انبیاء کرام اور زندہ یا وفات شدہ صالحین کا وسیلہ واسطہ دینا جائز ہے اس کے چند ثبوت و دلائل اور اہم ترین اعتراضات کے جواب

 *#وسیلہ #توسل کے جائز ہونے کے20دلائل اور منکرینِ وسیلہ کی کل کائنات یعنی چار اہم ترین اعتراضات کے جوابات......!!*

الحاصل:

وسیلہ...زندہ سے دعا کروانا جائز ہے

وسیلہ...وفات شدہ سے دعا کروانا جائز ہے

وسیلہ..دعا خود کرنا زندہ کو وسیلہ بنانا جائز ہے

وسیلہ..دعا خود کرنا وفات شدہ کا وسیلہ دیناجائز ہے

وسیلہ...دعا خود کرنا نیک اعمال کو وسیلہ بنانا جائز ہے

.

مثلا:

کسی نیک صالح مومن سید عالم مفتی صوفی والدین بیمار مسافر وغیرہ سے عرض کرنا کہ میرے لیے اللہ سے دعا کیجیے کہ فلاں کام ہوجائے.. فلاں حاجت پوری ہوجائے...ایسا کرنا جائز ہے...شرک و بدعت نہیں

مثلا:

کسی مسجد یا گھر یا کہیں بھی بیٹھ کر دعا کرنا کہ یا اللہ فلاں فلاں زندہ یا وفات شدہ تیرے پیاروں کا واسطہ ہماری دعا قبول فرما، ہماری فلاں حاجت پوری فرما..ایسا کرنا جائز ہے...شرک و بدعت نہیں

مثلا:

کسی مزار پے حاضر ہوکر دعا اللہ سے کرنا اور صاحب مزار کا واسطہ وسیلہ دینا بھی جائز ہے...شرک بدعت نہیں، مزار والے اللہ کے پیارے سے عرض کرنا کہ اللہ سے دعا فرمائیے کہ میری فلاں حاجت پوری ہوجائے...یہ بھی جائز ہے ، شرک بدعت نہیں

مثلا:

اللہ سے دعا کرنا اور نیک اعمال نیک بندوں کا واسطہ وسیلہ دینا بھی جائز ہے...شرک بدعت نہیں

.

*#تفصیل.......!!*

وسیلے پر علماء اہلسنت  نے باقاعدہ رسائل و کتب لکھے ہیں انکا مطالعہ کیجیے، نفع عام کے لیے، تبرک و ثواب کے لیے، شعور پھیلانے کے لیے ہم بھی تقریبا 20 دلائل لکھ رہے ہیں، ملاحظہ کیجیے,saveکر لیجیے یا شیئر لیجیے پھر وقت ملنے پر اطمینان و غور سے بلاتعصب پڑہیے، ہوسکے تو مناسب لائک کمنٹ کیجیے کہ اس سے تحریر زیادہ پھیلتی ہے

.

*#وسیلے کا فائدہ......؟؟*

دعا کے لیے وسیلہ فرض واجب نہیں...وسیلے کے بغیر بھی دعا کر سکتے ہیں لیکن وسیلے سے دعا کرنا سنت ہے انبیاء کرام کی صحابہ کرام اور اولیاء و اسلاف کی.....!! دعا میں وسیلے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ:

تقديمَ الوسيلةِ على المسئول أدعى إلى الإجابة والقبول

دعا میں وسیلہ کو مقدم کرنے سے زیادہ امید ہے کہ دعا جلد قبول ہوگی 

(تفسير أبي السعود ,1/276)

.===============


*#دلیل 1⃣ *

القرآن:

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ یَبۡتَغُوۡنَ  اِلٰی رَبِّہِمُ الۡوَسِیۡلَۃَ

وہ اللہ کے مقرب و نیک بندے اور دیگر جنکی عبادت کی جاتی ہے وہ تو خود اپنے رب کی طرف وسیلہ تلاش کرتے ہیں(تو بھلا وہ معبود کیسے ہوسکتے ہیں وہ تو خود اللہ کی طرف وسیلہ تلاش کرتے ہیں)

(سورہ بنی اسرائیل آیت57)

.

وأكثر العلماء: هم عيسى وأمه وعزير والملائكة عليهم السلام والشمس والقمر والنجوم

اکثر علماء نے یہ فرمایا ہے کہ کے وسیلہ تلاش کرنے والوں سے مراد عیسی علیہ السلام اور ان کی والدہ اور حضرت عزیر علیہ السلام اور ملائکہ اور سورج چاند اور ستارے ہیں (یہ سب اللہ کی عبادت کرتے ہیں اور اللہ کی طرف وسیلہ تلاش کرتے ہیں)

(تفسير الثعلبي ,16/365)


.

مَعْنَاهُ: يَنْظُرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ إِلَى اللَّهِ فَيَتَوَسَّلُونَ بِهِ

آیت کا معنی یہ ہے کہ یہ اللہ کے مقرب و نیک بندے و دیگر دیکھتے ہیں کہ اللہ کے قریب کون ہے پھر اس کو وسیلہ بناتے ہیں 

(تفسير البغوي - طيبة ,5/101)

.

أُولَئِكَ الذين يعبدون من دون اللَّه يبتغون إلى ربهم الوسيلة؛ فكيف تعبدونهم

یہ اللہ کے نیک و مقرب بندے اور دیگر کہ  اللہ کے علاوہ جن کی عبادت کی جاتی ہے یہ تو خود اللہ کی طرف وسیلہ تلاش کرتے ہیں تو تم ان کی عبادت کیسے کرتے ہو۔۔۔۔۔؟

(,تفسير الماتريدي = تأويلات أهل السنة ,7/66)

.

*دلچسپ و اہم بات*

آیت میں دو وسیلوں کی طرف اشارہ ہے ایک وسیلہ شرک اور دوسرا سنت.....جی ہاں نیک بندے جو غیراللہ ہیں ان کی عبادت کرنا وسیلہ سمجھ کر یہ شرک میں سے ہے یعنی وسیلے کے طور پر نیک غیراللہ و سورج چاند بت وغیرہ کی عبادت کرنا شرک میں سے ہے...دوسرا وسیلہ برحق ہے سنت انبیاء ہے وہ یہ ہے کہ نیک بندے جو غیراللہ ہیں انکی عبادت نہ کرنا بلکہ اللہ کی عبادت کرنا اور زندہ یا وفات شدہ نیک غیراللہ کا وسیلہ پیش کرنا یہ ہے سنتِ انبیاء و صالحین ہے...یہ سب اس آیت مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے، یہ وسیلہ شرک بدعت نہیں....بعض منکرین وسیلہ کہتے ہیں کہ وفات شدہ اور دور والے کا وسیلہ نہیں دے سکتے،منکرین وسیلہ کا یہ نظریہ دلائل کے خلاف و غلط ثابت ہوا

کیونکہ

یہاں آیت میں وسیلہ مطلق و عموم ہے کہ کسی بھی نیک و مقرب کا وسیلہ دیا جاسکتا ہے چاہے وہ حیات ہو یا وفات شدہ،چاہے دور ہو یا قریب...سب کو آیت شامل معناً شامل ہے

.=================

*#دلیل 2⃣ *

القرآن:

  ۙ وَ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ یَسۡتَفۡتِحُوۡنَ

 اور آپ( صلی اللہ علیہ وسلم) سے پہلے آپ کے وسیلے سے فتح یابی کی دعا کرتے تھے( لیکن عجیب لوگ ہیں کہ اب آپ کا انکار کرتے ہیں)

(سورہ بقرہ آیت89)

.

قالوا اللهم انصرنا بالنبى المبعوث في آخر الزمان الذي نجد نعته فى التوراة

 یعنی وہ یوں کہتے تھے کہ یا اللہ عزوجل ہماری مدد فرما اس نبی کے صدقے سے ، وسیلے سے جو آخری زمانے میں آئے گا کہ جس کی صفات ہم تورات میں پاتے ہیں

(تفسیر نسفی1/109)

.

