میسون زوجہ سیدنا معاویہ تابعیہ تھیں،چمن زمان کی شرط....؟؟

 *میسون بنت بحدل زوجہ سیدنا معاویہ کے متعلق چمن زمان کی کم علمی جہالت یا تجاہل عارفانہ یا ضد و ہٹ دھرمی یا بغض اور یزید کی تربیت کی جھلک اور سیدنا معاویہ کے متعلق شیعہ کتب سے دو حوالے.......؟؟*

.

چمن زمان نام نہاد محقق کہتا ہے کہ علماء نے یہ اصول بیان کیا ہے کہ سند بیان کرنا دین میں سے لیھذا یزید کی ماں (سیدنا معاویہ کی زوجہ)کا مسلمان ہونا سند کے ساتھ بیان کرو ورنہ اسلام ثابت نہیں،وہ بری تھی

.

جواب:

پہلی بات:

یہ اصول کہاں لکھا ہوا ہے کہ سند کے ذریعے سے ہی مسلمان ہونا ثابت ہوگا.....؟؟

اور

مزے کی بات یہ ہے کہ چمن زمان صاحب جس قاعدے پر اپ ڈٹے ہوئے ہیں اس قاعدہ کی بھی کوئی سند نہیں بلکہ ایک عالم کا قول تھا جسے علماء نے قبول کر لیا...تو ایسے معاملات معتبر علماء کا فرمانا ہی کافی ہے البتہ حدیث و آثار کے لیے سند ضروری ہے اور معتبر علماء نے سیدہ میسون زوجہ سیدنا معاویہ والدہ یزید کو تابعیہ لکھا ہے لیھذا اسلام ثابت ہوگیا،سند کی حاجت نہیں بلکہ معتبر عالم کا قول کافی ہے

.

دوسری بات:

 علمائے کرام نے لاکھوں بلکہ کروڑوں سے بھی زیادہ تعداد میں صحابہ و تابعین و تبع تابعین و ان کے بعد کے راویوں کے بارے میں لکھا کہ وہ مسلمان ہیں حلانکہ اکثر کی کوئی سند پیش نہ کی تو کیا ساری کتابیں جلا دی جائیں اور سب راویوں کو غیر مسلم برا بےنکاح تسلیم کر لیا جائے......؟؟

.

تیسری بات:

 پاک و ہند کے مسلمان پہلے مسلمان نہ تھے، پھر مسلمان ہوئے اور چمن زمان آپ کا بھی خاندان مسلمان ہوا ہوگا تو اپنے خاندان کے مسلمان ہونے کی سند دکھائیے ناں؟ ورنہ تسلیم کرو گے کہ آپ کے آباء و اجداد غیرمسلم برے بےنکاح کے تھے.....؟؟ پھر تو پاک و ہند بلکہ دنیا کے اکثر مسلمان اپنے مسلمان ہونے کی سند نہیں رکھتے تو کیا سب غیرمسلم و برے بےنکاح زانی تھے.....؟؟ نعوذ باللہ

.

چوتھی بات:

تم سیدنا معاویہ کی زوجہ میسون کا غیرمسلم ہونا اور برا ہونا صحیح سند سے ثابت کرو اپنے اصول مطابق......؟؟

.

پانچویں بات:

آپ اتنے جاہل ہو یا ہٹ دھرم ہو کہ اسلاف کے دوٹوک قواعد ہی نہیں جانتے یا جان کر جھٹلا رہے ہو....اسلاف فرما گئے کہ اسلاف جس کو بغیر سند کے بھی ثقہ کہیں وہ نیک مسلمان ہے،جس سے روایت لکھیں وہ مسلمان تو ضرور ہے البتہ کچھ علماء فرماتے ہیں کہ نیک ہی کہلائیں گے جیسے کہ امام اعظم ابو حنیفہ نے فرمایا تھا اور بعض نے فرمایا کہ برا اچھا نہ کہیں گے بلکہ توقف کریں گے کہ کسی امام نے جرح تا تعدیل کی ہے یا نہیں یا ثقہ راویوں نے روایت کی ہے یا نہیں....؟؟

.

وَقَدْ أَقَامَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ قَوْمًا مِنْ صَحَابَةِ نَبِيِّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ بَعْدَهُمْ، وَتَابِعِي التابعين وإلى يومنا هذا مَنْ يُبَيِّنُ أَحْوَالَهُمْ، وَيُنَبِّهُ عَلَى الضُّعَفَاءِ مِنْهُمْ، وَيَعْتَبِرُ رِوَايَاتِهِمْ ليُعْرَف بِذَلِكَ صَحِيحُ الْأَخْبَارِ مِنْ سَقِيمِهَا

 اللہ تعالی نے صحابہ کرام تابعین عظام تبع تابعین اور اس کے بعد ہمارے زمانے تک ایسے لوگ محدثین جارحین نقاد پیدا فرمائے ہیں کہ جو راویوں کے احوال بیان کرتے ہیں ان کا ضعیف ہونا یا ان کا غیرمعتبر ہونا یا معتبر ہونا بیان کرتے ہیں

(الکامل فی ضعفاء الرجال 1/78)

 دیکھا آپ نے سند کی شرط نہیں لگائی بلکہ معتبر علماء کے قول ہونے کو ہی سند کا درجہ حاصل ہے... اکثر جرح و تعدیل و سیر و تاریخ کی کتب اسلاف اس طرح بھری پڑی ہیں کہ انہوں نے راویوں پر جرح کی ہے یا عادل و اچھا کہا ہے تو انہوں نے علماء کی زبان پر اعتبار کرتے ہوئے ماہرین کی زبان پر اعتبار کرتے ہوئے کہا ہے...اکثر کوئی سند بیان ہی نہیں کی ہے

.

