سنی شیعہ کتب سے بعض فضائل سیدنا عمر،شیعوں رافضیوں نیم رافضیوں کی مکاری و حسد و نافرمانی، کرپشن،سادگی،نرمی سختی،عشق رسول،اتباع رسول،یوم عمر کب منائیں؟

 *#سیدنا_عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعض فضائل شیعہ و سنی کتب سے،سادگی ، سختی نرمی،عشق رسولﷺ،اتباع رسولﷺ،منافقوں گستاخوں کا انجام، فاروق سیدنا علی یا سیدنا عمر؟یومِ عمر 26 ذوالحج یا یکم محرم؟ تنخواہ؟ کرپشن کی روک تھام...؟؟*

.

عن ابن عباس قال: أكثروا ذكر عمر فإن عمر إذا ذكر ذكر العدل وإذا ذكر العدل ذكر الله

 سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا ذکرِ خیر زیادہ کرو کہ بے شک جب عمر کو ذکر کرو گے تو عدل کا ذکر ہوگا اور جب عدل کا ذکر ہوگا تو اللہ کا ذکر ہوگا

(جامع الأحاديث25/401)

توسیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فضائل و تذکرہ خیر معتبر کتب سے پڑہیے ، معتبر علماء کے بیانات سے سنیے اور خوب پھیلائیے.......!!

.

خلاصہ حدیث:

اللہ ابوبکر پرخصوصی رحم فرمائے اپنی بیٹی سےمیرا نکاح کرایا،سوار کرکے ہجرت کرائی،(مہنگےداموں خرید کر)بلال کو آزاد کرایا…اللہ عمر پر خصوصی رحم فرمائے وہ ہمشہ حق کہتے ہیں اگرچہ کسی کو کڑوا لگے…اللہ عثمان پر خصوصی رحم فرمائےکہ جس سےملائکہ بھی حیاء کرتےہیں…اللہ علی پر خصوصی رحم فرمائے جہاں وہ ہوں وہاں حق ہو

(ترمذی حدیث3714ملخصا)رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین حق چار یار…بیڑا پار

.

*#شیعہ کتب سے بعض فضائلِ سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ..اور شیعوں کی منافقت مکاری و تضاد بیانی باطل ہونے کی نشانی.......؟؟*

عمر بن الخطاب...وإنما أخرت لنا طيباتنا

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اے عمر ہمارے لیے اخرت میں پاک چیزیں نعتمیں تیار کی گئی ہیں

(شیعہ کتاب ميزان الحكمة 2/913)

(شیعہ کتاب بحار الأنوار ج 109 ص240)

اور پاک چیزیں نعمتیں آخرت میں جنتی کو ہی ملیں گی لیھذا شیعہ کتب سے بھی ثابت ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو جنتی قرار دیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹے نہیں ہوسکتے ہرگز نہیں…لیھذا سیدنا عمر وغیرہ کو کافر مرتد ڈاکو غاصب کہنے والے مذمت کرنے والے شیعہ اپنے ایمان کی فکر کریں

.

خلف الفتنة وأقام السنة

 سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فتنوں کو ختم کیا اور سنتوں کو قائم کیا

(شیعہ کتاب نهج البلاغة 2/222)

شیعہ کتاب سے بھی ثابت ہوگیا کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے مطابق بھی سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی ساری زندگی اسلام کے مطابق رہی، سنت کے مطابق رہی، انکی وفات و شہادت بھی ایمان کامل پے ہوئی، باغ فدک کا معاملہ ہو میراث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ ہو، عبادات معاملات کوئی بھی معاملہ ہو ہر معاملے میں سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے انہیں سنت کو قائم کرنے والا قرار دے دیا جو کہ سیدنا عمر کے گستاخ شیعوں کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ ہے...اللہ شیعوں رافضیوں و ہمنوا کو ہدایت و سمجھ عطاء فرمائے ورنہ جلنے والوں کو مزید جلائے


.

فإن أظهر الله فذاك ما تحب، وإن تكن الأخرى كنت ردءا للناس ومثابة للمسلمين

(سیدنا علی نے فرمایا کہ اے سیدنا عمر آپ اتنی بڑی جنگ و جہاد میں نہ جائیں)اگر فتح نصیب ہوئی مسلمانون کو تو اے عمر آپ کے لیے بھی یہ محبوب ہے، اور اگر شکست ہوئی تو کم از کم آپ تو لوگوں کا سہارا ہونگے اور مسلمانوں کے اجتماعیت کا مرکز ہونگے

(شیعہ کتاب نهج البلاغة -2/18)

(شیعہ کتاب بحار الأنوار 31/136)

بھلا دشمن مرتد کافر غاصب ظالم کے متعلق سیدنا علی ایسے فرماتے......؟؟ ہرگز نہیں بلکہ ایسے کی موت کی تمنا کی جاتی جبکہ سیدنا علی سیدنا عمر کو اسلام کا قیمتی سرمایا قرار دے کر جہاد میں جانے سے روک رہے ہیں اور آپ کی ذات کو اسلام کے لیے عظیم ترین سرمایہ قرار دے رہے ہیں....اللہ شیعوں کو عقل دے، اپنی کتابوں میں کروڑوں اربوں جھوٹ لکھے اور اہلبیت کی طرف منسوب کر دیے مگر اللہ کی شان دیکھیے کہ چور جھوٹا جتنا بھی چالاک ہو اپنے پیچھے کچھ نہ کچھ نشانیاں چھوڑ ہی جاتا کہ جس سے اسکے باطل مردود ہونے کا عقدہ کبھی نہ کبھی ضرور کھلتا ہے، تھوڑی سی تحقیق و عقل والا بھی سمجھ سکتا ہے کہ شیعہ لوگ باطل مردود منافق مکار جھوٹے ہیں


.

سیدنا علی فرماتے ہیں

إنه بايعني القوم الذين بايعوا أبا بكر وعمر وعثمان على ما بايعوهم عليه، فلم يكن للشاهد أن يختار ولا للغائب أن يرد، وإنما الشورى للمهاجرين والأنصار، فإن اجتمعوا على رجل وسموه إماما كان ذلك لله رضى

میری(سیدنا علی کی)بیعت ان صحابہ کرام نے کی ہےجنہوں نےابوبکر و عمر کی کی تھی،یہ مہاجرین و انصار صحابہ کرام کسی کی بیعت کرلیں تو اللہ بھی راضی ہے(اور وہ خلیفہ برحق کہلائے گا) تو ایسی بیعت ہو جائے تو دوسرا خلیفہ انتخاب کرنے یا تسلیم نہ کرنے کا حق نہیں(شیعہ کتاب نہج البلاغۃ ص491)

سیدنا علی کےاس فرمان سے ثابت ہوتا ہے کہ

①خلافت سیدنا علی کے لیے نبی پاک نے مقرر نہ فرمائی تبھی تو سیدنا علی نے صحابہ کرام کی شوری کو اللہ کی رضا و پسند فرمایا

سیدنا علی کےاس فرمان سے ثابت ہوتا ہے کہ

②سیدنا ابوبکر و عمر و عثمان کی خلافت برحق تھی، دما دم مست قلندر سیدنا علی دا چوتھا نمبر

سیدنا علی کےاس فرمان سے ثابت ہوتا ہے کہ

③صحابہ کرام ایمان والے تھے کافر فاسق ظالم غاصب نہ تھے ورنہ سیدنا علی انکی مشاورت و ھکم کو برحق نہ کہتے

رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین

.

هذا ما صالح عليه الحسن بن علي بن أبي طالب معاوية بن أبي سفيان: صالحه على أن يسلم إليه ولاية أمر المسلمين، على أن يعمل فيهم بكتاب الله وسنة رسوله صلى الله عليه وآله وسيرة الخلفاء الصالحين

(شیعوں کے مطابق)امام حسن نے فرمایا یہ ہیں وہ شرائط جس پر میں معاویہ سے صلح کرتا ہوں، شرط یہ ہے کہ معاویہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ اور سیرتِ نیک خلفاء کے مطابق عمل پیرا رہیں گے

(شیعہ کتاب بحار الانوار جلد44 ص65)

سیدنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے "نیک خلفاء کی سیرت" فرمایا جبکہ اس وقت شیعہ کے مطابق فقط ایک خلیفہ برحق امام علی گذرے تھے لیکن سیدنا حسن "نیک خلفاء" جمع کا لفظ فرما رہے ہیں جسکا صاف مطلب ہے کہ سیدنا حسن کا وہی نظریہ تھا جو سچے اہلسنت کا ہے کہ سیدنا ابوبکر و عمر و عثمان و علی رضی اللہ عنھم خلفاء برحق ہیں تبھی تو سیدنا حسن نے جمع کا لفظ فرمایا...اگر شیعہ کا عقیدہ درست ہوتا تو "سیرت خلیفہ" واحد کا لفظ بولتے امام حسن....اور دوسری بات یہ بھی اہلسنت کی ثابت ہوئی کہ "قرآن و سنت" اولین ستون ہیں کہ ان پے عمل لازم ہے جبکہ شیعہ قرآن و سنت کے بجائے اکثر اپنی طرف سے اقوال گھڑ لیتے ہیں اور اہلبیت کی طرف منسوب کر دیتے ہیں...اور سیدنا معاویہ کی حکومت سنت رسول و سیرت خلفاء پر اچھی تھی ورنہ ظالمانہ ہوتی تو سیدنا حسن حسین ضرور باءیکاٹ فرماتے صلح نہ فرماتے چاہے اس لیے جان ہی کیوں نہ چلی جاتی جیسے کہ یزید سے بائیکاٹ کیا

.

