Labels

روایات میں سے 50 روایات کو من گھڑت جھوٹی قرار دینے والی تحریر پر ہمارا تبصرہ اور واعظین کی قدر و مدد کیجیے، لٹھ اٹھا کر ان پر چڑھ نہ دوڑییے


`*#روایات میں سے 50 روایات کو من گھڑت جھوٹی قرار دینے والی تحریر  پر ہمارا تبصرہ اور واعظین کی قدر و مدد 
۔کیجیے، لٹھ اٹھا کر ان پر چڑھ نہ دوڑییے۔۔۔۔۔۔۔!!*`


تحریر میں شدت اور سختی کرتے ہوئے من گھڑت جھوٹی روایت ہونے کا کہا گیا ہے
جبکہ
قرآن و حدیث میں حکم ہے کہ بدگمانی  بچا جائے،اچھا گمان رکھا ,عمل و کلام و روایت کو
حتی الامکان
 اچھے محمل،اچھے معنی پے رکھاجائے
(دیکھیےسورہ حجرات12 ۔فتاوی حدیثیہ1/223...فتاوی العلماءالکبار فی الارہاب فصل3...فھم الاسلام  ص20...الانوار القدسیہ ص69)
۔
اس لیے ہم نے کوشش کی ہے کہ من گھڑت من گھڑت جھوٹی جھوٹی کی رٹ لگانے کی بجائے دیگر ایات و احادیث وغیرہ سے اگر اس کا معنی نکلتا ہے تو اس کو بیان کر کے ہم نے بیان کرنے کا انداز بھی بتا دیا لہذا یہ مت سمجھیے کہ ہم نے تاویل کی ہے بلکہ ہم نے جا بجا قران اور احادیث پر عمل کرتے ہوئے درست معنی کی طرف توجہ 
دلائی ہے
۔
*#`تحریر میں تھا کہ`*
50 مشہور من گھڑت روایات...سلمہ بن الاکوعؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللّٰہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص میرے نام سے وہ بات بیان کرے جو میں نے نہیں کہی تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔{صحیح بخاری:109}
۔
`*#ہمارا تبصرہ*`
حدیث پاک کا ترجمہ تو درست لکھا ہے لیکن سیدنا سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کے نام کے ساتھ شارٹ کٹ میں رض لکھا ہے۔۔۔جس سے لگتا ہے کہ یہ تحریر کسی کم علم نے لکھی ہے کیونکہ عالم حضرات محققین حضرات شارٹ کٹ نہیں لکھتے بلکہ وہ پورا درود و سلام لکھتے ہیں اور پورا رضی اللہ تعالی عنہ لکھتے ہیں 
۔
*#عرض*
تمام احباب سے گزارش ہے کہ میرا مشہور واٹسپ نمبر 03468392475 کئ دنوں سے بلاک ہے٫ریویو کا آپشن بھی نہیں آ رہا، ماہرین کہتے ہیں کہ مستقل بلاک کر دیا ہے وٹسپ والوں نے۔۔تقریبا700واٹسپ گروپ تھے جس میں تحریرات بھیجا کرتا تھا۔۔اپ سے گزارش ہے کہ میرا نیا واٹسپ نمبر 03062524574 سیو کیجئے اور وٹسپ گروپوں میں ایڈ کرکے ایڈمین بنا دیجئے تاکہ میں پہلے سے بھی بڑھ کر دین کی خدمت کر سکوں ، علمی اصلاحی تحقیقی تحریرات زیادہ سے زیادہ پھیلا سکوں
.
*#تحریر میں تھا کہ*
افسوس سوشل میڈیا فیس بک  ٹوٸیٹر  انسٹاگرام ۔۔۔اور ممبروں پر بڑے چھوٹے علما ٕ بغیر تحقیق کے ان من گھڑت روایات کو پھیلاتے نظر آتے ہیں۔ان من گھڑت روایات کو زیادہ سے زیادہ share کریں اور کار خیر میں حصہ لیں۔تاکہ ہر ایک پر حقیقت واضح ہو جاٸے۔
۔
`*#ہمارا تبصرہ*`
محقق حضرات سچی بات لکھتے ہیں وہ یوں لکھتے ہیں کہ بعض لوگ ، بعض خطیب ، بعض علماء بھی من گھڑت روایت بیان کرتے ہیں افسوس۔۔۔۔لیکن جس نے یہ تحریر لکھی اس نے تو لفظ بعض لکھا ہی نہیں بلکہ چھوٹے بڑے علماء سب کو رگڑا دے دیا کہ سارے لوگ سارے سوشل میڈیا کے لوگ سارے علماء چاہے وہ چھوٹے ہوں چاہے وہ بڑے ہوں سب اس مردود کام میں ملوث ہیں۔۔۔یہ انداز بالکل ٹھیک نہیں ہے سارے علماء پر اعتراض کرنا ٹھیک نہیں ہے اج بھی محتاط اور محققین علمائے کرام مفتیان عظام موجود ہیں سوشل میڈیا پر بھی موجود ہیں۔۔۔اللہ کریم ان کا سایہ ہم پر تا دیر قائم و دائم رکھے
۔
`*#اہم بات*`
ہمیں تھوڑا سا کیا علم اگیا کہ ہم لٹھ اٹھا کر خطیب حضرات واعظین پر چڑھ دوڑتے ہیں کہ تم نے کفر کر دیا تم نے من گھڑت حدیث بیان کر دی تم نے جھوٹ بولا یہ بات وہ بات۔۔۔۔حالانکہ واعظین اور خطباء حضرات ہمارے لیے اسلام کے لیے بہت بڑا عظیم اثاثہ ہیں۔۔۔ان کی اگر کسی بات کی طرف توجہ نہیں گئی تو اپ انہیں طریقہ عرض کریں کہ فلاں بات کو بعض علماء نے لکھا ہے لیکن بعض نے من گھڑت کہا ہے تو اپ تقریر اس انداز میں کیجئے کہ یوں کہیے احتیاط کے الفاظ کہیے کہ بعض کتب میں اتا ہے کہ ایسا تھا ویسا تھا تو ان کتب کی روشنی میں فلاں فلاں نکات نکلتے ہیں ایسے انداز میں تقریر کیجیے وعظ کیجئے اور ساتھ میں یہ بھی بتا دیجیے کہ بعض علماء نے فرمایا ہے کہ ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا لیکن بعض نے فرمایا ہے کہ ایسا ہے تو ہم احتیاط کرتے ہوئے نہ تو کنفرم طور پر نفی کریں گے اور نہ ہی کنفرم طور پر ثابت مانیں گے بلکہ یوں کہیں گے کہ بعض کتب میں ایا ہے تو اس حوالے سے فلاں فلاں نکات نکلتے ہیں۔ انہیں عرض کیجئے کہ فلاں حدیث تو نہیں لیکن اس کا مفہوم معنی احادیث مبارکہ سے ثابت ہے اس طرح کا طرز اپنائیں۔۔۔واعظین اور خطباء حضرات کی تعریف کیجئے ان کی حوصلہ افزائی کیجئے کہ اج تک انہوں نے محاذ سنبھالا ہوا ہے اور پھر ان کی مدد کیجئے اور کوشش کیجئے کہ اپنی طرف سے سمجھانے کے بجائے کسی بڑے عالم کے واسطے سے ان تک پیغام پہنچائیے کہ فلاں فلاں احتیاط کی جائے۔۔۔اور لوگوں میں یہ مشہور مت کیجئے کہ فلاں خطیب نے جھوٹی من گھڑت روایت پیش کر دی بلکہ جہاں تک ممکن ہو سکے اس روایت کا ملتا جلتا کوئی معنی ملتا ہو یا کوئی تاویلی معنی ملتا ہو تو وہ پیش کر کے کہہ دیجیے کہ خطیب صاحب کا یہ مقصود ہوگا یہ معنی مقصود ہوگا کیونکہ سچے اچھے خطیب کے بارے میں یہ گمان نہیں کیا جا سکتا کہ وہ جان بوجھ کر غیر حدیث کو جھوٹ کو حدیث کہے۔۔۔بلکہ وہ تو کتاب پر بھروسہ کرتے ہوئے کسی تقریر کو سن کر عالم دین پر بھروسہ کرتے ہوئے حدیث کہہ دیتا ہے اگرچہ وہ تاویلی طور پر یا روایت بالمعنی کے طور پر حدیث ہوتی ہے یا وہ چیز حدیث سے ثابت ہوتی ہے تو خطباء حضرات کو ترقی دلائیے علمی ترقی دلائیے انہیں کتب فراہم کیجیے انہیں بڑے علماء کے ذریعے سے سمجھوائیے۔۔۔ حدیث پاک میں بھی ان کی مذمت ہے کہ جو جانتے ہوں کہ یہ حدیث نہیں ہے پھر بھی وہ اس کو حدیث کہیں تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لیں
۔
`*#اہم قاعدہ*`
کسی حدیث کی سند موجود نہ ہو تو اس سے لازم نہیں اتا کہ وہ من گھڑت ہو۔۔۔اسی طرح علماء کرام فرمائیں کہ روایت صحیح نہیں یا فرمائیں روایت کی اصل نہیں تو بھی اس سے حدیث کا روایت کا من گھڑت ہونا جھوٹا ہونا ثابت نہیں ہوتا۔۔۔روایت پر من گھڑت اور جھوٹی ہونے کا فتوی اس وقت دیا جا سکتا ہے جب درج زیل امور پائے جائیں۔۔۔یہ امور مجدد دین و ملت امام احمد رضا علیہ الرحمہ نے خلاصہ کرکے بیان فرمائے
۔
`*#مجدد دین و ملت سید امام احمد رضا علیہ الرحمہ فرماتے ہیں*`
، ہاں موضوعیت یوں ثابت ہوتی ہے کہ اس روایت کا مضمون (۱) قرآن عظیم (۲) سنت متواترہ (۳) یا اجماعی قطعی قطعیات الدلالۃ (۴) یا عقل صریح (۵) یا حسن صحیح (۶) یا تاریخ یقینی کے ایسا مخالف ہوکہ احتمال تاویل وتطبیق نہ رہے۔(۷) یا معنی شنیع وقبیح ہوں جن کا صدور حضور پرنور صلوات اللہ علیہ سے منقول نہ ہو، جیسے معاذاللہ کسی فساد یا ظلم یا عبث یا سفہ یا مدح باطل یا ذم حق پر مشتمل ہونا۔(۸) یا ایک جماعت جس کا عدد حد تواتر کو پہنچے اور ان میں احتمال کذب یا ایک دوسرے کی تقلید کا نہ رہے اس کے کذب وبطلان پر گواہی
عہ: زدتہ لان التواتر لایعتبر الافی الحسیات کمانصوا علیہ فی الاصلین ۱۲ منہ (م)میں نے اس کا اضافہ کیا کیونکہ تواتر کا اعتبار حسیات کے علاوہ میں نہیں ہوتا جیسے کہ انہوں نے اصول میں اس کی تصریح کی ہے ۱۲ منہ (ت) (۹) یا خبر کسی ایسے امر کی ہوکہ اگر واقع ہوتا تو اس کی نقل وخبر مشہور ومستفیض ہوجاتی، مگر اس روایت کے سوا اس کا کہیں پتا نہیں۔(۱۰) یا کسی حقیر فعل کی مدحت اور اس پر وعدہ وبشارت یا صغیر امر کی مذمت اور اس پر وعید وتہدید میں ایسے لمبے چوڑے مبالغے ہوں جنہیں کلام معجز نظام نبوت سے مشابہت نہ رہے۔ یہ دس۱۰ صورتیں تو صریح ظہور ووضوح وضع کی ہیں۔(۱۱) یا یوں حکم وضع کیا جاتا ہے کہ لفظ رکیک وسخیف ہوں جنہیں سمع دفع اور طبع منع کرے اور ناقل مدعی ہوکہ یہ بعینہا الفاظ کریمہ حضور افصح العرب صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ہیں یا وہ محل ہی نقل بالمعنی کا نہ ہو۔(۱۲) یا ناقل رافضی حضرات اہلبیت کرام علی سیدہم وعلیہم الصلاۃ والسلام کے فضائل میں وہ باتیں روایت کرے جو اس کے غیر سے ثابت نہ ہوں، جیسے حدیث:لحمک لحمی ودمک دمی(تیرا گوشت میرا گوشت، تیرا خون میرا خون۔ ت)اقول انصافا یوں ہی وہ مناقب امیر معاویہ وعمروبن العاص رضی اللہ تعالی عنہما کہ صرف نواصب کی روایت سے آئیں کہ جس طرح روافض نے فضائل امیرالمومنین واہل بیت طاہرین رضی اللہ تعالی عنہم میں قریب تین لاکھ حدیثوں کے وضع کیں''کمانص علیہ الحافظ ابویعلی والحافظ الخلیلی فی الارشاد''(جیسا کہ اس پر حافظ ابویعلی اور حافظ خلیلی نے ارشاد میں تصریح کی ہے۔ ت) یونہی نواصب نے مناقب امیر معویہ رضی اللہ تعالی عنہ میں حدیثیں گھڑیں کماارشد الیہ الامام الذاب عن السنۃ احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالی (جیسا کہ اس کی طرف امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالی نے رہنمائی فرمائی جو سنت کا دفاع کرنے والے ہیں۔ ت)
(۱۳) یا قرائن حالیہ گواہی دے رہے ہوں کہ یہ روایت اس شخص نے کسی طمع سے یاغضب وغیرہما کے باعث ابھی گھڑکر پیش کردی ہے جیسے حدیث سبق میں زیادت جناح اورحدیث ذم معلمین اطفال۔(۱۴) یا تمام کتب وتصانیف اسلامیہ میں استقرائے تام کیاجائے اور اس کاکہیں پتانہ چلے یہ صرف اجلہ حفاظ ائمہ شان کاکام تھاجس کی لیاقت صدہاسال سے معدوم۔(۱۵) یاراوی خود اقرار وضع کردے خواہ صراحۃ خواہ ایسی بات کہے جو بمنزلہ اقرار ہو،مثلا ایک شیخ سے بلاواسطہ بدعوی سماع روایت کرے ، پھراس کی تاریخ وفات وہ بتائے کہ اس کااس سے سننامعقول نہ ہو
(فتاوی رضویہ464 ,5/462)
.
#################
`*#نوٹ*`
اس نشان 👈کےبعد جو لکھا ہوگا وہ مشھور تحریر کا ہوگا اور اس پر ہم تبصرہ لکھیں گے تو لکھیں گے "ہمارا تبصرہ"
۔
👈*1:* ایک بڑھیا نبی کریمﷺ پر کوڑا پھینکا کرتی تھی۔ من گھڑت ہے
۔
`*#ہمارا تبصرہ*`
من گھڑت لکھا گیا ہے لیکن شکر ہے کہ اس بات کو لے کر جو باتیں لکھی جاتی ہیں کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے ایک عورت کوڑا پھینکے اور صحابہ کرام اس کو سزا نہ دیں اور پھر کہا جاتا ہے یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ رسول کریم اپنی بےعزتی برداشت کرتے رہیں۔۔۔۔اس قسم کے نکات نکالنا اچھی بات نہیں ہے درست بات نہیں ہے۔۔۔کیونکہ ممکن ہے ایسا واقعہ ہوا ہو کہ بڑھیا کوڑا پھینکتی ہو لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمانہ اسے معاف کر دیتے ہوں... یہ بےعزتی کو برداشت کرنا نہیں بلکہ کسی کی طرف سے ملنے والی اذیت کو برداشت کرنا ہے جیسے کہ صحیح روایت میں ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف والوں نے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پتھر مارے خون الودہ کر دیا تو بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اخلاق کریمانہ کا مظاہرہ کیا۔۔۔ممکن ہے بوڑھی عورت کوڑا پھینکتی ہو لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو نہ بتایا ہو تو صحابہ کرام نے اس کو نہ ڈانٹا ہو، نہ روکا ہو کیونکہ صحابہ کرام کو تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہی نہیں تھا تو وہ کیسے روکتے۔۔۔خیر اتنی بات درست ہے کہ اس واقعے کو یوں کہہ کر بیان نہیں کرنا چاہیے کہ ایسا واقعہ واقعی میں ہوا تھا بلکہ اگر بیان بھی کیا جائے تو کہا جائے کہ کہتے ہیں کہ ایسا واقعہ ہوا لیکن معتبر کتب میں ایسا نہیں ملا تو ممکن ہے ایسا واقعہ ہوا ہو لیکن کتب میں نہ لکھا گیا ہو اور یہ واقعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمانہ کے دیگر واقعات سے ملتا جلتا بھی ہے 
