میلاد سوئم چہلم کا ذکر پرانی کتب میں نہیں تو بدعت کیوں نہیں....؟؟

میں بھی ختم بخاری سالانہ اجتماع اور جمعرات اجتماع مناناچاہتا ہوں.


لیکن میں نے سوچا کیوں نا پہلے ان کے فضائل کو پڑھ لوں لہذا میں نے احادیث کی کتب پڑھیں تو اس نتیجے پر پہنچا کہ


📚 بخاری شریف میں

📚 مسلم شریف میں

📚 ترمذی شریف میں 

📚 ابوداؤد شریف میں 

📚 نسائی شریف میں 

📚 ابن ماجہ شریف میں 

📚 مسند احمد میں 

📚 مسند امام اعظم میں 

📚 موطا امام مالک میں 

📚 مستدرک حاکم میں 

📚 بیہقی میں 

📚 مشکوۃ  شریف 


میں عیدالاضحی اور عیدالفطر کا عنوان تو ہے مگر سالانہ اجتماع اور جمعرات کا اجتماع ختم بخاری کا کوئی عنوان نہیں ہے کیوں؟

پھر میں نے احادیث کے بعد فقہ کی کتابوں میں سالانہ اجتماع جمعرات کا اجتماع ختم بخاری کا عنوان تلاش کیا تو اس نتیجے پر پہنچا کہ فقہ حنفی کی سب سے۔۔۔

مستند کتاب ھدایہ میں 📚

 قدوری میں 📚 

فتاوی عالمگیری میں 📚

 کنزالدقائق میں 📚 

فتاوی شامی میں 📚 

بدائع الصنائع میں 📚

 امام مالک کی فقہ کی کتاب المدونہ الکبری میں 📚

 امام شافعی کی فقہ کی کتاب " الام " میں عیدالاضحی اور عیدالفطر کا عنوان تو ہے مگر ختم بخاری سالانہ اجتماع جمعرات کا اجتماع کا کوئی عنوان نہیں تو لہذا سب پڑھنے کے بعد آخر میں یہ نتیجہ نکالنے والا تھا کہ بدعت ہیں کہ مجھے یاد آیا کہ

سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہر جمعرات کو وعظ فرمایا کرتے تھے...(بخاری روایت70)

مجھے یاد آیا کہ حدیث میں ہے کہ

من سن في الإسلام سنة حسنة، فعمل بها بعده، كتب له مثل أجر من عمل بها، ولا ينقص من أجورهم شيء

ترجمہ:

جس نے اسلام میں اچھا طریقہ جاری کیا تو اس کے بعد

جو جو  اس پر عمل کرے گا ان سب کا ثواب اسے ملے گا اور عمل کرنے والوں کے ثواب میں بھی کمی نا آے گی

(مسلم حدیث نمبر1017)

مجھے یاد آیا کہ سید عالم ہر سال شہداء احد کے مزارات پے تشریف لے جاتے تھے...(تفسیر طبری16/426)

تو

یہ دن سال تاریخ کی تعیین و تخصیص آسانی کے لیے تھی ورنہ کسی بھی دن وعظ ہوسکتا ہے، کسی بھی دن مزار کی زیارت کر سکتے ہیں اور ان کا تذکرہ نہ بھی ہو تب بھی بدعت نہیں کہ نیا طریقہ جاری کرنا بدعت نہیں بشرطیکہ اسکی اصل ثابت ہو......!!

.

تب مجھے سمجھ لگا کہ میلاد سوئم چہلم وغیرہ کے جو دن مقرر ہیں یہ اسانی و مناسبت کے لیے ہیں اور انکا تذکرہ پہلے کی کتب میں نہ بھی ہو تو بدعت نہیں کہ نیا طریقہ جاری کرنا بدعت نہیں بلکہ ثواب ہے بشرطیکہ انکی اصل ثابت ہو اور سوئم چہلم کی اصل یعنی ایصال ثواب کرنا ثابت ہے اور میلاد کی اصل یعنی ولادتِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پے جائز خوشی و شکر کے سب نئے پرانے طریقے جائز ہیں


 آپ سب سے بھی گزارش ہے کہ اس بات کو خود بھی سمجھیں اور پوری امت مسلمہ کو آگاہ کریں

🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀🥀

کیا حضرت ابو بکر نے محفلِ ختم بخاری محفل سالانہ اجتماع محفل جمعرات اجتماع منعقد کی؟

کیا حضرت عمر نے محفلِ ختم بخاری محفل سالانہ اجتماع محفل جمعرات اجتماع منائی....؟؟

کیا حضرت عثمان نے ختم بخاری سالانہ اجتماع جمعرات اجتماع کی محفلیں سجائیں؟

کیا حضرت علی ایسا کیا؟

کیا حضرت عائشہ، حفصہ، زینب نے ختم بخاری سالانہ اجتماع جمعرات اجتماع منایا؟

-رضی اللہ عنہم اجمعین -

کیا امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام احمد اور امام مالک نے یہ سب کیا؟

ختم بخاری سالانہ اجتماع جمعرات اجتماع کی یہ محفلیں انہوں نے بالکل منعقد نہیں کیں.....!!

میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اس امت کے سلف سے ایک حرف بھی ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے ایسا کچھ کیا ہو...پھر بھی بدعت نہیں کیوں کہ اسکی اصل ثابت ہے اور جسکی اصل ثابت ہو اور طریقہ مقرر و مخصوص نہ ہو تو اس کے نئے پرانے طریقے سب جائز و ثواب ہیں


🥀🥀🥀🥀🥀🥀

سنو میلاد میں برا کیا ہے؟ 

یم تلاوت کرتے ہیں... 

نعت پڑھتے ہیں... 

حضور صلی اللہ علیہ وسلم 

کے قصے سناتے ہیں...

یہ تو اجر والے کام ہیں... 

ان سب میں برا کیا ہے؟

.

جواب ایا کہ

اگر میں نماز ظہر کے فرض... چار کے بجائے پانچ پڑھا کروں... 

پانچویں رکعت مِیں مَیں... 

سورت فاتحہ پڑھوں گا... 

دوسری کوئی سورت پڑھوں گا... 

وغیرہ وغیرہ... 

یہ تو اجر والے کام ہیں... 

ان میں برا کیا ہے؟

.

تو ہم کہیں گے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کا طریقہ مقرر فرما دیا تھا اور فرمایا جیسا مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو ویسے ہی پڑھو تو نبی کریم نے پانچ رکعت نہیں پڑھی تو ہم بھی نہیں پڑھ سکتے یہی برا ہے نماز میں کمی بیشی حدیث کے خلاف ہے

.

اب تم کہو گے کہ میلاد کی خوشی جھنڈیوں اجتماع ریلیوں روزہ نوافل نعت اسٹیج وغیرہ کی اصل کیا ہے

.

جواب:

علماء کرام نے باقاعدہ میلاد پر کتابیں لکھی ہیں اور قرآن و سنت سے کئ دلائل پیش کیے ہیں، یہاں تمام دلائل کا احاطہ مقصود نہیں..چند دلائل و اصل پیش ہیں

.

دلیل:1

القرآن...ترجمہ:

اپنے رب کی نعمت کا چرچہ کر..(سورہ والضحی آیت11)

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی نعمت ہیں(بخاری روایت3977)میلاد میں اللہ کریم کی عظیم نعمت یعنی حضرت سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا چرچہ ہی تو ہوتا ہے

.

دلیل:2

القرآن...ترجمہ:

کہہ دیجیے اللہ کے فضل و رحمت اور اسی پر خوشی کرنا چاہیے..(سورہ یونس آیت58)میلاد میں اللہ کی عظیم رحمت اور  اللہ کی عظیم نعمت پر خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے

.

دلیل:3

نبی پاک نے کئ بار ایک طریقے سے میلاد منایا...نبی پاک سے پیر کے دن روزہ رکھنے کی وجہ پوچھی گئ تو آپ نے فرمایا:

یہ دن میری ولادت کا دن ہے..(مسلم حدیث2747)

یہ حدیث کئ کتابوں میں ہے

.

دلیل:4

اسی طرح صحابہ کرام نے بھی روزہ رکھ کر میلاد منایا ہے

دیکھیے ابو داود 1/331)

.

