*سیاست کا شرعی مفھوم و اہمیت و حکم…؟؟ مولوی اور سیاست…؟؟ ووٹ کس کا؟،جناح.و.اقبال کی سیاست کی اہم بنیادی جھلک؟،مذہبی کارڈ.....؟؟*سب سے پہلے تو اختصار کے ساتھ عرض کرتا چلوں کہ اسلام میں "برحق سچی اسلامی سیاست" کی کتنی اہمیت ہے....؟ لیجیے ملاحظہ کیجیےحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:كانت بنو إسرائيل تسوسهم الأنبياء، كلما هلك نبي خلفه نبي، وإنه لا نبي بعدي، وسيكون خلفاء فيكثرون(بخاری حدیث نمبر3455)مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمۃ نے اس حدیث پاک کا ترجمہ یوں فرمایا:بنو اسرائیل کا سیاسی انتظام انبیاء کرام کرتے تھے،جب کبھی ایک نبی انتقال فرماتے تو دوسرے نبی ان کے پیچھے تشریف لاتے اور میرے بعد کوئی نبی نہیں،خلفاء ہونگے اور بہت ہونگے..(بخاری حدیث نمبر3455)دیکھا برحق سچی سیاست تو انبیاء کرام کی سنت ہے...بلکہ علماء مولوی دینی حضرات پر لازم و ذمہ داری ہے کہ اہل علم انبیاء کرام کے وارث و نائب ہیں...(دیکھیے ابوداؤد حدیث3641).الحدیث:قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم: " «من لا يهتم بأمرالمسلمين فليس منهمترجمہ:جو مسلمانوں کے معاملات(معاشرتی و انفرادی بھلائی ترقی اصلاح) پر اہتمام نا کرے، اہمیت نا دے وہ اہلِ اسلام میں سے نہیں(مجمع الزوائد حدیث294)اسلامی سیاست میں یہی معاشرتی انفرادی بھلائی ترقی اصلاح کا اہتمام ہی تو ہوتا ہے......!!.*سیاست کا لغوی معنی.......!!*سیاست عربی لفظ سیاسۃ سے بنا ہوا ہے..اور عربی لغت کی معروف و معتبر کتاب لسان العرب مین سیاست کا معنی کچھ یوں لکھا ہے کہ: السیاسۃ:القیام علی الشئ بما یصلحہترجمہ:کسی چیز کی درستگی، اصلاح کا انتظام کرنا سیاست کہلاتا ہے.(لسان العرب ص2149).المنجد میں سیاست اور اس کے مختلف صیغوں کا معنی یہ ہیں کہ: سدھارنا، دیکھ بھال کرنا، امور کی تدبیر کرنا، انتظام کرنا، ملکی تدبیر و انتظام..(المنجد ص501).*سیاست کا شرعی معنی اور حکم.......!!*علامہ ابن عابدین فرماتے ہیں:فالسياسة استصلاح الخلق بإرشادهم إلى الطريق المنجي في الدنيا والآخرة..ترجمہ:سیاست کا معنی ہے مخلوق کی درستگی کرنا اس طرح کہ انکو ایسے راستے کی رہنمائی کی جائے جو انھیں دنیا و آخرت میں کامیابی.و.نجات دے(ردالمحتار جلد6 صفحہ23).علامہ ابن.عابدین فرماتے ہیں:لها حكم شرعي معناه أنها داخلة تحت قواعد الشرع وإن لم ينص عليها بخصوصها.ترجمہ:سیاست کا شرعی حکم ہے،اسکا معنی یہ ہے کہ اگرچہ دوٹوک الفاظ میں اسکا حکم نہیں آیا مگر یہ شریعت کے(فرض واجب مستحب، عین و کفایہ،جائز مباح حلال حرام وغیرہ) قواعد کے تحت داخل ہے(ردالمحتار جلد6 صفحہ23)اس قاعدے کے تحت جب معاملہ ناموس رسالت یا دیگر فرائض واجبات کا ہو تو سیاست فرض کفایہ یا واجب کفایہ کہلائے گی یعنی سب پر فرض واجب تو نہیں بلکہ کچھ نے سیاست میں حصہ لے لیا تو ٹھیک ہے مگر ایسی صورت میں انکی تائید تعاون اور حمایت حسب طاقت لازم ہوگئ... اور اسی قاعدے اور دیگر قواعد کے تحت سیاست کبھی فرض کبھی واجب کبھی مستحب کبھی سنت غیرموکدہ اور کبھی مباح کہلائے گی اور کبھی ممنوع گناہ کہلائے گی...علامہ ابن نجیم فرماتے ہیںوالسياسة نوعان سياسة عادلة فهي من الشريعۃ والنوع الآخرسياسة ظالمة فالشريعة تحرمهاترجمہ:سیاست کی.دو قسمیں.ہیں.. ایک وہ سیاست جو عدل.و.انصاف والی ہو.. ایسی سیاست شریعت کا حصہ ہے، اور سیاست کی.دوسری قسم ظلم.و.ناانصافی والی سیاست ہے جسکو شریعت حرام و گناہ قرار دیتی ہے..(البحر الرائق ملخصا جلد5 صفحہ118).