رجب فضائل احتیاط رجبی نجومی

*فضائلِ رجب کا ثبوت و تحقیق، رجب کی دعا؟ چاند دیکھنے کی دعا.و.احتیاط؟ رجبی؟نجومی؟ سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیوں سزا دیتےتھے........؟؟*

#اہم_اصول:

يتْرك)أَي الْعَمَل بِهِ فِي الضَّعِيف إِلَّا فِي الْفَضَائِل

فضائل کے علاوہ میں حدیث ضیف پر عمل نہ کیا جائے گا مگر فضائل میں ضعیف حدیث پر عمل کرنا جائز ہے

(شرح نخبة الفكر للقاري ص185)

.

قال الحافظ فى " النتائج " 2 / 299:ترقى الحديث إلى درجة الضعيف الذى يعمل به الفضائل

حافظ ابن حجر عسقلانی نے النتائج میں لکھا ہے کہ ضعیف جو غیر مقبول ہو(ضعیف جدا ہو، منکر بلاتائید ہو)وہ ترقی کرکے ایسی ضعیف بن جاتی ہے جس پر فضائل میں عمل جائز ہے

(روضة المحدثين11/349)

.

وَيجوز الْعَمَل فِي الْفَضَائِل بالضعيف.

فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل جائز ہے

(تذكرة الموضوعات للفتني ,page 117)

.

أَنَّ الضَّعِيفَ مَعْمُولٌ بِهِ فِي الْفَضَائِلِ اتِّفَاقًا

بےشک فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل جائز ہے اس پر سب(جمھور علماء محدثین)کا اتفاق ہے

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ,4/1474)

.

والأكثر: يعمل بالحديث الضعيف في الفضائل

اکثر و جمھور کے نزدیک فضائل میں حدیث ضعیف پر عمل کیا جائے گا

(تحرير المنقول وتهذيب علم الأصول1/174)

.

قال العلماءُ من المحدّثين والفقهاء وغيرهم: يجوز ويُستحبّ العمل في الفضائل  والترغيب والترهيب بالحديث الضعيف ما لم يكن موضوعاً

علماء محدثین فقہاء وغیرہ نے فرمایاکہ فضائل ،ترغیب و ترہیب میں جائز ہے مستحب و ثواب ہے ضعیف حدیث پے عمل کرنا بشرطیکہ موضوع و من گھڑت نہ ہو 

(الأذكار للنووي ص36)

.

*#فضائل_رجب_پے_چند_احادیث_صحیحہ*

①سالت سعيد بن جبير عن صوم رجب، ونحن يومئذ في رجب، فقال: سمعت ابن عباس رضي الله عنهما، يقول: " كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصوم، حتى نقول لا يفطر، ويفطر حتى نقول لا يصوم

‏‏‏‏ سیدنا سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے پوچھا رجب کے روزوں کےمتعلق؟ اور یہ سوال ماہ رجب میں کیا تو سیدنا سعید رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے سنا ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ فرماتے تھے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم(رجب شعبان وغیرہ رمضان کے علاوہ مہینوں میں) روزے رکھتے تھے یہاں تک کہ ہم کہتے تھےاب کوئی روزہ نہ چھوڑیں گے اور روزے چھوڑتے تھے یہاں تک  کہ ہم کہتے تھے اب کوئی روزہ نہ رکھیں گے

(مسلم حدیث2726)

.

②الحدیث:

صُمْ يَوْمًا وَأَفْطِرْ يَوْمًا

(رمضان کے علاوہ رجب شعبان محرم وغیرہ دیگر مہینوں میں بہتر ہے کہ)ایک دن روزہ رکھ ایک دن نہ رکھ

(صحيح البخاري ,3/40حدیث1978)

.

③الحدیث:

أَنَّهَا سَأَلَتْ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ؟» قَالَتْ: «نَعَمْ»، فَقُلْتُ لَهَا: «مِنْ أَيِّ أَيَّامِ الشَّهْرِ كَانَ يَصُومُ؟» قَالَتْ: «لَمْ يَكُنْ يُبَالِي مِنْ أَيِّ أَيَّامِ الشَّهْرِ يَصُومُ»

عدویہ نے پوچھا ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  ہر ماہ میں تین روزے رکھتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں، پھر پوچھا کن دنوں میں؟ انہوں نے  فرمایا: کچھ پرواہ نہ کرتے تھے کسی دن بھی روزہ رکھ لیتے تھے۔

(صحيح مسلم ,2/818 حدیث2744)

کیا یہ تین دن رجب میں نہیں آتے تھے............؟؟

.

④الحدیث

قَالَ: صُمْ مِنَ الحُرُمِ وَاتْرُكْ

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ(بہتر ہے کہ)حرمت والے مہینوں(رجب ذوالقعدہ ذوالحج محرم)میں روزے رکھ اور کچھ دن نہ رکھ

(سنن أبي داود ,2/322 حدیث2428)



⑤ایام بیض ، جمعرات ، پیر کے دن کے روزے کی فضیلیت صحیح احادیث میں ہے اور یہ دن کیا رجب میں نہیں آتے........؟؟

.

