چمن زمان نیم روافض کا بظاہر بغض، یومِ عمر کب منائیں؟ تاریخ شہادت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ

 *#سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تاریخِ شہادت 26ذوالحج یا یکم محرم یا...؟؟ اور چمن زمان و ہمنوا نے تحقیق و اصلاح کی یا اہلسنت بالخصوص پیاری دعوت اسلامی سے بغض و حسد کا بظاہر اظہار کیا......؟؟*

القرآن:

کسی سے دشمنی تمھیں ان کے ساتھ نا انصافی کرنے پر مت ابھارے، ہر ایک کے ساتھ عدل کرو(مائدہ ایت8)تو تعریف ہو تا تنقید و مذمت ہر ایک میں سچائی و عدل لازم ہے

لیکن

*#چمن زمان و دیگر نیم روافض نے چند دنوں سے سوشل میڈیا پے کہرام مچایا ہوا ہے کہ ہائے انصاف و حق کا قتل ہو رہا ہے، اہلسنت و دعوت والے تحقیق و حق کی خلاف ورزی کر رہے ہیں کہ ذوالحج کے بجائے یکم محرم کو یومِ عمر منا رہے ہیں...چمن زمان و دیگر نیم روافض اصلاح کے بجائے مذمتی تنقید کر رہے ہیں اور تنقید میں بھی عدل کی دھجیاں اڑاتے ہوئے بظاہر حسد میں آتے ہوئے ناحق مذمت کرتے ہوئے چمن زمان وغیرہ سوشل میڈیا پے اہلسنت کے ساتھ ساتھ پیاری دعوت اسلامی کو دعوت مروانی کہہ رہے ہیں اور مذمت کر رہے ہیں اور دلیل یہ دے رہے ہیں کہ دعوت اسلامی والے اور اہلسنت یوم عمر ذوالحج کے بجائے یکم محرم کو یومِ عمر منا رہے ہیں

.

*#ہمارا تبصرہ*

الحاصل:

جب دونوں تاریخیں کتب اسلاف میں لکھی ہیں تو اس میں مذمت و برائی کی کیا بات ہے.....؟؟ کچھ کتب میں ہے کہ یکم محرم کو سیدنا عمر کی وفات ہوئی، کچھ کتب میں ہے کہ یکم محرم کو سیدنا عمر کو دفنایا گیا....اور اسلاف اہلسنت کا طریقہ رہا ہے کہ کبھی شہادت و وفات کے دن عرس کرتے ہیں کبھی دفنانے کے دن کو یوم عرس منایا جاتا ہے...لیھذا ذوالحج میں "یومِ عمر" منایا جائے یا یکم محرم کو "یوم عمر" منایا جاءے یا دونوں دن دن یوم عمر منایا جائے تو کوئی حرج و مذمت کی بات نہیں،قابل اعتراض نہیں بلکہ جو اعتراض و مذمت کرے اس کے دل و دال میں کچھ کالا ضرور لگتا ہے...اللہ ہدایت دے

.

سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت کے متعلق چمن زمان لکھتا ہے کہ:ہم باب نظریات میں امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی شخصیت پر مکمل اعتماد کرتے ہیں 

(دیکھیے چمن زمان کی کتاب جدید نعرے ص57,58)

.

اور سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سیدی شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمۃ کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ،ترجمہ:

 روز عرس کا تعین اس لیے ہے کہ وہ دن دارالعمل سے دارالثواب کی جانب ان کے انتقال فرمانے کی یاد دہانی کرنے والا ہے ورنہ جس دن بھی یہ کام ہو فلاح ونجات کا سبب ہے

(فتاوی رضویہ9/590)

.

اس عبارت سے بالکل واضح ہے کہ یوم سیدنا عمر ، عرس سیدنا عمر کسی بھی دن منا سکتے ہیں حتی کہ معتبر اہلسنت علماء مشائخ مل کر کوئی نئ تاریخ مقرر فرما دیں تو بھی حرج نہیں البتہ 26ذوالحج کی مناسبت سے یوم سیدنا عمر منانا اور یکم محرم کی مناسبت سے یوم سیدنا عمر منانا بہتر ہے کہ کئ حوالہ جات میں 26 ذوالحج یوم وفات ہے تو یوم وفات کی مناسبت سے یوم سیدنا عمر منانا بہتر ہے اور یکم محرم کو کئ کتب کے مطابق سیدنا عمر کی وفات یا تدفین کا دن ہے تو اس مناسبت سے یکم محرم کو بھی یوم سیدنا عمر منانا بہتر ہے...!!