سیدنا علی رض اللہ عنہ نےفرمایا:

بأصحاب نبيكم لا تسبوهم الذين لم يحدثوا بعده حدثا ولم يؤووا محدثا، فإن رسول الله (صلى الله عليه وآله) أوصى بهم

ترجمہ:

حضرت علی وصیت و نصیحت فرماتے ہیں کہ تمھارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے متعلق میں تمھیں نصیحت و وصیت کرتا ہوں کہ انکی برائی نہ کرنا ، گالی لعن طعن نہ کرنا(کفر منافقت تو دور کی بات) انہوں نے نہ کوئی بدعت نکالی نہ بدعتی کو جگہ دی،بےشک رسول کریم نے بھی صحابہ کرام کے متعلق ایسی نصیحت و وصیت کی ہے.(شیعہ کتاب بحار الانوار22/306)

.


سیدنا علی رض اللہ عنہ نے شیعوں سے فرمایا:

رأيت أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم فما أرى أحداً يشبههم منكم لقد كانوا يصبحون شعثاً غبراً وقد باتوا سجداً وقياماً

ترجمہ:

میں(علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ)نے اصحاب محمد یعنی صحابہ کرام(صلی اللہ علیہ وسلم، و رضی اللہ عنھم) کو دیکھا ہے، وہ بہت عجر و انکساری والے، بہت نیک و عبادت گذار تھے(فاسق فاجر ظالم غاصب نہ تھے)تم(شیعوں)میں سے کوئی بھی انکی مثل نہیں...(تمام شیعوں کے مطابق صحیح و معتبر ترین کتاب نہج البلاغہ ص181)

.

*#اب شیعوں کی اہلبیت سے نافرمانی تضاد بیانی منافقت مکاری باطل مردود ہونے کی نشانی ملاحظہ کیجیے.....!!*

اوپر شیعہ کے علماء نے ہی لکھا کہ اہلبیت عظام اور سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مطابق سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسلام و سنت کے پابند رہے اور اسی ایمان و سنت پے وفات و شہادت پائی،سیدنا عمر کی سیدنا علی کی تعریف کی،عظیم سرمایہ قرار دیا

لیکن

دوسری طرف یہ مکار غدار نافرمان منافق ایجنٹ باطل عیاش نافرمان جھوٹے شیعہ لکھتے ہیں کہ:

الأخبار الدالة على كفر أبي بكر وعمر وأضرابهما وثواب لعنهم والبراءة منهم

شیعہ کہتے ہیں کہ ابوبکر اور عمر اور ان جیسے دوسرے صحابہ کا کفر اور ان کی بدعتیں ثابت ہیں،خبریں اس پر دلالت کرتی ہیں لہذا ان پر لعنت کرنا ان سے براءت کرنا ثواب کا کام ہے

(شیعہ کتاب بحار الأنوار - المجلسي30/399)

جبکہ شیعہ کتب ہی میں لکھا ہے کہ سیدنا علی سیدنا ابوبکر و عمر و صحابہ کرام کو نیک متقی سنت قائم کرنے والے قرار دے رہے ہیں

.

عمر فبايع أبا بكر....بایعوا ابابکر......أن الناس ارتدوا إلا ثلاثة

شیعوں کے مطابق عمر نے(سب سے پہلے)ابوبکر کی بیعت کی....صحابہ نے ابوبکر کی بیعت کی.....بےشک سارے صحابہ مرتد ہوگئے سوائے تین کے

(شیعہ کتاب بحار الأنوار،28/255 28/231)

جبکہ شیعہ کتب ہی میں لکھا ہے کہ سیدنا علی سیدنا ابوبکر و عمر و صحابہ کرام کو نیک متقی سنت قائم کرنے والے قرار دے رہے ہیں

.

قال عمر لأبي بكر: (يا هذا، إن الناس أجمعين قد بايعوك ما خلا هذا الرجل وأهل بيته وهؤلاء النفر، فابعث إليه). فبعث إليه ابن عم لعمر يقال له (قنفذ) فقال له: (يا قنفذ، انطلق إلى علي فقل له: أجب خليفة رسول الله).فانطلق فأبلغه. فقال علي عليه السلام: (ما أسرع ما كذبتم على رسول الله، نكثتم

 وارتددتم

سیدنا عمر وغیرہ نے سیدنا ابوبکر کی بیعت کی...جس پر شیعوں کے مطابق سیدنا علی نے فرمایا کہ تم لوگوں نے رسول اللہ پر جھوٹ باندھا ہے، عہد توڑ دیا ہے اور تم سب مرتد و کافر ہوگئے ہو

(شیعہ كتاب سليم بن قيس ص386)

جبکہ شیعہ کتب ہی میں لکھا ہے کہ سیدنا علی سیدنا ابوبکر و عمر و صحابہ کرام کو نیک متقی سنت قائم کرنے والے قرار دے رہے ہیں

.

بالامامۃ یکمل الدین...ان الامامۃ من اصول الاسلام... نصب رسول اللہ علیا للامامۃ...من ناصب عليا الخلافة بعدي فهو كافر ومن شك في علي كافر

 امامت خلافت سے دین مکمل ہوتا ہے، امامت خلافت دین کے اصولوں میں سے ہے، امامت و خلافت کے لئے رسول اللہ نے سیدنا علی کو مقرر کیا تھا، تو جس نے سیدنا علی سے خلافت کے معاملے میں مقابلہ بازی کی وہ کافر مرتد ہے...جو اس میں شک کرے وہ بھی کافر مرتد ہے

(شیعہ خمینی کی کتاب کشف الاسرار ص138.. 139.. 150)

جبکہ شیعہ کتب ہی میں لکھا ہے کہ سیدنا علی سیدنا ابوبکر و عمر و صحابہ کرام کو نیک متقی سنت قائم کرنے والے قرار دے رہے ہیں

.

الشيخين. للقرآن وتلاعبهما بأحكام الله والتحليل والتحريم من أنفسهم والظلامات التي الحقوها بفاطمة

بنت النبي

 شیخین یعنی سیدنا ابوبکر اور عمر قرآن مجید کے خلاف چلنے والے تھے اللہ کے احکامات کو کھیل تماشہ بنا دیا تھا، اپنی طرف سے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کر دیتے تھے اور ظلم کرتے تھے کہ جو فاطمہ بنت نبی پر انہوں نے کیا

(شیعہ خمینی کی کتاب کشف الاسرار ص119)

جبکہ شیعہ کتب ہی میں لکھا ہے کہ سیدنا علی سیدنا ابوبکر و عمر و صحابہ کرام کو نیک متقی سنت قائم کرنے والے قرار دے رہے ہیں

.

*#اب سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا فرمان پڑہیے.....!!*

شیعہ کے مطابق سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم و رضی اللہ تعالیٰ عنہ و فداہ روحی نے فرمایا:

قال أمير المؤمنين (عليه السلام): لولا أن المكر والخديعة في النار لكنت أمكر الناس

 شیعوں کے مطابق سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ اگر مکر و فریب اور دھوکا جہنم میں لے جانے والے کام نہ ہوتے تو میں سب سے زیادہ مکار ہوتا

(شیعہ کتاب الكافي - الشيخ الكليني2/336)

(شیعہ کتاب بحار الأنوار - العلامة المجلسي72/286)

.

اب بتائیے سیدنا علی متضاد باتیں کرکے تقیہ بازی کرے مکر و فریب دیں گے......؟؟ ہرگز ہرگز نہیں، مکر و فریب جھوٹ منافقت عیاشی فحاشی تو ان شیعوں کی کتب میں بھر پور ہیں لیکن سچ کہتے ہیں کہ جھوٹ مکاری کے پاؤں نہیں ہوتے،کبھی نہ کبھی پکڑے ہی جاتے ہیں...لیھذا سیدنا علی و اہلبیت کی طرف منسوب کرکے یا اپنی طرف سے شیعون نے  قرآن و صحابہ کرام کے متعلق جو بکواسات کیں وہ بکواسات و کفر و گمراہی جھوٹ کہلاءیں گی کیونکہ ایک تو خود انکی کتب میں ان بکواسات کے خلاف لکھا ہے

اور یہ بات بھی یاد رہے کہ

شیعہ اپنی طرف سے احادیث روایات اقوال قصے کہانیاں بنا کر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم و اہلبیت کی طرف منسوب کرتے ہیں جوکہ بعض اوقات کفر ورنہ گمراہی و گناہ ہے

لعنهم الله قد وضعوا أخبارا

اللہ کی لعنت ہو مفوضہ(شیعوں کے ایک فرقے پر) جنہوں نے

جھوٹی روایات(من گھڑت احادیث اقوال قصے)گھڑ لی ہیں

(شیعہ کتاب من لا يحضره الفقيه - الشيخ الصدوق1/290)

(شیعہ کتاب وسائل الشيعة - الحر العاملي5/422)

.