أنه قد ثبت ذكر فضل الصوم في الأشهر الحرم وشهر رجب منها اتفاقًا فيندب صومه

بے شک ثابت ہوچکا ہے کہ حرمت والے مہینوں میں روزہ رکھنا چاہیے اس کی فضیلت ہے اور رجب حرمت والے مہینوں میں سے ہے تو اس کا روزہ بھی رکھنا چاہیے بہتر و ثواب ہے 

[التنوير شرح الجامع الصغير ,4/26]

.

=====================

*#فضائل_رجب_پے_چند_احادیث_ضعیفہ_معتبرہ یا حسنہ معتبرہ......!!*

ہم شروع میں اہم اصول بیان کر آئے کہ فضائل میں ضعیف حدیث بھی مقبول ہے....اب چند احادیث پیش ہیں اور انکا حکم بھی باحوالہ پیش ہے

①الحدیث،ترجمہ:

جب رجب کا مہینہ شروع ہوتا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھتے

اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي رَجَبٍ وَشَعْبَانَ وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ

(طبرانی اوسط حدیث3939، شعب الایمان حدیث3535, مسند بزاز حدیث6496)


.

إسناده فيه ضعف

اس حدیث کی سند میں ضعف ہے 

[مجموعة من المؤلفين ,روضة المحدثين ,10/302]

.

نعم رُوِيَ بِإِسْنَاد ضَعِيف «أَنَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا دَخَلَ رَجَبٌ قَالَ اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي رَجَبٍ وَشَعْبَان وبلغنا رَمَضَان...وَيجوز الْعَمَل فِي الْفَضَائِل بالضعيف

ترجمہ:

جی ہاں ضعیف سند سے حدیث مروی ہے کہ أَنَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا دَخَلَ رَجَبٌ قَالَ اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي رَجَبٍ وَشَعْبَان وبلغنا رَمَضَان

اور

فضائل میں حدیث ضعیف پر عمل کرنا جائز ہے

[الفَتَّنِي ,تذكرة الموضوعات للفتني ,page 117]

.

رَوَاهُ الْبَزَّارُ، وَالطَّبَرَانِيُّ فِي الْأَوْسَطِ، وَفِيهِ زَائِدَةُ بْنُ أَبِي الرُّقَادِ، وَفِيهِ كَلَامٌ، وَقَدْ وُثِّقَ

اس حدیث کو امام بزاز اور امام طبرانی نے روایت کیا ہے اس میں راوی زَائِدَةُ بْنُ أَبِي الرُّقَادِ میں کلام ہے مگر بےشک اسکی توثیق کی گئ ہے(گو امام ہیثمی کے مطابق یہ حدیث حسن ہے)

(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد ,3/140)

.

نئے قمری سال یا نئے قمری مہینے کے شروع ھونے پے نبی پاک صلی اللہ علیہ و علی الہ واصحابہ اجمین کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم اجمعین اس دعا کی تعلیم فرماتے تھے:

اللَّهُمَّ أَدْخِلْهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ وَالْإِيمَانِ، وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ،وَرِضْوَانٍ مِنَ الرَّحْمَنِ،وَجَوَازٍ مِنَ الشَّيْطَانِ(طبرانی6241)

اور بھی دعائیں،معتبر وظائف ہیں وہ بھی پڑھ سکتے ہیں

.

خیال رہے کہ چاند کی طرف ہاتھ کرکے یا چاند کی طرف رخ کرکے دعا نہیں مانگنی چاہیے...اسی طرح چاند کی طرف تنکا پھینکنا یا چاند سے کچھ مانگنا بھی بہت بری جہالت ہے....نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم چاند دیکھ کر اس سے رخ ہٹا لیتے،پھر دعا فرماتے( دیکھیے ابوداود 2/339، فتاوی رضویہ10/458,459)

.

فتاوی عالمگیری میں ہے کہ:

وتكره الإشارة إلى الهلال عند رؤيته تعظيما له أما إذا أشار إليه ليريه صاحبه فلا بأس به

ترجمہ:

چاند دیکھتے وقت اسکی طرف اشارہ کرنا اس وقت مکروہ ہے کہ جب چاند کی تعظیم مقصد ہو، اور اگر دوسروں کو چاند دکھانے کے لیے اشارہ کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں

(فتاوی عالمگیری جلد5 ص380)


.

②الحدیث:

إِنَّ فِي الْجَنَّةِ نَهْرًا يُقَالُ لَهُ: رَجَبٌ، أَشَدُّ بَيَاضًا مِنَ اللَّبَنِ وَأَحْلَى مِنَ الْعَسَلِ، مَنْ صَامَ مِنْ رَجَبٍ يَوْمًا سَقَاهُ اللَّهُ مِنْ ذَلِكَ النَّهْرِ "

ترجمہ:

بےشک جنت میں رجب ایک نہر ہے جسکا مشروب دودھ سےزیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے،جو رجب میں ایک روزہ رکھے گا اللہ اسے اس نہر سے پلائے گا

(فضائل الأوقات للبيهقي ,page 90حدیث8)

.

