Labels

انگلینڈ برطانیہ روس چین وغیرہ میں دعوت اسلامی یا کسی بھی سنی پر مورگیج سود جوا کا فتوا اکثر نہیں لگتا...تفصیل پڑہیے

 *#برطانیہ انگلینڈ لندن روس چین جاپان وغیرہ میں مورگیج سود کا فتوی دعوت اسلامی پر نہیں لگے گا کیونکہ سامنے والوں کا مال شرعا محفوظ و مامون ہی نہیں......!!*

خلاصہ:

اللہ کا واسطہ ہے دین کا کام کرنے والوں کو کام کرنے دو...کم علمی بےتوجہی تعصب حسد وغیرہ کی وجہ بدنام نہ کرو...ناحق بدنام نہ کرو...اگر کسی کام کی حکمت سمجھ نہیں  آ رہی تو علماء سے پرسنل رابطہ کرو...تحقیق کرو...کوئی راہ نکلتی ہو تو اسے مسدود نہ کرو…جب سے حنیف قریشی بمع کمپنی نے واویلا اٹھایا ہے کہ دعوت اسلامی زکوۃ صدقات کا پیسہ اسلام کا پیسہ سود میں ضائع کر رہی ہے کفار کو دے رہی ہے نا حق کر رہی ہے ظلم کر رہی ہے...کئ لوگ اس کے جھانسے میں اگئے... دعوت اسلامی کی دو چار ویڈیو دیکھی اس میں ایسے ایسے غلیظ کمنٹ تھے کہ دل خون کے انسو رو رہا تھا...

.

اے میرے بھائیو اگر دعوت اسلامی نے اگر بالفرض جرم کیا بھی ہے تو اپنے بھائی ہیں، انہیں بدنام نہ کرو، سمجھاؤ سلجھاؤ اور ان سے سوال کرو ، وضاحت پوچھو کہ ہمیں بتاؤ کہ یہ پیسہ بظاہر ناجائز کیوں دے رہے ہو کہیں تم مجبور ہو......؟؟ کیا بات ہے، کیا معاملہ ہے....،؟ تم تو بہت اچھے ہو پھر ایسے کام کیوں کر رہے ہو لیکن نہیں...بس غلیظ کمنٹ بدنامی مذمت ہمارا کام رہ گیا ہے...

.

چلو دعوت اسلامی حکمت یا مجبوری کے تحت جواب نہیں دے سکتی تو دوسرے علماء اہل سنت موجود ہیں ان سے پرسنل بحث کرو بات کرو پرسنل رابطہ کرو اور وہ بھی آپ سے متفق ہوں تو پیار بھرے انداز میں پیاری دعوت اسلامی کو کہو کہ پیارے بھاءیو فلاں کام مت کرو...شاید آپ لوگ بےتوجہی میں اسے جائز سمجھ کر کر رہے تھے مگر دیکھو معتدل سنی علماء کے مطابق بھی یہ چیز ناجائز ہے اس سے چھوڑ دو پیارے بھائیو... لیکن نہیں .... ویڈیو پہ ویڈیو مذمت پہ مذمت غلیظ ترین کمنٹ نفرت پھیلانا دعوت اسلامی سے... اللہ تمھیں ہدایت دے

.

بھائیو میں نہ تو دعوت اسلامی کا اجرتی ورکر ہوں نہ کوئی ذمہ دار ہوں اور  الحمد للہ تعالیٰ چاپلوس و چمچہ بھی نہیں... میرے دعوت اسلامی بلکہ قبلہ مفتی منیب الرحمن صاحب سے دو چار اختلافات رہے ہیں، میں حق سچ مناسب انداز و الفاظ میں کہنے کا عادی ہوں .... کسی سے ڈرتا نہیں....چاہے مجھے جان کی دھمکیاں ملیں یا مجھے نوکریوں سے نکال دیا جائے اور میں فقر و فاقے کاٹتا پھروں تب بھی میں حق ہی بیان کروں گا مجھے کسی کا ڈر نہیں میں بھوک سے مر جاؤں گا لیکن کبھی اسلام کا سودا نہیں کروں گا حق کا سودا نہیں کروں گا

.