الناس ﺃﻭﻟﻌﻮﺍ ﺑﺎﻟﻜﺬﺏ ﻋﻠﻴﻨﺎ، ﻭﻻ ﺗﻘﺒﻠﻮﺍ ﻋﻠﻴﻨﺎ ﻣﺎ ﺧﺎﻟﻒ ﻗﻮﻝ ﺭﺑﻨﺎ ﻭﺳﻨﺔ ﻧﺒﻴﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ

ترجمہ:

امام جعفر صادق فرماتے ہیں کہ لوگ جو(بظاہر)ہم اہلبیت کے محب کہلاتے ہیں انہوں نے اپنی طرف سے باتیں، حدیثیں گھڑ لی ہیں اور ہم اہلبیت کی طرف منسوب کر دی ہیں جوکہ جھوٹ ہیں،

تو

ہم اہل بیت کی طرف نسبت کرکے جو کچھ کہا جائے تو اسے دیکھو کہ اگر وہ قرآن اور ہمارے نبی حضرت محمد کی سنت کے خلاف ہو تو اسے ہرگز قبول نہ کرو

(شیعہ کتاب رجال کشی ﺹ135, 195، شیعہ کتاب بحار الانوار 2/246، 2/250)

لیھذا سیدنا علی و اہلبیت جھوٹے مکار بزدل نہین ہوسکتے بلکہ وہ سچے ہیں انہون نے سیدنا ابوبکر و عمر وغیرہ صحابہ کرام کی مدح و تعرہف کی ہے، اسلام کا سرمایہ قرار دیا، اسلام و سنت کا پابند قرار دیا....لیھذا خلافت میراث اذان چرس بھنگ متعہ وغیرہ وغیرہ جو کچھ شیعہ اہلسنت کے خلاف باتیں کرتے ہیں وہ سب جھوٹ تضاد و مکاری عیاشی فحاشی ہیں،منافقت و ایجنٹی ہیں، اسلام دشمنی ہیں، اہلبیت کی نافرمانی ہیں.....اللہ انہیں ہدایت دے اور عوام کو ان کے زہر گمراہیوں گستاخیوں بدمذہبیوں شر وغیرہ سے محفوظ فرمائے

.#############

الحدیث:

ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إن الله جعل الحق على لسان عمر وقلبه

بےشک نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا کہ اللہ عزوجل نے حق کو عمر کی زبان و دل پے رکھا ہے

(ترمذی حدیث3682)

.

الحدیث:

لانظر إلى شياطين الإنس والجن قد فروا من عمر "

ترجمہ:

میں دیکھتا ہوں کہ انسانوں اور جنوں میں سےشیاطین عمر سےبھاگتےہیں(ترمذی حدیث3691)یہودی،کٹر شیعہ،کئ غیرمقلد،ملحد شیاطین آج بھی نام عمر سےچڑتے.و.بھاگتےہیں

.

👈سیدنا علی نے اپنے بیٹوں کے نام صدیق و عمر و عثمان رکھے..(ثبوت شیعوں کی معتمد کتاب:بحار الأنوار 42/74)شیعو رافضیو نام نہاد محبو ہمت کرو سیدنا علی کی سنت ادا کرو...عمر و صدیق و عثمان نام رکھو…مگر تم نام رکھنا تو کجا، نام زبان پےلانا تک گوارا نہیں کرتے، یہی تمھارے مکار منافق جھوٹے محب مردود ہونے کی دلیل کافی ہے

.

*#سیدنا_مولا_علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا فرمان و فتوی*

سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ:

خير الناس بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم أبو بكر، وخير الناس بعد أبي بكر عمر

ترجمہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تمام لوگوں سے بہتر.و.افضل ابوبکر ہیں اور ابوبکر کے بعد سب لوگوں سے بہتر.و.افضل عمر ہیں...(ابن ماجہ روایت نمبر106)

.

أَلَا أُخْبِرُكَ بِخَيْرِ النَّاسِ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ؟ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَيْحَكَ يَا أَبَا جُحَيْفَةَ، لَا يَجْتَمِعُ حُبِّي وَبُغْضُ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ فِي قَلْبِ مُؤْمِنٍ»

سیدنا علی نےفرمایا(بعد از انبیاء)افضل ابوبکر.و.عمر ہیں،میری محبت ہو اور ابوبکر.و.عمر سےبغض ہو ایسا مومن کےدل میں نہیں ہوسکتا…رضی اللہ تعالیٰ عنھم(طبرانی اوسط4/182 ملخصا روایت3920)

.

حضرت عمر  فاروق  رضی اللہ عنہ  کی شہادت پر  

حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کے الفاظ


سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ایک روایت کا مفہوم ہے کہ جب شہادت کے بعد حضرتِ عمر رضی اللہ عنہ کو  بستر پر رکھا گیا تو لوگوں نے نعش کو گھیر لیا اور خدا سے ان کی مغفرت کی دعا کرنے لگے

اسی حالت میں اچانک کسی نے میرا شانہ پکڑ لیا ، میں نے دیکھا تو وہ علی کرم اللہ وجہہ تھے ۔ 

حضرت علی رضی اللہ عنہ  نےحضرتِ عمر رضی اللہ عنہ کے لیے دعا کی اور ان کی نعش کو مخاطب کرکے  کہا کہ

" آپ نے اپنے بعد ,کسی بھی شخص کو نہیں چھوڑا کہ جسے دیکھ کر مجھے تمنا ہوتی کہ میں اس کے عمل جیسا عمل کرتے ہوئے  اللہ سے جا ملوں اور خدا کی قسم مجھے یقین تھا کہ اللہ تعالی آپ کو ، آپ کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ ہی رکھے گا۔ میرا یہ یقین اس وجہ سے تھا کہ میں نے اکثر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانِ مبارک سے یہ الفاظ سنے تھے کہ " میں ابوبکر و عمر گئے" ، "میں ابوبکر و عمر داخل ہوئے" ، "میں ابوبکر و عمر  باہر آئے" ۔

( صحیح بخاری جلد 5، حدیث، 3686)


.

*#صحابہ کرام بالخصوص سیدنا ابوبکر و عمر کی توہین پےاہلبیت کے عظیم چشم و چراخ سیدنا امام ابن سیرین اور سیدنا امام زین العابدین  کا فرمان و فتوی...........؟؟*

سیدنا ابن سیرین کا فرمان و فتوی:

مَا أَظُنُّ رَجُلاً يَنْتَقِصُ أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ يُحِبُّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ:

👈جو حضرت ابوبکر و عمر(رضی اللہ عنھما) کی توہین و تنقیص کرے ، میں(امام ابن سیرین)اسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا محب نہیں سمجھتا...(ترمذی روایت3585)اور جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا محب نہ ہو وہ بھلا سچا مسلمان کیسے ہوسکتا ہے…؟؟

.

کٹر شیعہ رافضی ، نیم رافضی ، مودودی ، سرسیدی نجدی خوارج ، بعض غیرمقلدین ، بعض اہلحدیث سب بےباک ہیں اور صحابہ کرام بالخصوص ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما کی توہین کرتے ہیں، نقائص و عیب نکالتے ہیں،ظالم و غاصب کہتے ہیں سب جھوٹے مردود ہیں…جو رسول کریم کا محب نہیں وہ سچا مسلمان ہی نہیں اور محبِ رسول بندہ تب بنتا ہے جب صحابہ کرام سے بھی محبت رکھے...الحدیث:اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي، لَا تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِي، فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ، وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِي

ترجمہ:

اللہ اللہ میرے صحابہ کے متعلق اللہ کا خوف کرو ، انہیں میرے بعد تنقید و مذمت کا نشانہ نہ بناؤ، جس نے میرے صحابہ سے محبت کی تو یہ مجھ سے محبت ہے اور میں ایسے شخص سے محبت کرتا ہوں(جو صحابہ کا محب ہو)....اور جس نے میرے صحابہ سے بغض کیا تو یہ مجھ سے بغض ہے اور ایسے کو میں ناپسند کرتا ہوں، جس نے میرے صحابہ کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی

(ترمذی حدیث3862)

.