علام ابن کثیر علامہ صغانی،  علامہ ابن حجر عسقلانی امام دارقطنی اور خطیب بغدادی جیسے علماء نے سیدنا معاویہ کی زوجہ میسون بنت بحدل پر کوئی جرح نہ کی بلکہ روایت لکھی بلکہ علامہ صغانی علامہ زبیدی نے دوٹوک تابعیہ لکھا اور علامہ ابن کثیر نے عظیم الشان دین والی لکھا تو ان علماء کے اقوال پر اعتماد لازم ہے...بدگمانی جرم

لیھذا

سیدہ میسون بنت بحدل زوجہ صحابی سیدنا معاویہ کا مسلمان و اچھا ہونا ثابت ہوگیا

.

وَقد قبل رِوَايَته) أَي المستور، (جمَاعَة) مِنْهُم أَبُو حنيفَة رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ، (بِغَيْر قيد) يَعْنِي بعصر دون عصر ذكره السخاوي. وَقيل: أَي بِغَيْر قيد التوثيق وَعَدَمه، وَفِيه أَنه إِذا وثق خرج عَن كَونه مَسْتُورا، فَلَا يتَّجه قَوْله: بِغَيْر قيد. وَاخْتَارَ هَذَا القَوْل، ابْن حبَان تبعا للْإِمَام الْأَعْظَم؛ إِذا الْعدْل عِنْده: من لَا يعرف فِيهِ الْجرْح، قَالَ: وَالنَّاس فِي أَحْوَالهم على الصّلاح وَالْعَدَالَة حَتَّى يتَبَيَّن مِنْهُم مَا يُوجب الْقدح، وَلم يُكَلف النَّاس مَا غَابَ عَنْهُم، وَإِنَّمَا كلفوا الحكم للظَّاهِر،وَقيل: إِنَّمَا قبل أَبُو حنيفَة رَحمَه الله فِي صدر الْإِسْلَام حَيْثُ كَانَ الْغَالِب على النَّاس الْعَدَالَة، فَأَما الْيَوْم فَلَا بُد من التركيز لغَلَبَة الْفسق، وَبِه قَالَ صَاحِبَاه أَبُو يُوسُف، وَمُحَمّد

راوی جسکا کوئی اتہ پتہ نہ ہو مجھول ہو اسکے متعلق امام ابو حنیفہ اور امام ابن حبان فرماتے ہیں کہ اس کو مسلمان اور نیک ہی سمجھا جائے گا کہ اصل بات مسلمان ہونا اور نیک ہونا ہی ہے کہ وہ حدیث پاک کو روایت کر رہا ہے اور اس کے متعلق کوئی منفی بات کوئی جرح کی بات ثابت ہی نہیں ہے تو لہٰذا اس کو نیک اور مسلمان ہی سمجھا جائے گا....کہا گیا ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ نے رجوع کر لیا تھا اس قول سےامام ابو یوسف اور امام محمد کے قول کی طرف....اس وجہ سے کہ پہلے کے لوگ یعنی صحابہ اور تابعین میں جھوٹ بولنا نہ تھا تو اس لیے ان کا مجھول ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن بعد کے لوگوں میں جھوٹ زیادہ ہوگیا تو لہذا بعد کے راویوں میں غالب گمان پر عمل کیا جائے گا

(شرح نخبۃ الفکر مولا علی قاری ص158..159)

جب مجھول کے متعلق ایسا قاعدہ ہے کہ سند کی بھی حاجت نہیں تو میسون کے متعلق تو دوٹوک لکھا ہے کہ تابعیہ ہیں...تو بغیر سند کے علماء کے قول مطابق کم از کم  غالب گمان بھی یہی ہے کہ آپ مسلمان نیک پارسا تھیں

.

وتُعرف العدالة الظاهرة: برواية عدلين ثقتين. أو برواية ثقة واحد، بشرط أن يكون من العلماء النُقّاد، فلو روى ناقدٌ عن أحد الرواة -الذين لا نعرف فيهم جرحاً ولا تعديلاً- فقد عُرفت عدالته الظاهرة

 ایک مجھول راوی ہو جس کے متعلق کوئی جرح ثابت نہ ہو کوئی تعدیل ثابت نہ ہو تو مگر اس سے اگر صرف ایک ثقہ راوی نقل کرے یا دو عادل راوی نقل کریں تو اس سے اس کا مسلمان ہونا ثابت ہوجائے گا پارسا ہونا نیک ہونا ثابت ہو جائے گا

(التخريج ودراسة الأسانيد ص83)

جب مجھول کے متعلق سند کی حاجت نہیں صرف ثقہ راوی اس سے روایت کرے یا دو راوی روایت کریں تو اس کو مسلمان ہونا نیک ہونا عادل ہونا ثابت ہوجائے گا

تو

میسون زوجہ سیدنا معاویہ کے متعلق تو دوٹوک ہے کہ تابعیہ اور عظیم الشان دیندار تھیں تو اس کے متعلق کہنا کہ بری تھی سند دکھاؤ... ضرور ایسا کہنے والے کی دال میں کچھ کالا ضرور ہے

.