۔
##############
۔
👈*2:*  بلالؓ شین کو سین پڑھا کرتے تھے اور انکو آذان دینے سے روکا تو سورج طلوع نہیں ہوا۔۔ دونوں روایات من گھڑت ہیں
.
`*#ہمارا تبصرہ*`
کافی تلاش کے باوجود ایسا کوئی واقعہ نہیں ملا کہ سیدنا بلال رضی اللہ تعالی عنہ نے اذان نہ دی ہو تو سورج طلوع نہ ہوا ہو لیکن وہ جو بات ہے کہ سیدنا بلال رضی اللہ تعالی عنہ شین کو سین پڑھتے تھے۔۔۔اس کو موضوع من گھڑت جھوٹی روایت کہنا مناسب نہیں لگتا، یوں کہنا چاہیے کہ بعض کتب میں لکھا ہے کہ سیدنا بلال شاید کبھی کبھار شین کو اس انداز میں ادا فرماتے کہ سین معلوم ہوتا لیکن زیادہ معتبر کتب میں ہے کہ ایسا  نہیں تھا۔۔۔جب بعض کتب میں ہے کہ شین کو سین ادا فرماتے تھے بلال تو اس روایت کو کنفرم طور پر من گھڑت جھوٹی کہنا اور کفر کے فتوے لگانا درست معلوم نہیں ہوتا ہاں یوں کہنا چاہیے کہ بعض کتب میں اگرچہ ایا ہے لیکن درست بات یہ ہے کہ سیدنا بلال شین کو شین ہی ادا فرماتے تھے لیکن جو کہے کہ شین کو سین ادا فرماتے تھے تو اس پر کفر کا فتوی نہیں لگا سکتے، اس پر یہ فتوی نہیں لگا سکتے کہ اس نے جان بوجھ کر قطعا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بہتان باندھا ہے
۔
، ولكن قد أورده الموفق ابن قدامة في المغني بقوله: روي أن بلالاً كان يقول أسهد، يجعل الشين سيناً، والمعتمد الأول
امام سخاوی فرماتے ہیں کہ امام ابن قدامہ فرماتے ہیں کہ روایتوں میں ہے کہ سیدنا بلال اسھد پڑھا کرتے تھے یعنی شین کو سین پڑھتے تھے لیکن امام سے سخاوی فرماتے ہیں معتبر بات یہ ہے کہ سیدنا بلال شین کو شین ہی ادا فرماتے تھے
(المقاصد الحسنۃ1/247)
۔
 كان بلال يقلبُ الشِّينَ سينًا، فقال النبي ﷺ: "إنَّ سِينَ بلال عند اللَّه شِينٌ"
سبط ابن جوزی لکھتے ہیں کہ سیدنا بلال رضی اللہ تعالی عنہ شین کو سین پڑھتے تھے تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ بلال کا سین اللہ کے ہاں شین ہی ہے
(مرآة الزمان في تواريخ الأعيان5/336)
۔
........سين بلال شين في الجنة، ولا يلزم من كون هذه الرواية لا أصل لها أن تكون تلك الرواية كذلك
علامہ حلبی فرماتے ہیں کہ روایتوں میں ہے کہ سیدنا بلال شین کو سین پڑھتے تھے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بلال کا سین اللہ کے نزدیک شین ہے ابن کثیر وغیرہ علماء نے فرمایا کہ اس روایت کی کوئی اصل نہیں لیکن علامہ حلبی بھی فرماتے ہیں کہ جب بعض کتب میں روایت موجود ہے تو ضروری نہیں کہ یہ من گھڑت کہلائے
(السيرة الحلبية 2/142)
۔
##############
👈*3:* اویس قرنی ؒ کا اپنے دانت مبارک توڑنے والی روایت من گھڑت ہے۔
۔
`*#ہمارا تبصرہ*`
اہل سنت کے جید علماء کرام متقدمین متاخرین نے واقعی اس واقعے کو من گھڑت جھوٹا قرار دیا ہے اور وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ شریعت مطہرہ نے اپنے اپ کو نقصان پہنچانے سے سختی سے روکا ہے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک تھوڑے سے شہید ہوئے تو اس کو دیکھ کر صحابہ کرام کے لیے جائز نہیں تھا کہ وہ اپنے اپ کو تکلیف پہنچاتے دانت توڑتے کیونکہ یہ اللہ کا حکم تھا اور رسول کا حکم تھا کہ اپنے اپ کو جان بوجھ کر تکلیف نہیں پہنچانی نقصان نہیں پہنچانا۔ زخمی نہیں کرنا 
۔
لیکن اس واقعے کا دوسرا رخ ہے جو مجھے سمجھ میں ایا وہ یہ ہے کہ سیدنا اویس قرنی تابعی رضی اللہ تعالی عنہ نے خود دانت اپنے نہیں توڑے بلکہ ان کا عشق اس قدر بہت زیادہ تھا کہ ادھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچی وہی تکلیف اویس قرنی کو پہنچی، وہ تکلیف خود بخود پہنچی، دانت خود بخود ٹوٹ گئے،لہذا یہ شریعت مطہرہ کے حکم کے خلاف نہیں کیونکہ سیدنا اویس قرنی نے خود جان بوجھ کے نقصان تو نہیں پہنچایا اپنے اپ کو۔۔۔لہذا شیعہ کے مرچ مصالحے بھی باطل ہوئے کہ جی سیدنا اویس قرنی نے دانت توڑ کر ماتم کیا تو ہم بھی ماتم کرتے ہیں یہ شیعہ کے مرچ مصالحے باطل ثابت ہوئے 
۔
ورأيت في الطبقات لمولانا الشيخ عبد الوهاب الشعراني نفعنا الله ببركاته، أن أويسا القرني كان مشغولا بخدمة والدته، فلذلك لم يجتمع بالنبيّ صلى الله عليه وسلم.وقد روي أنه اجتمع به مرات وحضر معه وقعة أحد وقال: والله ما كسرت رباعيته صلى الله عليه وسلم حتى كسرت رباعيتي ولا شجّ وجهه الشريف حتى شجّ وجهي
علامہ حلبی فرماتے ہیں کہ میں نے امام عبدالوہاب شعرانی کی کتاب طبقات میں دیکھا ہے اللہ ہمیں ان کی کتاب سے نفع عطا فرمائے ان کی کتاب میں لکھا تھا کہ سیدنا اویس قرنی والدہ کی خدمت میں مشغول تھے تو بظاہر اگرچہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے ملاقات نہ کر سکے لیکن باطنی طور پر اپ کئی مواقع پر حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ تھے جیسے کہ غزوہ احد میں اویس قرنی موجود تھے جس کی دلیل یہ ہے کہ سیدنا اویس قرنی نے فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دانت مبارک کو تھوڑا سا شہید  کیا گیا تو میرے دانت بھی خود بخود شہید کیے گئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک سے خون مبارک نکلا تو میرا بھی چہرے سے خود بخود خون نکالا گیا
(السيرة الحلبية 2/347)
.
###################
👈*4:* عمر ؓ کے بیٹے کا زنا کرنے والا واقعہ بھی من گھڑت ہے۔ 
`*#ہمارا تبصرہ*`
اس طرح کا واقعہ کتب میں بیان ہوا ہے جن کے راوی ضعیف ہیں یا کذاب جھوٹے ہیں اور یہ روایت گناہ کو ثابت کرتی ہے اور ضعیف چیز سے گناہ ثابت نہیں ہوتا نیز صحیح روایت کے بھی یہ خلاف ہے اور اوپر ہم قاعدہ پڑھ چکے کہ ان تمام چیزوں کی وجہ سے روایت من گھڑت جھوٹی ثابت ہو جاتی ہے۔۔۔علامہ ابن حجر وغیرہ علماء کے مطابق درست روایت یوں ہے کہ:
 سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے بیٹے عبدالرحمٰن الاوسط رضی اللہ تعالی عنہ جن کی کنیت ابوشحمہ تھی مصر میں مجاہد اور غازی کی حیثیت سے تھے۔ ایک رات کو نبیذ پی لی جس سے کچھ نشہ محسوس کیا، اس وقت عمرو بن العاص کی خدمت میں حاضر ہوکر کہا کہ مجھ پر حد لگائیے (چونکہ شرعی نقطہ نظر سے حد کے سزاوار نہ تھے اس لیے عمروبن العاص نےاقامت حد سے انکار کیا۔لیکن ابوشحمہ اپنے اوپر حد لگوانے اڑے رہے اور کہا کہ اگر آپ اس سے گریز فرمائیں گے تو میں اپنے والد حضرت عمر کے پاس پہنچنے پر اس کی شکایت کردوں گا۔ الغرض عمرو بن العاص نے ابوشحمہ کے (اصرار پر) قصر حکومت کے اندر ان پر حد قائم کی جس پر حضرت عمر نے عمرو بن العاص کو ملامت آمیز لہجہ میں تحریر فرمایا کہ جس طرح عام مسلمین پر حدیں جاری کی جاتی ہیں اس طرح ابوشحمہ پر بھی حد کیوں نہ قائم کی گئی؟ پھر جب ابو شحمہ واپس (مدینہ) آئے تو خود حضرت عمر نے تادیبی طور پر جسمانی سزا دی اس کے وہ تندرست رہے ۔بعد اتفاق طور پر عبدالرحمٰن بیمار ہوئے اور یہی علالت و بیماری ان کی وفات کا باعث بنی۔'' (دیکھیے مصنف عبدالرزاق9/232 اللائی المصنوعہ2/167 اسد الغابۃ صفحہ 213 ج3 ۔الاصابة5/35)
.
###################
👈*5:* وطن کی محبت ایمان ہے۔۔۔ من گھڑت ہے
.
`*#ہمارا تبصرہ*`
موضوع من گھڑت کی رٹ لگانے کے بجائے یوں کہنا چاہیے کہ 
اچھی وجوہات کی بنیاد پر وطن سے محبت کرنا ایمان کی نشانی ہے،یہ حدیث پاک سے ثابت ہے اگرچہ یہ الفاظ حدیث کے نہیں مگر یہ معنی حدیث پاک سے ثابت ہوتے ہیں
.
مولا علی قاری فرماتے ہیں:
 حب الوطن من الإيمان فموضوع، وإن كان معناه صحیحا
ترجمہ:
وطن کی محبت ایمان میں سے ہے اسکا حدیث ہونا من گھڑت ہے(یعنی یہ دراصل حدیث نہیں)اگرچہ اسکا معنی صحیح ہے..(مرقات جلد4 صفحہ63)
.
علامہ مولا علی قاری نے اپنی کتاب اسرار مرفوعہ میں اس پر تفصیلی گفتگو فرمائی، جسکا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ:
یہ حدیث نہیں بلکہ اولیاء اسلاف وغیرہ میں سے کسی کا قول ہے، وطن پرستی(حق و سچ، اسلام کی پرواہ کیے بغیر شہر وطن قوم کی چاہت و حمایت، کردار)گناہ و ممنوع ہے کہ اسکی مذمت میں آیات و احادیث ہیں، یہاں وطن پرستی مراد نہیں
بلکہ
وطن سے مراد جنت ہے یا پھر وطن سے مراد مکہ ہے یا وطن سے مراد مبداء.و.معاد مراد ہے یا پھر وطن سے مراد اپنا علاقہ(شہر،صوبہ،ملک)مراد ہے
اور اپنے علاقے (شہر،صوبہ،ملک) کی مشروط اسلامی محبت ایمان کی نشانی ہے...مشروط محبت کا یہ مطلب ہے کہ کوئی ایمان والا اپنے علاقے کے اچھے دوست و احباب، رشتہ دار، والدین، آباء و اجداد فقراء غرباء اولیاء اسلاف علماء کی وجہ سے محبت کرتا ہو تو یہ ایمان کی نشانی ہے..
(ملخص و ماخوذ از:اسرار مرفوعہ صفحہ109,110)
.
حَرَّكَهَا مِنْ حُبِّهَا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ شریف کو دیکھ کر اپنی سواری کو تیز کر دیتے تھے مدینہ کی محبت کی وجہ سے
(بخاری حدیث 1886)
.
وَفِيه: دلَالَة على فضل الْمَدِينَة وعَلى مَشْرُوعِيَّة حب الوطن
علامہ عینی فرماتے ہیں کہ اس حدیث پاک میں اشارہ ہے واضح دلالت ہے کہ مدینہ  شریف کی بڑی فضیلت ہے اور اس حدیث پاک سے یہ بھی ثابت ہوا کہ وطن کی مشروط اچھی محبت جائز ہے ،اچھی چیز ہے سنت سے ثابت ہے
(عمدۃ القاری شرح بخاری 10/135ماخوذا)
۔
##################
👈*6:* جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے اللہ کو پہچان لیا۔۔ روایت من گھڑت ہے
۔
`*#ہمارا تبصرہ*`
ایسے الفاظ حدیث پاک میں تو نہیں ائے البتہ اکابرین کا یہ کلام ہے اور اس کا معنی درست ہے بلکہ ایت مبارکہ سے ثابت ہے
علامہ مولا علی قاری فرماتے ہیں سورہ بقرہ ایت130 سے مذکورہ قول ماخوذ و مستفاد ہے
وَهُوَ مُسْتَفَادٌ مِنْ قَوْلِهِ تَعَالَى {وَمَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلا من سفه نَفسه} أَيْ جَهِلَهَا حَيْثُ لَمْ يَعْرِفْ رَبَّهَا
(الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة ص352)
۔
اس کے معنی میں علماء کرام نے بہت طویل بحث لکھی ہے میں صرف اشارہ کر دیتا ہوں کہ علماء فرماتے ہیں کہ اپنے اپ میں خامیاں تلاش کرے یا اپنے اپ میں خوبیاں پائے یا اپنے نظام کے متعلق سوچے بس اپنے اپ کو پہچان لے تو ضرور اپنے رب کو پہچان لے گا کہ وہ کتنا عظیم طاقتور عقل کل سب سے زیادہ ماہر ہر چیز پر قدرت والا رب ذوالجلال عیب و نقائص سے پاک ہے۔۔۔جو زندگی کا مالک ہے موت کا مالک ہے وہی حشر نشر کا مالک ہے وہی دوبارہ زندہ کرنے پر قدرت رکھنے والا ہے
۔
###################