سیدنا زین العابدین کا فرمان و فتوی:

وقدم عليه نفر من أهل العراق فقالوا في أبى بكر وعمر وعثمان رضي الله عنهم  فلما فرغوا من كلامهم قال لهم ألا تخبروني أنتم المهاجرون الأولون الذين أخرجوا من ديارهم وأموالهم يبتغون فضلا من الله ورضوانا وينصرون الله ورسوله أولئك هم الصادقون قالوا لا قال فأنتم الذين تبوأوا الدار والإيمان من قبلهم يحبون من هاجر إليهم ولا يجدون في صدورهم حاجه مما أوتوا ويؤثرون على أنفسهم ولو كان بهم خصاصة قالوا لا قال أما أنتم قد تبرأتم أن تكونوا من أحد هذين الفريقين وأنا أشهد انكم لستم من الذين قال الله فيهم والذين جاؤوا  من بعدهم يقولون ربنا اغفر لنا ولإخواننا الذين سبقونا بالإيمان ولا تجعل في قلوبنا غلا للذين آمنوا) خرجوا عنى فعل الله بكم.

خلاصہ:

👈ایک دفعہ ایک محفل میں سیدنا ابوبکر عمر عثمان وغیرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو کچھ لوگ برا کہہ رہے تھے، سیدنا زین العابدین نے سورہ حشر آپت نو اور دس تلاوت فرمائی اور اس سے صحابہ کرام کی شان و عظمت بیان کی اور صحابہ کرام کی برائی کرنے والوں سے کہا:

مجھ سے دور ہو جاؤ، اللہ اس پے (صحابہ کرام کی برائی کرنے ان سے بغض رکھنےپے)تمھاری پکڑ فرمائے سزا دے

👈(شيعه کتاب كشف الغمة الإربلي2/291)


.

.

*#تنخواہ_غربت_کا_حل*

خرچ کرنےمیں میانہ روی آدھی معیشت ہے(شعب الایمان حدیث6148)حضرت سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر کی تنخواہ بھی عام اوسط مہاجر مزدور جتنی تھی.(دیکھیے فیضان فارق اعظم2/78 تاریخ الخلفاء ص63)

👈حکومت موٹی موٹی تنخواہیں مرعات و غیرضروری اخراجات کم کردے اور زکاۃ سسٹم ٹھیک چلائے،زکواۃ ٹیکس امداد مستحقین تک پہنچائے،بہتر ہے کہ فقط امیروں تاجروں فیکٹریوں پےٹیکس لگا کر شفاف وصولی اور شفافا صحیح جگہ پےخرچ کرےتو مہنگائی.و.غربت خود بخود کم ہوتی جائےگی خوشحالی ترقی آتی جائے گی....ان.شاء.اللہ عزوجل

.

*#سادگی*

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ…تقریبا22لاکھ مربع میل،کئ سلطنتوں کا حکمران ، بیت المال کا نگہبان مگر قمیض پے 14 پیوند لگےتھے(دیکھیے الزہد لابی داود ر55)

.

.

*#احتساب…کرپشن کی روک تھام*

الحدیث،ترجمہ:

ایک شخص جو زکاۃ صدقات وغیرہ وصول کرنے پر مامور تھا اس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حساب لیا تو اس نے کہا یہ آپ کے صدقات ہیں اور یہ میرے تحائف ہیں،

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے باپ یا ماں کے گھر کیون نہیں بیٹھا پھر دیکھتے کہ تجھے کتنے تحفے ملتے..(بخاری حدیث 6979)سیاست و عوامی خدمات پے تحائف کے ڈرامے بہانے کرپشن و ناحق ہیں…کرپشن میں پکڑی گئ دولت غرباء و بیت المال کو دے جائے گی

.

👈سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ جب کسی کو حاکم مقرر کرتے تو اس کے تمام مال و اثاثوں کی فہرست لکھوا کر محفوظ کر لیتے۔اور انکی تنخواہیں مقرر فرما دیتے- وقتا فوقتا احتساب پر جن افسران کے اثاثے زائد ہوتے اور وہ انکی کوئی صحیح وجہ بیان نہ کرپاتے تو ان زائد اثاثوں کو بیت المال میں جمع کروانے کا حکم فرما دیتے

فكان إذا استعمل عاملاً (موظفاً)  كتب ماله، ثم إذا وجد عنده فضلاً ليس له مصدر صادره، أو شاطره إياه على حسب قوة التهمة، ووضعه في بيت المال(القواعد الفقہیہ للزحیلی1/578)یا اللہ…سچےحکمران عطا فرما…عوام کو صحیح سلیکٹنگ کا شعور عطا فرما

.

.

*#بےمثال عمر……سختی نرمی نئےکام خدمات*

سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب خلافت سنبھالی تو آپ نے سرعام اعلان فرمایا کہ:

واعلموا أن شدتي التي كنتم ترونها ازدادت أضعفا إذ كان الأمر إلي على الظالم والمعتدي، وإن بعد شدتي تلك واضع خدي إلى الأرض لأهل العفاف وأهل الكفاف

ترجمہ:

👈لوگو سنو....!! تم جو میری سختی دیکھتے رہے ہو وہ اب کہ خلافت مجھے ملی ہے تو وہ سختی کئ گنا بڑھ گئ ہے مگر وہ سختی صرف ان پر ہوگی جو ظالم ہو، جو اسلامی حدود کی خلاف ورزی کرے(یعنی چور ڈاکو منافق گستاخ مکار ظالم فسادی وغیرہ پر شدید سختی ہوگی)

اور

اس کے علاوہ جو اہل عفاف ہیں، جو اہل کفاف ہیں(جو پاکیزہ پاکدامن ہوں، امن سلامتی والے ہوں، ڈاکہ ظلم چوری ناانصافی وغیرہ سے خود کو روکتے ہوں)ان کے لیے تو میں اپنی رخسار،چہرہ زمین کی طرف رکھ دونگا( یعنی ان کے ساتھ بہت نرمی ہوگی)

(تاریخ ابن عساکر جلد44 صفحہ265)

.

قال سعيد بن المسيب فوالله لقد وفى بما قال وزاد في موضع الشدة على أهل الريب والظلم والرفق بأهل الحق من كانوا

ترجمہ:

حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہین کہ بے شک حضرت عمر نے جو کہا وہ پورا کر دکھایا بلکہ سختی والی جگہوں میں اور بھی زیادہ سختی کی ان پر جو ظلم و دھوکے والے ہوں چاہے وہ کوئی بھی ہوں(امیر ہوں غریب ہوں کسی قوم قبیلے سے ہوں، جو سختی کے مستحق تھے ان پر سختی فرمائی حضرت عمر نے)اور خوب نرمی کی اس پر جو اہلِ حق ہو، چاہیے وہ کوئی بھی ہو(چاہے امیر ہو یا غریب، چاہے کسی بھی قوم قبیلے سے تعلق رکھتا ہو جو بھی حق پر ہو اس پر خوب نرمی فرمائی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے)

(تاریخ ابن عساکر جلد44 صفحہ265)

.

👈سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسلامی معاملات میں بھی بے مثال تھے، دنیاوی معاملات میں بھی بے مثال تھے

سختی میں بھی بے مثال تھے...نرمی میں بھی بے مثال تھے

بہادری میں بھی بے مثال تھے... احتیاط مشاورت و سیاست میں بھی بے مثال تھے.. حق گوئی میں بھی بے مثال تھے ...حق تسلیم کرنے میں بھی بے مثال تھے

الغرض

سیدنا عمر ہر معاملے میں بے مثال تھے... عظیم تھے.. انکی خلافت انکی سیاست، انکے عمل ، انکی تعلیمات اور انکا نافذ کردہ "عظیم اسلامی مذہبی سیاسی فلاحی نظام"

 "نظامِ مصطفی"

ہمارے لیے بلکہ رہتی دنیا کے لیے مشعلِ راہ ہے..👈*#اردو میں سیدنا فاروق اعظم کی سیرت فضیلت خلافت سیاست کارنامے اولیات خدمات وغیرہ پر بہت ہی عمدہ و جامع کتاب "فیضان فاروق اعظم" معلوم ہوتی ہے…اسکا ضرور مطالعہ کیجیے، دوسروں کو اس کتاب کے مطالعہ کی ترغیب دیجیے*

.


سیدنا عمر اپنی کامیاب ترین عظیم خلافت.و.سیاست میں کوئی نئے اصول نہیں لے کر آئے تھے بلکہ اسلام کے بیان کردہ اصولوں کا سختی و پابندی کے ساتھ نفاذ کیا... عدل و انصاف کا سختی و پابندی سے نفاذ کیا.. آیات و احادیث اسلامی اصولوں کو مدنظر رکھ کر سیاسی اسلامی فلاحی کام سرانجام دیے.. جو کچھ بظاہر نیا کام کیا وہ بھی دراصل قرآن و سنت سے اخذ و اجتہاد کردہ تھا.....!!

.

