ووٹ دینے جلسے میں شرکت کرنے حمایت کرنے سے پہلے یہ دس اہم باتیں پڑہیے ان پے عمل کیجیے

*#ووٹ دینے، حمایت مدد کرنے،جلسے میں شرکت کرنے سے پہلے یہ دس نکاتی اہم تحریر ضرور پڑہیے، اس پر حتی المقدور عمل کیجیے...........!!*

القرآن:

اللّٰہَ یَاۡمُرُکُمۡ اَنۡ تُؤَدُّوا الۡاَمٰنٰتِ اِلٰۤی اَہۡلِہَا

اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانت کو اسکے اہل کو ادا کرو(سورہ نساء آیت58)ووٹ بھی ایک قسم کی امانت ہے، اسے اہل معتبر اہلسنت امیدوار کو دیجیے،مطلبی متکبر چور ڈاکو لالچی غدار کرپٹ گمراہ بدمذہب ایجنٹ منافق وغیرہ نااہل کو مت دیجیے…چاہے وہ اپکا قریبی ہی کیوں نہ ہو، چاہے وہ آپ کا ہم ذات،  ہم شہر، ہم قوم، ہم پارٹی ہی کیوں نہ ہو…ووٹ صرف اہل کو دیجیے جو سچا دینی بھی ہو اور فلاحی رفاہی کام بھی کروائے اور مستحق کو ووٹ نہ دینے کی دھمکی دینا جائز نہیں اور  ایسی دھمکی غنڈہ گردی سے ڈرنا مسلمان کا شیوہ بھی نہیں...الحدیث،ترجمہ:کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ کسی مسلمان کو ڈرائے دہشگردی غنڈہ گردی پھیلائے(ابوداود حدیث5004)بالخصوص ووٹ کے وقت یا اس سے پہلے ڈرا دھمکا کے ووٹ لینا، دہشت غنڈہ گردی پھیلا کر ووٹ لینا جائز نہیں اور ایسوں کی دھمکی غنڈہ گردی میں نہ انا لازم...بہادری کے ساتھ سچے اچھے مستحق سرگرم اسلامی و رفاہی والے کو ووٹ دینا لازم....!!

.

نااہل کو سمجھاؤ ورنہ مقابلہ و باءیکاٹ کرو.......!!

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا،ترجمہ

پہلے کی امتوں میں جو بھی نبی علیہ الصلاۃ والسلام گذرا اسکے حواری تھے،اصحاب تھے جو اسکی سنتوں کو مضبوطی سے تھامتے تھے اور انکی پیروی کرتے تھے،

پھر

ان کے بعد ایسے نااہل آے کہ جو وہ کہتے تھے اس پر عمل نہیں کرتے تھے،اور کرتے وہ کچھ تھے جنکا انھیں حکم نہیں تھا، جو ایسوں سے جہاد کرے ہاتھ سے وہ مومن ہے

اور جو ایسوں سے جھاد کرے زبان سے  وہ مومن ہے

اور جو ایسوں سے جھاد کرے دل سے   وہ مومن ہے

اور اس کے علاوہ میں رائ برابر بھی ایمان نہیں

(مسلم حدیث 50)

.

لیھذا نا اہلوں ظالموں منافقوں  غداروں چمچوں کے خلاف جہاد کیجیے، احتجاج کیجیے، انہیں اقتدار سے ہٹائیے، انہیں ووٹ مت دیجیے، بائیکاٹ کیجیے مگر باشعور علماء حق کی رہنمائی کے ساتھ، ایسے علماء کی شوری کی رہنمائی کے ساتھ........!! کاش اہلسنت کی تمام چھوٹی بڑی تنظیموں سے مل ملا کر کم سے کم بارہ رکنی شوری بنے جو دین دنیا ہر طرح کے معاملات میں سچے بہادر سمجھدار باشعور وسیع القلب ہوں

.===================

*#2*

القرآن:

وَ لَا تَہِنُوۡا وَ لَا تَحۡزَنُوۡا

(اسلام و حق پے)نہ سستی کرو،نہ غم(آل عمران آیت139)

الحدیث:

إِنَّ اللَّهَ يَلُومُ عَلَى الْعَجْزِ، وَلَكِنْ عَلَيْكَ بِالْكَيْسِ،

اللہ عاجز و سست ہو جانے والے پر ملامت فرماتا ہے(اٹھو نکلو سرگرم رہو اسلام و حق کے لیے)مگر تم پر(جوش کے ساتھ ساتھ) ہوش و سمجھداری بھی ضروری ہے

(ابوداود حدیث3627)

ہمت کرو ، اٹھو نکلو شرکت کرو، حمایت کرو، ووٹ دو اسلام و حق کی خاطر ، دیندار و حقدار کو ووٹ دو…سوائے اس کے کہ معتبر دینی حقدار باشعور کسی اہم سمجھداری کی وجہ سے کسی اور کی حمایت کرے تو اعتماد کرکے اسکی بات مان سکتے ہیں،اور اس کے کہنے پر دوسرے کو ووٹ دے سکتے ہیں

اور

آپ نے سوچ سمجھ کر تحقیق کرکے سچے اچھے اہل کو ووٹ دیا تو وہ اور آپ بظاہر ہار کر بھی جیتے ہیں لیھذا غم نہ کیجیے…آئندہ مزید ہمت جوش و سمجھداری سے سرگرم ہو جائیے

.