👈*7:* عالم کے پیچھے ایک نماز چار ہزار چار سو چالیس نمازوں کے برابر ہے۔۔۔روایت من گھڑت ہے
۔
 `*#ہمارا تبصرہ*`
بے شک عالم دین کی بڑی شان ہے۔۔۔اور شان والے کےپیچھے نماز پڑھنے کی بڑی ہی شان ہے مگر مذکورہ فضیلت مذکورہ ثواب کسی ضعیف حدیث میں بھی نہیں ایا لہذا اس کو ہرگز فضیلت کے طور پر بیان نہیں کرنا چاہیے 
۔
####################
👈*8:* علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے۔ من گھڑت ہے۔
۔
 `*#ہمارا تبصرہ*`
بعض علماء نے اسے من گھڑت جھوٹی حدیث کہا ہے لیکن محققین علماء نے اس حدیث کی کئی سندیں بیان کی ہیں جن میں سے بعض موضوع ہیں من گھڑت ہیں لیکن بعض صرف ضعیف ہیں اور بعض نے تو اس حدیث کو حسن تک کہا ہے۔۔۔بہرحال یہ حدیث ضعیف ہے یہی قول معتبر لگتا ہے اور فضیلت میں ضعیف حدیث بھی مقبول ہے یہ سب کے نزدیک متفقہ قاعدہ ہے 
۔
اس حدیث پر اکثر اعتراض ابو عاتکہ راوی کی وجہ سے کیے جاتے ہیں ہم اپ کے سامنے وہ سند رکھ رہے ہیں جس میں یہ راوی موجود نہیں ہے
رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، مُحَمَّدُ بْنُ كِرَامٍ ، وَحَدَّثَ ابْنُ كِرَامٍ عَنْهُ أَيْضًا ، عَنِ الْفَضْلِ بْنِ مُوسَى ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : " اطْلُبُوا الْعِلْمَ وَلَوْ بِالصِّينِ
(الکامل فی ضعفاء الرجال حدیث213)
۔
یہی وجہ ہے کہ امام بیہقی نے فرمایا
وَقَدْ رُوِيَ مِنْ أَوْجُهٍ، كُلُّهَا ضَعِيفٌ
امام بیہقی فرماتے ہیں کہ مذکور احادیث کی کئی سندیں ہیں لیکن سب کی سب ضعیف ہیں
(شعب الایمان3/193)
۔
##################
👈*9:* دوران نماز  علی ؓ کے بدن سے تیر نکالنے والا مشہور قصہ، من گھڑت ہے
.
 `*#ہمارا تبصرہ*`
واللہ اعلم
###############
👈*10:* جس کا کوئی پیر نہ ہو تو اس کا پیر شیطان ہے۔ من گھڑت ہے۔
.
 `*#ہمارا تبصرہ*`
اگرچہ یہ حدیث کے الفاظ نہیں مگر قران اور احادیث سے مذکورہ بالا مفہوم کافی حد تک ثابت ہوتا ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ:
وسائط(علماء آئمہ صحابہ اہلبیت)کو مانتے ہوئے نبی کریمﷺکو مرشد ماننا فرض،جو نہ مانے اسکا پیر شیطان
اور
برحق،باعمل غیرفاسق اہلسنت علماء کو مرشد ماننا واجب،جو نہ مانے اسکا پیر شیطان…مرشد بیعت برکت چار شرائط کے ساتھ مستحب ہے،جو ایسا پیر نہ بنائے مگر فرض واجب والا پیر مانے تو کوئی حرج نہیں البتہ راہ تصوف و سلوک میں جسکا کوئی پیر نہیں اسکا پیر شیطان....(ماخوذ از فتاوی رضویہ جلد21 مسلہ185،180)
۔
##################
👈*11:* ہاروت و ماروت اور زہرہ کا قصہ من گھڑت ہے۔
۔
 `*#ہمارا تبصرہ*`
درست کہا
۔
################
 👈*12:* ماہ صفر یا ماہ رمضان کی بشارت دینے پر جنت کی بشارت دینا غلط ہے ایسی کوئی حدیث نہیں۔
۔
`*#ہمارا تبصرہ*`
 يُبَشِّرُ أَصْحَابَهُ : " قَدْ جَاءَكُمْ رَمَضَانُ، شَهْرٌ مُبَارَكٌ.....الخ
 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام کو رمضان مبارک کی خوشخبری اور مبارکباد دیتے ہوئے فرماتے کہ
 رمضان کا مہینہ آیا ہے یہ مہینہ مبارک مہینہ ہے، اس کے روزے تم پر اللہ نے فرض کییے ہیں، اس مبارک مہینے میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیطانوں کو جکڑ لیا جاتا ہے اور اس میں ایک رات ہے جو ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے، جو اس کی بھلائی سے محروم رہا وہ بہت بڑا محروم رہا
(مسند احمد حدیث8991)
(استاد بخاری المصنف ابن ابی شیبہ2/270نحوہ)
.
.قال بعض العلماء: هذا الحديث أصل في تهنئة الناس بعضهم بعضا بشهر رمضان
 امام زرقانی فرماتے ہیں کہ لوگ ایک دوسرے کو رمضان مہینے کی مبارکباد دیتے ہیں بعض علماء نے فرمایا کہ یہ حدیث ان کے لئے اصل اور دلیل ہے
(شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية11/223)

