افضل کون؟ چمن زمان تفضیلی غالی؟

 *سیدنا صدیق اکبر سیاسی و روحانی خلیفہ اول امام و افضل الامۃ ہیں اور کیا چمن زمان صاحب سنی نہ رہے؟ کیا چمن زمان صاحب رافضی یا تفضیلی غالی بدعتی گمراہ گمراہ کن بن گئے؟؟ بلکہ بات کفر تک پہنچ سکتی ہے، مفتیان کرام توجہ فرمائیں*

اہلبیت فرماتے ہیں:ہم اہلبیت کی تعریف میں غلو (اور غلو جیسی مبالغہ آرائی) سے بچو…غالی اور قدری (کافر فاجر بدمذہب ہیں انکا)دین اسلام میں کوئی حصہ نہیں(شیعہ کتاب بحارالانوار25/270)
صحابہ کرام اہلبیت عظام کی تعریف و مدح کرنا برحق و لازم مگر غلو اور غلو جیسی مبالغہ آرائی سے بچنا بچانا بھی ضروری ہے…تعریف میں غلو کرنے والے محب نہیں دشمن و مکار و فسادی ہیں
.
 چمن زمان صاحب نے حال ہی میں ایک رسالہ لکھا ہے اس کے پہلے ورق پر ہی ایک منقبت عربی میں لکھی ہے ...پہلے پہل تو یہی لگا کہ یہ منقبت خود چمن زبان نے لکھی ہوگی لیکن جب آگے کتاب کا مطالعہ کیا تو پتہ چلا کہ یہ منقبت سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف منسوب ہے
 منقبت میں ایک شعر ہے کہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اے علی تم میرے بعد امام اور ہادی ہو
(دیکھیے چمن زمان کی کتاب اربعین ولایت ص2...64..65)
.
تبصرہ.و.تحقیق:
پہلی بات:
 چمن زمان صاحب نے اس روایت کے درج ذیل حوالے دیئے 
مناقب علی لابن مردویہ ص150
سند نہیں لکھی
نظم درر السمطین ص112
مجھے مذکورہ صفحے اور آس پاس کے صفحوں میں ایسی منقبت نہ ملی
فرائد السمطین حدیث 40
اب رہا معاملہ فرائد السمطین کا تو
اولا: یہ معتبر اہلسنت کتب میں سے نہیں بلکہ شیعہ کتب میں سے ہے... اس کے مصنف پر شیعہ ہونے کا حکم اور جرح علماء نے لکھی ہے لہذا اگر اس کی سند بھی ہوتی صحیح  بھی ہوتی تو بھی یہ غیر معتبر روایت کہلاتی کہ پہلا راوی یعنی خود مصنف ہی غیر معتبر ہے
وجعله الأمين العاملي من أعيان الشيعة ولقبه بالحموئي (نسبة إلى جده حمويه) وقال : له (فرائد السمطين في فضائل المرتضى والبتول والسبطين - خ) في طهران (الجامعة المركزية 583) في 160 ورقة وقال الذهبي : شيخ خراسان كان حاطب ليل - يعني في رواية الحديث - جمع أحاديث ثنائيات وثلاثيات ورباعيات من الأباطيل المكذوبة
یعنی
فرائد السمطين کا لکھنے والا شیعوں کے بڑے بڑے علماء میں سے تھا اس نے بہت ساری باطل جھوٹی روایتیں بیان کی ہیں
 [الأعلام لخير الدين الزركلي الجزء1 صفحة63)
. حتی کہ شیعوں نے اسے اپنا عالم تسلیم کیا ہے
ذهب فيه إلى تشيعه ويمكن ان يستفاد تشيعه من أمور 1 روايته عن أجلاء علماء الشيعة..
 شیعہ علماء نے کہا ہے کہ یہ شیعہ تھا اور اس بات کی تصدیق اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ اس نے بڑے بڑے شیعہ علماء سے روایت لی ہیں
(شیعہ کتاب أعيان الشيعة2/219)
 اور محقق اہل سنت فاتح رافضیت علامہ محمد علی نقشبندی فرماتے ہیں کہ
فرائد السمطین کا مصنف تقیہ باز شیعہ ہے ہرگز سنی نہیں، اسکے مطابق اول خلیفہ سیدنا علی تھے اور سیدنا ابوبکر و عمر نے خلافت چھین لی اور اس کے مطابق سیدنا علی اور 12 امام معصوم ہیں...اور بھی بہت کچھ لکھا ہے جو اس کے شیعہ رافضی ہونے کا ثبوت ہے
(دیکھیے میزان الکتب ص118...121)
.
