*#جسے دیکھو پیسے شہرت اقتدار کے پیچھے پڑا ہے....مولوی اور سیاست.....؟؟ مولوی اور دولت......؟؟ دنڈا مذمت کب لازم.....؟؟ کب دنیا عبادت سے مقدم......؟؟*
کہتے ہیں:
پیسہ بری بلا ہے...جسکو دیکھو دنیا،دولت پیسے شہرت طاقت اقتدار کے پیچھے بھاگ رہا ہے.....مگر غور کیا جاے تو کوئی بھی دولت شہرت طاقت کے پیچھے نہیں بھاگ رہا
بلکہ
خواہشات کے پیچھے لگا ہوا ہے...مقاصد کے پیچھے لگا ہوا ہے...دولت شہرت طاقت اقتدار تو خواہشات.و.مقاصد کے حصول کے لیے حاصل کی جاتی ہیں...ورنہ کاغذ،دھات میں اتنا دم...........؟؟
.
*ہاں فرق ہے تو اچھی یا بری خواہشات کا*
*فرق ہے تو اچھے یا برے مقاصد کا*
*فرق ہے تو اچھے یا برے طریقہِ کار کا*
.
القرآن:
فَلَا تَتَّبِعُوا الۡہَوٰۤی اَنۡ تَعۡدِلُوۡا ۚ وَ اِنۡ تَلۡوٗۤا اَوۡ تُعۡرِضُوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرًا
تو خواہش کے پیچھے نہ جاؤ کہ حق سے الگ پڑو اگر تم ہیر پھیر کرو یا منہ پھیرو تو اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے
(سورہ نساء آیت135)
حق کی پرواہ و پیروی لازم، صبر برداشت اصلاح لازم تو کبھی سزا و للکار جوابی وار رد و مذمت بھی لازم مگر یہ سب اپنی چاہ و چاہت شہرت طاقت نوابی کے لیے نہ ہو بلکہ حق کے لیے ہو، اسلام کے لیے ہو
.
القرآن:
مَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ حَرۡثَ الۡاٰخِرَۃِ نَزِدۡ لَہٗ فِیۡ حَرۡثِہٖ ۚ وَ مَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ حَرۡثَ الدُّنۡیَا نُؤۡتِہٖ مِنۡہَا وَ مَا لَہٗ فِی الۡاٰخِرَۃِ مِنۡ نَّصِیۡبٍ
جس کی خواہش آخرت کی کھیتی ہو تو ہم اسے ضرور زیادہ دیں گے اور جس کی خواہش دنیا کی کھیتی ہو تو اسے دنیا میں سے دیں گے اور آخرت کے لئے اس کا کوئی حصہ نہیں ہے
(شوری آیت20)
آخرت کو اپنا مشن بنا لیجیے اور جائز دنیا کو اس مشن کا ہتھیار بن لیجیے پھر دیکھیے دینی و جائز دنیاوی جائز شہرت جائز طاقت جائز دولت ہر طرح کی کامیابی ضرور ملے گی، دنیاوی کامیابی بظاہر نہ بھی ملے تو پرواہ نہیں کہ اصل کامیابی آخرت کی کامیابی ہے
.
القرآن...ترجمہ:
میری نماز میری قربانی میرا جینا میرا مرنا سب اللہ ہی کےلیے ہے(سورہ انعام162)میں(اللہ)نے تمھارے لیے اسلام کو چنا ہے(مائدہ3) عالم پیر لیڈر جج جرنیل سیاستدان و عوام یعنی ہر مسلمان پر فرض ہے کہ اسکی زندگی و عہدے و کارکردگی کا مقصد یہ ہو کہ اس نے اسلام کے لیے جینا مرنا ہے اسلام کے لیے سب کچھ کرنا ہے
.