 جو مشہور ہے کہ جس نے رمضان کی سب سے پہلے خوشخبری سنائی اس کے لیے جنت واجب ہے تو ایسی کوئی بھی حدیث ہمیں نہیں ملی اور نہ ہی کسی معتبر اسلاف  کا ایسا قول ہماری نظر سے گزرا لہذا ایسے میسج کو فارورڈ نہیں کر سکتے،ہرگز نہیں
.
###################
👈*13:* اگر جھک جانے میں عزت کم ہو تو قیامت کو مجھ سے لے لینا۔ من گھڑت ہے
۔
`*#ہمارا تبصرہ*`
اس طرح کے الفاظ اگرچہ حدیث پاک میں نہیں مگر اس کا مفہوم و معنی حدیث پاک سے ثابت ہوتا ہے حدیث پاک میں ہے 
وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلَّهِ إِلَّا رَفَعَهُ اللَّهُ
جو اللہ کی خاطر جھک جائے تو اللہ تعالی اسے رفعت و عزت عطا فرمائے گا
مسلم حدیث 2588، 6592
 جھک جانے سے مراد عاجزی کرنا ہے اور ضد سے ہٹ جانا ہے، اپنے حق معاف کر دینا ہے، اللہ تعالی اسے دنیا میں ہی انشاءاللہ عزوجل عزت و رفعت عطا فرمائے گا ورنہ قیامت کے روز حضور علیہ الصلوۃ والسلام ضرور  سفارش فرمائیں گے کہ اس بندے نے اے اللہ تیری خاطر عاجزی کی جھک گیا  تو اپ بھی کرم فرمائیے اس طرح حضور عزت لے کر دیں گے گویا خود حضور علیہ الصلوۃ والسلام عزت عطا فرما رہے ہیں کیونکہ بخاری کی حدیث ہے کہ اللہ عطا فرماتا ہے اور میں تقسیم کرتا ہوں تو عزت تقسیم کرنا بھی اس میں شامل ہے
۔
###################
👈*14:* میں ایک چھپا خزانہ تھا،میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں، سو میں نے کائنات کو پیدا کیا ۔۔ من گھڑت ہے
.
`*#ہمارا تبصرہ*`
امام مولا علی قاری فرماتے ہیں
لَكِنَّ مَعْنَاهُ صَحِيحٌ مُسْتَفَادٌ مِنْ قَوْلِهِ تَعَالَى {وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْس إِلَّا ليعبدون} أَيْ لِيَعْرِفُونِ كَمَا فَسَّرَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا
مذکورہ روایت حدیث پاک کے الفاظ تو نہیں مگر اس کا معنی ایت مبارکہ سے ثابت ہے ایت میں ہے کہ میں نے انسان اور جنات کو اس لیے پیدا کیا تاکہ وہ میری عبادت کریں ایک تفسیر یہ ہے کہ عبادت سے مراد یہ ہے کہ وہ مجھے پہچانیں جیسے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے یہی تفسیر کی ہے
(الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة ص273)
۔
لہذا من گھڑت کہنے کی بجائے یوں کہا جائے کہ اگرچہ الفاظ حدیث سے ثابت نہیں مگر اس کا معنی درست ہے جیسے کہ صوفیاء کرام نے فرمایا ہے اور اس کی دلیل قران مجید کی تفسیر سے بھی دی ہے 
۔
#####################
👈*15:* زنا قرض ہے ، اگر تو نے اسے لیا تو ادا تیرے گھر والوں سے ہوگی۔۔ من گھڑت ہے۔
۔
`*#ہمارا تبصرہ*`
من گھڑت نہیں کہنا چاہیے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ یہ الفاظ حدیث پاک سے نہیں مگر اس قسم کی بات حدیث پاک سے اور قران مجید سے اور اسلاف کے اقوال سے ثابت ہوتی ہے۔۔۔بعض کتب میں اس کو امام شافعی کا قول قرار دیا گیا ہے اور کچھ کتب میں اس کو امام مقری کا قول قرار دیا گیا ہے لیکن معنی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو اسے مطلق کہنے کے بجائے یوں کہا جائے کہ
قران و احادیث سے اشارہ ملتا ہے کہ:
زنا ایک قرض ہے وبائی مرض ہے خدشہ ہے کہ کہیں تیرے گھر سے ہی اسے ادا  کیا جائے گا اس لیے اس قرض مرض سے دور بھاگو تاکہ تمہارے گھر والے پاکیزہ رہیں
.
ہاں البتہ کنفرم قرض کہنا کہ جس کی کنفرم ادائیگی تمہارے گھر سے ہوگی ایسا کہنا قران و سنت کے خلاف ہے
القرآن:
لَا تَكْسِبُ كُلُّ نَفْسٍ اِلَّا عَلَیْهَاۚ-وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰىۚ
ترجمہ:
ہرشخص جو عمل کرے گا وہ اسی کے ذمہ ہے اور کوئی بوجھ اٹھانے والا آدمی کسی دوسرے آدمی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا.(سورہ انعام آیت164)
.

ﮨﺎﮞ ﺻﺤﺒﺖ ﺍﺛﺮ ﺭﮐﮭﺘﯽ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﺍﺳﻼﻡ ﻧﮯ ﺣﮑﻢ ﺩﻳﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺑﺮﯼ ﺻﺤﺒﺖ ﮐﮯ ﺍﺛﺮﺍﺕ ﺳﮯ ﻣﺘﺍﺛﺮ ﻧﺎ ﮨﻮﺍ ﺟﺎﮮ...
ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ، ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺑﺪﻋﻤﻠﯽ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﺁﺧﺮﺕ ﺗﺒﺎﮦ ﻧﺎ ﮐﯽ ﺟﺎﮮ...ﮨﺮﮔﺰ ﻧﮩﻴﮟ
.
ﮨﺎﮞ ﺑﮯ ﺣﻴﺎﺉ ﻣﻴﮟ ﻣﺒﺘﻼ ﺷﺨﺺ ﮐﻮ ﺳﻮﭼﻨﺎ ﭼﺎﮨﻴﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺩﻳﮑﮭﺎ ﺩﻳﮑﮭﯽ ﻣﻴﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﮨﻞِ ﺧﺎﻧﮧ ﭘﺮ ﮐﻴﺎ ﺍﺛﺮ ﮨﻮﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ..؟
ﮐﮩﻴﮟ ﻭﮦ ﺍﮨﻞِ ﺧﺎﻧﮧ ﮐﯽ ﺑﺮﺍﺉ ﮐﺎ ﺳﺒﺐ ﺑﻦ ﮔﻴﺎ ﺗﻮ..؟
.
ﮐﻼﻡ ﻣﺠﻴﺪ ﻣﻴﮟ ﺑﮯ ﺣﻴﺎﺉ،ﺯﻧﺎ ﮐﻮ
"ﮐﻴﺎ ﮨﯽ ﺑﺮﺍ ﺭﺍﺳﺘﮧ" ﮐﮩﺎ ﮔﻴﺎ ﮨﮯ...ﺟﺲ ﻣﻴﮟ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺑﮯ ﺣﻴﺎﺉ ﮐﮯ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﭘﺮ ﮔﺎﻣﺰﻥ ﺷﺨﺺ ﮐﻮ ﺳﻮﭼﻨﺎ ﭼﺎﮨﻴﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺍﮨﻞِ ﺧﺎﻧﮧ ﮐﻮ ﺍﺱ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﺳﮯ ﮐﻴﺴﮯ ﺭﻭﮐﮯ ﮔﺎ ﺟﺲ ﭘﺮ ﻭﮦ ﺧﻮﺩ ﮔﺎﻣﺰﻥ ﮨﮯ...؟
ﺭﻭﮐﮯ ﮔﺎ ﺗﻮ ﺍﺳﮑﯽ ﺑﺎﺕ ﻣﻴﮟ ﮐﺲ ﻗﺪﺭ ﺍﺛﺮ ﮨﻮﮔﺎ...؟
.
ﻳﮩﺎﮞ ﺍس ﻗﺴﻢ ﮐﯽ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺍﺣﺎﺩﻳﺚ ﻣﺒﺎﺭﮐﮧ ﮐﻮ ﻣﺪِﻧﻈﺮ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ
الحدیث،ترجمہ:
پاک دامن رہو تمھاری عورتیں پاک دامن رہیں گی اور
بڑوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو(ادب کرو، خیال رکھو) تمھاری اولاد تمھارے ساتھ اچھا سلوک کرے گی
(مجمع الزوائد حدیث:13403)
.
الحدیث،ترجمہ:
اللہ کی نافرمانی میں،برائ میں کسی کی بھی پیروی مت کرو
(مسلم حدیث:1840)
۔
################

