فوج عوام عدلیہ لیڈر علماء کس کی حکمرانی چلے گی...؟؟ کون قانون سے بالاتر...؟؟ افراتفری کا حل...مت نکلیے،نہ سنو،نہ مانو

 *توہینِ چیف...؟؟ پولیس فوج سے عوام کا ٹکراؤ....؟؟توہیںِ پارلیمنٹ..؟؟ توہین عدلیہ..؟؟ توہینِ عوام..؟؟جب تک حق سچ واضح نہ ہو عوام کسی جج جرنل لیڈر وغیرہ کی اندھا دھند پیروی نہ کرے،نہ نکلے،نہ سنے،نہ مانے،نہ فساد کرے،نہ

تنقید و مذمت کرے بلکہ پرامن ہوکر نکلے اور جج جرنیل لیڈرز سب کی تحقیقات کا مطالبہ کرے،دلائل و شواہد مانگے، حق سچ کی پہچان کے لیے معتبر اہلسنت علماء کو نمائندہ بنائے...عدلیہ فوج پارلیمنٹ کسی کی حکمرانی اسلام کے ماتحت ہوتو ٹھیک ورنہ انکی نہ سنو، نہ مانو.... عدلیہ فوج وزرا عوام سب کا احتساب ہونا چاہیے اور مسلمان کی مدد جاری رکھنی چاہیے اگرچہ اب وہ بیمار بوڑھا ہوکر مفید نہ رہا ہو.......!!*

الحدیث:

لَا يَظْلِمُهُ، وَلَا يَخْذُلُهُ ، وَلَا يَحْقِرُهُ،

 کسی مسلمان پر ظلم نہ کرو اور کسی مسلمان کو بےیار و مددگار مت چھوڑو اور کسی مسلمان کو(ناحق)حقیر و کمتر نہ سمجھو،نہ کہو..(مسلم حدیث2564)

.

ہر مسلمان عزت کا مستحق ہے چاہے وہ عام آدمی ہو یا کوئی عالم مفتی پیر فقیر لیڈر جج وکیل وزیر مشیر فوجی پولیس چیف.....سوائے اس کے کہ وہ خود کوئی ایسے کرتوت کرے جو واضح برے ہوں تو اب سمجھایا جائے گا...سمجھ جائے تو تھیک ورنہ اسے سرعام برا کہا جائے گا اسے سزا بھی ہوسکتی ہے...اسکا احتساب کیا جائے گا....

.

توہین عدلیہ اور توہین پارلیمنٹ اور توہین فوج کو مطلقاجرم کہنا ٹھیک نہیں، ان میں سے کوئی بھی مختار کل و نواب نہیں، ان سب کے اختیارات لامحدود نہیں، انکا ہر حکم حق سچ ہو اسکی پیروی لازم ہو ایسا نہیں....بلکہ یہ سب  اور ہم سب شریعت محمدی(اہلسنت فقہ و نظریات) کے ماتحت ہیں، ان سب بڑوں کی عزت کرنے یا توہین کرنے یا پیروی کرنے یا حکم نہ ماننے سب معاملات میں شریعت کی پاسداری لازم ہے...ہم پر انکی تعظیم و پیروی بمطابق شریعت لازم ہے تو ان پر بھی فرض ہے کہ وہ مسلم عوام کو کیڑے مکوڑے حقیر و کمتر نہ سمجھیں....

.

اگر توہین عدلیہ توہین فوج توہین پارلیمنٹ قانون بنا ہے تو توہینِ عوام کا قانون و بل بھی پاس ہونا چاہیے اور توہین کے ان قوانین کو کسی کی نوابی کے لیے نہیں بنانا چاہیے بلکہ انکی تعظیم و توہین کا دارومدار اسلام ہونا چاہیے... کوئی جج جرنیل لیڈر عالم مفتی کوئی بھی چھوٹا بڑا قانون و احتساب سے بالاتر نہیں ہونا چاہیے......!!

.