*#سیدنا عمر کی اتباع رسول،عشق رسول کی ایک جھلک*

روایت:

خرجت مع  شرحبيل بن السمط إلى قرية على راس سبعة عشر او ثمانية عشر ميلا، فصلى ركعتين "، فقلت له: فقال: رايت عمر صلى بذي الحليفة ركعتين، فقلت له: فقال: إنما افعل كما رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يفعل

ترجمہ:

‏‏‏‏ جبیر نے کہا میں شرحبیل بن سمط کے ساتھ ایک گاؤں میں گیا کہ وہ سترہ یا اٹھارہ میل تھا تو انہوں نے دو رکعت پڑھیں۔ میں نے انہیں ٹوکا تو انہوں نے کہا کہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو  دیکھا کہ انہوں نے ذوالحلیفہ میں دو رکعت پڑھیں اور میں نے ان کو ٹوکا تو انہوں نے کہا میں ویسا ہی کرتا ہوں جیسا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو کرتے دیکھا ہے

(مسلم روایت1584)

.

*سیدنا عمر اور منافق و گستاخوں کا انجام، ایک جھلک*

حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے زمانہ میں  ایک یہودی او ر ایک منافق میں  کسی بات پر جھگڑا پیدا ہوگیا۔ یہودی چاہتا تھا کہ جس طرح بھی ہو میں  اسے حضرت محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں  لے چلوں۔ چنانچہ وہ کوشش کرکے اسے حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ عدالت میں  لے آیا اور حضور   صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے واقعات سنکر فیصلہ یہودی کے حق میں  دیا۔ وہ منافق یہودی سے کہنے لگا میں  تو عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس چلوں  گا اور ان کا ہی فیصلہ منظور کروں گا  وہ منافق نہ مانا او ر اس یہودی کو لیکر حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس آیا اور حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  سے فیصلہ طلب کرنے لگا ، یہودی بولاجناب پہلے یہ بات سن لیجئے کہ ہم اس سے قبل محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم سے فیصلہ لے آئے ہیں  اور انھوں نے فیصلہ میرے حق میں فرمادیا ہے مگر یہ شخص اس فیصلہ سے مطمئن نہیں  اور اب یہاں  آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  کے پاس آپہنچا ہے ۔ حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہ بات سنی تو منافق سے پوچھا کیا یہودی جو کچھ بیا ن کر رہا ہے درست ہے؟منافق نے کہا ہاں  سرکار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم اس کے حق میں  فیصلہ کرچکے ہیں۔ فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا : اچھا ٹھہرو میں  ابھی آیا اور تمھارا فیصلہ کرتا ہوں  یہ کہہ کر آ پ اندر تشریف لے گئے اور پھر ایک تلوار لیکر نکلے اور اس منافق کی گردن پر یہ کہتے ہوئے ماری کہ جوحضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا فیصلہ نہ مانے اس کا فیصلہ یہ ہے۔

            حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم تک یہ بات پہنچی تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے فرمایا واقعی عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  کی تلوار کسی مومن پر نہیں  اٹھتی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت بھی نازل فرمادی ۔

فَلَا وَ رَبِّكَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى یُحَكِّمُوْكَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَهُمْ (پ۵ ، النساء : ۶۵)

ترجمہ: تو اے محبوب تمہارے رب کی قسم وہ مسلمان نہ ہوں  گے جب تک اپنے آپس کے جھگڑے میں  تمہیں  حاکم نہ بنائیں۔ 

پھر رسول پاک نے اس منافق کا خون رائیگاں قرار دیا

فَهدر دم ذَلِك الرجل وبرأ عمر من قَتله

دیکھیے👇

 (الدرالمنثور ،2/586)

(تفسير ابن كثير ت سلامة2/351)

(تفسير القرآن من الجامع لابن وهب1/71)

(تفسير ابن أبي حاتم، الأصيل - مخرجا3/994)

.========================

.

*#سیدنا_عمر_کا_لقب_فاروق*

أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْأَزْرَقِيُّ الْمَكِّيُّ قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ حَسَنٍ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ مُوسَى قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلّى الله عليه وسلم: «إِنَّ اللَّهَ جَعَلَ الْحَقَّ عَلَى لِسَانِ عُمَرَ وَقَلْبِهِ، وَهُوَ الْفَارُوقُ

👈نبی پاک صلّى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ اللہ نے حق کو عمر کی زبان و دل پے رکھا ہے یہ فاروق ہیں

(الطبقات الكبرى ط دار صادر3/270)

(كتاب كنز العمال حدیث32717)

(الجامع الصغير وزيادته حدیث3510)

(تاريخ المدينة لابن شبة2/662)

(الصواعق المحرقة1/282)

.

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ الْحَسَنِ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ، ثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ صَالِحٍ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللهِ عَنْ بْنِ أَبَانَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: سَأَلْتُ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُ....فَسَمَّانِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ الْفَارُوقَ

👈سیدنا عمر فرماتے ہیں کہ(جس دن میں ایمان لایا اور مسلمانوں کو سرعام نماز پڑھنے کا مشورہ دیا اور عمل کروایا اور تحفظ دیا)اس دن نبی پاک صلّى الله عليه وسلم نے مجھے فاروق کا لقب دیا 

1(حلية الأولياء وطبقات الأصفياء1/40)

2(مرآة الزمان في تواريخ الأعيان3/114)

3(جامع الاحادیث للسیوطی 30159-)

4(الرياض النضرة في مناقب العشرة2/272)

5(تاريخ الإسلام للذھبی ت تدمري 1/180 میں اس کی تخریج میں لکھا ہے یہ روایت درج ذیل کتب میں بھی ہے

6(مناقب عمر لابن الجوزي 12/ 13 و 19،

7(صفة الصفوة 1/ 272، 373،

8(دلائل النبوّة لأبي نعيم 1/ 79، 80،

9(عيون التواريخ 1/ 75- 77)

.

.

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو  حَزْرَةَ يَعْقُوبُ بْنُ مُجَاهِدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي عَمْرٍو ذَكْوَانَ قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ: " مَنْ سَمَّى عُمَرَ الْفَارُوقَ؟ قَالَتِ: النَّبِيُّ عَلَيْهِ السَّلَامُ

👈سیدہ عائشہ سے پوچھا کہ سیدنا عمر کو فاروق لقب کس نے دیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے فرمایا کہ نبی پاک صلّى الله عليه وسلم نے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لقب فاروق دیا

(تاريخ الطبري 4/195)

(الطبقات الكبرى  ,3/205)

(تاريخ المدينة لابن شبة2/662)

(البداية والنهاية ط هجر10/188)

.

👈انفرادی طور پر مذکورہ روایات و حدیث کو ضعیف مان بھی لیا جائے تو بھی تعدد طرق کی وجہ سے حسن و معتبر کہلائے گی کیونکہ سنی شیعہ نجدی سب کا متفقہ اصول ہے کہ تعدد طرق سے ضعیف روایت حسن و معتبر بن جاتی ہے

وقد يكثر الطرق الضعيفة فيقوى المتن

تعدد طرق سے ضعف ختم ہو جاتا ہے اور(حدیث و روایت کا) متن قوی(معتبر مقبول صحیح و حسن)ہوجاتا ہے

(شیعہ کتاب نفحات الازھار13/55)

أن تعدد الطرق، ولو ضعفت، ترقي الحديث إلى الحسن

بےشک تعدد طرق سے ضعیف روایت و حدیث حسن و معتبر بن جاتی ہے(اللؤلؤ المرصوع ص42)

لِأَنَّ كَثْرَةَ الطُّرُقِ تُقَوِّي

کثرت طرق(تعدد طرق)سے روایت و حدیث کو تقویت ملتی ہے(اور ضعف ختم ہوجاتا ہے)

(تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي ,1/179)



.

*#سیدنا_علی_فاروق؟؟*

وَهَذَا الصِّدِّيقُ الْأَكْبَرُ، وَهَذَا فارُوقُ هَذِهِ الْأُمَّةِ

روایت میں ہے کہ نبی پاک صلّى الله عليه وسلم نے سیدنا علی کے متعلق فرمایا کہ یہ صدیق اکبر ہیں اور اس امت کے فاروق ہیں

(اسد الغابۃ ر3105)


👈اس روایت کے متعلق علماء نے دوٹوک لکھا کہ شیعہ رافضی خبیث جھوٹے منکر راوی کی بیان کردہ من گھڑت روایت ہے، نبی پاک نے سیدنا علی کے متعلق ایسا فرمایا ہو کسی معتبر روایت میں نہیں آیا

.

*فهذا باطل* ولم أر أحدا ذكر داهر هذا حتى ولا بن أبي حاتم بلديه انتهى وإنما لم يذكروه لأن البلاء كله من ابنه عبد الله وقد ذكروه واكتفوا به وقد ذكره العقيلي كما مضى وقال كان يغلو في الرفض ثم ساق الحديث المذكور

خلاصہ

مذکورہ روایت باطل ہے، اسکا ایک راوی عبداللہ رافضیت میں غلو کرتا تھا

(لسان الميزان2/414)

.