اس حدیث کو بعض محدثین نے من گھڑت قرار دیا مگر بعض  محدثین و علماء محققین نے اسے ضعیف قرار دیا اور من گھڑت کہنے والوں نے لایعرف مجاہیل جیسی علتیں بیان کیں جس سے ضعف ثابت ہوتا ہے موضوعیت نہیں لیھذا ضعیف کہنا ہی معتبر کہلائے گا

.

حديث ضعيف

یہ حدیث ضعیف ہے

[السراج المنير شرح الجامع الصغير,2/105]

.

البانی نے ایک سند کے حوالے سے من گھرت کہا مگر دوسری سند کے مطابق ضعیف کہا لیھذا ضعیف ہونا ہی معتبر

قلت: وهذا إسناد ضعيف مجهول

[ناصر الدين الألباني ,سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة ,4/371]

.

فمن الضعيف:

* حديث: ((إن في الجنة نهراً يقال له رجب ماؤه أشد بياضاً من اللبن وأحلى من العسل من صام يوماً من رجب سقاه الله من ذلك النهر))

مذکورہ حدیث ضعیف ہے

(البدع الحولية 1/214)

.

فالإسناد ضعيف في الجملة لكن لا يتهيأ الحكم عليه بالوضع. وله طرق أخرى في إسنادها مجاهيل. يراجع: تبيين العجب ص (9، 10، 11) . والعلل المتناهية (2/65)

الحاصل اس حدیث پاک کی سند ضعیف ہے اس پر موضوع اور من گھڑت ہونے کا حکم لگانا ناممکن ہے اس حدیث کی دوسری سند بھی ہیں ان میں بھی مجہول راوی ہیں دیکھیےتبيين العجب ص (9، 10، 11) . اور العلل المتناهية (2/65)

(حاشیہ البدع الحولية 1/214)

.

فَذَكَرَ مِنَ الضَّعِيفَةِ حَدِيثَ أَنَسٍ مَرْفُوعًا: إِنَّ فِي الْجنَّة نَهرا يُقَالُ لَهُ رَجَبٌ مَاؤُهُ أَشَدُّ بَيَاضًا مِنَ اللَّبَنِ وَأَحْلَى مِنَ الْعَسَلِ مَنْ صَامَ يَوْمًا مِنْ رَجَبٍ سَقَاهُ اللَّهُ مِنْ ذَلِكَ النَّهْرِ....وَحَدِيثُ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ كَانَ إِذَا دَخَلَ رَجَبٌ قَالَ: اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي رَجَبٍ وَشَعْبَان وبلغنا رَمَضَان

ترجمہ

إِنَّ فِي الْجنَّة نَهرا يُقَالُ لَهُ رَجَبٌ مَاؤُهُ أَشَدُّ بَيَاضًا مِنَ اللَّبَنِ وَأَحْلَى مِنَ الْعَسَلِ مَنْ صَامَ يَوْمًا مِنْ رَجَبٍ سَقَاهُ اللَّهُ مِنْ ذَلِكَ النَّهْرِ

اس حدیث کو امام ابن حجر عسقلانی نے ضعیف کہہ کر بیان کیا ہے اور حدیث أَنَّ النَّبِيَّ كَانَ إِذَا دَخَلَ رَجَبٌ قَالَ: اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي رَجَبٍ وَشَعْبَان وبلغنا رَمَضَان

کو

بھی امام ابن حجر نے ضعیف کہہ کر لکھا ہے

(المرفوعة في الأخبار الموضوعة ,page 59)

.


③الحديث:

رَجَب شهر الله وَشَعْبَان شَهْري ورمضان شهر أمتِي ". ضَعِيف

ترجمہ:

رجب اللہ کا مہینہ ہے اور شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان میری امت کا مہینہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اور یہ حدیث ضعیف ہے 

(أسنى المطالب في أحاديث مختلفة المراتب ,page 151)


عَنِ الْحَسَنِ مُرْسَلًا كَمَا ذَكَرَهُ السُّيُوطِيُّ فِي جَامِعِهِ الصَّغِيرِ

اس حدیث کو امام سیوطی نے جامع صغیر میں مرسلا روایت کیا ہے

(الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة ,ص 460)

.

