خلیفہ بلافصل کون،روحانی اور سیاسی خلیفہ؟فرقہ واریت؟شیعوں اور چمن زمان کی روایات کا رد

*کیا رسول کریمﷺنے سیدنا علی کو خلیفہ بلافصل بنایا؟ یا کس کو بنایا؟ روحانی خلیفہ اور سیاسی خلیفہ؟ افضلیت؟اہلسنت کا نظریہ……؟؟فرقہ واریت مت کرو؟ شیعوں اور چمن زمان کی پیش کردہ روایات کا جائزہ.....!!*
شیعہ جعلی مکار محقق لکھتا ہے
أورد أبو عبد الله الذهبي مع شدة عناده ونصبه في ميزان الاعتدال أنه ذكر العقيلي بالاسناد عن ابن عباس عن النبي صلى الله عليه وآله أنه قال لام سلمة: ان عليا لحمه من لحمي وهو مني بمنزلة هارون من موسى غير أنه لا نبي بعدي، قال ابن عباس، ستكون فتنة فمن أدركها فعلية بخصلتين كتاب الله وعلي بن أبي طالب، فاني سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله يقول وهو آخذ بيد علي: هذا أول من آمن بي وأول من يصافحني يوم القيامة، وهو فاروق هذه الأمة يفرق بين الحق والباطل، وهو يعسوب المؤمنين والمال يعسوب الظلمة، وهو الصديق الأكبر، وهو خليفتي من بعدي
👈شیعہ جعلی محقق کہتا ہے کہ امام ذہبی اہلسنت کا عالم ناصبی ہوکر اس نے حدیث لکھی ہے کہ جس میں ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے بعد علی خلیفہ ہوں گے
(شیعہ کتاب اختيار معرفة الرجال - الشيخ الطوسي1/114..115)
.
بعض شیعہ جعلی محققین نے ابن مردویہ تاریخ دمشق لسان المیزان کا بھی حوالہ دیا ہے
اور
ان روایات سے ثابت کیا ہے کہ سیدنا علی خلیفہ بلافصل ہیں
قوله (أنت خليفتي بعدي) صريح في عدم الفصل
👈 شیعہ محققین کہتے ہیں کہ اہل سنت کی کتابوں میں حدیث ہے کہ حضرت علی میرے بعد خلیفہ ہوں گے یعنی دوٹوک فرمایا کہ خلیفہ بلا فصل ہوں گے
(شیعہ کتاب مجموعة الرسائل - الشيخ لطف الله الصافي1/92)
.
 شاید شیعہ کے جعلی محققین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے زبردستی کے سنی اور جعلی محقق چمن زمان صاحب نے بھی ان روایات کو لکھا ہے اور تقریبا یہی حوالے دیے ہیں بلکہ درج ذیل حوالے دیے ہیں لیکن خلیفتی بعدی کے الفاظ چمن زمان نے چھپا دیے حذف کر دیے
چمن زمان نے یہ حوالے دییے
تاریخ بغداد11/120...الکامل فی ضععفاء الرجال5/379
الضعفاء الکبیر للعقیلی2/47..تاریخ دمشق42/42..43
مناقب علی لابن مردویہ ص66 ح38
اسد الغابۃ6/265...الاستیعاب4/1744
الاصابۃ7/294...تاریخ دمشق42/450
(دیکھیے چمن زمان کی کتاب مولاء کائنات ص31)
.
*پہلا حوالہ اور شیعوں و چمن زمان کی مکاری خیانت*
شیعہ اور چمن زمان نے پہلا حوالہ میزان الاعتدال کا دیا ہے اور عین مکاری و خیانت کرتے ہوئے میزان الاعتدال کا تبصرہ چھپا دیا.... میزان الاعتدال میں اس روایت کو لکھنے کے بعد فرماتے ہیں
فهذا باطل
 یہ جو روایت ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ علی میرے بعد خلیفہ ہوں گے یہ روایت بالکل باطل (جھوٹی من گھڑت) ہے
(شمس الدين ,ميزان الاعتدال ,2/3)
کیوں باطل ہے وجہ بھی بتا دی کہ:
داهر بن يحيى الرازي، رافضي بغيض، لا يتابع على بلاياه
👈مذکورہ روایت کا راوی داہر بن یحییٰ ہے جو کہ رافضی بغض رکھنے والا ہے اور اس کی من گھڑت روایتوں کی کوئی متابعت نہیں کی گئی
(شمس الدين ,ميزان الاعتدال ,2/3)
.