دلیل:5

نبی پاک کی ولادت پر عقیقہ ہوا تھا اس کے باوجود آپ نے دوبارہ  اپنا عقیقہ کیا جو کہ میلاد کی دلیل ہے

دیکھیے سنن کبری  بیہقی روایت19273 ... فتح الباری9/595 دار المعرفۃ بیروت)


.

دلیل:6

صحابہ کرام ایک دن محفل سجائے بیٹھے تھے اللہ کا ذکر کر رہے تھے حمد کر رہے تھے، نبی پاک کی آمد و بعثت کا تذکرہ کر رہے تھے کہ یہ اللہ کا عظیم احسان ہے تو نبی پاک نے صحابہ کرام سے فرمایا:

اللہ فرشتوں سے تم پر فخر کر رہا ہے...(صحیح سنن نسائی حدیث5426) مسند احمد طبرانی وغیرہ کتب مین بھی یہ واقعہ درج ہے

.

دلیل:7

*ہر سال دن معین کرکےمیلاد منانےکی ایک دلیل......!!*

الحدیث:

أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَمَّا قَدِمَ المَدِينَةَ، وَجَدَهُمْ يَصُومُونَ يَوْمًا، يَعْنِي عَاشُورَاءَ، فَقَالُوا: هَذَا يَوْمٌ عَظِيمٌ، وَهُوَ يَوْمٌ نَجَّى اللَّهُ فِيهِ مُوسَى، وَأَغْرَقَ آلَ فِرْعَوْنَ، فَصَامَ مُوسَى شُكْرًا لِلَّهِ، فَقَالَ «أَنَا أَوْلَى بِمُوسَى مِنْهُمْ» فَصَامَهُ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ

ترجمہ:

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  مدینہ تشریف لائے تو وہاں کے لوگ ایک دن یعنی عاشورا کے دن روزہ رکھتے تھے۔ ان لوگوں نے کہا کہ یہ بڑی عظمت والا دن  ہے، اسی دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو نجات دی تھی اور آل فرعون کو غرق کیا تھا۔ اس کے *#شکر* میں موسیٰ علیہ السلام نے اس دن کا روزہ رکھا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ میں موسیٰ علیہ السلام کا ان سے زیادہ قریب ہوں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے  خود بھی اس دن کا روزہ رکھنا شروع کیا اور صحابہ کرام کو بھی اس کا حکم فرمایا۔

[صحيح البخاري ,4/153حدیث3397]

ایسی حدیث پاک مسلم ابن ماجہ طبرانی شعب الایمان صحیح ابن حبان وغیرہ کئ کتب میں ہے


.

علامہ شامی علیہ الرحمۃ مذکورہ حدیث پاک سے دلیل نقل فرماتے ہیں کہ:

فيستفاد من فعل ذلك شكرا لله تعالى على ما من به في يوم معين من إسداء نعمة أو دفع نقمة، ويعاد ذلك في نظير ذلك اليوم من كل سنة، والشكر لله تعالى يحصل بأنواع العبادات والسجود والصيام والصدقة والتلاوة، وأيّ نعمة أعظم من النعمة ببروز هذا النبي الكريم نبيّ الرحمة في ذلك اليوم؟

ترجمہ:

اس حدیث پاک، نبی پاک و صحابہ کرام کے اس فعل سے ثابت ہوتا ہے کہ جن پر کسی معین دن میں کوئی نعمت ملی ہو یا عذاب و برائی ٹلی ہو اس دن اللہ تعالیٰ شکر کا دن منانا چاہیے اور یہ دن ہر سال منانا چاہیے اور مختلف قسم کی عبادات سجود روزے صدقہ تلاوت وغیرہ بہت طریقوں سے شکر ادا کیاجاسکتا ہے اور ہمارے پیارے نبی رحمت کی جس دن دنیا میں تشریف آوری ہوئی اس دن سے بڑھ کر شکر و نعمت والا دن بھلا کوئی ہوسکتا ہے....؟؟(لیھذا ہر سال بارہ ربیع الاول یوم ولادت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشی جشن منا کر ، روزہ نوافل صدقہ خیرات کرکے مختلف نیکیاں و عبادات کرکے کسی بھی نئے پرانے اچھے طریقے سے شکر و نعمت کے دن کے طور پر منانا مذکورہ حدیث پاک سے ثابت ہوتا ہے)

[سبل الهدى والرشاد1/366 دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان)

.