وَقَالُوا: إِنَّا نَسْأَلُكَ بِحَقِّ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الَّذِي وَعَدْتَنَا أَنْ تُخْرِجَهُ لَنَا فِي آخِرِ الزَّمَانِ إِلَّا تَنْصُرُنَا عَلَيْهِم

 وہ کہتے تھے کہ یا اللہ عزوجل ہم آپ سے سوال کرتے ہیں ہماری مدد فرما بحق النبی الامی یعنی نبی پاک کے صدقے وسیلے واسطے سے جس کا تو نے ہم سے وعدہ کیا ہے کہ آخری زمانہ میں تو اسے بھیجے گا

(تفسیر قرطبی 2/27)

.

ويقولون اللهم انصرنا بالنبيِّ المبعوثِ في آخرِ الزمان

وہ کہتے تھے کہ یا اللہ عزوجل ہم آپ سے سوال کرتے ہیں ہماری مدد فرما بحق النبی یعنی نبی پاک کے صدقے وسیلے واسطے سے جس کا تو نے ہم سے وعدہ کیا ہے کہ آخری زمانہ میں تو اسے بھیجے گا

(تفسیر ابی السعود1/49)

.

ويقولون: اللهم ربنا انصرنا عليهم باسم نبيك وبكتابك الذي تنزل عليه الذي وعدتنا

 وہ کہتے تھے ہمارے رب ہماری مدد فرما تجھے تیرے آنے والے نبی(محمد مصطفی) کے نام کا واسطہ اور تیری کتاب کا واسطہ کہ جو تو اس پر نازل کرے گا جس کا تو نے ہم سے وعدہ کیا ہے

(تفسیر سمرقندی1/72)

.

ظاہری دنیا میں غیر موجود(وفات شدہ یا آنے والے)کا وسیلہ دیا جاسکتا ہے تو موجود کا بھی وسیلہ واسطہ دیا جاسکتا ہے...!!

.

سوال:

مذکورہ دلیل میں ماقبل شریعت والوں یعنی اہل کتاب نے وسیلہ اپنایا، یہ انکی شریعت ہوگی، شریعت محمدی کے لیے ماقبل شریعت کیسے دلیل بن سکتی ہے....؟؟

جواب:

ماقبل شریعتوں کے احکامات بلامذمت و بلامنسوخیت بیان ہوں تو وہ ہماری شریعت کا بھی حصہ شمار ہونگے

متفقہ اصول:

شرع من قبلنَا شرع لنا إِلَّا مَا ثَبت نسخه

ماقبل شریعتوں کے احکامات (بلامذمت اور )بلامنسوخیت بیان ہوں تو وہ ہماری شریعت کا بھی حصہ شمار ہونگے

(التبصرة في أصول الفقه1/285)

.

 مذکورہ آیات میں اہل کتاب کے  فعل یعنی وسیلے دینے کی مذمت نہیں کی گئی اور نہ ہی اس کو منسوخ کیا گیا ہاں البتہ یہود وغیرہ اہل کتاب کے ایمان نہ لانے کی مذمت کی گئی ہے... لہذا نیک لوگوں کا وسیلہ دینا جائز ہے اگرچہ وہ موجود ہو یا موجود نہ ہو یا وفات شدہ ہو ، قریب ہو یا دور ہو کوئی فرق نہیں پڑتا.......!!

.=================

*#دلیل 3⃣ *

القرآن:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ ابۡتَغُوۡۤا اِلَیۡہِ الۡوَسِیۡلَۃَ

 اے ایمان والو تقوی اختیار کرو اور اللہ کی طرف وسیلہ تلاش کرو

(سورہ مائدہ ایت35)

.

والوسيلة ولا بد من تقديم الوسيلة قبل الطلب وقد قال الله تعالى (وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ)وقد توسل آدم عليه السلام الى الله تعالى بسيد الكونين

 دعا سے پہلے وسیلہ ہونا چاہیے کیونکہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ اللہ کی طرف وسیلہ تلاش کرو اور آدم علیہ السلام نے اللہ کی طرف وسیلہ پیش کیا نبی پاک سید کونین صلی اللہ علیہ وسلم کا

(تفسیر روح البیان7/230)

.

وقد قال تعالى: وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ (2) ، ولا وسيلة إليه أقرب، ولا أعظم، من رسوله الأكرم صلى الله عليه وسلم

 اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کی طرف وسیلہ تلاش کیا جائے اور رسول کریم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کون سا وسیلہ ہوگا

(التفسیر المدید4/458)

.

 اس آیت کی تفسیر میں نیک اعمال کرنے اور برائی سے بچنے کو وسیلہ بنانے کا فرمایا گیا ہے تفاسیر میں مگر کچھ تفاسیر میں رسول کریم کو بھی اسی آیت سے وسیلہ بنانا ثابت کیا گیا ہے جیسے کہ اوپر دو حوالے دییے لیھذا انبیاء کرام علیھم السلام اور اولیاء عظام وغیرہ سب نیک و مقرب بندوں و نیک اعمال کا وسیلہ دیا جاسکتا ہے

.=====================

*دلیل 4⃣ *

الحدیث: 

نبی پاک نے واقعہ ارشاد فرمایا کہ کس طرح پہلے کی امتوں میں سے تین شخص غار میں پھنس گئے اور پھر اپنے اعمال کا وسیلہ دے کر اللہ سے دعا کی تو غار کا منہ کھل گیا

(دیکھیے صحيح البخاري ,3/91حدیث2272)

.

وَفِي هَذَا الْحَدِيثِ اسْتِحْبَابُ الدُّعَاءِ فِي الْكَرْبِ وَالتَّقَرُّبُ إِلَى الله

 امام ابن حجر فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ مشکلات کے اندر دعا کرنا بہت اچھا کام ہے اور اللہ کی طرف وسیلہ دینا بھی مستحب و ثواب ہے(شرک بدعت نہیں)

(فتح الباري شرح بخاری لابن حجر ,6/509)

.

============

*#دلیل 5⃣ *

الحدیث:

اسْتَغَاثُوا بِآدَمَ، ثُمَّ بِمُوسَى، ثُمَّ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

 قیامت کے روز لوگ سیدنا آدم علیہ السلام سے استغاثہ کریں گے(انہیں وسیلہ بنائیں گے) پھر موسی علیہ السلام سے پھر(جب سارے انبیاء کرام فرماءیں گے کہ محمد مصطفی کے پاس جاؤ تو لوگ)سید الکونین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے استغاثہ کریں گے(انہیں وسیلہ بنائیں گے)

(بخاری حدیث1475)

.

نَّ النَّاسَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَسْتَصْحِبُونَ حَالَهُمْ فِي الدُّنْيَا مِنَ التَّوَسُّلِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى فِي حَوَائِجِهِمْ بِأَنْبِيَائِهِمْ

 اس حدیث پاک سے ثابت ہوتا ہے کہ قیامت کے دن جو لوگوں کا حال ہوگا وہ دنیا جیسا حال ہوگا توسل کے حساب سے کہ جس طرح دنیا میں اپنی حاجتوں میں وہ توسل کرتے تھے انبیائے کرام کے ساتھ اسی طرح حشر میں بھی توسل کریں گے

(فتح الباري شرح بخاری لابن حجر11/441)

 یعنی جس طرح دنیا میں انبیائے کرام کا وسیلہ دیا جاتا ہے

،ان سے توسل کیا جاتا ہے تو قیامت کے دن بھی ان کا وسیلہ دیا جائے گا ان سے توسل کیا جائے گا

.================

*#دلیل 6⃣ *

النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " قَالَ دَاوُدُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَسْأَلُكَ بِحَقِّ آبَائِي إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے دعا کی اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں میرے آباء کے حق و وسیلے سے...میرے آباء یعنی حضرت ابراہیم حضرت اسحاق حضرت یعقوب علیھم السلام

(مسند البزار = البحر الزخار حدیث1307)

.

امام ہیثمی اور امام بزاز فرماتے ہیں:

وَأَبُو سَعِيدٍ فَلَيْسَ بِالْقَوِيِّ فِي الْحَدِيثِ، وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنِ الأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلا

 مذکورہ روایت کی سند میں ایک راوی ابو سعید ہے جو کہ حدیث کے معاملے میں قوی نہیں ہے لیکن اس روایت کی ایک اور سند بھی ہے جو کہ درج ذیل ہے

حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنِ الأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

(كشف الأستار عن زوائد البزار3/100)

لیھذا یہ روایت تعدد طرق کی و دیگر وجوہ تحسین کی وجہ سے حسن معتبر کہلانی چاہیے جو دلیل بنتی ہے...اور اگر بالفرض ضعیف بھی مان لیا جائے تو قران و صحیح احادیث کی معنوی تائید کی وجہ سے معتبر و دلیل بنے گی

.

