قبلہ مفتی ڈاکٹر محمد آ/صف ا/شرف جلا/لی صاحب کے رجوع پر اور مفتی منیب الرحمن صاحب بمع تصدیق کرنے والے علماء محققین اکابرین کے کلام پر پانچ اعتراضات کے مدلل جوابات پڑھیےاس تحریر میں

 🟥 *#قبلہ مفتی ڈاکٹر محمد آ/صف ا/شرف جلا/لی صاحب کے رجوع پر اور مفتی منیب الرحمن صاحب بمع تصدیق کرنے والے علماء محققین اکابرین کے کلام پر پانچ اعتراضات کے مدلل جوابات پڑھیےاس تحریر میں۔۔۔!!*

📣گزارش:

1۔۔۔۔میری دیگر تحقیقی تحریرات اس لنک پے پڑھ سکتے ہیں

https://tahriratehaseer.blogspot.com/?m=1

2....میرے واٹسپ چینل اور فیسبک ائی ڈی کو فالوو کیجیے،تاکہ آنی والی تحریرات اپ پڑھ سکیں

https://whatsapp.com/channel/0029Vb5jkhv3bbV8xUTNZI1E

🌀تمھید:

قبلہ ڈاکٹر محمد آ/صف اشر/ف جلا/لی صاحب کا رجوع نامہ وضاحت نامہ اتے ہی کچھ مخالفین پروپیگنڈا کرنا شروع کر دیے ہیں کہ

1۔۔جب غلطی ہی نا تھی تو رجوع کا مطالبہ کیوں۔۔؟؟

2۔۔رجوع کیا ہے، توبہ تھوڑی کی ہے، توبہ کرو توبہ

3۔۔الفاظ بدلے ہیں موقف تھوڑی بدلہ ہے

4۔۔مفتی منیب الرحمن نے واضح کہا لکھا کہ خطاء اجتہادی کی نسبت بےادبی گستاخی نہیں تو پھر یہ رجوع توبہ سب ڈرامہ قرار پایا

5۔۔اچانک سے رجوع۔۔۔لازمی کوئی چالبازی ہے

۔

✅ *#جواب و تحقیق۔۔۔۔!!*

خلاصہ جواب:

جرم اور گناہ نہ ہونے کے باوجود بھی رجوع کرنا تاکہ انتشار جھگڑا وغیرہ ختم ہو جائے یہ حدیث پاک سے ثابت ہے اور یہ رجوع نامہ وضاحت نامہ اچانک نہیں ایا بلکہ اس کے لیے مسلسل رابطے رہے حتی کہ کچھ عرصہ پہلے ایک کمیٹی بنائی گئی جو اس مسئلے کو بھرپور حل کرنے کے لیے سرگرم کی گئی، توبہ رجوع نامہ چالبازی نہیں بلکہ عقیدہ مضبوط ہوجانے کے بعد اب مزید شانِ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا مزید واضح کرنے اور انتشار ختم کرکے اتحاد کرکے اسلام کی سربلندی کرنے کے لیے ہے اور یہ  رجوع نامہ توبہ بھی ہے۔۔اور یہ واضح موقف بدلہ ہے جلا/لی صاحب نے،کیونکہ پہلے کہا تھا کہ اجتہادی خطاء ہوئی سیدہ پاک سے لیکن یہ کہا ہے کہ صحابہ کرام اہل بیت عظام میں سے کسی سے بھی اجتہادی خطا ہو سکتی ہے لیکن سیدہ پاک سے اجتہادی خطا ہوئی ہے اس بات کو میں یعنی جلا/لی صاحب واپس لیتا ہوں

البتہ

 باغ فدک کے معاملے میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے جو مطالبہ کیا تو اس میں درستگی پر قران و حدیث کی روشنی میں ، صحابہ کرام کے فتاوی کی روشنی میں، اسلاف اہلسنت کی نظریات کی روشنی میں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ حق و درستگی پر تھے