اسی طرح یہ مت سوچیے کہ دینی یا اچھےسچے کو ووٹ دییے مگر کچھ فائدہ نہ ہوا.....اب کسی اور کو ووٹ دیں گےکہ دنیاوی فوائد تو ملیں گے، اس وسوسے میں مت آئیے، دینی سچے اچھے لیڈروں کو ووٹ و امداد کرتے رہیے ایک نہ ایک دن اسلامی اہلسنت انقلاب ضرور آئے…انقلاب نہ بھی آیا تو اجر و ثواب و فوائد تو دنیا و اخرت میں ضرور ملیں گےان شاء اللہ عزوجل..اپنے حصے کی شمع روشن کیجیے،روشن رکھیے،ہمت مت ہارے،کوشش جاری رکھیے...ہمارا کام ہےتعاون کرنا حمایت کرنا…کل بروز قیامت کہہ سکیں گے کہ جو ہماری طاقت میں تھا وہ کیا

.=====================

*#3*


القرآن:

وَ الَّذِیۡنَ اسۡتَجَابُوۡا لِرَبِّہِمۡ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ ۪ وَ اَمۡرُہُمۡ شُوۡرٰی بَیۡنَہُمۡ ۪ وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ  یُنۡفِقُوۡنَ 

جو لوگ اپنے رب(اور اسلام)کے حکم پر لبیک کہتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور انکے (فروعی دینی اور سیاسی دنیاوی فلاحی وغیرہ)معاملات باہم مشاورت سے ہوتے ہیں اور وہ(فلاحی ترقیاتی رفاہی کاموں میں دولت علم شعور)خرچ کرتے ہیں اس میں سے جو انہیں عطاء ہوا

(سورہ شوری ایت38)

.

علامہ جلال الدین علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ:

یتشاورون فیہ ولا یعجلون

یعنی سچے اہل اسلام معاملات میں وہ باہم مشورہ کرتے ہیں اور جلد بازی نہیں کرتے..(جلالین مع الصاوی جلد2 صفحہ1879)

.

کسی بھی ملک تنظیم ادارے علاقے گھر میں جب محض ایک دو اشخاص ہی کی چلتی ہو تو وہ ناکامی کے زیادہ قریب ہوتی ہے... شوری  مشاورت ہونا بہت ضروری ہے..

کیونکہ

لیڈر سربراہ یا بڑا جب اکیلا خود مختار ہو تو جلد بازی غلطی یا غلط فھمی میں ایسا کر بیٹھتا ہے یا کچھ ایسا کہہ بیٹھتا ہے کہ جو ناکامی بربادی کا سبب بنتا ہے.. ترقی نا کرنے کا سبب بنتا ہے..ذات پرستی مفاد پرستی کا ڈر ایک طرف اور ایجنٹی لالچ ضد و تکبر کا خوف دوسری طرف... اور پھر کون کب بدل جائے کوئی گارنٹی نہیں دے سکتا...لیھذا شوری ہی میں عافیت اتحاد احتیاط و ترقی ہے

.

مشورے سے ایک دوسرے کی معلومات بڑھتی ہے... شعور بڑھتا ہے.. صبر و وسعت ظرفی ملتی ہے.. حوصلہ ہمت تجربہ ملتا ہے...نئے جوانوں کو مشاورت میں لینا، افھام و تفھیم کرنا...اپنے جیسے کئ مددگار لیڈرز بنانا ہی ترقی کا راز ہے

.

لیھذا آپ بھی حمایت اسکی کیجیے،  ساتھ اسکا دیجیے، ووٹ اسکو دیجیے جو صرف ووٹ کے ایام میں نہیں بلکہ پورے اقتدار بلکہ پوری زندگی آپ کا ساتھ دے، آپ سے پوچھے، آپ سے وزراء سے مشورے لے، محض اپنی ترقی کے بجائے عوام و ملک کی ترقی کا سوچے، اپنے جیسے لیڈر تیار کرے، متکبر یکتا نہ بن بیٹھے

.

ووٹ کسے دینا ہے سمجھدار اہل حق سچے درد مند علماء سے مشاورت کیجیے…میرا تو یہی مشورہ ہے کہ اہلسنت نظریات والے کو اور لبیک کو ووٹ دیجیے…عمران خان زرداری شہبار شریف وغیرہ سب اگر توبہ تائب ہو کر سچے علماء حق کو مشیر بنا کر اہلسنت کے نظریات اپناتے ہیں، غیرت خودداری سمجھداری و احساس و ترقی کے کام کرتے ہیں تو ووٹ کے حقدار بن سکتے ہیں…کئ حقدار ہوں تو حق والی اپوزیشن بھی ہوگی تو اپوزیشن سچائی اعتدال رکھے، تنقید کرے تو تعمیری پرلاجک کرے…اچھے معاملات میں اپوزیشن حکومت کا ساتھ دے، حکومت اپوزیشن کے اچھے پرلاجک مدلل مشورے مانے…باہم احترام سے حکومت کی جائے…اختلاف ہو تو بہتری کا ہو

.===================

 *#4*

القرآن:

فَاِنَّہَا لَا تَعۡمَی الۡاَبۡصَارُ  وَ لٰکِنۡ  تَعۡمَی الۡقُلُوۡبُ الَّتِیۡ فِی الصُّدُوۡرِ

ترجمہ:

آنکھوں کےاندھےاندھےنہیں،اندھےوہ ہیں جنکےدل اندھےہیں

(سورہ حج46)

.