ہم نے جو کہا ہے کہ عادل ہونا ثابت ہو گا اور عادل سے مراد مسلمان و نیک ہونا ہے اسکا حوالہ یہ ہے

تعريف العدالة الظاهرة: الإسلام وعدم العلم بالمفسق

ظاہری عادل سے مراد مسلمان غیرفاسق برا نہ ہونا مراد ہے

(ظاہری عدالت ثابت ہو جائے تو وہ مسلمان ثابت ہو جائے گا اور گناہ گار ثابت نہ ہوگا)

(خلاصة التأصيل لعلم الجرح والتعديل ص12)

.

بـ (العدالة الظاهرة)، وهي: الإسلام، والسلامة من القادح في الدين

ظاہری عادل سے مراد مسلمان غیرفاسق برا نہ ہونا مراد ہے

(ظاہری عدالت ثابت ہو جائے تو وہ مسلمان ثابت ہو جائے گا اور اسکے دین میں کوئی خرابی گناہ گمراہی کفر شرک وغیرہ) ثابت نہ کہلائے گی)

(تحرير علوم الحديث1/249)

.

وهي التي دخل عليها خَصِيٌّ، فاستترَتْ منه

 ایک دفعہ یزید کی والدہ میسون جب سیدنا معاویہ کے پاس تھی کہ اچانک ایک خصی شدہ غلام آیا تو یزید کی والدہ نے اس سے پردہ کیا

(مرآة الزمان في تواريخ الأعيان8/98)

.

وَكَانَتْ حَازِمَةً عَظِيمَةَ الشَّأْنِ جَمَالًا وَرِيَاسَةً وَعَقْلًا وَدِينًا، دَخَلَ عَلَيْهَا مُعَاوِيَةُ يَوْمًا وَمَعَهُ خَادِمٌ خَصِيٌّ، فَاسْتَتَرَتْ مِنْهُ، وَقَالَتْ: مَا هَذَا الرَّجُلُ مَعَكَ؟ فَقَالَ: إِنَّهُ خَصِيٌّ، فَاظْهَرِي عَلَيْهِ. فَقَالَتْ: مَا كَانَتِ الْمُثْلَةُ لِتُحِلَّ لَهُ مَا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ. وَحَجَبَتْهُ عَنْهَا

 یزید کی والدہ میسون عظیم الشان تھی دین کے اعتبار سے عقل کے اعتبار سے ریاست کے اعتبار سے.. ایک دفعہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ ایک خصی شدہ غلام کے ساتھ تشریف لائے تو یزید کی والدہ نے پردہ کر لیا سیدنا معاویہ نے وجہ پوچھی تو فرمایا کہ مثلہ یعنی خصی ہونا یہ کسی چیز کو حلال نہیں کر سکتا جس کو اللہ نے حرام کیا ہو

(البداية والنهاية ت التركي11/463)

.

علامہ بشیر یموت نے سیدنا معاویہ کی زوجہ والدہ یزید میسون کو اسلامی شاعرہ قرار دیا

(شاعرات العرب ص157)

.

علامہ صغانی کے مطابق بھی یزید کی والدہ میسون مسلمان تابعیہ ہیں:

وميسون أمّ يزيدَ بنِ معاوية من التَّابِعِيّات

 یزید کی والدہ میسون تابعیہ مسلمان تھیں

(كتاب التكملة والذيل والصلة للصغاني3/434)

.

علامہ ابن حجر عسقلانی کے مطابق بھی یزید کی والدہ میسون مسلمان تابعیہ ہیں

ميسون بنت بحدل الكليبة، والدة يزيد بن معاوية، روت عن معاوية

 یزید کی والدہ اور سیدنا معاویہ کی زوجہ میسون نے سیدنا معاویہ سے حدیث روایت کی ہے(بھلا غیر مسلم سے کوئی حدیث روایت کرتا ہے؟ نہیں ناں.... تو اسکا مطلب یزید کی والدہ نے اسلام قبول کر لیا تھا اور اسلام پر وفات پائی)

(تبصیر المنتبہ4/1280)

.