۔

مفتی منیب الرحمن صاحب نے جو لکھا اور کہا کہ کوئی بےادبی اور گستاخی نہیں تھی۔۔۔تو اس کے بعد والے الفاظ بھی پڑھ لیے جائیں سن لیے جائیں، سمجھ لیے جائیں کہ اگرچہ گستاخی بےادبی نہیں تھی مگر انتشار کو ختم کرنے اتحاد پیدا کرنے اور مسئلہ حساس ہے تو احتیاط دکھاتے ہوئے رجوع کیا گیا، رجوع کرایا گیا، الفاظ واپس لیے گئے۔۔۔تو اس کا صاف مطلب بنتا ہے کہ مفتی منیب الرحمن صاحب بمع تمام تصدیق کرنے والے علماء مفتیان کرام بھی  سیدہ طیبہ طاہرہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کی طرف خطاء اجتہادی کی نسبت کرنے کو روا نہیں سمجھتے کہ مسئلہ حساس ہے، انتشار کا باعث ہے اس لیے نسبت نہ کی جائے اور مسئلہ ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا گیا ہے۔۔۔اختلافات و انتشار کو ہوا دینے کے بجائے مفتی منیب الرحمن صاحب بمع مصدقین علماء کے کلام کے سیاق و سباق و انداز و مقصود کو مدنظر رکھا جائے تو غلط معنی ذہن میں نہیں ابھریں گے، اور  غلط معنی لینا ، انتشار برپا کرنا ہرگز ہرگز جائز نہیں۔۔۔۔ہمیں ایک دوسرے کو سمجھنا چاہیے ، ناحق کیڑے نکال کر انتشار نہیں پھیلانا چاہیے

۔

📌اب ان پانچوں اعتراضات کے تفصیلی مدلل جواب پڑھیے

1️⃣ *#پہلے اعتراض کا جواب*

غلطی یا جرم یا گناہ نہ ہونے کے باوجود بھی توبہ استغفار کرتے رہنا چاہیے، اور حق پر ہونے کے باوجود انتشار و فتنہ کو ختم کرنے کے لیے بھی رجوع توبہ استغفار کیا جاتا ہے

دلائل:

🌹الحدیث:

أَنَا زَعِيمٌ بِبَيْتٍ فِي رَبَضِ الْجَنَّةِ لِمَنْ تَرَكَ الْمِرَاءَ

وَإِنْ كَانَ مُحِقًّا

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں جنت میں اس شخص کے لیے گھر کا ذمہ دار ہوں جو حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا چھوڑ دے

ابوداود حدیث4800

✅👈ثابت ہوتا ہے کہ حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا ختم کرنے کے لیے، انتشار ختم کرنے کے لیے رجوع کر لینا چاہیے یا کسی بھی مناسب طریقے سے جھگڑا ختم کر لینا چاہیے

.

🌹الحدیث:

طُوبَى لِمَنْ وَجَدَ فِي صَحِيفَتِهِ اسْتِغْفَارًا كَثِيرًا

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ خوشخبری ہے اس کے لیے کہ جس کے نامہ اعمال میں بہت زیادہ توبہ استغفار ہوگا

ابن ماجہ حدیث3818

❓❓تو بتائیے کیا اس حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ پہلے بہت زیادہ گناہ کرو پھر بہت زیادہ توبہ کرو۔۔۔۔؟؟ بالکل بھی نہیں۔۔۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ گناہ یا جرم ہو نہ ہو ہر حال میں انسان کو توبہ استغفار زیادہ کرتے رہنا چاہیے

۔

🌹الحدیث:

سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " وَاللَّهِ إِنِّي لَأَسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ فِي الْيَوْمِ أَكْثَرَ

 مِنْ سَبْعِينَ مَرَّةً

صحابی فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اپ نے فرمایا کہ میں اللہ تبارک و تعالی سے توبہ و استغفار کرتا ہوں ہر دن 70 مرتبہ سے بھی زیادہ

بخاری حدیث6307

✅نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو جرم و گناہوں سے معصوم ہیں تو ثابت ہوا کہ توبہ جرم و گناہ کے بغیر بھی ہوتی ہے

۔


2️⃣ *#دوسرے اعتراض کا جواب*

جلا/لی صاحب نے دوٹوک لکھا اور وڈیو میں بھی بولا کہ:

1۔۔۔جب مانگ رہی تھیں تو خطا پر تھیں " کے کلمات کو بندہ ناچیز واپس لیتا ہے

2۔۔۔براءت کا اعلان کرتا ہوں

3۔۔۔بندہ ناچیز سیدہ نساء العالمین وسیدہ نساء الجنۃ حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا علی ابیہا و علیہا الصلوۃ والسلام کی بارگاہ میں معافی کا خواستگار ہے

4۔۔۔نیز میں سیدہ پاک رضی اللہ تعالی عنہا کے وسیلے سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ سبحانہ و تعالی میری ہر لغزش کو معاف فرمائے

۔

✅👈واپس لینا، براءت کا اعلان کرنا اور سیدہ طیبہ طاہرہ فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالی عنہ سے معافی بھی مانگی اور اللہ تبارک و تعالی سے معافی بھی مانگی۔۔۔ تو یہ مکمل توبہ استغفار رجوع ہی تو ہے

.

التَّوْبةُ: الرُّجُوعُ

توبہ کا معنی ہے رجوع کرنا

لسان العرب1/233

۔

"تواب" .... أي رجاع

بہت زیادہ توبہ کرنے والا یعنی بہت زیادہ رجوع کرنے والا

مجمع بحار الانوار1/274ملخصا

۔

أَصْلُ} تَابَ: عادَ إِلى اللَّهِ ورَجَعَ

تاب جس سے توبہ لفظ بنا ہے اس کے اصل معنی ہے اللہ کی طرف لوٹنا اور رجوع کرنا

تاج العروس2/78

.

فالتوبة الرجوع

توبہ کا معنی رجوع ہے

(رسالہ قشیریہ فی التصوف1/208)

.

3️⃣ *#تیسرے اعتراض کا جواب*

جلا/لی صاحب کے اوپر ہم نے الفاظ لکھ دییے ہیں کہ انہوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ خطا پر تھیں اس جملے کو واپس لیتے ہیں یعنی توبہ رجوع کرتے ہیں اس جملے سے، جیسے کہ سوال نمبر دو میں پوری تفصیل گزری، ہاں انہوں نے پہلے یہ کہا تھا کہ اجتہادی خطا ہوئی ہے جبکہ اب کہا ہے کہ میں یہ الفاظ واپس لیتا ہوں اور اس کی جگہ اس قسم کے الفاظ لکھے کہ سیدہ پاک رضی اللہ تعالی عنہا سمیت تمام امتیوں سے اجتہادی خطا ہو سکتی ہے

البتہ

 باغ فدک کے معاملے میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے جو مطالبہ کیا تو اس میں درستگی پر قران و حدیث کی روشنی میں ، صحابہ کرام کے فتاوی کی روشنی میں، اسلاف اہلسنت کی نظریات کی روشنی میں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ حق و درستگی پر تھے

۔

4️⃣ *#چوتھے اعتراض کا جواب*

مفتی منیب الرحمن صاحب نے جو لکھا اور کہا کہ کوئی بےادبی اور گستاخی نہیں تھی۔۔۔تو اس کے بعد والے الفاظ بھی پڑھ لیے جائیں سن لیے جائیں، سمجھ لیے جائیں کہ اگرچہ گستاخی بےادبی نہیں تھی مگر انتشار کو ختم کرنے اتحاد پیدا کرنے اور مسئلہ حساس ہے تو احتیاط دکھاتے ہوئے رجوع کیا گیا، رجوع کرایا گیا، الفاظ واپس لیے گئے۔۔۔تو اس کا صاف مطلب بنتا ہے کہ مفتی منیب الرحمن صاحب بمع تمام تصدیق کرنے والے علماء مفتیان کرام بھی  سیدہ طیبہ طاہرہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کی طرف خطاء اجتہادی کی نسبت کرنے کو روا نہیں سمجھتے کہ مسئلہ حساس ہے، انتشار کا باعث ہے اس لیے نسبت نہ کی جائے اور مسئلہ ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا گیا ہے۔۔۔اختلافات و انتشار کو ہوا دینے کے بجائے مفتی منیب الرحمن صاحب بمع مصدقین علماء کے کلام کے سیاق و سباق و انداز و مقصود کو مدنظر رکھا جائے تو غلط معنی ذہن میں نہیں ابھریں گے، اور  غلط معنی لینا ، انتشار برپا کرنا ہرگز ہرگز جائز نہیں۔۔۔۔ہمیں ایک دوسرے کو سمجھنا چاہیے ، ناحق کیڑے نکال کر انتشار نہیں پھیلانا چاہیے

