Labels

آیات احادیث صحابہ اہلبیت اسلاف کے مطابق عید غدیر کسی بھی نظریے سے منانا جائز نہیں، افضل کون، مولا علی کا معنی، سیدنا عثمان و دیگر صحابہ کرام کی شان،

*#اٹھارہ ذوالحج یوم صلح، یوم مودت و محبت کہہ کر منا سکتے ہیں، رمضان میں یوم شہادت سیدنا علی منا سکتے مگر اٹھارہ ذوالحج کو یوم ولایت و خلافت بلافصل کہہ کر یا یوم ولایت سیدنا علی کہہ کر یا یوم افضلیت سیدنا علی کہہ یا یوم فضلیت سیدنا علی کہہ یا کچھ بھی کہہ کر 18ذوالحج کو عید غدیر منانا جائز نہیں۔۔18ذوالحج کےدن ہوا کیا تھا۔؟؟سیدنا عثمان و صحابہ کرام کی شان شیعہ کتب سے بھی،خلافت، باغ فدک وغیرہ تمام معاملات میں اہل بیت کے مطابق خلفائے راشدین اور صحابہ کرام کے فیصلے درست اور شریعت کے مطابق تھے۔۔۔سیدنا ابوبکر صدیق کی افضلیت قطعی ہے ایات احادیث اہل سنت و شیعہ کتب و اسلاف سے دلائل و تفصیل اور بہت کچھ پڑھیے اس تحریر میں،خوب پھیلائیے*

۔

وقفے وقفے سے تھوڑا تھوڑا کر کے پڑھیں یا ایک بار میں ہی پڑھ ڈالیں۔۔۔لیکن سیو فرما لیں،شیئر کر دیں تاکہ بعد میں تسلی سےپڑھی بھی جاسکےاور دوسرےبھائیوں تک پہنچائی بھی جاسکے۔تحریر کو صاف الفاظ میں پڑھنے کے لیے اس لنک پر جاکر پڑھیں۔۔لنک یہ ہے

https://whatsapp.com/channel/0029Vb5jkhv3bbV8xUTNZI1E

اور میرے واٹسپ چینل جسکا لنک اوپر لکھا ہے اس کو فالو بھی ضرور کریں۔۔

۔

*#ہم اس مدلل تحریر کو چار حصوں میں لکھیں گے*

1️⃣۔۔۔پہلا حصہ:

سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی شان کی ایک جھلک اہلسنت اور شیعہ کتب سے بھی۔۔۔۔۔!!

۔

2️⃣۔۔دوسرا حصہ:

شیعہ کے مطابق سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ اور سیدنا ابوبکر صدیق سیدنا عمر اور دیگر صحابہ کرام سارے صحابہ کرام نعوذ باللہ نعوذ باللہ کافر ظالم ہیں۔۔۔شیعہ کے مطابق سیدنا عثمان ظالم کافر نعوذ باللہ تھے ان کی وفات پر 18 ذوالحج کو عید غدیر کے ساتھ خوشی منانا ضروری ہے۔۔حوالہ جات شیعہ کتب سے اور ساتھ ساتھ انکا رد بھی لکھیں گے

اور

ثابت کریں گے کہ شیعہ کتب میں بھی لکھا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ سمیت تمام اہل بیت کرام کے مطابق سیدنا ابوبکر صدیق سیدنا عمر سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہما اجمعین اور دیگر تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہما اجمعین کافر ظالم بدعتی منافق نہ تھے بلکہ برحق و درست تھے شریعت کے مطابق تھے سنت رسول کے مطابق تھے نیک اور عبادت گزار تھے۔۔۔لہذا انہوں نے باغ فدک خلافت وغیرہ تمام معاملات میں جو کچھ کیا وہ سب اہل بیت کے نزدیک سیدنا علی کے نزدیک درست تھا شریعت کے مطابق تھا ،کوئی ظلم کفر منافقت وغیرہ نہ تھا

.

۔

3️⃣۔۔۔تیسرا حصہ:

من کنت مولاہ کا معنی و پس منظر اہل سنت اور شیعہ کتب سے۔18 ذوالحج کےدن ہوا کیا تھا۔۔؟؟

۔

4️⃣۔۔چوتھا حصہ:

عید غدیر یا یوم ولایت و خلافت بلافصل کہہ کر یا یوم ولایت سیدنا علی کہہ کر یا یوم افضلیت سیدنا علی کہہ یا یوم فضلیت سیدنا علی کہہ یا کچھ بھی کہہ کر 18ذوالحج کو عید غدیر منانا جائز نہیں،دلائل لکھیں گے ہم۔۔!! اور سیدنا ابوبکر صدیق و عمر کی افضلیت قطعی ہے،ایات احادیث اور اسلاف کے اقوال لکھیں گے ہم

.

*#گزارش*

تحریرات سوالات اعتراضات کے جوابات، اہلسنت کے دفاع، معاشرے کی اصلاح و معلومات و تحقیق و تشریح و تصدیق یا تردید وغیرہ کے لیے مجھے وٹسپ کر سکتے ہیں

naya wtsp nmbr

03062524574

میرے نئے وٹسپ نمبر کو وٹسپ گروپوں میں ایڈ کرکے ایڈمین بنائیے تاکہ میں تحریرات وہاں بھیج سکوں،،،سوالات اعتراضات کے جوابات دے سکوں۔۔۔۔دینی خدمات زیادہ سے زیادہ سر انجام دے سکوں

 اور وٹسپ چینل پہ، فیس بک پیج پہ، بلاگ پیج پہ وقتا فوقتا ضرور ایا کریں جزاکم اللہ خیرا 

۔

علمی تحقیقی اصلاحی سیاسی تحریرات کے لیے اس فیسبک پیج کو فالوو کیجیے،پیج میں سرچ کیجیے،ان شاء اللہ بہت مواد ملے گا...اور اس بلاگ پے بھی کافی مواد اپلوڈ کردیا ہے...لنک یہ ہے:

https://tahriratehaseer.blogspot.com/?m=1

.

https://www.facebook.com/share/1BsksuGZ6h/

۔

@@@@@@@@@@@@@

*#پہلا1️⃣ حصہ*

سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی شان کی ایک جھلک اہلسنت اور شیعہ کتب سے بھی۔۔۔۔۔!!

.

1...الحدیث:

بیعت رضوان کے موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک رکھا اور فرمایا یہ میرا ہاتھ عثمان کا ہاتھ ہے

بخاری حدیث 3698

۔

2...الحدیث:

أَكْرِمِيهِ، فَإِنَّهُ مِنْ أَشْبَهِ أَصْحَابِي بِي خُلُقًا

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق ارشاد فرمایا کہ ان کی تعظیم و عزت ہمیشہ کرنا کہ بے شک وہ ان صحابہ کرام میں سے ہے کہ جو اخلاق  میں مجھ سے بہت زیادہ مشابہ ہیں

فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل حدیث834

معرفة الصحابة لأبي نعيم حدیث 7353

المعجم الكبير للطبراني حدیث98نحوہ بسند اخر

اور بھی بہت کتب میں یہ حدیث ائی ہے

۔

علماء کرام نے وضاحت فرمائی ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے یا پھر  مرسل موھم ضعیف سے نکل کر حسن معتبر ہے کیونکہ اس کی دیگر سندیں بھی ہیں

قاعدہ، اصول:

سنی شیعہ نجدی سب کا متفقہ اصول و قاعدہ  ہے کہ تعدد طرق یعنی ضعیف حدیث کی کوئی دوسری سند یا سندیں مل جائیں تو اس  سے ضعیف روایت حسن و معتبر بن جاتی ہے

۔

وقد يكثر الطرق الضعيفة فيقوى المتن

تعدد طرق سے ضعف ختم ہو جاتا ہے اور(حدیث و روایت کا) متن قوی(معتبر مقبول صحیح و حسن)ہوجاتا ہے

(شیعہ کتاب نفحات الازھار13/55)

۔

لِأَنَّ كَثْرَةَ الطُّرُقِ تُقَوِّي

کثرت طرق(تعدد طرق)سے روایت و حدیث کو تقویت ملتی ہے(اور ضعف ختم ہوجاتا ہے)

(تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي ,1/179)

۔

*#اہم نتیجہ*

 ان دو احادیث مبارکہ پہ غور کیجئے کہ پہلی حدیث پاک میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت رضوان کے موقع پہ اپنا دست مبارک  رکھ کر فرمایا یہ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کا ہاتھ ہے،بیعت کے موقع پر ہاتھ تو صرف علامت ہوتی ہے اصل مقصود یہ ہوتا ہے کہ میں میری جان میرے نظریات سب کچھ کی ترجمان یہ میرا ہاتھ ہے تو گویا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ مبارک کو علامت قرار دیتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا ہو کہ میں ذاتی طور پر ہاتھ نہیں رکھ رہا بلکہ عثمان کی ایسی شان ہے کہ میں نبی پاک اپنی ذات کو عثمان کی ذات کے طور پر ظاہر کر رہا ہوں۔۔۔تو گویا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم عملی طور پر ارشاد فرما رہے ہوں کہ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ بھی نفس رسول ہے یعنی رسول کریم کے بہت قریب ہے ، بہت محبوب ہے، بہت معتبر ہے،کردار و اخلاق وغیرہ میں بہت مشابہ رسول ہے

۔

یہ فضیلت سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے ان دو احادیث مبارکہ سے روز روشن کی طرح واضح ہوتی ہیں اور یہ فضیلت سب سے پہلے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو حاصل ہے پھر سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو پھر سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو پھر سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو اور پھر اگے بہت تفصیل ہے جس پر الگ سے انشاءاللہ عزوجل تحریر لکھیں گے۔۔۔فقط سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو نفس رسول کہہ کر افضلیت ثابت کرنا دیگر افضل صحابہ کرام کے ساتھ دشمنی و زیادتی ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی ہے اور اپنے نفس کی من مانی ہے، چالِ شیطانی ہے

۔

3....الحدیث:

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میری امت پر سب سے زیادہ رحم دل امتی ابوبکر صدیق ہے اور اللہ کے معاملے میں سب سے زیادہ سختی کرنے والا عمر ہے اور بہت زیادہ سچا حیا کرنے والا عثمان ہے 

ترمزی حدیث3790

.

الحدیث:

فإن الحياء من الإيمان

بے شک حیاء ایمان میں سے ہے

(بخاری حدیث24)

.

لیجئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے خصوصی طور پر سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے بھی تصدیق جاری ہو گئی کہ یہ کبھی بے ایمانی نہ کریں گے ظلم و زیادتی نہ کریں گے، سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ تیسرے خلیفہ بن کر سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو چوتھا خلیفہ بنا کر بے ایمانی کرنے والے نہیں، کیونکہ سیدنا عثمان رسول کریم کی زبان مبارک سے بہت حیاء والے ثابت ہوئے اور رسول کریم کے فرمان کے مطابق حیا دار بے ایمان نہیں ہوتا۔۔سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے تمام معاملات تمام احکامات جو جو کارنامے یا جو جو احکامات اپنی خلافت میں یا خلافت سے پہلے کیے وہ سب کے سب اس حدیث مبارکہ کے تحت بھی درست ثابت ہوتے ہیں کہ سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ بے ایمانی نہیں کر سکتے یہ سرٹیفیکیٹ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے انہیں بھی مل گیا ہے اور دیگر صحابہ کرام کو بھی ضرور ملا ہے۔۔۔کسی کو عمومی سرٹیفیکیٹ ملا تو کسی کو خصوصی سرٹیفیکیٹ ملا۔۔۔۔ جس میں حکمت یہ سمجھ اتی ہے کہ گویا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے خصوصی سرٹیفیکیٹ خصوصی صحابہ کرام کے لیے اس حکمت کے تحت عطا فرمائے کہ ان پر زیادہ اعتراضات ہوں گے تو ان پر میں اعتماد کا سرٹیفیکیٹ جاری کر دیتا ہوں تاکہ ایمان والے اپنے ایمان کو مضبوط بنائیں اور کم علم کو ہدایت ملے۔۔۔شیعہ روافض نیم روافض مودودی ودودی نیچری وغیرہ جو اعتراضات کرتے ہیں وہ سارے کے سارے باطل ہیں

۔

4۔۔۔۔۔الحدیث:

جَاءَ عُثْمَانُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَلْفِ دِينَارٍ۔۔۔حِينَ جَهَّزَ جَيْشَ الْعُسْرَةِ فَيَنْثُرُهَا۔۔۔مَا ضَرَّ عُثْمَانَ مَا عَمِلَ

 بَعْدَ الْيَوْمِ

تنگدستی کے وقت مسلمانوں کو ضرورت پڑ گئی کہ جہاد کے لیے لشکر بھیجیں تو اس وقت سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ ایک ہزار دینار لے کر ائے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں نچھاور کر دیے حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کا یہ انداز و کردار دیکھ کر ارشاد فرمایا کہ اج کے بعد عثمان جاؤ جو کچھ کرنا ہے کرو اس سے تمہیں کوئی نقصان نہیں ہوگا

ترمذی حدیث 3701

۔

اللہ اکبر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اتنا اعتماد اور بھروسہ یقینا اللہ کی طرف سے وحی کردہ ہوگا کہ پیارے حبیب صلی اللہ علیک وسلم عثمان زندگی بھر کبھی کوئی غلط کام نہیں کرے گا ، اپ اسے پروانہ دے دیجئے سرٹیفکیٹ دے دیجئے کہ عثمان کبھی غلط نہیں کرے گا، بے ایمانی نہیں کرے گا۔۔۔یہی وجہ ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ اس فرمان کے بعد اور زیادہ رسول کریم کے پیروکار بن گئے اور دین اسلام کے پیروکار بن گئے نیک عبادات گزار بن گئے، سیاست خلافت کے بھی تمام کام شریعت کے مطابق کیے صاف صاف ایات و احادیث پر عمل کیا یا پھر قران و حدیث پر قیاس کر کے عمل کیا کردار کیا قانون نافذ کیے حکومت کی۔۔۔اور یہ قیاس کرنا ایت مبارکہ میں لازم کر دیا گیا ہے رسول کریم نے لازم کر دیا تھا لیکن قیاس ہر ایرے غیرے کی لیے جائز نہیں بلکہ ائمہ مجتہدین کے لیے جائز ہے معتبر علماء فقہاء کے لیے مشروط جائز ہے۔۔۔سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ پہ شیعہ روافض نیم روافض مودودی ودودی نیچری وغیرہ جو اعتراضات کرتے ہیں وہ سارے کے سارے باطل ہیں مذکورہ بالا دونوں حدیثوں کی وجہ سے بھی۔۔۔۔!!