امام دارقطنی اور خطیب بغدادی کے مطابق بھی یزید کی والدہ میسون مسلمان تابعیہ ہیں:

ميسون بنت بحدل زاد علي بن عمر امرأة معاوية ثم قالا عن معاوية أن النبي (صلى الله عليه وسلم) قال " سيكون قوم ينالهم الإخصاء فاستوصوا بهم خيرا "أو نحو هذا من الكلام قال أبو الحسن الدارقطني غريب

 سیدنا معاویہ کی گھر والی میسون نے روایت کیا ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ عنقریب ایسی قوم آئے گی کہ ان کو خصی کیا جائے گا تو ان کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرنا یا اس طرح کے کچھ الفاظ فرمائے...امام دار قطنی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے(یعنی ضعیف ہے)

(تاريخ دمشق لابن عساكر70/131)

بھلا غیر مسلم سے کوئی حدیث روایت کرتا ہے؟ ہرگز نہیں... اسکا مطلب یزید کی والدہ میسون نے اسلام قبول کر لیا تھا اور اسلام پر وفات پائی

.

وَهِي مِن التَّابِعِيَّاتِ

 یزید کی والدہ میسون تابعیہ مسلمان تھیں

(تاج العروس من جواهر القاموس16/529)

.

*تابعی کہتے ہی اسکو ہیں جس نے اسلام پے وفات پائی ہو اور صحابی کی صحبت پائی ہو*

: هو من لقي صحابيا مسلما، ومات على الإسلام

 تابعی اس مسلمان کو کہتے ہیں کہ جس کی اسلام پر وفات ہوئی ہو اور اس نے صحابی کی صحبت پائی ہو

(تيسير مصطلح الحديث ص247)

.

*تابعین کرام کی فضیلت بزبان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ملاحظہ فرمائیے...!!*

الحدیث

 قال النبي صلى الله عليه وسلم:" خيركم قرني، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم.

ترجمہ:

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تم میں سب سے بہتر میرے زمانہ کے لوگ (صحابہ) ہیں۔ پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں گے (تابعین) پھر وہ لوگ جو اس کے بھی بعد آئیں گے۔ (تبع تابعین)...(بخاری حدیث2651)


.

الحدیث:

 ابي سعيد الخدري ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " ياتي على الناس زمان يغزو فئام من الناس، فيقال لهم: فيكم من راى رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فيقولون: نعم، فيفتح لهم، ثم يغزو فئام من الناس، فيقال لهم: فيكم من راى من صحب رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فيقولون: نعم، فيفتح لهم، ثم يغزو فئام من الناس، فيقال لهم: هل فيكم من راى من صحب من صحب رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فيقولون: نعم، فيفتح لهم "

ترجمہ:

‏‏‏‏ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ایک زمانہ  آئے گا کہ جہاد کریں گے آدمیوں کے جھنڈ تو ان سے پوچھیں گے کہ کوئی تم میں وہ شخص ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو دیکھا ہو تو لوگ  کہیں گے کہ ہاں! تو(صحابہ کرام کی برکت سے) فتح ہو جائے گی ان کی پھر

جہاد کریں گے لوگوں کے گروہ تو ان سے پوچھیں گے کہ کوئی ہے تم میں سے جس نے دیکھا ہو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی کو یعنی تابعین میں سے  کوئی ہے، لوگ کہیں گے: ہاں! پھر(تابعین کی برکت سے) ان کی فتح ہو جائے گی،

پھر جہاد کریں گے آدمیوں کے لشکر تو ان سے پوچھا جائے گا کہ کوئی ہے تم میں ایسا جس نے صحابی کے صاحب کو دیکھا ہو یعنی تبع تابعین میں  سے،  لوگ کہیں گے: ہاں! تو ان کی فتح ہو جائے گی

(مسلم حدیث6467باب: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تابعین اور تبع تابعین رحمهم اللہ کی فضیلت کا بیان۔)

.

*سوال...یزید کی والدہ اچھی تھی تو سیدنا معاویہ نے طلاق کیوں دی.....؟؟*

مختلف وجوہات بیان ہوئی ہیں لیکن ہمیں یہ  وجہ اقوی و احسن و لائق تابعیہ لگی کہ انکا دل  فطری طور پے شہر میں نہیں لگتا تھا انکا دل فطری طور پر دیہات پسند کرتا تھا، جب فطری دل لگی میں کمی محسوس کی سیدنا معاویہ نے تو طلاق دی

ميسون بنت بحدل بن أنيف الكلبي. أم يزيد بن معاوية تزوجها معاوية وطلقها من فرط حنينها إلى البادية 

 میسون بنت بحدل یزید کی والدہ ہیں سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر والی ہیں، سیدنا معاویہ نے ان سے نکاح کیا تھا اور پھر ان کو اس وجہ سے طلاق دی تھی کہ انکو دیہات سے سخت محبت تھی

(شاعرات العرب في الجاهلية والإسلام ص157)

.

وكانت بدوية، ثقلت عليها الغربة عن قومها لما تزوجت بمعاوية في الشام، فسمعها تقول هذه الأبيات، فطلقها

 یزید کی والدہ میسون بنت بحدل دیہاتی تھیں سیدنا معاویہ جب ان کو نکاح کرکے شام لے آئے تو ان پر دیہات کی جدائی گراں گذری اور دیہات کی شان میں اس کی یاد میں شعر کہنے لگیں تو یہ شعر سیدنا معاویہ نے سنے تو انہوں نے ان کو طلاق دے دی

(الأعلام للزركلي7/339)

.