الحدیث:
مَا ذِئْبَانِ جَائِعَانِ أُرْسِلَا فِي غَنَمٍ بِأَفْسَدَ لَهَا مِنْ حِرْصِ الْمَرْءِ عَلَى الْمَالِ وَالشَّرَفِ لِدِينِهِ
دو بھوکے بھیڑیے اگر بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دئیے جائیں تو اتنا نقصان نہیں پہنچاتے جتنا کہ مال و دولت کی حرص اور طلب شہرت مومن کے دین کو نقصان پہنچاتے ہیں
(ترمذی حدیث2376)
دولت شہرت اکثر بڑی کتی چیز ہے، جسے ان کی چاہ لگ جائے وہ کسی کے بھی تلوے تک چاٹنے لگ جاتا ہے، جھوٹ دھاندلی منافقت ایجنٹی چمچہ گیری مکاری الغرض کسی بھی حد تک گر جاتا ہے…سچا اچھا ہمیشہ حق بولتا لکھتا ہے،باادب رہتا ہے،حق پے ڈٹا رہتا ہے چاہے اسے فاقے کاٹنے پڑیں یا بےنامی کی زندگی گذارنی پڑے…بہت خوش نصیب ہوتے ہیں وہ جو پاکیزہ شہرت دولت طاقت بھی رکھتے ہیں اور حق سچ کا دامن بھی کبھی نہیں چھوڑتے
.
الحدیث:
لَيْسَ الْغِنَى عَنْ كَثْرَةِ الْعَرَضِ ، وَلَكِنَّ الْغِنَى غِنَى النَّفْسِ
امیر وہ نہیں جسکےپاس فقط مال(دولت شہرت طاقت) بہت ہو، امیر وہ ہےجسکا دل بڑا امیر ہو(بخاری حدیث6446) امیر،لیڈر،بڑا وہ جو بااخلاق سچا اچھا نیک پاکیزہ رحمدل سخی دوسروں کا خیال رکھنےوالا ہو اور مفاد پرست، پیسہ پرست، من پرست،موقعہ پرست، ایجنٹ منافق مکار نہ ہو البتہ حلال دولت بھی اچھی چیز ہے بلکہ ضروری ہے
الحدیث:
نِعْمًا بِالْمَالِ الصَّالِحُ لِلرَّجُلِ الصَّالِحِ
کیا ہی اچھا ہےوہ"پاکیزہ مال و دولت" جو اچھےشخص کے پاس ہو...(مسند احمد حدیث7309)اے دیندارو پاکیزہ طریقے سے خوب دولت کماؤ ، اچھی جگہ خرچ کرو، طب ٹیکنالوجی سائنس طاقت سیاست میں جاؤ انہیں پاکیزہ بناؤ…اے دولتمندو طاقتورو سیاستدانوں ججو جرنیلو پاکیزہ و دیندار بن جاو
.
جب معاملہ ایسا ہے تو پھر اگر اچھے دیندار یا اچھے مولوی علامہ مفتی کے پاس کچھ دولت گاڑی بنگلہ پلاٹ ہوں تو اس پر تنقید و مذمت کی بارش نہیں کرنی چاہیے... بلکہ کلیجے میں ٹھنڈ پڑنی چاہیے کہ حلال پیسہ اچھے کے پاس جا رہا ہے... ہاں اگر فریب دھوکہ غلط طریقے سے یا دین کے نام پر لیے گئے پیسوں سے ذاتی دنیا بنائی جائے تو سخت سخت سخت جرم و گناہ ہے...جہاں بدگمانی افواہ کی مذمت ہے وہیں افواہوں کی تردید اور سد باب اور وضاحت بھی ضروری... تہمت کے مقامات سے بچنا بھی ضروری ہے..اچھے اخلاق بھی ضروری ہیں
.
بلکہ دیندار سچے اچھے باعمل علماء مشائخ مولوی حضرات کو جائز طریقے سے دولت مند کر دیجیے....اسے دنیا دولت کی فکروں سے ازاد کیجیے تاکہ وہ اچھے معاشرے کی تشکیل کے لیے افراد کی تعلیم و تربیت اچھے طریقے سے کرسکیں، انکے مدارس کو راشن دنیا دولت تعاون دیجیے مضبوط کیجیے....ہاں حساب کتاب دینا اور لینا بھی اچھا ہے بلکہ ضروری ہے تاکہ برائی کا موقعہ ہی نہ ملے تاکہ کسی کو بدگمانی کا موقعہ ہی نہ ملے
.