 سیدنا ابراہیم علیہ السلام سیدنا اسحاق علیہ السلام سیدنا یعقوب علیہ السلام کے بعد

سیدنا داؤد علیہ السلام آئے تھے تو سیدنا داؤد علیہ السلام وفات شدہ کا وسیلہ دے کر دعا فرما رہے ہیں...ثابت ہوا کہ زندہ یا وفات شدہ کا وسیلہ دینا سنتِ انبیاء ہے، جسکا وسیلہ واسطہ دیا جارہا ہے وہ دور ہو یا قریب زندہ ہو یا وفات شدہ کوئی حرج نہیں...بعض منکرین وسیلہ کہتے ہیں کہ وفات شدہ اور دور والے کا وسیلہ نہیں دے سکتے،منکرین وسیلہ کا یہ نظریہ دلائل کے خلاف و غلط ثابت ہوا

.

 سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے درمیان کتنا فاصلہ ہے ذرا پڑہیے

وَمَاتَ عَنْ مِائَةٍ وَخمْس وَسبعين، وَقيل وَتِسْعين سنة..وَقَدْ ورد مَا يدل [على] أَنَّهُ عَاشَ مِائَتَيْ سَنَةٍ

سیدنا ابراہیم علیہ السلام 175 سال یا 190سال یا 200 سال کی عمر میں وفات پا گئے

(قصص الانبیاء ابن کثیر1/250ملخصا ملتقطا)

.

عن ابن عباس قال... ومن إبراهيم إلى موسى خمسمائة وخمس وسبعون سنة، ومن موسى إلى داود خمسمائة

 وتسع وسبعون

 سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے لیکر موسی علیہ السلام تک 575 سال ہیں اور سیدنا موسی علیہ السلام سے لیکر سیدنا داؤد علیہ السلام تک 579سال ہیں

( المنتظم في تاريخ الملوك والأمم2/145)

.

ثابت ہوا کہ سیدنا داؤد علیہ السلام نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی وفات کے کئ سو سال بعد انکا وسیلہ واسطہ دے کر دعا فرمائی...جب وفات شدہ نیک صالح کا وسیلہ واسطہ دینا جائز و سنت ِ انبیاء ہے تو یقینا زندہ نیک کا وسیلہ واسطہ دینا بدرجہ اولی جائز و ثواب ہے...شرک بدعت ہرگز نہیں

.================

*#دلیل 7⃣ *

قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ خَرَجَ مِنْ بَيْتِهِ إِلَى الصَّلَاةِ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِحَقِّ السَّائِلِينَ عَلَيْكَ، وَأَسْأَلُكَ بِحَقِّ مَمْشَايَ هَذَا، فَإِنِّي لَمْ أَخْرُجْ أَشَرًا، وَلَا بَطَرًا، وَلَا رِيَاءً، وَلَا سُمْعَةً، وَخَرَجْتُ اتِّقَاءَ، سُخْطِكَ، وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِكَ، فَأَسْأَلُكَ أَنْ تُعِيذَنِي مِنَ النَّارِ، وَأَنْ تَغْفِرَ لِي ذُنُوبِي، إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، أَقْبَلَ اللَّهُ عَلَيْهِ بِوَجْهِهِ، وَاسْتَغْفَرَ لَهُ سَبْعُونَ

 أَلْفِ مَلَكٍ "

جو نماز کے لیے اپنے گھر سے نکلے اور یہ دعا پڑھے

: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِحَقِّ السَّائِلِينَ عَلَيْكَ

(ترجمہ: اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں سائلین کے حق کے واسطے سے وسیلے سے)

 وَأَسْأَلُكَ بِحَقِّ مَمْشَايَ هَذَا

(ترجمہ: اے اللہ کریم میں تجھ سے سوال کرتا ہوں میرے اس نماز کے لئے چلنے کی حق کی وجہ سے واسطے سے وسیلے سے)

پھر یہ پڑھے

 فَإِنِّي لَمْ أَخْرُجْ أَشَرًا، وَلَا بَطَرًا، وَلَا رِيَاءً، وَلَا سُمْعَةً، وَخَرَجْتُ اتِّقَاءَ، سُخْطِكَ، وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِكَ، فَأَسْأَلُكَ أَنْ تُعِيذَنِي مِنَ النَّارِ، وَأَنْ تَغْفِرَ لِي ذُنُوبِي، إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ

تو

اللہ کریم اس کی طرف خصوصی نظر کرم فرماتا ہے اور اس کے لئے ستر ہزار فرشتے استغفار کرتے ہیں 

(سنن ابن ماجه ,1/256حدیث778)

(مسند أحمد ط الرسالة حدیث11156)

(الجامع الصغير وزيادته حدیث12346)

(استاد بخاری,مصنف ابن أبي شيبة ,6/25نحوہ)

کتاب روضة المحدثين کے محققین نے اس حدیث کو حسن کہا ہے اور حدیث حسن قابل حجت ، قابل قبول ، قابل دلیل ہوتی ہے

حم جه تخز حل أبو نعيم فى الصلاة طد

(نتائج الأفكار 272/1)

** حسن

[مجموعة من المؤلفين ,روضة المحدثين ,11/64]

.

اس حدیث پاک میں سائلین کو وسیلہ بنایا گیا ہے انکا واسطہ دیا گیا ہے اور نیک عمل یعنی نماز کےلیے چلنے کو واسطہ بنا کر اللہ سے دعا کی گئ ہے اور سائلین مطلق و عام ہے چاہے وہ انبیاء کرام علیھم السلام ہوں یا اولیاء عظام....اور چاہے وہ زندہ ہوں کہ وفات شدہ ، مزار کے قریب جاکر وسیلہ بنایا جاءے یا دور سے انہیں وسیلہ بنایا جائے ہر صورتوں میں انہیں وسیلہ بنا کر،انکا واسطہ دے کر اللہ سے دعا کرنا اس حدیث پاک سے ثابت ہوتا ہے....اللہ سمجھنے کی توفیق دے 

.===============

*#دلیل 8⃣ *

 فَلَقِيَ عُثْمَانَ بْنَ حَنِيفٍ , فَشَكَا ذَلِكَ إِلَيْهِ , فَقَالَ لَهُ عُثْمَانُ بْنُ حَنِيفٍ: ائْتِ الْمِيضَأَةَ فَتَوَضَّأْ , ثُمَّ ائْتِ الْمَسْجِدَ فَصَلِّ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ , ثُمَّ قُلِ: اللَّهُمَّ , إِنِّي أَسْأَلُكَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ يَا مُحَمَّدُ إِنِّي أَتَوَجَّهُ بِكَ إِلَى رَبِّكَ عَزَّ وَجَلَّ فَيَقْضِي لِي حَاجَتِي , وَتَذْكُرُ حَاجَتَكَ.....وَاللهِ مَا كَلَّمْتُهُ، وَلَكِنِّي شَهِدْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَتَاهُ ضَرِيرٌ فَشَكَى إِلَيْهِ ذَهَابَ بَصَرِهِ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

 ایک شخص نے صحابی سیدنا عثمان بن حنیف سے شکایت کی کہ ان کی حاجت پوری نہیں کی جا رہی تو سیدنا عثمان بن حنیف نے فرمایا کہ وضو خانے جاؤ وضو کرو پھر مسجد میں جاؤ، دو رکعت نفل حاجات پڑھ لو پھر یہ دعا کرو کہ اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف توجہ کرتا ہوں نبی پاک محمد مصطفی کے وسیلہ سے جو نبی رحمت ہیں اور اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ کے ذریعہ سے آپ کے وسیلے سے توجہ کرتا ہوں اپنے رب کی طرف کہ میری حاجت اللہ تعالی پوری فرما دے.... پھر آپ اپنی حاجت بیان کریں(اس شخص نے یہ عمل کیا تو اس شخص کی حاجت پوری ہوئی تو اس نے صحابی سے پوچھا کہ کیا آپ کا کوئی کردار ہے اس حاجت روائی میں....؟؟) صحابی نے فرمایا کہ میرا کوئی کردار نہیں ہے یہ جو طریقہ میں نے تمہیں بتایا ہے یہ میں نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھا ہے

(المعجم الصغير طبرانی روایت508ملخصا)

(معرفة الصحابة لأبي نعيم 4/1959نحوہ)

(كتاب دلائل النبوة امام بيهقي6/167نحوہ)

(وفاءالوفاءبأخبار دار المصطفى4/194نحوہ)

(الترغيب  في الدعاء للمقدسي ص108نحوہ)

.