ایک اور مقام پے میزان الاعتدال میں اسی روایت پر تبصرہ ہے کہ:قال ابن عدي: عامة ما يرويه في فضائل علي، وهو متهم في ذلك...قلت: قد أغنى الله عليا عن أن تقرر / مناقبه بالاكاذيب والاباطيل.
👈 یہ جو روایت ہے کہ علی میرے بعد خلیفہ ہوں گے یہ روایت اور سیدنا علی کی فضیلت میں دیگر روایت داہر کی من گھڑت جھوٹی روایتیں ہیں،ایسا امام ابن عدی نے فرمایا…میں (امام ذہبی) کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا علی کو غنی کر دیا ہے کہ انکی تعریف جھوٹی باطل روایتوں سے کی جائے
(شمس الدين ,ميزان الاعتدال ,2/417)
.
*دوسرا حوالہ اور شیعوں و چمن زمان کی مکاری خیانت*
شیعہ اور چمن زمان نے دوسرا حوالہ الضعفاء الکبیر للعقیلی
کا دیا اور عین مکاری و خیانت کرتے ہوئے مصنف کا تبصرہ چھپا دیا....الضعفاء الکبیر للعقیلی میں اس روایت کو لکھنے کے بعد مصنف فرماتے ہیں:
وَأَمَّا: «أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى» فَصَحِيحٌ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ، رَوَاهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنِ النَّبِيِّ عَلَيْهِ السَّلَامُ، وَرَوَاهُ عَامِرُ بْنُ سَعْدٍ، وَمُصْعَبُ بْنُ سَعْدٍ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ سَعْدٍ وَأَمَّا سَائِرُهَا فَلَيْسَ بِمَحْفُوظٍ
👈أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى دیگر طرق کی وجہ سے صحیح ہے باقی جو کچھ روایت میں ہے وہ محفوظ نہیں
(الضعفاء الكبير للعقيلي ,2/47)
امام عقیلی اس روایت کے مرکزی راوی کے متعلق فرماتے ہیں
دَاهِرُ بْنُ يَحْيَى الرَّازِيُّ كَانَ مِمَّنْ يَغْلُو فِي الرَّفْضِ وَلَا يُتَابَعُ عَلَى حَدِيثِهِ
👈( وہ جو روایت ہے کہ علی میرے بعد خلیفہ ہوں گے اس کا راوی) داہر ان لوگوں میں سے تھا جو رافضیت میں غلو کرتا تھا اس کی روایت پر کوئی متابعت نہ کی گئ
(الضعفاء الكبير للعقيلي ,2/46)
.
*تیسرا حوالہ اور شیعوں و چمن زمان کی مکاری خیانت*
شیعہ اور چمن زمان نے تیسرا حوالہ تاریخ دمشق
کا دیا اور عین مکاری و خیانت کرتے ہوئے مصنف کا تبصرہ چھپا دیا....تاریخ دمشق میں اس روایت کو لکھنے کے بعد مصنف فرماتے ہیں:
داهر بن يحيى الرازي كان يغلو في الرفض ولا يتابع على حديثه
👈( وہ جو روایت ہے کہ علی میرے بعد خلیفہ ہوں گے اس کا راوی) داہر ان لوگوں میں سے تھا جو رافضیت میں غلو کرتا تھا اس کی روایت پر کوئی متابعت نہ کی گئ
(تاريخ دمشق لابن عساكر ,42/43)
.
*چوتھا حوالہ اور اسکی تحقیق*
شیعہ اور چمن زمان نے چوتھا حوالہ مناقب علی لابن مردویہ
کا دیا ہے
تحقیق و جواب:
پہلے ایک قاعدہ ذہن نشین کیجیے
*قاعدہ*
مدار سند حدیث پر ہے اگر اس سے روایت کرنے والا کذاب یا وضاع متفرد ہو تو وہ روایت موضوع ہوگی اور اگر ضعیف ہے تو روایت صرف ضعیف ہوگی(شرح الزرقانی علی المواہب الفصل الاول من المقصد الثامن فی طبہ صلی اللہ علیہ وسلم ج9 صفحہ 337 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ)حضرت علامہ ملا علی قاری فرماتے ہیں: موضوع اس روایت کو کہا جاتا ہے جس کے راوی پر کذب کا طعن ہو(شرح نخبۃ الفکر فی مصطلحات اہل الاثر  جلد1 صفحہ 435 دار الارقم لبنان بیروت)
موضوع تو جب ہوتی کہ اس کا راوی متہم بالکذب ہوتا....یا ناقل رافضی(ہو اور) حضرات اہلبیت کرام علٰی سیدہم وعلیہم الصلاۃ والسلام کے فضائل میں وہ باتیں روایت کرے جو اُس کے غیر سے ثابت نہ ہوں(تو روایت موضوع  من گھرٹ جھوٹی مردود کہلائے گی)،جیسے حدیث:لحمك لحمی ودمك دمی (تیرا گوشت میرا گوشت،تیرا خُون میرا خُون.ت)
(فتاوی رضویہ 5/461..466ملتقطا)
.