*سیاست کی تعریف میں غور کیا جائے تو ایجنٹی منافقت جھوٹ مکاریوں،خواہشات، من مانیوں والی سیاست سیاست کہلانے کے لائق نہیں..*موسوعہ فقھیہ کوئیتیہ میں ہے کہ...ترجمہ:اور وہ جو اکثر سلاطین،حکمران بغیر علم کے اپنی خواہش و آراء پر عمل کرتے ہیں اور اسے سیاست کہتے ہیں تو ایسی سیاست کچھ حیثیت نہیں رکھتی..(موسوعۃ.فقھیہ جلد25 صفحہ298).*سیاست کی وسعت....!!*ردالمحتار میں ہے اچھی برحق سیاست کے بارے میںہے کہ:فالشريعة توجب المصير إليها والاعتماد في إظهار الحق عليها، وهي باب واسعترجمہ:شریعت واجب کرتی ہے کہ ایسی سیاست کی طرف جایا جائے، اور حق کے اظہار کے لیے اس پر اعتماد کرنے کو بھی شریعت لازم کرتی ہے،اور سیاست کا باب بہت وسعت رکھتا ہے(ردالمحتار جلد6 صفحہ23).*الحاصل*اسلامی لحاظ سے اور دنیاوی لحاظ سے، اخلاقی و عقلی لحاظ سے، ہر لحاظ سے سیاست ایک بہت وسیع اور جامع چیز ہے.. گھر کے انتظام اور گروپ،تنظیم کے انتظام.. ذاتی انتظام..شہر ملک کے انتظام.. سب سیاست میں شامل ہیں..اپنی اصلاح..محلے شہر ملک کی اصلاح.. دینی دنیاوی فلاح.. سیکیورٹی اور دفاع.. معاشی معاشرتی تعلیمی تجارتی ہر چیز ضروریات کا انتظام اور امن،قوانین،سلوک،عدل و انصاف کا قیام... فساد و شر کی روک تھام.. اسلامی قوانین و تعلیمات کا نفاذ سب کچھ سیاست میں شامل ہے...سیاست زندگی کا اہم اور ضروری جز ہے.. جس کے بغیر رہنا ممکن نہیں.. بس فرق ہے تو اچھی یا بری سیاست کا ہے.. فرق ہے تو اسلامی اور غیراسلامی سیاست کا ہے..فرق ہے تو سیاست کے دائرہ کار کا ہے...علامہ عبدالحق خیرآبادی فرماتے ہیں:الحکمۃ العملیۃ ایضا منقسمۃ الی ثلاثۂ اقسام لان العلم المتعلق بالاعمال اما متعلق بمصالح شخص واحد لانتظام معاشہ و اصلاح معادہ و ھو المسمیبتھذیب الاخلاق واما متعلق بمصالح جماعۃ مشترکۃ فی المنزل کالوالد والمولود والمالک والمملوک وھو المسمی بتدبیر المنزل واما متعلق بمصالح جماعۃ مشترکۃ فی المدینۃ ویسمی بالسیاسۃ المدنیۃ..ترجمہ:حکمت عملی(سیاست)کی بھی تین اقسام ہیںکیونکہ وہ علم جو عمل.کے متعلق ہو اسکی تین اقسام ہیں1:یا تو ایک شخص کی درستگی اور اسکی زندگی کے لوازمات معاملات کے انتظام اور اسکے معاد یعنی آخرت کی درستگی کے متعلق ہوں گے تو اسے تھذیب الاخلاق کہتے ہیں2:یا پھر مذکورہ لوازمات درستگی مصالح کا تعلق ایک گھر کے افراد سے ہوگا جیسے والد اور اولاد مالک اور مملوک، ایسی سیاست کو تدبیر منزل کہتے ہیں3:مذکورہ لوازمات درستگی مصالح کا تعلق ایک شہر ملک کے افراد سے ہو تو اسے سیاست مدنیہ کہتے ہیں(عبدالحق شرح ھدایۃ الحکمۃ ص6,7).سیاست کی اسلام میں کتنی اہمیت ہے آپ کو آندازہ ہوگیا ہوگا...ان شاء اللہ عزوجل.جدت پسند مفکر ، شاعرِ مشرق سر علامہ اقبال فرماتے ہیں:تو نےکیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظامچہرہ روشن ، اندروں چنگیز سے تاریک تر(کلیات اقبال ص704).جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہوجدا ہو دیں سیاست سےتو رہ جاتی ہےچنگیزی(کلیات اقبال ص374).تشریح:ان دو اشعار میں اقبال میں سمندر کو کوزے میں بند کر دیا....ایک تو ان مکاروں منافقوں دھوکے باز سیکیولر زدہ ذہن و سوچ والوں کے منہ پر تماچہ مارا جو رونا روتے رہتے ہیں کہ سیاست اور دین الگ الگ ہیں....اقبال فرماتے ہیں نہیں نہیں، سیاست دین اسلام کے بغیر چنگیزی جیسی بدترین ظلم و حیوانیت ہے اور دین اسلام سیاست کے بغیر ادھورا ہے..کیونکہ سیاست اسلام کا اہم جزو ہےلیھذا*مذکورہ احادیث و حوالہ جات سے ثابت ہوتا ہے کہ دین کے نام پر ووت لینا دینا بہت ہی اچھا بلکہ لازم تک ہو جاتا ہے،لیھذا ووٹ دینی سوچ والے ہی کو دیا جائے...