کسی کے محض الزامات کو صحیح سمجھ کر جرنل کرنک فوج پولیس عدلیہ کی نافرمانی نہیں کرسکتے....اور اگر الزام لگا تو جرنل کرنل جج وغیرہ خود کو مستثنی نہیں کرسکتے ان پر لازم ہے کہ وضاحت و صفائی پیش کریں

.

*پاکستان میں افراتفری مچی ہے کہ جرنل کرنل چیف پے الزامات لگا کر عوام کو فوج پولیس مخالف بنایا جا رہا ہے اور دوسری طرف عدلیہ پارلیمنٹ کی جنگ جاری ہے....اسکا واحد حل یہی ہے کہ ہر کوئی اسلام و قانون کے ماتحت ہو....الزامات لگانے والے ثبوت دیں اور جن پے الزام لگا وہ صفائی دیں اور کسی کی توہین و بالادستی کے قانون فورا کالعدم قرار دیں یا مقید باشریعت کر دیں...اور عوام ہرگز ہرگز کسی کے لیے اندھا دھند نہ نکلے، کسی کے لیے اندھا دھند نفرت و تنقید نہ کرے نہ پھیلائے....کسی کے لیے اندھا دھند کچھ نہ کرے بلکہ پرامن نکل کر مطالبہ کرے کہ معتبر اہلسنت علماء کو عدلیہ فوج پارلیمنٹ سیاسی لیڈرز اپنی صفائی و وضاحت پیش کریں اور پھر علماء برحق جو مدلل فرمائیں اس پر عمل ہو......!!*

.

اسْتَعْمَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا...فَلَمَّا جَاءَ حَاسَبَهُ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو عامل(عہدے دار)مقرر کیا اور پھر اسکا احستاب کیا

(بخاری حدیث1500ملتقطا ملخصا)

.

وَفِيه: من الْفِقْه جَوَاز محاسبة المؤتمن،..، وَهُوَ أصل فعل عمر، رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ، فِي محاسبة الْعمَّال،

 اس حدیث پاک سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کوئی امانت دار ہو تب بھی اس کا محاسبہ احتساب کیا جا سکتا ہے... سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ احتساب کیا کرتے تھے یہ حدیث پاک ان کی اس فعل کی دلیل ہے

(عمدۃ القاری9/105ملتقطا)

.

سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں،ترجمہ:

اپنا(اپنے اعمال اپنے مال دولت کردار کا)احتساب کرو قبل اس کے کہ تمھارا محاسبہ کیا جائے

(ترمذی تحت الحدیث2459)

.

*سیاستدان مولوی علماء قائدین وزرا صدر لیڈرز جج جرنیل سب خود حساب دیں ورنہ انکا احتساب کیا جائےکہ کیا تھے؟کیا بن گئے؟ کیسےبن گئے؟کہاں سےلیا،کہاں خرچ کیا…کیا حکم دیا،  کیا کارنامہ یا کرتوت کیا اور کیوں کیا.....کسی سیاسی لیڈر پارٹی کا احستاب کیا جاتا ہے تو یہ بھی حق ہے کہ اگر کوئی کسی جرنیل جج پر الزام لگاتا ہے تو جج جرنیل صفائی وضاحت و اپنا احتساب پیش کرے...کوئی قانون سے بالاتر نہیں ہونا چاہیے.......!!*

.

اوپر جو پہلی پہلی حدیث پاک لکھی اس میں ہے کہ بےیار و مددگار مت چھوڑو کسی مسلمان کو....لیھذا حسبِ طاقت مدد کرنا لازم ہے،خاص کر وہ عالم مفتی اساتذہ پولیس فوجی لکھاری سوشلی غیرسوشلی جو پڑھاتے لکھتے تقریر کرتے خدمات ڈیوٹی ورک کر رہے یا کرتے تھے مگر اب بیمار یا بوڑھے یا ریٹائرڈ ہوگئےانکی مالی حوصلاتی مدد بھی لازم ہے…جب کام کے تھے تو مدد تھی اور اب ختم....؟؟ یہ اسلام و انسانیت کے خلاف ہے

.