اب ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ مناقب علی لابن مردویہ میں مکمل سند نہیں لکھی البتہ ایک راوی داھر بن یحیی کا نام لکھا ہے
داھر بن یحیی الرازی اور اسکا بیٹا عبداللہ کیسے راوی ہیں اس کے متعلق علماء اہلسنت کے تبصرے پڑہیے
عبد الله بن داهر بن يحيى بن داهر) ، وقال: عامة ما يرويه فى فضائل على وهو فيه متهم
👈عبداللہ بن داہر یہ سیدنا علی کے فضائل میں جو روایات بیان کرتا ہے اس میں عام طور پر یہ متھم ہے(یعنی جھوٹی روایت کرتا ہے)
(السیوطی  جامع الأحاديث23/91)
.
داهر بن يحيى الرازي، رافضي بغيض، لا يتابع على بلاياه
👈داہر بن یحییٰ ہے جو کہ رافضی بغض رکھنے والا ہے اور اس کی من گھڑت روایتوں کی کوئی متابعت نہیں کی گئی
(شمس الدين ,ميزان الاعتدال ,2/3)
.
دَاهِرُ بْنُ يَحْيَى الرَّازِيُّ كَانَ مِمَّنْ يَغْلُو فِي الرَّفْضِ وَلَا يُتَابَعُ عَلَى حَدِيثِهِ
👈داہر ان لوگوں میں سے تھا جو رافضیت میں غلو کرتا تھا اس کی روایت پر کوئی متابعت نہ کی گئ
(الضعفاء الكبير للعقيلي ,2/46)
.
رافضي خبيث"، وقال ابن عدي: "عامة ما يرويه في فضائل علي، وهو متهم في ذلك"
👈عبداللہ بن داہر خبیث رافضی ہے یہ سیدنا علی کے فضائل میں جو روایات بیان کرتا ہے اس میں عام طور پر یہ متھم ہے یعنی جھوٹی روایت کرتا ہے
(كتاب الضعفاء لأبي زرعة الرازي في أجوبته على أسئلة البرذعي - أبو زرعة الرازي وجهوده في السنة النبوية1/3)
.
فهذا باطل* ولم أر أحدا ذكر داهر هذا حتى ولا بن أبي حاتم بلديه انتهى وإنما لم يذكروه لأن البلاء كله من ابنه عبد الله وقد ذكروه واكتفوا به وقد ذكره العقيلي كما مضى وقال كان يغلو في الرفض ثم ساق الحديث المذكور
خلاصہ
مذکورہ روایت باطل ہے، اسکا ایک راوی عبداللہ بن داھر رافضیت میں غلو کرتا تھا
(لسان الميزان2/414)
.
رواه الْعُقَيْلِيُّ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ مَرْفُوعًا. وقال:  في إسناده داهر بن يحيى الرازي كان ممن يغلو في الرفض، ولا يتابع على حديثه، وابنه عبد الله بن داهر كذاب وهو الراوي عنه...وقد رواه الحاكم [في الكنى] من طريق أخرى، وقال: إسناده غير صحيح...وفي الميزان، في ترجمة إسحاق بن بشر الأسدي أنه كذاب وضاع، وأورد له هذا الحديث
خلاصہ:
مذکورہ روایت من گھڑت ہے کیونکہ اسکا راوی داھر رافضی تھا غلو کرتا تھا اسکی حدیث کی کسی معتبر راوی نے تائید نہیں کی، اسکا بیٹا عبداللہ بن داھر یہ بہت بڑا جھوٹا کذاب تھا،  روایات و احادیث اپنی طرف سے گھڑ لیتا تھا...ایسی روایت اسحاق بن بشر سے بھی  مروی ہے اسحاق بن بشر بھی بہت بڑا جھوٹا راوی تھا جو اپنی طرف سے روایات گھڑ لیتا تھا
( الفوائد المجموعة ص345)
.