.

یوم وفات کو عرس کرنے کی مناسبت اس حدیث پاک سے اخذ کی گئ ہے:

الحدیث:

الْمَيِّتُ تَحْضُرُهُ الْمَلَائِكَةُ، فَإِذَا كَانَ الرَّجُلُ صَالِحًا قَالُوا : اخْرُجِي أَيَّتُهَا النَّفْسُ الطَّيِّبَةُ، كَانَتْ فِي الْجَسَدِ الطَّيِّبِ، اخْرُجِي حَمِيدَةً، وَأَبْشِرِي بِرَوْحٍ وَرَيْحَانٍ، وَرَبٍّ غَيْرِ غَضْبَانَ

رسول کریم  صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ میت کے پاس فرشتے آتے ہیں اگر آدمی نیک ہوتا ہے تو اس سے کہتے ہیں اے پاک روح نکل جو پاک جسم میں تھی، نکل قابلِ تعریف خیریت،راحت اور پاک رزق اور راضی رب کی بشارت حاصل کر.... اس(پاک روح) سے یہ کہتے رہتے ہیں حتی کہ نکل آتی ہے(اور بندے کی وفات ہوجاتی ہے)

(ابن ماجہ حدیث4262)

گویا اس دن یعنی وفات کے دن فرشتوں کی بشارت ملتی ہے نیک و صالحین کو...تو اس خصوصی کرم والے دن کی مناسبت سے عرس کیا جاتا ہے

.

تدفین کے دن کو عرس کرنے کی مناسبت اس حدیث پاک سے اخذ کی گئ ہے:

الحدیث:

إِذَا قُبِرَ الْمَيِّتُ....فَيَقُولَانِ : نَمْ كَنَوْمَةِ الْعَرُوسِ

جب میت کو دفنایا جاتا ہے........تو(نیک و صالحین سے)فرشتے کہتے ہیں کہ شادی کرنے والوں کی طرح(خوشی و خوشخبری راحت و بشارت کے ساتھ)سو جا

(ترمذی حدیث1071)

اس دن یعنی دفنانے کے دن فرشتوں کی بشارت ملتی ہے نیک و صالحین کو...تو اس خصوصی کرم والے دن کی مناسبت سے عرس کیا جاتا ہے

.

*#دونوں تاریخوں کے متعلق یہ لیجیے کچھ حوالہ جات…پڑھیے پھیلائیے.......!!*

طُعِنَ عُمَرُ يَوْمَ الْأَرْبِعَاءِ  لِأَرْبَعٍ بَقِينَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ...وَدُفِنَ يَوْمَ الْأَحَدِ هِلَالَ الْمُحْرِمِ..وَقَالَ عُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْأَحْمَسِيُّ: هَذَا  وَهْمٌ، تُوُفِّيَ عُمَرُ لِأَرْبَعِ لَيَالٍ بَقِينَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ...وَقَالَ ابْنُ قُتَيْبَةَ:  ضَرَبَهُ أَبُو لُؤْلُؤَةَ لِأَرْبَعٍ بَقِينَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ، وَمَكَثَ ثَلَاثًا

وَتُوُفِّيَ

سیدنا عمر کو بدھ کے دن 26ذوالحج کے دن زخمی کیا گیا اور اتوار کے دن یکم محرم کو دفنایا گیا....عُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْأَحْمَسِيُّ فرماتے ہیں کہ یہ وھم ہے 26ذوالحج کو زخمی نہ کیا گیا بلکہ 26 ذوالحج کو وفات پائی....ابن قتیبہ نے فرمایا کہ أَبُو لُؤْلُؤَةَ نے 26ذوالحج کو زخمی کیا تین دن سیدنا عمر زخمی حالت میں رہے پھر(یکم محرم) کو وفات پائی

(تاريخ المدينة لابن شبة3/943ملتقطا) 

.

وقال الواقدي:طعن «عمر» يوم الأربعاء لسبع بقين من ذي الحجة، ومكث ثلاثة أيام ثم توفى  لأربع بقين من ذي الحجة

ترجمہ:

واقدی نے کہا ہے کہ سیدنا عمر کو 23ذوالحج کے دن زخمی کیا گیا اور تین دن سیدنا عمر زخمی حالت میں رہے پھر 26 ذوالحج کو وفات پائی

(كتاب المعارف1/183)

.