ثانیا:
 اس روایت کا پہلا راوی خود مصنف غیر معتبر شیعہ ہے اور یہ بات کافی ہو جانی چاہیے تھی کہ یہ جھوٹی روایت ہے

ثالثا:
 پھر بھی ہم نے اس روایت کے چند رایوں کے متعلق تحقیق کی تو پتہ چلا کہ اس میں غیر معتبر رافضی راوی ہیں
ایک راوی قیس بن الربیع کے متعلق علماء نے فرمایا
.: قلت لأحمد بْن حنبل: قيس ابن الربيع أي شيء ضعفه؟ قال: روى أحاديث منكرة.
 راوی کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا امام احمد بن حنبل سے پوچھا کہ قیس کو ضعیف کیوں قرار دیا گیا ہے تو فرمایا کہ یہ منکر روایت بیان کرتا ہے جو صحیح روایت کے خلاف ہوتی ہیں
(تهذيب الكمال في أسماء الرجال24/31)
.
: كَانَ يتشيع وكان كثير الخطأ فِي الحديث
 قیس میں تشیع تھا اور حدیث میں بہت خطا کرتا تھا
( الكامل في ضعفاء الرجال7/157)
امام ترمذی نے اس سے روایت لی اور ضعیف قرار دیا تو اسکی وجہ شاید یہ ہوگی کہ اس روایت کا متابع موجود ہوگا یا اس کی ترمذی والی روایت صحیح روایت کے خلاف نہیں ہوگی جبکہ یہاں اسکی روایت صحیح روایت کے خلاف ہے کہ صحیح روایت میں سیدنا ابوبکر صدیق کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے امام مقرر فرمایا اور اپنے بعد انکی اقتداء کا حکم دیا جیسے کہ نیچے حدیث لکھیں گے
.
 مذکورہ کتاب میں اس روایت کی ایک اور سند بھی لکھی ہے اس میں بھی اور اس روایت میں بھی مرکزی راوی ابو ہارون العبدی ہے جو کہ بہت بڑا جھوٹا رافضی تھا حتی کہ اس نے سیدنا عثمان کو نعوذباللہ کافر تک لکھا
 کیا بھلا ایسے راوی کی روایت معتبر ہو سکتی ہے.....؟؟
.
يقول: قَالَ السعدي أَبُو هارون العبدي كذاب مفتر...وَقَالَ النسائي عمارة بْن جوين أَبُو هارون العبدي بصري متروك الحديث
وَقَالَ النسائي عمارة بْن جوين أَبُو هارون العبدي بصري متروك الحديث...حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمد بن الضحاك، حَدَّثَنا ابْنُ وُثَيْمَةَ سَمِعْتُ يَعْقُوبَ بْنَ نُوحٍ يَقُولُ: سَمعتُ عَلِيَّ بْنَ عَاصِمٍ يَقُولُ كَانَ أَبُو هَارُونَ الْعَبْدِيُّ خَارِجِيًّا ثُمَّ تَحَوَّلَ شِيعِيًّا...حَدَّثَنَا الحسن بن سفيان، حَدَّثني عَبد الْعَزِيزِ بْنُ سَلامٍ، حَدَّثني عَلِيُّ بْنُ مِهْرَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ بهز بن سد يَقُولُ: سَمعتُ شُعْبَة يَقُولُ أَتَيْتُ أَبَا هَارُونَ الْعَبْدِيَّ فَقُلْتُ أَخْرِجْ إِلَيَّ مَا سَمِعْتَهُ مِنْ أَبِي سَعِيد قَالَ فَأَخْرَجَ إِلَيَّ كِتَابًا فإذا فيه، حَدَّثَنا أَبُو سَعِيد أَنّ عُثْمَانَ أُدْخِلَ حُفْرَتَهُ وَإِنَّهُ لَكَافِرٌ بِاللَّهِ، قالَ: قُلتُ تُقِرُّ بِهَذَا أَوْ تُؤْمِنُ قَالَ هُوَ عَلَى مَا تَرَى
یعنی
علامہ السعدی نے فرمایا کہ ابو ہارون بہت بڑا جھوٹا کذاب مفتری جھوٹ باندھنے والا بہتان باندھنے والا راوی ہے... امام نسائی( کہ جن پر شیعیت کا الزام تک لگا ان)کے مطابق ابو ہارون متروک الحدیث ہے... علامہ علی بن عاصم فرماتے ہیں کہ ابو ہارون خارجی تھا پھر یہ شیعہ بن گیا... راوی کہتا ہے کہ ابو ہارون نے مجھے کتاب دکھائی اس میں لکھا ہوا تھا کہ (سیدنا) عثمان کافر ہے راوی کہتے ہیں میں نے ابو ہارون سے پوچھا کیا تم اس پر ایمان لاتے ہو تو اس نے کہا ہاں بات یہی ہے
(الكامل في ضعفاء الرجال6/147)
.