۔

5۔۔۔

(سنن الترمذي حدیث3704)

.

6....نبی پاکﷺاحد پہاڑ پے تشریف فرما ہوئے اور آپ کے ساتھ سیدنا ابوبکر و عمر اور عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنھم تھے تو احد پہاڑ جنبش کرنے لگا نبی پاکﷺ نے فرمایا اے احد ساکن ہو جا راوی کہتے ہیں کہ میرے خیال میں نبی پاکﷺنے اپنا پاؤں مبارک احد پہاڑ پے مار کر فرمایا تھا کہ ساکن ہوجا.....بےشک تجھ پر نبیﷺاور صدیق اور دو شہید(سیدنا عمر و عثمان) ہیں

(صحيح البخاري ,5/15حدیث3699)

.

7...ذَكَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِتْنَةً، فَمَرَّ رَجُلٌ فَقَالَ: " يُقْتَلُ فِيهَا هَذَا الْمُقَنَّعُ يَوْمَئِذٍ مَظْلُومًا "، قَالَ: فَنَظَرْتُ، فَإِذَا هُوَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ

نبی پاکﷺنے ذکر فرمایا کہ انقریب ایک فتنہ ہوگا اتنے میں ایک شخص گذرا جس نے چہرہ کپڑے سے چھپایا ہوا تھا نبی پاکﷺنے فرمایا یہ شخص اس دن ظلما شہید کیا جائے گا راوی کہتے ہیں کہ(نبی پاکﷺکا یہ فرمان سنتے ہی)میں نے اس شخص کی طرف(اس کےچہرے سے پردہ ہٹا کر)دیکھا تو وہ سیدنا عثمان بن عفان تھے رضی اللہ تعالیٰ عنھم

(مسند أحمد ط الرسالة ,10/169حدیث5953)

سنن الترمذي حدیث3704نحوہ)

.

چھپے ہوئے چہرے کو پہچان کر وقت سے بہت پہلے غیب کی خبر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دی جو ہوباہو سچ ثابت ہوئی پھر بھی کچھ لوگ و فرقے کہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ نبیﷺکو دیوار کےپیچھےکا بھی علم نہیں… اللہ انہیں ہدایت دے

اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ خلفائے راشدین سمیت کئی اہم صحابہ کرام کا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے خصوصی تعلق تھا۔۔۔بے شک تمام صحابہ کرام اعلی درجے کے عظیم الشان لوگ ہیں لیکن اہم صحابہ کرام کی اہمیت اپنی جگہ پر ہے،جو تین خلفائے کرام سے چڑتے ہیں گویا وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑی چڑ کھاتے ہیں،کیونکہ ان صحابہ کرام میں اگر کچھ فی الوقت یا بعد میں کوئی گڑبڑ ہونی تھی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کو اتنا قرب نہ دیتے کیونکہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالی نے غیبوں کا علم عطا فرما دیا تھا 

۔

.

8...قُلْنَا: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، أَلَا تُقَاتِلُ؟ قَالَ: " لَا، إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهِدَ إِلَيَّ عَهْدًا، وَإِنِّي صَابِرٌ

 نَفْسِي عَلَيْهِ

(جس وقت سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کا محاصرہ کیا گیا ان کا پانی بند کیا گیا ان کے لیے نماز کے راستے بند کیے گئے اور مسلمانوں میں انتشار پھیلنے لگا اس وقت) صحابہ و تابعین نے عرض کیا اے امیر المومنین سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ اپ اعلان جنگ کیوں نہیں فرماتے, اپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ بے شک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملے کے متعلق مجھ سے عہد لیا تھا تو میں اس عہد پر قائم ہوں اور اس عہد کے تحت صبر کر رہا ہوں

مسند احمد حدیث24253

.

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اے عثمان منافقین تم سے کہیں گے کہ عہدہ خلافت چھوڑ دو تو تم ہرگز نہ چھوڑنا (مگر صبر کرنا اپنی جان کی قربانی دے دینا لیکن امت کو منتشر ہونے سے بچا لینا،امت کے لیے ہدایت وحدت کا باعث بننا)

 ابن ماجہ حدیث112

۔

واضح ثبوت ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کا محاصرہ کرنے والے ان کو شہید کرنے کے در پہ ہونے والے اور ان کا پانی بند کرنے والے کھانا بند کرنے والے نماز کے لیے راستہ بند کرنے والے اور لوگوں میں انتشار پیدا کرنے والے منافقین ہی تھے،رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیب کی خبر دے کر یہی بتایا کہ یہ منافقین ہی ہوں گے اور رسول کریم کی ہدایت تھی کہ اس وقت بھی اسلام کی سربلندی کے لیے منافقین کا کہنا مت ماننا بلکہ اسلام کی سربلندی کے لیے منافقین کو سمجھانا اور ان کے لیے ہدایت کا سامان بننا، صبر کرنا چاہے اپ کو اپنی جان کی قربانی دینا ہی پڑے۔۔۔ سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے جنگ کا اعلان کرنے کے بجائے اپنی قربانی دی اور اپنی قربانی دے کر امت کو منتشر ہونے سے بچا لیا،لكن اتحاد امت کا یہ مطلب نہیں کہ منافقوں بد مذہبوں کی بدمذہبی منافقی والی تعلیمات نظریات کی تائید کی جائے۔۔۔سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے عمل نے امت کو گمراہ مرتد ہونے سے بچا لیا، جن لوگوں کے ذہن منتشر تھے ان کو کتنا سکون ملا ہوگا ، کتنا ایمان ملا ہوگا کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ اجمعین کتنے سچے ہیں کہ اس وقت ان کی تعداد و طاقت بھی بہت ہے لیکن پھر بھی وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانبرداری میں امت کو ہدایت دینے کے لیے، ہدایت پر رکھنے کے لیے، فتنہ فساد ختم کرنے کے لیے کم کرنے کے لیے، اتحاد پیدا کرنے کے لیے اور انتشار سے بچنے کے لیے اپنی قربانی تک دے رہے ہیں، ۔۔۔۔ اللہ اکبر کبیرا،ہم  قربان صحابہ کرام پے

۔

9۔۔۔۔وَعِنْدَهُ قَوْمٌ مِنَ الشِّيعَةِ...الخ

ایک محفل تھی جس میں کچھ شیعہ بھی شامل تھے،سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک بات بیان کی جس میں سیدنا عثمان کی بھی شان بیان تھی تو شیعہ حیرت کرنے لگے اعتراض کرنے لگے تو سیدنا ابو مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ میں تمہیں ایک حدیث سناتا ہوں 

ایک غزوہ کے موقع پر تنگدستی کا عالم تھا منافقین خوش ہو رہے تھے اور صحابہ کرام پریشانی کے عالم میں تھے سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے 14 سواریاں خریدی اور کھانے پینے وغیرہ کے سامان سے بھر کر سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف تحفہ بھیجا تو مسلمانوں کے چہروں پہ خوشی کے عالم تھے اور منافقین کو دکھ درد غم آن پہنچا تھا،رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے وہ دعا فرمائی کہ جو کسی کے لیے بھی نہیں فرمائی 

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے دعا فرمائی کہ یا اللہ عثمان کو سب کچھ عطا فرما دے، یا اللہ جو عثمان چاہے ویسا اپ فرما دیں 

امام ہیثمی نے فرمایا کہ یہ روایت طبرانی میں ہے اور اس کی سند حسن معتبر ہے (بعض محدثین نے تو صحیح حدیث ہونے کا حکم بھی لگایا ہے)

مجمع الزوائد حدیث14560

اس حدیث و روایت سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ

1... منافقین کے سامنے ایسی حدیثیں بیان کیجئے کہ جو سوچے سمجھے ہدایت ملے ورنہ ضدی فسادی جل بھن جائے

۔

2۔۔۔سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی عظیم سخاوت کی عظیم مثال اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنا پیار اتنا محبت اتنی قربت کہ سب کچھ قربان کر دیتے اور مسلمانوں کو خوش کرنے کے لیے کیا کچھ نہیں کرتے۔۔۔واہ سیدنا عثمان واہ 

۔

3۔۔۔بعض لوگ معتبر یا غیر معتبر روایات کے تحت کہتے ہیں کہ صرف سیدنا علی کو رسول کریم نے دعا دی کہ یا اللہ جو مجھے ملا وہ علی کو دے دے سوائے نبوت کے۔۔۔مذکورہ حدیث لوگوں کے لیے بھی ہدایت کا سامان ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عثمان کے لیے بھی فرمایا ہے کہ یا اللہ سب کچھ عطا فرما دے میرے عثمان کو(سوائے نبوت کے)

۔

4۔۔۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ فقط سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی شان ہے کہ ان کے متعلق رسول کریم نے فرمایا کہ یا اللہ جس طرف علی ہو ٫حق کو بھی اسی طرف کر دو

تو انہیں بھی سوچنا چاہیے کہ یہ دعا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے بھی فرمائی ہے کہ یا اللہ جو عثمان چاہے وہی اپ فرما دیں، یعنی جس طرف سیدنا عثمان ہو اسی طرف حق ہو جائے

.

10۔۔۔۔شیعہ کتب میں سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے صحابہ کرام کی شان بیان کی ہے اور صحابہ کرام میں سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ بھی شامل ہیں۔۔۔تفصیل و حوالہ جات حصہ دو میں پڑھیں گے 

۔

11۔۔۔شیعہ کتب میں سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ نے سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو اور سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو خلفائے راشدین قرار دیا ہے۔۔۔اس سے بھی سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی شان ثابت ہوتی ہے کہ وہ خلیفہ راشد یعنی رشد و ہدایت والے ہیں کافر منافق ظالم نہیں،تفصیل و حوالہ جات حصہ دو میں پڑھیں گے 

۔

12۔۔۔۔شیعہ کتب میں ہے کہ سیدنا عثمان کے متعلق سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ ان کی بیعت صحابہ کرام نے کی تو ہم پر لازم ہے کہ ہم ان سے راضی ہو جائیں یہ بھی سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی شان سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے بیان فرمائی ہے۔۔۔تفصیل و حوالہ جات حصہ دو میں پڑھیں گے 

۔

@@@@@@@@@@@@@@@

2️⃣دوسرا حصہ:

شیعہ کے مطابق سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ اور سیدنا ابوبکر صدیق سیدنا عمر اور دیگر صحابہ کرام سارے صحابہ کرام نعوذ باللہ نعوذ باللہ کافر ظالم ہیں۔۔۔شیعہ کے مطابق سیدنا عثمان ظالم کافر نعوذ باللہ تھے ان کی وفات پر 18 ذوالحج کو عید غدیر کے ساتھ خوشی منانا ضروری ہے۔۔حوالہ جات شیعہ کتب سے اور ساتھ ساتھ انکا رد بھی لکھیں گے

اور

ثابت کریں گے کہ شیعہ کتب میں بھی لکھا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ سمیت تمام اہل بیت کرام کے مطابق سیدنا ابوبکر صدیق سیدنا عمر سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہما اجمعین اور دیگر تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہما اجمعین کافر ظالم بدعتی منافق نہ تھے بلکہ برحق و درست تھے شریعت کے مطابق تھے سنت رسول کے مطابق تھے نیک اور عبادت گزار تھے۔۔۔لہذا انہوں نے باغ فدک خلافت وغیرہ تمام معاملات میں جو کچھ کیا وہ سب اہل بیت کے نزدیک سیدنا علی کے نزدیک درست تھا شریعت کے مطابق تھا ، کوئی ظلم کفر منافقت وغیرہ نہ تھا

۔

شیعہ لوگ 18 ذوالحج کو عید غدیر دو اہم وجوہات کی بنیاد پر مناتے ہیں، ایک یہ کہ ان کے مطابق سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو اسی دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا خلیفہ بلا فصل مقرر فرمایا، دوسری وجہ یہ ہے کہ شیعوں کے مطابق صحابہ کرام نے ظلم کیا اہل بیت پر اور سیدنا ابوبکر صدیق سیدنا عمر اور سیدنا عثمان نے بھی ظلم کیا اہل بیت پر اور ان سب نے اور صحابہ کرام نے ظلم کیا سیدنا علی پر اہل بیت پر اور خلافت کا حق چھینا تو 18 ذوالحج کو سیدنا علی جب تین خلفائے راشدین کے بعد خلیفہ بنے تو اس دن کو شیعہ کے مطابق ظلم و ستم کا بدلہ لیا گیا ، نعوذ باللہ ظالم کافر سیدنا عثمان وفات پا گئے اس خوشی پر بھی 18 ذوالحج کو عید غدیر منانا ضروری ہے 