جناح و اقبال نے بھی دین کے نام پے سیاست کی اور ملک بنایا جیسے کہ ہم تحریر کے اخر میں لکھیں گے*.*اٹھو...نکلو...ووٹ دو اچھوں کو*علامہ اقبال فرماتے ہیں:خدا تجھے کسی طُوفاں سے آشنا کر دےکہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں(کلیات اقبال ص544)علامہ اقبال علیہ الرحمہ فرما رہے ہیں کہاے فرداے گروہاے جماعتاے عواماے حکمرانتجھ میں طاقت کا ایک سمندر ہےتجھ میں صلاحیت کا ایک سمندر ہےتجھ میں ایمان کا ایک سمندر ہےتجھ میں انقلاب کا ایک سمندر ہےمگرخاموش سمندر کہ جسکی موجوں میں اضطراب نہیںاس سمندر کو جوش و ہوش کی ضرورت ہےکاشتیری نگاہ ، تیرا علم ، تیرا شعور، تیرا وجداناس طوفان کو دیکھ لے، اس طوفان کو بھانپ لے، اس طوفان سے تیرا مقابلہ کرائے کہ جو تیرے سمندر میں جوش و ہوش بھر دےپھر تجھے پتہ چلے گا کہ تو کتنا قیمتی ہےپھر تجھے پتہ چلے گا کہ تو کتنا اہم ہےپھر تجھے پتہ چلے گا کہ تو کتنا انقلابی ہےپھر تجھے پتہ چلے گا کہ تجھ میں کتنی طاقت ہے.چپ کیوں بیھٹا ہے....خاموش تماشائی کیوں ہے، تجھے اپنی فکر نہیں...تجھے نسلوں کی فکر نہیں...تجھے آزادی کی فکر نہیں...تجھے اقتدار کی فکر نہیں...تجھے ترقی و عروج کی فکر نہیں…ارے ناداں بےحس و بے بس کیوں بیٹھا ہےاُٹھدیکھغلام بنانے والا طوفان تجھ پے حملہ آور ہےاٹھدیکھجاہل و عیاش مفادی مغربی بنانے والا طوفان تجھ پے حملہ آور ہےاٹھدیکھتیری تباہی تیری نسلوں کی تباہی کا طوفان تجھ پے حملہ آور ہےاٹھدیکھکفار و منافقین کی حکمرانی کا طوفان تجھ پر حملہ آور ہےاٹھدیکھجدت و عروج سے روکنے والا جاہلیت والا طوفان تجھ پے حملہ آور ہےاٹھدیکھتیرے ایمان و عشق رسول کو برباد کرنے والا طوفان تجھ پے حملہ آور ہےآٹھدیکھمغربیت و الحاد و گمراہیت کا طوفان تجھ پے حملہ آور ہے.اور تو...........بے حس بیٹھا ہےاور تو...........چشم پوشی کرکے بیٹھا ہےاور تو..........غفلت و من موجی میں بیٹھا ہےاور تو.......... تھوڑے سے مفاد پے خوش بیٹھا ہے.آٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہےپھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے.تجھ پے مختلف طوفاں حملہ آور ہیں....کاش تو طوفان کو بھانپ پائےپھرتیرے ایمان و طاقت کے سمندر میں جوش و ہوش آئےاورتو اٹھ کھڑا ہو اور صحیح و برے تمییز کرے.تو اٹھ کھرا ہو اور منافق و مخلص کی تمییز کرے.تو اٹھ کھڑا ہو اور بہادر و بزدل کی تمییز کرے.تو اٹھ کھڑا ہو اور جدت و عیاشی میں تمییز کرے.تو اٹھ کھڑا ہو اور برے علم و اچھے علم میں تمییز کرے.تو اٹھ کھڑا ہو اور غلامی و اسلامی آزادی کی تمییز کرے.تو اٹھ کھڑا ہو اور جوش و جلد بازی میں تمییز کرے.تو اٹھ کھڑا ہو اور سستی و ہمت میں تمییز کرے.تو اٹھ کھڑا ہو اور اپنی طاقت و بےحسی میں تمییز کرے.تو اٹھ کھڑا ہو اور اچھے برے سیاست دان میں تمییز کرے.تو اٹھ کھڑا ہو اور اچھے برے فنکاروں میں تمییز کرے.تو اٹھ کھڑا ہو اور اچھے برے صحافیوں میں تمییز کرے.تو اٹھ کھڑا ہو اور اچھے برے لیڈروں میں تمییز کرے.تو اٹھ کھڑا ہو اور ووٹ کے مستحق غیرمستحق کی تمییز کرےاورپھر منافقت، مفاد ، من موجی، غلامی،جہالت، فحاشی، عدم ترقی، مغربیت و الحاد و گمراہی کی زنجیروں کو توڑتا ہوانعرہ تکبیراللہ اکبرنعرہ رسالتیا رسول اللہﷺنعرہ تحقیقحق چار یارنعرہ تقلیدصحابہ کرام اہلبیت عظام زندہ باد،برحق علماء اولیاء زندہ باد،برحق سچے اچھے لیڈر زندہ بادایسے نعرے لگاتا ہوا جوش و ہوش کے ساتھ دینی دنیاوی ترقی کی راہ پے گامزن ہو جائے......