رواه الْعُقَيْلِيُّ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ مَرْفُوعًا. وقال:  في إسناده داهر بن يحيى الرازي كان ممن يغلو في الرفض، ولا يتابع على حديثه، وابنه عبد الله بن داهر كذاب وهو الراوي عنه...وقد رواه الحاكم [في الكنى] من طريق أخرى، وقال: إسناده غير صحيح...وفي الميزان، في ترجمة إسحاق بن بشر الأسدي أنه كذاب وضاع، وأورد له هذا الحديث

خلاصہ:

مذکورہ روایت من گھڑت ہے کیونکہ اسکا راوی داھر رافضی تھا غلو کرتا تھا اسکی حدیث کی کسی معتبر راوی نے تائید نہیں کی، یہ بہت بڑا جھوٹا کذاب تھا،  روایات و احادیث اپنی طرف سے گھڑ لیتا تھا

( الفوائد المجموعة ص345)

.

وَإِسْحَاقُ بْنُ بِشْرٍ مِمَّنْ لا يُحْتَجُّ بِنَقْلِهِ إِذَا انْفَرَدَ لِضَعْفِهِ وَنَكَارَةِ حديثه

(الاستيعاب في معرفة الأصحاب ر3157)

.

[4295 - عبد الله بن داهر بن يحيى بن داهر الرازي، أبو سليمان المعروف بالاحمرى.]عن أبيه.وعنه أحمد بن أبي خيثمة.قال أحمد ويحيى: ليس بشئ.قال: وما يكتب حديثه إنسان فيه خير. وقال العقيلي: *#رافضي_خبيث* قال ابن عدي: عامة ما يرويه في فضائل علي، وهو متهم في ذلك.

قلت: قد أغنى الله عليا عن أن تقرر / مناقبه بالاكاذيب والاباطيل

خلاصہ

مذکورہ روایت کا راوی عبداللہ بن داھر رافضی خبیث ہے یہ سیدنا علی کے فضائل میں احادیث گھڑتا تھا

(میزان الاعتدال2/416)

.

 *هَذَا حَدِيث مَوْضُوع*

أما الطَّرِيق الأول: فَفِيهِ عباد بن يَعْقُوب.

قَالَ ابْنُ حِبَّانَ: يروي الْمَنَاكِير عَن  الْمَشَاهِير فَاسْتحقَّ التّرْك، وَفِيهِ عَليّ بن هَاشم. قَالَ ابْنُ حِبَّانَ: كَانَ يروي عَن الْمَشَاهِير *الْمَنَاكِير وَكَانَ غاليا فِي التَّشَيُّع*قَالَ الشَّيْخ عباد بن يَعْقُوب: أخرج عَنْهُ البُخَارِيّ فِي صَحِيحه.وَفِيهِ مُحَمَّد بن عبيد الله.

قَالَ يحيى: لَيْسَ بشئ.

وَأما الطَّرِيق الثَّانِي: فَفِيهِ أَبُو الصَّلْت  الْهَرَوِيّ وَكَانَ *كذابا رَافِضِيًّا خبيثا* فقد اجْتمع عباد وَأَبُو الصَّلْت فِي رِوَايَته عَن عَليّ بن هَاشم، فَالله أعلم أَيهمَا سَرقه

من صَاحبه.

وَقد ذكرنَا عَليّ بن هَاشم وَمُحَمّد بن عبيد الله.

وَأما طَرِيق ابْن عَبَّاس فالمتهم بِهِ عبد الله بن داهر فَإِنَّهُ كَانَ *غاليا فِي الرَّفْض* قَالَ يَحْيَى بْنُ معِين: لَيْسَ بشئ، مَا يكْتب عَنْهُ إِنْسَان فِيهِ خبر.

(الموضوعات لابن الجوزي1/345)

.

👈طبرانی کی یہ روایت بھی دلیل نہیں بن سکتی

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِسْحَاقَ الْوَزِيرُ الْأَصْبَهَانِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُوسَى السُّدِّيُّ، ثنا عُمَرُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ فُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ، عَنْ أَبِي سُخَيْلَةَ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، وَعَنْ سَلْمَانَ قَالَا: أَخَذَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَقَالَ: «إِنَّ هَذَا أَوَّلُ مَنْ آمَنَ بِي، وَهُوَ أَوَّلُ مَنْ يُصافِحُنِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَهَذَا الصِّدِّيقُ الْأَكْبَرُ، وَهَذَا فارُوقُ هَذِهِ الْأُمَّةِ، يُفَرَّقُ بَيْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ، وَهَذَا يَعْسُوبُ الْمُؤْمِنِينَ، وَالْمَالُ يَعْسُوبُ الظَّالِمِ»

(مجمع الزوائد،المعجم الكبير للطبراني ,6/269)

.

کیونکہ اسکا ایک راوی عمر بن سعید منکر متروک و مردود ہے....دیگر راویوں پے بھی غلو منکر و نکارت شیعیت وغیرہ کی جرح ہے

عمر بن سعيد البصري...قال ابن حبان: كان ممن يخطىء كثيرا حتى استحق الترك.وقال ابن عَدِي: منكر الحديث...قال البخاري: منكر الحديث

امام ابن حبان فرماتے ہیں کہ عمر بن سعید بہت غلطیاں کرتا تھا اس لیے اس کی بیان کردہ روایات ترک کرنے کی مستحق ہیں...امام بخاری اور امام ابن عدی فرماتے ہیں عمر بن سعيد البصري منکر الحدیث ہے

(لسان الميزان ت أبي غدة93 ،6/108)

اور شیعہ اصول کے مطابق بھی منکر الحدیث مردود و ناقابل حجت ہے

فحديثه منكر مردود

ترجمہ:

(غیر ثقہ ثقہ کی مخالفت کرے تو)اسکی حدیث منکر مردود ہے..(شیعہ کتاب رسائل فی درایۃ الحدیث1/185)

.

*#پھر تو سارے صحابہ کرام فاروق....؟؟*

اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي، لَا تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِي، فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ، وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِي

اللہ اللہ میرے صحابہ کے متعلق اللہ کا خوف کرو ، انہیں میرے بعد تنقید و مذمت کا نشانہ نہ بناؤ، جس نے میرے صحابہ سے محبت کی تو یہ مجھ سے محبت ہے اور میں ایسے شخص سے محبت کرتا ہوں...اور جس نے میرے صحابہ سے بغض کیا تو یہ مجھ سے بغض ہے اور ایسے کو میں ناپسند کرتا ہوں، جس نے میرے صحابہ کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی

(ترمذی حدیث3862)

اس حدیث پاک سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام علیھم الرضوان سے بغض کفر و منافقت ہے، گویا ہر صحابی فاروق ہے.....؟؟

.

*#سیدنا_علی_فاروق*

عَنْ عَلِيٍّ قَالَ : لَقَدْ عَهِدَ إِلَيَّ النَّبِيُّ الْأُمِّيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَنَّهُ لَا يُحِبُّكَ إِلَّا مُؤْمِنٌ، وَلَا يُبْغِضُكَ إِلَّا مُنَافِقٌ

سیدنا علی فرماتے ہیں مجھ سے رسول کریم نے عہد کیا کہ تجھ سے محبت مومن کریگا اور تجھ سے بغض منافق کریگا

(ترمذی حدیث3736)

سیدنا علی مومن و منافق میں فرق کی وجہ ہیں تو گویا فاروق ہوئے......؟؟

.

*#انصار_فاروق؟؟*

آيَةُ الْإِيمَانِ حُبُّ الْأَنْصَارِ، وَآيَةُ النِّفَاقِ بُغْضُ الْأَنْصَارِ

ایمان کی نشانی انصاری صحابہ سے محبت رکھنا ہے اور انصاری صحابہ سے بغض منافقت کی نشانی ہے

(بخاری حدیث17)

منافق و مومن میں تفریق انصار صحابہ...گویا یہ بھی فاروق ہوئے......؟؟

.