۔

پہلے ہم کچھ حوالہ جات شیعہ کتب سے دے رہے ہیں تاکہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم بے بنیاد شیعوں پر الزام لگا رہے ہیں 

۔

شیعوں کے مطابق سیدنا ابوبکر صدیق سیدنا عمر سیدنا عثمان اور تمام صحابہ کرام نعوذ باللہ کافر و ظالم ہوگئے تھے

1️⃣پہلا حوالہ:

هما أول من ظلمنا حقنا وأخذا ميراثنا، وجلسا مجلسا كنا أحق به منهما، لا غفر الله لهما ولا رحمهما، كافران،

 كافر من تولاهما

شیعوں کے مطابق سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالی عنہما پہلے دو شخص ہیں جنہوں نے اہل بیت کا حق مارا اور ان کی میراث ان کو نہ دی اور خلافت پر قبضہ کر بیٹھے شیعہ کے مطابق اللہ سیدنا ابوبکر و عمر کو نہ بخشے گا نہ رحم فرمائے گا وہ دونوں کافر ہیں اور جو ان سے دوستی رکھے ان کو درست مانے وہ بھی کافر ہے

(شیعہ کتاب بحار الأنوار - العلامة المجلسي30/381)

اس روایت کے مطابق نعوذ باللہ سیدنا ابوبکر اور عمر نے خلافت کا حق چھین کر ظلم کیا میراث نہ دے کر ظلم کیا اور پھر اس ظلم میں سارے صحابہ کو بھی شامل کر دیا کیونکہ صحابہ کرام نے سیدنا ابوبکر اور عمر اور عثمان رضی اللہ تعالی عنہم کا ساتھ دیا۔۔۔لہذا شیعہ کے مطابق سیدنا ابوبکر سیدنا عمر سیدنا عثمان اور باقی ان کی موافقت کرنے والے تمام صحابہ کرام نعوذ باللہ کافر ہیں مرتد ہیں ظالم ہیں حق مارنے والے ہیں

۔

2️⃣دوسرا حوالہ:

بایعوا ابابکر......أن الناس ارتدوا إلا ثلاثة

ترجمہ:

صحابہ نے ابوبکر کی بیعت کی.....بےشک بیعت کرنے کی وجہ سے سارے صحابہ مرتد ہوگئے سوائے تین کے

(شیعہ کتاب بحار الانوار28/255)

.

.

4️⃣چوتھا حوالہ

ارتد الناس إلا ثلاثة نفر: سلمان وأبو ذر، و المقداد. قال: فقلت: فعمار؟فقال: قد كان جاض جيضة ثم رجع

تمام لوگ(صحابہ)مرتد ہوگئے سوائے تین کے سلمان فارسی ابوذر اور مقداد، عمار کفر کی طرف مائل ہوئے پھر واپس مسلمان ہوئے(کل ملا کر مذکورہ چار صحابہ مسلمان بچے نعوذ باللہ)

(شیعہ کتاب الاختصاص ص10)

.

5️⃣پانچواں حوالہ

" إن الذين آمنوا ثم كفروا ثم آمنوا ثم كفروا ۔۔۔۔الخ

آیت مین جو ہے کہ اسلام کے بعد مرتد ہوءے پھر مسلمان ہوءے پھر مرتد ہوئے پھر کفر پے ڈٹ گئے یہ

ایت صحابہ کے متعلق نازل ہوئی ان میں ایمان ذرا برابر بھی نہ بچا۔۔۔کیونکہ انہوں نے سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی ولایت خلافت بلافصل کو نہیں مانا

(شیعہ کتاب الکافی 1/420ملخصا)

.

6️⃣چھٹا حوالہ

إِنَّ  لِعُثْمَانَ  ثَلاَثَ  كَفَرَاتٍ ، وَ ثَلاَثَ غَدَرَاتٍ

شیعہ کہتے ہیں کہ عثمان نے تین کفر کیے اور تین دفعہ غداری کی

شیعہ کتاب تقریب المعارف1/292, شیعہ کتاب بحار الانوار31/304

.

7️⃣ساتواں حوالہ

 اَللَّهِ لاَ يَكُونُ اَلْأَرْضُ سِلْماً سِلْماً حَتَّی‌ يُلْعَنَ   عُثْمَانُ مَا بَيْنَ اَلْمَشْرِقِ وَ اَلْمَغْرِبِ لاَ يُنْكِرُ ذَلِكَ أَحَدٌ

شیعہ کہتے ہیں کہ زمین میں سلامتی تب ہوگی جب مشرق سے لے کر مغرب تک عثمان بن عفان پر لعنت کی جائے اور کوئی اس کو برا بھی نہ سمجھے

شیعہ کتاب بحار الانوار31/310

۔

*#واضح ہوتا ہے کہ یہ لوگ 18 ذوالحج کو سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے دن 18 ذوالحج کو نعوذ باللہ لعنتیں کرتے ہوں گے گستاخیاں کرتے ہوں گے خوشی مناتے ہوں گے۔۔۔کیا اب بھی اپ عید غدیر مناؤ گے۔۔۔۔؟؟*

.

8️⃣حوالہ نمبر اٹھ تا 10🔟

لِلْمُسْلِمِينَ عِيدٌ غَيْرُ اَلْعِيدَيْنِ قَالَ «نَعَمْ يَا حَسَنُ أَعْظَمُهُمَا وَ أَشْرَفُهُمَا» قَالَ قُلْتُ وَ أَيُّ يَوْمٍ هُوَ قَالَ۔۔۔ هُوَ يَوْمُ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ مِنْ ذِي اَلْحِجَّةِ ۔۔۔«هُوَ يَوْمٌ  نُصِبَ   أَمِيرُ  اَلْمُؤْمِنِينَ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ فِيهِ عَلَماً لِلنَّاسِ» فَقُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ وَ مَا يَنْبَغِي لَنَا أَنْ نَصْنَعَ فِيهِ قَالَ «تَصُومُهُ يَا حَسَنُ وَ تُكْثِرُ فِيهِ اَلصَّلاَةَ عَلَی‌ مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ وَ تَبَرَّأُ إِلَی‌ اَللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ مِمَّنْ ظَلَمَهُمْ

شیعوں کے مطابق تمام عیدوں سے بڑھ کر عزت و شرف والی عید عظمت والی عید عید غدیر ہے جو کہ 18 ذوالحج کو ہے یہ عید اس لیے مناتے ہیں کیونکہ اس دن سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو خلافت ملی اور اس دن ہم ظالموں پر (یعنی نعوذ باللہ صحابہ کرام سارے ظالم کافر تھے تو ان کی حکومت سے دستبرداری اور شیعوں کے مطابق ظالم سیدنا عثمان کی وفات کی خوشی پر) تبراء(اعلان لا تعلقی گستاخی  توہین) کرتے ہیں

شیعہ کتاب تھذیب الاحکام Vol. ۴, p. ۳۰۵نحوہ

شیعہ کتاب الکافی شیخ کلینی ۴, p. ۱۴۸نحوہ

شیعہ کتاب وسائل الشیعۃ۱۰, p. ۴۴۰نحوہ

۔

*#کیا اب بھی عید غدیر مناؤ گے کہ جس میں صحابہ کرام پر سیدنا عثمان پر گستاخیاں لعنتیں اور ان کی وفات و دست برداری پر خوشیاں مناتے ہیں شیعہ لوگ۔۔۔۔کیا اپ عید غدیر منا کر ان کا ساتھ دیں گے۔۔۔۔۔؟؟کہو ہرگز نہیں ہرگز نہیں ہرگز نہیں*

.

حوالہ نمبر 111️⃣1️⃣

قد جاءت مستفيضة عن أئمة الهدى من آل محمد (ص)، باختلاف القرآن وما أحدثه بعض الظالمين فيه من الحذف و النقصان

قریب با متواتر ہے کہ ظالموں(صحابہ کو ظالم کہہ رہا ہے)نے قرآن میں بہت کچھ حذف کیا ہے، کمی بیشی کی ہے

(شیعہ کتاب اوائل المقالات ص80,الانتصار3/340)

.


*#مذکورہ اعتراضات کےجوابات اور شان صحابہ کرام کتب شیعہ سے*

۔

اب ہم چند حوالے لکھ رہے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ سمیت تمام اہل بیت کے مطابق سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سمیت تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ اجمعین درست تھے حق تھے ، نیک تھے، انہوں نے باغ فدک اور خلافت کے معاملے میں جو کچھ کیا وہ سب شریعت کے مطابق تھا وہ سب اہل بیت کی نظر میں سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی نظر میں درست تھا، کوئی ظلم کفر بدعت منافقت نہ کی تمام صحابہ کرام نے 

۔

1️⃣حوالہ نمبر ایک

سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

إنه بايعني القوم الذين بايعوا أبا بكر وعمر وعثمان على ما بايعوهم عليه، فلم يكن للشاهد أن يختار ولا للغائب أن يرد، وإنما الشورى للمهاجرين والأنصار، فإن اجتمعوا على رجل وسموه إماما كان ذلك لله رضى

میری(سیدنا علی کی)بیعت ان صحابہ کرام نے کی ہےجنہوں نےابوبکر و عمر کی کی تھی،یہ مہاجرین و انصار صحابہ کرام کسی کی بیعت کرلیں تو اللہ بھی راضی ہے، ہمیں بھی راضی ہونا ہوگا(اور وہ خلیفہ برحق کہلائے گا) تو ایسی بیعت ہو جائے تو دوسرا خلیفہ انتخاب کرنے یا تسلیم نہ کرنے کا حق نہیں(شیعہ کتاب نہج البلاغۃ ص491)

1۔۔۔یہ سیدنا علی کا فرمان ان شیعوں کے منہ پےزناٹےدار تھپڑ ہیں جو سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر سیدنا عثمان  وغیرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کے متعلق دو ٹوک یا ڈھکے چھپے الفاظ میں گستاخی و بکواس کرتےہیں

۔

2۔۔۔۔مزید اس قول مبارک سے یہ بھی ثابت ہوا کہ

سیدنا علی کے مطابق سیدنا ابوبکر و عمر مہاجرین انصار صحابہ کرام برحق سچےاچھےتھے ،انکی خلافت برحق تھی تبھی تو سیدنا علی نے انکی بیعت کو دلیل بنایا.....!!

۔

3۔۔۔اس قول سے یہ بھی ثابت ہوا کہ سیدنا علی کے مطابق رسول کریمﷺنے دوٹوک کسی کو خلیفہ نہ بنایا اگر بنایا ہوتا تو مہاجرین و انصار صحابہ کرام کی رائے و انتخات کو وقعت نہ دیتے بلکہ وہ نص بیان فرماتے کہ میں تو فلاں آیت یا حدیث کی وجہ سے خلیفہ بلافصل ہوں....

۔

4۔۔۔۔اس قول مبارک سے یہ بھی ثابت ہوا کہ  سیدنا علی کے مطابق خلافت میں پہلا نمبر ابوبکر رضی اللہ عنہ کا اور دوسرا نمبر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا...

۔

5۔۔۔۔۔یہ بھی ثابت ہوا کہ سیدنا ابوبکر سیدنا عمر وغیرہ صحابہ کرام کافر مشرک مرتد منافق ظالم غاصب بدعتی نہ تھے، انہوں نے خلافت نہ چھینی نہ ہی باغ فدک چھینا بلکہ خلافت و باغ فدک کے معاملے میں بھی سیدنا ابوبکر سیدنا عمر سیدنا عثمان وغیرہ تمام صحابہ کرام کا فیصلہ شریعت و سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق تھا

۔

6۔۔۔۔اس قول مبارک سے ثابت ہوا کہ سیدنا ابوبکر سیدنا عمر سیدنا عثمان وغیرہ تمام صحابہ کرام نیک و عبادت گذار سچے تھے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ انکی تعریف و مدح کرتے تھے…

.

2️⃣حوالا نمبر دو

هذا ما صالح عليه الحسن بن علي بن أبي طالب معاوية بن أبي سفيان: صالحه على أن يسلم إليه ولاية أمر المسلمين، على أن يعمل فيهم بكتاب الله وسنة رسوله صلى الله عليه وآله وسيرة الخلفاء الصالحين

(شیعوں کے مطابق)امام حسن نے فرمایا یہ ہیں وہ شرائط جس پر میں معاویہ سے صلح کرتا ہوں، شرط یہ ہے کہ معاویہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ اور سیرتِ نیک خلفاء کے مطابق عمل پیرا رہیں گے

(شیعہ کتاب بحار الانوار جلد44 ص65)

۔

1۔۔۔سیدنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے "نیک خلفاء کی سیرت" فرمایا جبکہ اس وقت شیعہ کے مطابق فقط ایک خلیفہ برحق امام علی گذرے تھے لیکن سیدنا حسن "نیک خلفاء" جمع کا لفظ فرما رہے ہیں جسکا صاف مطلب ہے کہ سیدنا حسن کا وہی نظریہ تھا جو سچے اہلسنت کا ہے کہ سیدنا ابوبکر و عمر و عثمان و علی رضی اللہ عنھم خلفاء برحق ہیں تبھی تو سیدنا حسن نے جمع کا لفظ فرمایا...اگر شیعہ کا عقیدہ درست ہوتا تو "سیرت خلیفہ" واحد کا لفظ بولتے امام حسن....