*چمن زمان کا دیا ہوا پانچواں حوالہ اور چمن زمان کی مکاری.و.خیانت....*
 چمن زمان صاحب نے اسد الغابۃ کا حوالہ دیا اور خیانت مکاری کرتے ہوئے مصنف کا تبصرہ چھپا دیا یہ لیجئے مصنف کا تبصرہ پڑھییے
إسحاق بن بشر ممن لا يحتج بحديثه إذا انفرد، لضعفه ونكارة حديثه
👈اسحاق بن بشر یہ وہ راوی ہیں کہ جس کی حدیث سے دلیل نہیں پکڑی جاسکتی ہے جب یہ منفرد ہو کیونکہ یہ سخت ضعیف اور منکر ہے
(أسد الغابة ط العلمية ,6/265)
.
*چمن زمان کا دیا ہوا چھٹا حوالہ اور چمن زمان کی مکاری.و.خیانت....*
 چمن زمان صاحب نے الاستیعاب کا حوالہ دیا اور خیانت مکاری کرتے ہوئے مصنف کا تبصرہ چھپا دیا یہ لیجئے مصنف کا تبصرہ پڑھییے
چمن زمان صاحب نے خیانت مکاری کرتے ہوئے مصنف کا تبصرہ چھپا دیا یہ لیجئے مصنف کا تبصرہ پڑھییے
وَإِسْحَاقُ بْنُ بِشْرٍ مِمَّنْ لا يُحْتَجُّ بِنَقْلِهِ إِذَا انْفَرَدَ لِضَعْفِهِ وَنَكَارَةِ حديث
👈اسحاق بن بشر یہ وہ راوی ہیں کہ جس کی حدیث سے دلیل نہیں پکڑی جاسکتی ہے جب یہ منفرد ہو کیونکہ یہ سخت ضعیف اور منکر ہے
(الاستيعاب في معرفة الأصحاب ,4/1744)
.
*چمن زمان کا دیا ہوا ساتواں حوالہ اور چمن زمان کی مکاری.و.خیانت....*
 چمن زمان صاحب نے الاصابۃ کا حوالہ دیا اور خیانت مکاری کرتے ہوئے مصنف کا تبصرہ چھپا دیا یہ لیجئے مصنف کا تبصرہ پڑھییے
چمن زمان صاحب نے خیانت مکاری کرتے ہوئے مصنف کا تبصرہ چھپا دیا یہ لیجئے مصنف کا تبصرہ پڑھییے
احد المتروکین
👈 اسحاق بن بشر متروک راویوں میں سے ہے
(الإصابة في تمييز الصحابة ,7/294)

.
 اب آتے ہیں اس روایت کی سند کی طرف اس کی سند درج ذیل ہے
أخبرنا أبو الفتح يوسف بن عبد الواحد أنا شجاع أنا أبو عبد الله بن مندة أنا محمد بن يعقوب نا إبراهيم بن سليمان بن علي الحمصي نا إسحاق بن بشر نا خالد بن الحارث عن عوف عن الحسن عن أبي ليلى الغفاري
(تاريخ دمشق لابن عساكر ,42/450)
.
یہ روایت جھوٹی من گھڑت موضوع ہے کہ سند میں ایک راوی اسحاق بشر ہے جس کے متعلق علماء کے فرامین پڑہیے
إسحاق بن بشر الأسدي أنه كذاب وضاع
👈اسحاق بن بشر بہت بڑا جھوٹا اور موضوع من گھڑت روایتیں جھوٹی روایت بیان کرنے والا ہے
(الفوائد المجموعة ص345)
.
وَفِي الْمِيزَان: إِسْحَاق بْن بشر كَذَّاب فِي عداد يصنعُ الحَدِيث وَأورد لَهُ هَذَا الحَدِيث
👈میزان میں ہے کہ اسحاق بن بشیر کذاب ہے بہت بڑا جھوٹا ہے یہ موضوع جھوٹی روایتیں گھڑنے والوں میں سے ہے
(السیوطی اللآلئ المصنوعة في الأحاديث الموضوعة1/298)
.
، وَفِيه إِسْحَق بن بشر الْأَسدي الْكَاهِلِي مَعْدُود فِي الوضاعين
👈اسحاق بن بشیر یہ موضوع جھوٹی روایتیں گھڑنے والوں میں سے ہے
(تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة1/353)
.
*کچھ روایات میں دوٹوک ہے کہ نبی پاک نے بتایا کہ خلیفہ بلافصل ابوبکر ہونگے ....لیکن بعض علماء اہلسنت محققین نے ایسی روایات کو بھی موضوع من گھڑت جھوٹی قرار دیا ہے...ایک جھلک ملاحظہ کیجیے*
قال ابن عدي: يضع الحديث على الثقات. وقال ابن حبان: لا تجوز الرواية عَنْهُ..قلت: من موضوعاته: عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ: " {وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بعض أزواجه حديثا} ". قَالَ: أسرّ إليها أنّ أبا بَكْر خليفتي من بعدي
👈ایک راوی ہے جو ثقہ راویوں کی طرف نسبت کرکے جھوٹی من گھڑت روایات بیان کرتا ہے، اسکی جھوٹی من گھڑت روایات میں سے ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی زوجہ کو راز بتا کہ ابوبکر میرے بعد خلیفہ ہونگے
(ذہبی تاريخ الإسلام - ت بشار5/65)
.
