جہاد؟ کشمیر فلسطین برما؟ جوش ہوش طاقت؟

 تحریر تھوڑی لمبی ہے saveکرکے یا شیئر کرکے تسلی سے پڑھیے

جہاد..........؟؟

سوال:

کیا کشمیر فلسطین برما عراق وغیرہ ممالک میں جہاد ہے.....؟؟اگر جہاد ہے تو حکومتِ پاکستان سعودی عرب ترکی ایران اور دیگر ممالک کشمیر فلسطین برما وغیرہ میں باقاعدہ جہاد کا اعلان کیوں نہیں کرتے.....؟؟

 لبیک کے علماء نے اعلان کیا ہے کہ جہاد کے اعلان کا حق صرف حکومت اور ریاست کو ہے...کیا واقعی جہاد کے لیے اسلامی بادشاہ و امام کا ہونا ضروری ہے....؟؟اگر ضروری ہے تو آج کے دور مین کہیں اسلامی بادشاہ ہے جس نے کشمیر فلسطین برما وغیہ مین جہاد کا اعلان کیا ہو.....؟ اسکا مطلب آج کے دور میں کوئی جہاد نہیں....؟

جہاد ہے کیا...؟

جہاد کی تیاری شوق عافیت کی دعا....؟؟

جہاد کا طریقہ کیا ہے.....؟؟

فرقوں کا خاتمہ کیسے....؟

کیا تیسری جنگ عظیم کی مسلمانوں میں سکت ہے....؟؟ 


.

الجواب

اے ایمان والو ہوشیاری،احتیاط سے کام لو..(سورہ نساء آیت71)جوش کے ساتھ ساتھ ہوش بھی ضروری ہے..آج کی جدید طاقت بھی ضروری ہے…دیکھیے فلسطین نے محض جوش میں آکر حملہ کرکے دس بیس اسرائیلی مارے مگر اسرائیل نے 120 سے بھی زائد شہید کر دییے اور اسرائیل کو تو اب تباہی مچانے کا بہانہ مل گیا…اسی طاقت نہ ہونے کی بناء پر علماء نے جنگی جہاد نہ کرنے کا فتوی دیا تھا…تفصیل تحریر میں پڑہیے

.

القرآن:

وَأَخْرِجُوهُم مِّنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ

ترجمہ:

 اور جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ہے , تم انہیں وہاں سے نکالو...(سورہ البقرة آیت191)

اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں علماء فرماتے ہیں کہ مقبوضہ علاقوں کو چھڑانے کے لیے جہاد اس آیت سے ثابت ہوتا ہے، کشمیر فلسطین برما وغیرہ مسلم علاقوں میں اکثریت مسلمانوں کی ہے جس پر ہندوستان اسرائیل بدھیسٹ وغیرہ نے قبضہ و ظلم جاری رکھے ہوئے ہیں، کئ علاقے پر قبضہ کیا ہوا ہے....ان علاقوں کو، دشمنوں کے تسلط سے، دشمن حکومت سے، انکی ظلم و بربریت سے نجات کے لیے کشمیر فلسطین برما وغیرہ کا جہاد برحق ہے،

.

کشمیر برما فلسطین وغیرہ کے مظلوم مسلمانوں کی جانی مالی ہرطرح کی امداد و تعاون دیگر مسلمان ممالک پر حسبِ طاقت لازم ہے

القرآن:

وَإِنِ اسْتَنصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ

اور اگر وہ تم سے دین کی خاطر مدد طلب کریں تو تم پر انکی مدد کرنا لازم ہے..(انفال ایت72)

.

بلکہ

اگر مسلمانانِ کشمیر ، یا مسلمانانِ فلسطین یا دیگر علاقوں کے مسلمان جہاد نا کریں یا سستی کریں تب بھی انکے گرد و نواح کے مسلم علاقوں مثلا پاکستان،عرب وغیرہ پر لازم ہو گا کہ وہ جہاد کو زندہ رکھے، مقبوضہ مظلومہ علاقوں کے سست مسلمانوں میں حوصلہ ، ہمت ، شعور بڑھائے اور آزادی کی تحریک ان میں پیدا کرے.. انہیں آزادی دِلا کر قریبی مسلم ملک کا صوبہ بنایا جائے یا الگ سے مسلم ملک بنایا جائے دونوں جائز ہیں

مگر

یاد رہے کہ آزادیِ پاکستان معاہدات.و.وعدے کےمطابق کشمیر پاکستان کاحصہ بنانا واجب ہے، مگر مجبورا یہ بھی روا کہ کشمیر الگ اسلامی ملک بنایاجائے

.

فتاوی شامی میں ہے کہ:

فإن عجزوا أو تكاسلوا فعلى من يليهم حتى يفترض على هذا التدريج

ترجمہ:

اگر اہل علاقہ جہاد کرنے سے عاجز آ جاءیں یا سستی کی وجہ سے جہاد نا کریں تو جہاد ان مسلمانوں پر فرض ہو جاءے گا جو ان کے اردگرد ہیں پھر ان پر جو ان کے قریب ہوں اسی طرح تدریجا جہاد فرض ہوتا جائے گا

 (شامی 4/126)

.