۔

2۔۔۔۔اور دوسری بات یہ بھی اہلسنت کی ثابت ہوئی کہ "قرآن و سنت" اولین ستون ہیں کہ ان پے عمل لازم ہے جبکہ شیعہ قرآن و سنت کے بجائے اکثر اپنی طرف سے اقوال گھڑ لیتے ہیں اور اہلبیت کی طرف منسوب کر دیتے ہیں

۔

3۔۔۔۔اور سیدنا معاویہ کی حکومت سنت رسول و سیرت خلفاء پر اچھی تھی ورنہ ظالمانہ ہوتی تو سیدنا حسن حسین ضرور باءیکاٹ فرماتے صلح نہ فرماتے چاہے اس لیے جان ہی کیوں نہ چلی جاتی جیسے کہ یزید سے بائیکاٹ کیا

۔

4۔۔۔۔یہ بھی ثابت ہوا کہ سیدنا ابوبکر سیدنا عمر سیدنا عثمان وغیرہ تمام صحابہ کرام ظالم فاسق بدعتی منافق نہ تھے لہذا باغ فدک کا معاملہ ہو یا خلافت کا تمام معاملات میں سیدنا ابوبکر سیدنا عمر سیدنا عثمان درست تھے، سنت رسول اور شریعت کے مطابق درست تھے انکے فیصلے ، انہوں نے کوئی ظلم کفر منافقت بدعت نہ کی کیونکہ سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ نے خلفاء راشدین یعنی رشد و ہدایت والے خلیفہ قرار دے رہے ہیں

.

3️⃣حوالہ نمبر تین

بأصحاب نبيكم لا تسبوهم الذين لم يحدثوا بعده حدثا ولم يؤووا محدثا، فإن رسول الله (صلى الله عليه وآله) أوصى بهم

حضرت علی وصیت و نصیحت فرماتے ہیں کہ تمھارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے متعلق میں تمھیں نصیحت و وصیت کرتا ہوں کہ انکی برائی نہ کرنا ، گالی لعن طعن نہ کرنا(کفر منافقت ظلم تو دور کی بات) انہوں نے نہ کوئی بدعت نکالی نہ بدعتی کو جگہ دی،بےشک رسول کریم نے بھی صحابہ کرام کے متعلق ایسی نصیحت و وصیت کی ہے.(شیعہ کتاب بحار الانوار22/306)

 ثابت ہوا کہ سیدنا ابوبکر سیدنا عمر سیدنا عثمان وغیرہ تمام صحابہ کرام ظالم فاسق بدعتی منافق نہ تھے لہذا باغ فدک کا معاملہ ہو یا خلافت کا تمام معاملات میں سیدنا ابوبکر سیدنا عمر سیدنا عثمان درست تھے، سنت رسول اور شریعت کے مطابق درست تھے انکے فیصلے کیونکہ انہوں نے کوئی ظلم کفر منافقت بدعت نہ کی

.

4️⃣حوالہ نمبر چار

حضرت علی رض اللہ عنہ نے شیعوں سے فرمایا:

رأيت أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم فما أرى أحداً يشبههم منكم لقد كانوا يصبحون شعثاً غبراً وقد باتوا سجداً وقياماً

میں(علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ)نے اصحاب محمد یعنی صحابہ کرام(صلی اللہ علیہ وسلم، و رضی اللہ عنھم) کو دیکھا ہے، وہ بہت عجر و انکساری والے، بہت نیک و عبادت گذار تھے(فاسق فاجر ظالم غاصب نہ تھے)تم(شیعوں)میں سے کوئی بھی انکی مثل نہیں...(تمام شیعوں کے مطابق صحیح و معتبر کتاب نہج البلاغہ ص181)

.

5️⃣حوالہ نمبر پانچ

سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

والظاهر أن ربنا واحد ونبينا واحد، ودعوتنا في الاسلام واحدة. لا نستزيدهم في الإيمان بالله والتصديق برسوله صلى الله عليه وآله ولا يستزيدوننا. الأمر واحد إلا ما اختلفنا فيه من دم عثمان

 یہ بات بالکل واضح ہے ظاہر ہے کہ ان(سیدنا معاویہ سیدہ عائشہ وغیرہ)کا اور ہمارا رب ایک ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہے، انکی اور ہماری اسلامی دعوت و تبلیغ ایک ہے، ہم ان کو اللہ پر ایمان رسول کریم کی تصدیق کے معاملے میں زیادہ نہیں کرتے اور وہ ہمیں زیادہ نہیں کرتے...ہمارا سب کچھ ایک ہی تو ہے بس صرف سیدنا عثمان کے قصاص کے معاملے میں اختلاف ہے

(شیعہ کتاب نہج البلاغۃ3/114)

 ثابت ہوا کہ سیدنا علی کا ایمان سیدنا معاویہ کا ایمان سیدنا معاویہ کا اسلام سیدنا علی کا اسلام اہل بیت کا اسلام صحابہ کرام کا اسلام قرآن و حدیث سب کے سب معاملات میں متفق ہی تھے،سیدنا علی و سیدنا معاویہ وغیرہ سب کے مطابق قرآن و حدیث میں کوئی کمی بیشی نہ تھی....پھر کالے مکار بے وفا ایجنٹ غالی جھوٹے شیعوں نے الگ سے حدیثیں بنا لیں، قصے بنا لیے،الگ سے فقہ بنالی، کفریہ شرکیہ گمراہیہ نظریات و عمل پھیلائے، سیدنا علی و معاویہ وغیرہ صحابہ کرام و اہلبیت عظام کے اختلاف کو دشمنی منافقت کفر کا رنگ دے دیا...انا للہ و انا الیہ راجعون

.

6️⃣حوالہ نمبر چھ تا نو9️⃣

عن علي عليه السلام أنه سئل عن قتلى الجمل أمشركون هم؟

قال: لا بل من الشرك فروا، قيل: فمنافقون، قال: لا ان المنافقين لا يذكرون الله الا قليلا: قيل: فما هم؟ قال: إخواننا بنوا علينا....ان عليا عليه السلام لم يكن ينسب أحدا من اهل حربه إلى الشرك ولا إلى النفاق ولكن (ولكنه كان - خ) يقول هم إخواننا بغوا علينا....ان عليا عليه السلام كان يقول لأهل حربه انا لم نقاتلهم على التكفير لهم ولم نقاتلهم على التكفير لنا ولكنا رأينا انا على حق ورأوا انهم على حق

 سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ سے سوال کیا گیا کہ جنگ جمل کے ہمارے مخالفین صحابہ کیا مشرک و کافر ہیں سیدنا علی نے فرمایا نہیں تو انہوں نے کہا کہ کیا پھر وہ منافق(ظالم غاصب مرتد) ہیں...؟؟ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا نہیں... انہوں نے کہا کہ پھر وہ کیا ہیں؟ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا وہ تو ہمارے بھائی ہیں جنہوں نے(اجتہادی) بغاوت کی ہے... سیدنا علی اپنے مخالفین جو جنگ کرتے تھے جنگ جمل اور جنگ صفین ان تمام صحابہ کرام کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ وہ نہ تو منافق ہیں نہ مشرک ہیں ، فرمایا کرتے تھے ہم ان سے جنگ کفر(منافقت) کی بنیاد پر نہیں کرتے بلکہ اس بنیاد پر جنگ کی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ درستگی پر ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہم درستگی پر ہیں...

(شیعہ کتاب جامع أحاديث الشيعة 141 16/126)

(شیعہ کتاب بحارالانوار32/324)

(شیعہ کتاب وسائل الشیعۃ15/83)

(شیعہ کتاب قرب الاسناد ص94)

سیدنا ابوبکر و عمر و عثمان و معاویہ اور دیگر صحابہ کرام کو کھلےعام یا ڈھکے چھپے الفاظ میں منافق ظالم کافر کہنے والے،توہین و گستاخی کرنےوالےرافضی نیم رافضی اپنےایمان کی فکر کریں کیونکہ سیدنا علی تو بھائی فرما رہے ہیں، کیا سیدنا علی کافر مرتد ظالم منافق کو بھائی کہیں گے اپنا۔۔۔۔۔۔؟؟ لیھذا گستاخ شیعہ محبانِ علی و اہلبیت نہیں بلکہ نافرمانِ علی ہیں،نافرمانِ اہلبیت ہیں

.

🔟حوالہ نمبر 10

فنعى الوليد إليه معاوية فاسترجع الحسين...سیدنا حسین کو جب سیدنا معاویہ کی وفات کی خبر دی گئ تو آپ نےاِنَّا لِلّٰہِ وَ  اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ پڑھا…(شیعہ کتاب اعلام الوری طبرسی1/434) مسلمان کو کوئی مصیبت،دکھ ملےتو کہتے ہیں اِنَّا لِلّٰہِ وَ  اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ(سورہ بقرہ156)ثابت ہوا سیدنا معاویہ امام حسین کے مطابق کافر ظالم منافق دشمن برے ہرگز نہ تھے جوکہ مکار فسادی نافرمان دشمنان اسلام گستاخانِ معاویہ کے منہ پر طمانچہ ہے

۔

@@@@@@@@@@

3️⃣تیسرا حصہ:

من کنت مولاہ کا معنی و پس منظر اہل سنت اور شیعہ کتب سے۔۔18ذوالحج کےدن ہوا کیا تھا

۔

شیعہ عید غدیر دو اہم وجہ سے مناتے ہیں 

1۔۔۔۔شیعوں کے مطابق صحابہ کرام نے ظلم کیا اہل بیت پر اور سیدنا ابوبکر صدیق سیدنا عمر اور سیدنا عثمان نے بھی ظلم کیا اہل بیت پر اور ان سب نے اور صحابہ کرام نے ظلم کیا سیدنا علی پر اہل بیت پر اور خلافت کا حق چھینا تو 18 ذوالحج کو سیدنا علی جب تین خلفائے راشدین کے بعد خلیفہ بنے تو اس دن کو شیعہ کے مطابق ظلم و ستم کا اختتام ہوا نعوذ باللہ ظالم کافر سیدنا عثمان وفات پا گئے اس خوشی پر بھی 18 ذوالحج کو عید غدیر منانا ضروری ہے

۔

2۔۔۔شیعوں کے مطابق اس دن یعنی 18 ذوالحج کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غدیر جگہ میں من کنت مولاہ فرما کر سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو خلیفہ بلا فصل مقرر فرمایا تھا لہذا عید غدیر تو بنتی ہے


ذَلِكَ اَلْيَوْمِ قَالَ هُوَ يَوْمُ عِبَادَةٍ وَ صَلاَةٍ وَ شُكْرٍ لِلَّهِ وَ حَمْدٍ لَهُ وَ سُرُورٍ لِمَا مَنَّ اَللَّهُ بِهِ عَلَيْكُمْ مِنْ وَلاَيَتِنَا 

شیعہ کہتے ہیں کہ 18 ذوالحج کو عید منانا عبادت کرنا نماز پڑھنا شکر کرنا حمد کرنا خوشی کرنا ضروری ہے کیونکہ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس دن سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو ولایت و خلافت بلا فصل سے نوازا گیا

(شیعہ کتاب بحار الانوار Vol. ۳۷, p. ۱۶۹)

۔

*#جواب و تفصیل اور مولا علی کا معنی و پس منظر*

شیعہ جو عید غدیر مناتے ہیں اس کی اوپر ہم نے دو اہم وجوہات لکھی تھی ان میں پہلی وجہ کا جواب تو ہم نے حصہ نمبر دو میں تفصیل کے ساتھ دے دیا ہے 

۔

اور دوسری اہم وجہ کا جواب بھی اوپر حصہ نمبر دو میں ہم نے دے دیا تھا کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے مطابق اہل بیت کے مطابق خلافت بلا فصل سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی ہے پھر اس کے بعد سیدنا عمر پھر سیدنا عثمان۔۔۔لیکن یہاں پر صرف ایک بات رہ گئی کہ شیعہ کے مطابق عید غدیر کی اہم ترین دلیل من کنت مولاہ ہے اسکا جواب کیا ہے

۔

شیعہ محقق لکھتا ہے:

فمن كنت مولاه فهذا علي مولاه..) وهذا نص صريح في استخلافه على أمته،

 شیعہ محقق کہتا ہے کہ علی مولا یہ نص صریح ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کو اپنی امت پر خلیفہ بنایا

(شیعہ کتاب ومن الحوار اكتشفت الحقيقة ص386)

.

من كنت مولاه فعلي مولاه...يوم ثمانية عشر من ذي الحجة...وهو عيد الله الأكبر

 شیعہ محقق کہتا ہے کہ یہ جو عید غدیر ہے 18 ذوالحج کو ہوتی ہے اور یہ بہت بڑی عید ہے کیونکہ اس روز رسول کریم نے علی مولا فرمایا تھا

(شیعہ کتاب عيد الغدير في الإسلام ص83)

.