الحافظ العراقي في شرح الترمذي: حديث ضعيف جداً، هو من مرسلات الحسن ومرسلات الحسن لا شيء عند أهل الحديث، ولا يصح في فضل رجب حديث انتهى. وظاهر صنيع المصنف أنه لم يرد مرفوعًا وهو ذهول فقد رواه الديلمي وابن نصر من ثلاث طرق مرفوعاً عن أنس

ترجمہ

حافظ عراقی نے شرح ترمذی میں اس حدیث کو ضعیف جدا کہا ہےاور کہا ہے کہ یہ حسن کے مرسلات میں سے ہے اور حسن کی مرسلات اہل حدیث کے مطابق کچھ بھی اہمیت نہیں رکھتی نیز حافظ عراقی نے یہ بھی فرمایا کہ رجب کی فضیلت میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے ان کا کلام ختم ہوا۔۔۔۔حافظ  عراقی سے غفلت و بھول ہوئی ہے کہ اسے مرسل و ضعیف جدا کہا کیونکہ یہ روایت تین طرق سے مرفوعا روایت کی ہے دیلمی نے اور ابن نصر نے(لیھذا یہ حدیث ضعیف جدا نہین بلکہ ضعیف معتبرہ یا حسن ہے)

(التنوير شرح الجامع الصغير ,6/229)

.

 فَذَكَرَ مِنَ الضَّعِيفَةِ حَدِيثَ أَنَسٍ مَرْفُوعًا: إِنَّ فِي الْجنَّة نَهرا يُقَالُ لَهُ رَجَبٌ مَاؤُهُ أَشَدُّ بَيَاضًا مِنَ اللَّبَنِ وَأَحْلَى مِنَ الْعَسَلِ مَنْ صَامَ يَوْمًا مِنْ رَجَبٍ سَقَاهُ اللَّهُ مِنْ ذَلِكَ النَّهْرِ....وَحَدِيثُ أَنَسٍ أَنَّ النَّبِيَّ كَانَ إِذَا دَخَلَ رَجَبٌ قَالَ: اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي رَجَبٍ وَشَعْبَان وبلغنا رَمَضَان

ترجمہ:

إِنَّ فِي الْجنَّة نَهرا يُقَالُ لَهُ رَجَبٌ مَاؤُهُ أَشَدُّ بَيَاضًا مِنَ اللَّبَنِ وَأَحْلَى مِنَ الْعَسَلِ مَنْ صَامَ يَوْمًا مِنْ رَجَبٍ سَقَاهُ اللَّهُ مِنْ ذَلِكَ النَّهْرِ

اس حدیث کو امام ابن حجر عسقلانی نے ضعیف کہہ کر بیان کیا ہے اور حدیث أَنَّ النَّبِيَّ كَانَ إِذَا دَخَلَ رَجَبٌ قَالَ: اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي رَجَبٍ وَشَعْبَان وبلغنا رَمَضَان

کو

بھی امام ابن حجر نے ضعیف کہہ کر لکھا ہے

(المرفوعة في الأخبار الموضوعة ,page 59)

.

④قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «رَجَبٌ شَهْرٌ عَظِيمٌ، يُضَاعِفُ اللهُ فِيهِ الْحَسَنَاتِ، فَمَنْ صَامَ يَوْمًا مِنْ رَجَبٍ فَكَأَنَّمَا صَامَ سَنَةً

ترجمہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رجب عظمت والا مہینہ ہے،اللہ اس میں نیک کام عبادات پر اجر بڑھا کر دیتا ہے،پس جس نے رجب میں ایک دن کا روزہ رکھا گویا کہ اسکا ثواب ایک سال کے روزوں جتنا ہے

(طبرانی کبیر حدیث5538, نحوہ فی شعب الایمان حدیث3520 الترغيب والترهيب لقوام حدیث1853)

.

اس روایت کی دو سندیں مجھے ملیں

¹حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا مُعَلَّى بْنُ مَهْدِيٍّ الْمَوْصِلِيُّ، ثنا عُثْمَانُ بْنُ مَطَرٍ الشَّيْبَانِيُّ، عَنْ عَبْدِ الْغَفُورِ يَعْنِي ابْنَ سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ أَبِيهِ(طبرانی کبیر حدیث5538)

اس سند کے راوی عُثْمَانُ بْنُ مَطَرٍ الشَّيْبَانِيُّ پر شدید جرح ہے اکثر نے ضعیف کہا مگر ابن حبان نے کذاب کہا اس لیے کئ علماء نے اس سند کے واسطے سے مذکورہ حدیث کو من گھڑت کہا مگر انہوں نے اسکی دوسری سند پر کلام نہ کیا

اس کی دوسری سند یہ ہے

.

²حدثنا سليمان بن إبراهيم، ثنا الفضل بن محمد بن سعيد، ثنا عبد الله بن محمد الصالحاني، ثنا أبو جعفر بن زهير التستري، ثنا محمد بن عبد الله، عن عبيد بن عقيل، ثنا إبراهيم بن سليمان الدباس، ثنا لاحق بن النعمان، عن عبد العزيز، عن أبيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم

(الترغيب والترهيب لقوام حدیث1853)

.

