Labels

صحابہ کرام اور تابعین عظام اور ان کے بعد سے لے کر اج تک جتنے بھی معتبر محققین گزرے ہیں ان کے مطابق یزید شرابی تھا فاسق فاجر اعلانیہ گناہ کرنے والا تھا، صحیح سند کے ساتھ چند روایات درج ذیل ہیں۔۔۔یزید شرابی گنہگار تھا تو پھر سیدنا معاویہ نے اس نااہل کو ولی عہد کیوں بنایا۔۔اور سیدنا معاویہ کے وقت وہ شرابی فاسق فاجر نہ تھا تو پھر اچانک کیسے فاسق فاجر ہو گیا۔۔۔؟؟ ان دونوں سوالات کے معقولی جواب احادیث و روایات سے ہم دیں گے تحریر پڑھیے محفوظ کیجئے پھیلا

 *#صحابہ کرام اور تابعین عظام اور ان کے بعد سے لے کر اج تک جتنے بھی معتبر محققین گزرے ہیں ان کے مطابق یزید شرابی تھا فاسق فاجر اعلانیہ گناہ کرنے والا تھا، صحیح سند کے ساتھ چند روایات درج ذیل ہیں۔۔۔یزید شرابی گنہگار تھا تو پھر سیدنا معاویہ نے اس نااہل کو ولی عہد کیوں بنایا۔۔اور سیدنا معاویہ کے وقت وہ شرابی فاسق فاجر  نہ تھا تو پھر اچانک کیسے فاسق فاجر ہو گیا۔۔۔؟؟ ان دونوں سوالات کے معقولی جواب احادیث و روایات سے ہم دیں گے تحریر پڑھیے محفوظ کیجئے پھیلائیے۔۔۔۔۔!!*

۔

https://tahriratehaseer.blogspot.com/?m=1

۔

https://www.facebook.com/share/15dH3sCxWC/

۔

https://www.facebook.com/share/199Wb9nCxw/

۔

https://www.facebook.com/share/v/1FDhkJh4wS/

تحریرات سوالات اعتراضات کے جوابات، اہلسنت کے دفاع، معاشرے کی اصلاح و معلومات و تحقیق و تشریح و تصدیق یا تردید وغیرہ کے لیے مجھے وٹسپ کر سکتے ہیں

naya wtsp nmbr

03062524574

میرے نئے وٹسپ نمبر کو وٹسپ گروپوں میں ایڈ کرکے ایڈمین بنائیے تاکہ میں تحریرات وہاں بھیج سکوں،،،سوالات اعتراضات کے جوابات دے سکوں۔۔۔۔دینی خدمات زیادہ سے زیادہ سر انجام دے سکوں۔۔۔👈نیز کافی ساری تحقیقات تحریرات معلومات اوپر دیے گئے تین لنکس میں موجود ہے وہاں سرچ کر کے بھی فوائد حاصل کر سکتے ہیں۔۔۔۔!!

۔

*#نوٹ*

تحریرات ایک دم یا پھر تھوڑا تھوڑا کر کے پڑھیے اور ہو سکے تو پھیلائیے اور اپ کو اجازت ہے کہ اپ میری تحریر میں سے لنکس وغیرہ ہٹا دیں حتی کہ میرا نمبر بھی مٹا سکتے ہیں حتی کہ میرا نام مٹا کر فقط کاپی پیسٹ یا کاپی یا کاپڈ لکھ کر پھیلا سکتے ہیں یا ناشر لکھ کر اس کے بعد اپنا نام لکھ کر پھیلا سکتے ہیں۔۔۔ ہمارا مقصود ہے کہ تحقیق علمی تحریر اور حق زیادہ سے زیادہ پھیلے اور ہم بھلائی اچھائی کا سبب بنیں، کسی کی ہدایت کا سبب بنیں، کسی کے ایمان مضبوط ہونے کا سبب بنیں۔۔۔۔۔۔۔۔تحریر میں نام نمبر اور لنکس اس لیے ڈالتا ہوں تاکہ اگر کسی کو میری تحریر پسند ا جائے تو وہ میری مزید تحریرات پڑھ سکے، اور اگر کسی کو کوئی اعتراض ہو تو وہ ڈائریکٹ مجھ سے رابطہ کر سکے، پھیلانے والے شخص کو کوئی تنگ نہ کرے

۔

🛑*#تمھید و اہم بات*

مہینہ محرم شروع ہوتے ہی دو قسم کے لوگ موسمی مینڈکوں کی طرح اچھل کود کرنے لگ جاتے ہیں، اپنی محفلوں میں اور سوشل میڈیا پہ اچھل کود کرنے لگ جاتے ہیں۔۔۔۔!!

👈1۔۔۔رافضی اور نیم رافضی کہ صحابہ کرام علیہم رضوان پر بھونکنا شروع ہو جاتے ہیں اور اسلاف پر بھونکنا شروع ہو جاتے ہیں جس کی زندہ مثال ایک یہ بھی ہے کہ ابھی ابھی اسی محرم میں اپنے اپ کو معتدل قرار دینے والا مکار جھوٹا شہنشاہ نقوی بکواس کر گیا کہ نعوذ باللہ صحابہ کرام کافر ہو گئے تھے اور لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ادھا کلمہ ہے کفریہ کلمہ ہے اور نعوذ باللہ اہل بیت کے ائمہ انبیاء کرام سے بھی افضل ہیں جس کا رد ہم نے تفصیلی طور پر انہی کی شیعہ کتب سے کر دیا ہے اور شیعہ کی تضاد بیانی مکاری منافقت واضح کی ہے تحریر کا لنک اوپر لنک نمبر چار ہے ضرور پڑھیے 

۔

👈2۔۔۔دوسرے قسم کے لوگ وہ ناصبی یا نیم ناصبی یا پھر نیم محقق نیم ملا یا کم علم رکھنے والے لیکن علماء پر یقین نہ کرنے والے اور صحیح سند صحیح سند کی رٹ لگانے والے جدید مولوی یہ سارے نکل اتے ہیں اور اچھل کود کرتے ہیں کہ یزید تو خلیفہ راشد ہے یعنی نیک متقی پرہیزگار ہے باقاعدہ اس پر کتاب لکھی ہے انہوں نے جس کا نام ہے رشید ابن رشید ہے، اس کتاب کو پڑھ کر یا ناصبیوں اہل حدیثوں غیر مقلدوں میں سے کٹر حضرات یا اپنے اپ کو معتدل کہنے والے حضرات جیسے  ڈاکٹر ذاکر نائک وغیرہ کو سن کر کہتے ہیں کہ جی یزید اور سیدنا حسین رضی اللہ تعالی عنہ دونوں ہمارے شہزادے ہیں یہ کربلا کوئی حق و باطل کی جنگ نہ تھی برائی اور بھلائی کی جنگ نہ تھی بلکہ دو شہزادوں کی لڑائی تھی جیسا کہ دو ٹوک کہا ہے ذاکر نائک نے۔۔۔۔