*#الحاصل*

👈صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین سے بغض منافقت و کفر کی علامت ہے تو اس لحاظ سے ہر صحابی فاروق کہلانے کے لائق ہے مگر سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خصوصی منزلت و فضیلت کی وجہ سے فقط ان دو کو فاروق کہنا قرینِ قیاس لگتا ہے

کیونکہ 

سیدنا عمر اول شخصیت ہیں کہ جن کی بدولت اسلام سرعام ہوا اور انکی بدولت حق و باطل میں فرق ہوا…اور سیدنا علی وہ عظیم ذات ہیں کہ جن کی بدولت دوسری بار حق و باطل یعنی اسلام و خارجیت ناصبیت میں فرق ہوا...لیھذا ان دو عظیم تر شخصیات کو فاروق کہنا حق بنتا ہے....سیدنا عمر کو فاروق اعظم یا فاروق اول اور سیدنا علی کو فاروق اصغر یا فاروق ثانی کہا جائے تو کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے مگر فاروق لقب نبی پاک صلّى الله عليه وسلم کی زبانی سیدنا عمر کو ملا ، سیدنا علی یا کسی اور صحابی کے لیے منقولا صحیحا ثابت نہیں....واللہ تعالیٰ و رسولہﷺاعلم بالصواب

.========================

👈*#سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تاریخِ شہادت 26ذوالحج یا یکم محرم یا...؟؟ اور چمن زمان و ہمنوا نے تحقیق و اصلاح کی یا اہلسنت بالخصوص پیاری دعوت اسلامی سے بغض و حسد کا بظاہر اظہار کیا......؟؟*

القرآن:

کسی سے دشمنی تمھیں ان کے ساتھ نا انصافی کرنے پر مت ابھارے، ہر ایک کے ساتھ عدل کرو(مائدہ ایت8)تو تعریف ہو تا تنقید و مذمت ہر ایک میں سچائی و عدل لازم ہے

لیکن

*#چمن زمان و دیگر نیم روافض نے چند دنوں سے سوشل میڈیا پے کہرام مچایا ہوا ہے کہ ہائے انصاف و حق کا قتل ہو رہا ہے، اہلسنت و دعوت والے تحقیق و حق کی خلاف ورزی کر رہے ہیں کہ ذوالحج کے بجائے یکم محرم کو یومِ عمر منا رہے ہیں...چمن زمان و دیگر نیم روافض اصلاح کے بجائے مذمتی تنقید کر رہے ہیں اور تنقید میں بھی عدل کی دھجیاں اڑاتے ہوئے بظاہر حسد میں آتے ہوئے ناحق مذمت کرتے ہوئے چمن زمان وغیرہ سوشل میڈیا پے اہلسنت کے ساتھ ساتھ پیاری دعوت اسلامی کو دعوت مروانی کہہ رہے ہیں اور مذمت کر رہے ہیں اور دلیل یہ دے رہے ہیں کہ دعوت اسلامی والے اور اہلسنت یوم عمر ذوالحج کے بجائے یکم محرم کو یومِ عمر منا رہے ہیں

.

*#ہمارا تبصرہ*

الحاصل:

جب دونوں تاریخیں کتب اسلاف میں لکھی ہیں تو اس میں مذمت و برائی کی کیا بات ہے.....؟؟ کچھ کتب میں ہے کہ یکم محرم کو سیدنا عمر کی وفات ہوئی، کچھ کتب میں ہے کہ یکم محرم کو سیدنا عمر کو دفنایا گیا....اور اسلاف اہلسنت کا طریقہ رہا ہے کہ کبھی شہادت و وفات کے دن عرس کرتے ہیں کبھی دفنانے کے دن کو یوم عرس منایا جاتا ہے...لیھذا ذوالحج میں "یومِ عمر" منایا جائے یا یکم محرم کو "یوم عمر" منایا جاءے یا دونوں دن دن یوم عمر منایا جائے تو کوئی حرج و مذمت کی بات نہیں،قابل اعتراض نہیں بلکہ جو اعتراض و مذمت کرے اس کے دل و دال میں کچھ کالا ضرور لگتا ہے...اللہ ہدایت دے

.

سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت کے متعلق چمن زمان لکھتا ہے کہ:ہم باب نظریات میں امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی شخصیت پر مکمل اعتماد کرتے ہیں 

(دیکھیے چمن زمان کی کتاب جدید نعرے ص57,58)

.

اور سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سیدی شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمۃ کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ،ترجمہ:

 روز عرس کا تعین اس لیے ہے کہ وہ دن دارالعمل سے دارالثواب کی جانب ان کے انتقال فرمانے کی یاد دہانی کرنے والا ہے ورنہ جس دن بھی یہ کام ہو فلاح ونجات کا سبب ہے

(فتاوی رضویہ9/590)

.

اس عبارت سے بالکل واضح ہے کہ یوم سیدنا عمر ، عرس سیدنا عمر کسی بھی دن منا سکتے ہیں حتی کہ معتبر اہلسنت علماء مشائخ مل کر کوئی نئ تاریخ مقرر فرما دیں تو بھی حرج نہیں البتہ 26ذوالحج کی مناسبت سے یوم سیدنا عمر منانا اور یکم محرم کی مناسبت سے یوم سیدنا عمر منانا بہتر ہے کہ کئ حوالہ جات میں 26 ذوالحج یوم وفات ہے تو یوم وفات کی مناسبت سے یوم سیدنا عمر منانا بہتر ہے اور یکم محرم کو کئ کتب کے مطابق سیدنا عمر کی وفات یا تدفین کا دن ہے تو اس مناسبت سے یکم محرم کو بھی یوم سیدنا عمر منانا بہتر ہے...!!

.

یوم وفات کو عرس کرنے کی مناسبت اس حدیث پاک سے اخذ کی گئ ہے:

الحدیث:

الْمَيِّتُ تَحْضُرُهُ الْمَلَائِكَةُ، فَإِذَا كَانَ الرَّجُلُ صَالِحًا قَالُوا : اخْرُجِي أَيَّتُهَا النَّفْسُ الطَّيِّبَةُ، كَانَتْ فِي الْجَسَدِ الطَّيِّبِ، اخْرُجِي حَمِيدَةً، وَأَبْشِرِي بِرَوْحٍ وَرَيْحَانٍ، وَرَبٍّ غَيْرِ غَضْبَانَ

رسول کریم  صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ میت کے پاس فرشتے آتے ہیں اگر آدمی نیک ہوتا ہے تو اس سے کہتے ہیں اے پاک روح نکل جو پاک جسم میں تھی، نکل قابلِ تعریف خیریت،راحت اور پاک رزق اور راضی رب کی بشارت حاصل کر.... اس(پاک روح) سے یہ کہتے رہتے ہیں حتی کہ نکل آتی ہے(اور بندے کی وفات ہوجاتی ہے)

(ابن ماجہ حدیث4262)

گویا اس دن یعنی وفات کے دن فرشتوں کی بشارت ملتی ہے نیک و صالحین کو...تو اس خصوصی کرم والے دن کی مناسبت سے عرس کیا جاتا ہے

.

تدفین کے دن کو عرس کرنے کی مناسبت اس حدیث پاک سے اخذ کی گئ ہے:

الحدیث:

إِذَا قُبِرَ الْمَيِّتُ....فَيَقُولَانِ : نَمْ كَنَوْمَةِ الْعَرُوسِ

جب میت کو دفنایا جاتا ہے........تو(نیک و صالحین سے)فرشتے کہتے ہیں کہ شادی کرنے والوں کی طرح(خوشی و خوشخبری راحت و بشارت کے ساتھ)سو جا

(ترمذی حدیث1071)

اس دن یعنی دفنانے کے دن فرشتوں کی بشارت ملتی ہے نیک و صالحین کو...تو اس خصوصی کرم والے دن کی مناسبت سے عرس کیا جاتا ہے

.

*#دونوں تاریخوں کے متعلق یہ لیجیے کچھ حوالہ جات…پڑھیے پھیلائیے.......!!*

طُعِنَ عُمَرُ يَوْمَ الْأَرْبِعَاءِ  لِأَرْبَعٍ بَقِينَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ...وَدُفِنَ يَوْمَ الْأَحَدِ هِلَالَ الْمُحْرِمِ..وَقَالَ عُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْأَحْمَسِيُّ: هَذَا  وَهْمٌ، تُوُفِّيَ عُمَرُ لِأَرْبَعِ لَيَالٍ بَقِينَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ...وَقَالَ ابْنُ قُتَيْبَةَ:  ضَرَبَهُ أَبُو لُؤْلُؤَةَ لِأَرْبَعٍ بَقِينَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ، وَمَكَثَ ثَلَاثًا

وَتُوُفِّيَ

سیدنا عمر کو بدھ کے دن 26ذوالحج کے دن زخمی کیا گیا اور اتوار کے دن یکم محرم کو دفنایا گیا....عُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْأَحْمَسِيُّ فرماتے ہیں کہ یہ وھم ہے 26ذوالحج کو زخمی نہ کیا گیا بلکہ 26 ذوالحج کو وفات پائی....ابن قتیبہ نے فرمایا کہ أَبُو لُؤْلُؤَةَ نے 26ذوالحج کو زخمی کیا تین دن سیدنا عمر زخمی حالت میں رہے پھر(یکم محرم) کو وفات پائی

(تاريخ المدينة لابن شبة3/943ملتقطا) 

.

وقال الواقدي:طعن «عمر» يوم الأربعاء لسبع بقين من ذي الحجة، ومكث ثلاثة أيام ثم توفى  لأربع بقين من ذي الحجة

ترجمہ:

واقدی نے کہا ہے کہ سیدنا عمر کو 23ذوالحج کے دن زخمی کیا گیا اور تین دن سیدنا عمر زخمی حالت میں رہے پھر 26 ذوالحج کو وفات پائی

(كتاب المعارف1/183)

.