 *#ائیے شیعوں کے اس اعتراض کا جواب پڑھتے ہیں، اور ہم ثابت کریں گے کہ من کنت مولاہ سے خلافت و ولایت بلا فصل ثابت نہیں ہوتی اور من کنت مولاہ کا معنی و پس منظر پڑھتے ہیں*

۔

1۔۔۔اللہ تعالی نے اپنے اپ کو مولا کہا ہے اور سیدنا جبرائیل کو مولا کہا ہے اور نیک مومنین کو مولا کہا ہے۔۔۔اب اگر مولا کا معنی خلافت ولایت ہے تو کیا نعوذ باللہ اللہ بھی خلیفہ ہے ۔۔۔۔؟؟ اور پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں یہ ایت نازل ہوئی تو کیا اس وقت جو مسلمان جن کو اللہ تعالی نے مولا کہا کیا وہ سارے مسلمان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ بلا فصل بن گئے۔۔۔۔؟؟ ثابت ہوا کہ مولا کا معنی خلیفہ خلافت ولایت نہیں بلکہ مولا کا معنی دوست و مددگار وغیرہ ہے

القران: 

فَاِنَّ اللّٰہَ  ہُوَ مَوۡلٰىہُ  وَ جِبۡرِیۡلُ وَ صَالِحُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۚ 

رسول کریم حضرت محمد مصطفی کے مولا تو اللہ ہے اور جبرائیل مولا ہے اور نیک مومنین مولا ہیں

سورہ التحریم ایت4

.

2۔۔۔۔اگر من کنت مولا سے خلافت ولایت بلا فصل سیدنا علی کے لیے مقصود تھی تو پھر سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ساری زندگی اور اہل بیت نے ساری زندگی سیدنا ابوبکر صدیق سیدنا عمر سیدنا عثمان کو خلیفہ کیوں مانا۔۔۔۔؟؟ سیدنا علی سمیت تمام اہل بیت کا خلاصہ راشدین کو ماننا اس بات کا ثبوت ہے کہ مولا علی کا معنی خلافت ولایت نہیں بلکہ اس کا معنی دوست اور محبوب ہے جیسے کہ نیچے تفصیل ارہی ہے اور اوپر حصہ نمبر دو میں ہم تفصیل لکھ چکے شیعہ کتب سے کہ اہل بیت سیدنا علی وغیرہ سب کے نزدیک سیدنا ابوبکر صدیق سیدنا عمر سیدنا عثمان خلفائے راشدین برحق کے ظالم غاصب کافر ہرگز نہ تھے

۔

3۔۔۔۔اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےخلیفہ بنا دیا تھا سیدنا علی کو مولا علی کہہ کر تو پھر سیدنا علی نے خلافت کا مطالبہ کیوں نہ کیا کہ جب رسول پاک نے ان کو حکم دے دیا ان کو خلیفہ بنا دیا تو رسول کریم کی نافرمانی کیوں کی ، اللہ کی نافرمانی کیوں کی سیدنا علی نے... یہ تو بہت بڑا جرم کیا نعوذ باللہ سیدنا علی نے کہ لوگوں کے باتوں میں اکر لوگوں کے خوف میں اکر شریعت کی بات کو جھٹلا دیا نعوذ باللہ...شریعت کو چھوڑ دیا... کیا نعوذ باللہ سیدنا علی اتنے ڈرپوک تھےجبکہ انکے بیٹے حسین نے پورا گھرانہ شہید کرادیا مگر حق نہ چھوڑا تو ایسے بیٹے کے عظیم والد شیر خدا حیدر کرار بھلا کیسے ڈرپوک ہوگئے.....؟؟ نعوذ باللہ یہ تو شیعوں نے کی بہت بڑی گستاخی  ہے کہ سیدنا علی کو ڈرپوک شریعت چھوڑ دینے والا قرار دے رہے

۔

4۔۔۔ثُمَّ قَالَ: لَقَدْ أَسَاءَ بِنَا آبَاؤُنَا إِنْ كَانَ هَذَا الَّذِي تَقُولُونَ مِنْ دِينِ اللَّهِ , ثُمَّ لَمْ يُطْلِعُونَا عَلَيْهِ , وَلَمْ يُرَغِّبُونَا فِيهِ. قَالَ: فَقَالَ لَهُ الرَّافِضِيُّ: أَلَمْ يَقُلْ رَسُولُ اللَّهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ لِعَلِيٍّ مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ؟ فَقَالَ: أَمَا وَاللَّهِ أَنْ لَوْ يَعْنِي بِذَلِكَ الْإِمْرَةَ وَالسُّلْطَانَ لَأَفْصَحَ لَهُمْ بِذَلِكَ

اہل بیت کے عظیم شہزادے حسن بن حسن فرماتے ہیں کہ اے شیعہ رافضی تم ہمارے متعلق بڑھ کر بیان کرتے ہو،(ہمیں خلیفہ بلا فصل کہتے ہو) حالانکہ ایسا کچھ ہوتا تو ہمارے اباؤ اجداد ہمیں ضرور اس کے بارے میں بتاتے تو رافضی نے کہا کہ حدیث میں تو ہے کہ من کنت مولاہ

تو اہل بیت کے شہزادے سیدنا حسن بن حسن نے فرمایا کہ یہاں مولا سے مراد خلافت ولایت امارت بادشاہی مراد نہیں کیونکہ اپ علیہ الصلوۃ والسلام اگر اپنے بعد کسی کو خلیفہ بنانا چاہتے تو ضرور دو ٹوک الفاظ میں فرما دیتے کہ یہ میرا خلیفہ ہے جبکہ ایسا نہیں

(طبقات کبری5/319)

۔

5۔۔تاجدار گولڑہ پیر مہر علی شاہ فرماتے ہیں :

غدیر کے واقعہ کے اس بیان سے صاف ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ارشاد "من کنت مولاہ فعلی مولاہ" بریدہ کی شکایت کی وجہ سے تھا اس کا مطلب یہ ہے ، کہ علی سے دوستی اور محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے دوستی ہے

(تصفیہ مابین سنی و شیعہ ص33)

.

ریاض شاہ چمن زمان عرفان شاہ طاہر کادری آپ سب لوگ ان عظیم بزرگوں کو پیشوا مانتے ہو اعلان کرتے ہو، ان کے نام پے شہرت چندہ کماتے ہو مگر مکار کہیں کے تم لوگ کہ بزرگوں کے خلاف جاتے ہو، کیا تمھاری سمجھ بزرگوں کی سمجھ سے بڑھ کر ہے یا معاملہ ایجنٹی ایرانی مال ڈالر پاؤنڈ شہرت مکاری وغیرہ کا ہے.......؟؟ تمھارے فتوے مطابق تو یہ سب اہلسنت حضرات ناصبی کہلائے اہلبیت سے بغض رکھنے والے کہلائے....اب بندہ آپ کو کیا کہے....؟؟

۔

6۔۔۔عجیب بات ہے کہ حجۃ الوداع جو اس وقت مسلمانوں کا سب سے بڑا اجتماع تھا اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خلیفہ کسی کو نہ بنایا اور واپسی پر تھوڑی تعداد کے سامنے غدیرخم پر خلیفہ کا اعلان کر دیا......؟؟

.

اگر خلافت کا اعلان رسول کریمﷺنےکرنا ہوتا تو اسکا صحیح و بہترین موقعہ حجۃ الوداع تھا........غدیرخم مقام پے تو رسول کریمﷺنے ایک تنازع کا حل فرمایا اور فرمایا کہ علی سے ناگواری مت رکھو، اس سے محبت کرو، جسکو میں محبوب ہوں وہ علی سے محبت رکھے

.

دراصل ہوا یہ تھا کہ مال غنیمت حضرت علی نے تقسیم کی تھی ، تقسیم پر کچھ صحابہ کرام کو ناگوار گذرا انہوں نے غدیرخم مقام پر رسول کریمﷺسے حضرت علی کی شکایت کی....رسول کریمﷺنے پوچھا اے بریدہ کیا تم علی سے(اس تقسیم کی وجہ سے)ناگواری محسوس کرتے ہو...؟ حضرت بریدہ نے فرمایا جی ہاں... رسول کریمﷺ نے فرمایا علی سے ناگواری مت رکھ، جتنا حصہ علی نے لیا ہےحق تو اس سے زیادہ حصہ بنتا ہے....بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس کے بعد میری ناگواری ختم ہوگئ...اس تقسیم وغیرہ کی وجہ سے دیگر صحابہ کرام وغیرہ کو بھی ناگواری گذری ہو تو انکی بھی ناگواری ختم ہو اس لیے رسول کریمﷺنے اعلان فرمایا:

میں جسکا مولا علی اسکا مولا.... یعنی میں جسکو محبوب ہوں وہ علی سے بھی محبت رکھے،ناگواری ختم کردے

(دیکھیے بخاری حدیث4350,,المستدرك حدیث4578

مسند احمد23036...,22967...22945)

مرقاۃ شرح مشکاۃ11/247 البيهقي في الكبرى 6/342...7/309) الصواعق المحرقة 1/109 الاعتقاد للبيهقي ص 498 البداية والنهاية 5/227.. ,11/58)


.

سَبَبُ وُرُودِ هَذَا الْحَدِيثِ كَمَا نَقَلَهُ الْحَافِظُ شَمْسُ الدِّينِ الْجَزَرِيُّ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ أَنَّ عَلِيًّا تَكَلَّمَ بَعْضُ مَنْ كَانَ مَعَهُ بِالْيَمَنِ، فَلَمَّا قَضَى النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - حَجَّهَ خَطَبَ بِهَا تَنْبِيهًا عَلَى قَدْرِهِ وَرَدًّا عَلَى مَنْ تَكَلَّمَ فِيهِ كَبُرَيْدَةَ كَمَا فِي

 الْبُخَارِيِّ

 بخاری وغیرہ کی حدیث سے یہ معنی و پس منظر ثابت ہوتا ہے کہ علی مولا کہنے کی جو روایت ہے اس کا پس منظر یہ ہے کہ بعض صحابہ کرام نے حضرت علی کی مال غنیمت کے معاملے میں شکایت لگائی تھی تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تنبیہ فرماتے ہوئے فرمایا کہ جس کا میں محبوب ہوں علی اس کا محبوب ہے

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح9/3937)

.

فَقَدْ ذَكَرْنَا مِنْ طُرُقِهِ فِي كِتَابِ الْفَضَائِلِ مَا دَلَّ عَلَى مَقْصودِ النَّبِيِّ۔۔۔۔الخ

 احادیث مبارکہ سے معنی و پس منظر ثابت ہوتا ہے کہ جب سیدنا علی کو یمن کی طرف بھیجا گیا تھا تو وہاں پر مال غنیمت کی تقسیم میں بعض صحابہ کرام کو ناگواری گزری تو انہوں نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے یہ معاملہ شکایت غدیرخم پے عرض کی تو حضور نے حضرت علی کی محبت و خصوصیت اجاگر کرنے کے لیے فرمایا کہ جس کا میں محبوب ہوں علی اس کو محبوب ہیں تو اس سے مراد محبت ہے نہ کہ کوئی اور چیز....اس کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ بعض احادیث میں یہ بھی اضافہ ہے کہ یا اللہ تو اس شخص سے محبت رکھ جو حضرت علی سے محبت رکھے

(الاعتقاد للبیھقی ص354)

.

وَأَيْضًا فسبب ذَلِك كَمَا نَقله الْحَافِظ شمس الدّين الْجَزرِي عَن ابْن إِسْحَاق أَن عليا تكلم فِيهِ بعض من كَانَ مَعَه فِي الْيمن فَلَمَّا قضى رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم حجه خطبهَا تَنْبِيها على قدره وردا على من تكلم فِيهِ كبريدة كَمَا فِي البُخَارِيّ أَنه كَانَ يبغضه

 علی مولا کا معنی سبب و پس منظر یہ ہے کہ مال غنیمت کے معاملے میں کچھ صحابہ کرام نے شکایت کی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کی قدر و منزلت بیان کرنے کے لیے فرمایا کہ جس کا میں مولا علی اس کا مولا یعنی ان سے بغض نہ رکھو ان سے محبت رکھو جیسے کہ بخاری سے ثابت ہوتا ہے

(الصواعق المحرقة 1/109 )

.

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے شاگرد قاضی ثناء اللہ پانی پتی کہ جس کے متعلق شاہ عبدالعزیز دہلوی نے فرمایا کہ بیھقیِ وقت ہیں، قاضی صاحب خلیفہ تھے حضرت مظہر جان جانان دہلوی کے، یہی قاضی پانی پتی  لکھتے ہیں :

 حدیث مذکورہ میں مولا سے مراد محبوب ہے حدیث کے آخری دعائیہ الفاظ(کہ اے جو علی سے محبت رکھے تو اس سے محبت رکھ) اس پر قرینہ ہیں...مزید فرماتے ہیں..المفھوم: علی مولا والی حدیث کا سبب و پس منظر یہ ہے کہ مال غنیمت کی تقسیم کے معاملے میں کچھ صحابہ کرام کو سیدنا علی سے اختلاف ہوا، ناگواری محسوس کی اور اسکا تذکرہ سیدعالم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو اپ علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا تاکہ ناگواری وشکایت ختم ہوجائے اس لیے فرمایا کہ میں جس کا مولا علی اس کا مولا یعنی جس کا میں محبوب علی اس کا محبوب ہے لیھذا علی کو دوست رکھو، ناگواری شکایت دل سے نکال دو...(السیف المسلول مترجم ص245,246ملخصا)

.