۔

🧐ان لوگوں کو جتنا بھی حوالہ دکھاؤ کہ دیکھو پرانے سارے مورخین معتبر مورخین اور اس کے بعد کے معتبر مورخین حتی کہ ابن جوزی ابن کثیر ابن الاثیر ابن خلدون طبری خلیفہ بن خیاط ابن سعد وغیرہ سارے مورخین لکھ چکے کہ یزید شرابی تھا نماز نہ پڑھتا تھا اور کتوں کے ساتھ کھیلتا تھا اور گانے باجے سنتا تھا لڑکیاں نچواتا تھا ڈانس کرواتا تھا لیکن یہ لوگ بس ایک ہی رٹ لگاتے ہیں کہ 

صحیح سند کے ساتھ ہمیں دکھاؤ کہ یزید شرابی بے نمازی فحاشی فاسق فاجر تھا۔۔۔

۔

🧠اگرچہ اسلاف اور معتبر مورخین کا اجماع ہی دلیل کافی ہے کہ یزید پلید ایسا گندا تھا کہ مورخین نے اس کی پلیدگی فسق و فجور کے لیے اہتمام کر کے سند لکھنے کی ضرورت ہی نہ سمجھا ، انہوں نے سمجھا کہ اتنا واضح فاسق و فاجر پلید بندہ ہے اس کے لیے سند لکھنے کی کیا ضرورت ہے۔۔۔جس سے اج کل کے نئے نویلے محققین اور ایسے گمراہ نام نہاد معتدل حضرات کو بہانہ مل گیا کہ جی صحیح سند کے ساتھ یزید کی پلیدگی ثابت نہیں فسق و فجور ثابت نہیں 

۔

📌انہی کو جواب دینے کے لیے اور ہم سب کا ایمان مضبوط کرنے کے لیے ، نظریہ مضبوط کرنے کے لیے ہم نے درج ذیل روایات جمع کی ہیں جو بالکل صحیح یا کم از کم حسن معتبر دلیل ہیں ، 📌حسن روایت تمام علماء کے مطابق دلیل بنتی ہے جس سے فرض واجب یا گناہ ثابت کیا جاتا ہے۔۔۔ان روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام تابع عظام کے مطابق سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات کے بعد  یزید شرابی تھا، گندا تھا شراب میں دھت رہتا تھا، نمازیں چھوڑ دیتا تھا اور بھی بہت برائیاں تھیں اس میں اس لیے صحابہ کرام نے تابعین نے اس کی بیعت تک توڑ دی تھی

۔

👊*#اصول*

صحیح حدیث و روایت سے بھی دلیل اخذ کی جاتی ہے تو یہ بھی یاد رہے کہ حسن حدیث و روایت سے بھی دلیل اخذ کی جاتی ہے۔۔۔یہ لیجیے چار حوالہ جات حق چار یار کی نسبت سے۔۔۔!!

۔

1۔۔۔۔وهو في الاحتجاج به كالصحيح عند الحمهور

 حسن حدیث دلیل بننے کے لحاظ سے جمہور کے نزدیک صحیح حدیث کی طرح ہے

(امام ابن کثیر الباعث الحثیث ص37)

.

2۔۔۔۔لِأَنَّ غَالِبَ الْأَحَادِيثِ لَا تَبْلُغُ رُتْبَةَ الصَّحِيحِ (وَيَقْبَلُهُ أَكْثَرُ الْعُلَمَاءِ)

 حسن احادیث کی اکثریت صحیح حدیث کے درجہ سے کم ہوتی ہے... حسن حدیث کو اکثر علماء نے قبول کیا ہے دلائل میں فضائل میں

(امام سیوطی تدریب الراوی1/167)

.

3۔۔۔۔وَهُوَ أَن يُقَال إِن الصِّفَات الَّتِي يجب (مَعهَا قبُول الرِّوَايَة) لَهَا مَرَاتِب ودرجات فأعلاها هُوَ الصَّحِيح وَكَذَلِكَ أوسطها وَأَدْنَاهَا الْحسن

 صحیح بات اور تحقیق کی بات یہ ہے کہ یوں کہا جائے کہ دلائل و فضائل میں جن  احادیث کو قبول کرنا واجب ہے انکے مراتب ہیں،اعلی مرتبہ صحیح حدیث کا ہے اور پھر حسن حدیث کا مرتبہ ہے کہ انکو فضائل و دلائل میں معتبر قرار دینا واجب ہے

(النکت علی مقدمۃ ابن الصلاح1/306)

امام ابن ملقن المقنع فی علوم الحدیث1/84)

.

4۔۔۔۔ويقبله أكثر العلماء، ويستعمله عامة الفقهاء...ثم الحسن كالصحيح في الاحتجاج به وإن كان دونه في القوة

 حسن حدیث کو اکثر علماء و محدثین و محققین نے قبول کیا ہے دلائل و فضائل میں اور عام فقہاء نے اس کو استعمال کیا ہے دلائل و فضائل و مسائل میں اور حسن حدیث دلیل کے اعتبار سے صحیح کی طرح ہے اگرچہ حدیث صحیح سے تھوڑا کم درجہ کی ہے

(امام نووی التقریب والتیسییر ص29)

.

🛑*#اب درج ذیل صحیح و حسن دلیل بننے والی معتبر روایات اور ان کی راویوں کی تحقیق پڑھیے۔۔۔۔جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یزید شرابی تھا نمازیں چھوڑ دیتا تھا ،فاسق و فاجر ظالم تھا۔۔۔لہذا یہ حق و باطل کی جنگ تھی، برائی کی اچھائی سے جنگ تھی۔۔۔۔برے اور اچھے کی جنگ تھی۔۔۔دو شہزادوں کی جنگ نہ تھی۔۔۔۔!!*

۔

1️⃣صحابی سیدنا ابن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ اور ان کے ساتھیوں کی گواہی کہ یزید شرابی اور مختلف گناہوں میں ملوث تھا۔۔۔!!

حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ قَالَ: حَدَّثَنِي جَدِّي أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ سَالِمٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: سَمِعْتُ غَيْرَ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِمَّنْ حَضَرَ ابْنَ الزُّبَيْرِ حِينَ هَدَمَ الْكَعْبَةَ وبَنَاهَا، قَالُوا: لَمَّا أَبْطَأَ عَبْدُ اللَّهِ ابن الزبير عن بيعة يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ، وتَخَلَّفَ وخَشِيَ مِنْهُمْ؛ لَحِقَ بِمَكَّةَ لِيَمْتَنِعَ بِالْحَرَمِ، وجَمَعَ مَوَالِيَهُ، وجَعَلَ يُظْهِرُ عَيْبَ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ ويَشْتُمُهُ ويَذْكُرُ شُرْبَهُ

 الْخَمْرَ وغَيْرَ ذَلِكَ

ابن جریج کہتے ہیں کہ کئی اہل علم راویوں نے مجھے واقعہ بتایا یہ وہ اہل علم راوی ہیں کہ جو سیدنا ابن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس حاضر تھے تو انہوں نے بتایا کہ سیدنا ابن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے یزید کی بیعت نہ کی اور وہ واپس ائے اور انہیں خوف ہوا کہ یزید انہیں شہید کر دے گا تو وہ مکہ میں حرم شریف میں رہنے لگے تاکہ کم از کم حرم شریف کا احترام کرتے ہوئے یزید قتل نہ کرے(لیکن یزید پلید نے حرم شریف کا بھی احترام نہ کیا) سیدنا ابن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے تمام ساتھیوں کو بلایا اور بتانے لگے کہ یزید شراب پیتا ہے اور اس کے علاوہ بہت سارے گناہ کرتوت برائیاں کیں اور سیدنا ابن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ یزید کو سب و شتم مذمت کرتے رہے

(أخبار مكة - الأزرقي - ت ابن دهيش روایت225)

۔

سیدنا ابن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے یزید کو شرابی قرار دیا اور دیگر برائیاں بھی ذکر فرمائی اور یہ روایت قابل اعتبار معتبر قابل دلیل صحیح روایت ہے یا کم از کم حسن معتبر قابل دلیل روایت ہے جن کے راویوں کا احوال درج ذیل ہے 

۔

پہلا راوی اخبار مکہ کتاب لکھنے والا علامہ ازرقی اتنا معتبر ہے کہ انہیں امام کے لفظ سے یاد کیا گیا ہے

الإمام المؤرِّخ أبو الوليد محمد بن عبد الله بن أحمد بن محمد بن الوليد بن عقبة ابن أزرق الغسَّاني الأزرقي

(سلم الوصول إلى طبقات الفحول3/155)

.

دوسرا راوی احمد بن محمد کے بارے میں لکھنے کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ یہ ایسا راوی ہے جس سے امام بخاری جیسے محدث نے کئی احادیث روایت کی ہیں مثلا دیکھیے بخاری حدیث 155

۔

تیسرے راوی سعید بن سالم کے بارے میں پڑھیے

سعيد بن سَالم القداح.كنيته أبو عُثْمَان، أَصله من خُرَاسَان، سكن مَكَّة.يروي عَن ابن جريج.وَروى عَنْهُ الشَّافِعِي.۔۔۔يَحْيى يقول: سَعِيد القداح ليس به بأس، وَهو سَعِيد بن سالم۔۔۔ليحيى بن مَعِين: فالقداح، يعني سَعِيد بن سالم؟ قال: ثقةٌ۔۔۔قال الشيخ( ابن عدی) ولسعيد بن سالم غير ما ذكرت من الحديث، وَهو حسن الحديث وأحاديثه مستقيمة، ورأيت الشافعي كثير الرواية عنه كتب عنه بمكة، عنِ ابن جُرَيج والقاسم بن معن وغيرهما، وَهو عندي صدوق لا بأس به۔۔۔محمد بن السكري عن سعيد بن سالم، فقال: مكي ثقة عندي۔۔۔۔۔وثقه ابن معين۔۔۔وقال ابن وَضَّاح: «صالح لا بأس به»وقال الآجري: «سألت أبا داود عنه، فقال: صدوقٌ۔۔۔وذكره ابن خَلْفُون في «الثقات»۔۔۔وقال النسائي في كتاب «الجرح والتعديل»: «ليس به بأس۔۔قال أبو حاتم الرازي: «محله الصدق۔۔۔وقال أبو زرعة: «هو عندي الى

الصدق

سعید بن سالم ابن جریج سے روایت کرتے ہیں اور یہ وہ راوی ہیں کہ جن سے امام شافعی جیسے معتبر ائمہ نے روایت کیا ہے امام یحیی فرماتے ہیں کہ اس راوی میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ امام یحیی نے فرمایا کہ ثقہ مضبوط معتبر ہے،امام ابن عدی نے فرمایا کہ سعید بن سالم سے کچھ احادیث روایت ہیں اور ان کی احادیث درست ہیں وہ ان کی احادیث حسن ہوتی ہیں امام شافعی ان سے بہت زیادہ روایتیں لیتے تھے میرے نزدیک وہ سچا راوی ہے اس میں کوئی حرج نہیں امام محمد بن سکری فرماتے ہیں کہ سعید بن سالم مکی ہے ثقہ مضبوط معتبر راوی ہے،امام ابن معین نے بھی ان کو ثقہ معتبر راوی مضبوط راوی قرار دیا،امام ابن وضاح نے ان کے متعلق فرمایا یہ اچھا راوی ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے،امام ابو داؤد نے فرمایا کہ سچا راوی ہے،ابن خلفون نے اس کو ثقہ راویوں میں شمار کیا ہے،امام نسائی نے فرمایا ہے کہ اس راوی میں کوئی حرج نہیں،امام ابو حاتم رازی فرماتے ہیں کہ یہ سچا راوی ہے،امام ابو زرعہ نے بھی انہیں سچا راوی قرار دیا

(الجامع لكتب الضعفاء والمتروكين والكذابين6/316 و ما قبلہ)

۔

ابن جریج پر کچھ کمزور قسم کی جرح ہے لیکن امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ اگر یہ سمعت کہہ دے تو اس کی روایت یقینا درست ہے اور مذکورہ بالا روایت میں ابن جریج نے سمیت لفظ استعمال کیا ہے

وإذا قال "أخبرني"، و"سمعتُ"، فحسبك به...وقال الميموني، سمعت أبا عبد الله غير مرة يقول: كان ابن جريج من أوعية العلم۔۔۔ابن معين: ثقة۔۔۔يحيى بن سعيد: كان ابن جريج صدوقًا،۔۔۔

امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ جب یہ راوی اخبرنی اور سمعت کہے تو اس کی روایت اپ کے لیے کافی ہے، یہ راوی علم کا سمندر ہے،امام ابن معین نے اسے ثقہ مضبوط راوی معتبر راوی قرار دیا، امام یحیی نے فرمایا کہ ابن جریج سچا راوی ہے