وقال الدارقطنيُّ: يَتَلَوّن، خارجيٌّ وشيعيٌّ
 امام دارقطنی نے فرمایا کہ ابو ہارون رنگین راوی ہے جو خارجی بھی ہے اور شیعہ بھی ہے
( الجامع في الجرح والتعديل2/248)
.
يروي عن أبي سعيد الخدري، روى عنه الثوري، كان رافضيًا، يروي عن أبي سعيد ما ليس من حديثه، ولا يحل كتابة حديثه إلا على جهة التعجب
 ابو ہارون نے سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے جھوٹی روایات کی ہیں اور یہ ابو ہارون رافضی تھا اور اس کی بیان کردہ حدیث سے دلیل یا فضیلت ثابت کرنا تو دور کی بات اس کی روایت کو لکھنا جائز ہی نہیں ہے سوائے یہ کہ تعجب کے طور پر لکھا جائے
( المجروحين لابن حبان ت حمدي2/168)
.
عمارة بن جوين، أبو هارون العبدي: مجمع على ضعفه، وقال حماد بن زيد: كذاب
 ابو ہارون اس کا نام عمارہ ہے اس کے ضعیف( یعنی شدید ضعیف )ہونے پر سب کا اتفاق ہے علامہ حماد بن زید نے فرمایا کہ یہ بہت بڑا جھوٹا کذاب راوی تھا
( ديوان الضعفاء ص288)
.
.
أبو هارون العبدي عمارة بن جوين كذاب مفتر
 ابو ہارون عمارہ بہت بڑا جھوٹا کذاب بہتان باندھنے والا راوی ہے
( أحوال الرجال ص159)
.
 كان أبو هارون العبدي كذابا يروى بالغداة شيئا وبالعشي شيئا
 ابو ہارون بہت بڑا جھوٹا کذاب راوی ہے یہ صبح کے وقت کچھ بیان کرتا تھا تو شام کو کچھ بیان کرتا تھا
( الجرح والتعديل لابن أبي حاتم6/364)
.
 لہذا یہ شعر سیدنا حسان بن ثابت کی طرف جھوٹ منسوب ہے انہوں نے ایسا کوئی شعر نہیں کہا... ہاں چمن زمان صاحب نے اس شعر کو دلیل بنا کر اس کو اخذ کر کے یہ ثابت کر دیا کہ یہ شیعوں کا اور چمن زمان کا بھی نظریاتی معتبر شعر ہے
.
دوسری بات:
 سیدنا حسان بن ثابت سے تو یہ شعر ثابت نہیں لیکن اتنی بات تو ایک طرح سے ثابت ہوگئی کہ یہ شعر شیعہ کا معتبر و ترجمان و شیعوں کا عقیدہ ہے اور چمن زمان صاحب نے اس شعر کو دلیل بنا کر کتاب کے پہلے صفحے پر لا کر یہ ثابت کیا کہ وہ اس کو مانتا ہے اس پر اس کا نظریہ قائم ہے
.