حنیف قریشی بمع کمپنی نیم روافض کبھی کہتے ہیں انگلینڈ برطانیہ وغیرہ کو دارالحرب ثابت کرو کبھی کہتے ہیں دار الاسلام ہیں کبھی کہتے ہیں حربی زمی مسئلہ یہ مسئلہ وہ مسئلہ...... مگر حکمت و تحقیق تدییق شاید ان کے نصیب میں نہیں...لیکن اے نیم روافض اگر حکمت و باریکیاں نہیں ملیں تم لوگوں کو تو حاصل کرنے کی کوشش کرو .... حکمت و دانائی والے باریک بین علماء کے پاس بیٹھو ان سے بات چیت کرو....مگر نہیں... ہم نے تو دو چار لفظ پڑھ لیے دو چار حدیثیں پڑھ لیں دو چار مسائل پڑھ لیے اور لگ گئے فتوے بازی میں محقق اسلام مناظر اسلام کہلانے لگے....آہ کس سے شکوہ کریں....؟؟

.

دار الحرب دار الاسلام ذمی مستامن وغیرہ سب بحثیں مستقل طور پر نہیں ہیں بلکہ ان سے ایک مسئلہ اخذ کیا جاتا ہے کہ:

کس کا جان و مال اسلام کی نظر میں محفوظ ہے.....؟؟ اگر کسی غیر مسلم کا یا مسلمان کا اسلام کی نظر میں جان و مال محفوظ نہ ہو شریعت کی روشنی میں تو اس سے سود جوا وغیرہ فتوے نہیں لگاءیں گے کہ دوسری طرف مالِ محفوظ ہے ہی نہیں...جسکا مال محفوظ نہ ہو جان محفوظ نہ ہو شریعت کی روشنی میں تو اب اسکی سزا یہ ہے کہ اس کا پیسہ کوئی لوٹ لے یا اسکو کوئی جوا سود کے پیسے دے یا اس سے سود جوا کے پیسے لے تو ناجائز کا فتوی نہیں لگے گا کہ جوا سود تو اس پیسے مال پر لگتی ہے جو مالِ محفوظ ہو

.

اب ہم غور کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اگرچہ انگلینڈ برطانیہ وغیرہ دارالاسلام ہوں یا دارالحرب ہوں لیکن وہاں پر شرعی طور پر اسلامی حکمرانوں کی طرف سے انکو امان حاصل نہیں ہے تو وہاں کے لوگوں کا مال شرعا مال محفوظ نہیں ہے....اس لیے وہاں مسلمان پیسہ کماءے یا پیسہ دے سود جوا وغیرہ کے ذریعے تو بھی گناہ نہیں کہ سامنے والے کا مال شرعا محفوظ نہیں ہے تو گویا یہ یک طرفہ لین دین ہوا اور یک طرفہ لین دین میں نہ تو جوا شمار ہوگا نہ سود......!!

.

لیھذا ان ممالک میں دعوت اسلامی پر سود جوا وغیرہ کے فتوے نہیں لگ سکتے...دعوت اسلامی پر لازم ہے کہ اگرچہ سود جوا کے فتوے نہیں لگیں گے مگر وہ ایسا طریقہ اختیار کریں کہ اسلام کی ترویج و بھلائی مقصود ہو اور شک نہیں کہ دعوت اسلامی حکمت کے تحت سود مورگیج کر بھی رہی ہے تو دین اسلام کی سربلندی کے لیے...لیکن اسکا یہ مطلب نہین کہ اصلی سود بھی اسلام کی ترویج کے لیے حلال قرار دیا جائے...ہرگز نہیں...یہاں بات یہ ہو رہی ہے کہ شرعا جہاں سود جوا کا فتوی نہیں لگے گا وہاں بھی اسلام کی سربلندی کے لیے اسلام کی ترویج کے لیے ظاہری سود جوا کرنا پڑے تو حرج نہیں

.

 *#تو امید ہے اصل بات اپ سمجھ گئے ہوں گے کہ چاہے دالحرب ہو یا دار الاسلام اگر سامنے والے کا مال و جان  شرعا مالِ محفوظ جانِ محفوظ نہ ہو تو جوا سود قصاص قتل وغیرہ کا فتوی نہیں لگایا جا سکتا*

.