سب کے مستند علامہ امام ابن حجر عسقلانی علامہ امام ابن حجر ہیتمی علامہ امام سیوطی علامہ امام سخاوی نے فرمایا کہ:بخاری و مسلم(بخاری حدیث3397)سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر سال معین دن( بارہ ربیع الاول)یوم ولادت نبیﷺکو جائز خوشی کرکے،روزہ نوافل صدقہ خیرات کرکے مختلف نیکیاں و عبادات کرکے کسی بھی اچھےطریقےطریقوں سےمیلاد منانا ثواب ہے(سبل الهدى والرشاد1/366 دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان... الاجوبہ المرضیۃ3/1118… الحاوی للفتاوی1/229 دار الفكر للطباعة والنشر، بيروت-لبنان… تحفۃ المحتاج7/424 المكتبة التجارية الكبرى بمصر لصاحبها مصطفى محمد...ملخصا)

.

امام ابن حجر امام سیوطی امام سخاوی نے ملتی جلتی عبارت لکھی ہے جسکا خلاصہ ہم نے ابھی اوپر لکھا، اسکی عربی الفاظ یہ ہیں:

وَقَدْ سُئِلَ شَيْخُ الْإِسْلَامِ حَافِظُ الْعَصْرِ أبو الفضل ابن حجر عَنْ عَمَلِ الْمَوْلِدِ، فَأَجَابَ بِمَا نَصُّهُ: أَصْلُ عَمَلِ الْمَوْلِدِ بِدْعَةٌ لَمْ تُنْقَلْ عَنْ أَحَدٍ مِنَ السَّلَفِ الصَّالِحِ مِنَ الْقُرُونِ الثَّلَاثَةِ، وَلَكِنَّهَا مَعَ ذَلِكَ قَدِ اشْتَمَلَتْ عَلَى مَحَاسِنَ وَضِدِّهَا، فَمَنْ تَحَرَّى فِي عَمَلِهَا الْمَحَاسِنَ وَتَجَنَّبَ ضِدَّهَا كَانَ بِدْعَةً حَسَنَةً وَإِلَّا فَلَا، قَالَ: وَقَدْ ظَهَرَ لِي تَخْرِيجُهَا عَلَى أَصْلٍ ثَابِتٍ وَهُوَ مَا ثَبَتَ فِي الصَّحِيحَيْنِ مِنْ «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدِمَ الْمَدِينَةَ فَوَجَدَ الْيَهُودَ يَصُومُونَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، فَسَأَلَهُمْ فَقَالُوا: هُوَ يَوْمٌ أَغْرَقَ اللَّهُ فِيهِ فرعون وَنَجَّى مُوسَى فَنَحْنُ نَصُومُهُ شُكْرًا لِلَّهِ تَعَالَى» ، فَيُسْتَفَادُ مِنْهُ فِعْلُ الشُّكْرِ لِلَّهِ عَلَى مَا مَنَّ بِهِ فِي يَوْمٍ مُعَيَّنٍ مِنْ إِسْدَاءِ نِعْمَةٍ أَوْ دَفْعِ نِقْمَةٍ، وَيُعَادُ ذَلِكَ فِي نَظِيرِ ذَلِكَ الْيَوْمِ مِنْ كُلِّ سَنَةٍ، وَالشُّكْرُ لِلَّهِ يَحْصُلُ بِأَنْوَاعِ الْعِبَادَةِ كَالسُّجُودِ وَالصِّيَامِ وَالصَّدَقَةِ وَالتِّلَاوَةِ، وَأَيُّ نِعْمَةٍ أَعْظَمُ مِنَ النِّعْمَةِ بِبُرُوزِ هَذَا النَّبِيِّ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ

(السيوطي ,الحاوي للفتاوي ,1/229 دار الفكر للطباعة والنشر، بيروت-لبنان)


.

نوٹ:

الحدیث:

صوموا يوم عاشوراء,وخالفوا اليهود صوموا قبله يوما أو بعده يوما...ترجمہ:

عاشورہ(دس محرم) کا روزہ رکھو اور یہودیوں کی مخالفت کرو(اس طرح)کہ اس کے ساتھ ایک دن پہلے یا ایک دن بعد کا روزہ بھی رکھو...(صحیح ابن خزیمہ حدیث2095)

.