👈*16:*  بلال ؓ کا نبی کریم ﷺ کو خواب میں دیکھ کر دمشق سے مدینہ آنا ، پھر آذان دینا اور مدینہ والوں کی آہ و بکا۔ (من گھڑت قصہ ہے)
.
`*#ہمارا تبصرہ*`
کئی کتب میں یہ روایت ائی ہے اور اس کی سند بھی موجود ہے اور اس سند کو معتبر جید سند کہا گیا ہے اگر ضعیف مان بھی لیا جائے تو بھی یہ فضیلت کی بات ہے اور فضیلت کی بات میں ضعیف روایت مقبول ہوتی ہے۔۔۔۔اگر سند نہ بھی ہوتی تو بھی کوئی یہ خلاف شرع واقعہ نہیں کہ اسے موضوع من گھڑت کہا جائے کتب تاریخ میں انا اس کے ثبوت کے لیے کافی تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کی سند بھی موجود ہے لہذا اسے موضوع جھوٹی روایت نہیں کہا جا سکتا۔۔۔بعض اسلاف نے اس کو اگر موضوع فرمایا ہے تو کسی دوسری سند کی وجہ سے فرمایا ہوگا اور معتبر اسلاف نے اسے درست قرار دے کر لکھا تو ان کی مد نظر دوسری سند تھی لہذا معتبر بات یہ ہے کہ یہ موضوع من گھڑت جھوٹی نہیں۔۔۔۔یہ روایت درج ذیل کتب میں ہے 
أخرجه الغسانى في أخباره وحكاياته (٧٥)
 وأبو أحمد الحاكم في الأسامى والكنى (٥/ ١٨) مختصرا وبتمامه كما في تاريخ الإسلام (١٧/ ٣٤ - ٣٥)
 وسير أعلام النبلاء (٣/ ٢١٧ - ٢١٨)
، وابن عساكر في تاريخ دمشق (٧/ ١٣٦ - ١٣٧)
. وقال الذهبى في التاريخ: إسناده جيّد ما فيه ضعيف
امام ذھبی کہتے ہیں 
مذکورہ واقعہ کی سند معتبر جید ہے ضعیف نہیں ہے
(حاشیۃ فتح القريب المجيب على الترغيب والترهيب2/422)
۔
#####################
👈*17:* آپ ﷺ کا دعا فرمانا کہ میری امت کا حساب میرے حوالے فرما دیجیۓ تاکہ میری امت کو دوسری امت کہ سامنے شرمندگی نا اٹھانا پڑے۔ (من گھڑت ہے)
۔
`*#ہمارا تبصرہ*`
اس روایت کو مکمل پڑھا اور سند چیک کی تو اس میں درج ذیل خرابیاں تھیں 
1۔۔۔کچھ راوی مجہول تھے تو کچھ انتہائی ضعیف تو کچھ کذاب جھوٹے راوی تھے 
2۔۔۔اس روایت میں تھا کہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ اے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم میں تیری امت کا حساب تجھے نہیں دوں گا تاکہ اپ بھی ان کے عیوب پر مطلع نہ ہوں 
۔
جبکہ
صحیح حدیث پاک میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے امت کے تمام اچھے برے اعمال کا علم دے دیا لہذا مذکور روایت سند کے لحاظ سے بھی اور معنی کے لحاظ سے بھی غیر معتبر من گھڑت ثابت ہوتی ہے اس روایت کو ہرگز بیان نہیں کیا جا سکتا
.
الحدیث:
عُرِضَتْ عَلَيَّ أَعْمَالُ أُمَّتِي حَسَنُهَا وَسَيِّئُهَا
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مجھ پر میری امت پیش کی گئی اس کی تمام نیکیاں اس کی تمام برائیاں سب کچھ مجھ پر پیش کیا گیا
(مسلم حدیث553)
اس حدیث پاک سے بھی علم غیب اور علم غیب کلی اور ما کان وما یکون اور حاضر ناظر بھی ثابت ہو گیا
۔
##################

👈*18:*  ہر نبی کو نبوت چالیس برس بعد ملی ہے۔ (من گھڑت ہے)
.
 `*#ہمارا تبصرہ*`
یہ حدیث پاک کے الفاظ تو نہیں البتہ ایت اور دیگر شواہد و تاریخ سے مفسرین نے اخذ کیا ہے کہ اکثر طور پر انبیاء کرام کو اعلان نبوت کا حکم 40 سال کی عمر میں دیا گیا
امام رازی فرماتے ہیں:
 قَالَ الْمُفَسِّرُونَ لَمْ يُبْعَثْ نَبِيٌّ قَطُّ إِلَّا بَعْدَ أَرْبَعِينَ سَنَةً،۔۔۔إِلَّا أَنَّهُ يَجِبُ أَنْ يُقَالَ/ الْأَغْلَبُ أَنَّهُ مَا جَاءَهُ الْوَحْيُ إِلَّا بَعْدَ الْأَرْبَعِينَ،
امام رازی فرماتے ہیں کہ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ انبیاء کرام کو بعثت نبوی یعنی اعلان نبوت کا حکم 40 سال کی عمر میں ہی دیا گیا (بعض انبیاء کرام کو 40 سال سے پہلے حکم دیا گیا تو اس کا جواب امام رازی دیتے ہیں کہ) یہ کلی قاعدہ نہیں بلکہ غالب اور اکثر یہی ہوا ہے کہ اعلان نبوت کی وحی 40 سال کے عمر میں ہی ہوئی ہے
(تفسیر کبیر 18/28)
.
##################### 
👈*19:* درود پڑھنے پر اللہ ستر ہزار پروں والا پرندہ پیدا کریں گے جس کی تسبیح کا اجر درود پڑھنے والے کو ملے گا۔ (من گھڑت ہے)
۔
 `*#ہمارا تبصرہ*`
کافی تلاش کے باوجود ایسی کوئی حدیث کتب میں نہیں ملی البتہ کسی صوفی کا کشف ہو یہ ممکن ہے لیکن اس سے ملتی جلتی حدیث پاک ہے کہ 
جَزَى اللَّهُ مُحَمَّدًا عَنَّا مَا هُوَ أَهْلُهُ جو پڑھےاتنا ثواب ہےکہ70کاتب1000دن ثواب لکھتےلکھتےتھک جائیں(طبرانی كبير حدیث11509)جَزَى اللَّهُ عَنَّا مُحَمَّدًا بھی پڑھ سکتےہیں(از حلیۃ الاولیاء3/206)
۔
####################

👈*20:* جو شخص آذان کہ وقت باتیں کرتا ہے اسے موت کہ وقت کلمہ نصیب نہیں ہوتا۔ (من گھڑت ہے)
.
`*#ہمارا تبصرہ*`
یہ حدیث پاک کے الفاظ تو نہیں البتہ علماء کرام صوفیاء کرام نے فرمایا ہے کہ بلا حاجت اذان کے وقت باتوں میں مشغول رہنے سے برے خاتمے کا خوف ہے ،خوف ہے کہ کہیں اسے کلمہ ہی نصیب نہ ہو، خوف ہے کہ اسے موت کے وقت ایمان کی نعمت سلب کی جائے 
دیکھیے بہار شریعت1/477..جامع الرموز124۔۔ مھتدی الانھر1/636
۔
###################

👈*21:* اللہ تعالیٰ کا نبی کریم ﷺ کو معراج کہ موقعہ پر فرمانا کہ آپ ﷺ جوتوں سمیت عرش پر آجائیں۔ (من گھڑت ہے)
.
 `*#ہمارا تبصرہ*`
علماء کرام نے فرمایا کہ اگرچہ یہ حدیث نہیں ملتی مگر کوئی بعید نہیں کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے نعلین مبارک اتنے بابرکت باسعادت تھے کہ انہیں عرش پر اتارنے کا حکم نہ ہوا۔۔۔مزید تفصیل کے لیے دیکھیے مفتی فیض احمد اویسی صاحب کی کتاب نعلین عرش پر 
۔
####################

👈*22:* فجر کی سنتیں گھر میں ادا کرنے پر روزی میں وسعت، اہل خانہ کے مابین تنازع نا ہونا ، اور ایمان پر خاتمہ۔ (یہ فضائل بے اصل ہیں
۔
`*#ہمارا تبصرہ*`
مذکورہ بالا فضائل بے اصل ہرگز نہیں ہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ خصوصی طور پر اس طرح کے الفاظ اگرچہ نماز فجر کی سنتوں کے متعلق نہیں ائے مگر حدیث پاک میں ہے کہ گھر میں نوافل پڑھنے سے خیر و برکت بھلائی ملتی ہے اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام خصوصی اہتمام کے ساتھ فجر کی سنتیں گھر میں ادا فرماتے تھے تو ان دونوں سے یہ بات اخذ کر کے علماء نے بیان فرمائی کہ فجر کی سنت نے گھر میں پڑھنے سے بھلائی ہوگی خیر و برکت ہوگی رزق میں برکت ہوگی وسعت ہوگی جھگڑے وغیرہ ختم ہوں گے اور ایمان پر خاتمہ ہوگا 
۔
الحدیث
 فَلْيَجْعَلْ لِبَيْتِهِ نَصِيبًا مِنْ صَلَاتِهِ ؛ فَإِنَّ اللَّهَ جَاعِلٌ فِي بَيْتِهِ مِنْ صَلَاتِهِ خَيْرًا
گھر میں بھی نماز کا کچھ حصہ یعنی نوافل ادا کیا کرو کہ بے شک اللہ تعالی اس نماز کی برکت سے گھر میں خیر و برکت بھلائی عطا فرماتا ہے
)مسلم حدیث778)
۔
اسی لیے علماء کرام نے فرمایا
 "من صلى سنة الفجرفي بيته يوسع له في رزقه ويقل المنازع بينه وبين أهل بيته ويختم له بالإيمان
جو شخص فجر کی سنتیں گھر میں پڑھتا ہے اللہ تعالی اس کے رزق میں وسعت عطا فرماتا ہے اور جھگڑے کم ہو جاتے ہیں اور اس کا خاتمہ ایمان پر ہوتا ہے
الفتاوی التارتارخانیة2/305
۔
###################

👈*23:* روز محشر باری تعالیٰ کا ارشاد ہوگا کہ کون ہے جو حساب دے حضرت صدیق اکبر ؓ کے سامنے آنے پر اللہ کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے گا۔ (سَنَداً نہیں ملتی، بیان کرنا موقوف رکھا جائے)
۔
`*#ہمارا تبصرہ*`
واللہ تعالی اعلم
۔
#######################

👈*24:*  آپ ﷺ کے وصال کہ بعد جبریل علیہ السلام کا دنیا میں دس بار آنا اور دس چیزیں لے جانا۔ (سَنَداً نہیں ملتی، بیان کرنا موقوف رکھا جائے)
.
`*#ہمارا تبصرہ*`
واللہ اعلم
####################