(تهذيب التهذيب - ط دبي8/392ومابعدہ)

۔

اہم نوٹ:

یزید کا دفاع کرنے والے بھی اس روایت کے تمام راویوں کو ثقہ معتبر مانتے ہیں بس یہ کہتے ہیں کہ ابن جریج نے غیر واحد لفظ استعمال کر کے مجھول راویوں کا ذکر کیا ہے، لہذا یہ روایت ضعیف ہے 

۔

جواب:

لفظ غیر و واحد راوی کے مجہول ہونے کی وجہ سے نہیں لکھا جاتا بلکہ اس لیے لکھا جاتا ہے کہ یہ روایت اتنے سارے مشہور راویوں سے مروی ہے کہ میں کس کس کا نام لوں تو پھر کہتے ہیں بہت سارے علماء نے یہ فرمایا ہے بہت سارے راویوں نے یہ فرمایا ہے یعنی تاکید کے لیے اتا ہے اس سے تو روایت مزید مضبوط ہو جاتی ہے 

۔

وَحَدَّثَنِي غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِنَا ، قَالُوا : حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ

امام مسلم اپنی اس کتاب صحیح مسلم میں فرماتے ہیں ایک سند میں فرماتے ہیں کہ مجھے غیر واحد یعنی کئی راویوں نے بتایا

(مسلم حدیث 1557)

اب بتاؤ کیا امام مسلم کی صحیح مسلم شریف کی حدیث بھی ضعیف غیر معتبر ہو گئی کیونکہ غیر واحد لفظ اگیا۔۔۔۔؟؟افسوس کا مقام ہے اعتراض کرنے والے پر۔۔۔!!

۔

امام ابو داؤد نے بھی غیر واحد یعنی کئی راویوں نے بتایا کا لفظ استعمال کیا اور اس روایت کو تمام نے صحیح یا حسن معتبر قابل دلیل روایت قرار دیا حتی کہ البانی نے بھی معتبر قابل دلیل قرار دیا

وَحَدَّثَنَا غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ حُسَيْنِ بْنِ مُحَمَّدٍ

(ابو داؤد حدیث 3063)

۔

اور ترمذی شریف میں تو اپ جگہ جگہ پائیں گے کہ لکھا ہوگا غیر واحد۔۔۔۔یہ مجھول کے لیے نہیں بلکہ اس لیے لکھتے ہیں کہ اتنے سارے معروف راوی ہیں اس روایت کے کہ جن کا نام لکھنے کی حاجت ہی نہیں ہے


.@@@@@@@@@@@@@@

2️⃣ *#عظیم الشان صحابہ کرام میں سے عظیم صحابی جو فتح مکہ کے دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا اٹھائے ہوئے تھے یعنی صحابی سیدنا معقل بن سنان رضی اللہ تعالی عنہ کی گواہی پڑھیے کہ یزید شرابی تھا، سرعام گناہ کرتا تھا۔۔۔۔۔!!

أخبرنا أبو غالب الماوردي أنا أبو الحسين بن الطيوري أنا أبو الحسن محمد بن عبد الواحد بن محمد بن جعفر أنا أبو بكر أحمد بن الحسن بن إبراهيم بن شاذان أنا أبو بكر أحمد بن محمد بن شيبة بن أبي شيبة البزاز أنا أبو جعفر أحمد بن الحارث الخراز نا أبو الحسن علي بن محمد بن عبد الله بن أبي سيف المدائني عن عوانة وأبي زكريا العجلاني عن عكرمة بن خالد أن مسلما لما دعا الناس إلى البيعة...قال أنا أعلم به منكم إنه قاتلي۔۔۔نرجع إلى المدينة فنخلع الفاسق شارب الخمر۔۔وأمر به فقتل

یزید کے گورنر وغیرہ نے لوگوں کو یزید کی بیعت کے لیے بلایا تو اس نے کہا کہ سیدنا معقل بن سنان کو بھی بلاؤ،جب انہیں بلانے کے لیے کچھ لوگ گئے تو اپ نے فرمایا کہ مجھے پتہ ہے یہ گورنر مجھے شہید کر دے گا (کیونکہ ان کو یاد تھا کہ میں نے اس گورنر کے ساتھ یہ بات شیئر کی تھی کہ یزید تو شرابی ہے چلو واپس چل کر اس کی بیعت توڑنے کا اعلان کرتے ہیں)

گورنر نے بالکل یہی بات کہی کہ تم نے کہا تھا نا کہ یزید فاسق ہے گنہگار ہے اعلانیہ گناہ کرتا ہے اور شرابی ہے اور تو نے ہی تو کہا تھا نا کہ ہم اس کی بیعت توڑ دیں گے، تو گورنر نے حکم دیا کہ انہیں شہید کیا جائے تو سیدنا معقل بن سنان کو شہید کر دیا گیا

(تاریخ دمشق ابن عساکر 59/365وماقبلہ ملتقطا ملخصا)

۔

اس روایت کے تمام راوی ثقہ معتبر ہیں اور یہ روایت بالکل صحیح روایت ہے ورنہ کم از کم معتبر حسن دلیل بننے والی روایت ضرور ہے۔۔راویوں کے احوال درج زیل ہیں 

۔

1۔۔۔أَبُو غَالِبٍ المَاورديُّ مُحَمَّدُ بنُ الحَسَنِ بنِ عَلِيٍّ الشَّيْخُ، الإِمَامُ، المُحَدِّثُ، الصَّدُوْقُ۔۔۔وَكَانَ شَيْخاً صَالِحاً عَالِماً،حَدَّثَ عَنْهُ: أَبُو القَاسِمِ ابْنُ عَسَاكِرَ۔۔۔قَالَ ابْنُ الجَوْزِيِّ: نسخ بخطِّه الكَثِيْرَ، وَكَانَ صَالِحاً، قَالَ ابْنُ النَّجَّار: كَانَ ثِقَةً صَالِحاً

 عَفِيْفاً

ابو غالب بہت بڑا امام محدث سچا ہے نیک تھا عالم تھا اس سے امام ابن عساکر نے روایت لی ہے اور ابن جوزی نے کہا کہ یہ سچا تھا صالح تھا اور ابن نجار نے فرمایا کہ ثقہ مضبوط معتبر راوی ہے نیک راوی ہے پاک دامن راوی ہے

( سير أعلام النبلاء - ط الرسالة19/589)

۔

۔

2۔۔۔أبو الحسين بن الطيورى.المبارك بن عبد الجبار الطيوري

ثقة ثبت، ۔۔قال السمعاني: كان محدثا مكثرا صالحا أمينا صدوقا ۔۔۔۔ورعا

ابن طیوری کے متعلق محققین فرماتے ہیں کہ ثقہ معتبر مضبوط راوی ہے، سمعانی نے فرمایا کہ یہ محدث ہیں نیک صالح امانت دار سچے راوی ہیں، متقی پرہیزگار ہیں

(الجامع لكتب الضعفاء والمتروكين والكذابين12/409)

.