*#حکمرانی نہ جج کی،  نہ جرنیل کی، نہ عوام کی، بلکہ حکمرانی ہوگی اسلام کی،فقہ حدیث و قرآن کی.....!!*

القرآن:

لَوۡ رَدُّوۡہُ  اِلَی الرَّسُوۡلِ وَ اِلٰۤی اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡہُمۡ لَعَلِمَہُ الَّذِیۡنَ یَسۡتَنۡۢبِطُوۡنَہٗ مِنۡہُمۡ

رسول کی طرف معاملات لوٹا دو اور اہل استنباط(اہلِ تحقیق، باشعور، باریک دان،وسیع العلم و التجربہ، سمجھدار علماء صوفیاء)کی طرف معاملات لوٹا دو

(سورہ نساء آیت83ملخصا)

.

يَسْتَخْرِجُونَهُ وَهُمُ الْعُلَمَاءُ..الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُنَافِقِينَ، لَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِلَى ذَوِي الرَّأْيِ وَالْعِلْمِ،...وَفِي الْآيَةِ دَلِيلٌ عَلَى جَوَازِ الْقِيَاسِ، فَإِنَّ مِنَ الْعِلْمِ مَا يُدْرَكُ بِالتِّلَاوَةِ وَالرِّوَايَةِ وَهُوَ النَّصُّ، وَمِنْهُ مَا يُدْرَكُ بِالِاسْتِنْبَاطِ وَهُوَ الْقِيَاسُ عَلَى الْمَعَانِي الْمُودَعَةِ فِي النُّصُوصِ

 اہل استنباط سے مراد وہ لوگ ہیں کہ جو احکام و نکات نکالتے ہوں اور وہ علماء ہیں... آیت میں منافقین اور مومنین سب کو حکم ہے کہ وہ معاملات کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹا دیں اور اہل علم کی طرف لوٹا دیں اور رائے و قیاس کرنے والوں کی طرف لوٹا دیں... اس آیت میں دلیل ہے کہ قیاس کرنا بالکل جائز ہے کہ علم وہ ہوتا ہے کہ جو نص یعنی قرآن اور حدیث و سنت سے ملتا ہے یا پھر ان سے نکالا جاتا ہے یہی تو قیاس ہے

(تفسیر بغوی2/255)

.

دلت هذه الآية على أنَّ القياس حُجَّة... أن في الأحْكَام ما لا يُعْرَف بالنَّصِّ، بل بالاستِنْبَاطِ... أن العَامِيِّ يجِب عليه تَقْلِيد العُلَمَاء

 مذکورہ آیت مبارکہ دلالت کرتی ہے کہ قیاس ایک دلیل و حجت ہے، اس آیت سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ بعض احکام نص سے معلوم ہوتے ہیں اور بعض احکام قیاس و استنباط سے معلوم ہوتے ہیں.... بے شک عام آدمی پر واجب ہے کہ وہ علماء کرام کی تقلید کرے

(اللباب فی علوم الکتاب6/526)

.

وفي هذه الآية دليل على وجوب القول بالاجتهاد، عند عدم النص...فقد دل بذلك على أن من العلم ما يدرك بالتلاوة والرواية، وهو النص، ومنه ما يدرك بغيرهما، وهو المعنى، وحقيقة الأعتبار والاستنباط والقياس: الحكم بالمعاني المودعة في النصوص غير الحكم بالنصوص

 یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ جب نص نہ ہو تو اجتہاد اور قیاس کرنا واجب ہے اور اس پر عمل کرنا بھی لازم ہے..اس آیت سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ بعض احکام نص سے معلوم ہوتے ہیں اور بعض احکام قیاس و استنباط سے معلوم ہوتے ہیں

(تفسیر ثعلبی10/493)

.

القران..ترجمہ:

اللہ کی اطاعت کرو،اور رسول کی اور اولی الامر (برحق معتبر علماء ، امراء)کی اطاعت(بمطابق اسلام) کرو.(سورہ نساء آیت59)

.