👈*25:* بے پردہ عورت جہنم میں بالوں کے بل لٹکائی جائے گی۔ (سَنَداً نہیں ملتی، بیان کرنا موقوف رکھا جائے)
.
`*#ہمارا تبصرہ*`
اسے یوں نہ بیان کیا جائے کہ حدیث پاک میں ایا ہے۔۔۔۔بلکہ یوں بیان کیا جائے کہ بعض کتب میں ہے کہ بے پردہ عورت کو جہنم میں بالوں کے بل لٹکائی جائے گی۔۔۔کیونکہ اہل سنت کی کتب میں سے ہمیں فقط ایک کتاب الزواجر میں یہ روایت ملی ہے اور وہ بھی بغیر سند کے ہیں،کچھ اور مزید کتابوں میں ہوتی معتبر کتب میں ہوتی تو اگرچہ سند نہ ہوتی تو اسے بھی حدیث کہا جاتا لیکن بظاہر یہ ممکن نہیں کہ ایسی حدیث پاک ہو اور وہ فقط ایک کتاب میں ہو باقی میں نہ ائے لہذا احتیاط کرتے ہوئے اسے حدیث کہنے کے بجائے یہ کہا جائے کہ بعض کتب میں ہے کہ عورت کو بالوں سے لٹکا کر جہنم میں عذاب دیا جائے گا۔۔۔۔عورت کو پردے کا خاص اہتمام کرنا چاہیے حتی کہ بظاہر معمولی چیز بال بھی پردے میں شامل ہیں
وَلا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلا لِبُعُولَتِهِنَّ} [النور: 31]- الْآيَةَ وَتِلْكَ الْمَذْكُورَاتُ مَوَاضِعُ الزِّينَةِ......حَتَّى شَعْرُهَا
قران مجید میں اللہ تعالی نے حکم ارشاد فرمایا ہے کہ عورت اپنی زینت کی جگہوں کو ظاہر نہ کرے علماء فرماتے ہیں کہ عورت کے بال بھی زینت کی جگہوں میں سے ہیں ان کا چھپانا پردہ کرنا بھی لازم ہے
فتاوی شامی 1/405، 6/367)
۔
##############

👈*26.* آپ ﷺ نے فرمایا سب سے پہلے رب تعالیٰ میری نماز جنازہ پڑھیں گے (من گھڑت ہے)
.
`*#ہمارا تبصرہ*`
 کئی کتب کو کھنگالا تو پتہ چلا کہ اس قسم کے دو روایات ہیں ایک سیدنا علی سے مروی ہے اور ایک سیدنا ابوبکر سیدنا ابن مسعود سے مروی ہے۔۔۔سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ والی روایت میں ایک راوی کذاب جھوٹا ہے اسی روایت کو سب نے من گھڑت کہہ کر مذکورہ روایت کو من گھڑت جھوٹی کہہ دیا حالانکہ بالکل اسی معنی کی ایک اور روایت حدیث ہے جو ضعیف ہے اور تاریخ کے معاملے میں سیرت کے معاملے میں ایسے معاملے میں ضعیف حدیث قابل قبول ہوتی ہے 
۔،
فَإِن أول من يُصَلِّي عَلَى الله عز وَجل۔۔۔۔وَهُوَ مُرْسل ضَعِيف
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب میں وفات پا جاؤں تو تجہیز تکفین کے بعد مجھے کمرے میں اکیلا رکھ دینا بے شک سب سے پہلے مجھ پر صلاۃ  اپنی شان مطابق اللہ پڑھے گا 
علامہ عراقی فرماتے ہیں یہ ضعیف حدیث ہے
(المغني عن حمل الأسفار ص1851
الإشارة إلى سيرة المصطفى وتاريخ من بعده من الخلفا ص356نحوہ
مختصر تاريخ دمشق2/371نحوہ
وسائل الوصول إلى شمائل الرسول ص355
۔
مذکورہ بالا روایت کی سند نہ بھی ہو تو بھی من گھڑت نہیں کہہ سکتے کہ معتبر کتب میں ائی ہے تو ضرور اس کی کوئی اصل ہے۔۔۔
۔
ہاں البتہ یصلی علی کا ترجمہ نماز جنازہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ ترجمہ وہ کیا جائے جو مطلق ہو جیسے کہ ہم نے کیا۔۔۔یعنی اللہ اپنی شان کے مطابق صلاۃ پڑھے گا
۔
################
👈*27:* نبی کریم ﷺ کی ولادت کے سال ہر حاملہ عورت کے گھر لڑکے کا پیدا ہونا۔ (سَنَداً نہیں ملتی، بیان کرنا موقوف رکھا جائے)
۔
 `*#ہمارا تبصرہ*`
سند نہ ملنے سے کوئی حدیث موضوع من گھڑت جھوٹی نہیں ہو جاتی ہاں احتیاط کا تقاضہ ہے کہ یوں کہا جائے کہ روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ولادت کے ساتھ تمام حاملہ عورتوں کے گھر لڑکے پیدا ہوئے جیسے کہ مواہب اور زرقانی وغیرہ کئی کتب میں ہے
وكان قد أذن الله تعالى تلك السنة لنساء الدنيا أن يحملن ذكورًا
شرح الزرقاني على المواهب اللدنية1/208
اس پر جو کلام کیا گیا ہے کہ روایت مطعون ہے تو مطعون روایت ضعیف کو بھی کہتے ہیں اور کبھی کبھار موضوع من گھڑت کو بھی کہتے ہیں لیکن یہاں چونکہ فضیلت کی بات ہو رہی ہے اور معتبر اسلاف روایت لکھ رہے ہیں تو لہذا یہاں مطعون سے مراد ضعیف روایت ہے اور ایسے معاملات میں ضعیف روایت معتبر ہے
۔
##################

👈*28:*  بلال ؓ کا آپ ﷺ کی اونٹنی کی نکیل پکڑ کر جنت میں داخل ہونا۔ (سَنَداً نہیں ملتی، بیان کرنا موقوف رکھا جائے)
.
`*#ہمارا تبصرہ*`
فَإِنِّي سَمِعْتُ دَفَّ نَعْلَيْكَ بَيْنَ يَدَيَّ فِي الْجَنَّةِ
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اے بلال میں جنت میں داخل ہوا تو سنا کہ تمہارے جوتوں کی اواز میرے اگے سے ہے
بخاری حدیث 1149
.
ولا يدل على أن أحدا يسبق رسول الله إلى الجنة۔۔۔۔الی۔۔۔ كالحاجب والخادم.
مذکور احادیث کا یہ قطعا مطلب نہیں کہ سیدنا بلال رضی اللہ تعالی عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جنت میں جائیں گے بلکہ یہ تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے خادم تھے تو خادم کی حیثیت سے سواری کے اگے ہوں گے تابع بن کر اگے ہوں گے تو حقیقتا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی پہلے جنت میں جائیں گے
حادی الارواح ص116
۔
دونوں روایتوں کو ملا کر ثابت ہوتا ہے کہ دو ٹوک الفاظ میں اگرچہ حدیث نہیں مگر یوں کہنا چاہیے کہ احادیث و روایات سے ثابت ہوتا ہے قیامت کے روز سیدنا بلال رضی اللہ تعالی عنہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی سواری مبارک کی نکیل تھامے ہوئے ہوں گے اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام سب سے پہلے جنت میں داخل ہونگے
۔
##################

👈*29:* آپ ﷺ کا ارشاد: مجھے موت کا اتنا بھروسہ بھی نہیں کہ ایک طرف سلام پھیروں تو دوسری طرف بھی پھیر سکوں گا یا نہیں۔ (سَنَداً نہیں ملتی، بیان کرنا موقوف رکھا جائے)
.
 `*#ہمارا تبصرہ*`
کافی تلاش کے باوجود ایسی حدیث پاک نہیں ملی البتہ امت کی رہنمائی کے لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل مبارک سے ثابت ہوتا ہے کہ امتی کو ہر دم خیال ہونا چاہیے کہ نہ جانے کب وفات کا وقت ا جائے اس لیے فورا سے بھی پہلے تو استغفار کیجیے اور نیک اعمال کیجئے 
۔
الحدیث،ترجمہ:
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک گرنے کے قریب جھکی ہوئی دیوار کے پاس سے گذرے تو جلدی سے گذر گئے اور (امت کی رہنمائی کے لیے)فرمایا مجھے ڈر لگا کہ کہیں اچانک دیوار گر نہ جائے اور ہلاکت ہو جائے...(شعب الایمان حدیث1298 نحوہ فی الفتاوی الرضویہ24/263)
.
#####################
👈*30:* ابو جہل کہ ہاتھوں میں کنکریوں کا آپ ﷺ کی شہادت دینا۔ (سَنَداً نہیں ملتی، بیان کرنا موقوف رکھا جائے)
۔
`*#ہمارا تبصرہ*`
واللہ اعلم
######################

👈*31:* دوران نماز والدین کی پکار پر نماز چھوڑ کر جانے والی روایت (شدید ضعیف، بیان نہیں کر سکتے)
.
 `*#ہمارا تبصرہ*`
یہ مذکورہ روایت یاسین نامی راوی سے مشہور ہے جس کی وجہ سے  بعض علماء نے اس روایت کو موضوع جھوٹی کہا یا شدید ضعیف کہا مگر اس کی دوسری سند بھی ہے جو فقط مرسل ہے اور مرسل سے فضائل کے علاوہ مسائل بھی ثابت کیے جا سکتے ہیں اور بالخصوص اس وقت کہ جب اس کی تائید صحیح حدیث سے ہو رہی ہو۔۔۔اس روایت کی تقویت بخاری کی روایت3436 سے بھی ہوتی ہے جس میں رسول کریم نے ایک  واقعہ ارشاد فرمایا جس میں اس نے والدہ کو نماز توڑ کر جواب نہ دیا تھا تو اس کی نحوست سے برباد ہوا
۔
عن علي بن شيبان (٤) مرسلًا (٥): "لو دعاني والداي أو أحدهما وأنا في الصلاة لأجبته
مرسل روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر مجھے والدین میری نماز کے دوران بلاتے یا کوئی ایک بلاتا اور میں نماز میں ہوتا تو میں ضرور ان کو جواب دیتا ،نماز توڑ کر ان کے پاس جاتا
(المقاصد الحسنة 4/283) 
۔
###################


👈*32:* مومن کے جوٹھے میں شفاء ہے (من گھڑت)
.
`*#ہمارا تبصرہ*`
یوں کہنا چاہیے کہ مذکورہ بالا الفاظ ہمیں حدیث پاک میں نہیں ملے البتہ مذکورہ بالا الفاظ کے جو معنی بنتے ہیں اس معنی کی تائید حدیث پاک سے ہوتی ہے یعنی یوں کہنا چاہیے کہ احادیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ مومن کے جھوٹے میں شفا ہے 
الْحَدِيثِ الصَّحِيحِ بِسْمِ اللَّهِ تُرْبَةُ أَرْضِنَا بَرِيقَةِ بَعْضِنَا يُشْفَى سَقِيمُنَا بِإِذْنِ رَبِّنَا وَأَمَّا مَا يَدُورُ عَلَى الْأَلْسِنَةِ مِنْ قَوْلِهِمْ
سُؤْرُ الْمُؤْمِنِ شِفَاءٌ فَصَحِيحٌ مِنْ جِهَةِ الْمَعْنَى
امام مولا علی قاری فرماتے ہیں کہ جو کہا جاتا ہے کہ مومن کے جھوٹے میں شفا ہے تو یہ معنی کے لحاظ سے درست ہے کیونکہ حدیث پاک میں ہے کہ رسول کریم نے فرمایا ہماری زمین کی مٹی کی برکت سے اور ہمارے بعض کے جھوٹے کی برکت سے ہمارے بیمار کو شفا ملے گی انشاءاللہ عزوجل
الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة ص209
۔
####################