3۔۔۔۔محمد بن عبد الواحد ابو الحسن، أخو أبي عبد الله المذكور.سمع هو وأخوه أبو عبد الله معاً من الشيوخ.قال الخطيب: كتبنا عنه وكان صدوقاً

محمد بن عبدالواحد کے متعلق امام خطیب بغدادی جیسے امام فرماتے ہیں کہ ہم نے ان سے روایتیں لی ہیں اور وہ سچے راوی ہیں

(الثقات ممن لم يقع في الكتب الستة8/444)

۔

4۔۔۔۔ابْنُ شَاذَانَ أَحْمَدُ بنُ إِبْرَاهِيْمَ بنِ الحَسَنِ البَغْدَادِيُّ 

الشَّيْخُ، الإِمَامُ، المُحَدِّثُ، الثِّقَةُ المُتْقِنُ۔۔قَالَ الخَطِيْبُ: كَانَ ثِقَةً۔۔۔قَالَ أَبُو ذَرٍّ الهَرَوِيُّ: مَا رَأَيْتُ بِبَغْدَادَ فِي الثِّقَةِ مِثْلَ القَوَّاسِ، وَبَعدَهُ أَبُو بَكْرٍ بنُ شَاذَانَ۔۔قَالَ الأَزْهَرِيُّ:

 كَانَ حجَّةً

ابن شاذان کے متعلق محققین فرماتے ہیں کہ ثقہ معتبر مضبوط راوی ہیں، امام خطیب بغدادی نے بھی انہیں ثقہ معتبر مضبوط راوی قرار دیا، امام ھروی فرماتے ہیں کہ بغداد میں قواس کے بعد ابن شاذان جیسا ثقہ معتبر مضبوط راوی نہ ملے گا، امام ازھری فرماتے ہیں کہ ابن شاذان قابل حجت راوی ہے

(سير أعلام النبلاء - ط الرسالة16/429ومابعدہ ملتقطا)


۔

5۔۔۔۔أحمد بن محمد بن شبيب بن زياد، أبو بكر البزاز، يعرف بابن أبي شيبة. قال السهمي: سألت الدَّارَقُطْنِيّ، عن أبى بكر أحمد بن محمد بن أبي شيبة البغدادي؟ فقال:

ثقة

احمد بن محمد کے بارے میں امام دار قطنی نے فرمایا ہے کہ 

ثقہ معتبر مضبوط راوی ہیں

(موسوعة أقوال أبي الحسن الدارقطني في رجال الحديث وعلله1/87)

۔

6۔۔۔۔أحمد بن الحارث بن المبارك، أبو جعفر الخَرَّاز، مولى أبي جعفر المنصور.وهو صاحب أبي الحسين المدائني.

قال الخطيب: روى عن المدائني تصانيفه، وكان صدوقاً من أهل الفهم والمعرفة

احمد بن حارث کے متعلق خطیب بغدادی نے فرمایا ہے کہ یہ سچا راوی ہے فہم و معرفت والا راوی ہے

(الثقات ممن لم يقع في الكتب الستة1/301)

۔

7۔۔۔۔المَدَائِنِيُّ أَبُو الحَسَنِ عَلِيُّ بنُ مُحَمَّدِ بنِ عَبْدِ اللهِ العَلاَّمَةُ، الحَافِظُ، الصَّادِقُ، أَبُو الحَسَنِ عَلِيُّ بنُ مُحَمَّدِ بنِ عَبْدِ اللهِ بنِ أَبِي سَيْفٍ المَدَائِنِيُّ۔۔۔قَالَ يَحْيَى: ثِقَةٌ

مدائنی علامہ حافظ الحدیث سچا راوی ہے امام یحیی نے فرمایا کہ یہ ثقہ معتبر مضبوط راوی

( سير أعلام النبلاء - ط الرسالة10/401)

.

8۔۔۔أبو عوانہ۔۔۔ ثقة

ابو عوانہ ثقہ معتبر مضبوط راوی ہے

(إكمال تهذيب الكمال - ط الفاروق12/217)

.

9۔۔۔۔عكرمة بن خالد...فثقة تابعي،....فمكي، تابعي، حجة..وهذا الرجل وثقه ابن معين، وأبو زرعة، والنسائي

عکرمہ بن خالد تابعی ہیں اور ثقہ معتبر مضبوط راوی ہیں،  مکی ہیں اور حجت ہیں دلیل ہیں اس شخص کے بارے میں امام ابن معین امام ابو زرعہ امام نسائی جیسے محدثین نے فرمایا ہے کہ یہ راوی ثقہ معتبر مضبوط راوی ہے

(الجامع لكتب الضعفاء والمتروكين والكذابين10/424)

.

@@@@@@@@@@@@@

3️⃣*#سیدنا عبداللہ بن حفص جیسے عظیم تابعی نے انکھوں دیکھی گواہی دی کہ میں نے خود دیکھا کہ یزید نماز نہیں پڑھتا اور وہ شراب میں دھت رہتا ہے*

أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ بْنُ الْفَضْلِ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ابن سُفْيَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُفَيْرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ فُلَيْحٍ أَنَّ أَبَا عَمْرِو بْنِ حَفْصِ بْنِ الْمُغِيرَةِ وَفَدَ عَلَى يَزِيدَ فَأَكْرَمَهُ وَأَحْسَنَ جَائِزَتَهُ، فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ قَامَ إِلَى جَنْبِ الْمِنْبَرِ- وَكَانَ مَرْضِيًّا صَالِحًا- فَقَالَ أَلَمْ أُحِبَّ أَنْ أُكْرَمَ وَاللهِ لَرَأَيْتُ يَزِيدَ ابْنَ مُعَاوِيَةَ يَتْرُكَ الصَّلَاةَ سُكْرًا فَأَجْمَعَ النَّاسُ عَلَى خُلْعَانِهِ بِالْمَدِينَةِ فَخَلَعُوهُ