اے کاش تیرے سمندر میں ایسا طوفان آئے جو تجھے جگا جائے کہ تیرے بحر کی موجوں میں وہ اضطراب نہیں......!!.يا رب! دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دےجو قلب کو گرما دے ، جو روح کو تڑپا دےپھر وادي فاراں کے ہر ذرے کو چمکا دےپھر شوق تماشا دے، پھر ذوق تقاضا دےمحروم تماشا کو پھر ديدئہ بينا دےديکھا ہے جو کچھ ميں نے اوروں کو بھي دکھلا دےبھٹکے ہوئے آہو کو پھر سوئے حرم لے چلاس شہر کے خوگر کو پھر وسعت صحرا دےپيدا دل ويراں ميں پھر شورش محشر کراس محمل خالي کو پھر شاہد ليلا دےاس دور کي ظلمت ميں ہر قلب پريشاں کووہ داغ محبت دے جو چاند کو شرما دےرفعت ميں مقاصد کو ہمدوش ثريا کرخودداري ساحل دے، آزادي دريا دےبے لوث محبت ہو ، بے باک صداقت ہوسينوں ميں اجالا کر، دل صورت مينا دےاحساس عنايت کر آثار مصيبت کاامروز کي شورش ميں انديشہء فردا دےميں بلبل نالاں ہوں اک اجڑے گلستاں کاتاثير کا سائل ہوں ، محتاج کو ، داتا دے.*ووٹ کس کو دیں،اسلام اور فلاحی کام...جناح و اقبال کی سیاست میں مذہبی کارڈ....؟؟*اسلام نے کسی حکمران کا انتخاب کرنے کے لیے ہم پر تو یہ لازم کیا ہے کہ ہم حکمران کی اسلامی عقائد نظریات عبادت اسلامیت پسندی نیکی کو دیکھیں اسی کو ترجیح دیں ووٹ دیں.... #لیھذا_ووٹ_سچے قابل سرگرم ذی شعور جوش و ہوش والے اہلسنت امیدوار و لبیک کے امیدوار کا ہی زیادہ حق ہے،اسے ہی ووٹ دیجیے، عمران خان شہباز شریف پی پی پی ڈی ایم جماعت اسلامی وغیرہ اگر معتبر علماء کرام کے سامنے پہلے کے کرتوتوں پر توبہ و معافی تلافی کرے اور اہلسنت نظریات کے نفاذ کی یقین دہانی کرائے اور خارجیت سے بچتا رہے اور معتبر علماء کرام اسکی حمایت کا اعلان کر دیں تو وہ بھی ووٹ کا حقدار بن جائے گا، کاش علماء اہلسنت انکے پاس جائیں انہیں اپنا بنائیں انہیں توبہ و معافی کے لیے سمجھائیں راضی کریں،اسی طرح دیگر پارٹیوں کے لوگ بدل کر اچھے بن جائیں اور معتبر علماء کرام اسکی تصدیق کریں تو وہ بھی ووٹ کے حقدار بن سکتے ہیں، اس طرح اصل کھلاڑی اہلسنت علماء و مشائخ ہوں اور لیڈر انکے ماتحت مہرے اور باہم مشاورت و حکمت سے حکومت کریں اور اپوزیشن کی جائے تو عدل و ترقی والی،تنقید کی جائے تو تعمیری…اصل مقصد کسی کو پکڑنا نہیں بلکہ ایجنت غدار بننے سے بچانا ہے،واپس اچھا اسلامی بنانا ہے… علماء کرام بڑے بڑے سیاستدانوں سے ملیں انہیں خوددار و دیانتدار بنانے کی بھرپور کوشش کریں، انہیں واپسی توبہ رجوع کا حوصلہ دیں… کیا پتہ سارے یا کچھ سدھر جائیں....؟؟کچھ اہم بنیادی حد تک سدھر جاءیں تب بھی کیا اچھا نہیں ہے.....؟؟ اسلاف فرماتے ہیں کہ امالہ بہترین ازالہ ہے... بحرحال ووٹ دینداری خودداری دیکھ کر دیں، مال دولت پیسہ سستاءی کی لالچ و مفاد میں یا شخصیت پرستی قومیت پرستی پارٹی پرستی کی بناء پر ہرگز نہ دیںالحدیث۔۔ترجمہ:جو عصبیت(قوم پرستی، گروپ پرستی) کی طرف بلاے وہ ہم(اہل حق،اہل اسلام) میں سے نہیں..وہ ہم میں سے نہیں جو عصبیت کی لڑائ لڑے،وہ ہم میں سے نہیں جو عصبیت پر مرے..(ابوداود جلد2 صفحہ698 باب فی العصبیۃ).تلخیصِ حدیث:جو بلاعذر محض دنیاوی مفاد کےلیے بیعت کرے(حمایت کرے،ووٹ دے)اسے قیامت کے دن دردناک عذاب ہوگا(بخاری7212)حکمران کے انتخاب و حمایت میں دیانت داری اور دین داری کو ترجیح دیجیے...یہ تو ہم پر لازم ہےمگرنیک حکمران پر اسلام نے لازم کیا ہے کہ وہ عوام کے سماجی معاشرتی تجارتی وغیرہ تمام ترقیات پر کام کرے...