الحدیث:

قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم: " «من لا يهتم بأمرالمسلمين فليس منهم

جو مسلمانوں کے(دینی سیاسی سماجی فلاحی دفاعی تعلیمی  وغیرہ ہر قسم کے)مسائل و معاملات پر کڑھن نہ رکھے(حسب طاقت)اہتمام.و.انتظام.و.حل نہ کرے،اہمیت نہ دے(من پرستی، مفاد پرستی،نفسا نفسی میں رہے)وہ اہل اسلام میں سےنہیں(مجمع الزوائد حدیث294)

.

بےدرد بےاحساس منافق وحشی ظالم مفادی سیکیولر باطل مطلبی زندہ ہوکےبھی مردہ ہیں…مرد وہ جسےدرد ہو…مظلوم کشمیریوں فلسطینیوں پاکستانیوں پے بےرحمی بےحسی مردہ باد

.

جس نے ساری زندگی عیش و عشرت میں گذاری ہو ، اپنے محلات بنانے میں گذاری ہو، دولت مند بننے میں گذاری ہو اسے کیا معلوم کہ غرباء و عوام کا درد کیا ہے.....؟؟ درد مند باشعور غیرت مند تجربہ کار احساس والے کو ہی ووٹ دیجیے، اسکی حمایت کیجیے، ان سے تعاون کیجیے، انکے جلسے کامیاب بنائیےتاکہ یہ اقتدار میں فلاحی رفاہی ترقیاتی کام کرائیں، روٹی کپڑا مکان دلوائیں، روڈ بسیں سستائی ترقیاتی کام کروائیں انہیں ووٹ دیجیے، انہیں ووٹ دیجیے جنکے منشور میں یہ ترقیاتی کام بھی ہوں

مگر

فقط ترقیاتی کام مت دیکھیے بلکہ اولین طور پر یہ دیکھیے کہ اسلام کے لیے کیا کیا....؟؟ اسلام کے لیے کیا کرنے کا منشور رکھتے ہیں....؟؟

.


 *#پہلے اسلام پھر روٹی کپڑا مکان،ترقیاتی کام......!!*

القرآن...ترجمہ:

میری نماز میری قربانی میرا جینا میرا مرنا سب اللہ ہی کےلیے ہے(سورہ انعام162)میں(اللہ)نے تمھارے لیے اسلام کو چنا ہے(مائدہ3)ترقیاتی کام سستائی دولت تعاون امداد بھی لازم مگر پہلے یہ دیکھیے کہ حکمرانوں جرنیلوں نے اسلام کے لیے کیا کیا.....؟؟ پہچانیے اور دباؤ ڈالیے کہ اسلام کے لیے کچھ کریں اور ایسے کو ووٹ دیں جو اسلام کی سچی تعلیمات یعنی اہلسنت تعلیمات نظریات کو نافذ کرنے منشور بھی رکھتا ہو


بہادر غیور ذوالفقار علی بھٹو صاحب نےفرمایا:پاکستان جس نظریے کی بنیاد پر معرضِ وجود میں آیا تھا وہ ہمارا ایمان ہے، اسلام ہمارا دین ہے جس کے لیے ہم اپنی جان قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے..(بھٹو خاندان جہد مسلسل ص23)

.======================

*#5*

القرآن،تلخیص آیت:

یہود و نصاری(اسی طرح کفار، بدمذہب، ہندو، سیکیولر، لیڈر حکومت ارگنائزیشن وغیرہ)تب ہی تم سےراضی ہونگےجب تم انکی اھواء(خواہشات و ملت) پےچلو...(از سورہ بقرہ آیت120)

یہود و نصاری سیکیولروں کے ایجنٹوں مکاروں غداروں چمچوں کو ووٹ ہر گز ہرگز نہ دیجیے، یہ دشمنان اسلام بظاہر دنیاوی فوائد دیں گے مگر اسکی قیمت بھی ضرور لیں گے، یہ ہمارے محسن نہیں ہوسکتے، ہم ان کے ساتھ معاملات و تجارت احتیاط کے ساتھ کرسکتے ہیں مگر غلامی نہیں

.========================

*#6*

القرآن،ترجمہ:

جن کے دلوں میں مرض(منافقت کمزور ایمان)ہے وہ یہود و نصاری(کفار مخالفین اسلام)کی طرف دوڑتےہیں اس ڈر سےکہ کہیں انہیں گردش(غربت،محتاجی،تجارتی نقصان)نہ پہنچے

(سورہ مائدہ آیت52)

حکمرانوں صحافیو مسلمانوں غیرت ایمانی پےقائم رہو…غربت تکالیف بائیکاٹ قبول کرلو مگر دشمنان اسلام کی غلامی.و.منافقت بزدلی نہ کرنا…کبھی نہیں…ووٹ دیتے وقت یہ مت سمجھیے کہ ہمیں دنیاوی نفع کتنا ملے گا....سب سے پہلے یہ سوچیے کہ جس کو ووٹ دے رہے وہ اسلام کتنا نافذ کرسکتا ہے، کرتا ہے، آہستہ آہستہ سمجھداری ہی سے سہی مگر کچھ نہ کچھ اسلام نافذ ہوتا دکھائے دے جو اسلام کے نفاذ کے کچھ نا کچھ بات کرے، آہستہ آہستہ مکمل اسلام نافذ کرنے کی بات کرے اسے ووٹ دیجیے

.

