فاطمہ کو بلایا اور انہیں باغ  فدک دے دیا 

[الدر المنثور في التفسير بالمأثور ,5/273]

.

اس روایت کی سند کیا ہے اور کیسی ہے اس پر بات بعد میں کریں گے پہلے امام ابن کثیر کا اس روایت پے تبصرہ پڑھیے آپ لکھتے ہیں:

وَهَذَا الْحَدِيثُ مُشْكَلٌ لَوْ صَحَّ إِسْنَادُهُ؛ لَأَنَّ الآية مكية، وفدك إِنَّمَا فُتِحَتْ مَعَ خَيْبَرَ سَنَةَ سَبْعٍ مِنَ الْهِجْرَةِ

ترجمہ:

اگر اس روایت کی سند کو صحیح مان لیا جائے تو اس پر اشکال وارد ہوتا ہے کہ آیت مکی ہے اور فدک تو (آیت کے نازل ہونے کے کئی سال بعد ) مدینہ میں 7 ہجری میں فتح خیبر کے ساتھ فتح ہوا تھا(یعنی آیت نازل ہوتے وقت باغ فدک رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم  کی ملکیت میں ہی نہیں تھا تو انھوں نے بی بی فاطمہ کو کیسے دیا۔۔۔۔؟؟)

(تفسیر ابن کثیر5/69)

.

ایک اور عقلی دلیل ملاحظہ کیجیے:

 المشهور المعتمد عليه ان فاطمة سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم فدك فلم يعطها- كذا روى عن عمر بن عبد العزيز- ولو كان رسول الله صلى الله عليه وسلم أعطاها فاطمة لما منعها عنها الخلفاء الراشدون لا سيما على رضى الله عنه فى خلافته والله اعلم

ترجمہ:

مشہور اور معتمد یہ ہے کہ بی بی فاطمہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے باغ فدک کا مطالبہ کیا تھا لیکن رسول اللہ نے ان کو نہیں دیا جیسے کہ عمر بن عبدالعزیز سے مروی ہے.... یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باغ دیا ہو اور خلفاء راشدین نہ دیں خاص طور پر سیدنا علی(کہ انہوں نے بھی اپنی خلافت میں بی بی فاطمہ کے وارثوں میں باغ فدک تقسیم نہ کیا)

[التفسير المظهري ,5/434]

.

اب آتے ہیں تفسیر در منثور کی اس مذکورہ روایت کی سند کی طرف 

اسکی سند یہ ہے

قَرَأْتُ عَلَى الْحُسَيْنِ بْنِ يَزِيدَ الطَّحَّانِ هَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ: هُوَ مَا قَرَأْتُ عَلَى سَعِيدِ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ فُضَيْلٍ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ(مسند ابی یعلی روایت1075)

.حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ يَعْقُوبَ، حَدَّثَنَا أَبُو يَحْيَى التَّيْمِيُّ حَدَّثَنَا فُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ

(البزاز بحوالہ تفسیر ابن کثیر5/68)

.

دونوں سندوں میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ مرکزی راوی عطیہ ہے اور عطیہ راوی کے متعلق علمائے جرح و تعدیل کے اقوال ملاحظہ کیجئے 

ضعيف الحديث وكان شيعيا

عطیہ عوفی ضعیف الحدیث ہے اور یہ شیعہ تھا 

(سیراعلام النبلاء5/326)

.

2321 - عَطِيَّة بن سعد أَبُو الْحسن الْكُوفِي ضعفه الثَّوْريّ وهشيم وَيحيى وَأحمد والرازي وَالنَّسَائی

عطیہ بن سعد الکوفی کو امام ثوری نے امام هشيم نے امام یحییٰ نے امام احمد نے امام رازی نے امام نسائی نے ضعیف قرار دیا ہے 

[الضعفاء والمتروكون,2/180]

۔

عطبة بن سعد العوفى [الكوفي]

تابعي شهير ضعيف..كان عطية يتشيع

عطبة بن سعد العوفى الكوفي مشہور تابعی ہے ضعیف ہے اور اس میں شیعیت تھی 

[ميزان الاعتدال ,3/79]

.

وذكر عطية العوفى فقال هو ضعيف الحديث

عطیہ عوفی کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ یہ ضعیف الحدیث ہے 

[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم ,6/383]

.

وَقَال مسلم بن الحجاج: قال أحمد وذكر عطية العوفي، فقال: هو ضعيف الحديث....وكان يعد مع شيعة أهل الكوفة

امام مسلم نے فرمایا کہ امام احمد نے فرمایا کہ ذکر ہوا عطیہ عوفی کا تو فرمایا کہ وہ ضعیف الحدیث ہے اور یہ کوفی شیعوں میں شمار کیا جاتا تھا 

[تهذيب الكمال في أسماء الرجال148 ,20/147]

.


وَكَذَا ضعفه غير وَاحِد....وَكَانَ شِيعِيًّا

اسی طرح عطیہ عوفی کو کئی علماء نے ضعیف قرار دیا ہے اور یہ شیعہ تھا 

[الوافي بالوفيات ,20/56]

.

عطیہ عوفی کوفی جسکو اکابر علماء جرح و تعدیل نے ضعیف و غیر معتبر شیعہ راوی کہا جب ایسا راوی ایسی روایت کرے کہ جو صحیح روایت کے خلاف ہو عقل اور حقیقت کے بھی خلاف ہو اور اسکی روایت کی مثل و تائید کسی معتبر روایت سے نہ ہو تو یقینا اسکی ایسی منفرد روایت مردود ناقابل حجت کہلائے گی

.

صحیح روایت میں ہے کہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے سیدہ فاطمہ نے فدک طلب کیا مگر رسول کریم نہ دیا...


.لَمْ يُعْطِهِ أَحَدًا غیرہ

حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فدک وغیرہ اپنی ملکیت ہی میں رکھے کسی کو نہ دیے 

[صحيح البخاري حدیث3094]

اور تفصیلی دلائل تحریر کے شروع میں لکھ آئے،دوبارہ ملاحظہ کرسکتے ہیں...!!


✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App,twitter nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.