سب کی سنے... غریبوں کی دیکھ بھال کرے... نوکریاں تجارت معیشت کے مواقع فراہم کرے... عدل انصاف کرے... اقلیتوں کو اقلیتی حقوق دے اور اقلیتیوں کو اقلیتی حقوق سے بڑھنے نا دے...یہ سب ذمہ داریاں اسلام نے اسلامی حکمرانوں پر عائد کی ہیں اور اس سے بھی زیادہ عائد کی ہیں.عوام سے بھی گذارش ہے کہ وہ اس غلط فہمی میں مت رہیں کہ اسلامی لیڈر، اہلسنت و لبیک کے لیڈر دنیا داری ترقی معیشت پر کام نہیں کریں گے....اس غلط فھمی میں مت رہیں...اسلامی لیڈر تو پہلے سے بڑھ کر ملک و عوام کو ترقی دیں گے، دین کے ساتھ ساتھ دنیاوی ترقیاں معیشت نوکریاں میدیکل وغیرہ تمام معاملات پہلے سے بہتر ہو نگے.... ان شاء اللہ عزوجل کیونکہ اسلام ان ترقیوں سہولیات کے خلاف نہیں بلکہ ان سہولیات و ترقی کے نام پر کی جانے والی کرپشن کے خلاف ہے... اسلامی لیڈروں کی حکومت سے غربت کم ہو گی، کرپشن کم ہو گی، عدل انصاف پھیلے گا...سہولیات ترقیاں ہونگی... دین داروں کو "سچی اچھی دنیاداری" بھی خوب آتی ہے... اور ایسی اچھی دنیاداری کی اسلام مذمت نہیں کرتا.. بلکہ ایسی ترقیات حاجات روائی کو اسلامی لیڈروں کی ذمہ داری قرار دیا ہے اور جو لیڈر ایسی ذمہ داریاں پوری نا کرے اسکی اسلام مذمت فرماتا ہے...الحدیث:رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «من ولي من أمر المسلمين شيئا فاحتجب دون خلتهم وحاجتهم وفقرهم وفاقتهم احتجب الله عز وجل يوم القيامة دون خلته وفاقته وحاجته وفقرهترجمہ:رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہجو مسلمانوں کا امیر(لیڈر ذمہ دار عھدے دار) ہو اور وہ لوگوں پر اپنے دروازے بند کر دے حالانکہ لوگ تنگ دستی میں ہوں حاجات والے ہوں اور فقر و فاقہ مفلسی والے ہوں تو اللہ قیامت کے دن ایسے(نا اہل) امیر پر دروازے بند کر دے گا حالانکہ وہ تنگ دست ہوگا حاجت مند ہوگا مفلس و ضرورت مند ہوگا...(مستدرک حاکم حدیث7027).اب آتے ہیں اس بحث پر کہ اگرچہ جناح و اقبال پاکستان مخالف تھے، ہندو مسلم اتحاد کے داعی تھےمگراہلسنت عوام و علماء مشائخ کے جہاد جسے ہندو مسلم فسادات کہا جاتا ہے ان جہاد کے بعد علامہ اقبال و جناح کی آنکھیں کھلیں...انہوں نے اہلسنت علماء عوام سے رابطہ کیا... اقبال نے ہندو مسلم اتحاد کی شاعری کے بعد اسلام و اہلسنت کے حق میں شاعری کی، شعور اجاگر کیا.... جناح کمیونیسٹ ملحد نما اسماعیلی شیعہ تھا پھر اقبال اور علماء اہلسنت کی رہنمائی سے وہ مسلمان بن گئے.....الحاد و شیعیت کو یکسر مسترد کر دیا اور آخری دم تک اسلام پر رہے....لیھزا جناح و اقبال بھی الحاد شیعیت دیوبندیت قادیانیت وہابیت کے لیے دشمن تھے، ان مذاہب و نظریات کے لیے پاکستان نہیں بنایا بلکہ محض سچے اسلام یعنی اہلسنت عقائد و نظریات کے لیے پاکستان بنایا.....یہ لیجیے ایک جھلک ملاحظہ کیجیے.جب قائد اعظم کی اکلوتی بیٹی جگر کا ٹکڑا گمراہ بے دین ہوگئ تو آپ نے اسے بہت سمجھایا بہت روکا ٹوکا حتی کہ مولانا شوکت علی کی ذمہ داری لگائی کہ اسے دین اسلام سے روشناس کرائے مگر پھر بھی وہ مسلمان نا ہوئی، پارسی غیرمسلم لڑکے سے شادی کی تو آپ نے اپنے جگر کے ٹکڑے سے بائیکاٹ کر دیا اور پیغام بھیجا کہ:میرے سامنے آنے کی جرات نہ کرنا،تیرا میرا رشتہ اسلام کے ناطے سے تھا وہ (تیرے غیرمسلم ہوجانے سے)ختم ہوگیا،اب مجھ سے تیرا کوئی رشتہ نہیں..(قائد اعظم کا مسلک ص388).دیکھیے قائد کی غیرت.. اسلام کی وجہ سے جگر کے ٹکڑے اکلوتی بیٹی کو چھوڑ دیا... مانا کہ وہ اتنے عبادت گذار نہیں تھے،اتنے نیک نہیں تھے مگر تھے غیرت مند مسلمان... وہ آج کل.کے منافق مکار اور لبرل بزدل ایجنٹ قسم کے سیاست دانوں کی طرح ہرگز ہرگز نہیں تھے...