جہاد کی لیے جو امام و بادشاہ کی اجازت و اعلان کی شرط ہے وہ شرط اس جہاد میں ہے جو ابتدائی ہو....دفاعی جہاد میں اسلامی بادشاہ کا ہونا یا اسکی اجازت شرط نہیں...دفاعی جہاد میں ریاست کے اعلانِ جہاد کی شرط نہیں


فلا يجوز لأحد أن يغزو دون إذن الإمام إلا على سبيل الدفاع

ترجمہ:

امام کی اجازت و اعلان کے بغیر جہاد کرنا جائز نہیں سوائے دفاعی جہاد کے

(الشرح الممتع 8/22)

.

.

پاکستان ترکی سعودی عرب وغیرہ کسی اسلامی ملک نے کشمیر فلسطین برما وغیرہ کے جہاد کا اعلان باقاعدہ نہیں کرتے،ان جہادوں پر اپنی پوری فوج نہین بھیجتے بلکہ دیگر طریقوں سے امداد جاری رکھے ہوئے ہیں اسکی وجہ اگر یہ ہو کہ علی الاعلان اعلان کرنے مین تیسری جنگِ عظیم کا خطرہ ہے جسکی مسلمانوں میں طاقت نہیں...اگر یہ وجہ ہے تب تو ٹھیک ہے اور اگر منافقت یا بزدلی وجہ ہو یا جہاد پر خدشات وجہ ہو تو بالکل ٹھیک نہیں، کچھ جدید قسم کے نام نہاد علماء جہاد کے ختم ہو جانے کا کہتے ہیں جوکہ ٹھیک نہیں، جہاد کبھی منسوخ نہیں، جہاد وقتا فوقتا ہمیشہ جاری رہے گا،عارضی وقفہ ہوتا رہا ہے اور ہوسکتا ہے

الحدیث:

والجهاد ماض منذ بعثني الله إلى أن يقاتل آخر أمتي الدجال

ترجمہ:

جب سے اللہ نے مجھے مبعوث فرمایا ہے اس وقت سے لیکر ہمیشہ جہاد جاری رہے گا حتی کہ میری امت کے آخری لوگ دجال سے جہاد کریں گے..(ابوداود حدیث2532)

.

القرآن:

كُتِبَ عَلَیْكُمُ الْقِتَالُ وَ هُوَ كُرْهٌ لَّكُمْۚ-وَ عَسٰۤى اَنْ تَكْرَهُوْا شَیْــٴًـا وَّ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْۚ-وَ عَسٰۤى اَنْ تُحِبُّوْا شَیْــٴًـا وَّ هُوَ شَرٌّ لَّكُمْؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۠

ترجمہ:

تم پر قتال(جنگی جہاد اللہ کی طرف سے) لازم کر دیا گیا ہے اور وہ (بظاہر)تمھیں ناپسند ہے(تو سن لو)قریب ہے کہ تم کسی چیز(جہاد وغیرہ کسی بات،کسی اصول،کسی ذات، معاملات، عبادات، سزائیں، پابندیاں، محدود آزادیاں وغیرہ کسی بھی چیز)کو پسند نا کرو اور وہ تمھارے لیے بہتر ہو

اور

قریب ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو اور وہ تمھارے لیے بری ہو،اللہ سب جانتا ہے تم نہیں جانتے(لیھذا اللہ اسلام کی پسند کو اختیار کرو، اللہ اسلام کی پسند کو اپنی پسند بنالو)

(سورہ بقرہ ایت216)

.

الحدیث:

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من مات ولم يغز، ولم يحدث به نفسه، مات على شعبة من نفاق

ترجمہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو اس طرح مرے کہ نہ تو جہاد کیا ہو اور نا ہی اس کے دل نے جہاد کرنے کا سوچا ہو تو وہ منافقت پر مرا

(مسلم حدیث1910)

.

میں سچی نیت کرتا ہوں کہ معتبر علماء اہلسنت کے پردلیل فتوی کے مطابق اگر جہاد فرض کفایہ ہوگیا تو میں شرکت کی بھرپور کوشش کروں گا اور اگر جہاد فرض عین ہوگیا تو اسلامی افواج ، پاک آرمی کا ساتھ دونگا اور بقایا تمام ضروریات،مسائل.و.ذمہ داریوں کو پسِ پشت ڈال کر فرض عین ادا کرونگا

.

جہاد کبھی منسوخ نہیں، جہاد وقتا فوقتا تاقیامت ہمیشہ جاری رہے گا البتہ عذر کی وجہ سے عارضی وقفہ ہوسکتا ہے، طویل وقفہ ہوسکتا ہے، اس دوران جہاد دیگر طریقوں سے اور جدید طریقوں سے جہاد جاری رہے گا، اسکی تفصیل سمجھنے کے لیے درج ذیل نو اصول سمجھنا ضروری ہیں

.

اصول نمبر ①:

جہاد کا حکم حسبِ طاقت ہے... جس میں جہاد کی طاقت نا ہو اسے ہتھیار والے جہاد کا حکم نہیں ہاں خیر خواہی اور جنگ کے علاوہ جہاد کے دیگر طریقے جنکی طاقت عام طور پر ہوتی ہے اسکا حکم ہے..القرآن..ترجمہ:

اللہ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ حکم نہیں دیتا

(سورہ بقرہ آیت286)

ﺍﻟﻘﺮﺁﻥ..ترجمہ:

ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﮨﻼﮐﺖ ﻣﻴﮟ نہ ﮈﺍﻟﻮ.(سورہ بقرہ ایت195)

القرآن..ترجمہ:

(جہاد میں شریک نا ہو سکنے والے)کمزوروں پر کوئی حرج نہیں، اور مریضوں پر حرج نہیں اور ان پر بھی حرج نہیں جو خرچ کی قدرت نا رکھتے ہوں جبکہ وہ خیر خواہ ہوں اللہ کے لیے اور اسکے رسول کے لیے..(سورہ توبہ آیت91)

.