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے کلام کا مفھوم:

 سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوٹی چھوٹی چیزوں کے متعلق ہدایت فرمائی تو اتنے بڑے مسئلے کے متعلق اگر کچھ فرمانا ہوتا واضح فرما دیتے، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو رحمت میں ڈالتے ہوئے اور انہیں غور و خوض کرنے کی عادت ڈالنے کے لیے یہ معاملہ ان کی صوابدید پر چھوڑ دیا، اور نماز میں سیدنا ابوبکر صدیق کو خلیفہ بنا کر یہ اشارہ بھی دے دیا کہ کون خلیفہ ہونا چاہیے... علی مولا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے محبت بڑھانے کے لیے فرمایا تھا کیونکہ صحابہ کرام کو سیدنا علی سے شکایت تھی تو شکایت دور کرنے کے لیے فرمایا تھا

(تحفہ اثناء عشریہ ص418,419)

۔

*#شیعہ کتب سے بھی یہی پس منظر ثابت ہے*

وخرج بريدة الأسلمي فبعثه علي عليه السلام في بعض السبي، فشكاه بريدة إلى رسول الله صلى الله عليه وآله فقال رسول الله صلى الله عليه وآله: من كنت مولاه فعلي مولاه

یعنی

بریدہ اسلمی نے رسول کریمﷺسے حضرت علی کی مال غنیمت کی تقسم کی شکایت تو رسول کریمﷺنے فرمایا میں جسکا مولا و محبوب ہوں علی بھی اس کے مولا و محبوب ہیں)لیھذا ناگواری نہ رکھو، ختم کرو)

(شیعہ کتاب بحار الانوار37/190)

.

، قال: أتبغض عليا؟ قال: قلت: نعم قال: فلا تبغضه وان كنت تحبه فازدد له حبا، فوالذي نفس محمد بيده لنصيب علي في الخمس أفضل من وصيفة

بریدہ اسلمی کہتےہیں ہمیں مال غنیمت حاصل ہوا...رسول کریمﷺکی طرف خط لکھا کہ تقسیم کے لیے کسی کو بھیجیں،رسول کریمﷺنے علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا حضرت علی نے تقسیم کیا اور اپنا حصہ بھی نکالا، ابو بریدہ تقسیم کی شکایت لے کر (غدیر خم مقام پے) رسول کریمﷺ

کو پہنچے اور شکایت و ناگواری کا اظہار کیا رسول کریمﷺنے فرمایا علی نے جتنا لیا اس سے بڑھ کرحصہ ہے اگر علی سے ناگواری ہے تو ختم کردو اگر محبت ہےتو زیادہ محبت کرو

(شیعہ کتاب کشف الغمہ لاربیلی1/293بحذف)

۔

*#لیھذا مولا علی سے مراد خلیفہ یا روحانی خلیفہ بلافصل یا ولایتِ بلافصل یا قطب بلافصل ہرگز ہرگز نہیں...بلکہ محبوب وغیرہ معنی مراد لینا ہی برحق و لازم ہے*

.

لَا يَسْتَقِيمُ أَنْ تُحْمَلَ الْوِلَايَةُ عَلَى الْإِمَامَةِ الَّتِي هِيَ التَّصَرُّفُ فِي أُمُورِ الْمُؤْمِنِينَ، لِأَنَّ الْمُتَصَرِّفَ الْمُسْتَقِلَّ فِي حَيَاتِهِ هُوَ هُوَ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - لَا غَيْرُ فَيَجِبُ أَنْ يُحْمَلَ عَلَى الْمَحَبَّةِ وَوَلَاءِ الْإِسْلَامِ وَنَحْوِهِمَا..

 حدیث کا معنی یہ بنانا کہ پہلے میں مولا تھا اب علی مولا ہے یعنی اب علی خلیفہ ہے اب تمام معاملات علی سنبھالے گا، یہ معنی قطعا درست نہیں ہے لہذا واجب ہے کہ علی مولا کا معنی ہے کہ جس کو میں محبوب ہوں علی اس کو محبوب ہوں

(مرقاة المفاتيح 9/3937)

( شرح المشكاة للطيبي12/3884)


.

امام ابن الاعرابی اور امام ثعلب فرماتے ہیں:

ابن الأعرابي قال المولى المالك وهو الله والمولى ابن العم والمولى المعتق والمولى المعتق والمولى الجار والمولى الشريك والمولى الحليف والمولى المحب والمولى اللوي (3) والمولى الولي ومنه قول النبي (صلى الله عليه وسلم) من كنت مولاه فعلي مولاه معناه من تولاني فليتول عليا قال ثعلب وليس هو كما تقول الرافضة ولكنه من باب المحبة

 امام ابن الاعرابی فرماتے ہیں کہ مولا کا معنی مالک ہے مولا کا معنی چچا کا بیٹا ہے مولا کا معنی ہے ازاد کردہ وغیرہ دوسرے معنی بھی ہیں اور ایک معنی ہے محبوب، یہی محبوب معنی مراد ہے اس قول میں کہ جس کا میں مولا علی اس کا مولا

(تاریخ دمشق ملتقطا42/238)

.

وهو وليُّ كلِّ مؤمن"؛ أي: حبيبه....معناه: من كنت أتولاه فعليٌّ يتولاه؛ من الولي ضد العدو

 علی ولی اللہ ہیں مولا ہیں یعنی محبوب ہیں، ولی مولا کا الٹ عدو یعنی دشمن ہے

(شرح المصابيح لابن الملك6/439)

.

قال الشافعي رضي الله عنه: يعني بذلك ولاء الإسلام كقوله تعالى: {ذلك بأن اللہ مولى الذين آمنوا وأن الكافرين لا مولى لهم

 امام شافعی فرماتے ہیں کہ علی مولا کا معنی ہے علی محبوب ہیں... جیسا کہ اس ایت ذلك بأن اللہ مولى الذين آمنوا وأن الكافرين لا مولى لهم کا معنی اسی طرح بنتا ہے

(شرح المشكاة للطيبي12/3884)

.


من كُنْتُ مَوْلَاهُ فعَليٌّ مَوْلاهُ". أراد بذلك ولاء الإسلام، كقوله تعالى: {ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آَمَنُوا وَأَنَّ الْكَافِرِينَ لَا مَوْلَى لَهُمْ

 امام سیوطی نے بھی فرمایا کہ علی مولا ہیں اسے مراد یہ ہے کہ علی اسلامی طور پر محبوب ہیں جیسا کہ اس ایت ذلك بأن الهل مولى الذين آمنوا وأن الكافرين لا مولى لهم کا معنی اسی طرح بنتا ہے

( قوت المغتذي على جامع الترمذي2/1002)

.

وفي بعضها قال ذلك يوم غدير خم وزاد البزار في رواية " اللهم وال من والاه وعاد من عاداه وأحب من أحبه وأبغض من أبغضه

 امام بزاز نے علی مولا والی روایت میں یہ زیادہ کیا ہے کہ یا اللہ ان سے محبت فرما جو علی سے محبت فرمائے...( مطلب مولا کا معنی محبوب ہے)

(فیض القدیر شرح جامع صغیر6/217)

.

وهو ولي كل مؤمن) أي: حبيبه

 شیخ محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ ولی مولا کا معنی محبوب ہے

(لمعات شرح مشکواۃ9/653)

.

مَوْلَاهُ مَعْنَاهُ مَحْبُوبٌ مَنْ أَنَا مَحْبُوبُهُ قُلْتُ وَيَدُلُّ عَلَى هَذَا الْمَعْنَى قَوْلُهُ: اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَلَاهُ أَيْ أَحِبَّ مَنْ أَحَبَّهُ بِقَرِينَةِ اللَّهُمَّ عَادِ مَنْ عَادَاهُ وَعَلَى هَذَا فَهَذَا الْحَدِيثُ لَيْسَ لَهُ تَعَلُّقٌ بِالْخِلَافَةِ

أَصْلًا

 علی مولا ہیں اس سے نہ تو روحانی خلافت ثابت ہوتی ہے نہ ہی سیاسی خلافت ثابت ہوتی ہے اس کا معنی تو یہ ہے کہ جس کو میں محبوب ہوں علی اس کو محبوب ہیں اور یہ معنی حدیث سے ہی ثابت ہوتے ہیں کہ حدیث پاک میں ہے کہ یا اللہ اس سے محبت فرما جو علی سے محبت کرے اس سے دشمنی رکھ جو علی سے دشمنی رکھے

(حاشية السندي على سنن ابن ماجه1/56)

.

سیدی اعلیٰ حضرت نے بھی مولا کا معنی دوست لکھا ہے، اور فرمایا ہے کہ اس سے سیدنا علی کی افضلیت یا ولایت باطنی بلافصل وغیرہ ثابت نہیں ہوتی۔۔۔بلکہ سیدی اعلی حضرت نے فرمایا کہ اول روحانی باطنی خلیفہ اور ظاہری خلیفہ بھی سیدنا ابوبکر صدیق ہیں پھر عمر پھر عثمان پھر علی رضی اللہ تعالی عنہم

(دیکھیے مطلع القمرین ص71۔۔۔۔المعتقد المنتقد ص286ملتقطا)

اور عرفان شاہ مشہدی ریاض شاہ وغیرہ نیم روافض کے معتبر ترین ساتھی اور ان کے محقق صاحب چمن زمان لکھتے ہیں کہ ہم نظریات کے معاملے میں اعلی حضرت کے پیروکار ہیں، طاہر کادری اور منہاجی بھی اعلی حضرت کو مانتے ہیں ان سب کو اعلی حضرت کا یہ فرمان نظر نہیں اتا۔۔۔۔۔۔۔؟؟

چمن زمان صاحب لکھتے ہیں

ہم باب نظریات میں امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی شخصیت پر مکمل اعتماد کرتے ہیں

(دیکھیےجدید نعرے ص57,58)

۔

*#صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ نیم روافض سیدی اعلی حضرت کا نعرہ صرف اس لیے لگاتے ہیں تاکہ عوام کو دھوکہ دے سکیں عوام میں عزت پا سکیں عوام سے پیسہ کھا سکیں اور شیعہ وغیرہ ایرانی ہڈیوں پر بھی پلتے رہیں ورنہ کریں توبہ اور کریں حق قبول۔۔۔۔۔!!*

.

@@@@@@@@@@@@

4️⃣چوتھا حصہ:

عید غدیر یوم ولایت و خلافت بلافصل کہہ کر یا یوم ولایت سیدنا علی کہہ کر یا یوم افضلیت سیدنا علی کہہ یا یوم فضلیت سیدنا علی کہہ یا کچھ بھی کہہ کر 18ذوالحج کو عید غدیر منانا جائز نہیں،مگر کیوں۔۔۔؟؟ اور سیدنا ابوبکر صدیق و عمر کی افضلیت قطعی ہے،ایات احادیث اور اسلاف کے اقوال لکھیں گے ہم

.

*#جواب و تفصیل و تحقیق*

عید غدیر یا یوم ولایت علی منانے کے تین وجوہات بتائی جاتی ہیں

1۔۔۔نعوذ باللہ ظالم لوگوں سے خلافت نکل کر اہل بیت میں ائی

2۔۔۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو خلیفہ بلا فصل بنایا 

3۔۔۔نیم روافض کہتے ہیں کہ اس دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی کو باطنی ولایت بلا فصل عطا فرمائی 

۔

اٹھارہ ذوالحج کو سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی کو من کنت مولاہ کہہ کر ولایت عطاء کی..(دیکھیے چمن زمان کا رسالہ شہادت سیدنا ذو النورین اور نواصب کا اصل ہدف صفحہ2...13ملخصا)

.

طاہر الکادری سیاسی و روحانی خلیفہ کی تقسیم کرتے ہوئے لکھتا ہے:

ولایت باطنی جو " من کنت مولاہ فعلی مولاه کے ذریعے حضرت علی کو عطا ہوئی اس میں وہی یکتا ہیں۔

(طاہر الکادری کی کتاب القول الوثیق صفحہ41)

.

چمن زمان مزید لکھتا ہے:

اول روحانی خلیفہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہیں

(دیکھیے چمن زمان کی کتاب بارہ امامان اہلبیت ص42)

.

پہلی دو باتوں کا رد ہم اوپر مفصل لکھ ائے کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ سمیت تمام اہل بیت کا نظریہ تھا کہ سیدنا ابوبکر صدیق سیدنا عمر سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ  خلیفہ برحق تھے اور یہ خلفاء راشدین و دیگر تمام صحابہ کرام ظالم کافر منافق نہ تھے 

اور 

سنی شیعہ کتب کے مطابق اہل بیت کے مطابق محققین مفسرین کے مطابق کوئی بھی ایسی دلیل نہیں ہے کہ جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کو خلافت بلا فصل عطا فرمائی ہو من کنت مولا یعنی علی مولا کا معنی سنی شیعہ کتب کے مطابق دوست اور محبوب ہے اور یہی اس کا پس منظر ہے 

۔

*#اب اتے ہیں تیسرے سوال کے جواب کی طرف کہ باطنی خلافت بھی سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ سے پہلے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو ملی سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو ملی سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو ملی۔۔۔ دلائل درج ذیل ہیں*

.

عرفان شاہ مشہدی ریاض شاہ چمن زمان طاہر کادری وغیرہ نیم روافض کا بھی یہی اصول اور نظریہ ہے کہ روحانی خلیفہ قطب ہوتا ہے اور وہ ایک وقت میں ایک ہوتا ہے اور وہ اس وقت کے تمام لوگوں میں سب سے افضل ہوتا ہے 

چمن زمان لکھتا ہے:

پس قطب ہر دور میں پوری جماعت مسلمین سے افضل ہوتا ہے

(چمن زمان کی کتاب محفوظہ ص51)

.