اور بھی بہت دلائل علماء کرام نے کتابوں میں لکھے ہیں، عربی اردو میں میلاد پر کتابیں لکھی گئی ہیں، دو چار کتب تو ضرور پڑھنی چاہیے...

.

 *میلاد پے لاکھوں عاشقانِ رسول اور مسجدیں ویران

یہ عاشقِ رسول ہیں یا بدعتی ٹھگ جعلی عاشق......؟؟*

.

سوال:

فیس بک پر ایک صاحب کی تحریر پڑھی، خلاصہ یہ تھا کہ میلاد پر گلی گلی کوچہ کوچہ ہزاروں لاکھوں عاشقانِ رسول نکلتے ہیں مگر مسجدیں ویران....یہ میلادی عاشقِ رسول نہیں بدعتی ٹھگ ہیں

.

جواب:

الحدیث:

ایک صحابی تھے جنکا لقب حمار رضی اللہ عنہ تھا، وہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑی محبت و عقیدت رکھتے تھے اور آپ علیہ السلام بھی ان سے بڑا پیار کرتے تھے

وہ صحابی شراب مکمل چھوڑ نہ پائے، ایک دفعہ شراب پینے کے جرم و گناہ میں حضور کے پاس لائے گئے تو ایک صحابی کہنے لگے:

اللَّهُمَّ العَنْهُ، مَا أَكْثَرَ مَا يُؤْتَى بِهِ؟ 

ترجمہ: اے اللہ اس پر لعنت فرما، کتنی دفعہ یہ شراب پینے کے جرم میں لایا گیا ہے

یہ سن کر آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا:

فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لاَ تَلْعَنُوهُ، فَوَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ إِنَّهُ يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ»

ترجمہ:

تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے لعنت مت کرو، اللہ کی قسم میں تو یہی جانتا ہوں کہ وہ اللہ اور اسکے رسول سے محبت کرتا ہے..(بخاری حدیث6780)

.

.

شراب نوشی کتنا بڑا جرم و گناہ ہے.......؟؟

القرآن:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ

ترجمہ:

اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بت اور قسمت معلوم کرنے کے تیر ناپاک شیطانی کام ہی ہیں تو ان سے بچتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ..(سورہ مائدہ آیت90)

.

شراب کی مذمت میں بہت سی آیات و احادیث ہیں حتی کہ ترمذی کی ایک حدیث میں اسے لعنتی عمل تک کہا گیا

حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم َنے شراب کے بارے میں دس شخصوں پر لعنت کی: (1) شراب بنانے والے پر۔ (2) شراب بنوانے والے پر۔ (3) شراب پینے والے پر۔ (4) شراب اٹھانے والے پر۔ (5) جس کے پاس شراب اٹھا کر لائی گئی اس پر۔ (6) شراب پلانے والے پر۔ (7) شراب بیچنے والے پر۔ (8) شراب کی قیمت کھانے والے پر۔ (9) شراب خریدنے والے پر۔ (10) جس کے لئے شراب خریدی گئی اس پر۔( ترمذی، کتاب البیوع، باب النہی ان یتخذ الخمر خلاً،۳/۴۷، الحدیث: ۱۲۹۹)

مگر

یہی بدعمل برا عمل اگر ایسے شخص سے ہو جس میں عشقِ رسول کے آثار ہوں تو اسے لعنتی مردود کہنے کے بجائے محبِ رسول کہا رسول کریم نے..........!!

حضور اکرم کا یہ انداز یقینا شراب نوشی کی حمایت میں نہیں تھا بلکہ آپ نے اس عاشقِ رسول شراب پینے والے صحابی کو سزا بھی دی اور یقینا سمجھاتے بھی رہے، منع بھی کرتے رہے مگر عاشقِ رسول پھر بھی کہا ، جعلی عاشق ٹھگ منافق نہ کہا...گناہ بدعملی کی وجہ سے عشقِ الہی اور عشقِ رسول کی نفی نہیں کی جاسکتی،جعلی عاشق منافقت و ڈھونگ نہیں کہہ سکتے بلکہ محب رسول ہی کہا جائے گا اور عمل کرنے کے لیے سمجھایا جایا جائے گا

.