اسی طاقت نا ہونے کے اصول کی بنیاد پر امام احمد رضا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مسلمانان ہند پر جنگی جہاد نا ہونے کا فتوی دیا تھا...آپ فرماتے ہین کہ:

 نہ صرف عثمانیہ ہر سلطنت اسلام نہ صرف سلطنت ہر جماعت اسلام نہ صرف جماعت ہر فرد اسلام کی خیر خواہی ہر مسلمان پر فرض ہے

دل سے خیر خواہی مطلقاً فرض عین ہے، اور وقت حاجت دعا سے امداد واعانت بھی ہر مسلمان کو چاہئے کہ اس سے کوئی عاجز نہیں اور مال یا اعمال سے اعانت فرض کفایہ ہے اور ہر فرض بقدر قدرت ہر حکم بشرط استطاعت۔قال تعالٰی لایکلف اﷲ نفسا الّا وسعھا

مفلس پر اعانت مال نہیں، بے دست وپا پراعانتِ اعمال نہیں، ولہذا مسلمانانِ ہند پر حکم جہاد وقتال نہیں

(فتاوی رضویہ جلد14 صفحہ174)

.

جنگی جہاد فرض نا ہونے کا فتوی امام احمد رضا کا ذاتی فتوی نہیں بلکہ ان سے پہلے کئ علماء کرام نے متفقہ طور پر قرآن و حدیث سے استدلال کرتے ہوئے ایسا فتوی دیا تھا

فتاوی عالمگیری مین ہے کہ

وإن كان لا يرجو القوة والشوكة للمسلمين في القتال، فإنه لا يحل له القتال لما فيه من إلقاء نفسه في التهلكة

ترجمہ:

جنگی جہاد میں اگر قوت و طاقت کی امید بظاہر نا ہو اور مسلمانوں کو شان و شوکت(فتح عزت) کی امید نا ہو تو جنگی جہاد جائز نہیں کیونکہ اس صورت میں اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے

( فتاوی عالمگیری 2/188)

.

آج بھی حالات کچھ اسی طرح کے ہین کہ مسلم ممالک میں جنگی جہاد کی طاقت نہیں... آج افراد کے بجائے ہتھیار کا زمانہ ہے... اگرچے غیرمسلم ممالک کے افراد کی تعداد مسلم ممالک سے زیادہ ہے مگر فقط تعداد کا معاملہ ہوتا تو اہل ایمان اس معاملے مین کم تعداد میں بھی ہوکر بھاری پڑتے ہین ایمان و بہادری کی وجہ ہے... مگر اسلام نے سمجھداری احتیاط کا حکم بھی دیا ہے... اسلحہ ہتھیار وغیرہ طاقت جمع کرنے کا ھکم بھی دیا ہے... تب تک زبانی جہاد تعلیمی جہاد اور دیگر مختلف طریقوں کے جہاد جاری رکھنے کا فرمایا ہے... آج غیر مسلموں کے پاس ہائیڈروجن بم،  ایٹم بم، کیمیائی ہتھیار بلکہ میڈیا کی طاقت سائنس.و.ٹیکنالوجی کی طاقت بھی انہی کے پاس ہے... لے دے کے ایک پاکستان ہی ایٹمی اسلامی ملک ہے جو غیرمسلموں کے قرض میں ڈوبا ہوا ہے... غلامی میں ڈوبا ہوا ہے... دہشتگردوں کی پناہ گاہ کا الزام ہے... اور پھر بڑے حکمران بھی کامل ایمان سے خالی... ایسے میں جنگی جہاد کا اعلان کسی اسلامی ملک کے لیے ممکن نہیں لگتا... سراسر تباہی ہے.. جنگی جہاد کے علاوہ دیگر جہاد فرض ہیں... بہت بہت بہت ضروری ہیں.. مسلمان کو ڈرپوک بزدل نہیں ہونا چاہیے مگر سمجھدار ہونا بھی ضروری ہے بلکہ بہت ضروری ہے... ان حالات میں جوش.و.جذبہ ابھار کر جنگی جہاد کا اعلان کرکے مسلمانوں کو تباہی مین دھکیلنا کہاں کا جہاد ہے....؟؟ کہاں کی سمجھداری ہے...؟؟ جوش و جذبہ جگانا ضروری ہے اور ساتھ مین سمجھداری کا بتانا بھی ضروری ہے اور دعا ضروری ہے اور جہاد کے دیگر لوازمات میں ترقی ضروری ہے


اصول نمبر ②:

اسلام غیرت جوش.و.جذبے کے ساتھ ساتھ سمجھداری اور احتیاط کا حکم بھی دیتا ہے، مختلف قسم کی طاقت جمع کرنے کا حکم بھی دیتا ہے

القرآن..ترجمہ:

اے ایمان والو ہوشیاری،احتیاط سے کام لو..(سورہ نساء آیت71)

جوش کے ساتھ ساتھ ہوش بھی ضروری ہے.. احتیاط بھی ضروری ہے..

.