 اب آتے ہیں اس بات کی طرف کی کہ اس شعر کا معنیٰ کیا ہے.... سیاق و سباق اور الفاظ کی تصریح کے مطابق بظاہر یہی معنی لگتا ہے کہ سیدنا علی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امام یعنی خلیفہ ہیں.....یہ عقیدہ رکھنا کھلی
 رافضیت ہے... ایک طرح سے سیدنا ابوبکر سیدناعمر بلکہ صحابہ کرام پر اعتراض طعن و مذمت ہے کہ انہوں نے نعوذ باللہ حضرت علی سے خلافت چھین لی... ایک طرح سے اس سے صحابہ کرام کا گمراہ ہونا فاسق ہونا غاصب ہونا ثابت ہو رہا ہے، بظاہر اس شعر کو ماننے والا منکرِ خلافتِ صدیقی ثابت ہو رہا ہے، اس شعر سے بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ سیدنا علی سب سے افضل ہیں اور وہی امامت کے مستحق ہیں.... اس شعر کا ایک تاویلی معنی یہ بھی بن سکتا ہے کہ سیدنا علی باطنی خلیفہ اول ہیں جیسے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے لکھا ہے...یہ معنی مراد لینے والے بھی سُنی نہیں ہو سکتے کیونکہ علماء اہل سنت نے دوٹوک واضح طور پر لکھ دیا ہے کہ اول باطنی خلیفہ قطب بھی سیدنا ابوبکر صدیق ہی ہیں... ایک بہت دور کے تاویلی معنی یہ لیے جا سکتے ہیں کہ نماز کی امامت کے مستحق سیدنا علی ہیں تو یہ معنیٰ مراد لینا بھی اہل سنت نظریات کے خلاف ہے کیونکہ ہم اہلسنت کی کتب میں دو ٹوک لکھا ہے کہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کو مصلی امامت پر کھڑے ہونے کا حکم  فرمایا
.
وَإِنْ كَانَ يُفَضِّلُ عَلِيًّا كَرَّمَ اللَّهُ تَعَالَى وَجْهَهُ عَلَى أَبِي بَكْرٍ - رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ - لَا يَكُونُ كَافِرًا إلَّا أَنَّهُ مُبْتَدِعٌ
اگر سیدنا ابو بکر صدیق و عمر رضی اللہ تعالی عنہما کو برا کہتا ہو ، گالی دیتا ہو اور لعنت کرتا ہو تو وہ وَالْعِيَاذُ بِاَللَّهِ کافر ہے اور
اگر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ پر بغیر توہین کے فضیلت دیتا ہو تو وہ کافر نہیں ہے مگر بدعتی ہے[الفتاوى الهندية ,2/264]
.

حضرت امیر المومنین سیدنا مولٰی علی کرم ﷲ وجہہ الکریم کو حضرت شیخین رضی ﷲ تعالٰی عنہما سے افضل بتانا رفض و بد مذہبی ہے(فتاوی رضویہ6/442)
.
سفيان الثوري: من زعم أن عليًّا كان أحق بالولاية من أبي بكر وعمر فقد أخطأ وخطأ أبا بكر والمهاجرين والأنصار.وقال شريك: ليس يقدم عليًّا على أبي بكر وعمر أحد فيه خير
ترجمہ:
 سیدنا امام سفیان ثوری فرماتے ہیں کہ جس نے یہ گمان کیا کہ سیدنا علی سیدنا ابوبکر صدیق سے زیادہ مستحق تھے ولایت کے تو اس نے خطا کی اور اس نے ابوبکر اور مہاجرین صحابہ اور انصار صحابہ کو خطا والا کہہ دیا... سیدنا شریک فرماتے ہیں کہ جس نے حضرت علی کو سیدنا ابو بکر اور سیدنا عمر پر مقدم کیا اس میں کوئی بھلائی نہیں ہے
(تاریخ الخلفاء للسیوطی ص99)
.
.
وَقَالَ فِي الرافضي الَّذِي يتناول الصَّحَابَة: لا يصلى خلفه.
وَقَالَ فيمن يقدم علياً عَلَى أَبِي بَكْر وعمر: إن كَانَ جاهلاً لا علم لَهُ فصلى خلفه فأرجو أن لا يكون بِهِ بأس، وإن كَانَ يتخذه ديناً فلا تصل خلفه
(فتح الباري لابن رجب6/191)
.