قائد اعظم سیکولر ازم سوشلزم کے تو سخت خلاف تھےقائد اعظم فرماتے ہیں:زندگی کی تمام مصیبتوں اور مشکلوں کا حل اسلام سے بہتر کہیں نہیں ملتا... سوشلزم کمیونزم مارکسزم کیپٹل ازم ہندو ازم امپیریل ازم امریکہ ازم روس ازم ماڈرن ازم یہ سب دھوکہ اور فریب ہیں..(نقوشِ قائد اعظم صفحہ 312،314, قائد اعظم کا مسلک ص137,138).مگرکچھ لوگ سمجھتے ہین کہ قائد اعظم اسلامی سوشلزم کے قائل تھے جوکہ جھوٹ ہے.. غلط ہے..قائد اعظم کے سامنے اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگا تو وہاں خوب بحث چِھڑ گئ، آخرکار قائد اعظم نے واضح اعلان کیا کہ:کمیونسٹ(لوگ،لیڈر) ملک میں انتشار پیدا کر رہے ہیں،یاد رکھیے پاکستان میں اسلامی شریعت نافذ ہوگی..(اکابر تحریک پاکستان ص129,حیات خدمات تعلیمات مجاہد ملت نیازی ص104).قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا:میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اس اسوہ حسنہ(سیرت نبی، سنت نبی صلی اللہ علیہ وسلم)پر چلنے میں ہے جو ہمیں قانون عطا کرنے والے پیغمبر اسلام(حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم)نے ہمارے لیے بنایا ہے، ہمیں چاہیے کہہم اپنی جمہوریت کی بنیادیں صحیح معنوں میں اسلامی تصورات اور اصولوں(قرآن و سنت) پر رکھیں..(قائد اعظم کے افکار و نظریات ص29).دیکھا آپ نے بانی پاکستان کے مطابق وہ جمہوریت، وہ لوگ، وہ صدر، وہ وزیر، وہ سینیٹر وہ پارلیمنٹ، وہ جج وہ وکیل، وہ فوجی وہ جرنیل الغرض جو بھی اسلام کے اصول و تصورات کے خلاف ہو وہ جوتے کی نوک پر.....!!پاکستان ان کی حکمرانی عیاشی کے لیے نہیں بنایا گیا تھا بلکہ ان کے خاتمے اور اسلام(اہلسنت نظریات و اعمال کے نفاذ) کے لیے بنایا گیا تھا....قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا:اسلامی حکومت کے تصور کا یہ امتیاز پیشِ نظر رہنا چاہیے کہ اس میں اطاعت و وفاکیشی کا مرجع خدا کی ذات ہے، اسلام میں اصلا نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے نہ پارلیمنٹ کی، نہ کسی شخص کی یا ادارے کی، قرآن کریم کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کی حدود متعین کرسکتے ہیں...(قائد اعظم کے افکار و نظریات ص25).غیرمسلم انگریز اور اسلام پسند.....؟؟ یہ ہو ہی نہین سکتا، یہی وجہ ہے کہ قائد نے انگریزوں کو دشمن تک کہا تھا.قائد اعظم نے فرمایا:ہمیں نہ انگریزوں پر بھروسہ ہے نہ ہندو بنیے پر، ہم دونوں کے خلاف جنگ کریں گے، خواہ وہ آپس میں متحد کیوں نا ہو جائیں...(قائد اعظم کے افکار و نظریات ص36).1946میں قائد اعظم کی یہ تحریر اس قابل ہے کہ ہر ادارے میں قائد کی فوٹو کے بجاے یہ تحریر لٹکائی جاے..قائد اعظم فرماتے ہیں:میں مطمئین ہوں کہ قرآن و سنت کے زندہ جاوید قانون پر مبنی ریاست(پاکستان)دنیا کی بہترین اور مثالی سلطنت ہوگی،یہ اسلامی ریاست اسی طرح سوشلزم کمیونزم مارکسزم کیپٹل ازم کا قبرستان بن جاے گی..جس طرح سرورکائنات کا مدینہ اس وقت کے تمام نظام ہاے فرسودہ کا گورستان بنا...پاکستان میں اگر کسی نے روٹی(معیشت،دولت)کے نام پر اسلام.کے خلاف کام کرنا چاہایااسلام کی آڑ میں کیپٹل ازم،سوشلزم،کمیونزم یا مارکسزم کے لیے راہ ہموار کرنے کی کوشش کی تو پاکستان کی غیور قوم اسے کبھی برداشت نہیں کرے گی..یہ یاد رکھو کہ میں نہرو نہیں ہوں کہ وہ کبھی سیکولرسٹ بنتے ہیں کبھی مارکسٹ..میں تو اسلام.کے کامل نظام زندگی،خدائی قوانین کی بادشاہت پر ایمان رکھتا ہوں... مجھے عظیم فلاسفر اور مفکر ڈاکٹر اقبال سے نا صرف پوری طرح اتفاق ہے بلکہ میں انکا معتقد ہوںاور میرا ایمان ہے کہ اسلام ایک کامل ضابطہ حیات ہے..