ان آیات میں واضح ہے کہ اسلام کی حکمرانی چلے گی...جج جرنیل وزرا صدر علماء وغیرہ سب اسلام قران و سنت و فقہ اہلسنت کے مطابق فیصلہ کریں گے...مشاورت سے جدید مسائل میں مفید و مدلل کو اپنائیں گے

.

القرآن...ترجمہ:

میری نماز میری قربانی میرا جینا میرا مرنا سب اللہ ہی کےلیے ہے(سورہ انعام162)میں(اللہ)نے تمھارے لیے اسلام کو چنا ہے(مائدہ3) عالم پیر لیڈر جج جرنیل سیاستدان و عوام یعنی ہر مسلمان پر فرض ہے کہ اسکی زندگی و عہدے و کارکردگی  کا مقصد یہ ہو کہ اس نے اسلام کے لیے جینا مرنا ہے اسلام کے لیے سب کچھ کرنا ہے

.

القرآن...ترجمہ:

عدل کرو،حق سچ کہو اگرچہ(بظاہر نقصان کا)معاملہ تمھارے قریبی کا ہو(سورہ انعام152)کسی سےاختلاف،دشمنی تمہیں اس پر نہ اکسائےکہ تم(بدلہ،تنقید،مذمت اعتراض،جواب میں)عدل نہ کرو،بلکہ(دوست دشمن مخالف)ہر ایک سےعدل کرو(سورہ مائدہ8)

.

اے عوام اے لکھاری اے واعظ اے علماء اے لیڈرز اے جج اے جرنیل اے وزراء ہم سب مسلمانوں پر لازم ہے کہ عدل کے ساتھ لکھیں بولیں فیصلے کریں عمل کریں ہرکام کریں عدل کے ساتھ اور حق و اسلام کی پرواہ میں...چاہے سامنے کوئی رشتے دار ہو یا اپنا ہو یا دوست ہو یا دشمن ہو یا طاقتور ہو جو بھی ہو ہم نے حق و اسلام کی پرواہ کرنی ہے...کسی کے دباو و مفاد لالچ میں نہیں انا....اسلام و حق کے مقابلے میں کسی طاقتور وڈیرے لیڈر جرنل کرنل ہجوم سیاسدانوں ملکی و غیرملکی طاقتوں سے نہیں ڈرنا....لیکن یاد رہے کہ اسلام کی حدود سے بھی نہیں بڑھنا

.

*اے عوام و خواص، اے فوجی ، اے پولیس والوں ہم سب نے جج جرنیل علماء لیڈرز سربراہ عہدےدار کی سننی ماننی ہے مگر معصیت کا حکم دیں تو نہیں ماننا،نہیں سننا....!!*

الحدیث:

السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ حَقٌّ مَا لَمْ يُؤْمَرْ بِالْمَعْصِيَةِ، فَإِذَا أُمِرَ بِمَعْصِيَةٍ فَلَا سَمْعَ وَلَا طَاعَةَ

(علماء لیڈرز جج جرنیل وغیرہ عہدے داروں) کی سنو اور مانو بشرطیکہ معصیت(گناہ گمراہی الحاد لادینیت گستاخی غلامی کفر) کا حکم نہ دیں، اگر معصیت(گناہ گمراہی الحاد لادینیت گستاخی غلامی کفر) کا حکم دیں تو نہ سنو ، نہ مانو

(بخاری حدیث2955)


.

أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ جَيْشًا، وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ رَجُلًا، فَأَوْقَدَ نَارًا، وَقَالَ : ادْخُلُوهَا. فَأَرَادُوا أَنْ يَدْخُلُوهَا، وَقَالَ آخَرُونَ : إِنَّمَا فَرَرْنَا مِنْهَا. فَذَكَرُوا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِلَّذِينَ أَرَادُوا أَنْ يَدْخُلُوهَا : " لَوْ دَخَلُوهَا لَمْ يَزَالُوا فِيهَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ". وَقَالَ لِلْآخَرِينَ : " لَا طَاعَةَ فِي مَعْصِيَةٍ، إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گروہ بھیجا اور ان پر ایک شخص کو امیر مقرر کردیا اس امیر نے آگ بھڑکائی اور حکم دیا کہ اس آگ میں داخل ہو جاؤ کچھ لوگوں نے اس کی اطاعت میں داخل ہونے کا ارادہ کیا اور دوسروں نے کہا کہ ہم جہنم کی آگ سے فرار ہوکر مسلمان ہوئے ہیں آگ میں داخل نہ ہونگے… تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں اس کا تذکرہ کیا گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کے لئے متعلق فرمایا کہ جو آگ میں داخل ہونا چاہتے تھے ان سے فرمایا کہ اگر تم داخل ہوتے تو قیامت تک اس میں رہتے اور دوسروں کے لئے فرمایا کہ معصیت (گناہ گمراہی الحاد لادینیت گستاخی غلامی کفر) کے معاملے میں کسی کی اطاعت مت کرو اطاعت تو نیک(اور جائز) کاموں میں ہے

(بخاری حدیث7257)

.

*اچھی پولیس فوج چوکیدار ذمہ دار پہرے دار علماء وغیرہ کی فضیلت و شان.......!!*

الحدیث:

رحم الله حارس الحرس

ترجمہ:

جو(پولیس فوج علماء جج وکیل عوام جو بھی) حفاظت کی چیز(اسلام و مسلمین، تعلیمات اسلام، نظریات و منفردات اسلام،زمینی جغرافیائی و نظریاتی سرحد وغیرہ) کی حفاظت و پہرے داری کرے اللہ اس پر رحمت بھیجے

(ابن ماجہ حدیث2769)

.

الحدیث:

عينان لا تمسهما النار: عين بكت من خشية الله، وعين باتت تحرس في سبيل الله

ترجمہ:

دو آنکھیں ایسی ہین کہ اسے جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی

ایک وہ آنکھ جو اللہ کے خوف میں روئے

دوسری وہ آنکھ جو اللہ کی راہ میں پہرے داری کرتے ہوئے رات جاگ کر گذارے..(ترمذی حدیث1639)

.

چوکیداری پہرے داری کی فضیلت جب ہے کہ وہ اللہ کی خاطر ہو... اسلام پسندی، حق پسندی کی خاطر ہو…منافقت ایجنٹی ، مفاد پرستی، شہرت پرستی، قومیت پرستی، ملک پرستی، وغیرہ برے مقاصد میں یہ سب ہوں تو کوئی فضیلت نہین اسی لیےکہ آیات و احادیث مین "فی سبیل اللہ" کی شرط ہے جیسے کہ اوپر گذرا..البتہ جائز قوم پسندی و انکی ترقی و دفاع، جائز وطن پسندی و اسکی ترقی و دفاع اچھا عمل ہے مطلوب عمل ہے.....الحدیث،ترجمہ:

تم میں سےبہتر وہ ہیں جو اقارب(قوم،پارٹی،وطن)کا دفاع کریں بشرطیکہ معاملہ گناہ.و.ناحق کا نہ ہو(ابوداود حدیث5120)

.

*جج جرنیل عوام خواص علماء لیڈرز کسی کے کرتوت کی تحقیقات و سزا ہوگی...حق سچ نہ مانے یا مکاری منافقت کرپشن ناحق نوابی کرے تو توہین و مذمت ہوگی.....!!*

الحدیث:

من كتم غالا فإنه مثله

ترجمہ:

جو(زندہ یا مردہ) غل کرنے والے(خیانت کرنے والے، چھپکے سے کمی بیشی کرنے والے، کھوٹ،کرپشن کرنے والے) کی پردہ پوشی کرے تو وہ بھی اسی کی طرح(خیانت کرنے والا، کھوٹا، دھوکے باز مجرم) ہے

(ابو داؤد حدیث2716)

.