اس سند کے راویوں کی تحقیق درج ذیل ہے

سليمان بن إبراهيم

الرجل في نفسه صدوق ، وقد يهم ، أو يترخص في الرواية بحكم الثبت

سليمان بن إبراهيم اصلا تو سچے معتبر ہیں مگر کبھی وہم کر جاتے ہیں یا حکم لگانے میں نرمی کرتے ہیں

(سیر اعلام النبلا جز19 ص21)

.

الفضل بن محمد بن سعيد

أبو الفضل محمد بن عبد الغفار بن محمد بن سعيد بن عبد الواحد بن منصور بن محمد بن سعيد القاساني الشروطي المعدل من أهل أصبهان

(التحبير في المعجم الكبير2/160)

.

عبد الله بن محمد الصالحاني

اس پر دوٹوک جرح یا تعدیل نہ ملی، زیادہ سے زیادہ اسے مجھول یا مبہم راوی کہا جائے گا جس سے ضعف ثابت ہوگا من گھڑت ہونا کذاب ہونا لازم نہیں آتا

.

أبو جعفر بن زهير التستري

الإمام، الحجة، المحدث، البارع، علم الحفاظ، شيخ الإسلام أبو جعفر: أحمد بن يحيى بن زهير التستري الزاهد

أبو جعفر بن زهير التستري امام ہے حجت ہیں نیک عالم حافظ شیخ الاسلام ہیں صوفی ہیں

(رجال الحاكم في المستدرك1/208)

.

محمد بن عبد الله

انکی دوٹوک تمییز نہ ملی کہ کونسا راوی ہے...زیادہ سے زیادہ اسے مجھول یا مبہم راوی کہا جائے گا جس سے ضعف ثابت ہوگا من گھڑت ہونا کذاب ہونا لازم نہیں آتا

.

عبيد بن عقيل

قَالَ أَبُو حاتم: صدوق

عبيد بن عقيل سچے ہیں

(تاريخ الإسلام5/119)

.

إبراهيم بن سليمان الدباس

إِبْرَاهِيمَ بْنِ سُلَيْمَانَ الدَّبَّاسِ وَهُوَ ثِقَةٌ

إبراهيم بن سليمان الدباس ثقہ(مضبوط معتبر)ہیں

(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد ,8/111)



لاحق بن النعمان کو امام ابن حبان نے ثقہ شمار کیا

(الثقات لابن حبان9/248)

.

عبدالعزیز عن ابیہ

اکمال میں عبدالعزیز نام کے سات روات کے احوال لکھے ہیں کوئی بھی کذاب یا ضعہف جدا نہیں...لیھذا اس روایت میں کونسا عبدالعزیز مراد ہے اس جہالت و ابہام سے زیادہ سے زیادہ ضعف ثابت ہوتا ہے....موضوع من گھڑت ہونا لازم نہیں آتا

(إكمال تهذيب الكمال ,8/275)

.

قَوْلُ ابْنِ حَجَرٍ: وَفِيهِ رَاوٍ مَجْهُولٌ، وَلَا يَضُرُّ لِأَنَّهُ مِنْ أَحَادِيثِ الْفَضَائِلِ

امام ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ اس روایت میں راوی اگرچہ مجہول ہے لیکن اس سے کوئی نقصان نہیں ہوگا کیونکہ یہ حدیث فضائل میں سے ہے اور فضائل میں مجھول راویوں والی حدیث بھی مقبول ہے 

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ,2/569)

.

امام اہلسنت سیدی احمد رضا فرماتے ہیں:

امام الشان علامہ ابن حجر عسقلانی رسالہ قوۃ الحجاج فی عموم المغفرۃ للحجاج پھر خاتم الحفاظ لآلی میں فرماتے ہیں:

لا یستحق الحدیث ان یوصف بالوضع بمجرد ان روایہ لم یسم صرف راوی کا نام معلوم نہ ہونے کی وجہ سے حدیث موضوع کہنے کی مستحق نہیں ہوجاتی۔ (ت)

( اللآلی المصنوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ کتاب اللباس مطبعۃ التجاریۃ الکبری مصر ۲/۲۶۴)

(فتاوی رضویہ5/252)

.

⑤الحدیث:

صوم أول يوم من رجب كفارة ثلاث سنين والثاني كفارة سنتين والثالث كفارة سنة ثم كل يوم شهرا

رجب کےپہلےدن کا روزہ تین سال(کے صغیرہ ، بھول چوک کے گناہوں)کا کفارہ ہے اور دوسرا روزہ دو سال کا کفارہ ہے اور تیسرا روزہ ایک سال کا کفارہ ہے اور پھر اگلے دنوں میں سے ہر دن کا روزہ ایک ماہ کا کفارہ ہے

(الجامع الصغير وزيادته حدیث7940)

.

 رمز المصنف لضعفه

مصنف نے اشارہ کیا ہے ضعیف ہونے کا 

(التنوير شرح الجامع الصغير7/10)

.