امام منذری اور امام طبرانی نے اس روایت کو صحیح قرار دیا

قال الطبراني بعد ذكر طُرقه: والحديث صحيح.

(الترغیب و الترھیب امام منذری1/476)

.

علامہ شامی نے فرمایا:

روى الطبراني والبيهقي- بإسناد متّصل ورجاله ثقات- عن عثمان بن حنيف

 مذکورہ واقعہ امام طبرانی نے اور امام بیہقی نے متصل سند کے ساتھ بیان کیا ہے جس کے تمام راوی ثقہ ہیں

(سبل الهدى والرشاد في سيرة خير العباد12/407)

.

صحابی سیدنا عثمان بن حنیف نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات  کے کئ سال بعد نبی پاک کا وسیلہ دینے کی تعلیم دی اور کسی صحابی نے شرک بدعت کا فتوی نہ دیا...ثابت ہوا کہ انبیاء کرام علیھم السلام اور اولیاء عظام وغیرہ نیک مقرب بندوں کو قبل از وفات اور بعد از وفات وسیلہ بنانا جائز و ثواب ہے جسکی بہت برکات ملتی ہیں،حاجات پوری ہوتی ہیں،بلائیں ٹلتی ہیں

.===============

*#دلیل 9⃣ *

حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ مَالِكِ الدَّارِ، قَالَ: وَكَانَ خَازِنَ عُمَرَ عَلَى الطَّعَامِ، قَالَ: أَصَابَ النَّاسَ قَحْطٌ فِي زَمَنِ عُمَرَ، فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اسْتَسْقِ لِأُمَّتِكَ فَإِنَّهُمْ قَدْ هَلَكُوا، فَأَتَى الرَّجُلَ فِي الْمَنَامِ فَقِيلَ لَهُ: " ائْتِ عُمَرَ فَأَقْرِئْهُ السَّلَامَ، وَأَخْبِرْهُ أَنَّكُمْ مُسْتَقِيمُونَ وَقُلْ لَهُ: عَلَيْكَ الْكَيْسُ، عَلَيْكَ الْكَيْسُ "، فَأَتَى عُمَرَ فَأَخْبَرَهُ فَبَكَى عُمَرُ ثُمَّ قَالَ: يَا رَبِّ لَا آلُو

 سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں قحط ہوا تو ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مزار مبارک کی طرف آیا اور عرض کی یا رسول اللہ اپنی امت کے لئے بارش کی دعا کیجئے وہ ہلاک ہو رہے ہیں، تو نبی پاک صلی اللہ وسلم اس شخص کے خواب میں آئے اور فرمایا کہ عمر کے پاس جاؤ، اسے میرا سلام کہو اور اسے خبر دو کہ تم عنقریب بارش سے نوازے جاؤ گے، اور عمر سے کہو کہ تم پر سمجھداری لازم ہے سمجھ داری لازم ہے تو وہ شخص سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آیا اور سب کچھ بتایا تو سیدنا عمر رونے لگے اور عرض کرنے لگے یا اللہ میں بھرپور کوشش کروں گا

(مصنف ابن ابی شیبہ استادِ بخاری روایت32002)

(كنز العمال ,8/431 روایت23535)

(دلائل النبوة للبيهقي مخرجا7/47)

(جامع الاحادیث للسیوطی حدیث 28209)

(فتح الباري شرح بخاری 494/2)

.

کتاب روضة المحدثين کے محققین نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے اور حدیث صحیح قابل حجت ، قابل قبول ، قابل دلیل ہوتی ہے....إسناده صحيح

(مجموعة من المؤلفين ,روضة المحدثين ,1/440)

.

امام زرقانی نے بھی اس واقعے کو لکھا دلیل بنایا اور اس کی سند کو صحیح قرار دیا

وروى ابن أبي شيبة بإسناد صحيح من رواية أبي صالح السمان، عن مالك الدار....(شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية11/150)

.

 مجھے بڑی حیرت ہوتی ہے کہ جب کوئی جواب نہ بن پایا تو غیر کے مقلدین اور وسیلہ کے منکرین یہ کہتے ہیں کہ یہاں پر رجل لفظ ہے کوئی بندہ پتہ نہیں کون بندہ تھا لہذا مجہول ہے اور مجھول کی روایت ضعیف ہے....

ہمارا جواب:

ارے عقل سے کام لیجیے اگر سند کا راوی رجل ہو مجھول ہو تو ضعف آ سکتا ہے...یہاں سند میں کوئی مجھول نہیں رجل لفظ سند کا حصہ نہیں بلکہ متن میں رجل ہے متن میں رجل آئے تو ضعیف ہونا ثابت نہیں ہوتا دیکھیے امام بخاری حدیث پاک لکھتے ہیں کہ

كَانَ الرَّجُلُ فِيمَنْ قَبْلَكُمْ

( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم سے پہلے کوئی بندہ ہوتا تھا....

(بخاری حدیث3612)

اب کیا رجل کی گردان پڑھ کر بخاری کی حدیث کو بھی ضعیف کہہ دو گے......؟؟

.

پھر بھی علماء کرام نے تحقیق فرما کر لکھا کہ وہ شخص صحابی بلال مزنی تھے

وَقَدْ رَوَى سَيْفٌ فِي الْفُتُوحِ أَنَّ الَّذِي رَأَى الْمَنَامَ الْمَذْكُورَ هُوَ بِلَالُ بْنُ الْحَارِثِ الْمُزَنِيُّ أَحَدُ الصَّحَابَةِ

 امام ابن حجر فرماتے ہیں کہ علامہ سیف نے اپنی کتاب الفتوح میں لکھا ہے کہ جس شخص نے خواب دیکھا تھا وہ سیدنا بلال بن حارث مزنی تھے جو کہ صحابہ کرام میں سے ہیں

(فتح الباری شرح بخاری ابن حجر2/496)

.

 اس حدیث پاک سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وفات شدہ کا وسیلہ دیا جا سکتا ہے، ان سے فریاد و عرض کی جاسکتی ہے....یہ سنت صحابہ ہے، کیوں کہ سیدنا عمر نے یا دوسرے کسی صحابی نے شرک بدعت کا فتویٰ نہیں لگایا...بعض منکرینِ وسیلہ کہتے ہیں کہ وفات شدہ اور دور والے کا وسیلہ نہیں دے سکتے،منکرین وسیلہ کا یہ نظریہ دلائل کے خلاف و غلط ثابت ہوا

.==============

*#دلیل 🔟 *

قُلْنَا: فَإِنَّا نَسْأَلُكَ بِحَقِّ الْإِسْلَامِ، وَبِحَقِّ صُحْبَتِنَا إِلَّا جَعَلْتَنَا فِيهَا، قَالَ: «فَأَنْتُمْ فِيهَا

صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم آپ سے سوال کرتے ہیں اسلام کے حق اور اسلام کے وسیلے واسطے سے اور ہماری صحبت  کے واسطے وسیلے سے کہ آپ ہمیں شفاعت میں ضرور شامل کیجئے گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم شفاعت میں ضرور شامل ہو 

(المعجم الكبير للطبراني ,20/163حدیث343)

جامع الاحادیث کے حاشیہ میں اسکو صحیح کہا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ درج ذیل کتب میں بھی یہ حدیث موجود ہے

أخرجه أحمد (5/232، رقم 22078) . وأخرجه أيضًا: البزار (7/119، رقم 2674) ، والطبرانى (20/163، رقم 343) . قال الهيثمى (10/368) : رجال أحمد والطبرانى رجال الصحيح غير عاصم بن أبى النجود، وقد وثق

(جامع الأحاديث ,1/159)