قلت: ومن أباطيله سعدان بن نصر عن خالد عن هشام، عَن أبيه، عَن عائشة رضي الله عنها: {وإذ أسر النبي إلى بعض أزواجه حديثا} قال أسر إليها أن أبا بكر خليفتي من بعدي
👈جھوٹی من گھڑت روایات میں سے ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کسی زوجہ کو راز بتایا کہ ابوبکر میرے بعد خلیفہ ہونگے
(ابن حجر لسان الميزان ت أبي غدة3/314)
.
جبکہ
جمھور اہلسنت کا نظریہ ہے کہ:
ذھب جمھور اصحابنا... الیٰ ان النبی لم ینص علی امام بعدہ
👈جمہور اہل سنت کا نظریہ ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد کسی کو دوٹوک خلیفہ مقرر نہ فرمایا
(شرح المقاصد 5/259)
.
والاکثر وھم جمھور اصحابنا....علی انہ لم یکن نص علی امامۃ احد بعدہ
👈 اکثر اور جمہور اہل سنت کا مذہب ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے بعد کسی کو دوٹوک خلیفہ نہ بنایا
(المسامرہ2/143)
.
لَمْ يَنُصّ على خليفة، لا على أبي بكر، ولا على غيره، وهذا هو مذهب جماعة من أهل السُّنَّة، والصحابة، ومن بعدهم
👈نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد کسی کی خلافت پر دوٹوک تصریح نہ فرمائی، نہ ہی سیدنا ابوبکر صدیق کو خلیفہ دو ٹوک فرمایا اور نہ ہی کسی اور کو دوٹوک خلیفہ فرمایا... یہی اہل سنت کا مذہب ہے اور یہی صحابہ کرام کا مذہب ہے اور یہی صحابہ کے بعد کے اسلاف کا مذہب ہے
(البحر المحيط الثجاج في شرح صحيح الإمام مسلم بن الحجاج31/672)
.
فقد ترك أَي: التَّصْرِيح بالشخص الْمعِين، وَعقد الْأَمر لَهُ.
👈پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی معین شخص کو دو ٹوک الفاظ میں خلیفہ مقرر نہیں فرمایا
(عمدة القاري شرح صحيح البخاري ,24/279)


وَلَوْ كَانَ هُنَاكَ نَصٌّ عَلَيْهِ أَوْ عَلَى غَيْرِهِ لَمْ تَقَعِ الْمُنَازَعَةُ
👈کسی کے خلیفہ ہونے پر اگر دو ٹوک نص(آیت معتبر حدیث) ہوتی تو خلافت پر تنازعہ واقع ہی نہ ہوتا
(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ,9/3885)
.
أن النبى صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لم ينص على خلافة أبى بكر، ولا على علىٍّ، ولا على العباس
👈بے شک نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر صدیق اور سیدنا علی اور سیدنا عباس میں سے کسی کو دوٹوک الفاظ میں خلیفہ مقرر نہ فرمایا
(القاضي عياض ,إكمال المعلم بفوائد مسلم ,6/221)
.
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَنُصَّ عَلَى خَلِيفَةٍ وَهُوَ إِجْمَاعُ أَهْلِ السُّنَّةِ وَغَيْرِهِمْ
👈بے شک نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو دوٹوک خلیفہ مقرر نہ فرمایا اس پر اہل سنت وغیرہ کا اجماع ہے
(شرح النووي على مسلم12/205..206)
.
قال : قيل لعمر : الا تستخلف ، قال : إن استخلف ، فقد استخلف من هو خير ، مني ابو بكر ، وإن اترك ، فقد ترك من هو خير مني ، رسول الله صلى الله عليه وسلم
👈سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے عرض کیا گیا آپ کسی کو اپنا خلیفہ کیوں نہیں بناتے؟ جواب دیا کہ اگر میں کسی کو خلیفہ نہ کروں تو مجھ سے بہتر شخص نے یہ کام کیا ہے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو ٹوک الفاظ میں کسی کو خلیفہ نہیں بنایا اور اگر میں کسی کو خلیفہ بنا دوں تو مجھ سے بہتر شخصیت نے یہ کام کیا ہے یعنی سیدنا ابوبکر صدیق نے دوٹوک اپنا خلیفہ بنایا
(بخاری 7218)
.