*اب ہم یزید کے والد سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق کچھ حوالہ جات پیش کر رہے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ برے نہ تھے انہوں نے یزید کی اچھی تربیت کی تھی*

سیدنا معاویہ نے کیا تربیت دی ایک جھلک ملاحظہ کیجیے

لَعَلَّكَ تَظُنُّ أَنَّ أُمَّكَ مِثْلُ أُمِّهِ، أَوْ جَدَّكَ كَجَدِّهِ، فَأَمَّا أَبُوْكَ وَأَبُوْهُ فَقَدْ تَحَاكَمَا إِلَى اللهِ، فَحَكَمَ لأَبِيْكَ عَلَى أَبِيْهِ

سیدنا معاویہ نے فرمایا خبردار اے میرے بیٹے یزید........!!

تو شاید یہ گمان کرے کہ تمہاری ماں حسین کی ماں کی طرح ہے یا تمہارا دادا اس کے دادا کی طرح ہے یا تمہارا باپ اس کے باپ کی طرح ہے یہ گمان ہرگز نہ کرنا..... سیدنا حسین کا بابا تمہارے بابا سے زیادہ افضل ہے

( سير أعلام النبلاء - ط الرسالة3/260)

.

حتی کہ شیعہ مصنف نے بھی لکھا کہ:

فاحفظ قرابته من رسول الله صلى الله عليه وسلم ، واعلم يابني ان اباه خير من ابيك وجده خير من جدك وامه خير من امك

 سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے یزید کو تنبیہ فرمائی کہ امام حسین کا خیال رکھنا وہ رسول اللہ کے رشتہ دار ہیں... اے میرے بیٹے جان لو کہ سیدنا حسین کے بابا جان تمہارے بابا جان سے زیادہ بہترین اور افضل ہیں اور ان کے دادا تمہارے دادا سے زیادہ بہترین افضل ہے اور ان کی والدہ تمہاری والدہ سے زیادہ بہترین و افضل ہے

(شیعہ کتاب مقتل الحسین ص13)

.

انصاف کی نگاہ سے دیکھیے اہلبیت کے متعلق سیدنا معاویہ یزید کی کیسی تربیت فرما رہے ہیں......؟؟

حتی کہ

عام مجالس و محافل میں سیدنا معاویہ ایک طرح سے دعوت و نصیحت و تربیت کرتے تھے کہ دیکھو ہمارا فروعی اختلاف تھا مگر اہلبیت افضل ہیں انکا خیال رکھنا

قَالَ مُعَاوِيَةُ لِضَرَارٍ الصَّدَائِيِّ : يَا ضَرَّارُ، صِفْ لِي عَلِيًّا....فبكى مُعَاوِيَة وَقَالَ: رحم الله أَبَا الْحَسَن، كَانَ والله كذلك، فكيف حزنك عَلَيْهِ يَا ضرار؟ قَالَ: حزن من ذبح ولدها  وَهُوَ فِي حجرها. وكان مُعَاوِيَة يكتب فيما ينزل بِهِ ليسأل لَهُ علي بْن أَبِي طالب رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ ذَلِكَ، فلما بلغه قتله قَالَ: ذهب الفقه والعلم بموت ابْن أَبِي طالب

 سیدنا معاویہ نے سیدنا ضرار سے کہا کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی شان بیان کرو میں سننا چاہتا ہوں... سیدنا ضرار نے طویل شان بیان کی اور سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ روتے ہوئے فرمانے لگے اللہ کی قسم سیدنا علی ایسے ہی تھے... اے ضرار تمہیں سیدنا علی کی وفات پر جو غم ہے وہ بیان کرو... سیدنا ضرار نے فرمایا کہ مجھے غم ایسا ہے جیسے کسی کی اولاد اس کی جھولی میں ہی شہید کر دی جائے.... سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالئ عنہ مسائل میں سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف لکھ کر پوچھا کرتے تھے جب سیدنا معاویہ کو سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات کی خبر ملی تو فرمایا کہ آج فقہ اور علم چلا گیا

(الاستيعاب في معرفة الأصحاب ,3/1108)

.

.

*اہلبیت کے مطابق بھی سیدنا معاویہ اچھے تھے......!!*

فنعى الوليد إليه معاوية فاسترجع الحسين...سیدنا حسین کو جب سیدنا معاویہ کی وفات کی خبر دی گئ تو آپ نےاِنَّا لِلّٰہِ وَ  اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ پڑھا…(شیعہ کتاب اعلام الوری طبرسی1/434) مسلمان کو کوئی مصیبت،دکھ ملےتو کہتے ہیں اِنَّا لِلّٰہِ وَ  اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ(سورہ بقرہ156)ثابت ہوا سیدنا معاویہ امام حسین کے مطابق کافر ظالم منافق دشمن برے ہرگز نہ تھے جوکہ مکار فسادی نافرمان دشمنان اسلام گستاخانِ معاویہ کے منہ پر طمانچہ ہے

.