اصول نمبر ③:

القرآن..ترجمہ:

جو قوت،طاقت ہوسکے تیار رکھو..(انفال60)

آیت مبارکہ مین غور کیا جائے تو ایک بہت عظیم اصول بتایا گیا ہے... جس میں معاشی طاقت... افرادی طاقت... جدید ہتھیار کی طاقت...دینی علوم و مدارس کی طاقت, جدید تعلیم و ترقی کی طاقت.... علم.و.شعور کی طاقت... میڈیکل اور سائنسی علوم کی طاقت... جدید فنون کی طاقت... اقتدار میں اچھے لوگوں کو لانے کی طاقت.. احتیاطی تدابیر مشقیں جدت ترقی

اور دیگر طاقت و قوت کا انتظام کرنا چاہیے... یہ بھی جہاد کا حصہ ہیں..اس ایت مبارکہ سے اچھی جدت و ٹیکنالوجی اچھی دولت طاقت سب کا ثبوت ہےایک دفعہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام کے پاس دولتمندی کا تذکرہ ہوا تو آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:

لا بأس بالغنى لمن اتقى، والصحة لمن اتقى خير من الغنى، وطيب النفس من النعيم

ترجمہ:

دولت مندی(جائز طریقے سے دولت پیسہ کمانے) میں کوئی مضائقہ نہیں اُس کے لیے جو تقوی کرے، اور صحت دولت سے بہتر ہے اُس کے لیے جو تقوی کرے،اور اچھی طبیعت(خوش اخلاقی، پاکیزہ طبیعت) نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے

(ابن ماجہ حدیث2141)

الحدیث،ترجمہ:

کیا ہی اچھا ہے وہ "اچھا مال" (وہ پاکیزہ، حلال مال.و.دولت) جو اچھے شخص کے پاس ہو..(مسند احمد حدیث7309)

الحدیث،ترجمہ:

طاقتور(اچھی دولت طاقت والا) مومن کمزور مومن سےزیادہ بہتر و اللہ کو زیادہ محبوب ہے(مسلم حدیث2664)

.

فتاوی رضویہ میں ہے

جدت ممنوع نہیں بشرطیکہ کسی ممنوع شرعی میں شامل نہ ہو(فتاوی رضویہ22/191)

اسلام جدت ، جدید تعلیم.و.ٹیکنالوجی اچھی پاکیزہ معیشت دولت کےخلاف نہیں بلکہ اسےکسی حد تک ضروری تک قرار دیتا ہے

مگر

جدت و تعلیم کے نام پر خفیہ سیکیولرازم، لبرل ازم ،فحاشی بےحیائی غلامی ایجنٹی منافقت،کھلی آزادی کےخلاف ہے

مدارس کی جدت اچھا اقدام ہے

مگر

اسکول کالج یونیورسٹی کےنصاب.و.نظام کی اسلامئیزیشن اولین ترجیحی فریضہ ہے

.


.

اصول نمبر ④:

جہاد جس طرح مخصوص شرائط کے ساتھ غیرمسلموں سے ہوتا ہے اسی طرح مسلمانوں میں موجود منافقین سے بھی جہاد ہوتا ہے، منافقوں پر سختیاں سزائیں پابندیاں سخت لب و لہجے بھی جہاد کا حصہ ہیں..

اسلام نے خوب سمجھایا....بہت سمجھایا.... بار بار سمجھایا مگر اسلام نے "ضدی منافق ہٹ دھرم کے متعلق یہ طریقہ بھی

 بتایا کہ:

يا أيها النبي جاهد الكفار والمنافقين واغلظ عليهم

ترجمہ:اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم)کافروں اور منافقوں سے جہاد کریں اور ان پر سختی کریں

(سورہ توبہ آیت73)

عقل.و.حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ سمجھایا جائے، نرمی برتی جائے، اور اسی حکمت کا تقاضا ہے کہ منافق ضدی فسادی پر سختی برتی جائے، اسی حکمت کا تقاضا ہے کہ کچھ جرائم پر سزا مقرر کی جائے، سزا دی جائے.... اسی میں معاشرے کی بھلائی بھی ہے تو ضدی فسادی کا علاج بھی..


.

اصول نمبر ⑤:

جہاد کفار اور منافقین سے ہوتا ہے تو ظالموں اور نااہل لیڈروں سے بھی ہوتا ہے... جہاد ہاتھ ہتھیار سے بھی ہوتا ہے اور زبان و قلم سے بھی ہوتا ہے

الحدیث..ترجمہ:

راہِ حق سے ہٹے ہوے ظالم بادشاہ یا راہِ حق سے ہٹے ہوے ظالم امیر (امیر یعنی حاکم،لیڈر، قاضی، جج، سردار وغیرہ کؤئی بھی ذمہ دار، عھدے دار) کے پاس عدل.و.حق کی بات کہنا افضل جھاد ہے.. (ابوداؤد حدیث نمبر4344)

.

نا اہلوں سے جھاد....اور وہ بھی تین طریقوں سے:

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

پہلے کی امتوں میں جو بھی نبی علیہ الصلاۃ والسلام گذرا اسکے حواری تھے،اصحاب تھے جو اسکی سنتوں کو مضبوطی سے تھامتے تھے اور انکی پیروی کرتے تھے،

پھر

ان کے بعد ایسے نااہل آے کہ جو وہ کہتے تھے اس پر عمل نہیں کرتے تھے،اور کرتے وہ کچھ تھے جنکا انھیں حکم نہیں تھا، جو ایسوں سے جہاد کرے ہاتھ سے وہ مومن ہے

اور جو ایسوں سے جھاد کرے زبان سے  وہ مومن ہے

اور جو ایسوں سے جھاد کرے دل سے   وہ مومن ہے

اور اس کے علاوہ میں رائ برابر بھی ایمان نہیں

(مسلم حدیث 50)

.