اس روایت میں صحابہ کرام نے نبی پاک سے عرض کیا کہ اسلام کا واسطہ وسیلہ، ہماری صحبت کا واسطہ وسیلہ ہمیں اپنی شفاعت میں لے لیجیے گا، آپ نے شرک بدعت کا فتوی نہ لگایا بلکہ فرمایا کہ ہاں تم کو شفاعت میں لوں گا....غیر اللہ کا وسیلہ دینا ،واسطہ دینا ، نیک اعمال کا واسطہ ، وسیلہ دینا اس سے بھی ثابت ہوتا ہے یہ صحابہ کرام جیسے عظیم الشان صالحین کا طریقہ بھی ثابت ہوا

.===============

*#دلیل 1⃣1⃣ *

الحدیث:

وَوَسِّعْ عَلَيْهَا مُدْخَلَهَا، بِحَقِّ نَبِيِّكَ وَالْأَنْبِيَاءِ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِي فَإِنَّكَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ»

یا اللہ کریم اس مرحومہ کی قبر کو وسیع فرما اپنے نبی کے حق کا واسطہ، نبی کے حق کے صدقے میں اور مجھ سے پہلے جو انبیاء گزرے ہیں ان کے حق و صدقے میں ان کے واسطے میں ان کے وسیلے میں(مرحومہ کی قبر کو وسیع فرما) بے شک تو أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ ہے

(طبراني کبیر حدیث871)

(حلیة الاولیاء3/121 نحوہ)

(كنزالعمال12/148نحوہ)

(جمع الجوامع امام سیوطی5/155)

علامہ ہیثمی اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں کہ اس کے سارے راوی صحیح روایت والے راوی ہیں سوائے روح بن صلاح کے کہ جس میں ضعف ہے لیکن امام ابن حبان اور امام حاکم نے روح کو بھی ثقہ قرار دیا ہے

 رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْكَبِيرِ وَالْأَوْسَطِ، وَفِيهِ رَوْحُ بْنُ صَلَاحٍ، وَثَّقَهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالْحَاكِمُ، وَفِيهِ ضَعْفٌ، وَبَقِيَّةُ رِجَالِهِ رِجَالُ الصَّحِيحِ

(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد ,9/257)

اس حدیث پاک میں ظاہری حیات نبی پاک  یعنی حضرت سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا واسطہ دیا گیا ہے وسیلہ بنایا گیا ہے اور نبی پاک نے ظاہری وفات شدہ انبیاء کرام کا واسطہ وسیلہ پیش کیا ہے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے انبیاء کرام کے مزارات سے دور رہ کر انکا وسیلہ واسطہ دیا ہے.... لیھذا وسیلہ واسطہ دینا سنت ثابت ہوا جوکہ ہرگز شرک بدعت نہیں ہوسکتا...لیھذا انبیاء کرام اولیاء عظام کا واسطہ وسیلہ دیا جاسکتا ہے، انہیں وسیلہ بنایا جاسکتا ہے چاہے وہ زندہ ہوں یا وفات شدہ ہوں، چاہے دور سے وسیلہ بنایا جائے یا قبر شریف کے قریب کھڑے ہوکر وسیلہ بنا کر اللہ سے دعا کی جائے یا صاحب مزار کو اس طرح وسیلہ بنایا جائے کہ ان سے عرض کی جاءے کہ آپ اللہ کی بارگاہ میں میرے لیے دعا فرمائیں....بعض منکرین وسیلہ کہتے ہیں کہ وفات شدہ اور دور والے کا وسیلہ نہیں دے سکتے،منکرین وسیلہ کا یہ نظریہ دلائل کے خلاف و غلط ثابت ہوا

.

کئ وجوہ سے اس روایت کا ضعف ختم ہو کر یہ روایت صحیح یا حسن معتبر دلیل کہلائے گی اور اگر ضعیف مان بھی لیا جائے تو اوپر صحیح دلائل کی تائید کی وجہ سے یہ ضعیف روایت بھی تائیدی دلیل کہلائے گی

.===================

*#دلیل 1⃣2⃣ *

الحدیث:

قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَمَّا اقْتَرَفَ آدَمُ الْخَطِيئَةَ قَالَ: يَا رَبِّ أَسْأَلُكَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ لَمَا غَفَرْتَ لِي

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب سیدنا آدم علیہ الصلوۃ والسلام سے اجتہادی خطا ہوئی تو سیدنا آدم علیہ السلام نے عرض کیا یا رب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حق کا واسطہ ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ مجھے بخش دیجئے

(المستدرك ,2/672روایت4228)

(المعجم الأوسط للطبرانی ,6/313)

امام ہیثھمی نے(مجمع زوائد 8/ 253) میں اور امام بیھقی نے(دلائل النبوة للبیھقی5/ 489) میں ضعیف قرار دیا لیھذا موضوع  من گھڑت جھوٹی روایت کہنا ٹھیک نہیں، اوپر صحیح دلائل سے وسیلہ ثابت ہے تو اس کی تائید و بطور شاہد ضعیف بھی مقبول ہے

.==============

*#دلیل 1⃣3⃣ *

وسلیہ....زندہ سے دعا کروانا

اس بارے میں تو کئ دلائل آیات و احادیث و اثار ہیں،  چند ملاحظہ کیجیے

القرآن:

قَالُوۡا یٰۤاَبَانَا اسۡتَغۡفِرۡ لَنَا ذُنُوۡبَنَاۤ اِنَّا کُنَّا خٰطِئِیۡنَ

 انہوں نے کہا اے ہمارے والد اللہ سے دعا کیجئے ہمارے استغفار کی کہ ہم نے خطاء کی ہے

(سورہ یوسف ایت97)

.

الحدیث:

إِنَّ الدُّعَاءَ يَنْفَعُ مِمَّا نَزَلَ وَمِمَّا لَمْ يَنْزِلْ، فَعَلَيْكُمْ عِبَادَ اللَّهِ بِالدُّعَاءِ

بے شک دعا نفع، فائدہ دیتی ہے ان(بلاؤں بیماریوں مصیبتوں واقعات) میں جو نازل ہوچکے اور جو نازل نہیں ہوئے(ان سب میں دعا فائدہ دیتی ہے..) تو اے اللہ کے بندو تم پے دعا(کرنا کرانا) لازم ہے..(ترمذی حدیث3548)

.


فَادْعُهْ

صحابی نے عرض کی یا رسول اللہ میری صحت یابی کے لیے اللہ سے دعا کیجیے

(ترمذی تحت حدیث3578)

.

قُلْتُ : ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ. فَدَعَا

 ایک صحابیہ نے عرض کی یارسول اللہ اللہ سے میرے لیے دعا کیجئے کہ مجھے ان میں بنا دے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی

(بخاری تحت حدیث6283)

.

فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَصْرِفَهُ عَنَّا

 صحابی نے عرض کی یارسول اللہ اللہ سے دعا کیجئے کہ یہ نقصان دہ بارش ہم سے ٹل جائے

(بخاری تحت حدیث1015)

.

يَا رَسُولَ اللَّهِ....فَادْعُ اللَّهَ يُغِيثُنَا

صحابہ کرام نے عرض کی یا رسول اللہ اللہ سے دعا کیجیے کہ اللہ بارش عطاء فرمائے

(بخاری تحت حدیث1013)

.

قُلْنَا : يَا رَسُولَ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنَا مِنْ أَهْلِهَا

 صحابہ کرام نے عرض کی یارسول اللہ اللہ سے دعا کیجئے کہ ہمیں آپ کی شفاعت نصیب ہو

(ابن ماجہ حدیث4317)

.==============

*#دلیل 1⃣4⃣ *

عن علي بن أبي طالب رضي الله تعالى عنه قال: قدم علينا أعرابي بعد ما دفنا رسول الله صلى الله عليه وسلم بثلاثة أيام، فرمى بنفسه على قبر النبي صلى الله عليه وسلم، وحثا من ترابه على رأسه، وقال: يا رسول الله، قلت فسمعنا قولك،  ووعيت عن الله سبحانه وما وعينا عنك، وكان فيما أنزل عليك وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جاؤُكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ [النساء: 64] الآية، وقد ظلمت وجئتك تستغفر لي، فنودي من القبر: إنه قد غفر لك

 سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ جب ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دفن کردیا تو کچھ دن کے بعد ایک شخص مزار اقدس پے حاضر ہوا  اور اپنے سر پر مٹی ڈالنے لگا اور عرض کرنے لگا یا رسول اللہ قرآن میں تو ہے کہ اگر کوئی اپنے اوپر ظلم کرے تو وہ آپ کے پاس حاضر ہو اور اللہ سے توبہ کرے تو( آپ کے وسیلے سے) توبہ قبول ہو جائے گی معافی مل جائے گی تو میں ظلم کر چکا ہوں اور میں آپ کے پاس حاضر ہوا ہوں، تو مزار اقدس سے آواز آئی تمہاری بخشش کر دی گئی ہے

(وفاء الوفاء بأخبار دار المصطفى4/186)

(كنز العمال2/386)

(جامع الاحادیث روایت34153)

.