سیدنا عبداللہ بن حفص یزید کے پاس گیا ایک وفد کے ساتھ، یزید نے اس کی بڑی عزت کی اور اس کو اچھے اچھے انعامات دیے (مطلب لالچ مقصود تھا یزید کا تاکہ یہ میرے خلاف نہ ہو جائے) لیکن ابن فلیح فرماتے ہیں سیدنا عبداللہ بن حفص تو بہت نیک ادمی تھے نہ ڈرنے والے تھے انہوں نے فرمایا کہ مجھے یہ ہرگز پسند نہ تھا کہ یزید مجھے انعامات دے کیونکہ واللہ۔۔۔ اللہ کی قسم میں نے اسے دیکھا ہے کہ وہ نمازیں چھوڑ دیتا ہے اور شراب نشے میں دھت رہتا ہے، تو سیدنا عبداللہ بن حفص نے لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا کہ یزید کی بیعت توڑ دو اور لوگوں نے یزید کی بیعت توڑ دی

(دلائل النبوة - البيهقي6/474)

۔

اس روایت پر ہلکی پھلکی جرح جو کہ بالکل بھی غیر معتبر ہے کیونکہ اس کے مقابلے میں اس روایت کے راویوں کی بڑا مدح و توثیق ہوئی ہے، لہذا یہ روایت کم از کم صحیح  لغیرہ یا حسن معتبر قابل دلیل ضرور کہلائے گی۔۔۔راویوں کے احوال درج ذیل ہیں:

۔

الْحُسَيْنِ بْنُ الْفَضْلِ

قال الخطيب في "تاريخه": كتبنا عنه, وكان ثقة...وهو مجمع على ثقته

حسین بن فضل کے بارے میں امام خطیب بغدادی فرماتے ہیں کہ ان سے ہم نے روایتیں لکھی ہیں اور وہ ثقہ معتبر مضبوط راوی ہے، محققین فرماتے ہیں کہ اس کےثقہ معتبر مضبوط راوی ہونے پر تمام کا اجماع ہے متفقہ فیصلہ ہے

(السلسبیل النقی ص563)

.

عَبْدُ اللهِ بْنُ جَعْفَرٍ

قال ابن مردويه : ثقة مأمون ، صنف التفسير والكتب الكثيرة في الأحكام وغير ذلك .وقال أبو بكر الخطيب : كان أبو الشيخ حافظا ، ثبتا ، متقنا .وقال أبو القاسم السوذرجاني : هو أحد عباد الله الصالحين ، ثقة مأمون

عبداللہ بن جابر کے بارے میں ابن مردویہ نے فرمایا کہ امانت دار ہے ثقہ معتبر مضبوط راوی ہے، اس نے تفسیر اور دیگر کتب بھی لکھی ہیں اور امام ابوبکر خطیب بغدادی فرماتے ہیں کہ اس کو ابو شیخ بھی کہتے ہیں اور یہ حافظ ہے اس کی روایات ثابت ہیں ، امام ابو القاسم فرماتے ہیں کہ یہ راوی اللہ کے نیک بندوں میں سے تھا ثقہ معتبر مضبوط راوی تھا، مامون تھا

(سير أعلام النبلاء16/277)

.

يَعْقُوبُ ابن سُفْيَانَ

يعقوب بن سفيان العبدُ الصالح...وذكره ابن حبان في "الثقات"، وقال: كان ممَّن جَمَعَ وصَنَّف، مع الوَرَعِ والنُّسُك، والصَّلابة في السنة ...وقال النَّسَائِي: لا بأس به ..وقال الحاكم: كان إمامَ أهلِ الحديث بفَارِس

یعقوب بن سفیان نیک صالح بندہ ہے امام ابن حبان نے اس کو ثقہ معتبر مضبوط راوی شمار کیا ہے، اس نے جمع و تالیف اور تصنیف بھی کی ہے، اور یہ نیک متقی پرہیزگار تھا اور سنت کا سخت پیروکار تھا، امام نسائی نے فرمایا کہ اس میں کوئی حرج نہیں، امام حاکم فرماتے ہیں کہ فارس میں یہ حدیث کے اماموں میں سے ہے

(تهذيب التهذيب - ط دبي14/861وماقبلہ بتقدیم)

.

ابْنَ عُفَيْرٍ نام کے دیگر راوی بھی ہیں لیکن یہاں پر ابن عفیر سے مراد سعید بن عفیر ہی ہے کیونکہ جتنے بھی راوی ہیں وہ روایت کرتے ہیں تو انہی سے روایت کرتے ہیں یہی راوی مراد ہوتے ہیں اور یہ راوی معتبر ہے قابل دلیل ہے

وهذا الذي قاله السعدي لا معنى له ولم أسمع أحدًا، ولا بلغني عن أحد من الناس كلاما في سَعِيد بن كثير بن عفير، وَهو عند الناس صدوق ثقة وقد حدث عنه الأئمة من الناس الاَّ أن يكون السعدي أراد به سَعِيد بن عفير غير هذا، ولا أعرف في الرواه سَعِيد بن عفير غير المصري،

ابن عفیر پر معمولی جرح کی گئی تو اس کے جواب میں محققین نے فرمایا کہ اس جرح کا کوئی اعتبار نہیں کیونکہ ایسی جرح میں نے کسی معتبر سے نہیں سنی، ابن عفیر تو سچا راوی ہے، ثقہ معتبر مضبوط راوی ہے، اس سے معتبر ائمہ نے احادیث و روایات لی ہیں اور راوی جب بھی ابن عفیر کہتے ہیں تو ان کی مراد یہی سعید بن عفیر مراد ہوتے ہیں

(الجامع لكتب الضعفاء والمتروكين والكذابين6/384)

.

ابن فليح... اس نام کے دو راوی ہیں ایک یحیی بن فلیح اور دوسرے محمد بن فلیح۔۔۔یہاں پر محمد بن فلیح متعین ہے کیونکہ امام بیہقی نے اس کتاب میں کئ جگہ وضاحت کے ساتھ محمد بن فلیح لکھا ہے۔۔لہذا یہاں بھی یہی مراد ہے اور یہ راوی ثقہ معتبر ہے

محمد بن فليح بن سليمان...ثقة...وروى أحمد بن أبي خيثمة، عن ابن معين: ثقة

محمد بن فلیح ثقہ معتبر مضبوط راوی ہے، امام ابن معین نے بھی انہیں ثقہ معتبر مضبوط راوی قرار دیا ہے

(الجامع لكتب الضعفاء والمتروكين والكذابين14/220)

.