کچھ میلادی بے عمل، بدعمل ہوسکتے ہیں بلکہ ہوتے ہیں مگر میلادی عاشقِ رسول ضرور ہیں، بدعتی ٹھگ جعلی عاشقِ رسول نہیں...ہرگز نہیں...

میلاد عشقِ نبی کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے، بےعمل بدعمل عاشقِ رسول کو سمجھایا جاءے مگر ان سے عشقِ رسول کی نفی نہیں کرسکتے......ہرگز نہیں

.

نوٹ:

کسی صحابی کو شرابی گناہ گار نہیں کہہ سکتے کیونکہ صرف اور صرف دو چار صحابہ کرام سے اگر گناہ ہو بھی گئے تو انہوں نے توبہ کرلی، مجتنب رہے، اور جرائم و گناہ پر حد.و.سزا پا کر پاک پاکیزہ ہوگئے....توبہ و سزا سے پاک ہوجانے کے بعد انکا کوئی گناہ ثابت نہیں....لہھذا وہ توبہ و سزا پاکر پاک ہوگئے... توبہ و سزا کے بعد انہیں گناہ گار فاسق نہیں کہہ سکتے بلکہ وہ ان فضائل کے بیان کے حقدار ہیں کہ جو صحابہ کرام کے متعلق آئے...صحابہ کرام کی تفسیق و مذمت جائز نہیں بلکہ تعریف مدح و تطبیق لازم ہے........!!

.

.

جلوس جھنڈے محافل جھومنا:

*میلاد اسٹیج نعت*

نبی علیہ الصلاۃ والسلام حضرت حسان کے لیے منبر (اسٹیج) رکھواتے اور وہ اس پر کھڑے ہوکر  شانِ مصطفی بیان کرتے، نعتِ نبی بیان کرتے، کافروں مشرکوں کی مذمت بیان کرتے تھے، نبی پاک کا دفاع بیان کرتے تھے..

(دیکھیے بخاری حدیث3212 ترمذی حدیث2846)

.

*میلاد ولادت اور سلام*

القرآن..ترجمہ:

مجھ(حضرت عیسی علیہ السلام) پر سلام ہو میری ولادت کے دن..(سورہ مریم آیت33)

.

*میلاد جلسے جلوس نعت جھنڈےنعرے*

جب نبی پاک مدینہ تشریف لا رہے تھے تو اس وقت عظیم الشان جلوس کے ساتھ آپ علیہ السلام کا استقبال کیا گیا، طلع البدر علینا اور دیگر نعت پڑھی گئ، جھنڈا نہیں تھا تو ایک صحابی نے اپنے عمامے کو اتار کر بڑا جھنڈا بنا لیا، یا محمد یا رسول اللہ کے نعرے لگائے گئے

لا تدخل المدينة إلا ومعك لواء، فحل عمامته ثم شدّها في رمح ثم مشى بين يديه صلّى الله عليه وسلّم(الوفا).....فَثَارَ الْمُسْلِمُونَ إِلَى السِّلَاحِ، فَتَلَقَّوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِظَهْرِ الْحَرَّةِ، فَعَدَلَ بِهِمْ ذَاتَ الْيَمِينِ حَتَّى نَزَلَ بِهِمْ فِي بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ وَذَلِكَ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ مِنْ شَهْرِ رَبِيعٍ الْأَوَّلِ(بخاري)....فصعد الرجال والنساء ، فوق البيوت وتفرق الغلمان ، والخدم في الطرق ينادون يا محمد يا رسول الله ، يا محمد يا رسول الله(مسلم)

(دیکھیےوفاء الوفاء بأخبار دار المصطفى ,1/190 دار الکتب العلمیہ بیروت... بخاری روایت3905 مسلم روایت5722)

.