اب ہم ثابت کریں گے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سب سے افضل ہیں اور خلافت بھی انہیں دی گئی تو لامحالہ کہنا پڑے گا کہ وہ ظاہری خلیفہ سیاسی خلیفہ بھی ہیں اور افضل ہونے کی وجہ سے قطب بھی ہیں یعنی اول روحانی خلیفہ بھی ہیں۔۔۔لہذا سیدنا علی کو اول روحانی خلیفہ کہنا اور اسی کے تحت یوم ولایت منانا یا عید غدیر منانا ہرگز ہرگز جائز نہیں۔۔۔۔۔۔!!

۔

*#سیدنا_ابوبکر_عمر_کے_افضل ہونے اولین قطب و روحانی خلیفہ ہونے کے کچھ دلائل و اسلاف کے اقوال........!!*

حق چار یار کی نسبت سے چار قرآنی دلائل کہ جس سے افضلیت سیدنا صدیق اکبر ثابت کی گئ ہے.

①القرآن..سورہ توبہ...ایت40

(تفسير النيسابوري = غرائب القرآن ورغائب الفرقان3/471)


.

②القرآن...سورہ حدید...ایت10

(تفسیر اللباب في علوم الكتاب18/462)

.

③القرآن..سورہ لیل...آیت17

(تفسير الرازي = مفاتيح الغيب أو التفسير الكبير31/188)

.

④القران..سورہ نور...آیت22

(تفسیر اللباب في علوم الكتاب14/335)

.

سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے

.===============

*#سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما کے افضل ہونے اولین قطب و روحانی خلیفہ ہونے کے متعلق تین اہم احادیث مبارکہ بمع شرح........!!*

.

① نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ابوبکر کو کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے تو سیدنا ابو بکر نکلے اور نماز پڑھانا شروع کی

(بخاری حدیث664)

.

والإمامة الصغرى تدل على الكبرى، ومطابقة الحديث للترجمة ظاهرة، فإن أبا بكر أفضل الصحابة، وأعلمهم وأفقههم 

 اس حدیث پاک سے ثابت ہوتا ہے کہ جب نماز میں سیدنا ابوبکر صدیق زیادہ مستحق ہیں تو بڑی امامت(روحانی و سیاسی خلافت) میں بھی وہ سب سے زیادہ حقدار ہیں، اس حدیث پاک سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق تمام صحابہ میں سب سے زیادہ افضل تھے سب سے زیادہ علم والے تھے سب سے زیادہ فقہ و سمجھ والے تھے

(ارشاد الساری شرح بخاری2/43)

.

② ایک شخص نے عرض کی کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ ترازو لایا گیا اور اس میں آپ کو وزن کیا گیا اور ابو بکر کو وزن کیا گیا تو آپ کا پلڑا بھاری رہا... پھر ابوبکر اور عمر کو وزن کیا گیا تو ابوبکر کا پلڑا بھاری رہا پھر عمر اور عثمان کو وزن کیا گیا تو عمر کا پلڑا بھاری رہا

(ابوداؤد حدیث تقریری4634)

.

 اس حدیث کا یہ معنی ہے کہ جس کا پلڑا بھاری رہا وہ افضل ہے( لہذا سیدنا ابوبکر صدیق افضل ہیں اس کے بعد سیدنا عمر اس کے بعد سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہم)

(عون المعبود شرح حدیث4634)

.

③ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جہاں تک تعلق ہے میرے زمین میں دو وزیروں کا تو وہ ابوبکر اور عمر ہیں

(ترمذی حدیث3680)

.

فِيهِ دَلَالَةٌ ظَاهِرَةٌ عَلَى فَضْلِهِمَا عَلَى غَيْرِهِمَا مِنَ الصَّحَابَةِ وَهُمْ أَفْضَلُ الْأُمَّةِ، وَعَلَى أَنَّ أَبَا بَكْرٍ أَفْضَلُ مِنْ عُمَرَ

 اس حدیث پاک میں واضح دلیل ہے کہ سیدنا ابوبکر اور عمر تمام صحابہ کرام سے افضل ہیں اور ساری امت سے افضل ہیں اور سیدنا ابوبکر سیدنا عمر سے افضل ہیں

(مرقاۃ شرح مشکواۃ9/3915)

.

*#صحابہ کرام کے مطابق افضل کون.....؟؟*

ہم صحابہ کرام لوگوں کے درمیان فضیلت دیتے تھے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ مبارک میں تو ہم فضیلت دیتے تھے سب سے پہلے ابو بکر صدیق کو پھر سیدنا عمر کو پھر عثمان بن عفان کو ُ(پھر سیدنا علی کو) 

[صحيح البخاري ,5/4روایت3655]

.


*#سیدنا_علی نے فرمایا.....!!*

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تمام لوگوں سے بہتر.و.افضل ابوبکر ہیں اور ابوبکر کے بعد سب لوگوں سے بہتر.و.افضل عمر ہیں...(ابن ماجہ روایت نمبر106)

.

مذکورہ دلائل سے ثابت ہوا کہ سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے

.===============

*سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما کے افضل ہونے اولین قطب و روحانی خلیفہ ہونے کے متعلق کئ علماء ائمہ اولیاء صوفیاء کے اقوال ہیں، سب کو جمع کیا جائے تو ضخیم کتاب مجلدات بن جائیں...اختصار کے ساتھ چند مشھور اسلاف کے اقوال پڑہیے....!!*

.

*#امام اعظم ابو حنیفہ فرماتے ہیں*

وَأفضل النَّاس بعد النَّبِيين عَلَيْهِم الصَّلَاة وَالسَّلَام أَبُو بكر الصّديق ثمَّ عمر بن الْخطاب الْفَارُوق ثمَّ عُثْمَان بن عَفَّان ذُو النورين ثمَّ عَليّ بن أبي طَالب المرتضى رضوَان الله عَلَيْهِم أَجْمَعِينَ

 انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد سب سے افضل سیدنا ابوبکر صدیق ہیں پھر سیدنا عمر ہیں پھر سیدنا عثمان ہیں پھر سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین

(الفقه الاكبر ص41)


*#امام احمد کا عقیدہ*

سمعت أبا عبد اللَّه يقول في التفضيل: أبو بكر، ثم عمر،

 راوی کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ افضلیت میں سیدنا ابوبکر سب سے افضل ہیں اس کے بعد سیدنا عمر ہیں

( الجامع لعلوم الإمام أحمد - العقيدة4/289)


.

*#تمام اہل علم کا نظریہ  ہے*

فَمَنْ زَعَمَ أَنَّ عَلِيَّ بنَ أَبي طالبٍ أَفْضَلُ من أَبِي بَكْرٍ قد رَدَّ الكِتابَ والسُّنَّة

 فرماتے ہیں کہ جس نے یہ گمان کیا کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے افضل ہیں تو اس نے کتاب و سنت کو رد کردیا

(الجامع لعلوم الإمام أحمد - العقيدة3/41)

.

*#ابن جوزی ابن مفلح اور  امام احمد کا عقیدہ*

 وأفضلُ الناس بعدَ رسول الله أبو بكر وعُمر وعثمان وعَلي

 تمام لوگوں میں سب سے زیادہ افضل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابوبکر ہیں پھر عمر ہیں پھر عثمان پھر علی ہیں

(مناقب الإمام أحمد ص239)

(المقصد الارشد1/317نحوہ)

.

*#امام مالک کا نظریہ*

سئل مالك من أفضل الناس بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ وقال مالك أبو بكر ثم قال ثم من؟ قال عمر ثم قال ثم من؟ قال عثمان

 امام مالک سے سوال کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل کون ہے تو امام مالک نے فرمایا ابوبکر صدیق ہیں پھر اس کے بعد عمر ہے پھر اس کے بعد عثمان ہیں

(ترتيب المدارك وتقريب المسالك45، 2/46)

.

*#امام غزالی کا نظریہ*

 بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل ابوبکر صدیق ہیں پھر سیدنا عمر ہیں پھر سیدنا عثمان ہیں پھر سیدنا علی ہیں رضی اللہ تعالی عنہم اور ہم پر لازم ہے کہ ہم تمام صحابہ کی تعریف و مدح سرائی کریں جیسے کہ اللہ تعالی اور اس کے رسول نے ان کی تعریف و مدح کی ہے یہ تمام باتیں وہ ہیں کہ جن کے متعلق احادیث اور آثار ہیں جو یہ اعتقاد رکھے گا وہ اہل سنت میں سے ہوگا اہل حق میں سے ہوگا اور گمراہوں اور بدعتوں سے دور ہوگا

(احیاء العلوم 1/93)

.

*#امام سيوطي کا نظریہ*

 سیدنا ابوبکر صدیق تمام انبیاء کے بعد تمام لوگوں سے افضل ہیں اس کے بعد سیدنا عمر افضل ہیں ان کے بعد سیدنا عثمان افضل ہیں ان کے بعد سیدنا علی افضل ہیں رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین

(إتمام الدراية لقراء النقاية ص17)

.

*#پیران پیر دستگیر کا نظریہ*

غوث اعظم پیران پیر دستگیر فرماتے ہیں کہ تمام امتوں سے افضل امت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہے، پھر امت محمدیہ میں سب سے افضل صحابہ ہیں اور صحابہ میں افضل عشرہ مبشر ہیں اور عشر مبشرہ میں سے افضل چار خلفاء ہیں اور چار خلفاء میں سب سے افضل سیدنا ابوبکر ہیں پھر عمر پھر عثمان پھر علی رضی اللہ تعالیٰ عنھم

وأفضل الأربعة أبو بكر ثم عمر ثم عثمان ثم علي -رضي الله تعالى عنهم

(غنیۃ الطالبین157, 1/158)

نیم رافضی تفضیلی مثلا طاہر کادری چمن رمان ریاض شاہ عرفان شاہ قادری کہلانے کے مستحق نہیں...قادری نظریہ کے باغی اہلسنت سے خارج ہیں...اگر پھر بھی خود کو سنی و قادری کہیں تو سمجھ جاؤ دھوکہ دے کر اپنا بنا کر بہلا پھسلا کر تمھیں تفضیلت کا زہر دینا چاہتے ہیں اور ایجنٹی کرکے پیسہ کماتے ہیں اور عوام کو دھوکہ دے کر عزت شہرت کماتے ہیں

.

داتا صاحب کے مطابق بھی سیدنا صدیق اکبر سیاسی و روحانی اول خلیفہ ہیں،لکھتے ہیں:

صدیق اکبر انبیاء کے بعد تمام بشروں سےافضل ہیں،اہل طریقت کے پیشوا خاص ہیں(کشف المحجوب ص174،175)

.

سیدنا صدیق اکبر افضل تھے پھر سیدنا عمر اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ باطنی و سیاسی خلیفہ بھی تھے،قطب وقت بھی تھے اگر سیدنا علی کو بلافصل روحانی خلیفہ و قطب مانا جائے تو سیدنا ابوبکر و عمر افضل قرار نہ پائیں گے جوکہ تفضیلت ہے،قرآن و سنت کے دلائل اور اسلاف صحابہ تابعین علماء اولیاء کے نظریے کے خلاف ہے

.===================

*سیدنا صدیق اکبر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما کی افضلیت اجماعی و قطعی ہے...چند حوالے ملاحظہ کیجیے.......!!*

.

*#علامہ امام عینی فرماتے ہیں*

ومذهب أهل السنة: أن أفضل الناس بعد نبينا -عليه السلام- أبو بكر، ثم عمر، ثم عثمان، ثم علي رضي الله

عنه

 تمام اہل سنت کا مذہب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل سیدنا ابوبکر صدیق ہیں پھر سیدنا عمر ہیں پھر سیدنا عثمان ہیں پھر سیدنا علی ہیں

( نخب الأفكار في تنقيح مباني الأخبار في شرح معاني الآثار16/498)


.

*#امام ابن ملقن فرماتے ہیں*

قام الإجماع من أهل السنة والجماعة على أن الصديق أفضل الصحابة، ثم عمر

 اہل سنت والجماعت کا اس بات پر اجماع ہو چکا ہے کہ تمام صحابہ میں سب سے افضل سیدنا ابوبکر صدیق ہیں اس کے بعد سیدنا عمر ہیں

(التوضيح لشرح الجامع الصحيح20/250)


.

قال ابو الحسن الأشعري تفضيل ابى بكر على غيره من الصحابة قطعى قلت قد اجمع عليه السلف وما حكى عن ابن عبد البر ان السلف اختلفوا فى تفضيل ابى بكر وعلى فهو شىء غريب الفرد به عن غيره ممن هو أجل منه علما

واطلاعا

 امام ابو الحسن اشعری فرماتے ہیں کہ سیدنا ابوبکر صدیق کی افضلیت قطعی ہے...صاحب تفسیر مظہری فرماتے ہیں کہ اس بات پر تمام اسلاف کا اجماع ہے اور وہ جو ابن عبدالبر نے لکھا ہے کہ کچھ اختلاف ہے تو یہ اختلاف شاذ ہے اختلاف کرنے والوں کی جلالت اور علم اور اطلاع ان علماء جیسی نہیں ہے کہ جنہوں نے قطعی قرار دیا ہے

(التفسير المظهري9/191)


.

*#امام قسطلانی فرماتے ہیں*

الأفضل بعد الأنبياء أبو بكر، وقد أطبق السلف على أنه أفضل الأمة. حكى الشافعي وغيره إجماع الصحابة والتابعين على ذلك

 انبیاء کرام کے بعد سب سے افضل سیدنا ابوبکر صدیق ہیں اس پراسلاف نے اجماع کیا ہے اور امام شافعی وغیرہ نے منقول کیا ہے کہ اس بات پر صحابہ اور تابعین کا بھی اجماع ہے

(ارشاد الساری شرح بخاری6/85)


.