هذا ما صالح عليه الحسن بن علي بن أبي طالب معاوية بن أبي سفيان: صالحه على أن يسلم إليه ولاية أمر المسلمين، على أن يعمل فيهم بكتاب الله وسنة رسوله صلى الله عليه وآله وسيرة الخلفاء الصالحين

(شیعوں کے مطابق)امام حسن نے فرمایا یہ ہیں وہ شرائط جس پر میں معاویہ سے صلح کرتا ہوں، شرط یہ ہے کہ معاویہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ اور سیرتِ نیک خلفاء کے مطابق عمل پیرا رہیں گے

(شیعہ کتاب بحار الانوار جلد44 ص65)

سیدنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے "نیک خلفاء کی سیرت" فرمایا جبکہ اس وقت شیعہ کے مطابق فقط ایک خلیفہ برحق امام علی گذرے تھے لیکن سیدنا حسن "نیک خلفاء" جمع کا لفظ فرما رہے ہیں جسکا صاف مطلب ہے کہ سیدنا حسن کا وہی نظریہ تھا جو سچے اہلسنت کا ہے کہ سیدنا ابوبکر و عمر و عثمان و علی رضی اللہ عنھم خلفاء برحق ہیں تبھی تو سیدنا حسن نے جمع کا لفظ فرمایا...اگر شیعہ کا عقیدہ درست ہوتا تو "سیرت خلیفہ" واحد کا لفظ بولتے امام حسن....اور دوسری بات یہ بھی اہلسنت کی ثابت ہوئی کہ "قرآن و سنت" اولین ستون ہیں کہ ان پے عمل لازم ہے جبکہ شیعہ قرآن و سنت کے بجائے اکثر اپنی طرف سے اقوال گھڑ لیتے ہیں اور اہلبیت کی طرف منسوب کر دیتے ہیں

اور

اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی ساری زندگی میں خلافت و سیاست میں شریعت مطہرہ قرآن و حدیث اور خلفائے راشدین کی پیروی کرتے رہے ہاں فروعی اجتہادی مسائل میں اجتہاد بھی کرتے رہے وہاں خطاء ممکن ہے لیکن شریعت مطہرہ قرآن و حدیث و خلفاء راشدین کی پیروی نہ کی ہوتی تو ضرور امام حسن اور حسین بلکہ دیگر صحابہ کرام بیعت توڑ دیتے اور حق کے لیے نکل آتے چاہے جان ہی کیوں نہ چلی جاتی جیسے کہ یزید کے معاملے میں باہر نکل آئے

.


*وسوسہ پیدا ہوتا ہے کہ تربیت اچھی تھی تو ایک دم سے کوئی شخص کیسے بدل جاتا ہے..ضرور تربیت میں گڑ بڑ ہوگی....؟؟*

تو لیجیے حدیث پاک پڑہیے

إِنَّ الْعَبْدَ لَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ النَّارِ، وَإِنَّهُ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَإِنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، وَإِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالْخَوَاتِيمِ

 کوئی بندہ جہنم والے کام کرتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے اور کوئی بندہ جنت والے کام کرتا ہے وہ جہنمی ہوتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اعمال کا دار و مدار خاتمہ پر ہے(اگر موت سے پہلے پہلے اچھے کام کرے گا تو جنتی، برے کام کرے گا تو جہنمی)

(بخاری حدیث6607)

 اس حدیث پاک سے بالکل واضح ہوتا ہے کہ کوئی شخص شروع شروع میں اچھا ہوتا ہے اس کی تربیت اچھی ہوتی ہے لیکن پھر وہ اپنے نفسانی خواہشات پر عمل کرکے یا کسی شیطانی وسوسوں پے عمل کرکے یا کسی بھی وجہ سے  برے کام کرتا ہے اور جہنمی بن جاتا ہے

لیھذا

اچھی تربیت سے ہی لوگ جنتی بن جائیں یہ لازم نہیں ہے اچھی تربیت کے ساتھ ساتھ اچھے خاتمے کی بھی دعا کرنی چاہیے

.

*بیعت کےوقت یزید پلید نااہل و برا نہ تھا لیھذا سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن کہ برے و نا اہل کو ولی عہد کیا جھوٹ ہے لیھذا یہ اعتراض کہ یزید کے والدین نے تربیت بری کی،جھوٹ ہے..........!!*

جب یزید کی لئے بیعت لی گئ، بیعت کی گئی تو اس وقت یزید برا نہ تھا ، نا اہل نہ تھا ، بعد میں پلید ظالم برا فاسق و فاجر بنا یا ظاہر ہوا....بیعت کے وقت نااہل و برا نہ تھا اس پر ہم مختصراً حق چار یار کی نسبت سے چار دلائل  پیش کر رہے ہیں 

*دلیل نمبر 1*

بَلَغَ ابْنَ عُمَرَ أَنَّ يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ بُويِعَ لَهُ فَقَالَ: «إِنْ كَانَ خَيْرًا رَضِينَا , وَإِنْ كَانَ شَرًّا صَبَرْنَا

جب صحابی سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ خبر پہنچی کہ یزید بن معاویہ کی بیعت کی گئی ہے تو آپ نے فرمایا کہ اگر اچھا نکلا تو ہم راضی ہو جائیں گے اور اگر برا نکلا تو ہم صبر کر لیں گے 

(استادِ بخاری مصنف ابن أبي شيبة ,6/190روایت30575)

صحابی سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا یہ کہنا کے اگر برا نکلا واضح دلیل ہے کہ اس وقت یزید  برا نہیں تھا


.