*شب معراج کے متعلق  دو احادیث مبارکہ*

الحدیث:

فى رجب يوم وليلة من صام ذلك اليوم وقام تلك الليلة كان كمن صام من الدهر مائة سنة وقام مائة سنة وهو لثلاث بقين من رجب

ترجمہ:

رجب میں ایک ایسا دن ہے اور ایک ایسی رات ہے کہ جس نے اس دن روزہ رکھا اور اس رات قیام اللیل(عبادات،شب بیداری) کی تو گویا اس نے زمانے میں سے سو سال روزے رکھے اور سو سال قیام اللیل کیا،اور وہ ستائیس رجب ہے.

(شعب الایمان حدیث3811)

(تبیین العجب ص43)

(كنز العمال حدیث35169)

(فضل رجب لابن عساكر ص315)

(جامع الأحاديث حدیث14813)

.

امام ابن حجر نے اسکی سند پر تفصیلی کلام کیا…موضوع متھم کذاب وغیرہ کا حکم نہ لگایا بلکہ نکارت ضعیف کا حکم لگایا

(تبیین العجب ص43)

.

امام ابن عراق نے امام ابن حجر کی جرح کو برقرار رکھتے ہوئے ضعیف قرار دیا

(تنزيه الشريعة المرفوعة2/161)

.

امام سیوطی نے ضعیف قرار دیا

(الدر المنثور في التفسير بالمأثور4/186)

.

امام ابن عساکر نے غریب ضعیف قرار دیا

(فضل رجب لابن عساكر ص315)

.

علامہ لکھنوی نے کذاب یا متھم بالکذب کی جرح نہ کی، ضعیف نکارت کی جرح کو برقرار رکھا 

(الآثار المرفوعة في الأخبار الموضوعة ص60)

.

امام بیھقی نے ضعیف قرار دیا

(شعب الإيمان5/345)

.

الحدیث:

بعثت نبياً في السابع والعشرين من رجب فمن صام ذلك اليوم كان له كفارة ستين شهراً

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ 27 رجب کو میں نبی مبعوث ہوا تو جو شخص اس دن کا روزہ رکھے گا اس کے لیے ساٹھ مہینوں کا کفارہ ہوگا

(تبین العجب ص44..تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة2/161)

.

امام ابن حجر نے ضعیف نکارت کا حکم لگایا...موضوع متھم متروک وغیرہ کا حکم نہ لگایا(تبین العجب ص44)

.

امام ابن عراق نے ضعیف نکارت کا حکم لگایا...موضوع متھم متروک وغیرہ کا حکم نہ لگایا(تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة2/161)

.

فضائل میں حدیث ضعیف پے عمل جائز و ثواب ہے

اصول:

يتْرك)أَي الْعَمَل بِهِ فِي الضَّعِيف إِلَّا فِي الْفَضَائِل

فضائل کے علاوہ میں حدیث ضیف پر عمل نہ کیا جائے گا مگر فضائل میں ضعیف حدیث پر عمل کرنا جائز ہے

(شرح نخبة الفكر للقاري ص185)

.

قال العلماءُ من المحدّثين والفقهاء وغيرهم: يجوز ويُستحبّ العمل في الفضائل  والترغيب والترهيب بالحديث الضعيف ما لم يكن موضوعاً

علماء محدثین فقہاء وغیرہ نے فرمایاکہ فضائل ،ترغیب و ترہیب میں جائز ہے مستحب و ثواب ہے ضعیف حدیث پے عمل کرنا بشرطیکہ موضوع و من گھڑت نہ ہو 

(الأذكار للنووي ص36)

.

*تلاوت ذکر درود روزے خیرات نوافل

علم سیکھنا سکھانا پھیلانا الغرض جس قدر ہوسکے مختلف قسم کی نیکیاں کیجیےکہ نہ جانے کونسی ادا ، کونسی نیکی بارگاہ الہی میں مقبول ہوجائے…شرک بدعت ، شرک بدعت کہنے والوں سے دور رہیے*

.

رجب کی فضیلت میں اور بھی ضعیف روایات ہیں اور فضائل میں جمھور علماء محدثین کےمطابق ضعیف مقبول ہے اور رجب کے متعلق کچھ من گھڑت روایات بھی ہیں لیھذا ماہر وسیع علم والے سے تصدیق کرائیں عمل کریں شیئر کریں...

.

نوٹ:

أفاده الحافظ وغيره غير أن مجموع الروايات يحصل منها الحسن للغير

حافظ ابن حجر عسقلانی اور اس کے علاوہ دیگر ائمہ نے یہ فائدہ لکھا ہے کہ ضعیف روایات مجموعی طور پر ترقی کرکے حسن للغیر بن جاتی ہیں

(السراج المنير شرح الجامع الصغير,2/105)

لیھذا رجب کی کئ ضعیف روایات مل کر مجموعا حسن  کہلائیں تو کوئی بعید نہیں


نوٹ:

وَأَمَّا حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ عِنْدَ ابْنِ مَاجَهْ بِلَفْظِ: إنَّ النَّبِيَّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - «نَهَى عَنْ صِيَامِ رَجَبٍ» فَفِيهِ ضَعِيفَانِ: زَيْدُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ، وَدَاوُد بْنُ عَطَاءٍ