*معتدل جھومنا.................!!*

الحدیث:

عن علي قال: أتيت النبي - صلى الله عليه وسلم - وجعفر وزيد، قال: فقال لزيد: أنت مولاي، فحجل! قال: وقال لجعفر: أنت أشبهت خلقى وخلقي، قال: فحجل وراء زيد! قال لي: أنت مني وأنا منك، قال: فحجلت وراء جعفر

ترجمہ:

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اور حضرت جعفر اور حضرت زید رضی اللہ عنھم اجمعین تینوں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے

حضور نے حضرت زید کہا "انت مولائی"(یہ سن کر حضرت زید خوشی سے) ایک ٹانگ پر کھڑے ہوکر جھومنے لگے

پھر

حضور نے حضرت جعفر سے فرمایا کہ تم میری صورت اور سیرت میں مجھ سے مشابہت رکھتے ہو(یہ سن کر حضرت جعفر خوشی سے) ایک ٹانگ پر کھڑے ہوکر حضرت زید کے پیچھے جھومنے لگے

پھر

حضور نے مجھ(حضرت علی) سے کہا کہ تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں(تو یہ سن کر خوشی سے) میں حضرت جعفر کے پیچھے ایک ٹانگ پر کھڑے ہوکر جھومنے لگا

(مسند احمد حدیث857)

.

امام بیھقی اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں

فَالرَّقْصُ الَّذِي يَكُونُ عَلَى مِثَالِهِ يَكُونُ مِثْلَهُ فِي الْجَوَازِ

ترجمہ:

اس قسم سے ملتا جلتا(غیرِ فحش)رقص و جھومنا جائز ہے

(سنن کبری بیھقی تحت روایت21027)

.

حمد و نعت ، نثر و بیان میں اللہ اور اسکے رسول کی محبت و تذکرے میں اور خاص کر میلاد کے مواقع پر معتاد معتدل بلاترتیبِ رقاصِ مذموم محض جھومنا جائز و ثواب ہے مگر فرض واجب نہیں، ایسا نہیں کہ جو نہ جھومے وہ محب نہیں....ہرگز نہیں، اور اسی طرح بلادلیل و شواہد جھومنے والوں پر دکھاوے جہالت و مذمت کے فتوے لگانا بھی ٹھیک نہیں..

.

ہم معتدل جھومنے کو جائز کہتے ہیں مگر مذموم ڈھول دھماکے ناچ گانے اور عورتوں مردوں کے اختلاط کو ہر گز جائز نہیں سمجھتے....ہم اہلسنت ہمیشہ لکھتے رہتے ہیں ، کہتے رہتے ہیں کہ میلاد گناہوں خرافات سے پاکیزہ ہونا ضروری ہے....کچھ جاہل لوگ یا سازشی لوگ میلاد پے ایسی خرافات کرتے ہیں تو ان خرافات کی مذمت کیجیے میلاد کی مزمت و تردید مت کیجیے بلکہ میلاد کو پاکیزہ رکھنے کی ہدایات و تلقین کیجیے.

.

مخالفین اور ہمارے معتبر عالمِ دین، عظیم شخصیت شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں:

اس موقعہ(میلاد، جلوس محافل) پر جو "بری بدعتیں" پیدا کر لی گئ ہیں اور آلاتِ محرمہ کے ساتھ گانا باجا ہوتا ہے ان سے محفل خالی ہو...(مدارج النبوۃ2/19باحوالہ شرح مسلم علامہ سعیدی3/175 فرید بک اسٹال لاھور)

.

.

 *آمد مصطفی مرحبا کا مقصد اور عقیدہ حاضر ناظر کی وضاحت و دلائل.....!!*

*آمدِ مصطفی مرحبا کے نعرے*

معراج کی رات آسمانوں پر آمدِ مصطفی پے انبیاء کرام نے یہ کہتے ہوئے استقبال فرمایا...ترجمہ: آپ کی آمد مرحبا

(دیکھیے بخاری حدیث2968)

اسی ادا کی یاد تازہ کرتے ہوئے، انبیاء کرام کی اتباع کرتے ہوئے آمدِ مصطفی کے مہینے دن کی مناسبت سے آمد مصطفی مرحبا مرحبا کے نعرے جائز و ثواب ہیں، بدعت نہیں.........!!

ہمارا یہ عقیدہ نہیں کہ میلاد کی محفل و جلوس میں نبی کریمﷺضرور تشریف لائے ہیں اس لیے امد پر مرحبا....ایسا عقیدہ ہرگز نہیں، بلکہ ہمارا عقیدہ حاضر ناظر یہ ہے کہ نبی کریمﷺسب جانتے ہیں دیکھتے ہیں اور جب چاہیں جس جگہ چاہیں جا سکتے ہیں....لیھذا میلاد کی محفل و جلوس میں آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی تشریف آوری ضروری نہیں مگر ممکن ضرور ہے البتہ نبی کریمﷺ جانتے دیکھتے ضرور ہیں

.