اصول نمبر ⑥:

جہاد جس طرح ہتھیار سے ہوتا ہے اسی طرح جان مال زبان سے بھی ہوتا ہے... احتیاط ہوشیاری سمجھداری اور علم و شعور اور دیگر طاقتیں جمع کرنا بھی جہاد کا حصہ ہیں بشرطیکہ اسلام کی سربلندی کے لیے ہوں

الحدیث:

جاهدوا المشركين بأموالكم وأنفسكم وألسنتكم

ترجمہ:مشرکوں سے جہاد کرو جان مال اور زبان کے ساتھ

(ابوداؤد حدیث2504)

وعظ.و.نصیحت کرنا سمجھانا بھی زبانی جہاد ہے اور اسلام کا دفاع بھی زبان کے جہاد مین شامل ہے... ضدی منافق فسادی کی مذمت.و.تردید بھی زبان کے جہاد میں شامل ہے..

غیرمسلموں مرتد گمراہ فرقوں کے عیوب کرتوت مکاریاں گندے عقائد و نظریات وغیرہ بیان کرنا تحریر و کتب لکھنا انکا رد کرنا تاکہ لوگ ان سے دور رہیں یہ بھی برحق و لازم ہے، زبانی جہاد میں شامل ہے

منافقوں باطلوں کافروں کی اصلیت انکے جھوٹ انکی مکاریاں لوگوں پر واضح کرنا بھی زبان کے جہاد میں شامل ہے.. یہ فرقہ واریت اور عیب جوئی نہیں، ہاں جھوٹی مذمت الزام تراشیاں اور جھوٹے الزام بھی ٹھیک نہیں...!!

القرآن..ترجمہ:

حق سے باطل کو نا ملاؤ اور جان بوجھ کر حق نہ چھپاؤ

(سورہ بقرہ آیت42

الحدیث:

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم أترعون عن ذكر الفاجر؟، اذكروه بما فيه يعرفه الناس

ترجمہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

کیا تم(زندہ یا مردہ)فاجر(فاسق معلن منافق , گمراہ، خائن، کرپٹ، دھوکے باز مکار گستاخ) کو واضح کرنے(مزمت کرنے) سے ہچکچاتے ہو...؟(جیسا وہ ہے ویسا کہنے سے گھبراتے ہو...؟؟)اسے ان چیزوں(ان کرتوتوں، عیبوں اعلانیہ گناہوں ، خیانتوں، منافقتوں دھوکے بازیوں) کے ساتھ واضح کرو جو اس میں ہوں تاکہ لوگ اسے پہچان لیں(اور اسکی گمراہی خیانت منافقت بدعملی دھوکے بازی مکاری سے بچ سکیں)

(طبرانی کبیر حدیث1010)

یہ حدیث پاک  کتبِ حدیث و تفاسیر اور فقہ و تصوف کی کئی کتب میں موجود ہے... مثلا جامع صغیر، شعب الایمان، احیاء العلوم، جامع الاحادیث، کنزالعمال، کشف الخفاء ردالمحتار ، عنایہ شرح ہدایہ، فتاوی رضویہ، تفسیر ثعالبی، تفسیر درمنثور وغیرہ کتب میں موجود ہے

.

اصول نمبر ⑦:

جہاد وہ ہر طرح کی جد.و.جہد ہے جو اسلام کی سربلندی کے ہو.. جد و جہد ہاتھ ہتھیار سے بھی ہوسکتی ہے تو زبان و قلم سے بھی، جد جہد معاشی معاشرتی ترقی سے ہوسکتی ہے اور جد جہد علم.و.شعور پھیلانے سے بھی ہوسکتی ہے... الغرض اسلام کی سربلندی کے لیے کی جانے والی ہر قسم کی.جد و جہد اسلامی حدود.و.شرائط کے ساتھ ہو تو جہاد کا حصہ ہے... جہاد کا مقصد اسلام کی سربلندی ہے... جہاد کا مقصد انسان کی فلاح ہے.. جہاد کا مقصد قیامِ امن ہے... اسلام امن کا درس دیتا ہے... جہاد اور جد.و.جہد کا حکم بھی ہے تو قیام امن کے لیے ہے،بھلائی کے لیے ہے

.

القرآن..ترجمہ:

اور ان سے قتال(لڑائی،جہاد)کرو یہاں تک کہ فتنہ نا رہے

(سورہ بقرہ آیت193)

ہاں امن کے نام پر بے حسی،بے غیرتی اور آرام و عیاشی جرم ہے...امن اسکا نام نہیں.. اگر یہ امن ہے یا چپ ہوکر بیٹھنا سب کچھ سہتے رہنا امن ہے تو یقینا اسلام اسکا حکم نہین دیتا.. ہاں جھاد اور جد.و.جہد کے نام.پر دہشت گردی بھی جرم ہے

.


نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا یارسول اللہ

کوئ مالِ غنیمت(دنیا،دولت)کے لیے لڑتا ہے

کوئ بہادری دکھانے کے لیے لرتا ہے

کوئ غصے کی وجہ سے لرتا ہے

کوئ برادری قومیت(پارٹی،تفرقہ،سیاست،طاقت)کے لیے لڑتا ہے


کوئ دکھاوے کے لیے لڑتا ہے

کوئ عزت و مقام و مرتبہ دکھانے کے لیے لڑتا ہے

کوئ یاد رہ جانے کے لیے لڑتا ہے

تو (حقیقتا)اللہ کی راہ کی لڑائ(حقیقی جھاد)کیا ہے..؟

آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا:

جو(جد.و.جہد،لڑائی،اصلاح،کردار)صرف اسلام کی سربلندی کے لیے ہو تو وہ جھاد ہے..(مسلم حدیث1904 کے تحت درج چار احادیث مبارکہ کو یکجا کرکے ترجمہ لکھا گیا ہے)

.

صحیح مسلم میں کتاب الجھاد میں یہ حدیث پاک لکھی ہے کہ:

خوشخبریاں سناؤ(خوشیاں دو)اور نفرتیں نا پھیلاو، اور آسانیاں کرو اور مشکلیں،سختیاں پیدا ناکرو.(مسلم حدیث1732)

.

کتاب الجہاد کی اسی حدیث پاک کے بعد ایک اور حدیث پاک ہے جس میں کچھ یوں ارشاد پاک ہے کہ:

آسانیاں کرو مشکلیں پیدا نا کرو، اور سکون مہیا کرو اور نفرتیں نا پھیلاو..(مسلم حدیث1734)

یہ حدیث بخاری شریف میں بھی ہے... بخاری حدیث69

ذرا سوچیے کتاب الجہاد میں ان احادیث کو ذکر کرنا کیا معنی رکھتا ہے....؟؟ یہی ناں کہ یہ چیزیں بھی جہاد کا حصہ ہیں،

.

اصول نمبر ⑧:

الحدیث،ترجمہ و تلخصیں:

غیرمسلم قومیں تم پےٹوٹ پڑیں گے،تم کثرت میں ہوکر بھی کچھ نہ کر پاؤ گے کیونکہ تم اپنا رعب کھو چکےہوگے، اور تم دنیا و من موجی میں مگن ہوگے،موت سے نفرت کرتے ہوگے(ابوداؤد حدیث4297ملخصا)

.

علاج:

اس حدیث پاک میں اشارتا علاج بھی بتایا گیا ہے....ناکامی کے اسباب بتا دیے گئے اور ان اسباب کا سدباب کرنا ہی علاج ہے

1:رعب کھونا:

طاقت، بہادری، محنت، خود داری،اتحاد کی کمی ہو تو انسان اپنا رعب کھو دیتا ہے…اچھے نیک لوگوں کو چاہیے کہ دنیا پیسہ دولت اسلحہ ایٹمی ہتھیار جہاز میزائل ڈیفینس علوم فنون طب ٹیکنالوجی وغیرہ قوت و طاقت کی دوڑ میں بڑی طاقت جمع رکھے.............معیشت طاقت علوم فنون اسلحہ دولت میں

ہاتھ پھیلانے  کے بجائے خود'داری پر توجہ مرکوز رکھے

اور

محض طاقت کافی نہیں اس کے ساتھ ساتھ بہادری دلیری سچائی عمل و محنت کرکے دکھائے،محض زبانی دھمکیاں بھی کافی نہیں ہوتیں.......حسب طاقت قوت جمع کرے پھر توکل و بہادری کرتے ہوئے عملا کچھ کر دکھائے

ان شاء اللہ رعب و دبدبہ بحال ہوجائے گا

.

.

2:من موجی،دنیا کی محبت:

اچھوں کے لیے اچھائی کےلیےدنیا طاقت قوت کمانے کی مذمت نہین بلکہ اسکی فضیلت و حکم ہے...الحدیث،ترجمہ:

کیا ہی اچھا ہے وہ "اچھا مال"(وہ پاکیزہ، حلال مال.و.دولت) جو اچھے شخص کے پاس ہو..(مسند احمد حدیث7309)

مذمت تو اسکی ہے کہ دنیا عیاشی غلط استعمال کو ہی اپنا نصب العین بنا لیا جائے،من موجی عیاشی اور دنیا کی محبت میں گرفتار مسلمان و منافقین جہاد و موت سے ڈرتے ہیں.....دنیا مین اپنا رعب و محبت وفا اعتماد نہیں رکھتے،یہ جھرمٹ میں ہوکر بھی تنہا ہوتے ہیں، بزدل ہوتے ہیں.......انہیں دوسروں کی فکر و غیرت نہیں ہوتی، اسلام کی سربلندی کی فکر نہیں ہوتی، اپنی مستیاں من موجیاں عزیز ہوتی ہیں......یہ بیماری حکمرانوں تاجروں میں کثرت سے پائی جاتی ہے مگر آج کل تو عام ہوتی جارہی ہے....اللہ ہدایت دے

.

.