اور وہ جو ابن ماجہ میں حدیث پاک ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے رجب کے روزے رکھنے سے منع فرمایا تو اس حدیث میں دو راوی ضعیف ہیں نمبر ایک زید بن عبد الحمید اور دوسرا داود بن عطاء(نیز یہ حدیث صحاح و حسن اور کئی ضعیف احادیث کے برخلاف بھی ہے اور اس سے ممانعت کا حکم نکلتا ہے اور حکم میں  ضعیف غیرمعتبر ہے، ضعیف تو فضائل میں معتبر ہوتی ہے لیھذا ابن ماجہ والی روایت مردود و ناقابل حجت ہے)

[الشوكاني ,نيل الأوطار ,4/293]

.

.======================

سوال:

کچھ لوگوں ، کچھ عامل باباؤں کا خیال ہے کہ رجب مہینے میں اتنے بزرگوں کی وفات ہوئ نبی پاک بیمار ہوے پھر بھی بلاوں کا مہینہ کیون نہیں..؟ ہزار ہزار بلائیں نازل ہوتی ہیں اس لیے تو اسکو #ہزاری کہتے ہیں.. اس مہینے برج ستارے کے لحاظ سے بھی بلائیں نحوست آتی ہیں...کم سے کم لوگ اسی بہانے خیرات تو کرتے ہیں

.

جبکہ دوسری طرف ایسے حضرات بھی ہیں جو کہتے ہیں رجب کی کوئی فضیلت ثابت نہیں... بلکہ اس کی تعظیم پر حضرت عمر لوگوں کو سزا دیا کرتے تھے...

.

جواب:

نبی پاک کا مرض رجب نہیں بلکہ صفر میں بڑھا تھا... اور ویسے تو محرم ربیع الاول رمضان وغیرہ تمام مہینوں میں بزرگوں کی وفات ہوئی تو کیا سارا سال نحوست...؟؟ہرگز ایسا نہیں... اسلام نے اسکی تردید فرمائی ہے.. رہی بات نجومیوں کی تو نجومیوں کی ایسی باتوں کا ماننا جرم.ہے...بلکہ کبھی کفر تک ہوجاتا ہے......

الحدیث:

سأل رسول الله صلى الله عليه وسلم ناس عن الكهان، فقال: «ليس بشيء»

لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کاہنوں نجومیوں(تکے بازو) کے متعلق دریافت کیا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا یہ کچھ بھی چیز نہیں ہیں معتبر نہیں ہیں

(بخاری حدیث5762)

.

الحدیث:

من أتى عرافا أو كاهنا فصدقه بما يقول فقد كفر بما أنزل على محمد ...

جو کاہنوں یا عراف(کاہن نجومی اندازےباز، تکےباز، خلاف اسلام کشف و مراقبہ، قیافہ سناسی، دست شناسی،ڈھارو، جنات مؤکلات خود ساختہ اصول و علوم وغیرہ شرعا غیرمعتبر ذرائع کے ذریعے غیبی معلومات و حالات کردار واقعات قسمت بتانے والے) کے پاس جائے اور اسکی بتائی ہوئی بات کی تصدیق کرے تو بے اس نے کفر کیا اسکا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا

(مستدرک حدیث15، جامع صغیر حدیث10883)

 


.

مسئلہ 40:

نجوم کی اس قسم کی باتیں جن میں ستاروں کی تاثیرات(وفات حیات پیدائش وبائیں نحوست وغیرہ) بتائی جاتی ہیں، کہ فلاں ستارہ طلوع کریگا تو فلاں بات ہوگی، یہ بھی خلاف شرع ہے۔ اس طرح نچھتروں کا حساب کہ فلاں نچھتر سے بارش ہوگی یہ بھی غلط ہے، حدیث میں اس پر سختی سے انکار فرمایا۔

(بہار شریعت حصہ 16 ص659)

.

الحدیث:

من أتى عرافا فسأله عن شيء، لم تقبل له صلاة أربعين ليلة

ترجمہ:

جو عراف(کاہن نجومی اندازےباز، تکےباز، خلاف اسلام کشف و مراقبہ، قیافہ سناسی، دست شناسی،ڈھارو، جنات مؤکلات خود ساختہ اصول و علوم وغیرہ شرعا غیرمعتبر ذرائع کے ذریعے غیبی معلومات و حالات کردار واقعات قسمت بتانے والے) کے پاس جائے اور کچھ پوچھے تو اسکی چالیس راتوں کی نماز قبول نہیں ہوتی...(مسلم حدیث2230)


*نجومی جعلی قطب میڈیا پےبٹھائےہوتےہیں…ایک طرح سےمعتبر بتائےجاتےہیں…ٹیم سرعام،صحافی کب انکےخود ساختہ اصول.و.جہالات ایکسپوز کریں گے…؟*

.