ایک دفعہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام کے پاس *دولتمندی* کا تذکرہ ہوا تو آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
لا بأس بالغنى لمن اتقى، والصحة لمن اتقى خير من الغنى، وطيب النفس من النعيم
ترجمہ:
دولت مندی(جائز طریقے سے دولت پیسہ کمانے) میں کوئی مضائقہ نہیں اُس کے لیے جو تقوی کرے، اور صحت دولت سے بہتر ہے اُس کے لیے جو تقوی کرے،اور اچھی طبیعت(خوش اخلاقی، پاکیزہ طبیعت) نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے
(ابن ماجہ حدیث2141)
.
الحدیث:
الْمُؤْمِنُ الْقَوِيُّ خَيْرٌ وَأَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنَ الْمُؤْمِنِ الضَّعِيف
(دینی دنیاوی جسمانی معاشی طبی ٹیکنالوجی وغیرہ ہر جائز و مناسب میدان میں)طاقت حاصل کرنے والا مومن
کمزور مومن سےزیادہ بہتر و اللہ کو زیادہ محبوب ہے..(مسلم حدیث2664)عبادات و دینی علم لینا دینا و عمل کرنا کے ساتھ ساتھ جائز دولت ،طاقت ، طب سائنس ٹیکنالوجی، دینی دنیاوی علوم فنون سیاست عدالت فوج و جائز دنیا میں جانا، سخاوت کرنا..امداد علم شعور لینا دینا،جدت محنت "مناسب جائز تفریح" ترقی احتیاط دوا دعاء عبادت توبہ استغفار اور سچوں اچھوں کو دولت و اقتدار میں لانا وغیرہ سب پے عمل کرنا چاہیے کہ وقت کا صحیح استعمال اور مسائل کا یہی بہترین حل ہے اور ترقی کی یہی راہ ہے
.
الحدیث:
إِذَا كَانَ فِي آخِرِ الزَّمَانِ لَا بُدَّ لِلنَّاسِ فِيهَا مِنَ الدَّرَاهِمِ وَالدَّنَانِيرِ يُقِيمُ الرَّجُلُ بِهَا دِينَهُ ودُنْيَاهُ
رسول کریمﷺنےفرمایا آخری زمانہ میں درھم و دینار(حلال دنیا دولت)ضروری ہوگی جسکےذریعےبندہ اپنا دین و دنیا قائم رکھےگا(طبرانی کبیر حدیث660)
.
ایک صحابی نے مریض پر سورہ فاتحہ کا دم کیا اور وہ صحیح ہوگیا، اس دم کے ذریعے علاج کرنے پر صحابی نے اجرت لی تو صحابہ کرام نے رسول کریم سے عرض کیا
کہ:
فقالوا: يا رسول الله، أخذ على كتاب الله أجرا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن أحق ما أخذتم عليه أجرا كتاب الله
ترجمہ:
عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فلاں نے کتاب اللہ(کے ذریعے دم کرنے)پر اجرت لی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کتاب اللہ(قرآن سے دم اور اسی طرح قرآن کی تعلیم، قرآن و اسلامی علوم کی تعلیم دینا و پھیلانا)زیادہ حق دار ہے کہ تم اس پر اجرت لو...(بخاری حدیث5737)
*دینی علم پڑھا کر پھیلا کر اسکی کمائی تنخواہ فیس امداد جائز و پاکیزہ کمائی ہے جیسا کہ حدیث پاک سے واضح ہوتا ہے مگر دین کے لبادے سے دھوکہ دے کر کمانا یا دین کے مخالف نظریات اور دین کے مخالف فتوے دے کر دنیا دولت کمانا انتھائی گھنوئنا جرم و گناہ و منافقت ہے بلکہ بات کفر تک جاسکتی ہے...* اس فرق کو سمجھنا بہت ضروری ہے... آج کچھ لوگ نوے فیصد اسلام کی درست تعلیمات نظریات پھیلاتے ہین مگر کچھ فیصد یا دو تین فیصد غلط نظریات پھیلا کر اسے جدت و محبت کا نام دے کر غیرمسلم ممالک گمراہ فرقوں سے عزت دولت کماتے ہیں وہ منافق و مجرم ہیں انکی نوے فیصد دینی خدمات کو مت دیکھیے بلکہ دو فیصد یا ایک فیصد ہی سہی مگر ان کے غلط نظریات کو دیکھیے جو اسے مردود قرار دے دیتے ہیں...شیطان نناوے فیصد نیک عبادت گذار خدمت گذار بہت علم والا تھا مگر ایک بہت بڑا سنگین جرم کرکے مردود قرار پایا..نناوے فیصد دودھ مین ایک فیصد پیشاب زہر ڈالا جائے تو ایسا دودھ مردود قرار پاتا ہے..