۔

5️⃣ *#پانچویں اعتراض کا جواب*

رجوع نامہ وضاحت نامہ اچانک نہیں ایا بلکہ اس کے لیے مسلسل رابطے رہے حتی کہ کچھ عرصہ پہلے ایک کمیٹی بنائی گئی جو اس مسئلے کو بھرپور حل کرنے کے لیے سرگرم کی گئی، توبہ رجوع نامہ کوئی چالبازی نہیں بلکہ عقیدہ مضبوط ہوجانے کے بعد اب مزید شانِ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا مزید واضح کرنے اور انتشار ختم کرکے اتحاد کرکے اسلام کی سربلندی کرنے کے لیے ہے

🌹ایک دلیل پڑھیے:

ایک معاملے میں سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ سیدنا ابوبکر صدیق خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کو عرض کرتے رہے مگر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اپنی رائے پر ڈٹے رہے لیکن سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ عرض کرنے پر ڈٹے رہے اور اخر کار کچھ عرصے کے بعد سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشاد فرمایا

حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ لِذَلِكَ صَدْرِي، وَرَأَيْتُ الَّذِي رَأَى عُمَرُ

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ اخر کار مجھے وہ سمجھ درست لگی کہ جو سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ مسلسل فرما رہے تھے (اور پھر اس پر عمل بھی کیا)

پڑھیے بخاری رویت4679

۔

🚨 *#رجوع نامہ وضاحت نامہ اچانک نہیں ایا بلکہ اس کے لیے مسلسل رابطے رہے حتی کہ کچھ عرصہ پہلے ایک کمیٹی بنائی گئی جو اس مسئلے کو بھرپور حل کرنے کے لیے سرگرم کی گئی، توبہ رجوع نامہ کوئی چالبازی نہیں بلکہ عقیدہ مضبوط ہوجانے کے بعد اب مزید شانِ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا مزید واضح کرنے اور انتشار ختم کرکے اتحاد کرکے اسلام کی سربلندی کرنے کے لیے ہے۔۔وہ اس طرح کہ۔۔۔۔۔!!*

👈دیکھیے سوچیے:

قبلہ ڈاکٹر ا/صف ا/شرف جلا/لی صاحب نے جو الفاظ ادا کیے اس کے بعد ایک طوفان کھڑا ہو گیا، کچھ مخلص احباب و اکابرین نے فرمایا کہ ڈاکٹر صاحب رجوع کر لیں مگر ڈاکٹر صاحب کو یہی درست لگا کہ اگر فورا رجوع کر لوں گا تو ضروری عقیدہ کہ کوئی امتی معصوم نہیں" اس عقیدے پر اثر پڑے گا۔۔۔ مگر اکابرین و احباب مسلسل سمجھاتے رہے عرض کرتے رہے حتی کہ ایک ایسی کمیٹی بھی بنائی گئی جو بالکل غیر جانبدار ہو کر دونوں فریقین سے مسلسل بڑے لمبے عرصے تک رابطے میں رہی اور اس کمیٹی کے ایک رکن نے کافی عرصے تک مجھ ناچیز سے بھی رابطہ رکھا