*#دلائل.و.حوالہ جات*

الحديث:

أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَيْنٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، وَهُوَ فِي سَفَرٍ، فَجَلَسَ عِنْدَ أَصْحَابِهِ يَتَحَدَّثُ، ثُمَّ انْفَتَلَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " اطْلُبُوهُ وَاقْتُلُوهُ ".

فَقَتَلَهُ فَنَفَّلَهُ  سَلَبَهُ

 بے شک نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص کو لایا گیا اور اس نے امان نہیں لی تھی تو وہ بھاگنے لگا تو حضور نے فرمایا اس کو قتل کر سکتے ہو اس کو پکڑ کے لے اؤ، ایک صحابی نے اس کو قتل کر دیا تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کا سارا مال اس صحابی کو دے دیا

(بخاری حدیث3051باب حربی دار الاسلام میں بغیر امان کے داخل ہو )

.

 امام بخاری نے باب جو باندھا ہے جو باب لکھا ہے وہ یہ لکھا ہے کہ غیر مسلم حربی دارالاسلام میں بغیر امان کے داخل ہو جائے تو اس کا کیا حکم ہوگا..... اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم سے ثابت ہوا کہ ایسا شخص کی جان مال شرعا محفوظ نہ کہلائے گی لہذا اس کے ساتھ اگر کوئی قتل کرتا ہے کوئی سود جوا وغیرہ کرتا ہے تو اس پر کوئی فتوی نہیں لگے گا کیونکہ حاکم اسلام کی امان کے بغیر اس کی جان اور مال شرعا محفوظ نہیں ہے لیھذا قتل قصاص جوا سود وغیرہ کا فتوی نہ لگے گا

.

 یہی وجہ ہے کہ علماء کرام نے  اس حدیث پاک کی روشنی میں امام اعظم ابو حنیفہ امام مالک امام احمد بن حنبل علیھم الرحمۃ کا یہ قول لکھا ہے کہ ایسے شخص کا مال اور جان شرعا محفوظ نہیں ہے تو لہذا سود  جوا قصاص وغیرہ کا معاملہ لاگو نہ ہوگا

.

محقق مدقق علامہ عینی حنفی اسی حدیث کی بنیاد پے لکھتے ہیں کہ:

وَقَالَ أَبُو حنيفَة وَأَبُو يُوسُف وَأحمد: لَا يقبل ذَلِك مِنْهُ، وَهُوَ فَيْء للْمُسلمين

 امام اعظم ابو حنیفہ امام ابو یوسف اور امام احمد فرماتے ہیں کہ ایسا شخص کا جان اور مال محفوظ نہیں ہے، اسکی جان و مال تو گویا اسکی اپنی ملکیت ہے ہی نہیں بلکہ وہ اور اسکا مال تو مسلمان کے لیے جائز ہے

(عمدۃ القاری شرح بخاری14/296)

.

محقق مدقق علامہ ابن حجر شافعی لکھتے ہیں:

 الْحَرْبِيِّ إِذَا دَخَلَ دَارَ الْإِسْلَامِ بِغَيْرِ أَمَانٍ وَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ وَأَحْمَدُ لَا يُقْبَلُ ذَلِكَ مِنْهُ وَهُوَ فَيْءٌ لِلْمُسْلِمِينَ

 غیرمسلم حربی اگر دارالاسلام میں بغیر امان کے داخل ہو تو امام اعظم ابو حنیفہ امام ابو یوسف اور امام احمد فرماتے ہیں کہ ایسا شخص کا جان اور مال محفوظ نہیں ہے، اسکی جان و مال تو گویا اسکی اپنی ملکیت ہے ہی نہیں بلکہ وہ اور اسکا مال تو مسلمان کے لیے جائز ہے

(فتح الباری شرح بخاری6/168ملتقطا)

.

الحربى يدخل دار الإسلام بغير أمان، فقال مالك: هو فيء لجميع المسلمين. وهو قول أبى حنيفة، وأبى يوسف

حربی غیرمسلم اگر دارالاسلام میں بغیر امان کے داخل ہو تو امام اعظم ابو حنیفہ امام ابو یوسف اور امام مالک فرماتے ہیں کہ ایسا شخص کا جان اور مال محفوظ نہیں ہے، اسکی جان و مال تو گویا اسکی اپنی ملکیت ہے ہی نہیں بلکہ وہ اور اسکا مال تو مسلمان کے لیے جائز ہے

(شرح بخاری ابن بطال5/213)

.