.
الحدیث القدسی:
قَالَ اللَّهُ تَعَالَى : إِنِّي لَسْتُ كُلَّ كَلَامِ الْحَكِيمِ أَتَقَبَّلُ
اللہ فرماتا ہے کہ میں دانشوروں کی ہر(اچھی)باتیں قبول نہیں کرتا(وہ قبول کرتا ہوں جو حق کہے لکھے حق ہوکر سچا و باعمل ہوکر)(مشکواۃ حدیث قدسی5338)
کسی مکار چمچے چاپلوس ایجنٹ منافق بدمذہب کی کتب رسائل تقریروں تحریروں دینی کام خدمات عبادات سے متاثر نہ ہوا کریں،فقط مقدار نہ دیکھیں،سچائی و عمل دیکھیں تحقیق کریں پھر متاثر ہوں پھر پھیلائیں،تعریف کریں
.
زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ : إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَهُ أَنْ يَتَعَلَّمَ كِتَابَ الْيَهُودِ، حَتَّى كَتَبْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُتُبَهُ، وَأَقْرَأْتُهُ كُتُبَهُمْ إِذَا كَتَبُوا إِلَيْهِ
سیدنا زید بن ثابت فرماتے ہیں کہ بے شک نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ یہودیوں کی لکھائی پڑھائی سکھیں حتی کہ میں یہودیوں کے طرف رسول کریم کے خطوط لکھتا اور یہودیوں کے خطوط پڑھ کر سناتا
(بخاری حدیث7195)
اس حدیث پاک میں واضح دلیل ہے کہ اسلام کی ترویج کے لیے، سوال جواب کے لیے، تحقیق کے لیے، اسلام کی سربلندی کے لیے انگریزی عبرانی سریانی جاپانی چینی وغیرہ مختلف زبانیں سیکھنا اور مدارس و اسکول کالجز میں سکھانا بہت ہی اہمیت کا حامل ہے بشرطیکہ اس سے مقصود جائز امر ہو
ان جائز اچھے امور میں سے یہ بھی ہے کہ دینی علوم کے ساتھ ساتھ دیناوی علوم و فنون سیکھ کر سکھا کر ہم اسلام کے نظریات دفاع کرسکتے ہیں، اصلاح کرسکتے ہیں، شکوک و شہبات کا جواب دے سکتے ہیں انہی کی زبان میں....اسی طرح دین علوم کے ساتھ ساتھ دنیاوی علوم و فنون سیکھ کر ہم عزت و وقار کی نگاہ سے دیکھے جائیں گے معاشرے میں اور ہماری دینی بات کی اہمیت ہوگی، ڈیجیٹل کمیونٹی ہمیں ڈیجیٹل پا کر اپنے پاس جگہ دے گی ہم انہیں سمجھا سکیں گے دین کی طرف راغب کر سکیں گے، دینی علوم کے ساتھ ساتھ دیناوی علوم و فنون ہونگے تو تعلقات بڑے بڑے لوگوں سے استوار کرنے میں اسانی ہوگی، انکی بات سوال خدشات سننے اور انہیں انہی کے انداز میں سمجھا سکیں گے، دینی علوم کے ساتھ ساتھ دنیاوی علوم و فنون سیکھے ہونگے تو کسی بھی دنیاوی جاب دنیاوی اداروں میں جاکر اسلام کی سچی تعلیمات و دینی کلچر عام کرنے میں مدد کر سکیں گے،دنیاوی علوم و فنون سے طاقت ملتی ہے ہم اس سے جائز دولت کما سکتے ہیں سیاست میں چھاسکتے ہیں تعلقات بڑے لوگوں سے مضبوط بنا سکتے ہیں انہیں سمجھ کر سمجھا کر معاشرتی فلاح و بہبود لا سکتے ہیں...!!
.