الحدیث،ترجمہ:

جو بلاعذر محض دنیاوی مفاد کےلیے بیعت کرے(حمایت کرے،ووٹ دے)اسے قیامت کے دن دردناک عذاب ہوگا(بخاری7212) حکمران کے انتخاب و حمایت میں دیانت داری اور دین داری کو ترجیح دیجیے...یہ تو ہم پر لازم ہے مگر نیک حکمران پر اسلام نے لازم کیا ہے کہ وہ عوام کے سماجی معاشرتی تجارتی تعلیمی وغیرہ تمام ترقیات پر کام کرے...سب کی سنے... غریبوں کی دیکھ بھال کرے... نوکریاں تجارت معیشت کے مواقع فراہم کرے... عدل انصاف کرے... اقلیتوں کو اقلیتی حقوق دے اور اقلیتیوں کو اقلیتی حقوق سے بڑھنے نا دے...یہ سب ذمہ داریاں اسلام نے اسلامی حکمرانوں پر عائد کی ہیں اور اس سے بھی زیادہ عائد کی ہیں 


.======================

*#7*

القرآن..ترجمہ:

اپنے رب تعالیٰ کی راہ (دین اسلام)کی طرف بلاؤ حکمت(دانائی،سمجھداری)کے ساتھ اور اچھی وعظ.و.نصیحت کے ساتھ..(سورہ نحل آیت125)

 اسلام نے خوب سمجھایا....بہت سمجھایا.... بار بار سمجھایا مگر اسلام نے "ضدی منافق ہٹ دھرم کے متعلق یہ طریقہ بھی بتایا کہ:القرآن

يا أيها النبي جاهد الكفار والمنافقين واغلظ عليهم

ترجمہ:اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم)کافروں اور منافقوں سے جہاد کریں اور ان پر سختی کریں(سورہ توبہ آیت73)حکمت ہی کا تقاضا ہے کہ سمجھایا جائے، نرمی برتی جائے، اور اسی حکمت کا تقاضا ہے کہ منافق ضدی فسادی پر سختی برتی جائے، اسی حکمت کا تقاضا ہے کہ کچھ جرائم پر سزا مقرر کی جائے، سزا دی جائے.... اسی میں معاشرے کی بھلائی بھی ہے تو ضدی فسادی کا علاج بھی...لیھذا ووٹ اسے دیجیے حمایت اسکی کیجیے جو منافقوں گستاخوں کو منافق گستاخ تو کہے، حتی المقدور سزا تو دے، روک تھام کے اقدام تو کرے، مذمت تو کرے، اس معاملے میں کچھ کرکے تو دکھائے

.======================

 *#8*

القرآن..ترجمہ:

اللہ کے لیے عزت ہے اور اسکے رسول کے لیے عزت ہے اور مومنین کے لیے عزت ہے..(سورہ منافقون آیت8)

.

الحدیث،ترجمہ:

گناہ ہونےکےلیےاتنا کافی ہےکہ کوئ اپنے عیال.و.ماتحتوں کو ضائع کرے(ابوداؤد حدیث1692)

اےحکمرانوں، وڈیرو، آفیسرو، ذمہ دارو، عہدے والو، علم والو، گدی نشینو، استادو...اور

گھر،ادارے،تنظیم،ملک،علاقے کے بڑو،والدین،سرپرستو سنو........!!

اسلام ہمیں سمجھاتا ہے کہ:

اولاد، اہلِ خانہ، طلباء، مرید، مزدور، کسان، عوام ، ورکرز وغیرہ ماتحتوں،چھوٹوں کو غلام.و.حقیر نہ سمجھو........!!

انکی ترقی،بھلائی،بڑائی سوچو..........!!

.

لیھذا ووٹ ایسوں کو دیجیے جو عوام کو ماتحتوں کو غرباء کو سب مسلمانوں کو عزت دیتے ہوں، انہیں کیڑے مکوڑے حقیر نہ سمجھتے ہوں، انکی ملک کی بھلائی فلاح و ترقی کے اقدامات کرتے ہوں،...یک دم یا مجبورا آہستہ آہستہ بےحیائی رشوت مخلوط تعلیم فلموں ڈراموں گانوں بے پردگی منشیات وغیرہ برائی کو ختم کرنے کے اقدامات کرتے ہوں

.======================

*#9*

القرآن:

  اَفَآءَ  اللّٰہُ  عَلٰی رَسُوۡلِہٖ  مِنۡ  اَہۡلِ الۡقُرٰی  فَلِلّٰہِ  وَ لِلرَّسُوۡلِ وَ  لِذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ ۙ کَیۡ لَا یَکُوۡنَ  دُوۡلَۃًۢ  بَیۡنَ الۡاَغۡنِیَآءِ مِنۡکُمۡ

جو غنیمت دلائی اللہ نے اپنے رسول کو شہر والوں سے وہ اللہ اور رسول کی ہے اور رشتہ داروں  اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے کہ تمہارے اغنیا کا مال بن کر نہ رہ جائے

(سورہ حشر آیت79)

.