زندگی کی تمام مصیبتوں اور مشکلوں کا حل اسلام سے بہتر کہیں نہیں ملتا... سوشلزم کمیونزم مارکسزم کیپٹل ازم ہندو ازم امپیریل ازم امریکہ ازم روس ازم ماڈرن ازم یہ سب دھوکہ اور فریب ہیں..(نقوشِ قائد اعظم صفحہ 312،314,قائد اعظم کا مسلک ص137,138)..*اب رہی بات یہ کہ جناح اور اقبال کونسا اسلام پاکستان مین نافذ کرنا چاہتے تھے....؟؟ قادیانیوں والا یا شیعوں والا...؟؟ نجدیوں وہابیوں والا یا سنیوں والا...؟؟*.حقیقیت یہ ہے کہ دونوں بانیان اکثر اسلام اسلام قرآن و سنت کہا کرتے تھے....کھل کر فرقوں کی جھنجھٹ میں نہیں پڑتے تھے، قادیانیوں کو تو دو ٹوک خارج از اسلام کہا تھا البتہ سنی شیعہ وہابی کے معاملے میں اگرچہ زیادہ نہیں بولتے تھے مگر عمل اور کردار اہلسنت والے تھے انکے....مزار قبرستان جانا فاتحہ کرنا اولیاء کے دربار کی حاضری ، فاتحہ ایصال ثواب وغیرہ کرتے تھے جس سے پتہ چلتا ہے کہ قائد اور اقبال عملا اہلسنت تھے انہی کو حق سمجھتے تھےبلکہقولا بھی وہ اہلسنت تھے ملاحظہ کیجیے جناب محمد علی جناح اقبال کے بارے میں کہتے ہیں کہ:مجھے عظیم فلاسفر اور مفکر ڈاکٹر اقبال سے نا صرف پوری طرح اتفاق ہے بلکہ میں انکا معتقد ہوں(قائد اعظم کا مسلک ص137)اوراب علامہ اقبال کا آخری حتمی فیصلہ بھی سنیے....علامہ اقبال جب بہت بیمار ہوے تو آخر ایام میں وصیت لکھوائ تھی،جس میں یہ بھی تھا کہ:ملک ہندوستان میں مسلمانوں کی غلامی نے جو دینی عقائد کے نئے فرقے مختص کر لیے ہیں ان سے احتراز کرے...پھر چند سطر بعد فرماتے ہیں:غرض یہ ہے کہ طریقہ حضرات اہلِ سنت محفوظ ہے اور اسی پر گامزن رہنا چاہیے اور آئمہ اہلِ بیت کے ساتھ محبت اور عقیدت رکھنی چاہیے..(اوراق گم گشتہ صفحہ 468)ایسے موقع پے انسان جو وصیت لکھواتا ہے وہ اسکی زندگی اسکے نظریات اسکی تحقیق کا نچوڑ ہوتا ہے...*لیھذا ثابت ہوا کہ جناح اور اقبال اہلسنت تعلیمات پر یقین رکھتے تھے...اور اسلام کی اسی تشریح و تعلیمات کو برحق سمجھتے تھے جو مستند علماء اہلسنت نے کتابوں میں لکھی...اسی کا نفاذ اسلام کا نفاذ سمجھتے تھے...باقی اگر جناح و اقبال کے اس خلاف فرامیں یا اشعار ہوں تو وہ غیر معتبر موول یا مرجوح یا کفار وغیرہ دشمنوں کو چونا لگانا یا مجبوری سمجھا جائے گا کیوں جناح و اقبال کے مذکورہ قسم کے فرمامین ہی اصولِ اسلام کے موافق و برحق و معتبر ہیں.......!!*.پاکستان کا تصور کرنے والے... دو قومی نظریہ پیش کرنے والے... ہندو مسلم اتحاد کی دھجیاں اڑانے والے... تحریک پاکستان کے اصلی بانی محرک و کارکن اہلسنت علماء مشائخ و عوام اہلسنت ہی تھے باقی سرسید اقبال و جناح جیسے شروع میں مخالف تھے اور قادیانی ہمیشہ مخالف تھے ہیں لیکن شیعہ نجدی دیوبندی مخالف تھے مگر پاکستان بن جانے کے بعد شاید مخالفت ختم کر دی تھی دیوبندیوں وغیرہ نے...اصل ہیروز اہلسنت قائدین علماء مشائخ ورکز ہی تھے انہوں نے ہی فتوے دے... باءیکاٹ کیے اور الگ اسلامی ریاست کے مطالبات کیے......مشہور کانفرنسیں کیں جنہیں "آل انڈیا سنی کانفرنسز" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے....ان اصل ہیروز ، اصل مصوران و بانییان کا تذکرہ و سچی تاریخ پڑھنی ہو تو کم سے کم درج ذیل کتب کا مطالعہ لازمی ہے.1.پاکستان کیا ہے اور کیسے بنے گا2:مولانا نیازی نمبر(مجلہ انوار رضا)3:پاکستان بنانے والے علماء و مشائخ4:تحریک پاکستان اور علماء کرام5:تخلیق پاکستان میں علماء اہلسنت کا کردار6:خاص پاکستان نمبر(ماہنامہ نئی زندگئ1946)7:قائد اعظم.