واضح ہے کہ وفات کے بعد مزار پے حاضر ہونا عرض و فریاد کرنا وسیلہ بنانا جائز ہے کہ کسی صحابی نے اس فعل پر مذمت نہ کی.....!!

.=============

*#دلیل 1⃣5⃣ *

وسیلہ....دعا خود کرنا زندہ کو وسیلہ بنانا

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو حاجت روائی کے لیے نوافل پڑھ کر اللہ سے باوسیلہ نبی پاک دعا کرنے کا حکم دیا

أَنَّ رَجُلًا ضَرِيرَ الْبَصَرِ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ادْعُ اللَّهَ لِي أَنْ يُعَافِيَنِي فَقَالَ: «إِنْ شِئْتَ أَخَّرْتُ لَكَ وَهُوَ خَيْرٌ، وَإِنْ شِئْتَ دَعَوْتُ» فَقَالَ: ادْعُهْ، فَأَمَرَهُ أَنْ يَتَوَضَّأَ فَيُحْسِنَ وُضُوءَهُ، وَيُصَلِّيَ رَكْعَتَيْنِ، وَيَدْعُوَ بِهَذَا الدُّعَاءِ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ، وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ، يَا مُحَمَّدُ إِنِّي قَدْ تَوَجَّهْتُ بِكَ إِلَى رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَى، اللَّهُمَّ فَشَفِّعْهُ فِيَّ» . قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ

 ایک شخص جس کی بصارت میں کچھ نقص تھا اس نے عرض کی یارسول اللہ میرے لیے دعا کر دیجیے کہ اللہ تعالی مجھے شفا عطا فرمائے آپ نے فرمایا کہ اگر تم چاہے تو میں تمہارے لیے موخر کر دوں اور وہ تمہارے لیے بہتر ہے اور اگر چاہے تو میں دعا کر دوں، صحابی نے عرض کی دعا فرما دیجیے کہ شفاء ملے تو حضور علیہ الصلاۃ و السلام نے اسے حکم دیا کہ وہ وضو کرے اور اچھا وضو کرے اور دو رکعت نفل(حاجات) پڑھے اور یہ دعا کرے کہ یا اللہ عزوجل میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف توجہ کرتا ہوں نبی الرحمۃ محمد مصطفی کے وسیلہ سے واسطے سے صدقے سے ، یارسول اللہ آپ کے صدقے سے وسیلے سے میں اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہوں اپنی حاجت میں کہ اللہ میری حاجت پوری فرما دے یا اللہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت(وسیلے واسطے کو) قبول فرما میرے معاملے میں

 امام ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے

(سنن ابن ماجه ,1/441حدیث1385)

(ترمذی حدیث3578نحوہ)

(الجامع الصغير سیوطی حدیث2159)

.

نیک اعمال کرنے چاہیے اور پھر زندہ یا وفات شدہ نیک بندوں کے وسیلے سے دعا اللہ سے مانگنی چاہیے

.=================

*#دلیل 1⃣6⃣ *

سیدنا علی کو وفات شدہ یعنی سیدنا جعفر کا واسطہ وسیلہ دیا جاتا تو  آپ عطاء فرماتے....شرک بدعت نہ فرماتے

كُنْتُ أَسْأَلُ عَلِيًّا رَضِي اللهُ عَنْهُ الشَّيْءَ فَيَأْبَى عَلَيَّ، فَأَقُولُ: بِحَقِّ جَعْفَرٍ، فَإِذَا قُلْتُ بِحَقِّ جَعْفَرٍ أَعْطَانِي

 سیدنا جعفر رضی اللہ تعالی عنہ کے بیٹے فرماتے ہیں کہ میں سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ سے کچھ مانگتا تھا تو وہ نہ دیتے تھے پھر میں عرض کرتا بحق جعفر، سیدنا جعفر کا وسیلہ صدقہ واسطہ ہے آپ کو تو پھر عطاء فرماتے تھے

(المعجم الكبير للطبراني ,2/109روایت1476)

(فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل2/903نحوہ)

 بعض منکرین وسیلہ کو کوئی اور راہ نہ سوجھی تو کہنے لگے کہ سیدنا جعفر کے بیٹے کو سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ صلہ رحمی کے طور پر دیتے تھے کہ ان کے رشتہ دار تھے

ہمارا جواب:

ارے کچھ عقل سے کام لیجیے، اگر محض صلہ رحمی کے طور پر دینا ہوتا تو شروع میں انکار کیوں فرماتے...؟؟ کیا شروع میں صلہ رحمی یاد نہیں ہوتی تھی سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو....؟؟ صاف ظاہر ہے کہ صلہ رحمی ہو نہ ہو مگر دینے کی وجہ بحق جعفر یعنی سیدنا جعفر کا وسیلہ واسطہ کام آتا تھا.....سیدنا جعفر تو بہت پہلے شہید ہوچکے تھے تو وفات شدہ کا واسطہ وسیلہ دیا جاتا تھا تو سیدنا علی و دیگر صحابہ کرام شرک بدعت کا فتوی نہ لگاتے تھے بلکہ کرم نوازیاں فرماتے تھے


.=================

*#دلیل 1⃣7⃣ َ*

نبی پاک نے اذان و نماز کو وسیلہ بنانے کا فرمایا

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ قَالَ حِينَ يَسْمَعُ النِّدَاءَ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِحَقِّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ، وَالصَّلَاةِ الْقَائِمَةِ، آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ، وَابْعَثْهُ الْمَقَامَ الْمَحْمُودَ الَّذِي وَعَدْتَهُ، إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادَ، حَلَّتْ لَهُ شَفَاعَتِي

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو اذان سنے اور اس کے بعد کہے کہ اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اس دعوت تامہ کے وسیلے سے اور قائم ہونے والی نماز کے وسیلے سے، یا اللہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلہ اور فضیلت عطا فرما اور اسے مقام محمود پر مبعوث فرما کہ جس کا آپ نے ان سے وعدہ کیا ہے اور آپ وعدے کے خلاف نہیں کرتے تو رسول کریم نے فرمایا کہ وہ میری شفاعت کا حقدار ہوجائے گا

(الدعوات الكبير ,1/108حدیث49)

(السنن الصغير للبيهقي ,1/122حدیث296)

.=================

*#دلیل 1⃣8⃣ *

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «تَمَثَّلْتُ بِهَذَا الْبَيْتِ وَأَبُو بَكْرٍ يَقْضِي وَأَبْيَضُ يُسْتَسْقَى الْغَمَامُ بِوَجْهِهِ... فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

 سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتی ہیں کہ میں نے یہ شعر اپنے والد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے لئے بطور مثال کہے کہ جب وہ حاجتیں پوری فرماتے.. شعر یہ تھے کہ سفید چہرے ہیں جس کے ذریعے سے جس کے واسطے سے جس کے وسیلے سے بارش طلب کی جاتی ہے تو سیدنا ابو بکر صدیق نے فرمایا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہے

(مصنف ابن ابی شیبہ استاذ بخاری6/353)

(إتحاف المهرة لابن حجر 8/252نحوہ)

ثابت ہوا سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا یہ نظریہ تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلہ بنایا جا سکتا ہے ان کا واسطہ دیا جا سکتا ہے ان کی وفات کے بعد بھی......!! اور یہ بھی ثابت ہوا کہ سیدہ عائشہ نے غیرنبی یعنی سیدنا صدیق اکبر کو وسیلہ واسطہ بنانا جائز سمجھا تبھی تو بطور تمثیل شعر کہے.....!! لیکن سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی کمال عاجزی تھی کہ آپ نے ان اشعار کے متعلق فرمایا کہ وہ ذات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے

.=================

*#دلیل 1⃣9⃣ *

أَسْأَلُكَ بِحُرْمَةِ وَجْهِكَ وَحُرْمَةِ عَرْشِكَ [وَحُرْمَةِ بَيْتِكَ] وَحُرْمَةِ نَبِيِّكَ عَلَيْهِ السَّلامُ