، وإني لئن لا استخلف ، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يستخلف ، وإن استخلف فإن ابا بكر قد استخلف
👈اگر میں کسی کو خلیفہ نہ کروں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو ٹوک الفاظ میں کسی کو خلیفہ نہیں بنایا اور اگر میں کسی کو خلیفہ بنا دوں تو سیدنا ابوبکر صدیق نے دوٹوک اپنا خلیفہ بنایا
(مسلم 4714...ترمذی، ابوداؤد وغیرہ)
.
ہاں البتہ نصوص کے اشارات ثابت کرتے ہیں کہ خلیفہ اول و بلافصل سیدنا ابوبکر ہیں
مثلا
الحدیث:
أَتَتِ امْرَأَةٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَرَهَا أَنْ تَرْجِعَ إِلَيْهِ، قَالَتْ : أَرَأَيْتَ إِنْ جِئْتُ وَلَمْ أَجِدْكَ ؟ كَأَنَّهَا تَقُولُ : الْمَوْتَ، قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنْ لَمْ تَجِدِينِي فَأْتِي أَبَا بَكْرٍ
👈 ایک عورت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئی نبی پاک نے فرمایا کہ میرے پاس بعد میں آنا، اس عورت نے کہا کہ اگر میں آپ کو نہ پاؤں گویا کہ وہ یہ کہہ رہی تھی کہ شاید آپ وفات پا چکے ہوں تو؟ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تو مجھے نہ پائے تو ابوبکر کے پاس آنا
(بخاری حدیث3659)
.
اقْتَدُوا بِاللَّذَيْنِ مِنْ بَعْدِي : أَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ "
👈نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میرے بعد ابوبکر اور عمر کی پیروی کرنا
(ترمذی حدیث3662)
.
الْإِشَارَةِ إِلَى أَنَّهُ الْخَلِيفَةُ بَعْدَهُ
👈اس حدیث میں اشارہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق نبی پاک کی وفات کے بعد خلیفہ ہیں
(فتح الباري لابن حجر ,7/24)
.
 ما عليه أهل الأصول من أنه لم ينص على خلافه أحد (قلت) مرادهم لم ينص نصا صريحا
👈وہ جو اہل اصول کا متفقہ اصول ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو خلیفہ مقرر نہ فرمایا تو ان کی مراد یہ ہے کہ دوٹوک وضاحت کے ساتھ مقرر نہ فرمایا
(فيض القدير2/56)
.
وَلَمْ أَرَ فِي التَّعْرِيضِ بِالْخِلَافَةِ فِي سُنَنِ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَوْضَحَ مِنْ هَذَيْنِ الْحَدِيثَيْنِ،
👈دونوں حدیثوں میں واضح اشارہ ہے کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے اشارہ فرمایا ہے کہ ان کے بعد ان کے خلیفہ ابوبکر و عمر ہونگے
(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ,9/4017)
.
وفيه الإشارة إلى أن أبا بكر هو الخليفة بعد النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-، ولا يعارض هذا جزم عمر أن النبي -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- لم يستخلف لأن مراده نفي النص على ذلك صريحًا
👈حدیث پاک میں اشارہ ہے کہ ابوبکر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفہ ہوں گے، وہ جو سیدنا عمر نے فرمایا کہ نبی پاک نے کسی کو خلیفہ نہ فرمایا تو انکی مراد یہ ہے کہ دو ٹوک الفاظ میں خلیفہ مقرر نہ فرمایا(لیکن اشارتاً فرمایا کہ میرے بعد یعنی نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابوبکر اور عمر خلیفہ ہوں گے)
(شرح القسطلاني، إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري ,6/87)
.