نوٹ:

ہم جائز دم درود دعا کرامت کے منکر نہیں، پکےمعتدل سنی مسلمان ہیں الحمد للہ عزوجل.....دوا دعا دم درود صدقہ سب سنت ہیں، بہتر ہے  کہ دوا  اور ماثورہ دعا ، ماثوہ دم درود صدقہ عبادات سب پے عمل کرنا چاہیے ناجانے کس سبب وسیلے ذریعے سے شفا مل جائے، ماثورہ دعا دم کے علاوہ جائز وظائف ورد بھی ہوتے ہیں مگر ان سے بچنے ماثورہ پے عمل کرنے ہی میں عافیت و بھلائی ہے

.

اعلی حضرت امامِ اہلسنت ولیِ کامل صوفی باصفا عالم و محقق مفتی و مجدد سیدی احمد رضا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:

میرے پاس ان عملیات کے ذخائر بھرے ہیں لیکن بحمد اللہ آج تک کبھی اس طرف خیال بھی نہ گیا- ہمیشہ ان دعاؤں پر جو احادیث میں ارشاد ہو میں نے عمل کیا میری تو تمام مشکلات انہی سے حل ہوتی رہتی ہیں

(ملفوظات اعلیٰ حضرت ص142)

.

.

لوگوں کو خیرات کی ترغیب دی جاے مگر برحق سچ طریقے سے.. بس دیکھا دیکھی میں ختم خیرات دیگیں وغیرہ ٹھیک نہیں... رجب کی نحوستوں بلاؤں سے بچنے کے لیے خیرات کرنا ٹھیک نہیں کیونکہ رجب عظمت والا مہینہ ہے نحوست والا نہیں

 لوگوں کو پتہ ہونا چاہیے کہ مذمت بھی ہے اور فضیلت بھی... اور یہ بھی پتہ ہونا چاہیے کہ خیرات ناکرنے سے کچھ نہیں ہوگا... ختم خیرات ضروری نہیں..میں تو اکثر کہتا ہوں کہ ختم سے بہتر ہے کہ اہلِ خانہ خود ملکر ختم نکالیں.. تلاوت جیسا کام بھی دوسروں سے کرانے کی عادت ٹھیک نہیں..خوب تلاوت کریں لیکن ساتھ ساتھ مستند ترجمہ تفسیر پڑھنے کی بھی عادت بنائیں

.

باقی رجب کی تو عظمت و شان بیان ہوئی ہے اور جہالت کی رسم.و سوچ سے روکا گیا ہے.. رجب میں لوگ بتوں کے نام سے انکی خوشی یا بلاؤں کے ٹالنے کے لیے جانور ذبح کرتے تھے جسکو عتیرہ اور رجبی کہا جاتا تھا... ان تمام سے اسلام نے روک دیا اور حکم فرمایا گیا کہ ایسی جاہلانہ مشرکانہ سوچ کے بغیر رجب وغیرہ کسی مہینے میں ذبح صدقہ خیرات کیا جاسکتا ہے

.

يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا كُنَّا نَعْتِرُ عَتِيرَةً فِي الْجَاهِلِيَّةِ فِي رَجَبٍ، فَمَا تَأْمُرُنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: " اذْبَحُوا فِي أَيِّ شَهْرٍ مَا كَانَ، وَبَرُّوا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَأَطْعِمُوا

عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم بے شک ہم رجب میں عتیرہ کرتے تھے تو آپ کیا حکم فرماتے ہیں اب.....تو آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کسی بھی مہینے میں ذبح کرو اور اللہ کی اطاعت کرو نیکی کرو اور کھلاو

[سنن النسائي ,7/169حدیث4229]


الحدیث:

اور عتیرہ نا کرو.(ترمذی حدیث1512)

ابوداؤد حدیث نمبر2788 میں اسکو رجبی کہا گیا ہے..

عتیرہ،رجبیہ وہ بکری جسکو زمانہ جاہلیت میں ماہِ رجب میں بتوں کے نام پر ذبح کیا جاتا تھا..(المنجد ص628)

.

عتیرہ،رجبیہ وہ جانور ہے جو رجب میں تعظیم و تقرب کے لیے ذبح کیا جاتا تھا پھر اس سے روک دیا گیا.

(دیکھیے ترمذی تحت الحدیث1512.. البحر الرائق8/318)


.

روزہ ذبیحہ نوافل عبادت کریں... ویسے ہی خیرات کریں مگر جاہلانہ سوچ دیکھا دیکھی میں ایسی تعظیم و روزے نوافل ذبیحہ وغیرہ ٹھیک نہیں... حضرت عمر ایسی جاہلانہ سوچ و عمل پر سزا دیتے تھے،یا ایسی سوچ کے سدباب کےلیے منع کرتے، سزا دیتےتھے.(ماخذ المصنف ج2ص513.. فتاوی رضویہ جلد10 ص953)

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App,twitter nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.