*دلیل نمبر 2*

 بايعه ستون من أصحاب رسول الله - صلى الله عليه وسلم

ساٹھ صحابہ کرام نے یزید کی بیعت کی

(عمدة الأحكام الكبرى1/42)

(ذيل طبقات الحنابلة3/55)

بھلا کیسے ہو سکتا ہے کہ اتنے صحابہ کرام کسی شرابی زانی بے نمازی فاسق و فاجر نااہل کی بیعت کریں۔۔۔۔؟؟

.

.

*دلیل نمبر3*

اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي وَلَّيْتُهُ لِأَنَّهُ فِيمَا أَرَاهُ أَهْلٌ لِذَلِكَ فَأَتْمِمْ لَهُ مَا وَلَّيْتُهُ، وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي إِنَّمَا وَلَّيْتُهُ لِأَنِّي أُحِبُّهُ فَلَا تُتْمِمْ لَهُ مَا وَلَّيْتُهُ

سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے جب یزید کے لیے بیعت لے لی تو آپ یہ دعا فرمایا کرتے تھے کہ اللہ اگر تو جانتا ہے کہ میں نے اپنے بیٹے کو اس لیے ولی عہد کیا ہے کہ وہ اس کا اہل ہے تو اس کو ولی عہدی عطا فرما اور اگر تو جانتا ہے کہ میں نے اس کو ولی عہد محض اس لئے بنایا ہے کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں تو اس کے لیے ولی عہدی کو مکمل نہ فرما

(البداية والنهاية ط هجر11/308)

صاف ظاہر ہوتا ہے کہ سیدنا معاویہ نے بیٹے کو اہل اچھا سمجھتے تھے تب بھی تو ان کے لئے بیعت لی اور آگے کے لئے دعا فرمائی

.

*دلیل نمبر4*

تمام معتبر کتب میں لکھا ہے کہ دو تین صحابہ کرام نے یزید کی بیعت نہ کی تو انہوں نے بیعت نہ کرنے کی وجہ یہ بتائی کہ یہ طریقہ ولی عہدی مروجہ ماثورہ نہیں ہے بلکہ سیدنا معاویہ کا(اجتہاد کردہ)نیا طریقہ ہے۔۔۔اگر یزید نااہل ہوتا زانی شرابی فاسق و فاجر ہوتا تو صحابہ کرام ضرور اعتراض میں اس چیز کا تذکرہ کرتے... صحابہ کرام کو کوئی عذر معلوم نہ ہوا سوائے اس کے کہ ولی عہدی اسلام میں ایک نیا طریقہ ہے 

ويزيد أخوكم، وابن عمَكم، وأحسن النَّاس فيكم رأيًا، وإنما أردت أن تقدموه، وأنتم الذين تنزعون وتؤمرون وتقسمون، فسكتوا، فَقَالَ: ألَّا تجيبوني! فسكتوا، فأقبل عَلَى ابن الزبير فقال: هات  يابن الزبير، فإنك لعَمْري صاحب خطبة القوم. قَالَ: نعم يَا أمير المؤْمِنِينَ، نخيرك بَيْنَ ثلاث خصال، أيها مَا أخذتَ فهو لك، قَالَ: للَّهِ أَبُوك، اعرضهنّ، قَالَ: إن شئتَ صُنع مَا  صنع رَسُول اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنَّ صُنع مَا صنع أَبُو بكر، وإن شئت صُنع مَا صنع عمر. قَالَ: مَا صنعوا؟ قَالَ: قُبِضَ  رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فلم يعهد عهدًا، وَلَمْ يستخلف أحدًا، فارتضي المسلمون أبا بكر. فَقَالَ: إِنَّهُ ليس فيكم  الْيَوْم مثل أَبِي بكر، إن أبا بكر كَانَ رجلًا تُقطع دونه الأعناق، وإني لست آمن عليكم الاختلاف. قَالَ: صدقت، واللَّه مَا نحب أن تدعنا، فاصنع ماصنع أَبُو بكر. قَالَ: للَّهِ أَبُوك وَمَا صنع؟ قَالَ: عمد إِلَى رَجُلٌ من قاصية11 قريش،  ليس من رهطه فاستخلفه، فإن شئت أن تنظر أي رَجُلٌ من قريش شئت، ليس من بني عَبْد شمس، فنرضى بِهِ. قَالَ: فالثالثة مَا هِيَ؟ قَالَ: تصنع مَا صنع عمر. قَالَ: وَمَا صنع؟ قَالَ: جعل الأمر شورى في ستة،  ليس فِيهِم أحد من ولده، وَلَا من بني أبيه، وَلَا من رهطه. قَالَ: فهل عندك غير هَذَا؟ قَالَ: لَا،

انظر: البداية "8/ 56-58"، تاريخ الطبري "5/ 270-276"، الكامل "3/ 490"

(تاريخ الإسلام ط التوفيقية4/77,78)

.