قاری لقمان بھائی لکھتے ہیں
پیر نصیر الدین نصیرؔ گولڑوی  نے ایک شعر کہا ؎
دےکے بستر کردیا تھا فیصلہ ہجرت کی شب 
عقل کا اندھا ابھی ترتیب کے چکر میں ہے
مطلب: ہجرت کی رات رسول اللہ نے حضرت علی کو اپنے بستر پر سلا کر گویایہ فیصلہ کردیا تھا کہ میرے بعد علی ہے ۔
لیکن عقل کے اندھے ( ائمہ اہل سنت ) ابھی بھی ترتیب افضلیت ( کہ علی کا چوتھا نمبر ) لیے بیٹھے ہیں ۔
اس شعر میں نصیرؔ نے تفضیلی مذہب کی ترجمانی کی ہے ، اور دلیل بھی انھی والی دی ہے ۔
.مولانا محمد عاصم صدیقی تک جب یہ شعر پہنچا تو انھوں نے اس کاپہلا مصرع بدل کر نصیر صاحب کو یوں ارسال کیا ؎
ثانئِ اثنین کا ہے فیصلہ قرآن میں 
عقل کا اندھا ابھی ترتیب کے چکر میں ہے
مطلب: ہجرت کی رات رسول اللہ صدیق اکبر کو اپنے ساتھ لے گئے تھے تو اللہ ﷻ نے قرآن پاک میں حضرت صدیق  کو نبی کا  " دوسرا " کہا ، یعنی سرکارﷺ کے بعد جس کا سب سے پہلا نمبر ہے ۔ گویا رب تعالی نے نبی کے بعد صدیق کو پہلا نمبر دے دیا ، لیکن عقل کے اندھے ( تفضیلی ) کو ابھی بھی سمجھ نہیں آرہی ، وہ رب تعالیٰ کی عطا کردہ ترتیب کے خلاف مولا علی پاک کو پہلا نمبر دینے کے چکر میں ہیں...(قاری لقمان بھائی کا کلام ختم ہوا)
.
*سیاسی اور روحانی خلیفہ کی تقسیم...........؟؟*
حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: «كُنَّا نُخَيِّرُ بَيْنَ النَّاسِ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنُخَيِّرُ أَبَا بَكْرٍ، ثُمَّ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ، ثُمَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ»
ترجمہ
ہم صحابہ کرام لوگوں کے درمیان فضیلت دیتے تھے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ مبارک میں تو ہم فضیلت دیتے تھے سب سے پہلے ابو بکر صدیق کو پھر سیدنا عمر کو پھر عثمان بن عفان کو ُ(پھر سیدنا علی کو) 
[صحيح البخاري ,5/4روایت3655]
.

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: قَالَ سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ: إِنَّ ابْنَ عُمَرَ قَالَ: كُنَّا نَقُولُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيٌّ: «أَفْضَلُ أُمَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَهُ أَبُو بَكْرٍ، ثُمَّ عُمَرُ، ثُمَّ عُثْمَانُ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَجْمَعِينَ»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ ہیں میں ہم صحابہ کرام کہا کرتے تھے کہ کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد  اس امت میں سب سے پہلے افضل ابوبکر صدیق ہے پھر سیدنا عمر سیدنا عثمان(پھر سیدنا علی)
[سنن أبي داود ,4/206روایت4628]


علی...افْضَلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا أَبُو بَكْرٍ، وَبَعْدَ أَبِي بَكْرٍ، عُمَرُ
سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ
نبی پاک کے بعد تمام امت میں سے سب سے افضل ابوبکر ہیں پھر عمر
(مسند احمد2/201)
.
سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ:
خير الناس بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم أبو بكر، وخير الناس بعد أبي بكر عمر
ترجمہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تمام لوگوں سے بہتر.و.افضل ابوبکر ہیں اور ابوبکر کے بعد سب لوگوں سے بہتر.و.افضل عمر ہیں...(ابن ماجہ روایت نمبر106)
.
حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِئُ , ثنا عُمَرُ بْنُ عُبَيْدٍ الْخَزَّازُ , عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: كُنَّا  مَعْشَرَ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ مُتَوَافِرُونَ نَقُولُ:أَفْضَلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا أَبُو بَكْرٍ ثُمَّ عُمَرُ
ترجمہ:
ہم صحابہ کہا کرتے تھے کہ
نبی پاک کے بعد تمام امت میں سے سب سے افضل ابوبکر ہیں پھر عمر
(مسند الحارث=بغية الباحث عن زوائد مسند الحارث2/888 روایت959)
.
خَطَبَنَا عَلِيٌّ، فَقَالَ: " مَنْ خَيْرُ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا؟ " فَقُلْتُ: أَنْتَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَالَ: " لَا خَيْرُ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا أَبُو بَكْرٍ، ثُمَّ عُمَرُ
سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے خطبہ دیا اور ہم سے پوچھا کہ اس امت میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل کون ہے راوی کہتا ہے کہ میں نے کہا آپ امیر المومنین....تب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ نہیں میں(علی سب سے افضل)نہیں، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت میں سب سے بہترین اور افضل ترین شخص ابوبکر صدیق ہیں پھر عمر ہیں
[مسند أحمد ط الرسالة ,2/201 روایت834]
.