 صحابی سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے دعا کی کہ یا اللہ میں آپ سے سوال کرتا ہوں آپ کے وسیلے سے آپ کے عرش کے وسیلے سے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کے وسیلے سے

( المنتظم في تاريخ الملوك والأمم ابن جوزي6/135)

( تاريخ دمشق لابن عساكر 31/172)

(مجابو الدعوة لابن أبي الدنيا ص64)

 ثابت ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ دیا جا سکتا ہے بحرمۃ نبی اخر زمان کہا جا سکتا ہے، یہ سنت صحابہ ہے

.================

*#دلیل 2⃣0⃣ *

واسألوا الله بجاه نبيه ومن سكنها من الأنبياء والصالحين أن يسهل فتحها على أيدي المسلمين

 صحابی سیدنا ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالی عنہ نے تلقین فرمائی کہ بیت المقدس کو آزاد کرانے کے لیے جاؤ تو یوں دعا کرو کہ

 یا اللہ ہم آپ سے دعا کرتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے، بجاہ النبی کہہ کر دعا کرو، اور یا اللہ آپ کو واسطہ ہے ان کا کہ جو اس سر زمین پے انبیاء کرام گزرے ہیں اور صالحین کا واسطہ وسیلہ کہ مسلمانوں کو  فتح یابی اسانی سے عطا فرما

(كتاب فتوح الشام1/220)

(کتاب فتح القدس ص39)

(کتاب بيت المقدس أمام أحداث التاريخ ص121)

 وفات شدہ انبیائے کرام کا وسیلہ ، بجاہ النبی کہنے کا ثبوت اور زندہ و وفات شدہ صالحین کا وسیلہ اس سے ثابت ہوا اور صحابہ کرام میں سے کسی نے انکار بھی نہیں کیا...اللہ سمجھ عطا فرمائے

.###########

*#منکرین وسیلہ کے ٹوٹے پھوٹے اعتراضات تو بہت ہین لیکن جن اعتراض کے بل بوتے پے وہ اودھم مچائے رکھتے ہیں، ان اعتراضات کو لاجواب سمجھتے ہیں...وہ چار ہیں، ہم چاروں کے جواب لکھ رہے ہیں..بلاتعصب ملاحظہ فرمائیے...!!*

⏪پہلا اعتراض:

 ۚ وَ مَاۤ  اَنۡتَ بِمُسۡمِعٍ  مَّنۡ فِی الۡقُبُوۡرِ

آپ قبر والوں کو کچھ نہیں سنا سکتے

(سورہ فاطر آیت22)

 جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اختیار نہیں کہ وہ قبر والوں کو سنا سکیں تو ہم فریاد کیسے سنا سکتے ہیں قبر والوں کو....؟؟

.

⏪الزامی جواب:

پوری ایت پڑھو پوری ایت.....القرآن:

اِنَّ اللّٰہَ  یُسۡمِعُ مَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ مَاۤ  اَنۡتَ بِمُسۡمِعٍ  مَّنۡ فِی الۡقُبُوۡرِ

بے شک اللہ(زندہ کو یا وفات شدہ قبر والے کو) جسے چاہے سناتا ہے اور آپ قبر والے کو نہیں سنا سکتے

(سورہ فاطر آیت22)

 یعنی آیت کا یہ مطلب بنا کہ ہم مزار والے سے کچھ عرض و فریاد کریں اور اللہ انہیں سنا دے تو یہ بالکل ہو سکتا ہے... اور الحمد للہ ہمارا یہی عقیدہ ہے کہ وہ بذات خود نہیں سن سکتے اللہ نے انہیں سننے کی طاقت دی ہے اللہ کی عطا سے وہ سنتے ہیں اللہ کے چاہنے سے وہ سنتے ہیں... لہذا تمہارا اعتراض ختم ہوا کہ وہ نہیں سن سکتے


.

⏪تحقیقی جواب:

يَعْنِي: الْكَفَّارَ، شَبَّهَهُمْ بِالْأَمْوَاتِ فِي الْقُبُورِ حِينَ لَمَّ يُجِيبُوا

 قبر والوں کو نہیں سنا سکتے اس سے مراد کفار ہیں تو کفار کو مردوں سے تشبیہ اس طرح دی جس طرح قبر والے سن کر بھی فائدہ نہیں اٹھا سکتے مشرکین بھی سن کر فائدہ نہیں اٹھا رہے

(تفسیر بغوی6/418)

.

أَيْ هُمْ بِمَنْزِلَةِ [أَهْلِ] الْقُبُورِ فِي أَنَّهُمْ لَا يَنْتَفِعُونَ بِمَا يَسْمَعُونَهُ

 یعنی یہ لوگ قبر والوں کے قائم مقام ہیں کہ جس طرح قبر والے سنتے تو ہیں لیکن فائدہ نہیں اٹھا سکتے اس سے جو وہ سنتے ہیں

(تفسیر قرطبی14/340)

.

شبه الكفار بالموتى حيث لا ينتفعون بمسموعهم

 آیت میں جو قبر والے ہیں ان سے مراد کفار ہیں اور کفار کو قبر والوں سے میت سے تشبیہ اس طرح دی گئی ہے کہ جس طرح قبر والے  اور وفات شدہ سننے کے باوجود نفع نہیں اٹھا سکتے اسی طرح کفار بھی نہیں اٹھاتے

(تفسیر نسفی3/85)

.

أَيْ كَمَا لا يَنْتَفِعُ الْأَمْوَاتُ بَعْدَ مَوْتِهِمْ وَصَيْرُورَتِهِمْ إِلَى قُبُورِهِمْ

وَهُمْ كُفَّارٌ بِالْهِدَايَةِ وَالدَّعْوَةِ إِلَيْهَا، كَذَلِكَ هَؤُلَاءِ الْمُشْرِكُونَ

 یعنی وفات شدہ قبر میں جب چلے جاتے ہیں حالانکہ انہوں نے ہدایت کا اور دعوت کا انکار کیا تھا تو اس سے وہ فائدہ نہیں اٹھا سکتے اسی طرح مشرکین بھی فائدہ نہیں اٹھا رہے

(تفسیر ابن کثیر6/480,481)

.

 الحاصل:

 ان تفاسیر سے ثابت ہوا کہ مردے سنتے تو ہیں وفات شدہ سنتے تو ہیں ،مزارات والے سنتے تو ہیں لیکن وہ سننے سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے یعنی اب ایمان لے آئیں اور فائدہ اٹھائیں ایسا نہیں ہو سکتا... ایسا نفع مند آپ سنا نہیں سکتے

.

*#قبر والے، وفات شدہ سنتے ہیں، دلائل کی ایک جھلک ملاحظہ کیجیے......!!*

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے..ترجمہ:

اور جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں انھیں مردہ نا کہو بلکہ وہ تو زندہ ہیں(سنتے ہیں جنت کی نعمتیں پاتے ہیںں)مگر تمھیں اسکا شعور نہیں.(سورہ بقرہ آیت154)

.

حدیث پاک میں ہے کہ:

حتى إنه ليسمع قرع نعالهم

حتی کہ مردہ لوگوں کے جوتوں کی ہلکی سی آہٹ تک سنتا ہے...(بخاری حدیث1338)

.

ایک اور حدیث پاک ملاحظہ کیجیے

إذا وضعت الجنازة، فاحتملها الرجال على أعناقهم، فإن كانت صالحة قالت: قدموني، وإن كانت غير صالحة قالت لأهلها: يا ويلها أين يذهبون بها، يسمع صوتها كل شيء إلا الانسان


ترجمہ:

جب جنازہ رکھا جاتا ہے تو اسے لوگ اپنے کندھوں پر اٹھاتے ہیں تو اگر مردہ نیک ہوتا ہے تو کہتا ہے مجھے جلدی لے جاؤ.. اور مردہ نیک نہیں ہوتا تو کہتا ہے ہائے ہلاکت مجھے کہاں لے جا رہے ہو.. مردے کی آواز ہر چیز سنتی ہے سوائے انسان کے

(بخاری حدیث1316)

مذکورہ آیت اور دو احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد سب مُردوں کو برزخی حیات مل جاتی ہے وہ بولتے ہیں سنتے ہیں محسوس کرتے ہیں

مگر

ہمیں اسکا شعور نہیں ہوتا

.##############

*#دوسرا اعتراض......!!*

بخاری میں ہے کہ سیدنا عمر نے فرمایا کہ یا اللہ ہم نبی پاک سے توسل کرتے تھے اب سیدنا عباس کا وسیلہ دیتے ہیں...یعنی نبی پاک کی وفات کے بعد نبی پاک سے توسل نہ کیا مطلب وفات شدہ سے توسل نہیں کیا جاسکتا

.