عبداللہ بن حفص تابعی ثقہ معتبر ہیں کہ مدح سرائی امام ابن عساکر نے نقل کی ہے کہ

بن حفص عبد الله وهو اول من خلع يزيد بن معاوية يوم الحرة (٥) وقتل يوم الحرة وفيه يقول الشاعر * وبجنب القرارة ابن أبي عمر * وقتيل جادت عليه السماء

امام ابن عساکر فرماتے ہیں کہ  سیدنا عبداللہ بن حفص اتنے عظیم الشان ہیں کہ یہ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے واقع حرہ میں سب سے پہلے یزید کی بیعت توڑ دی تھی اور اسی واقعہ حرہ میں شہید کر دیے گئے تھے، یہ تو اتنے عظیم الشان ہیں کہ اسمان سے ان پر رحمت اترتی ہے

(تاريخ دمشق لابن عساكر27/17ملخصا)

۔

@@@@@@@@@@@

🛑*#اب دوسری بحث جس میں یہ ہم ثابت کریں گے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے جب یزید کے لیے بیعت لینے کا ارادہ کیا اور کئی لوگوں سے بیعت بھی لی تو اس وقت یزید فاسق و فاجر شرابی نماز چھوڑنے والا نہیں تھا۔۔۔!!*

.

1...فَلَمَّا مَاتَ الْحَسَنُ قَوِيَ أَمْرُ يَزِيدَ عِنْدَ مُعَاوِيَةَ، وَرَأَى أَنَّهُ لِذَلِكَ أَهْلًا،

سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات کے بعد سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس یہ معاملہ مزید تقویت پا گیا کہ یزید کو ولی عہد کیا جائے کیونکہ  سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے یزید میں ایسی کوئی خرابی نہیں دیکھی تھی کہ جس کی وجہ سے وہ نااہل قرار پائے

(البداية والنهاية - ت التركي11/308)

.

2....اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي وَلَّيْتُهُ لِأَنَّهُ فِيمَا أَرَاهُ أَهْلٌ لِذَلِكَ فَأَتْمِمْ لَهُ مَا وَلَّيْتُهُ، وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي إِنَّمَا وَلَّيْتُهُ لِأَنِّي أُحِبُّهُ فَلَا تُتْمِمْ لَهُ مَا وَلَّيْتُهُ

سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے جب یزید کے لیے بیعت لے لی تو آپ یہ دعا فرمایا کرتے تھے کہ اللہ اگر تو جانتا ہے کہ میں نے اپنے بیٹے کو اس لیے ولی عہد کیا ہے کہ وہ اس کا اہل ہے تو اس کو ولی عہدی عطا فرما اور اگر تو جانتا ہے کہ میں نے اس کو ولی عہد محض اس لئے بنایا ہے کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں تو اس کے لیے ولی عہدی کو مکمل نہ فرما

(البداية والنهاية ط هجر11/308)

صاف ظاہر ہوتا ہے کہ سیدنا معاویہ نے بیٹے  یزید کو اہل اچھا سمجھتے تھے تب بھی تو ان کے لئے بیعت لی اور آگے کے لئے دعا فرمائی

.

3۔۔۔۔بَلَغَ ابْنَ عُمَرَ أَنَّ يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ بُويِعَ لَهُ فَقَالَ: «إِنْ كَانَ خَيْرًا رَضِينَا , وَإِنْ كَانَ شَرًّا صَبَرْنَا

جب صحابی سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ خبر پہنچی کہ یزید بن معاویہ کی بیعت کی گئی ہے تو آپ نے فرمایا کہ اگر اچھا نکلا تو ہم راضی ہو جائیں گے اور اگر برا نکلا تو ہم صبر کر لیں گے 

(استادِ بخاری مصنف ابن أبي شيبة ,6/190روایت30575)

صحابی سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا یہ کہنا کے اگر برا نکلا واضح دلیل ہے کہ اس وقت یزید  برا نہیں تھا


.

4۔۔۔ بايعه ستون من أصحاب رسول الله - صلى الله عليه وسلم

ساٹھ صحابہ کرام نے یزید کی بیعت کی

(عمدة الأحكام الكبرى1/42)

(ذيل طبقات الحنابلة3/55)

بھلا کیسے ہو سکتا ہے کہ اتنے صحابہ کرام کسی شرابی زانی بے نمازی فاسق و فاجر نااہل کی بیعت کریں۔۔۔۔؟؟ لہذا شروع میں یزید فاسق فاجر نااہل نہیں تھا ، پلید نہیں تھا

۔

5۔۔۔تمام معتبر کتب میں لکھا ہے کہ دو چار صحابہ کرام نے یزید کی بیعت نہ کی تو انہوں نے بیعت نہ کرنے کی وجہ یہ بتائی کہ یہ طریقہ ولی عہدی مروجہ ماثورہ نہیں ہے بلکہ سیدنا معاویہ کا(اجتہاد کردہ)نیا طریقہ ہے۔۔۔اگر یزید نااہل ہوتا زانی شرابی فاسق و فاجر ہوتا تو صحابہ کرام ضرور اسی وقت اعتراض میں اس چیز کا تذکرہ کرتے... صحابہ کرام کو کوئی عذر معلوم نہ ہوا سوائے اس کے کہ ولی عہدی اسلام میں ایک نیا طریقہ ہے ، ہاں جب یزید کی فسق و فجور برائیاں پلیدگی ظاہر ہونے لگی تب صحابہ کرام نے بیعت توڑ دی اور اعلانیہ ارشاد فرماتے رہے کہ یزید اب شراب پیتا ہے شراب نشے میں دھت رہتا ہے نمازیں چھوڑ دیتا ہے اور بھی بہت برائیاں گنوائیں:

ويزيد أخوكم، وابن عمَكم، وأحسن النَّاس فيكم رأيًا، وإنما أردت أن تقدموه، وأنتم الذين تنزعون وتؤمرون وتقسمون، فسكتوا، فَقَالَ: ألَّا تجيبوني! فسكتوا، فأقبل عَلَى ابن الزبير فقال: هات  يابن الزبير، فإنك لعَمْري صاحب خطبة القوم. قَالَ: نعم يَا أمير المؤْمِنِينَ، نخيرك بَيْنَ ثلاث خصال، أيها مَا أخذتَ فهو لك، قَالَ: للَّهِ أَبُوك، اعرضهنّ، قَالَ: إن شئتَ صُنع مَا  صنع رَسُول اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنَّ صُنع مَا صنع أَبُو بكر، وإن شئت صُنع مَا صنع عمر. قَالَ: مَا صنعوا؟ قَالَ: قُبِضَ  رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فلم يعهد عهدًا، وَلَمْ يستخلف أحدًا، فارتضي المسلمون أبا بكر. فَقَالَ: إِنَّهُ ليس فيكم  الْيَوْم مثل أَبِي بكر، إن أبا بكر كَانَ رجلًا تُقطع دونه الأعناق، وإني لست آمن عليكم الاختلاف. قَالَ: صدقت، واللَّه مَا نحب أن تدعنا، فاصنع ماصنع أَبُو بكر. قَالَ: للَّهِ أَبُوك وَمَا صنع؟ قَالَ: عمد إِلَى رَجُلٌ من قاصية11 قريش،  ليس من رهطه فاستخلفه، فإن شئت أن تنظر أي رَجُلٌ من قريش شئت، ليس من بني عَبْد شمس، فنرضى بِهِ. قَالَ: فالثالثة مَا هِيَ؟ قَالَ: تصنع مَا صنع عمر. قَالَ: وَمَا صنع؟ قَالَ: جعل الأمر شورى في ستة،  ليس فِيهِم أحد من ولده، وَلَا من بني أبيه، وَلَا من رهطه. قَالَ: فهل عندك غير هَذَا؟ قَالَ: لَا،