القرآن:
اَعِدُّوۡا لَہُمۡ مَّا اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ قُوَّۃٍ
جو قوت،طاقت ہوسکے تیار رکھو..(سورہ انفال آیت60)
آیت مبارکہ مین غور کیا جائے تو ایک بہت عظیم اصول بتایا گیا ہے... جس میں معاشی طاقت... افرادی طاقت... جدید ہتھیار کی طاقت...دینی علوم و مدارس کی طاقت, جدید تعلیم و ترقی کی طاقت.... علم.و.شعور کی طاقت... میڈیکل اور سائنسی علوم کی طاقت...دینی دنیاوی علوم فنون کی طاقت... اقتدار میں اچھے لوگوں کو لانے کی طاقت.. احتیاطی تدابیر مشقیں جدت ترقی اور دیگر طاقت و قوت کا انتظام و اہتمام کرنا چاہیے،یہ سب طاقتیں قوتیں حاصل کرنی چاہیے، مدارس و اسکول میں دینی علوم کے ساتھ ساتھ دنیاوی علوم و فنون سکھانے کا اہتمام ہونا چاہیے بشرطیکہ ان علوم و فنون کا مقصد جائز ہو، مقصود اسلام کی سربلندی ہو....!!
.
*#طاقت_سیاست_ووٹ_اور_مولوی.......؟؟*
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
كانت بنو إسرائيل تسوسهم الأنبياء، كلما هلك نبي خلفه نبي، وإنه لا نبي بعدي، وسيكون خلفاء فيكثرون
(بخاری حدیث نمبر3455)
مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمۃ نے اس حدیث پاک کا ترجمہ یوں فرمایا:
بنو اسرائیل کا سیاسی انتظام انبیاء کرام کرتے تھے،جب کبھی ایک نبی انتقال فرماتے تو دوسرے نبی ان کے پیچھے تشریف لاتے اور میرے بعد کوئی نبی نہیں،خلفاء ہونگے اور بہت ہونگے..(بخاری حدیث نمبر3455)
.
دیکھا برحق سچی سیاست تو انبیاء کرام کی سنت ہے...بلکہ علماء مولوی دینی حضرات پر لازم و ذمہ داری ہے کہ اہل علم انبیاء کرام کے وارث و نائب ہیں...(دیکھیے ابوداؤد حدیث3641)
.
پاکیزہ سیاست انبیاء کرام کی سنت ہے یہ کوئی بری چیز نہیں اس لیے دینی نعرے دینی سیاست کےلیے لگانا برحق و لازم ہے...دین کے نام پےدین کےلیے ووٹ لینا الیکشن لڑنا برحق و حسب طاقت لازم ہے...مانا کہ اس وقت مکمل اسلامی سیاست نہیں مگر ہم اہلسنت اس بری سیاست میں گھس کر اسے اسلامی سیاست بنانے کے منصوبے پے عمل پیرا ہیں...اس بری سیاست سے جتنا دور ہونگے اتنی ہی یہ سیاست بری ہوتی جائے گی اور مضبوط ہوتی جاءے گی....اس ناسور کا اس دور میں علاج یہی لگتا ہے کہ اس سیاست میں گھس کر اسے پاکیزہ بنایا جائے اگرچہ اس میں وقت لگ سکتا ہے مگر ہمارے پاس کوئی اور نعم البدل حسب طاقت کوئی اور چارہ نہیں..لیھذا ہمیں ہمت نہیں ہارنی چاہیے، کاہلی سستی نہیں کرنی چاہیے…اپنے دنیاوی نسلی مفادات کو پسِ پشت ڈال کر اسلامی سیاست والوں، سچےاہلسنت کا ساتھ دینا چاہیے انہیں ووٹ دینا چاہیے...سچےاہلسنت ہزار بار بھی الیکشن ہاریں تب بھی ہمت نہیں ہارنی چاہیے تب بھی ووٹ سچے اہلسنت کو دینا چاہیے کہ ظاہری ہار جیت اتنی معنی نہین رکھتی...معنی تو یہ بات رکھتی ہے کہ آپ نے ووٹ دین و سنت کے لیے دیا یا دنیاوی مفاد و نسلی مفاد میں دیا....؟؟
جس نے سچے اہلسنت علماء لیڈرز کو ووٹ دیا وہ ہار بھی جائے تب بھی اسکی جیت ہے کہ دین و سنت کے لیے ووٹ دیا،ساتھ دیا
.