بلکہ بمطابق فقہ حنفی کفر لازم آ رہا ہے
امام اہلسنت مختلف کتب سے حوالے دیتے ہوئے لکھتے ہیں
حضرت افضل الاولیاء المحدبین امیرالمومنین امام المتقین سیدنا صدیق اکبر رضی ﷲ تعالی عنہ کی امامت برحق سے انکارکرنا، فقہاء کرام فرماتے ہیں : صحیح مذہب پر اس کا منکر کافرہے۔ فتاوی ظہیریہ پھر طریقہ محمدیہ اور اس کی شرح حدیقہ ندیہ میں ہے :من انکر امامۃ ابی بکر الصدیق رضی ﷲ تعالی عنہ ای خلافتہ بعد رسول ﷲ صلی ﷲ تعالی علیہ وسلم علی الامۃ فھو کافرفی القول الصحیح لاجماع الامۃ علی ذلک من غیرخلاف احد یعتدبہ۳؎۔جس نے ابوبکرصدیق رضی ﷲ تعالی عنہ کی امامت یعنی رسول ﷲ صلی ﷲ تعالی علیہ وسلم کے بعد امت پر آپ کی خلافت کا انکار کیا تو صحیح قول میں وہ کافر ہے، کیونکہ اس پر اجماع امت ہے اور کسی قابل اعتبار شخص نے اس سے اختلاف نہیں کیا۔(ت)(۳؎ الحدیقۃ الندیۃ شرح الطریقۃ المحمدیۃ الباب الثانی الفصل الاول نوریہ رضویہ فیصل آباد ۱ /۳۲۱)اسی طرح فتاوی عالمگیری میں ہے:الصحیح انہ کافر۱؎(صحیح یہ ہے کہ وہ کافر ہے۔ت)(۱؎ الفتاوی الھندیۃ کتاب السیر الباب التاسع نورانی کتب خانہ پشاور ۲ /۲۶۴)
(فتاوی رضویہ26/79)
.
جو مولی علی رضی ﷲ تعالی عنہ کو حضرات شیخین رضی اللہ تعالی عنہما پر قرب الہی میں تفضیل دے وہ گمراہ مخالف سنت ہے(فتاوی رضویہ29/616)
.
حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: «كُنَّا نُخَيِّرُ بَيْنَ النَّاسِ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنُخَيِّرُ أَبَا بَكْرٍ، ثُمَّ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ، ثُمَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ»
ترجمہ
ہم صحابہ کرام لوگوں کے درمیان فضیلت دیتے تھے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ مبارک میں تو ہم فضیلت دیتے تھے سب سے پہلے ابو بکر صدیق کو پھر سیدنا عمر کو پھر عثمان بن عفان کو ُ(پھر سیدنا علی کو) 
[صحيح البخاري ,5/4روایت3655]
.

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: قَالَ سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ: إِنَّ ابْنَ عُمَرَ قَالَ: كُنَّا نَقُولُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيٌّ: «أَفْضَلُ أُمَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَهُ أَبُو بَكْرٍ، ثُمَّ عُمَرُ، ثُمَّ عُثْمَانُ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَجْمَعِينَ»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ ہیں میں ہم صحابہ کرام کہا کرتے تھے کہ کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد  اس امت میں سب سے پہلے افضل ابوبکر صدیق ہے پھر سیدنا عمر سیدنا عثمان(پھر سیدنا علی)
[سنن أبي داود ,4/206روایت4628]


علی...افْضَلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا أَبُو بَكْرٍ، وَبَعْدَ أَبِي بَكْرٍ، عُمَرُ
سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ نبی پاک کے بعد تمام امت میں سے سب سے افضل ابوبکر ہیں پھر عمر
(مسند احمد2/201)
.
سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ:
خير الناس بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم أبو بكر، وخير الناس بعد أبي بكر عمر
ترجمہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تمام لوگوں سے بہتر.و.افضل ابوبکر ہیں اور ابوبکر کے بعد سب لوگوں سے بہتر.و.افضل عمر ہیں...(ابن ماجہ روایت نمبر106)

.

حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِئُ , ثنا عُمَرُ بْنُ عُبَيْدٍ الْخَزَّازُ , عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: كُنَّا  مَعْشَرَ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ مُتَوَافِرُونَ نَقُولُ:أَفْضَلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا أَبُو بَكْرٍ ثُمَّ عُمَرُ
ہم صحابہ کرام کہا کرتے تھے کہ
نبی پاک کے بعد تمام امت میں سے سب سے افضل ابوبکر ہیں پھر عمر
(مسند الحارث=بغية الباحث عن زوائد مسند الحارث2/888 روایت959)
.
خَطَبَنَا عَلِيٌّ، فَقَالَ: " مَنْ خَيْرُ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا؟ " فَقُلْتُ: أَنْتَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَالَ: " لَا خَيْرُ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا أَبُو بَكْرٍ، ثُمَّ عُمَرُ
سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے خطبہ دیا اور ہم سے پوچھا کہ اس امت میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل کون ہے راوی کہتا ہے کہ میں نے کہا آپ امیر المومنین....تب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ نہیں میں(علی سب سے افضل)نہیں، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت میں سب سے بہترین اور افضل ترین شخص ابوبکر صدیق ہیں پھر عمر ہیں
[مسند أحمد ط الرسالة ,2/201 روایت834]
.
الحدیث التقریری:
كُنَّا نَقُولُ وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيٌّ: أَفْضَلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ، وَيَسْمَعُ ذَلِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا يُنْكِرُهُ
ہم صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ہی کہا کرتے تھے کے اس امت میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے زیادہ افضل ابوبکر ہیں پھر عمر پھر عثمان ہیں ( پھر سیدنا علی) حضور علیہ السلام یہ سنتے تھے اور اس کا انکار نہ فرماتے تھے 
[المعجم الكبير للطبراني ,12/285حدیث13132]
.
 اہلسنت کا عقیدہ وہی ہے جو صحابہ کرام اور اہل بیت کا تھا کہ پہلا نمبر ابو بکر صدیق کا...سیدنا علی کے مطابق بھی پہلا نمبر سیدنا ابوبکر صدیق کا ہے...جو لوگ حضرت علی کو حضرت ابو بکر و عمر پر فضیلت دیتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ "آل دا پہلا نمبر، فاطمہ دا پہلا نمبر، علی دا پہلا نمبر "وہ ٹھیک نہیں، ایسوں کو سیدنا علی نے جھوٹا اور مجرم قرار دیا ہے
حضرت سیدنا علی فرماتے ہیں:
بلغني أن أناسا يفضلوني على أبي بكر وعمر، لا يفضلني أحد على أبي بكر وعمر إلا جلدته حد المفتري
ترجمہ:
حضرت علی فرماتے ہیں کہ مجھے خبر ملی ہے کہ کچھ لوگ ابوبکر اور عمر پر مجھے فضیلت دیتے ہیں، مجھے ابوبکر و عمر پر کوئی فضیلت نہ دے ورنہ اسے وہ سزا دونگا جو ایک مفتری(جھوٹ.و.بہتان والے)کی سزا ہوتی ہے(یعنی 80کوڑے مارونگا)
(فضائل الصحابہ روایت نمبر387)

.
إنْ فَضَّلَ عَلِيًّا عَلَى غَيْرِهِ فَهُوَ مُبْتَدِعٌ،
اگر سیدنا علی کو(سیدنا ابوبکر و عمر پر)فضیلت دے تو وہ بدعتی (مخالف و خارج از اہلسنت) ہے
[البحر الرائق ,1/370]
.
مُبْتَدِعٌ إنْ فَضَّلَ عَلِيًّا عَلَيْهِمَا مِنْ غَيْرِ سَبٍّ
وہ بدعتی(مخالف و خارج از اہلسنت)ہے جو سیدنا ابوبکر و عمر پر سیدنا علی کو فضیلت دے بغیر مذمت و گالی کے
[فتاوی شامی ردالمحتار,4/70]

.