اس آیت مبارکہ واضح اشارہ ہے کہ امیر امیر تر نہ ہوتا جائے اور غریب غریب تر نہ ہوتا جائے....ووٹ ایسے کو دیجیے جو غرباء کو امیر بنانے کے مشن پے ہو، انہیں اپنے مکان بنانے خودمختار بنانے کے مشن پے ہو، غرباء کو زمین دار بنانے کے مشن پے ہو…اے کاش مزدور کی دیھاڑی اتنی زیادہ کی جائے کہ اے سی میں بیٹھا آفیسر رشک کرے کہ کاش مزدور جتنی میری تنخواہ ہوتی، کسانون کو خوشحال بنایا جاءے کہ لوگ مجبورا نہیں بلکہ دل و چاہت سے کھیتی باڑی کریں، اصل دولت کے مستحق تو یہی محنت کش لوگ ہیں…طب سائنس ٹیکنالوجی اسلامیات کی نوکریاں زیادہ دی جاءیں تاکہ لوگ طب میں جاءیں ، سائنس میں جائیں ، مدارس میں جائیں، پیسہ کماءیں، پیسہ غرباء میں لوٹائیں، ترقی پائیں، ترقی دلائیں، چھا جائیں

اور

ہم مسلمان ہر میدان میں ماہر سے ماہر ہوتے جائیں

===================

*#10*

القرآن:

 وَ تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡبِرِّ وَ التَّقۡوٰی ۪ وَ لَا تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡاِثۡمِ وَ الۡعُدۡوَانِ

ترجمہ:

اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو(سورہ مائدہ آیت2)

الحدیث،ترجمہ:

جو اللہ(اسلام کے حکم)کی وجہ سے محبت کرے اور(سمجھانے کے ساتھ ساتھ) اللہ(اسلام کے حکم)کی وجہ سے(مستحق برے ضدی فسادی سے)بغض و نفرت رکھے اور (مستحق و اچھوں) کی امداد کرے اور (نااہل و بروں) کی امداد نہ کرے تو یہ تکمیل ایمان میں سے ہے(ابوداود حدیث4681)

 ووٹ دینا،حمایت شرکت کرنا، کرتوت یا کارنامے بتانا بھی امداد ہےاسے عدل و سچائی کےساتھ ادا کیجیے، چمچہ گیری چاپلوسی برائی مطلبیت سے بچیے…فروعی اختلاف پے برداشت کیجیے محبت رکھیے مگر نااہل ظالم چور غدار مکار منافق کو سمجھاؤ ورنہ ان میں سے جو کرتوت پے ڈٹا رہے اس سے دور ہو جاؤ ، اسے ووٹ نہ دو، اسکی حمایت نہ کرو، اس کے جلسے میں شرکت نہ کرو، مالی جانی تعاون نہ کرو

.

حدیث پاک کا مفھوم ہے:

کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ کسی مسلمان کو ڈرائے دہشتگردی غنڈہ گردی پھیلائے(ابوداود حدیث5004) بالخصوص ووٹ کے وقت یا اس سے پہلے اہلسنت یا سچے اچھے قائدین یا ورکرز پر حملہ کرکے یا دھمکیاں دےکے ڈرانے والو، دہشتگردی پھیلانے والو یا تو تم کامل مسلمان نہیں یا پھر بزدل ہو،ہمت ہے تو منصفانہ مقابلہ کرو، قوم ہرگز غنڈوں سےنہ ڈرے ووٹ سچے اچھے کو دے

.

*#طاقت_سیاست_ووٹ_اور_مولوی.......؟؟*

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

كانت بنو إسرائيل تسوسهم الأنبياء، كلما هلك نبي خلفه نبي، وإنه لا نبي بعدي، وسيكون خلفاء فيكثرون

(بخاری حدیث نمبر3455)

مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمۃ نے اس حدیث پاک کا ترجمہ یوں فرمایا:

بنو اسرائیل کا سیاسی انتظام انبیاء کرام کرتے تھے،جب کبھی ایک نبی انتقال فرماتے تو دوسرے نبی ان کے پیچھے تشریف لاتے اور میرے بعد کوئی نبی نہیں،خلفاء ہونگے اور بہت ہونگے..(بخاری حدیث نمبر3455)

.

دیکھا برحق سچی سیاست تو انبیاء کرام کی سنت ہے...بلکہ علماء مولوی دینی حضرات پر لازم و ذمہ داری ہے کہ اہل علم انبیاء کرام کے وارث و نائب ہیں...(دیکھیے ابوداؤد حدیث3641)

.

*سیاست کا لغوی معنی.......!!*

سیاست عربی لفظ سیاسۃ سے بنا ہوا ہے..اور عربی لغت کی معروف و معتبر کتاب لسان العرب مین سیاست کا معنی کچھ یوں لکھا ہے کہ: السیاسۃ:القیام علی الشئ بما یصلحہ

ترجمہ:

کسی چیز کی درستگی، اصلاح کا انتظام کرنا سیاست کہلاتا ہے.(لسان العرب ص2149)

.

المنجد میں سیاست اور اس کے مختلف صیغوں کا معنی یہ ہیں کہ: سدھارنا، دیکھ بھال کرنا، امور کی تدبیر کرنا، انتظام کرنا، ملکی تدبیر و انتظام..(المنجد ص501)

.