کا مسلک8:اقبال کے مذہبی عقائد9:اکابر تحریک پاکستان10:مجموعہ رسائل اسماعیل نقشبندیان تین کتابوں کی بھی تعریف سنی ہے11:منزل انھیں ملی جو شریک سفر نا تھے12:اوراقِ گم گشتہ13:تحریک پاکستان اور نیشنیلسٹ علماء.یہاں ایک اور بات عرض کرتا چلوں کہ اہلسنت لفظ بڑا وسیع ہے....اس میں تمام سنی تنظیمیں تحریکیں قادری چشتی سہروردی نقشبندی شاذلی عطاری حسنی حسینی حنفی شافعی حنبلی مالکی اشعری ماتریدی الغرض اہلسنت کی تمام چھوٹی بڑی شاخیں اہلسنت میں شامل ہیںاوردیوبند اہل حدیث غیرمقلد اہل تشیع وغیرہ فرقوں کی کافی عوامی تعداد اور کچھ خواص بھی اہلسنت میں شامل ہے....البتہ وہ دیوبند وہابی شیعہ وغیرہ جو گستاخیاں کرتے ہوں منافقت و ایجنٹیاں کرتے ہوں وہ اہلسنت مین شامل نہیں.اہلسنت جو فرقوں کا رد کرتے ہیں تو اس وجہ سے ان کو تفرقہ باز مت سمجھیےدیکھیں ایک فرقہ تفرقہ کرتا ہے تو جو اہل حق ہوتا ہے وہ مجبورا تفرقے والے کا رد کرتا ہے جس سے لوگ اہل حق کو بھی تفرقہ باز سمجھتے ہیں جوکہ سمجھ کی غلطی ہے... ہر ایک کو تفرقہ باز مت سمجھیے بلکہ پہچانیے کہ اہل حق کون اور تفرقہ باز کون...؟؟.یاد رکھیے ہر کوئی خود کو حق کہے گا...کیا چور منافق کبھی خود کو چور کرپٹ منافق کہے گا...؟؟ نہیں ناں.....!!تو پھر چوری کرپشن منافقت پکڑنی پڑتی ہے... اہلسنت کی کچھ عوام میں بدعملی بے عملی ملے گی مگر مستند علماء اہلسنت کی کتابوں اصولوں میں نا تو جھوٹ ملے گا نا منافقت نا گستاخی....اہلسنت کوئی فرقہ نہیں بلکہ اسلام کا دوسرا نام اہلسنت ہے...یہ نام صحابہ کرام نے اس وقت دیا جب نام نہاد منافق گستاخ خوارج بھی خود کو مسلمان کہلوانے لگے تو صحابہ کرام نے اسلام کو اہلسنت کا نام دیا تاکہ لوگوں کو لفظ مسلمان سے دھوکہ نا لگے ... اس لیے ہم بھی مسلمان کہلوانے کے ساتھ ساتھ صحابہ کرام کی دی ہوئی پہچان اہلسنت بھی کہلواتے ہین بلکہ اگر فقط اہلسنت کہہ دیا جائے تو بھی کوئی حرج نہین کیونکہ اہلسنت کا مطلب ہی سچا مسلمان ہے.اور یہ بھی ضرور یاد رکھیے کہ اسلام نے حدود میں رہتے ہوئے ادب و آداب اور دلائل و شواہد کے ساتھ اختلاف رکھنے کی اجازت ہے... یہ اختلاف آپ کو اہلسنت میں بھی ملے گا... اس سے دل چھوٹا مت کیجیے، اسے تفرقہ بازی مت سمجھیے..سچوں(کو پہچان کر ان)کا ساتھ دو(سورہ توبہ آیت119)دین و دنیا کو بدنام تو جعلی منافق مکار کر رہےہیں....عوام و خواص سب کو سمجھنا چاہیےکہ #جعلی_مکار_منافق تو علماء پیر اینکر لیڈر سیاست دان جج وکیل استاد ڈاکٹر فوجی وغیرہ افراد و اشیاء سب میں ہوسکتےہیں،ہوتے ہیںتوجعلی کی وجہ سے #اصلی سےنفرت نہیں کرنی چاہیےبلکہ اصلی کی تلاش اور اسکا ساتھ دینا چاہیے.اگر آپ حق کی پہچان کرکے حتی المقدور کسی نہ کسی طریقے سے حق کے ساتھ کھڑے نہ ہوئے تو بےشک آپ گونگے شیطان ہیں…"جو(بولنے کے شرعی مقام پے)حق(بولنے، حق کہنے، حق سچ بتانے)سے خاموش رہے وہ گونگا شیطان ہے(رسالہ قشیریہ 1/245).✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیرwhats App،twitter nmbr0092346839247503468392475other nmbr03062524574آپ میرا نام یا نمبر یا دونوں مٹا کر بلانام یا ناشر یا پیشکش لکھ کر اپنا نام ڈال کے آگے فاروڈ کرسکتے ہیں،کاپی پیسٹ کرسکتے ہیں،شئیر کرسکتے ہیں...نمبر اس لیے لکھتاہوں تاکہ تحقیق رد یا اعتراض کرنے والے یا مزید سمجھنے والےآپ سے الجھنے کےبجائے ڈائریکٹ مجھ سے کال یا وتس اپ پے رابطہ کرسکیں
سیاست کیا ہے؟ مولوی اور سیاست؟ ووٹ کس کا؟ جناح اقبال؟
January 26, 2024
0
Tags