3موت سے نفرت:

جب من موجی ہو دنیا محبوب ہو تو موت.و.شہادت کی تمنا نہیں رہتی........زندگی مستیاں عزیز بن جاتی ہیں، جب دنیا کی محبت ختم کر دی جائے اور یہ تصور دل میں گھر کر جائے کہ اصل زندگی تو آخرت ہے تو موت.و.شہادت سے محبت ہونے لگتی ہے.......جب مسلمان کثرت سے موت سے نفرت کے بجائے محبت کرتے ہوں، موت سے نہ ڈرتے ہوں تو دیگر اقوام میں مسلمانوں کا رعب خود بخود بیٹھ جاءے گا....اس طرح کامیابی قدم چومے گی

اسلام ہوش و جوش دونوں کا حکم دیتا ہے.....محض جذبات و جوش پے چلا جائے تو تباہی مقدر بن سکتی ہے اور محض ہوش ،عقل و احتیاط پے چلا جائے تو بزدلی گھر کر جاتی ہے

القرآن،ترجمہ:

اللہ ان مجاہدین کو پسند فرماتا ہے جو سیسہ پلائی دیوار کی طرح(مضبوط و بہادر) ہوتے ہیں..(صف4)

القرآن..ترجمہ:

اے ایمان والو ہوشیاری سے کام لو..(سورہ نساء آیت71)

القرآن..ترجمہ:

جو قوت،طاقت ہوسکے تیار رکھو..(انفال60)

.

اصول نمبر⑨

اوپر جہاد کے مقاصد و طریقے معلومات بتائے جاچکے ہین، ان میں سے اکثر مقاصد جس طرح جنگی جہاد سے حاصل ہوتے ہین اسی طرح جنگی جہاد کے بغیر زبانی جہاد قلمی جہاد علمی شعوری جہاد سے بھی وہ مقاصد حاصل ہوسکتے ہیں...

الحدیث..ترجمہ:

دشمن سے مقابلے(لڑائی،جنگ)کی تمنا نا کرو، اللہ سے عافیت کی دعا کرو،جب مقابلہ ہو تو صبر.و.ثابت قدمی کا مظاہرہ کرو

(بخاری حدیث3024)

 اس لیے جنگی جہاد سے عافیت کی دعا کرنی چاہیے اور زبانی جہاد عملی جہاد دیگر طریقوں والے جہاد کی کوشش کرنی چاہیے، ہاں جنگی جہاد کی تعلیمات بھی عام کرنی چاہیے مگر سمجھداری احتیاط طاقت کا تذکرہ بھی کرنا چاہیے... جذبہِ جہاد جگانا چاہیے مگر ساتھ میں جوش کے ساتھ ہوش.و.سچائی بھی ہونی چاہیے.. اسلام کی سربلندی کے مختلف طریقوں پر جد.و.جہاد جاری رکھنا ضروری ہے..

احتجاج ضروری ہیں.. غیر مسلم عوام تک رسائی اور انہیں اسلام کی صحیح آگاہی دینا ضروری ہے... غیرمسلموں گمراہ مرتد فرقوں مکاروں ایجنٹوں منافقوں کی وحشیت منافقت واضح کرنا ضروری ہے.. یہودیت عیسائیت ہندوازم سیکیولرازم وغیرہ کی تباہیاں بربادیاں واضح کرنا ضروری ہیں.. غیرمسلم ممالک پر سختیاں ضروری ہیں... ضرورت پڑے یا مفید ہو تو انہین پیڑول معدنیات وغیرہ کے بائیکاٹ یا عارضی پابندیاں ضروری ہیں.. مختلف قسم کی سختیاں ضروری ہیں... علم شعور سائنس طب میڈیکل معاشیات وغیرہ کی ترقیاں ضروری ہیں.. عوام کو اسلام کی اصلی تعلیمات سے آگاہ کرنا ضروری ہے... وسعتِ قلبی ضروری ہے... داخلی فسادات کو حل کرنا ضروری ہے...سمجھانا ضروری ہے ضدی فسادی منافقوں مرتد گمراہ فرقوں کو باہر نکال پھینکنا یا قتل کر ڈالنا ضروری ہے....مرتد گمراہ فرقوں منافقوں کو سمجھانے خدشات دور کرنے کے بعد بھی کوئی ضدی فسادی رہے اور قتل کرنے میں عظیم فتنہ کا خدشہ ہوتو ہر قسم کا بائیکاٹ ضروری ہے.. مرتد منافق فرقوں کی تعداد و طاقت کو کم سے کم کرتے رہنے کی کوشش اصلاح ضروری ہے...اصلاح کے ساتھ ساتھ ضدی فسادی مکار منافق کی مذمت بھی ضروری ہے

.

.

غیر مسلموں سے جہاد کا طریقہ:

سب سے پہلے اسلام کی دعوت دینا ہوگی، غیرمسلموں کے اعتراضات و خدشات کا جواب دینا ہوگا اصلاح کی بھرپور کوشش کی جائے گی.....اگر اسلام قبول کرلیں تو بہت اچھا ورنہ انہیں جزیہ کی ادائیگی پر معاہدہ و صلح کی پیشکش کی جائے گی منظور کرلیں تو ٹھیک ورنہ محاصرہ کریں وقت دیں سختی کریں کھانا پانی بند کریں مختلف قسم کے بائیکاٹ و سختیاں کریں گے تا کہ اسلام قبول کریں یا جزیہ پر معاہدہ کریں…ان سب سے کام نہ بنے تو اگر مسلمانوں میں طاقت ہو تو جنگ کریں گے، جنگ میں عورتوں بچوں بوڑھوں مریضوں کمزوروں کو قتل نہ کریں گے، لاش کی بےحرمتی مثلہ نہ کریں گے..اگر جنگ کی طاقت نہیں تو اوپر بیان کیے گئے غیرجنگی جہاد و اصلاح احتیاط طاقت کے طریقے جاری رکھے جائیں گے مختلف قسم کے بائیکاٹ کیے جائیں گے ، معاہدے کیے جائیں، غیرمسلموں سے خرید و فروخت جائز مگر دوستی ناجائز ان کے تہوار کی مبارک باد و شرکت ناجائز....بات کفر تک بھی جاسکتی ہے...(دیکھیے مسلم حدیث1731وغیرہ)

.