الحدیث:

 أترعون عن ذكر الفاجر؟، اذكروه بما فيه يعرفه الناس

ترجمہ:

کیا تم(زندہ یا مردہ طاقتور یا کمزور کسی بھی) فاجر(فاسق معلن منافق , خائن،مکار، دھوکے باز بدمذہب مفادپرست گستاخ) کو واضح کرنے سے ہچکچاتے ہو...؟(جیسا وہ ہے ویسا کہنے سے گھبراتے ہو...؟؟)اسے ان چیزوں(ان کرتوتوں، عیبوں اعلانیہ گناہوں ، خیانتوں، منافقتوں دھوکے بازیوں) کے ساتھ واضح کرو جو اس میں ہوں تاکہ لوگ اسے پہچان لیں(اور اسکی گمراہی خیانت منافقت بدعملی دھوکے بازی مکاری شر فساد سے بچ سکیں)

(طبرانی معجم  کبیر  حدیث 1010)

(طبرانی معجم صغیر حدیث598نحوہ)

یہ حدیث پاک  کتبِ حدیث و تفاسیر اور فقہ و تصوف کی کئی کتب میں موجود ہے... مثلا جامع صغیر، شعب الایمان، احیاء العلوم، جامع الاحادیث، کنزالعمال، کشف الخفاء ردالمحتار ، عنایہ شرح ہدایہ، فتاوی رضویہ، تفسیر ثعالبی، تفسیر درمنثور وغیرہ کتب میں بھی موجود ہے

علامہ ہیثمی نے فرمایا:

وإسناد الأوسط والصغير حسن، رجاله موثقون، واختلف في بعضهم اختلافاً لا يضر

 مذکورہ حدیث پاک طبرانی کی اوسط اور معجم صغیر میں بھی ہے جسکی سند حسن معتبر ہے، اسکے راوی ثقہ ہیں بعض میں اختلاف ہے مگر وہ کوئی نقصان دہ اختلاف نہیں

(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد ت حسين أسد2/408)

.

سمجھانے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے...مگر حسبِ تقاضہِ شریعت ایسوں کے عیوب مکاریاں منافقتیں خیانتیں کرپشن فسق و فجور دھوکے بازیاں بیان کرنا برحق ہے لازم ہے اسلام کا حکم ہے....یہ عیب جوئی نہیں، غیبت نہیں، ایسوں کی پردہ پوشی کرنا جرم ہے... یہ فرقہ واریت نہیں، یہ حسد نہیں، بغض نہیں بلکہ حق کی پرواہ ہے اسلام کے حکم کی پیروی ہے... ہاں حدیث پاک میں یہ بھی واضح ہے کہ وہ عیوب، وہ خیانتیں، وہ دھوکے بازیاں وہ کرتوت بیان کیے جائیں جو اس مین ہوں...جھوٹی مذمت الزام تراشیاں ٹھیک نہیں......!!

.

کوئی مجرم اپنے جرم سے سچی توبہ کر لے تو بے شک توبہ قبول ہوتی ہے مگر یاد رکھیے کچھ جرائم ایسے ہوتے ہیں کہ توبہ رجوع تو قبول مگر توبہ رجوع کی وجہ سے انکی سزا معاف نہیں ہوتی...ایسا نہیں کہ جو مَن میں آئے جرم کرو اور توبہ کرکے سزا معاف......؟؟نہیں نہیں ایسا ہرگز نہیں... بلکہ بعض جرائم ایسے ہوتے ہیں کہ توبہ کے باوجود سزا اسلام نے مقرر و لازم کر دی ہے... عقل کے لحاظ سے بھی یہ ٹھیک ہے، اسی میں ذاتی اجتماعی انسانی معاشرتی بھلائی ہے... بے شک اسلام کے کیا ہی بہترین عمدہ ترین برحق اصول ہیں.......!!

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App,twitter nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574

آپ میرا نام و نمبر مٹا کر بلانام یا ناشر یا پیشکش لکھ کر اپنا نام ڈال کے آگے فاروڈ کرسکتے ہیں،کاپی پیسٹ کرسکتے ہیں،شئیر کرسکتے ہیں...نمبر اس لیے لکھتاہوں تاکہ تحقیق رد یا اعتراض کرنے والے یا مزید سمجھنے والےآپ سے الجھنے کےبجائے ڈائریکٹ مجھ سے کال یا وتس اپ پے رابطہ کرسکیں

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.