*سیاست کا شرعی معنی اور حکم.......!!*

 علامہ ابن عابدین فرماتے ہیں:

فالسياسة استصلاح الخلق بإرشادهم إلى الطريق المنجي في الدنيا والآخرة..

ترجمہ:

سیاست کا معنی ہے مخلوق کی درستگی کرنا اس طرح کہ انکو ایسے راستے کی رہنمائی کی جائے جو انھیں دنیا و آخرت میں کامیابی.و.نجات دے

(ردالمحتار جلد6 صفحہ23)

.

علامہ ابن.عابدین فرماتے ہیں:

لها حكم شرعي معناه أنها داخلة تحت قواعد الشرع وإن لم ينص عليها بخصوصها.

ترجمہ:

سیاست کا شرعی حکم ہے،اسکا معنی یہ ہے کہ اگرچہ دوٹوک الفاظ میں اسکا حکم نہیں آیا مگر یہ شریعت کے(فرض واجب مستحب، عین و کفایہ،جائز مباح حلال حرام وغیرہ) قواعد کے تحت داخل ہے

(ردالمحتار جلد6 صفحہ23)

اس قاعدے کے تحت جب معاملہ ناموس رسالت یا دیگر فرائض واجبات کا ہو تو سیاست فرض کفایہ یا واجب کفایہ کہلائے گی یعنی سب پر فرض واجب تو نہیں بلکہ کچھ نے سیاست میں حصہ لے لیا تو ٹھیک ہے مگر ایسی صورت میں انکی تائید تعاون اور حمایت حسب طاقت لازم ہوگئ... اور اسی قاعدے اور دیگر قواعد کے تحت سیاست کبھی فرض کبھی واجب کبھی مستحب کبھی سنت غیرموکدہ اور کبھی مباح کہلائے گی اور کبھی ممنوع گناہ کہلائے گی..

.

علامہ ابن نجیم فرماتے ہیں

والسياسة نوعان سياسة عادلة فهي من الشريعۃ والنوع الآخرسياسة ظالمة فالشريعة تحرمها

ترجمہ:

سیاست کی.دو قسمیں.ہیں.. ایک وہ سیاست جو عدل.و.انصاف والی ہو.. ایسی سیاست شریعت کا حصہ ہے، اور سیاست کی.دوسری قسم ظلم.و.ناانصافی والی سیاست ہے جسکو شریعت حرام و گناہ قرار دیتی ہے..

(البحر الرائق ملخصا جلد5 صفحہ118)

.

*سیاست کی تعریف میں غور کیا جائے تو ایجنٹی منافقت جھوٹ مکاریوں،خواہشات، من مانیوں والی سیاست سیاست کہلانے کے لائق نہیں..*

موسوعہ فقھیہ کوئیتیہ میں ہے کہ...وَمَا يُسَمِّيهِ أَكْثَرُ السَّلاَطِينِ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ بِأَهْوَائِهِمْ وَآرَائِهِمْ - لاَ بِالْعِلْمِ - سِيَاسَةً، فَلَيْسَ بِشَيْءٍ

اور وہ جو اکثر سلاطین،حکمران بغیر علم کے اپنی خواہش و آراء پر عمل کرتے ہیں اور اسے سیاست کہتے ہیں تو ایسی سیاست کچھ حیثیت نہیں رکھتی

(موسوعۃ.فقھیہ جلد25 صفحہ298)

.

*سیاست کی وسعت....!!*

ردالمحتار میں ہے اچھی برحق سیاست کے بارے میں

ہے کہ:

فالشريعة توجب المصير إليها والاعتماد في إظهار الحق عليها، وهي باب واسع

ترجمہ:

شریعت واجب کرتی ہے کہ ایسی سیاست کی طرف جایا جائے، اور حق کے اظہار کے لیے اس پر اعتماد کرنے کو بھی شریعت لازم کرتی ہے،اور سیاست کا باب بہت وسعت رکھتا ہے

(ردالمحتار جلد6 صفحہ23)

.

پاکیزہ حقیقی سیاست انبیاء کرام کی سنت ہے یہ کوئی بری چیز نہیں اس لیے دینی نعرے دینی سیاست کےلیے لگانا برحق و لازم ہے...دین کے نام پےدین کےلیے ووٹ لینا الیکشن لڑنا برحق و حسب طاقت لازم ہے...مانا کہ اس وقت مکمل اسلامی سیاست نہیں مگر ہم اہلسنت اس بری سیاست میں گھس کر اسے اسلامی سیاست بنانے کے منصوبے پے عمل پیرا ہیں...اس بری سیاست سے جتنا دور ہونگے اتنی ہی یہ سیاست بری ہوتی جائے گی اور مضبوط ہوتی جاءے گی....اس ناسور کا اس دور میں علاج یہی لگتا ہے کہ اس سیاست میں گھس کر اسے پاکیزہ بنایا جائے اگرچہ اس میں وقت لگ سکتا ہے مگر ہمارے پاس کوئی اور نعم البدل حسب طاقت کوئی اور چارہ نہیں..لیھذا ہمیں ہمت نہیں ہارنی چاہیے، کاہلی سستی نہیں کرنی چاہیے…اپنے دنیاوی نسلی مفادات کو پسِ پشت ڈال کر اسلامی سیاست والوں، سچےاہلسنت کا ساتھ دینا چاہیے انہیں ووٹ دینا چاہیے...سچےاہلسنت ہزار بار بھی الیکشن ہاریں تب بھی ہمت نہیں ہارنی چاہیے تب بھی ووٹ سچے اہلسنت کو دینا چاہیے کہ ظاہری ہار جیت اتنی معنی نہیں رکھتی...معنی تو یہ بات رکھتی ہے کہ آپ نے ووٹ دین و سنت کے نفاذ و سربلندی کے لیے دیا یا دنیاوی مفاد و نسلی مفاد میں دیا....؟؟

جس نے سچے اہلسنت علماء لیڈرز کو ووٹ دیا وہ ہار بھی جائے تب بھی اسکی جیت ہے کہ دین و سنت کے لیے ووٹ دیا،ساتھ دیا

.