القرآن،ترجمہ:
(اسلام و حق پے)نہ سستی کرو،نہ غم(آل عمران139
حق،سچ بظاہر ہار بھی جائے تو بھی جیتا ہوا ہوتا ہے
کوئی غم نہیں مگر سستی بھی جرم
.
تلخیصِ حدیث:
جو بلاعذر محض دنیاوی مفاد کےلیے بیعت کرے(حمایت کرے،ووٹ دے)اسے قیامت کے دن دردناک عذاب ہوگا(بخاری7212)
.
پاکستان بنا ہی دینی نعروں پے ہے دین کے نام پے ہی علماء و مشائخ اہلسنت اور علامہ اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح سب نے دو قومی نظریہ کے تحت ہی اور اسلام کے نام پے ہی الگ ملک حاصل کیا اور قران و سنت کو ہی ملک پاکستان کا آئین کہا...تو دین کے نام پے ووٹ لینا ضرورتا شرعا بھی درست ہے تو اکابرین و بانیان پاکستان کا بھی وطیرہ رہا ہے
.
قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا:
میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اس اسوہ حسنہ(سیرت نبی، سنت نبی)پر چلنے میں ہے جو ہمیں قانون عطا کرنے والے پیغمبر اسلام(حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم)نے ہمارے لیے بنایا ہے، ہمیں چاہیے کہ
ہم اپنی جمہوریت کی بنیادیں صحیح معنوں میں اسلامی تصورات اور اصولوں(قرآن و سنت) پر رکھیں..(قائد اعظم کے افکار و نظریات ص29)
.
سیاست انبیاء کرام،انکےوارث سچےعلماء کی سنت ہے(دلیل بخاری حدیث3455)انگریزوں کا مشن ہےپاکستان جغرافیائی ہو،مذہبی نہ ہو(اقبال کےحضور ص267ملخصا) پاکستان تو اہلسنت تعلیمات/عقائد/اعمال کےنام پےآزاد کرایا مگر لگتاہے اکثر سیاستدان جرنیلز میڈیا ججز لیڈرز پاکستان کو مذہب سے دور کرنے کےمشن پر ہیں…لازم ہےسچےاچھےمولوی سچی سیاست کریں،سچےمولوی فوج تعلیم جدت میڈیا دولت میں چھاجائیں…فوجی و سول ہر ادارےکےنصاب/نظام/افراد کو اسلامی کیا جائے
.
ثابت ہوتا ہے کہ اچھے سچے باعمل علماء مولوی ووٹ لینے کے زیادہ حقدار ہیں...اچھی سیاست طاقت کے زیادہ حقدار ہیں
مگر
اس وقت ہم مجبور ہیں کہ عالمی طاقتیں ایٹمی ملک کو اچھے سچے علماء سچے اچھے مولویوں کے حوالے کریں.....لیھذا کچھ نہ کچھ علماء مولوی جو سچے اچھے باشعور سمجھدار ہوں وہ سرکاری سیاسی عہدوں پے کامیاب ہوں آپکے ووٹ سے اور کچھ علماء مولوی جو اچھے سچے باعمل باشعور مدبر ہوں وہ ایوانوں میں ہوں کہ تنقید کرسکیں روک ٹوک سکیں اصلاح کرسکیں اور باقی دنیادار لوگ بظاہر دنیادار ہوکر دینداروں کے مہرے بن کر کام کریں، آہستہ آہستہ ہر ادارے کے نصاب و نظام کو اسلام مطابق کرتے جائیں
مگر
کوئی ایک دوسرے کو کیڑے مکوڑے غلام نہ سمجھے....بڑے چھوٹوں پر شفقت کریں انہیں ترقی دیں انکی رہنماءی کریں انہیً شعور دیں اور چھوٹے باادب ہوں بڑون کے مگر غلام و چمچے نہ ہوں کہ اسلام کی واضح نافرمانی کی بات آجائے تو ادب کے ساتھ اختلاف کریں اور دیگر معاملات میں اچھا اختلاف تدبر تطبیق توجیھ صبر وسعت سے کام لیں،سمجھیں سمجھاءیں، سلجھیں، سلجھاءیں،ترقی کریں ترقی کرائیں، ساتھ لیکر چلیں اپنا بناءیں نوابی تکبر تحقیر غرور مکاری لالچ ایجنٹی منافقت میں نہ آئیں.......!!