👈*33:* ابو بکرصدیق ؓ کا ٹاٹ کا لباس پہننا اور باری تعالیٰ کی جانب سے ان پر سلام (من گھڑت ہے)
.
`*#ہمارا تبصرہ*`
سیدنا ابن عمر سے ایک سند جو مشہور ہے جا بجا کتب میں ہے اس سند کا ایک راوی کذاب جھوٹا متھم ہے جس کی وجہ سے کئی علماء نے اس سند کے حساب سے روایت پر جھوٹی ہونے کا حکم لگایا مگر اس روایت کی دوسری سندیں بھی ہیں جو کہ ضعیف ہے اور فضائل میں ضعیف قابل قبول ہے تو اس روایت کو مطلقا من گھڑت جھوٹی روایت نہیں کہہ سکتے
.
وَعِنْده ابو بكر الصّديق وَعَلِيهِ عباءة قد خللها فِي صَدره بخلال۔۔۔۔۔الی۔۔۔۔وَسَنَدهمَا ضَعِيف
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے ٹانکے لگے ہوئے پرانے کپڑے پہنے ہوئے تھے کہ جبرائیل نازل ہوئے اور حضور سے دریافت فرمایا تو حضور نے فرمایا کہ ابوبکر صدیق نے سب کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کر دیا ہے تو جبرائیل نے کہا اللہ تعالی اس پر سلام بھیجا ہے
امام ابن حجر فرماتے ہیں کہ اس مثل روایت سیدنا ابو ہریرہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی مروی ہے اور یہ دونوں روایتیں ضعیف ہیں
(الصواعق المحرقة على أهل الرفض والضلال والزندقة1/214)
ان دو کتب میں بھی یہ روایت موجود ہے لیکن وہ سند نہیں کہ جس پر من گھڑت کا حکم ہے
الحجة في بيان المحجة2/348
معجم ابن المقرئ ص82
۔
##################


👈*34:* آپ ﷺ کا سکرات میں جبریل سے کہنا کہ میری ساری امت کی سکرات کی  تکلیف مجھے دے دو۔ (سَنَداً نہیں ملتی، بیان کرنا موقوف رکھا جائے)
.
 `*#ہمارا تبصرہ*`
کافی تلاش کے باوجود حدیث پاک کے ایسے الفاظ نہیں ملے 
۔
#####################

👈*35:* ایک عورت اپنے ساتھ چار اشخاص کو جہنم لے کر جائے گی۔ باپ، بھائی، شوہر، بیٹا۔ (سَنَداً نہیں ملتی، بیان کرنا موقوف رکھا جائے)
.
`*#ہمارا تبصرہ*`
کافی تلاش کے باوجود حدیث پاک میں ایسے الفاظ موجود ہوں ہمیں نہیں ملا ہاں البتہ یوں کہنا چاہیے کہ احادیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت اگر جرم کرے اور قیامت کے دن اس کی پکڑ ہو تو وہ جہنم جائے گی تو چار لوگوں کو بھی جہنم لے کے جائے گی بشرطیکہ ان چار لوگوں نے نگہبانی میں کوتاہی کی ہو۔۔۔۔وہ چار لوگ یہ ہیں باپ بیٹا شوہر بھائی
۔
الحدیث
كُلُّكُمْ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ،....وَالرَّجُلُ فِي أَهْلِهِ رَاعٍ، وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ،
تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے ان لوگوں کے متعلق پوچھا جائے گا جن کا یہ نگہبان ہے۔۔۔۔تو مرد جو گھر کے نگہبان ہوتے ہیں وہ اہل خانہ کے متعلق سوال کیے جائیں گے
بخاری حدیث2409ملتقطا
۔
گھر میں مرد تو بہت ہوتے ہیں جو نگہبان ہوتے ہیں مگر اکثر طور پر یہ چار نگہبان ہوتے ہیں 
باپ بیٹا شوہر بھائی جس کی دلیل ابو داؤد شریف کی اس حدیث میں بھی ہے
.
لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ تُسَافِرَ سَفَرًا فَوْقَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فَصَاعِدًا، إِلَّا وَمَعَهَا أَبُوهَا، أَوْ أَخُوهَا، أَوْ زَوْجُهَا، أَوِ ابْنُهَا، أَوْ ذُو مَحْرَمٍ مِنْهَا
وہ عورت جو اللہ اور اخرت پر ایمان رکھتی ہو وہ اکیلی سفر نہ کرے مگر یہ کہ اس کے ساتھ اس کا باپ ہو یا بھائی ہو یا شوہر ہو یا بیٹا ہو یا کوئی اور محروم ہو
ابو داؤد حدیث 1726
۔
####################

👈*36:* روز قیامت ایک نیکی دینے پر دو افراد کا جنت میں جانا۔ (سَنَداً نہیں ملتی، بیان کرنا موقوف رکھا جائے)
.
`*#ہمارا تبصرہ*`
کعب الاحبار تابعی کے حوالے سے ایسا واقعہ ملتا ہے امام قرطبی نے لکھا ہے اور ایسا واقعہ امام زرقانی اور امام غزالی نے بھی لکھا ہے تو اس کو حدیث کہے بغیر بیان کیا جا سکتا ہے
  تفسير القرطبي13/118
شرح الزرقاني على المواهب اللدنيہ12/360
۔
######################

👈*37:* جب کوئی نوجوان توبہ کرتا ہے تو مشرق سے مغرب تک تمام قبرستان سے چالیس دن تک اللہ عذاب کو دور کر دیتا ہے۔ (سَنَداً نہیں ملتی، بیان کرنا موقوف رکھا جائے)
.
 `*#ہمارا تبصرہ*`
یہ روایت میں کسی کتاب میں نہیں ملی۔۔۔البتہ حدیث پاک میں ہے کہ اللہ تعالی کو سب سے زیادہ محبوب نوجوان کی توبہ کرنا ہے 
جامع الأحاديث،19/180
۔
##################
 

👈*38:*  معراج کا خاص راز۔  عائشہ ؓ کا اپنے والد ابو بکر صدیق ؓ سے مشورہ کر کہ نبی کریم ﷺ سے معراج کی رات کی خاص باتوں میں سے ایک بات کا پوچھنا اور ابو بکر صدیق ؓ کو بتانا۔ جس کو سن کر وہ رو پڑے۔  (یہ روایت کسی مستند یا غیر مستند کتاب میں نہیں مل سکی)
.
`*#ہمارا تبصرہ*`
واللہ اعلم
#####################

👈*39:* ایک دفعہ نبی کریم ﷺ طواف فرما رہے تھے ایک اعرابی کو اپنے آگے طواف کرتے پایا جس کی زبان پر یا کریم یا کریم کی صدا تھی۔ نبی ﷺ نے بھی پیچھے سے یا کریم پڑھنا شروع کر دیا۔ جس پر اس نے آپ ﷺ سے فرمایا کہ آپ میرا مذاق اڑاتے ہیں۔ (یہ واقعہ بھی کسی مستند یا غیر مستند روایات میں موجود نہیں)
.
`*#ہمارا تبصرہ*`
ہمیں نہیں ملی ایسی کوئی حدیث۔۔۔۔۔۔!!
۔
#####################

👈*40:* دو شخص  عمر فاروقؓ کی محفل میں داخل ہوئے اور ایک شخص کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ اس شخص نے ہمارے باپ کو قتل کیا ہے۔ اس شخص نے اقرار کیا اور کچھ امانتیں واپس کرنے کے لیے تین دن کی مہلت مانگی جس پر ابوذر غفاری ؓ نے ان کی ضمانت دی۔۔۔۔۔ (کسی بھی مستند یا ضعیف مصدر میں اس پورے واقعہ کا کوئی حوالہ نا مل سکا)
.
 `*#ہمارا تبصرہ*`
معتبر کتب میں نہیں ملا
۔
####################

👈*41:* کچرہ پھینکنے والی بڑھیا اور مکہ چھوڑ کر جانے والی بڑھیا، دونوں روایات من گھڑت ہیں اور وہ بڑھیا جس کی خدمت ابو بکر صدیق ؓ کئی سال کرتے رہے یہ روایت انتہائی ضعیف نا قابل بیان ہے۔
۔
`*#ہمارا تبصرہ*`
انتہائی ضعیف کا مدلل فتوی ہمیں نہیں ملا زیادہ سے زیادہ ضعیف کہہ سکتے ہیں اور ضعیف فضائل میں قبول ہوتی ہے 
۔
عجوزا كبيرة عمياء في بعض حواشي المدينة۔۔۔الخ
۔
سيدنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ رات كے وقت مدینۂ  منوره  كے  كسی  محلے  ميں رہنے  والی ايک نابينا بوڑھی  عورت کے گھریلو کام کاج کر دیا کرتے تھے،آپ اس کےلیے پانی بھر کر لاتے اور اس کے تمام کام سر انجام دیتے۔حسبِ معمول ایک مرتبہ بڑھیا کے گھر آئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ سارے کام ان سے پہلے ہی کوئی کر گیا تھا۔ بہرحال دوسرے دن تھوڑا جلدی آئے تو بھی وہی صورتِ حال تھی کہ سب کام پہلے ہی ہو چکے تھے۔جب دو تین دن ایسا ہوا تو آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کو بہت تشویش ہوئی کہ ایسا کون ہے جو مجھ سے نیکیوں میں سبقت لے جاتا ہے؟ایک دن آپ دن ہی  میں آ کر کہیں چھپ گئے جب رات ہوئی تو دیکھا کہ
خلیفۂ وقت اَمیرُ المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ تشریف لائے اور اس نابینا بڑھیا کے سارے کام کر دیئے۔آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بڑے حیران ہوئے کہ خلیفۂ وقت ہونے کے باوجود ایسی اِنکساری! اِرشاد فرمایا:حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ  ہی تو ہیں جو مجھ سے نیکیوں میں سَبقت لے جاتے ہیں۔کنزالعمال،کتاب الفضائل،باب فضائل الصحابة،فضل الصدیق...الخ ،الجزء:۱۲، ۶/۲۲۱، حدیث:۳۵۶۰۲
بحوالہ کتاب نیکیاں چھپاو ص3،4بحذف
۔
#####################