دفن عمر يوم الأربعاء لأربع بقين من ذي الحجة

ترجمہ:

26ذوالحج  بدھ کے دن سیدنا عمر کو دفنایا گیا

(معجم الصحابة للبغوي4/311)

.

روى أَبُو بَكْر بْن إِسْمَاعِيل بْن مُحَمَّد بْن سعد [عَنْ أَبِيهِ] أَنَّهُ قَالَ: طعن عُمَر يَوْم  الأربعاء لأربع ليال بقين من ذي الحجة، سنة ثلاث وعشرين، ودفن يَوْم الأحد [صباح]هلال المحرم سنة أربع  وعشرين، وكانت خلافته عشر سنين، وخمسة أشهر، وأحدًا وعشرين يومًا وقَالَ عثمان بْن مُحَمَّد الأخنسي : هَذَا وهم،  توفي عُمَر لأربع ليال بقين من ذي الحجة، وبويع عثمان يَوْم الأثنين لليلة بقيت من ذي الحجة.

وقَالَ ابْنُ قُتَيْبَة: ضربه أَبُو لؤلؤة يَوْم الأثنين  لأربع بقين من ذي الحجة، ومكث ثلاثًا، وتوفي

خلاصہ

محمد بن سعد کے مطابق سیدنا عمر کو بدھ کے دن 26ذوالحج کے دن زخمی کیا گیا اور اتوار کے دن(یکم یا دو محرم) کو دفنایا گیا....عُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْأَحْمَسِيُّ فرماتے ہیں کہ یہ وھم ہے 26ذوالحج کو زخمی نہ کیا گیا بلکہ 26 ذوالحج کو وفات پائی....ابن قتیبہ نے فرمایا کہ أَبُو لُؤْلُؤَةَ نے 26ذوالحج کو زخمی کیا تین دن سیدنا عمر زخمی حالت میں رہے پھر(یکم محرم) کو وفات پائی

( أسد الغابة ط الفكر3/676)

(الطبقات الكبرى ط العلمية ,3/278نحوہ)


.

وَطَعَنَهُ صَبِيحَةَ الْأَرْبِعَاءَ لِأَرْبَعٍ بَقِينَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ.....وَمَاتَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بَعْدَ ثلاث، ودفن في يَوْمَ الْأَحَدِ مُسْتَهَلَّ الْمُحَرَّمِ....فذكرت ذلك لعثمان الأخنس فَقَالَ:مَا أُرَاكَ إِلَّا وَهِلْتَ. تُوُفِّيَ عُمَرُ لِأَرْبَعِ لَيَالٍ بَقِينَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ

خلاصہ:

سیدنا عمر کو بدھ کے دن 26ذوالحج کے دن زخمی کیا گیا اور آپ تین دن زخمی رہے اور اتوار کے دن یکم محرم کو دفنایا گیا....عُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْأَحْمَسِيُّ فرماتے ہیں کہ یہ وھم ہے 26ذوالحج کو زخمی نہ کیا گیا بلکہ 26 ذوالحج کو وفات پائی

(البداية والنهاية ط الفكر7/138ملتقطا)

.

ثُمَّ تُوُفِّيَ لَيْلَةَ الأَرْبِعَاءِ لثلاث ليال  بقين من ذي الحج...قَالَ أَبُو جَعْفَرٍ: وَقَدْ قِيلَ إِنَّ وَفَاتَهُ كَانَتْ فِي غُرَّةِ الْمُحَرَّمِ...  فذكرت ذلك لعثمان الأخنسي، فقال: ما أراك إلا وهلت، توفي عمر رضي اللَّه تعالى عنه لأربع ليال بقين من ذي الحجة، وبويع لعثمان بْن عفان لليلة بقيت من ذي الحجة...قال أبو جعفر: وأما المدائني، فإنه قال فيما  حَدَّثَنِي عمر عنه، عن شريك، عن الأعمش- أو عن جابر الجعفي- عن عوف بْن مالك الأشجعي وعامر بْن أبي مُحَمَّد، عن أشياخ من قومه، وعثمان بْن عبد الرحمن، عن ابني شهاب الزهري، قالوا: طعن عمر  يوم الأربعاء لسبع بقين من ذي الحجة.قال: وقال غيرهم: لست بقين من ذي الحجة.....عن أبي معشر، قال: قتل عمر يوم الأربعاء لأربع  ليال بقين من ذي الحجة...هشام بْن مُحَمَّد، قال: قتل  عمر لثلاث ليال بقين من ذي الحجة

خلاصہ

27ذوالحج کو سیدنا عمر نے وفات پائی...ابوجعفر(امام طبری) کہتے ہیں کہ آپ کی وفات یکم محرم بیان کی گئ ہے،یہ بات عثمان الاخنسی سے کہی تو فرمایا کہ آپ کو وھم ہوا ہے سیدنا عمر کی وفات تو 26ذوالحج میں ہوئی...مدائنی اعمش جابر جعدی عثمان بن عبدالرحمن اور شھاب زہری کے بیٹوں سے مروی ہے کہ 23 ذوالحج کو سیدنا عمر زخمی کیے گئے(پھر تین دن زخمی رہ کر 26کو وفات پائی)لیکن ہشام بن محمد فرماتے ہیں کہ 27ذوالحج کو وفات پائی

(تاريخ الطبري4/193,194)

.

قال خليفة والواقدي لثلاث بقين من ذي الحجة وقال الذهلي كتب إلي أبو نعيم وأبو بكر بن أبي شيبة يوم الأربعاء لأربع بقين منه وقد مكث ثلاثا بعدما طعن ثم مات وقال خليفة عاش بعدما طعن ثلاثة أيام ثم مات قال عمرو بن علي مات يوم السبت غرة المحرم سنة أربع وعشرين وكانت خلافته عشر سنين وستة أشهر وثمانية أيام على ما ذكره خليفة ومات وهو ابن ثلاث وستين سنة ويقال ابن أربع وخمسين سنة ويقال ابن خمس وخمسين ويقال ابن اثنتين وخمسين سنة وقال ابن أسلم عن أبيه مات عمر وهو ابن ستين سنة وقال الواقدي هذا هو أثبت الأقاويل عندنا قال الواقدي في الطبقات طعن عمر في ثلاث ليال بقين من ذي الحجة وتوفي لهلال المحرم سنة أربع وعشرين وقال في التاريخ طعن يوم الأربعاء لأربع بقين من ذي الحجة

 خلیفہ اور واقدی کہتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو 27ذوالحج کو زخمی کیا گیا(تین چار دن زخمی رہ کر یکم محرم کو وفات پائی) اور ابوبکر بن ابی شیبہ فرماتے ہیں کہ 26 ذوالحج کو زخمی کیا گیا اور تین دن زخمی رہے اور پھر(یکم محرم کو) وفات پائی...عمرو بن علي نے فرمایا کہ یکم محرم کو وفات پائی

(كتاب تاريخ دمشق لابن عساكر44/14)

.

: طُعن عمر بن الخطّاب يوم الأربعاء لأربع ليالٍ بقين من ذى الحجّة سنة ثلاث وعشرين ودُفن يوم الأحد صَباحَ هلالِ المحرّم سنة أربعٍ وعشرين،...قال فذكرتُ ذلك لعثمان بن محمّد الأخْنسى فقال: ما أراك إِلَّا قد وَهِلت، توفّى عمر لأربع ليالٍ بقين من ذى الحجّة

 26 ذوالحج کو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کو زخمی کیا گیا(تین چار دن زخمی رہ کر یکم محرم کو وفات پائی)اور یکم محرم کو دفن کیا گیا عثمان اخنسی سے یہ بات بیان کی گئ تو انہوں نے کہا کہ آپ کو وھم ہوا ہے،سیدنا عمر نے 26 ذوالحج کو وفات پائی

(الطبقات الكبرى - ط الخانجي3/338بحذف)

.

«طُعِنَ عُمَرُ فَتُوُفِّيَ لَيْلَةَ الْأَرْبِعَاءِ لِثَلَاثِ لَيَالٍ بَقِينَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ،

 سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو زخمی کیا گیا اور 27 ذوالحج کو وفات پائی

(كتاب معرفة الصحابة لأبي نعيم1/44)

.

وتوفي لهلال المحرم

 عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات یکم محرم میں ہوئی

(كتاب أنساب الأشراف للبلاذري10/428)

.

الحاصل:

سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تاریخ شہادت اور تاریخِ تدفین میں اختلاف ہے....26ذوالحج اور یکم محرم زیادہ مشھور ہیں تو 26 کو یا یکم محرم کو یا دونوں دن *#یوم_عمر* منایا جائے یا معتبر اہلسنت علماء و مشائخ کوئی اور دن یوم عمر کے طور پر مقرر فرمائیں تو بھی کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے....واللہ تعالیٰ اعلم و رسولہﷺاعلم بالصواب

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.