لقد تواتر عن أمير المؤنين علي رضي الله عنه أنه كان يقول على منبر الكوفة: خير هذه الأمة بعد نبيها أبو بكر ثم عمر روى المحدثون والمؤرخون هذا عنه من أكثر من ثمانين وجها. ورواه البخاري وغيره. وكان علي رضي الله عنه يقول: لا أوتي بأحد يفضلني على أبي بكر وعمر إلا ضربته حد المفتري.
ولهذا كان الشيعة المتقدمون متفقين على تفضيل أبي بكر وعمر. نقل عبد الجبار الهمداني من كتاب: تثبيت النبوة أن أبا القاسم نصر بن الصباح البلخي قال في كتاب النقض على ابن الرواندي: سأل شريك بن عبد الله فقال له: أيهما أفضل: أبو بكر أو علي؟ فقال له: أبو بكر. فقال السائل: تقول هذا وأنت شيعي؟! فقال له: نعم: من لم يقل هذا فليس شيعيا!! والله لقد رقى هذه الأعواد على لقال: إلا أن خير هذه الأمة بعد نبيها أبو بكر ثم عمر، فكيف نرد قوله، وكيف نكذبه؟ والله ما كان كذابا.
 خلاصہ:
یہ بات متواتر سے ثابت ہے کیا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فرمایا کرتے تھے کہ اس امت میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے زیادہ افضل ابو بکر ہیں پھر عمر۔۔۔حضرت علی کی یہ روایت قریبا 80 طرق سے مروی ہے
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے تھے کہ جو مجھے ابوبکر اور عمر پر فضیلت دے گا میں اسے بہتان باندھنے والے کی سزا دوں گا۔۔۔حتی کہ متقدمین شیعہ بھی یہ اعتقاد  رکھتے تھے کہ سب سے افضل ابوبکر ہیں پھر عمر
ہمدانی نے کتاب النقض کے حوالے سے لکھا ہے کہ شریک نے  سوال کیا کہ کون افضل ہے ابوبکر یا علی تو جواب دیا ابو بکر....سائل نے کہا کہ تم شیعہ ہو کر یہ بات کرتے ہو۔۔۔؟
آپ نے فرمایا جو حضرت ابوبکر صدیق کی فضیلت نہ دےوہ(اصلی) شیعہ ہی نہیں کیونکہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کئی بار اس ممبر پر چڑھے اور فرمایا کہ امت میں سب سے افضل ابوبکر صدیق پھر عمر ہیں ہم حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی بات کو کیسے جھٹلا سکتے ہیں.....؟؟ 
[العواصم من القواصم ط دار الجيل ,page 274]
.

خَيْرُ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ
[السنة لعبد الله بن أحمد ,2/584]
.
احادیث و روایات میں مطلق فضیلیت ہے اسے سیاسی اور روحانی میں تقسیم کرکے کہنا کہ صدیق و عمر سیاسی ظاہری خلیفہ تھے اور علی بلافصل دور صدیقی ہی سے روحانی خلیفہ تھے(جیسا کہ ڈاکٹر طاہر الکادری کے کلام سے ظاہر ہے دیکھیےانکی کتاب القول الوثیق ص41اور اسی طرح کے بات آج کل کے کچھ گدی نشین پیر صاحبان بھی کرتے نظر آتے ہیں )....ایسا کہنا اپنی طرف سے روایات میں زیادتی کے مترادف و مردود ہے....اہلسنت کے نظریہ ، اہل علم کے نظریہ کے خلاف ہے.... *اول_قطب اور باطنی روحانی خلیفہ ہونے کے بارے میں حق چار یار کی نسبت سے چار حوالہ جات ملاحظہ فرمائیے*
①و فی شرح المواهب اللدنية قال: أول من تقطب بعد النبی الخلفاء الأربعة على ترتيبهم في الخلافة، ثم الحسن هذا ما عليه الجمهور
شرح المواهب اللدنية میں ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے پہلے جو قطب ہیں وہ خلفائے اربعہ ہیں اس ترتیب پر جو ان کی خلافت کی ترتیب ہے یعنی سب سے پہلے قطب سیدناابوبکر صدیق ہیں پھر سیدنا عمر پھر سیدنا عثمان ہیں پھر سیدنا علی قطب ہیں پھر سیدنا حسن(رضی اللہ تعالیی عنھم اجمعین)اور یہ وہ(نظریہ قول) ہے کہ جس پر جمہور(علماء اور صوفیاء)ہیں 
(جلاء القلوب2/94)
.