*#فقہ حنفی کی کتب سے چند حوالے.....!!*

وَلِأَنَّ مَالَهُمْ مُبَاحٌ، وَبِعَقْدِ الْأَمَانِ مِنْهُمْ لَمْ يَصِرْ مَعْصُومًا...وَحُكْمُ مَنْ أَسْلَمَ فِي دَارِ الْحَرْبِ، وَلَمْ يُهَاجِرْ كَالْحَرْبِيِّ عِنْدَ أَبِي حَنِيفَةَ لِأَنَّ مَالَهُ غَيْرُ مَعْصُومٍ عِنْدَهُ فَيَجُوزُ لِلْمُسْلِمِ الرِّبَا مَعَهُ، وَأَمَّا إذَا هَاجَرَ إلَيْنَا ثُمَّ عَادَ إلَيْهِمْ لَمْ يَجُزْ الرِّبَا مَعَهُ لِكَوْنِهِ أَحْرَزَ مَالَهُ بِدَارِنَا

 حربی غیرمسلم سے جو سود اور جوا وغیرہ معاملات کے فتوے لاگو نہیں ہوتے ان کی اصل وجہ یہ ہے کہ ان کا مال امان کی وجہ سے محفوظ نہیں ہو گیا بلکہ اس کا مال تو مسلمانوں کے لیے مباح ہے لہذا یہاں تو یک طرفہ معاملہ ہے تو سود اور جوا کا فتوی لگے گا ہی نہیں،

یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی دار الحرب میں مسلمان ہو جائے تو اب تک بادشاہ اسلام کی طرف سے اسے امان حاصل نہیں ہے تو اس کا مال شرعا مالِ محفوظ نہیں ہے اس لیے ایسے مسلمان سے بھی مسلمان اگر سود جوا وغیرہ کرے تو گناہ کا فتوی نہیں لگے گا، ہاں جب وہ دارالاسلام میں ا جائے اور بادشاہ اسلام کی امان اس کو مل جائے تو اسکا مال شرعا محفوظ ہوجائے گا تو اب یہ دارالحرب میں بھی چلا جائے تو بھی وہاں اس کے ساتھ سودی معاملہ نہیں کر سکتے کیونکہ امان کے ذریعے سے اس نے اپنے مال کو شرعا محفوظ بنا لیا ہے

(البحر الرائق6/148)

.

 تو احباب گرامی اپ سمجھ گئے ہوں گے کہ سود جوا وغیرہ کے جو فتوے ہیں اس کا تعلق نہ تو دارالحرب سے ہے نہ دارالاسلام سے ہے نہ زمی سے ہے نہ مستامن سے ہے... اس کی اصل علت امام اعظم ابو حنیفہ اور اور امام مالک اور امام احمد کے نزدیک یہ ہے کہ کس کا مال شرعا محفوظ ہے حاکم اسلام کی امان کی وجہ سے اور کس کا محفوظ نہیں.....جسکا مال محفوظ نہیں تو دارالحرب ہو یا دارالاسلام اس کے ساتھ سود جوا وغیرہ کے فتوے نہیں لگیں گے اور جس کا مال محفوظ ہے شرعا تو وہ دارالحرب میں ہو یا دارالاسلام میں ہو اس کے ساتھ سود جوا کے فتوے لگیں گے

.

وَأَمَّا شَرَائِطُ جَرَيَانِ الرِّبَا (فَمِنْهَا) أَنْ يَكُونَ الْبَدَلَانِ مَعْصُومَيْنِ، فَإِنْ كَانَ أَحَدُهُمَا غَيْرَ مَعْصُومٍ لَا يَتَحَقَّقُ الرِّبَا عِنْدَنَا، وَعِنْدَ أَبِي يُوسُفَ هَذَا لَيْسَ بِشَرْطٍ، وَيَتَحَقَّقُ الرِّبَا، وَعَلَى هَذَا الْأَصْلِ يَخْرُجُ مَا إذَا دَخَلَ مُسْلِمٌ دَارَ الْحَرْبِ تَاجِرًا فَبَاعَ حَرْبِيًّا دِرْهَمًا بِدِرْهَمَيْنِ، أَوْ غَيْرَ ذَلِكَ مِنْ سَائِرِ الْبُيُوعِ الْفَاسِدَةِ فِي حُكْمِ الْإِسْلَامِ أَنَّهُ يَجُوزُ عِنْدَ أَبِي حَنِيفَةَ وَمُحَمَّدٍ