اور

اخر کار مسلسل سمجھانے اور عقیدے کی مضبوطی کا مقصد کافی حد تک پورا ہو جانے کے بعد اب مزید اس عقیدے کو مضبوط کرنے کے لیے ڈٹے رہنا ضروری نہیں تھا اور اکابرین کا مسلسل اصرار بھی تھا اور اس وقت جب اہلسنت پر سخت ازمائش ا چکی تھی تو ایسے میں ڈاکٹر صاحب کو اللہ تعالی نے توفیق عطا فرمائی اور ان کو سمجھ درست لگی کہ عقیدے کو مضبوط رکھتے ہوئے رجوع کرنا ہی اہلسنت کے لیے فائدہ مند ہے، اسلام کے لیے فائدہ مند ہے،تاکہ انتشار ختم ہوکر اتحاد ہوجائے اور ہم سب مل کر اس مشکل وقت میں اسلام کے سچے ترجمان مسلک حق اہلسنت کے لیے زیادہ سے زیادہ خدمات سرانجام دے سکیں

۔

 اسی لیے انہوں نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی برحق شان مزید واضح کرنے کے لیے اور عقیدے کو مضبوط رکھتے ہوئے ایسے الفاظ میں رجوع کیا کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ کی شان مزید واضح ہوئی اور عقیدہ بھی مضبوط ہو گیا، عقیدہ واضح بھی ہو گیا اور رجوع بھی ہو گیا جس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ

۔

🔵 *#تھوڑی تفصیل7پوائنٹ میں*

قبلہ مفتی ڈاکٹر ا/شرف ا/صف جلا/لی صاحب نے پہلے بھی وضاحت کی اور اب بھی کی۔۔جسکا خلاصہ یہ ہے کہ

1️⃣۔۔تھوڑے سے وقت یعنی صرف وہ وقت کہ جب فدک مانگ رہی تھیں اس وقت سیدہ فاطمہ طیبہ طاہرہ محفوظہ اجتہادی خطاء پر تھیں۔۔۔اگرچہ لفظ اجتہادی دوٹوک نہیں بولا تھا مگر بقول متکلم خطاء سے پہلے محفوظہ کہنا اور لفظ خطاء کے بعد کے الفاظ یعنی کلام کے سیاق سباق اور پھر دلائل شرعیہ اور پھر متکلم کی وضاحت کے بعد واضح ہوتا ہے کہ خطاء سے قطعا لازما خطاء اجتھادی مراد تھی جوکہ گناہ و گستاخی نہیں

۔

2️⃣۔۔مگر مثبت بات سے زیادہ نازک جملے کاٹ پیٹ کر زیادہ وائرل ہوئے اور یہ بھی معاشرے کے ناسور میں سے ایک ہے کہ مثبت بات وائرل نہیں ہوتی، یا بہت کم وائرل ہوتی ہے

۔

3️⃣۔۔قبلہ جلا/لی صاحب حد سے نہ بڑھے اور وضاحت در وضاحت دیتے رہے مگر مخالفین حدیں پار کرنے لگے پھر بھی جلا/لی صاحب حد سے نہ بڑھے، یہی وہ عقلی نقطہ ہے کہ اتنا اگے نہ بڑھو کہ پیچھے لوٹنا مشکل ہوجائے۔۔۔ مگر دل جگرے والے جتنا بھی دور چلے جائیں ان کے پاس واپس لوٹنے کا دل جگرہ ہوتا ہے، اور ہر ایک کو ایسا دل جگرہ ہونا چاہیے

۔

4️⃣۔۔سلام ہے ان ثالثین کو کہ جو سمجھاتے رہے، عرض کرتے رہے، اور حالات کیسے بھی رہے وہ حد سے نہ بڑھے یعنی جلا/لی صاحب کو دھتکارنے کے بجائے سمجھاتے رہے عرض کرتے رہے اور معتدل رہ کر سمجھاتے رہنے والوں، ایسی ٹیم، ایسے اکابرین کو سلام