انظر: البداية "8/ 56-58"، تاريخ الطبري "5/ 270-276"، الكامل "3/ 490"

(تاريخ الإسلام ط التوفيقية4/77,78)

.

6۔۔۔مفتی جلال الدین امجدی علیہ الرحمہ جن کا شمار اکابر علماے اہل سنت میں ہوتا ہے ، آپ کا "فتاوی فیض الرسول" مشہور زمانہ ہے ، آپ بعض اذہان کے اندر اور زبانوں کے اوپر آنے والے ایک اعتراض کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:

"رہا یزید کا فسق و فجور تو کہیں یہ ثابت نہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی زندگی میں یزید فاسق و فاجر تھا ، اور نہ ہی یہ ثابت ہے کہ انہوں نے یزید کو فاسق و فاجر جانتے ہوئے اپنا جانشین بنایا ، یزید کا فسق و فجور دراصل حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد ظاہر ہوا ، اور فسق ظاہر ہونے کے بعد فاسق قرار دیا جاتا ہے نہ کہ پہلے "

(سیرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ، ص 37)

.

7۔۔۔۔فقال يزيد: أو يعفيني أمير المؤمنين في هذا الوقت عن هذا؟ فقال: لا بدَّ لك أن تسأل حاجتك، فقال: أسأل -وأطال اللَّه عمر أمير المؤمنين- أن أكون وليَّ عهده من بعده، فإنه بلغني أنَّ عدل يومٍ في الرعيَّة كعبادة خمسمئة عام. فقال: قد أجبتك إلى ذلك. ثم قال لامرأته: كيف رأيت؟ فعلمتْ وتحققتْ فضل يزيد على ولدها

سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی دو گھر والیوں سے ایک ایک بیٹا تھا تو سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے یزید کو اچھا قرار دیا تو دوسری گھر والی نے کہا کہ نہیں میرا بیٹا اچھا ہے یزید سے، جس پر سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ چلو امتحان لیتے ہیں.. اپنے بیٹے سے پوچھو کیا چاہیے۔۔۔۔ تو اس نے شکار وغیرہ کی چیزیں کچھ مانگی لیکن سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے یزید سے پوچھا تمہیں کیا چاہیے تو انہوں نے فرمایا کہ مجھے معاف فرما دیں ، سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ نہیں تمہیں بتانا ہوگا کہ تمہاری کیا خواہش ہے تو یزید نے کہا کہ مجھے یہ حدیث سننے کو ملی ہے کہ عوام میں ایک دن عدل کا گزارنا 5 سو سال کی عبادت کی طرح ہے تو میں چاہتا ہوں کہ میں اپ کا جانشین بنوں اور عدل کے ساتھ حکمرانی کروں،سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے گھر والی سے کہا دیکھو۔۔۔تب دوسری گھر والی کو بھی یقین ہو گیا کہ یزید زیادہ بہتر ہے، فضیلت والا ہے

(البداية والنهاية - ط دار ابن كثير8/117)

اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ یزید شروع میں نیک صالح اچھا تھا شرابی زانی بے نمازی پلید گندا ظالم نہ تھا 

۔

@@@@@@@@@@@@@@@@@

🛑*#تیسری بات کہ وسوسہ پیدا ہوتا ہے کہ یزید اگر شروع میں نیک نمازی تھا اچھا تھا تو ایک دم سے کوئی شخص کیسے بدل جاتا ہے.....؟؟*

1...تو لیجیے حدیث پاک پڑہیے

إِنَّ الْعَبْدَ لَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ النَّارِ، وَإِنَّهُ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَيَعْمَلُ عَمَلَ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَإِنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، وَإِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالْخَوَاتِيمِ

 کوئی بندہ جہنم والے کام کرتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے اور کوئی بندہ جنت والے کام کرتا ہے وہ جہنمی ہوتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اعمال کا دار و مدار خاتمہ پر ہے(اگر موت سے پہلے پہلے اچھے کام کرے گا تو جنتی، برے کام کرے گا تو جہنمی)

(بخاری حدیث6607)

 اس حدیث پاک سے بالکل واضح ہوتا ہے کہ کوئی شخص شروع شروع میں اچھا ہوتا ہے اس کی تربیت اچھی ہوتی ہے لیکن پھر وہ اپنے نفسانی خواہشات پر عمل کرکے یا کسی شیطانی وسوسوں پے عمل کرکے یا کسی بھی وجہ سے  برے کام کرتا ہے اور جہنمی بن جاتا ہے

لیھذا

اچھی تربیت سے ہی لوگ جنتی بن جائیں یہ لازم نہیں ہے اچھی تربیت کے ساتھ ساتھ اچھے خاتمے کی بھی دعا کرنی چاہیے


.

2... یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یزید شروع سے ہی دلی طور پر برا تھا لیکن وہ اپنے اپ کو سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے سامنے اور ان کی حیات میں لوگوں کے سامنے اچھا بنا پھرتا تھا پھر جب وہ تخت پر ایا، اب روکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں تھا تو بادشاہت کے نشے میں طاقت اور اقتدار کے نشے میں وہ پلید بن گیا شرابی بن گیا نمازیں ترک کرنے لگ گیا فاسق و فاجر بن گیا۔۔۔۔!!

۔

🧠لہذا سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے جو ان کو جانشین بنایا تو اس وقت یزید فاسق فاجر شرابی برا نہ تھا، اس لیے سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ پر کوئی اعتراض نہیں بنتا۔۔۔۔۔!!

۔

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

New  whatsapp nmbr

03062524574

00923062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.