👈*42:* ایک شخص میں چار خامیاں تھی نبی کریم ﷺ کے کہنے پر اس نے جھوٹ بولنا چھوڑ دیا تو اس کے باقی سب گناہ بھی چھوٹ گئے۔  (من گھڑت ہے)
.
 `*#ہمارا تبصرہ*`
سند نہ ہونے کی وجہ سے کسی حدیث کو من گھڑت نہیں کہا جا سکتا یہ روایت کئی کتب میں موجود ہے روایت کچھ یوں ہے کہ 
 ایک دیہاتی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست اقدس پر بیعت اس شرط پر کی کہ وہ  زنا، چوری، اور جھوٹ میں سے صرف ایک عادت چھوڑےگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جھوٹ چھوڑ دو، تو پھر جب بھی وہ زنا  یا چوری کا ارادہ کرتا تو سوچتا کیسے یہ کام کر سکتا ہوں؟ اگر میں نےکر لیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھ لیا تو اگر سچ بولوں گا تو وہ  حد جاری کردیں گے، اور اگر جھوٹ بولوں گا تو وعدے کی خلاف ورزی ہوگی کہ وعدہ کیا تھا جھوٹ نہیں بولوں گا۔۔۔تو بس اس کی وجہ سے تمام بری عادتوں سے چھٹکارا مل گیا
 ربيع الأبرار ونصوص الأخيار4/340
 التذكرة الحمدونية3/49
المحاسن والمساوئ ص170
.
#################
👈*43:* ایک عورت اپنے ساتھ چار مردوں کو جہنم لے کر جائے گی۔ باپ ، شوہر ، بھائی اور بیٹے کو۔۔ (من گھڑت ہے)
.
 `*#ہمارا تبصرہ*`
اس پر اوپر پوائنٹ35 میں تحقیق لکھی جا چکی 
۔
##################

👈*44:* جس شخص کے یہاں بچہ پیدا ہو اور وہ اس کا نام برکت حاصل کرنے کے لئے محمد رکھے تو وہ بچہ اور اس کا والد دونوں جنت میں جائیں گے. (من گھڑت ہے)
.
`*#ہمارا تبصرہ*`
درج زیل علماء کرام نے محدثین نے مذکورہ حدیث پاک کو حسن معتبر کہا ہے جو صحیح حدیث سے تھوڑا کم درجے کی ہوتی ہے مگر فضائل اور احکام میں معتبر ہوتی ہے
1...امام سیوطی
2.... امام سخاوی
3... امام مناوی
4.... امام صنعانی
 5....امام حلبی
6.... علامہ فتنی
7....علامہ شامی
8.....علامہ حقی
9.... امام عجلونی
 10....امام ابن عراق
11....امام ابن حجر ہیتمی
۔
من ولد له مولود فسماه محمدًا تبركًا به؛ كان هو ومولوده في الجنة"۔۔۔۔قال السيوطي في "مختصر الموضوعات": هذا أمثل حديث ورد في هذا الباب وإسناده حسن
حدیث پاک میں ہے کہ جس کو بیٹا پیدا ہوا اور اس کا نام میرے نام سے تبرک لیتے ہوئے محمد رکھا تو وہ اور اس کا بیٹا جنت میں جائیں گے۔۔۔امام سیوطی (وغیرہ کئی علماء کرام محدثین عظام) نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن معتبر ہے 
(كشف الخفاء ت هنداوي2/373)
۔
باقی علامہ ذہبی متشدد نے مذکورہ روایت کو موضوع قرار دیا من گھڑت جھوٹی قرار دیا اور لکھا کہ حامد بن حماد من گھڑت روایت لایا ہے۔۔۔۔امام ابن حجر نے بھی علامہ ذہبی کی دیکھا دیکھی اس بات کو برقرار رکھا۔۔۔حدیث کو موضوع قرار دینے کے لیے کوئی ٹھوس وجہ ہونی چاہیے جیسے کہ تحریر کے شروع میں 15 وجوہات بیان کی گئی ہیں ان میں سے ایک بھی یہاں پر موجود نہیں ہے۔۔۔علامہ ذہبی نے حامد بن حماد کو کذاب دجال وضاع یضع متھم وغیرہ الفاظ سے جرح نہ کی جب جرح نہیں تو زیادہ سے زیادہ مجہول راوی کہلانا چاہیے اور اس روایت کی تائید دوسری روایت سے ہوتی ہے جس کو ذہبی کے پیروکار متشددین نے ضعیف قرار تسلیم کیا ہے(دیکھیے کتاب فضائل التسمیہ باحمد و محمد) تو اس طرح مجہول کی روایت اور ضعیف کی روایت مل کر حسن معتبر روایت بن جاتی ہے 
۔
علامہ ذہبی نے عطیہ کو مجہول راوی قرار دیا
.عطية بن عطية: عن عطاء، مجهول
 ديوان الضعفاء ذهبي ص276
۔
پھر دوسری جگہ امام ذہبی نے عطیہ کے متعلق کہا کہ اس نے موضوع من گھڑت جھوٹی روایت کو لایا ہے لیکن امام ابن حجر نے ایک نہ سنی اور روایت کو مضطرب ضعیف قرار دیا
الحديث بهذا السند مضطرب، والحمل على عطية بن عطية وهو مجهول، وقال الذهبي في الميزان في ترجمة عطية بن عطية أتى بخبر موضوع، ويعني الذهبي بذلك هذا الحديث
(المطالب العالية محققا12/463)
۔
اس بات سے بھی ثابت ہو جاتا ہے کہ فلا راوی موضوع روایت لایا ہے کہنے سے راوی پر جرح مفسر ثابت نہیں ہوتی۔۔۔۔اور جب تک ایسی جرح ثابت نہ ہو اور دیگر دلائل نہ ہوں تو روایت و احادیث من گھڑت موضوع نہیں بنے گی خاص کر جب محققین محدثین نے اسے ضعیف یا حسن معتبر قرار دیا ہو
۔
######################


👈*45:* اپنی اولاد کو رونے پر مت مارو کیوںکہ بچہ کا رونا چار مہینہ لا الہ الا اللہ ہے، اور چار مہینہ تک محمد رسول اللہ(ﷺ) ہے، اور چار مہینہ والدین کے لئے دعا ہے۔ (من گھڑت ہے)
.
`*#ہمارا تبصرہ*`
مذکورہ بالا حدیث کی ہمیں دو چار سندیں ملیں ایک سند میں البلدی نام کا راوی ہے جس کی وجہ سے علماء نے سند کو موضوع من گھڑت جھوٹی قرار دیا جبکہ دو چار ایسی اور سندیں ہیں جس میں البلدی نہیں ہے بلکہ دیگر راوی ہیں جس میں سے بعض مجہول ہیں تو زیادہ سے زیادہ یہ روایت ضعیف ہے اور فضائل میں ضعیف قابل قبول ہے
یہ ہیں وہ حوالہ جات کی جس میں وہ سندیں ہیں کہ جس میں البلدی یا اس جیسا کذاب متھم راوی نہیں ہے
1۔۔۔الثاني من المنتخب من كتاب السبعيات حدیث9
2۔۔۔۔۔الطيوريات - حدیث201
.
###################

👈*46:* بخیل جنت میں نہیں جائے گا اگرچہ وہ عابد ہو، اور سخی جہنم میں نہیں جائے گا اگر چہ وہ فاسق ہو۔ ( من گھڑت ہے)
.
 `*#ہمارا تبصرہ*`
مذکورہ بالا روایت تو نہیں ملی البتہ اس سے ملتی جلتی یہ روایت بیان کرنی چاہیے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا سخی اللہ کے قریب ہوتا ہے اور جنت کے قریب ہوتا ہے اور لوگوں کے قریب ہوتا ہے جہنم سے دور ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔جبکہ بخیل اللہ سے دور ہوتا ہے جنت سے دور ہوتا ہے لوگوں سے دور ہوتا ہے جہنم کے قریب ہوتا ہے۔۔۔۔سخی اگرچہ جاہل ہو وہ اللہ عزوجل کو بخیل عابد عبادت گزار سے زیادہ پسند ہے
ترمذی حدیث1961
۔
##################

👈*47:* ایک گھڑی غور و فکر کرنا ایک سال کی عبادت سے زیادہ بہتر ہے۔(یہ حدیث نہیں ہے بلکہ حضرت سری سقطیؒ کا کلام ہے)
.
`*#ہمارا تبصرہ*`
جی  سیدنا سری سقطی کے حوالے سے مذکورہ قول ملتا ہے لیکن یہ حدیث بھی ملتی ہے کہ
التَّفَكُّرُ سَاعَةً خَيْرٌ مِنْ قِيَامِ لَيْلَةٍ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ایک گھڑی تفکر  ساری رات کی شب بیداری عبادت گزاری سے بہتر ہے
الزهد لابي داؤد حدیث169
۔
###############

👈*48:*  موسی علیہ السلام کو اللہ تعالی نے فرمایا کہ اے موسی جب میں آپ سے بات کرتا ہوں تو میرے اور آپ کے درمیان 70 ہزار پردے ہوتے ہیں لیکن امت محمدیہ جب افطار کے وقت دعا مانگے گی تو کوئی پردہ نہ ہوگا۔ (من گھڑت ہے)
۔
`*#ہمارا تبصرہ*`
مذکورہ روایت کسی معتبر کتاب میں نہیں ملی لہذا اسے بیان نہ کیا جائے
۔
#################

👈*49:* شب قدر کے حوالے سے نوافل کی خاص تعداد یا خاص طریقے سے نماز پڑھنے والی روایات (من گھڑت ہیں)
۔
`*#ہمارا تبصرہ*`
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا،
اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ یہ لیلۃ القدر ہے ،تو میں کیا پڑھوں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ دعا پڑھو:
"اللَّهُمَّ إِنَّكَ عُفُوٌّ كَرِيمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي"
اے اللہ! توبہت معاف کرنے والا ہے ،معاف کرنا تجھے پسند ہے،پس تو مجھے معاف فرمادے"
(ترمذی حدیث3513)
.
باقی بہت سارے نوافل ہیں جن کے بہت فضائل ہیں وہ سال میں کسی بھی وقت پڑھ سکتے ہیں تو شب قدر شب معراج شب براءت وغیرہ میں ضرور وہ پڑھنے چاہیے کہ ہر روز نہ پڑھ سکیں تو کم سے کم بابرکت راتوں میں پڑھ کر زیادہ سے زیادہ ثواب کمائیں 
۔
######################

👈*50:* تہمت کی جگہوں سے بچ کے رہو۔ (من گھڑت ہے)
.
`*#ہمارا تبصرہ*`
یوں کہنا چاہیے کہ یہ حدیث پاک کے الفاظ تو نہیں ملے مگر دیگر احادیث کے مفہوم سے ثابت ہوتا ہے کہ تہمت کی جگہوں سے بچ کے رہو۔۔۔۔مثلا حدیث پاک میں ہے جو شبہات  سے بچ گیا اس نے اپنے دین اور اپنی عزت کو بچا لیا(بخاری حدیث 52.... ایک حدیث پاک میں ہے کہ غلط فہمی میں پڑھنے اور غلط فہمی ڈالنے سے بچو(ابو داؤد حدیث3656
۔
شبہات سے نہ بچیں گے تو تہمت کی جگہوں میں رہیں گے اور اسی طرح غلط فہمی میں ڈالنے سے نہ بچیں گے تو تہمت کی جگہوں میں رہیں گے تو اس قسم کی احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ تہمت کی جگہوں سے بچ کے رہنا چاہیے
۔
✍تحقیق و تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
naya wtsp nmbr
03062524574
purana block shuda wtsp nmbr
03468392475

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.