۔

5️⃣۔۔۔اور جلا/لی صاحب کے انداز و الفاظ سے سیدہ کائنات سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کی شان شروع دن سے واضح چھلکتی رہی حتی کہ خطاء والی بات کے فورا بعد شان فاطمہ زھراء رضی اللہ عنھا کانفرنس کی، لیکن وہ سمجھتے رہے کہ خطاء اجتہادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کرنا گناہ و گستاخی تو ہے نہیں اور اس سے شیعوں کے باطل عقیدے کا اس سے رد بھی ہوجاتا ہے کیونکہ عظیم فضیلت والی امتی سیدہ فاطمہ طیبہ طاہرہ کی طرف اجتہادی خطاء منسوب کرنا کیسے گناہ و گستاخی ہوگی کہ ان سے افضل حضرات یعنی بعض انبیاء کرام کی طرف بھی خطاء اجتھادی کی نسبت احادیث و اقوال اسلاف میں کی گئ ہے تو پھر باطل عقیدے کہ اہلبیت معصوم ہیں اس کے رد کے لیے اجتھادی خطاء کا اطلاق  کے قول پر ڈٹے رہے

۔

6️⃣۔۔۔اکابرین کے مسلسل ارشادات اور سمجھانے اور عوام کے مسلسل عرض کرنے کے بعد جب لگا کہ عقیدہ کافی حد تک مضبوط ہوچکا اور اب اہلسنت پر ایسا وقت آگیا ہے کہ ٹکڑے ٹکڑے ہوچکے ہیں، کوئی اہلسنت کو سننے کو تیار نہیں تو یہ اچانک و ذاتی مفاد نہیں تھا بلکہ مسلسل سمجھانے اور عقیدہ کی مضبوطی کا مقصد کافی حد تک پورا ہونے اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی شان مزید واضح کرنے اور وقت کے تقاضے اور اہلسنت کے سنگین حالات کے تقاضے سے قبلہ جلا/لی صاحب کو یہ وقت درست لگا کہ اب بہتر یہ ہے کہ عقیدے کو مضبوط کرتے ہوئے رجوع و اتحاد کیا جائے

۔

7️⃣۔۔۔اس طرح انہوں نے اپنے رجوع میں یہ واضح لکھا کہ سیدہ فاطمہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ تعالی عنہ سمیت تمام اہل بیت کرام و تمام صحابہ کرام و دیگر تمام امتیوں میں سے کوئی بھی امتی خطا اجتہادی سے معصوم نہیں، لیکن اللہ کریم کے فضل و کرم سے اہل بیت الزام اور صحابہ کرام محفوظ ہیں،گناہ گار نہیں۔۔۔ مگر کوئی صحابہ کرام اہل بیت عظام سمیت کوئی بھی امتی معصوم نہیں ہے اور یہ بنیادی عقیدہ ہے کہ جو اس کے برخلاف جائے گا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے گا

 اور باغ فدک کے معاملے میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے جو مطالبہ کیا تو اس میں درستگی پر قران و حدیث کی روشنی میں ، صحابہ کرام کے فتاوی کی روشنی میں، اسلاف اہلسنت کی نظریات کی روشنی میں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ حق و درستگی پر تھے، بس ہم اتنا کہیں گے اور زیادہ سے زیادہ یہ کہیں گے کہ صحابہ کرام و اہل بیت عظام سمیت تمام امتیوں سے خطائے اجتہادی ہو سکتی ہے

لیھذا

قبلہ جلا/لی صاحب نے فرمایا کہ خطا اجتہادی کی نسبت جو سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف انہوں نے کی وہ ان الفاظ کو واپس لیتے ہیں اور خطائے اجتہادی کے علاوہ دیگر معنی سمجھے گئے تو اس صورت میں بھی جلا/لی صاحب نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ کی بارگاہ میں معافی مانگی اور اللہ تعالی سے بھی معافی مانگی

۔

اور ان کے اس توبہ و معافی نامے وضاحت نامے کو ملک پاکستان کے اہلسنت کے بڑے بڑے علماء محققین اکابرین مفتیان کرام نے قبول فرمایا اور اس کی تائید کی اور اس کی تصدیق کی۔۔۔!!

۔

🟢 *#المختصر*

 دھتکارنے کے بجائے مسلسل سمجھانے والوں کو سلام اور حد سے نہ بڑھتے ہوئے بنیادی عقیدے کو مضبوط رکھتے ہوئے سمجھانے کو قبول کرکے رجوع کرنے والے قبلہ جلا/لی صاحب کو سلام

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

New whatsapp nmbr

03062524574

00923062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.