القرآن،ترجمہ:

(اسلام و حق پے)نہ سستی کرو،نہ غم(آل عمران139

حق،سچ بظاہر ہار بھی جائے تو بھی جیتا ہوا ہوتا ہے

کوئی غم نہیں مگر سستی بھی جرم

.

تلخیصِ حدیث:

جو بلاعذر محض دنیاوی مفاد کےلیے بیعت کرے(حمایت کرے،ووٹ دے)اسے قیامت کے دن دردناک عذاب ہوگا(بخاری7212)

.

پاکستان بنا ہی دینی نعروں پے ہے دین کے نام پے ہی علماء و مشائخ اہلسنت اور علامہ اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح سب نے دو قومی نظریہ کے تحت ہی اور اسلام کے نام پے ہی الگ ملک حاصل کیا اور قران و سنت کو ہی ملک پاکستان کا آئین کہا...تو دین کے نام پے ووٹ لینا ضرورتا شرعا بھی درست ہے تو اکابرین و بانیان پاکستان کا بھی وطیرہ رہا ہے

.

قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا:

میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اس اسوہ حسنہ(سیرت نبی، سنت نبی)پر چلنے میں ہے جو ہمیں قانون عطا کرنے والے پیغمبر اسلام(حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم)نے ہمارے لیے بنایا ہے، ہمیں چاہیے کہ

ہم اپنی جمہوریت کی بنیادیں صحیح معنوں میں اسلامی تصورات اور اصولوں(قرآن و سنت) پر رکھیں..(قائد اعظم کے افکار و نظریات ص29)

.

سیاست انبیاء کرام،انکےوارث سچےعلماء کی سنت ہے(دلیل بخاری حدیث3455)انگریزوں کا مشن ہےپاکستان جغرافیائی ہو،مذہبی نہ ہو(اقبال کےحضور ص267ملخصا) پاکستان تو اہلسنت تعلیمات/عقائد/اعمال کےنام پےآزاد کرایا مگر لگتاہے اکثر سیاستدان جرنیلز میڈیا ججز لیڈرز پاکستان کو مذہب سے دور کرنے کےمشن پر ہیں…لازم ہےسچےاچھےمولوی سچی سیاست کریں،سچےمولوی فوج تعلیم سائنس جدت میڈیا دولت میں چھاجائیں…آہستہ آہستہ ہر ادارےکےنصاب و نظام و افراد کو اسلام مطابق کیا جائے

.

ثابت ہوتا ہے کہ اچھے سچے باعمل علماء مولوی ووٹ لینے کے زیادہ حقدار ہیں...اچھی سیاست طاقت کے زیادہ حقدار ہیں،کیا ہی اچھا ہو کہ سچے مولویوں کو ووٹ ملیں وہ کامیاب ہوں، صدر وزیر مشیر جج جرنیل سب سچے مولوی ہوں اور اپوزیشن بھی سچے مولویوں کی ہو اور اختلافات و تنقید ہو تو تعمیر و ترقی کی ہو، بہتر و بہترین کی ہو، ہر پارٹی کے بڑے مولوی ہوں جو اسلام کے نفاذ و دنیاوی ترقی جدت ٹیکنالوجی فلاحی کام میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں مگن ہوں اور اسی اسلام نفاذی و دنیاوی ترقی کی بنیاد پے ووٹ طلب کریں....کاش ایسا ہو 

مگر

اس وقت لگتا ہے ہم مجبور ہیں،عالمی طاقتیں ایٹمی ملک کو اچھے سچے علماء سچے اچھے مولویوں کے حوالے کریں ایسا عالمی طاقتیں نہیں کرنے دیں گی،دہشتگردی وغیرہ کے الزام لگا کر عراق لیبیا وغیرہ جیسا حال کریں گی، لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ عالمی طاقت کے ڈر سے یا گناہوں پیسوں برائیوں کی چاہ میں ہم سچے مولویوں کو بالکل ہی ووٹ نہ دیں بلکہ ایسا ہو کہ کچھ نہ کچھ علماء مولوی جو سچے اچھے باشعور سمجھدار ہوں وہ سرکاری سیاسی عہدوں پے کامیاب ہوں آپکے ووٹ سے اور کچھ علماء مولوی جو اچھے سچے باعمل باشعور مدبر ہوں وہ ایوانوں میں ہوں کہ تنقید کرسکیں روک ٹوک سکیں اصلاح کرسکیں اور باقی دنیادار لوگ بظاہر دنیادار ہوکر دینداروں کے مہرے بن کر کام کریں، آہستہ آہستہ ہر ادارے کے نصاب و نظام کو اسلام مطابق کرتے جائیں