لیکن
کچھ ایسے مرد مجاہد بھی ہوں کہ للکاریں، اسلام کا کھل کر دفاع کریں علم سے طاقت سے ڈنڈے سے کہ بعضوں کی عقل ناقص ہوتی ہے انکے شر کو طاقت و ڈنڈے سزا سے روکا جاسکتا ہے کیونکہ علم و حکمت و تدبر کی فھم انکے بس کی بات نہیں ہوتی....ایسے نڈر دنیادار و مولوی و لیڈر و ورکرز بھی لازمی ہوجانے چاہیں تاکہ بعض دشمنون کو اس طاقت و رعب کے ذریعے ہدایت ملے یا فساد سے رکے رہیں کہ بعض خراب دماغ یا کمزور عقل مفادی ضدی چمچے استحصال کرنے والے مکار چور ڈاکو وغیرہ کا علاج سمجھانے کے ساتھ ساتھ کبھی ڈنڈا بھی علاج ہوتا ہے......!!
.
اللہ کو وہ امراء(حکمران،وزراء،لیڈر جرنیل)پسند ہیں جو علماء سےمل بیٹھ کر(اسلام مطابق)مشاورت و فیصلےکریں،حکومت چلائیں(کشف الخفاء2/389)علماء حق کی شان نہیں کہ وہ حکمرانوں کے مہرے بنیں…ہاں حکمرانوں پر لازم ہے کہ وہ اسلامی معاملات نصاب و نظام کی اسلامائیزیشن میں علماء صوفیاء کے مہرے بنیں، جدت ٹینکالوجی وغیرہ دنیاوی معاملات میں باہم معاون و مشاور بنیں
.
*#عہدہ ووٹ طلب کرنا.....؟؟*
بعض لوگ کہتے ہیں علماء و مشائخ کو اپنی مسند سنبھالنی چاہئے کرسیوں کے پیچھے نہیں بھاگنا چاہئے۔ان بھائیوں سے عرض ہے مسئلہ کرسی کے پیچھے بھاگ دوڑ کا نہیں بلکہ امانت و خیانت، اہل و نااہل کا ہے۔۔۔ جب کرپٹ لوگ حکمران بن جائیں اور ملک کو برباد کررہے ہوں تو بعض دیندار لوگوں کا آگے آنا ضروری ہوجاتا ہے اور اسکے لئے منصب کا طلب کرنا قطعا معیوب نہیں۔ ہاں بعض علماء مشائخ محض دینی اصلاحی معاملات میں مگن رہیں سیاسی نہ کہلائیں مگر ہوسکے تو اشارتا سچے اچھے کو ووٹ دینے کا بھی کہیں... حضرت یوسف علیہ السلام نے بادشاہِ مصر سے فرمایا تھا:
قَالَ ٱجْعَلْنِى عَلَىٰ خَزَآئِنِ ٱلْأَرْضِ ۖ إِنِّى حَفِيظٌ عَلِيمٌ (سورة يوسف - 55)
یوسف نے کہا مجھے زمین کے خزانوں پر کردے بے شک میں حفاظت والا علم والا ہوں۔
حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی لکھتے ہیں:
’’جب نااہل سلطان یا حاکم بن کر ملک کو برباد کررہے ہوں یا برباد کرنا چاہتے ہوں تو دین و ملک کی خدمت کے لئے حکومت چاہنا حاصل کرنا ضروری ہے۔‘‘
(مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح، جلد 5، کتاب الامارۃ والقضاء، شرح حدیث 582)
.