②وأول من تقطب بعد النبي يَةُ الخلفاء الأربعة على ترتيبهم في الخلافة، ثم الحسن، هذا ما عليه الجمهور
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے پہلے جو قطب ہیں وہ خلفائے اربعہ ہیں اس ترتیب پر جو ان کی خلافت کی ترتیب ہے یعنی سب سے پہلے قطب سیدناابوبکر صدیق ہیں پھر سیدنا عمر پھر سیدنا عثمان ہیں پھر سیدنا علی قطب ہیں پھر سیدنا حسن(رضی اللہ تعالیی عنھم اجمعین)اور یہ وہ(نظریہ قول) ہے کہ جس پر جمہور(علماء اور صوفیاء)ہیں 
(مشتهى الخارف الجاني ص506)
.
③وبعد عصرہ صلی اللہ علیہ وسلم خلیفتہ القطب، متفق علیہ بین اہل الشرع و الحکماء۔۔۔انہ قد یکون متصرفا ظاہرا فقط کالسلاطین و باطنا کالاقطاب و قد یجمع بین الخلافتین  کالخلفاء الراشدین کابی بکر و عمر بن عبدالعزیز
اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ مبارکہ کے بعد جو آپ کا خلیفہ ہوا وہی قطب ہے اس پر تمام اہل شرع(علماء صوفیاء)اور حکماء کا اتفاق ہے کہ خلیفہ کبھی ظاہری تصرف والا ہوتا ہے جیسے کہ عام بادشاہ اور کبھی فقط باطنی تصرف والا ہوتا ہے جیسے کہ قطب اور کبھی خلیفہ ایسا ہوتا ہے کہ جو ظاہری تصرف بھی رکھتا ہے اور باطنی تصرف بھی رکھتا ہے(وہ بادشاہ بھی ہوتا ہے اور قطب بھی ہوتا ہے)جیسے کہ خلفائے راشدین مثلا سیدنا ابو بکر صدیق اور عمر بن عبدالعزیز    
(نسیم الریاض3/30ملتقطا)
.
④قطب.....وھو الغوث ایضا و ھو سید الجماعۃ فی زمانہ۔۔یحوز الخلافۂ الظاہریۃ کما حاز الخلافۃ الباطنیۃ کابی بکر و عمر و عثمان و علی رضوان اللہ تعالیٰ علھیم...و ذہب التونسی من الصوفیۃ الی ان اول من تقطب بعدہ صلی اللہ علیہ وسلم  ابنتہ فاطمۃ و لم ار لہ فی ذالک سلفا
قطب اس کو غوث بھی کہتے ہیں اور وہ اپنے زمانے میں تمام امتیوں کا سردار و افضل ہوتا ہے...خلیفہ کبھی ایسا ہوتا ہے جو ظاہری خلافت بھی پاتا ہے اور باطنی خلافت و قطبیت بھی پاتا ہے جیسے کہ سیدنا ابو بکر صدیق اور سیدنا عمر اور سیدنا عثمان اور سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ اجمعین اور صوفیاء میں سے تونسی اس طرف گئے ہیں کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد اول قطب ان کی بیٹی فاطمہ ہے اور ہم اس مسئلہ میں ان کا کوئی ہمنوا و حوالہ نہیں پاتے  
(مجموع رسائل ابن عابدین 3/265ملتقتا)
.
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " اقْتَدُوا بِاللَّذَيْنِ مِنْ بَعْدِي : أَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میرے بعد ابوبکر اور عمر کی پیروی کرنا 
(ترمذی حدیث3662)
(ابن ماجہ حدیث97نحوہ)
.
سیدنا ابوبکر بحکم نبوی حیات نبوی میں کئ نمازوں کے امام الصحابہ قرار پائے نمازیں پڑھائیں...مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نےشدید علالت کی حالت میں  ارشاد فرمایا ابوبکر کو میری طرف سے حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں 
(بخاری حدیث664)
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
whats App nmbr
00923468392475
03468392475
other nmbr
03062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.