اور کچھ علماء مشائخ مروجہ سیاست سے کنارہ کش ہوکر فقط دینی شعوری فلاحی معاملات پر مگن رہیں،دینی افراد دینی معاشرہ تشکیل دینے کے لیے کام کریں،حتی المقدور سچے اچھے کو ووٹ دینے کی اشارتاً بات بھی کریں

مگر

کوئی ایک دوسرے کو کیڑے مکوڑے غلام نہ سمجھے....بڑے چھوٹوں پر شفقت کریں انہیں ترقی دیں انکی رہنماءی کریں انہیً شعور دیں اور چھوٹے باادب ہوں بڑون کے مگر غلام و چمچے نہ ہوں کہ اسلام کی واضح نافرمانی کی بات آجائے تو ادب کے ساتھ اختلاف کریں اور دیگر معاملات میں اچھا اختلاف تدبر تطبیق توجیھ صبر وسعت سے کام لیں،سمجھیں سمجھاءیں، سلجھیں، سلجھاءیں،ترقی کریں ترقی کرائیں، ساتھ لیکر چلیں اپنا بناءیں نوابی  تکبر تحقیر غرور مکاری لالچ ایجنٹی منافقت میں نہ آئیں.......!!

لیکن

کچھ ایسے مرد مجاہد بھی ہوں کہ للکاریں، اسلام کا کھل کر دفاع کریں علم سے طاقت سے ڈنڈے سے کہ بعضوں کی عقل ناقص ہوتی ہے انکے شر کو طاقت و ڈنڈے سزا سے روکا جاسکتا ہے کیونکہ علم و حکمت و تدبر کی فھم انکے بس کی بات نہیں ہوتی....ایسے نڈر دنیادار و مولوی و لیڈر و ورکرز بھی لازمی ہوجانے چاہیں تاکہ بعض دشمنون کو اس طاقت و رعب کے ذریعے ہدایت ملے یا فساد سے رکے رہیں کہ بعض خراب دماغ یا کمزور عقل مفادی ضدی چمچے استحصال کرنے والے مکار چور ڈاکو وغیرہ کا علاج سمجھانے کے ساتھ ساتھ کبھی ڈنڈا بھی علاج ہوتا ہے......!!

.

اللہ کو وہ امراء(حکمران،وزراء،لیڈر جرنیل)پسند ہیں جو علماء سےمل بیٹھ کر(اسلام مطابق)مشاورت و فیصلےکریں،حکومت چلائیں(کشف الخفاء2/389)علماء حق کی شان نہیں کہ وہ حکمرانوں کے مہرے بنیں…ہاں حکمرانوں پر لازم ہے کہ وہ اسلامی معاملات نصاب و نظام کی اسلامائیزیشن میں علماء صوفیاء کے مہرے بنیں، جدت ٹینکالوجی وغیرہ دنیاوی معاملات میں باہم معاون و مشاور بنیں

.

*#عہدہ ووٹ طلب کرنا.....؟؟*

بعض لوگ کہتے ہیں علماء و مشائخ کو اپنی مسند سنبھالنی چاہئے کرسیوں کے پیچھے نہیں بھاگنا چاہئے۔ان بھائیوں سے عرض ہے مسئلہ کرسی کے پیچھے بھاگ دوڑ کا نہیں بلکہ امانت و خیانت، اہل و نااہل کا ہے۔۔۔ جب کرپٹ لوگ حکمران بن جائیں اور ملک کو برباد کررہے ہوں تو بعض دیندار لوگوں کا آگے آنا ضروری ہوجاتا ہے اور اسکے لئے منصب کا طلب کرنا قطعا معیوب نہیں۔ ہاں بعض علماء مشائخ محض دینی اصلاحی معاملات میں مگن رہیں سیاسی نہ کہلائیں مگر ہوسکے تو اشارتا سچے اچھے کو ووٹ دینے کا بھی کہیں... حضرت یوسف علیہ السلام نے بادشاہِ مصر سے فرمایا تھا:

قَالَ ٱجْعَلْنِى عَلَىٰ خَزَآئِنِ ٱلْأَرْضِ ۖ إِنِّى حَفِيظٌ عَلِيمٌ (سورة يوسف - 55)

یوسف نے کہا مجھے زمین کے خزانوں پر کردے بے شک میں حفاظت والا علم والا ہوں۔

حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی لکھتے ہیں:

’’جب نااہل سلطان یا حاکم بن کر ملک کو برباد کررہے ہوں یا برباد کرنا چاہتے ہوں تو دین و ملک کی خدمت کے لئے حکومت چاہنا حاصل کرنا ضروری ہے۔‘‘

(مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح، جلد 5، کتاب الامارۃ والقضاء، شرح حدیث 582)

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App,twitter nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574

آپ میرا نام و نمبر مٹا کر بلانام یا ناشر یا پیشکش لکھ کر اپنا نام ڈال کے آگے فاروڈ کرسکتے ہیں،کاپی پیسٹ کرسکتے ہیں،شئیر کرسکتے ہیں...نمبر اس لیے لکھتاہوں تاکہ تحقیق رد یا اعتراض کرنے والے یا مزید سمجھنے والےآپ سے الجھنے کےبجائے ڈائریکٹ مجھ سے کال یا وتس اپ پے رابطہ کرسکیں

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.