دفن عمر يوم الأربعاء لأربع بقين من ذي الحجة

ترجمہ:

26ذوالحج  بدھ کے دن سیدنا عمر کو دفنایا گیا

(معجم الصحابة للبغوي4/311)

.

روى أَبُو بَكْر بْن إِسْمَاعِيل بْن مُحَمَّد بْن سعد [عَنْ أَبِيهِ] أَنَّهُ قَالَ: طعن عُمَر يَوْم  الأربعاء لأربع ليال بقين من ذي الحجة، سنة ثلاث وعشرين، ودفن يَوْم الأحد [صباح]هلال المحرم سنة أربع  وعشرين، وكانت خلافته عشر سنين، وخمسة أشهر، وأحدًا وعشرين يومًا وقَالَ عثمان بْن مُحَمَّد الأخنسي : هَذَا وهم،  توفي عُمَر لأربع ليال بقين من ذي الحجة، وبويع عثمان يَوْم الأثنين لليلة بقيت من ذي الحجة.

وقَالَ ابْنُ قُتَيْبَة: ضربه أَبُو لؤلؤة يَوْم الأثنين  لأربع بقين من ذي الحجة، ومكث ثلاثًا، وتوفي

خلاصہ

محمد بن سعد کے مطابق سیدنا عمر کو بدھ کے دن 26ذوالحج کے دن زخمی کیا گیا اور اتوار کے دن(یکم یا دو محرم) کو دفنایا گیا....عُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْأَحْمَسِيُّ فرماتے ہیں کہ یہ وھم ہے 26ذوالحج کو زخمی نہ کیا گیا بلکہ 26 ذوالحج کو وفات پائی....ابن قتیبہ نے فرمایا کہ أَبُو لُؤْلُؤَةَ نے 26ذوالحج کو زخمی کیا تین دن سیدنا عمر زخمی حالت میں رہے پھر(یکم محرم) کو وفات پائی

( أسد الغابة ط الفكر3/676)

(الطبقات الكبرى ط العلمية ,3/278نحوہ)


.

وَطَعَنَهُ صَبِيحَةَ الْأَرْبِعَاءَ لِأَرْبَعٍ بَقِينَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ.....وَمَاتَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بَعْدَ ثلاث، ودفن في يَوْمَ الْأَحَدِ مُسْتَهَلَّ الْمُحَرَّمِ....فذكرت ذلك لعثمان الأخنس فَقَالَ:مَا أُرَاكَ إِلَّا وَهِلْتَ. تُوُفِّيَ عُمَرُ لِأَرْبَعِ لَيَالٍ بَقِينَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ

خلاصہ:

سیدنا عمر کو بدھ کے دن 26ذوالحج کے دن زخمی کیا گیا اور آپ تین دن زخمی رہے اور اتوار کے دن یکم محرم کو دفنایا گیا....عُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْأَحْمَسِيُّ فرماتے ہیں کہ یہ وھم ہے 26ذوالحج کو زخمی نہ کیا گیا بلکہ 26 ذوالحج کو وفات پائی

(البداية والنهاية ط الفكر7/138ملتقطا)

.

ثُمَّ تُوُفِّيَ لَيْلَةَ الأَرْبِعَاءِ لثلاث ليال  بقين من ذي الحج...قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ: وَقَدْ قِيلَ إِنَّ وَفَاتَهُ كَانَتْ فِي غُرَّةِ الْمُحَرَّمِ...  فذكرت ذلك لعثمان الأخنسي، فقال: ما أراك إلا وهلت، توفي عمر رضي اللَّه تعالى عنه لأربع ليال بقين من ذي الحجة، وبويع لعثمان بْن عفان لليلة بقيت من ذي الحجة...قال أبو جعفر: وأما المدائني، فإنه قال فيما  حَدَّثَنِي عمر عنه، عن شريك، عن الأعمش- أو عن جابر الجعفي- عن عوف بْن مالك الأشجعي وعامر بْن أبي مُحَمَّد، عن أشياخ من قومه، وعثمان بْن عبد الرحمن، عن ابني شهاب الزهري، قالوا: طعن عمر  يوم الأربعاء لسبع بقين من ذي الحجة.قال: وقال غيرهم: لست بقين من ذي الحجة.....عن أبي معشر، قال: قتل عمر يوم الأربعاء لأربع  ليال بقين من ذي الحجة...هشام بْن مُحَمَّد، قال: قتل  عمر لثلاث ليال بقين من ذي الحجة