مرتد گمراہ فرقوں سے جہاد و خاتمےکم سے کم کرنے کا طریقہ:

انکے اعتراضات خدشات کا جواب دیا جائےگا، خوب سمجھایا جائے گا، ممکن ہو تو محاصرہ و قید کیا جائے گا اور محاصرہ و قید میں سمجھایا جائے گا.......سمجھ جائیں تو ٹھیک ورنہ جنگ کی جائے گی اگر جنگ میں عظیم فتنہ ہو تو اصلاح کی کوشش کے ساتھ ساتھ مختلف قسم کے بائیکاٹ کیے جائیں گے....صحابہ کرام اہلبیت نے فرقہ خوارج کے ساتھ ایسا ہی کیا، انہیں سمجھایا اعتراضات خدشات دلائل سے رد کیے، کئ خوارج مسلمان ہوگئے باقی ضدی فسادی خوارج سے جہاد کیا(دیکھیے السنن الکبری للنسائی حدیث

5822 بہار شریعت حصہ9 ص457 وغیرہ)

.

سب فرقوں کو ٹھیک کہنا اتحاد نہیں منافقت و ناحق ہے...بات کفر تک بھی جاسکتی ہے کیونکہ کلمہ گو مرتد کافر کو کافر نہ سمجھنا کفر ہے.....اہلسنت ہی برحق باقی قادیانی شیعہ نجدی خوارج منافقین جدید لبرل طبقہ ٹھیک نہیں...ہرگز نہیں

اہلسنت وسیع لفظ ہے اس میں وہ جاہل کم علم عوام نجدی دیوبندی بھی شامل جو فقط نام کے دیوبندی ہیں، انہیں دیوبند نجدیوں کے کفریہ گستاخانہ گمراہ کن عقائد و نظریات کا پتہ ہی نہیں بلکہ تبلیغ سے متاثر اور مزارات پے خرافات سے متنفر ہوکے دیوبندی نجدی کہلاتے ہیں یا فروعی مسائل میں ان کے پیروکار ہیں

اسی طرح کئ جاہل کم علم عوام شیعہ جو گستاخ نہ ہو وہ بھی اہلسنت میں شامل، جو مھض نام کے شیعہ ہوتے ہین یا بس اہلبیت کی محبت میں شیعہ کہلاتے ہیں...انہیں شیعہ کے کفریات و گستاخیوں کو کچھ پتہ نہیں ہوتا

اسی طرح وہ جاہل کم علم سنی عوام بھی اہلسنت میں شامل جو مزارات پے خرافات کرتے ہیں غیراولی مکروہ و گناہ کی حد تک چلے جاتے ہیں...لیھذا مذکورہ سب کو سمجھایا جایا گا...انہیں اہلسنت سے خارج نہ کیا جائے گا انہیً کافر نہ کہا جائے گا....انکا قتل نہ کیا جائے گا..اتحاد امت کا یہ طریقہ نہیں کہ سب  کو ٹھیک کہا جائے....اتحاد کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اصلاح تبلیغ کرکے اہلسنت عقائد و نظریات کے موافق کیا جاءے شبہات دور کیے جائیں,ظنیات و فروعیات میں اختلاف برداشت کیا جائے وسعت قلبی کی جائے....اگر طاقت ہو اور عظیم فتنہ کا خدشہ نہ ہو تو منافق و ضدی گستاخ مرتد کی گردن اڑائی جائے....اگر طاقت نہ ہو تو بائیکاٹ فرض ، مذمت فرض ، لاتعلقی فرض ، انہیں کمزور و تعداد کم کرنے کی بھرپور کوشش فرض...........!!

.

القرآن،ترجمہ:

اللہ کی راہ میں لڑو ان سے جو تم سے لڑتے ہیں،اور حد سے مت بڑھو..(سورہ بقرہ ایت190)

جہاد میں اسلامی تعلیمات.و.شرائط پر عمل ناکرنا حد سے بڑھنا ہے جو جہاد نہیں

.

بخاری کتاب الجھاد میں ہے کہ،ترجمہ:

نبی پاک صلی اللہ.علیہ وسلم نے جہاد میں بچوں اور(غیرجنگجو) عورتوں کو قتل کرنے سے روکا ہے..(بخاری حدیث3015)

.

نبی پاک نے حکم فرمایا کہ،ترجمہ:

بہت بوڑھے اور کسی بچے اور کسی چھوٹے اور کسی(غیرجنگجو) عورت کو قتل مت کرنا..(ابوداؤد حدیث2614)

.

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے جہاد کے متعلق رہنمائ فرماتے ہوے حکم فرمایا،ترجمہ:

کسی عورت کسی بچے کسی بہت بوڑھے کو قتل نا کرنا اور بلاضرورت پھلدار درختوں کو مت کاٹنا اور بلاضرورت آباد کو ویران مت کرنا اور کسی بکری کسی اونٹ کو مت مارنا، ہاں کھانے کے لیے حلال کرسکتے ہو،اور حتی المقدور کسی درخت کو مت جالانا اور کوشش کرنا کہ غارتگیری مت کرنا..(مؤطا امام مالک روایت نمبر982مشرحا)

.

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App,twitter nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574

Tags

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.