مفتی جلال الدین امجدی علیہ الرحمہ جن کا شمار اکابر علماے اہل سنت میں ہوتا ہے ، آپ کا "فتاوی فیض الرسول" مشہور زمانہ ہے ، آپ بعض اذہان کے اندر اور زبانوں کے اوپر آنے والے ایک اعتراض کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

"رہا یزید کا فسق و فجور تو کہیں یہ ثابت نہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی زندگی میں یزید فاسق و فاجر تھا ، اور نہ ہی یہ ثابت ہے کہ انہوں نے یزید کو فاسق و فاجر جانتے ہوئے اپنا جانشین بنایا ، یزید کا فسق و فجور دراصل حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد ظاہر ہوا ، اور فسق ظاہر ہونے کے بعد فاسق قرار دیا جاتا ہے نہ کہ پہلے "

(سیرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ، ص 37)

.

*بیٹے کے کرتوت کی وجہ سے والدین پر حرف نہیں آتا......!!*

القرآن:

 وَ لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ  وِّزۡرَ  اُخۡرٰی

کسی جان(مرد و عورت) کے کرتوتوں(گناہ کفر شرک برائی) کا بوجھ کسی اور جان پر نہیں ہوگا(سوائے اس کے کہ اسکا ملوث ہونا ثابت ہوجائے)

(سورہ انعام آیت164)

.

الحديث:

أَمَا إِنَّهُ لَا يَجْنِي عَلَيْكَ وَلَا تَجْنِي عَلَيْهِ ". وَقَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : { وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى }

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس بیٹے کے کرتوت(گناہ کفر شرک برائی)کا بوجھ تم پر نہیں ہوگا اور تمھارے کرتوت(گناہ کفر شرک برائی)کا بوجھ تمھارے بیٹے پر نہیں ہوگا

(ابوداود حدیث4495)

.

وَإِنَّمَا خُصَّ الْوَلَدُ وَالْوَالِدُ لِأَنَّهُمَا أَقْرَبُ الْأَقَارِبِ، فَإِذَا لَمْ يُؤَاخَذْ بِفِعْلِهِ فَغَيْرُهُمَا أَوْلَى

 جب سب سے قریبی شخص والد و بیٹے کے کرتوتوں(گناہ کفر شرک برائی)کا مواخذہ ایک دوسرے سے نہیں ہوگا تو دیگر لوگوں سے بھی بدرجہ اولیٰ نہیں ہوگا(سوائے اس کے کہ باپ بیٹا یا کوئی اور ملوث ہو تو وہ بھی گناہ کرتوت میں شامل کہلائے گا)

(مرقاۃ شرح مشکاۃ5/1843)

.

اس قسم کی آیت کو دلیل بنا کر سیدہ عائشہ طیبہ طاہرہ فرماتی ہیں:

وذهبت عائشة إلى أن أحدًا لا يعذب بفعل غيره، وهو أمر مجتمع عليه، لقوله تعالى: (ولا تزر وازرة وزر أخرى)

 سیدہ عائشہ طیبہ طاہرہ فرماتی ہیں کہ کسی شخص کو دوسرے شخص کے گناہ کی وجہ سے کرتوت کی وجہ سے عذاب نہیں دیا جائے گا اور اس پر تمام صحابہ کرام علماء اسلام وغیرہ کا اجماع ہے سب یہی کہتے ہیں کیونکہ آیت میں ہے کہ کسی جان(مرد و عورت) کے کرتوتوں(گناہ کفر شرک برائی) کا بوجھ کسی اور جان پر نہیں ہوگا(سوائے اس کے کہ اسکا ملوث ہونا ثابت ہوجائے)

(شرح صحيح البخاري - ابن بطال3 /275)

.

اس قسم کی آیت کو دلیل بنا کر امام شافعی فرماتے ہیں

أَنْ لَا يُؤْخَذَ أَحَدٌ بِذَنْبِ غَيْرِهِ

 کسی کے گناہ سے دوسرے کی پکڑ(گناہ مذمت)نہ ہوگی

(السنن الكبرى - البيهقي - ط العلمية8/599)

.

الحاصل:

 یزید کے والدین نے بری تربیت کی ہو ایسا کچھ بھی صحیح سند کے ساتھ یا معتبر کتاب کے حوالے سے نہیں آیا بلکہ کتب میں آیا ہے کہ یزید کے والدین اچھے تھے حتی کہ اقتدار ملنے سے پہلے پہلے  یزید بھی اچھا تھا پھر اقتدار کے نشے میں یا نفسانی خواہشات میں وہ برا پلید بن گیا، اگر کوئی برا بن جائے تو اسکے والدین رشتے داروں پر کسی پر اعتراض نہیں جب تک کہہ پختہ ثبوت سے کسی کے ملوث ہونے کا ثبوت نہ مل جائے

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App,twitter nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.