*#علامہ ہاشم ٹھٹھوی سندھی فرماتے ہیں*

اقول لو اطلع هؤلاء على الاحاديث الكثيرة البالغة حد التواتر وعلى الاجماع الدالين على الترتيب المذكور لما قالوا بظنيتها اصلاً ولما قروا بقطعيتها حتما

 جن لوگوں نے سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی افضلیت کو ظنی کہا ان لوگوں کے علم میں اجماع اور وہ روایات نہ تھیں کہ جو تواتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہیں اور اگر انہیں سیدنا ابوبکر و عمر کی سیدنا علی وغیرہ سب پر افضلیت کی حد تواتر تک پہنچی ہوئی روایات پہنچتی اور  اجماع کا پتہ چلتا تو وہ کبھی بھی اس مسئلے کو ظنی قرار نہ دیتے بلکہ حتمی و قطعی اجماعی قرار دیتے

(الطریقۃ المحمدیۃ ص122..123)

.================

*سیدنا ابوبکر و عمر روحانی و سیاسی اولین خلیفہ تھے، قطب تھے،ولایت و کمالات کے جامع تھے...دوٹوک عبارتیں ملاحظہ کیجیے.....!!*

*#حوالہ:1️⃣

و فی شرح المواهب اللدنية قال: أول من تقطب بعد النبی الخلفاء الأربعة على ترتيبهم في الخلافة، ثم الحسن هذا ما عليه الجمهور

شرح المواهب اللدنية میں ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے پہلے جو قطب(روحانی خلیفہ) ہیں وہ خلفائے اربعہ ہیں اس ترتیب پر جو ان کی خلافت کی ترتیب ہے یعنی سب سے پہلے قطب(روحانی و سیاسی خلیفہ) سیدنا ابوبکر صدیق ہیں پھر سیدنا عمر پھر سیدنا عثمان ہیں پھر سیدنا علی قطب ہیں پھر سیدنا حسن(رضی اللہ تعالیی عنھم اجمعین)اور یہ وہ(نظریہ قول) ہے کہ جس پر جمہور(علماء اور صوفیاء)ہیں 

(جلاء القلوب2/265)

.

*حوالہ ...2️⃣*

علامہ ابن رجب لکھتے ہیں:

لما انطوى بساط النبوة من الأرض بوفاة الرسول صلى الله عليه وسلم لم يبق على وجه الأرض أكمل من درجة الصديقية وأبو بكر رأس الصديقين فلهذا استحق

خلافة الرسول

 جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے پردہ فرما گئے تو صدیقیت کے علاوہ کوئی بھی افضل درجہ نہ تھا اور  سیدنا  ابوبکر صدیق تمام صدیقوں کے سردار تھے اسی لیے خلافت(روحانی و سیاسی خلافت)کے مستحق ٹہرے

(لطائف المعارف ص104)

.

*حوالہ نمبر3️⃣

صوفی امام شعرانی اور صوفی ابی مدین اور صوفی امام علی الخواص اور علامہ شامی کا نظریہ:

ابی بکر الصدیق...وھو اول اقطاب ھذہ الامۃ و کذالک مدۃ خلافۃ عمر و عثمان و علی...وبلغنا مثل ذلك عن الشيخ ابن العربی فقلت لشيخنا فهل يشترط ان يكون القطب من اهل البيت كما قاله بعضهم فقال لا يشترط ذلك لأنها طريق وهب يعطيها الله تعالى لمن شاء

 سیدنا ابوبکر صدیق اس امت کے تمام قطبوں میں سے سب سے پہلے اولین قطب ہیں اور اسی طرح سیدنا عمر اپنی خلافت کے زمانے میں قطب تھے اور سیدنا عثمان بھی اپنی خلافت میں قطب تھے اور سیدنا علی اپنے خلافت کے زمانے میں قطب تھے، اسی طرح کا نظریہ ہمیں صوفی ابن مدین سے بھی ملا ہے، امام شعرانی فرماتے ہین کہ میں نے اپنے شیخ مرشد امام علی الخواص سے پوچھا کہ کیا قطب کے لیے اہلبیت نبوی میں سے ہونا شرط ہے جیسا کہ بعض لوگ کہتے ہیں، آپ نے فرمایا شرط نہیں، قطبیت اللہ کی عطاء ہے جسے چاہے نوازے

(مجموع رسائل ابن عابدین 2/275)

.


*حوالہ نمبر 4️⃣

وأول من تقطب بعد النبي يَةُ الخلفاء الأربعة على ترتيبهم في الخلافة، ثم الحسن، هذا ما عليه الجمهور

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے پہلے جو قطب(روحانی خلیفہ) ہیں وہ خلفائے اربعہ ہیں اس ترتیب پر جو ان کی خلافت کی ترتیب ہے یعنی سب سے پہلے قطب سیدناابوبکر صدیق ہیں پھر سیدنا عمر پھر سیدنا عثمان ہیں پھر سیدنا علی قطب ہیں پھر سیدنا حسن(رضی اللہ تعالیی عنھم اجمعین)اور یہ وہ(نظریہ قول) ہے کہ جس پر جمہور(علماء اور صوفیاء)ہیں 

(مشتهى الخارف الجاني ص506)

.

*حوالہ نمبر 5️⃣

علامہ مناوی فرماتے ہیں:

لكن حيث أطلق القطب لا يكون في الزمان إلا واحدا وهو الغوث، وهو سيد أهل زمنه وإمامهم، وقد يحوز الخلافة الظاهرة كما حاز الباطنة، كالشيخين والمرتضى والحسن و عبد العزيز رضي الله عنهم،

 قطب زمانے میں ایک ہوتا ہے اور اسے غوث بھی کہتے ہیں اور وہ  اپنے تمام زمانے والوں کا سردار و امام و افضل شخص ہوتا ہے...قطب  کبھی روحانی خلیفہ ہونے کے ساتھ ساتھ  سیاسی خلیفہ بھی ہوتا ہے جیسے کہ سیدنا ابوبکر صدیق سیدنا عمر سیدنا علی سیدنا حسن اور سیدنا عبد العزیز( یہ سب روحانی اور سیاسی دونوں قسم کے خلافت والے تھے)

(التوقیف ص58)

.

*حوالہ نمبر6️⃣

وبعد عصرہ صلی اللہ علیہ وسلم خلیفتہ القطب، متفق علیہ بین اہل الشرع و الحکماء۔۔۔انہ قد یکون متصرفا ظاہرا فقط کالسلاطین و باطنا کالاقطاب و قد یجمع بین الخلافتین  کالخلفاء الراشدین کابی بکر و عمر بن عبدالعزیز

اور

حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ مبارکہ کے بعد جو آپ کا خلیفہ ہوا وہی قطب ہے اس پر تمام اہل شرع(علماء صوفیاء)اور حکماء کا اتفاق ہے کہ خلیفہ کبھی ظاہری تصرف والا ہوتا ہے جیسے کہ عام بادشاہ اور کبھی فقط باطنی تصرف والا ہوتا ہے جیسے کہ قطب اور کبھی خلیفہ ایسا ہوتا ہے کہ جو ظاہری تصرف بھی رکھتا ہے اور باطنی تصرف بھی رکھتا ہے(وہ بادشاہ بھی ہوتا ہے اور قطب  و روحانی خلیفہ بھی ہوتا ہے)جیسے کہ خلفائے راشدین مثلا سیدنا ابو بکر صدیق اور عمر بن عبدالعزیز    

(نسیم الریاض3/30ملتقطا)

.

*حوالہ نمبر7️⃣

شیخ الدقائق صوفی امام ابن عربی کا قول منقول ہے کہ:

ولكن الأقطاب المصطلح على أن يكون لهم هذا الإسم مطلقًا من غير إضافة لا يكون إلا واحد وهو الغوث أيضًا وهو سيد الجماعة في زمانه ومنهم من يكون ظاهر الحكم ويحوز الخلافة الظاهرة كما حاز الخلافة الباطنة كأبي بكر وعمر وعثمان وعلي رضوان الله تعالى عليهم

قطب زمانے میں ایک ہوتا ہے اور اسے غوث بھی کہتے ہیں اور وہ  اپنے تمام زمانے والوں کا سردار و امام و افضل شخص ہوتا ہے...قطب  کبھی روحانی خلیفہ ہونے کے ساتھ ساتھ  سیاسی خلیفہ بھی ہوتا ہے جیسے کہ سیدنا ابوبکر صدیق سیدنا عمر سیدنا علی( یہ سب روحانی اور سیاسی دونوں قسم کے خلافت والے تھے)

(الموسوعة الميسرة في تراجم أئمة التفسير والإقراء والنحو واللغة3/2530)

.

*حوالہ نمبر8️⃣

قطب.....وھو الغوث ایضا و ھو سید الجماعۃ فی زمانہ۔۔یحوز الخلافۂ الظاہریۃ کما حاز الخلافۃ الباطنیۃ کابی بکر و عمر و عثمان و علی رضوان اللہ تعالیٰ علھیم...و ذہب التونسی من الصوفیۃ الی ان اول من تقطب بعدہ صلی اللہ علیہ وسلم  ابنتہ فاطمۃ و لم ار لہ فی ذالک سلفا

قطب(روحانی خلیفہ) اس کو غوث بھی کہتے ہیں اور وہ اپنے زمانے میں تمام امتیوں کا سردار و افضل ہوتا ہے...خلیفہ کبھی ایسا ہوتا ہے جو ظاہری خلافت بھی پاتا ہے اور باطنی خلافت و قطبیت بھی پاتا ہے جیسے کہ سیدنا ابو بکر صدیق اور سیدنا عمر اور سیدنا عثمان اور سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ اجمعین اور صوفیاء میں سے تونسی اس طرف گئے ہیں کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد اول قطب ان کی بیٹی فاطمہ ہے اور ہم اس مسئلہ میں ان کا کوئی ہمنوا و حوالہ نہیں پاتے  

(مجموع رسائل ابن عابدین 2/265ملتقطا)

.

*حوالہ نمبر9️⃣

سیدی امام احمد رضا بریلوی علیہ الرحمۃ کا نظریہ

غوث(کو)قطب الاقطاب(بھی کہا جاتا) ہے

(فتاوی رضویہ28/373)

 امت میں سب سے پہلے درجہ غوثیت(روحانیت قطبیت) پر امیر المومنین حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ ممتاز ہوئے.

(ملفوظات اعلی حضرت حصہ 1 ص178)

.

*حوالہ نمبر🔟

 حضرت خواجہ باقی باللہ نقشبندی فرماتے ہیں:

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قطب سیدنا ابوبکرصدیق ہیں قطب وہ ہے جو اپنے وقت میں واحد اور سب سے افضل ہوتا ہے، اس کے بعد سیدنا عمر قطب ہوئے اس کے بعد سیدنا عثمان اور اس کے بعد سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ قطب ہیں....(مکتوبات خواجہ ص89..90ملخصا منقولا)

.

*حوالہ نمبر1️⃣1️⃣

مرزا مظہر جانان فرماتے ہیں:

چاروں خلفاء( سیدنا ابوبکر صدیق سیدنا عمر سیدنا عثمان سیدنا علی) اور حضرت امام حسن میں یہ دونوں باتیں(ظاہری و باطنی خلافت) جمع تھیں...(مکتوبات مرزا مظہر جانان ص148منقولا)

.

*حوالہ نمبر12....1️⃣2️⃣*

*#امام اہلسنت مجدد دین و ملت پیکر عشق و محبت سیدی احمد رضا علیہ الرحمۃ نے ظاہری اور باطنی روحانی اول خلیفہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو لکھا اور اس کو صحابہ کرام تابعین و اسلاف و امت کا اجماعی عقیدہ قرار دیا اور جو کہتے ہیں کہ باطنی اول خلیفہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہیں انہیں سیدی امام احمد رضا نے جھوٹے سنی اور گمراہ قرار دیا....متن اور اس پر سیدی امام احمد رضا کا حاشیہ پڑہیے......!!*

 امام بر حق رسول اللہ ﷺ کے بعد ابو بکر ، پھر عمر، پھر عثمان، پھر علی رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین ہیں، اور ( ان چاروں کی فضیلت [۳۱۶) ترتیب خلافت کے موافق ہے۔

 اس حسین عبارت میں مصنف رحمہ اللہ تعالی علیہ نے ائمہ سابقین کی پیروی کی اور اس میں اس زمانے کے تفصیلیوں کا رد ہے جو جھوٹ اور بہتان کے بل پر سنی ہونے کے مدعی ہیں اس لئے کہ انہوں نے فضیلات میں ترتیب کے مسئلے کو ( ظاہر سے ) اس طرف پھیرا کہ خلافت میں اولیت (خلافت میں زیادہ حقدار ہونے ) کا معنی دنیوی خلافت کا زیادہ حقدار ہونا، اور یہ اس کے لئے ہے جو شہروں کے انتظام اور لشکر سازی، اور اس کے علاوہ دوسرے امور جن کے انتظام وانصرام کی سلطنت میں حاجت ہوتی ہے ان کا زیادہ جاننے والا ہو۔ اور یہ باطل خبیث قول ہے، صحابہ اور تابعین رضی اللہ تعالی عنہم کے اجماع کے خلاف ہے

(المعتقد المنتقد ص286ملتقطا)

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

New  whatsapp nmbr

03062524574

00923062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.