*#جواب.....!!*

یہ آپ نے اٹکل بچو سے مطلب نکال لیا ورنہ اسلاف نے اسکا یہ مطلب نہیں نکالا تھا بلکہ فرمایا تھا کہ سیدنا عباس سے توسل صلہ رحمی کی وجہ سے کیا...اوپر ہم نے دلیل نمبر9 میں ثابت کیا ہے کہ سیدنا عمر کی موجودگی میں صحابی نے وفات کے بعد نبی پاک کا وسیلہ دیا...اور دلیل نمبر8 سے واضح ہے کہ مزار اقدس سے دور رہ کر بھی توسل کیا اور اوپر قرآن و حدیث و افعال صحابہ مطلق دلائل سے بھی ثابت کیا کہ زندہ یا وفات  شدہ قریب یا دور ہر صورت میں انبیاء کرام و اولیاء عظام وغیرہ اللہ کے پیاروں کا وسیلہ دینا واسطہ صدقہ دینا جائز ہے

.

وأما استسقاء عمر بالعباس، فإنما هو للرحم التى كانت بينه وبين النبى، (صلى الله عليه وسلم) ، فأراد عمر أن

يصلها

 سیدنا عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے رشتہ تھا قریبی رشتہ تھا تو سیدنا عمر نے چاہا کہ صلہ رحمی کریں اس لیے انہوں نے سیدنا عباس سے توسل کیا

(شرح بخاری ابن بطال3/9)

.

متوسلاً (بالعباس بن عبد المطلب) رضي الله عنه للرحم التي بينه وبين النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-.فأراد عمر أن

يصلها

 سیدنا عباس رضی اللہ تعالی عنہ کے ذریعہ سے توسل کیا سیدنا عمر نے اس وجہ سے کہ قریبی رشتہ داری تھی سیدنا عباس اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان تو سیدنا عمر نے چاہا کہ صلہ رحمی کریں اس لیے ان سے توسل کیا

(ارشاد الساری شرح بخاری2/238)

.#############

*#تیسرا اعتراض......!!*

فقہ حنفی میں لکھا ہے کہ بحق رسلک یعنی اے اللہ رسولوں کے صدقے ہماری دعا حاجت قبول فرمایا...اس طرح دعا نہیں کرسکتے ایسا تمھاری فقہ حنفی کی کتب میں لکھا ہے

.

*#جواب.....!!*

عبارت تو پڑھ لی مگر سمجھنا بھی ضروری ہوتا ہے...فقہ حنفی میں بحق کہہ کر دعا کرنا ممنوع لکھا تو اسکی وضاحت بھی کی ہے کہ یہ معنی مراد ہوں کہ اللہ پر فلاں کا حق واجب ہے،یہ نظریہ و معنی رکھ کر بحق کہہ کر دعا کرنا ممنوع ہے کیونکہ اللہ پر کچھ واجب نہیں...البتہ بحق کہنے سے یہ معنی مراد ہوں کہ اللہ پر کسی کا حق واجب تو نہیں مگر اللہ کی کرم نوازیاں ہیں کہ اس نے پیاروں کو حق دیا ہے تو یہ معنی مراد ہون تو ممنوع نہیں اور اگر بحق سے مراد پیاروں کی عظمت کا وسیلہ دینا مراد ہو تو پھر تو یقینا ممنوع نہیں کہ وسیلہ قرآن سے ثابت ہے

قَدْ يُقَالُ إنَّهُ لَا حَقَّ لَهُمْ وُجُوبًا عَلَى اللَّهِ تَعَالَى، لَكِنَّ اللَّهَ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى جَعَلَ لَهُمْ حَقًّا مِنْ فَضْلِهِ أَوْ يُرَادُ بِالْحَقِّ الْحُرْمَةُ وَالْعَظَمَةُ، فَيَكُونُ مِنْ بَابِ الْوَسِيلَةِ وَقَدْ قَالَ تَعَالَى: - {وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ} [المائدة: 35]-: وَقَدْ عَدَّ مِنْ آدَابِ الدُّعَاءِ التَّوَسُّلَ عَلَى مَا فِي الْحِصْنِ، وَجَاءَ فِي رِوَايَةٍ: «اللَّهُمَّ إنِّي أَسْأَلُك بِحَقِّ السَّائِلِينَ عَلَيْك، وَبِحَقِّ مَمْشَايَ إلَيْك، فَإِنِّي لَمْ أَخْرُجْ أَشَرًا وَلَا بَطَرًا»

 الْحَدِيثَ اه

بحق رسلک کہہ کر دعا کرنا مکروہ ہے کیونکہ اللہ پر کسی کا کوئی حق واجب نہیں...لیکن اگر یہ معنی مقصود ہو کہ اللہ نے اپنے فضل و کرم سے اپنے پیاروں کو حق دیا ہے تو پھر بحق کہہ کر دعا کرنا ممنوع نہیں یا پھر بحق سے مراد پیاروں کی عظمت مراد ہو تو یہ وسیلہ ہے اور وسیلہ کے متعلق اللہ نے فرمایا ہے کہ اللہ کی طرف وسیلہ پکڑو،اور دعا کے اداب میں سے ہے کہ نیک و صالحین کا وسیلہ دیا جائے ، وسیلہ دینے کے متعلق ایک حدیث یہ بھی ہے کہ بحق السائلین ایا ہے یعنی سائلین کے حق کا وسیلہ نماز کے لیے چلنے کا وسیلہ حدیث پاک میں ایا ہے 

(رد المحتار المعروف فتاوی شامی6/397)

.###############

*#چوتھا اعتراض…!!*

وفات شدہ کا وسیلہ دینے کی روایات ضعیف ہیں

.

*#جواب.....!!*

زندہ وفات شدہ کا وسیلہ قرآنی آیات کے عموم سے ثابت ہے اور وفات شدہ کا وسیلہ ہم نے اوپر صحیح و حسن احادیث سے بھی ثابت کیا اور جو دو چار ضعیف روایات پیش کیں تو وہ بھی ضعیف نہیں کہلائیں گی کہ ضعیف روایات مل کر ثابت کرتی ہیں کہ بات کی اصل موجود ہے اور خاص کر جب قرآن و صحیح و حسن احادیث بھی موجود ہوں تو ضعیف انکی وجہ سے تقویت پا جاتی ہے

وبعضها شديدة الضعف. لكنها تدل على أن للحديث أصلًا،

 امام ابن حجر کسی معاملے میں فرماتے ہیں کہ روایات ضعیف ہیں بلکہ شدید ضعیف ہیں لیکن سب مل کر  اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ حدیث کی کوئی اصل ہے

(المطالب العالية امام ابن حجر10/693)

.

، وله طرق كلها ضعيفة، لكنها مشعرة بأن له أصلًا

(کسی مسئلے میں) حدیث کے کئی طرق ہیں سب کے سب ضعیف ہیں لیکن سب مل کر یہ ثابت کرتی ہیں کہ اس کی کوئی اصل ہے

(كشف الخفاء امام عجلونی1/299)

.

فَهَذِهِ الأَْحَادِيثُ - وَإِنْ كَانَتْ ضَعِيفَةَ الأَْسَانِيدِ - إِلاَّ أَنَّهَا يَشُدُّ بَعْضُهَا بَعْضًا، أَقْوَاهَا أَوَّلُهَا، وَيَدُل مَجْمُوعُهَا عَلَى أَنَّ لِلزِّيَادَةِ أَصْلاً

(کسی معاملے میں) تمام کی تمام احادیث ضعیف ہیں لیکن بعض ضعیف احادیث بعض دیگر ضعیف کو تقویت دیتی ہیں اور ان ضعیف حدیثوں کے مجموعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کی کوئی اصل ضرور ہے

(الموسوعة الفقهية الكويتية11/182)

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App,twitter nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.