 سود کا فتوی اس وقت لاگو ہوگا کہ جب دونوں طرف سے مال شرعا محفوظ ہو... لہذا اگر ایک طرف سے شرعا مال محفوظ نہ ہو تو سود کا فتوی نہیں لگے گا امام اعظم ابو حنیفہ اور امام محمد کے نزدیک..... اس اصول کے تحت کچھ مسائل ثابت ہوتے ہیں مثلا

 ایک مسلمان دارالحرب علاقے میں گیا اور حربی غیرمسلم سے سودی وغیرہ معاملات کییے تو امام اعظم ابو حنیفہ اور امام محمد کے نزدیک سود کا فتوی نہیں لگے گا(کیونکہ حربی کا مال شرعا مال محفوظ ہی نہیں تھا تو یہ یک طرفہ معاملہ ہوگیا تو سود جوا کا فتوی نہ لگے گا)

(البدائع الصنائع5/192)

.

لَوْ دَخَلَ دَارَنَا بِأَمَانٍ فَبَاعَ مِنْهُ مُسْلِمٌ دِرْهَمًا بِدِرْهَمَيْنِ لَا يَجُوزُ....وَإِذَا دَخَلَ الْمُسْلِمُ دَارَ الْحَرْبِ بِأَمَانٍ، فَلَا بَأْسَ بِأَنْ يَأْخُذَ مِنْهُمْ أَمْوَالَهُمْ بِطِيبِ أَنْفُسِهِمْ بِأَيِّ وَجْهٍ كَانَ لِأَنَّهُ إنَّمَا أَخَذَ الْمُبَاحَ عَلَى وَجْهٍ عَرَى عَنْ الْغَدْرِ فَيَكُونُ ذَلِكَ طَيِّبًا لَهُ وَالْأَسِيرُ وَالْمُسْتَأْمَنُ سَوَاءٌ حَتَّى لَوْ بَاعَهُمْ دِرْهَمًا بِدِرْهَمَيْنِ أَوْ بَاعَهُمْ مَيْتَةً بِدَرَاهِمَ أَوْ أَخَذَ مَالًا مِنْهُمْ بِطَرِيقِ الْقِمَارِ فَذَلِكَ كُلُّهُ طَيِّبٌ لَهُ....لِأَنَّ مَالَهُ غَيْرُ مَعْصُومٍ

 کیونکہ شرعا کسی کا مال محفوظ نہ ہو تو سود کا معاملہ جوا کا معاملہ اور فتوی لاگو نہیں ہو سکتا.... یہی وجہ ہے کہ اگر امان لے کر کوئی غیر مسلم اپنا مال شرعی طور پر محفوظ بنا لے تو اس کے ساتھ سودی معاملات جائز نہیں ہے.... یہی وجہ ہے کہ دارالحرب میں موجود کفار کہ جن کا مال مباح ہے مال شرعا محفوظ نہیں ہے امان کی وجہ سے تو ر ان کا مال ان کی مرضی سے جوا کے ذریعے سے سود کے ذریعے سے کسی کسی بھی طریقے سے لے سکتے ہیں کوئی حرج نہیں ہے یہ مسلمان کے لیے پاکیزہ حلال مال ہے(کہ سامنے والے کا مال امان کے ذریعے سے شرعا محفوظ ہی نہیں تو سود جوا کے فتوے نہیں لگیں گے)

(ردالمحتار المعروف فتاوی شامی5/186ملتقطا)

.

سیدی اعلی حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا علیہ الرحمہ نے مختلف مسائل ذکر کرنے کے بعد اخری نتیجہ یہی نکالا کہ ربا سود وغیرہ اس وقت ہوتا ہے جب سامنے کسی کا مال محظور ہو یعنی مال شرعا محفوظ و مامون ہو امان کی وجہ سے...چاہے دار الحرب ہو یا دار الاسلام کوئی فرق نہیں پڑتا..لیھذا برطانیہ انگلینڈ روس چین جاپان وغیرہ میں سامنے والے کا مال شرعا محظور و مامون و محفوظِ شرعی نہ ہو تو سود جوا وغیرہ کا فتوی نہیں لگے گا....غور سے پڑہیے سیدی امام احمد رضا لکھتے ہیں:

.