خلاصہ

27ذوالحج کو سیدنا عمر نے وفات پائی...ابوجعفر(امام طبری) کہتے ہیں کہ آپ کی وفات یکم محرم بیان کی گئ ہے،یہ بات عثمان الاخنسی سے کہی تو فرمایا کہ آپ کو وھم ہوا ہے سیدنا عمر کی وفات تو 26ذوالحج میں ہوئی...مدائنی اعمش جابر جعدی عثمان بن عبدالرحمن اور شھاب زہری کے بیٹوں سے مروی ہے کہ 23 ذوالحج کو سیدنا عمر زخمی کیے گئے(پھر تین دن زخمی رہ کر 26کو وفات پائی)لیکن ہشام بن محمد فرماتے ہیں کہ 27ذوالحج کو وفات پائی

(تاريخ الطبري4/193,194)

.

قال خليفة والواقدي لثلاث بقين من ذي الحجة وقال الذهلي كتب إلي أبو نعيم وأبو بكر بن أبي شيبة يوم الأربعاء لأربع بقين منه وقد مكث ثلاثا بعدما طعن ثم مات وقال خليفة عاش بعدما طعن ثلاثة أيام ثم مات قال عمرو بن علي مات يوم السبت غرة المحرم سنة أربع وعشرين وكانت خلافته عشر سنين وستة أشهر وثمانية أيام على ما ذكره خليفة ومات وهو ابن ثلاث وستين سنة ويقال ابن أربع وخمسين سنة ويقال ابن خمس وخمسين ويقال ابن اثنتين وخمسين سنة وقال ابن أسلم عن أبيه مات عمر وهو ابن ستين سنة وقال الواقدي هذا هو أثبت الأقاويل عندنا قال الواقدي في الطبقات طعن عمر في ثلاث ليال بقين من ذي الحجة وتوفي لهلال المحرم سنة أربع وعشرين وقال في التاريخ طعن يوم الأربعاء لأربع بقين من ذي الحجة

 خلیفہ اور واقدی کہتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو 27ذوالحج کو زخمی کیا گیا(تین چار دن زخمی رہ کر یکم محرم کو وفات پائی) اور ابوبکر بن ابی شیبہ فرماتے ہیں کہ 26 ذوالحج کو زخمی کیا گیا اور تین دن زخمی رہے اور پھر(یکم محرم کو) وفات پائی...عمرو بن علي نے فرمایا کہ یکم محرم کو وفات پائی

(كتاب تاريخ دمشق لابن عساكر44/14)

.

: طُعن عمر بن الخطّاب يوم الأربعاء لأربع ليالٍ بقين من ذى الحجّة سنة ثلاث وعشرين ودُفن يوم الأحد صَباحَ هلالِ المحرّم سنة أربعٍ وعشرين،...قال فذكرتُ ذلك لعثمان بن محمّد الأخْنسى فقال: ما أراك إِلَّا قد وَهِلت، توفّى عمر لأربع ليالٍ بقين من ذى الحجّة

 26 ذوالحج کو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کو زخمی کیا گیا(تین چار دن زخمی رہ کر یکم محرم کو وفات پائی)اور یکم محرم کو دفن کیا گیا عثمان اخنسی سے یہ بات بیان کی گئ تو انہوں نے کہا کہ آپ کو وھم ہوا ہے،سیدنا عمر نے 26 ذوالحج کو وفات پائی

(الطبقات الكبرى - ط الخانجي3/338بحذف)

.

«طُعِنَ عُمَرُ فَتُوُفِّيَ لَيْلَةَ الْأَرْبِعَاءِ لِثَلَاثِ لَيَالٍ بَقِينَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ،

 سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو زخمی کیا گیا اور 27 ذوالحج کو وفات پائی

(كتاب معرفة الصحابة لأبي نعيم1/44)

.

وتوفي لهلال المحرم

 عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات یکم محرم میں ہوئی

(كتاب أنساب الأشراف للبلاذري10/428)

.

الحاصل:

سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تاریخ شہادت اور تاریخِ تدفین میں اختلاف ہے....26ذوالحج اور یکم محرم زیادہ مشھور ہیں تو 26 کو یا یکم محرم کو یا دونوں دن *#یوم_عمر* منایا جائے یا معتبر اہلسنت علماء و مشائخ کوئی اور دن یوم عمر کے طور پر مقرر فرمائیں تو بھی کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے....واللہ تعالیٰ اعلم و رسولہﷺاعلم بالصواب

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.