*#تصوف...اور کب دنیا عبادت سے مقدم.....؟؟*
مذکورہ احادیث اور اس کے علاوہ دیگر آیات و احادیث کے تحت تصوف کی کتابوں میں حلال کمائی پر زور دیا گیا ہے حتی کہ مشھور صوفی امام غزالی علیہ الرحمۃ نے تصوف کی مشھور کتاب احیاء العلوم میں کسب حلال پر مستقل باب باندھا اور یہاں تک لکھ دیا کہ کبھی کسب حلال تو (نفلی )عبادات سے بھی بڑھ کر اہم ہوجاتا ہے.. آپ نے مذکورہ حدیث لکھ کر ارشاد فرمایا کہ:
وَإِنْ كَانَ مُتَعَبِّدًا يَمْنَعُهُ الْكَسْب ُمِنْ وَظَائِفِ الْعِبَادَاتِ وَأَوْرَادِ الْأَوْقَاتِ فَلْيَكْتَسِبْ لِأَنَّ الْكَسْبَ أَوْلَى مِنْ ذلك
ترجمہ:
اور اگر عبادت گذار ہے مگر دولت کمانا اسے نفلی عبادات و اوراد سے روکتے ہیں تو اسے چاہیے کہ حلال دولت کمائے کیونکہ حلال کمائی نفلی عبادات و وظائف سے مقدم ہے
(احیاء العلوم 1/221)
.
صوفیاء کرام جو دنیا کی مذمت کرتے ہیں اس سے مراد وہ دنیا ہے جو اللہ سے غافل کردے ورنہ وہ دنیا جو اللہ سے غافل نا کرے اسکی مذمت نہیں بلکہ ایسی دنیا دولت کمانا تصوف کا حصہ ہے جو اللہ کی طرف لے جائے.. تاج الصوفیاء امام غزالی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں
ورب شخص يشغله وجود المال ورب شخص يشغله عدمه والمحذور ما يشغل عن الله عز وجل
ترجمہ:
مالت و دولت(جدید دنیاوی علوم و فنون) کا وجود کبھی کسی شخص کو اللہ سے غافل کر دیتا ہے اور کبھی کسی شخص کو مال و دولت کا نا پایا جانا اللہ سے غافل کر دیتا ہے اور جو اللہ سے غافل کر دے اس سے بچنے کا حکم ہے..
(احیاء العلوم4/277)
دیکھا کبھی دولت طاقت کا نہ پایا جانا اللہ سے غافل کر دیتا ہے ایسی صورت میں دنیا دولت طاقت جائز طریقے سے کمانا ضروری ہے تاکہ اللہ سے غفلت پیدا نہ ہو اور کبھی دولت طاقت کا پایا جانا دولت کمانے میں مگن و بےلگام ہوجانا اللہ سے دور کرتا ہے ایسی کمائی و دولت و طاقت سے اللہ کی پناہ......!!
.
*#پیارے مسلمان بھائیو یاد رکھو........!!*
الحدیث:
أَلَا إِنَّ شَرَّ الشَّرِّ، شِرَارُ الْعُلَمَاءِ، وَإِنَّ خَيْرَ الْخَيْرِ، خِيَارُ الْعُلَمَاءِ
ترجمہ:
خبردار............!! بےشک بد سے بدتر چیز برے علماء ہیں اور اچھی سے اچھی چیز اچھے علماء ہیں
(دارمی حدیث382)
غور کیا جائے تو اس حکم میں علم و معلومات پھیلانے والے تمام لوگ و ذرائع اس حکم میں شامل ہیں
لیھذا
علماء، معلمین، مرشد، اساتذہ، میڈیا، سوشل میڈیا، صحافی، تجزیہ کار،وکیل،جج،جرنیل،مبلغ ، واعظ وغیرہ معلومات پھیلانے والے لوگ
اچھی سے اچھی چیز ہیں بشرطیکہ کہ اچھے ہوں سچے ہوں باعمل ہوں
اور
یہی لوگ بد سے بدتر ہیں اگر برے ہوں
.
القرآن،ترجمہ:
سچوں(کو پہچان کر ان)کا ساتھ دو(سورہ توبہ آیت119)
دین و دنیا کو بدنام تو جعلی منافق مکار کر رہےہیں....عوام و خواص سب کو سمجھنا چاہیےکہ #جعلی_مکار_منافق تو علماء پیر اینکر لیڈر سیاست دان جج وکیل استاد ڈاکٹر فوجی وغیرہ افراد و اشیاء سب میں ہوسکتےہیں،ہوتے ہیں
تو
جعلی کی وجہ سے #اصلی سےنفرت نہیں کرنی چاہیےبلکہ اصلی کی تلاش کرنی چاہیے اور اسکا ساتھ دینا چاہیے
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
whats App nmbr
00923468392475
03468392475
other nmbr
03062524574