یہیں  سے ظاہر ہوگیا کہ اس مسئلہ میں  ماخوذ منہ کا کافر حربی *#خواہ محل اخذ کا دارالحرب ہونا ضرور نہیں*  کما تشھد بہ مسائل المولی والشرکاء(جیسا کہ مالک اور شریکوں  کے مسئلے اس پر گواہ ہیں ۔ت)صرف انتفائے حقیقت و قصد ربا، درکار ہے کہ اس کے بعد نہ عنداﷲ ارتکاب حرام نہ اپنے زعم میں  مخالفت شرع پر اقدام، علماء نے کہ مسئلہ حربی میں  قید دارالحرب ذکر فرمائی اس کا منشاء اخراج مستامن ہے کہ اس کا مال مباح نہ رہا۔ردالمحتار میں  ہے :ۤقولہ ثم ای فی دارالحرب قید بہ لانہ دخل دار نا بامان فباع منہ مسلم درھما بدر ھمین لایجوز اتفاقا ط عن المسکین ۲؎۔ماتن کا قول''وہاں  یعنی دارالحرب، یہ قید اس لئے کہ اگر کوئی حربی ہمارے ملک میں  امان لے کر داخل ہوا پھر کسی مسلمان نے اس کے ہاتھ ایک درہم دو درہموں  کے عوض فروخت کیا تو بالاتفاق ناجائز ہے ط نے مسکین سے نقل کیا۔(ت) (۲؎ ردالمحتار     کتاب البیوع    باب الربا     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۴/ ۱۸۸)ہدایہ میں  ہے :لاربا بین المسلم والحربی فی دارالحرب بخلاف المستامن منھم لان مالہ صار محظورا بعقد الامان اھ ۱؎ملخصا۔مسلمان اور حربی کے درمیان دارالحرب میں  کوئی سود نہیں  بخلاف حربی مستامن کے کیونکہ *#عقد امان کی وجہ سے اس کا مال ممنوع ہوگیا* اھ تلخیص (ت)(۱؎ الہدایہ     کتاب البیوع  باب الربا  مطبع یوسفی لکھنؤ ۳ /۸۷)فتح القدیر میں  مبسوط سے ہے :اطلاق النصوص فی المال المحظور وانما یحرم علی المسلم اذاکان بطریق الغدر فاذالم یاخذ غدر فبای طریق اخذہ حل بعد کونہ برضا، بخلاف المستامن منھم عندنا لان مالہ صار محظورابالامان فاذا اخذہ بغیرالطریق المشروعۃ یکون غدرا۲؎۔نصوص کااطلاق ممنوع مال میں  ہے حربی کا مال مسلمان پر صرف اس صورت میں  حرام ہوتا ہے جب وہ دھوکے سے لے، چنانچہ جب اس نے دھوکہ کے بغیر لیا چاہے جس طریقے سے لیا ہو تو اس کےلئے حلال ہے بشرطیکہ اس حربی کی رضامندی سے لیا ہو بخلاف حربی مستأمن کے دارالاسلام میں  کیونکہ اس کا مال امان کی وجہ سے ممنوع ہوگیا لہٰذا ا سکو اگر جائز طریقے کے علاوہ لیا ہو تو دھوکہ ہوگا۔(ت)(۲؎ فتح القدیر     باب الربا     مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر    ۶/ ۱۷۸)

*#بالجملہ حقیقت ربا اموال محظورہ میں  متحقق ہوتی ہے* کما سمعت اٰنفا(جیسا کہ تونے ابھی سنا ہے۔ت)

(فتاوی رضویہ جلد17 صفحہ313, 314)

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

old but working whatsap nmbr

03468392475

00923468392475

New but second whatsapp nmbr

03062524574

00923062524574

رابطہ اولڈ وٹس اپ نمبر پے فرماءیے مگر دونوں نمبر سیو رکھیے اور گروپس میں بھی دونون نمبر شامل کرکے ایڈمین بنا دیجیے کہ پرانہ نمبر کبھی کبھار گربڑ کرتا ہے تو نیو نمبر سے دینی خدمات جاری رکھ سکیں...جزاکم اللہ خیرا

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.