*#عقیدہ نظریہ حاضر ناظر کے چند دلائل*

الحدیث:

جب بھی غیب کا سوال ہوتا یا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سوال فرماتے تو صحابہ کرام حضور کی بارگاہ میں جواب اس طرح عرض کرتے کہ "الله ورسوله اعلم"

ترجمہ:

اللہ کو اور اسکے رسول کو علم ہے..... "اللہ اور رسول جانے"کہنا ایک دو دفعہ کا واقعہ نہیں بلکہ یہ تو صحابہ کرام تابعین عظام کی عادت مبارکہ تھی، نبی کریم کے سامنے یہ کہا کرتے تھے مگر کبھی نبی کریم نے ان پر شرک و بدعت کا فتوی نہیں دیا، بخاری مسلم میں کم و بیش ساٹھ سے زائد مقامات پر اللہ ورسولہ اعلم جملہ آیا ہے...جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ جملہ اہل اسلام کا عقیدہ تھا نظریہ تھا کہ اللہ کو علم ہے اور اللہ کے بتانے سے نبی کریم کو بھی علم ہے

(مثلا دیکھیے مسلم حدیث 159 بخاری حدیث3199)

.


الحدیث:

عرضت علي ، اعمال امتي حسنها وسيئها ،

مجھ پر میری امت کے تمام اچھے برے اعمال پیش کیے گئے.(مسلم حدیث نمبر1233 سند صحیح ہے)

.

الحدیث:

تعرض علی اعمالکم

تمھارے تمام اعمال مجھ پر پیش کیے جاتے ہیں

(مجمع الزوائد حديث 14250 سند صحیح ہے)

.

الحدیث:

إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ رَفَعَ لِيَ الدُّنْيَا فَأَنَا أَنْظُرُ إِلَيْهَا وَإِلَى مَا هُوَ كَائِنٌ فِيهَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، كَأَنَّمَا أَنْظُرُ إِلَى كَفِّي هَذِه

بے شک اللہ نے میرے لیے دنیا کو اس طرح مرتفع کر دیا کہ میں اسے اور اس میں ہونے والے تمام معاملات قیامت تک ایسے دیکھتا ہوں جیسے اپنی اس ہتھیلی کو دیکھ رہا ہوں

(مجمع الزوائد حدیث14067)اسکی سند اگرچہ ضعیف ہے مگر اوپر والی احادیث کی تائید کی وجہ سے ضعیف ہونے سے فرق نہیں آئے گا..

.

ان تینوں احادیث مبارکہ میں صاف ظاہر ہے کہ نبی کریم تمام اعمال و افعال جانتے ہیں، دنیا انکی نظر میں ایسے ہے جیسے جیسے دنیا ان کے ہاتھ کی ہتیھلی پر رکھی ہوئی ہو.....!! یہی تو حاضر ناظر نظریہ ہے

.

شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں..ترجمہ:

علماء میں کثرت اختلاف اور بہت سے مذاہب ہیں لیکن اسکے باوجود سب کا اس میں اتفاق ہے کہ رسول اللہ.صلی اللہ علیہ وسلم(وفات کے بعد)حقیقتا بلا شک و شبہ بلا توھم و تاویل کے زندہ ہیں،دائم.و باقی ہیں.. امت کے تمام اعمال پر حاضر و ناظر ہیں،حقیقت کے.طلبگاروں اور متوجہ ہونے والوں کو فیض پہنچاتے ہیں..

(مکتوبات علی ہامش اخبار الاخیار ص155بحوالہ سعید الحق ص366 مکتبہ غوثیہ کراچی)

.

غیرمقلدوں اہل حدیثوں وہابیوں دیوبندیوں کے معتمد عالم شمس الحق اور قاضی شوکانی لکھتے ہیں:

ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حی بعد وفاتہ وانہ یسر بطاعات امتہ

ترجمہ:

بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم وفات کے بعد زندہ ہیں اور وہ امت کی نیکیوں سے خوش ہوتے ہیں

(نيل الأوطار ,3/295 دار الحدیث مصر)

.

والله يهدي من يشاء الي صراط مستقیم

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App,twitter nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.