الحدیث التقریری:
كُنَّا نَقُولُ وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيٌّ: أَفْضَلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ، وَيَسْمَعُ ذَلِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا يُنْكِرُهُ
ہم صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ہی کہا کرتے تھے کے اس امت میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے زیادہ افضل ابوبکر ہیں پھر عمر پھر عثمان ہیں ( پھر سیدنا علی) حضور علیہ السلام یہ سنتے تھے اور اس کا انکار نہ فرماتے تھے 
[المعجم الكبير للطبراني ,12/285حدیث13132]
.
 اہلسنت کا عقیدہ وہی ہے جو صحابہ کرام اور اہل بیت کا تھا کہ پہلا نمبر ابو بکر صدیق کا...سیدنا علی کے مطابق بھی پہلا نمبر سیدنا ابوبکر صدیق کا ہے...احادیث میں مطلق فضیلیت و خلافت ہے اسے سیاسی اور روحانی میں تقسیم کرکے کہنا کہ صدیق و عمر سیاسی ظاہری خلیفہ تھے اور علی بلافصل دور صدیقی ہی سے روحانی خلیفہ تھے(جیسا کہ ڈاکٹر طاہر الکادری کے کلام سے ظاہر ہے دیکھیےانکی کتاب القول الوثیق ص41)....ایسا کہنا اپنی طرف سے روایات میں زیادتی کے مترادف و مردود ہے....اہلسنت کے نظریہ ، اہل علم کے نظریہ کے خلاف ہے
.
①و فی شرح المواهب اللدنية قال: أول من تقطب بعد النبی الخلفاء الأربعة على ترتيبهم في الخلافة، ثم الحسن هذا ما عليه الجمهور
شرح المواهب اللدنية میں ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے پہلے جو قطب(روحانی خلیفہ) ہیں وہ خلفائے اربعہ ہیں اس ترتیب پر جو ان کی خلافت کی ترتیب ہے یعنی سب سے پہلے قطب(روحانی و سیاسی خلیفہ) سیدنا ابوبکر صدیق ہیں پھر سیدنا عمر پھر سیدنا عثمان ہیں پھر سیدنا علی قطب ہیں پھر سیدنا حسن(رضی اللہ تعالیی عنھم اجمعین)اور یہ وہ(نظریہ قول) ہے کہ جس پر جمہور(علماء اور صوفیاء)ہیں 
(جلاء القلوب2/265)
.
②وأول من تقطب بعد النبي يَةُ الخلفاء الأربعة على ترتيبهم في الخلافة، ثم الحسن، هذا ما عليه الجمهور
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے پہلے جو قطب(روحانی خلیفہ) ہیں وہ خلفائے اربعہ ہیں اس ترتیب پر جو ان کی خلافت کی ترتیب ہے یعنی سب سے پہلے قطب سیدناابوبکر صدیق ہیں پھر سیدنا عمر پھر سیدنا عثمان ہیں پھر سیدنا علی قطب ہیں پھر سیدنا حسن(رضی اللہ تعالیی عنھم اجمعین)اور یہ وہ(نظریہ قول) ہے کہ جس پر جمہور(علماء اور صوفیاء)ہیں 
(مشتهى الخارف الجاني ص506)
.
③وبعد عصرہ صلی اللہ علیہ وسلم خلیفتہ القطب، متفق علیہ بین اہل الشرع و الحکماء۔۔۔انہ قد یکون متصرفا ظاہرا فقط کالسلاطین و باطنا کالاقطاب و قد یجمع بین الخلافتین  کالخلفاء الراشدین کابی بکر و عمر بن عبدالعزیز
اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ مبارکہ کے بعد جو آپ کا خلیفہ ہوا وہی قطب ہے اس پر تمام اہل شرع(علماء صوفیاء)اور حکماء کا اتفاق ہے کہ خلیفہ کبھی ظاہری تصرف والا ہوتا ہے جیسے کہ عام بادشاہ اور کبھی فقط باطنی تصرف والا ہوتا ہے جیسے کہ قطب اور کبھی خلیفہ ایسا ہوتا ہے کہ جو ظاہری تصرف بھی رکھتا ہے اور باطنی تصرف بھی رکھتا ہے(وہ بادشاہ بھی ہوتا ہے اور قطب  و روحانی خلیفہ بھی ہوتا ہے)جیسے کہ خلفائے راشدین مثلا سیدنا ابو بکر صدیق اور عمر بن عبدالعزیز    
(نسیم الریاض3/30ملتقطا)
.
④قطب.....وھو الغوث ایضا و ھو سید الجماعۃ فی زمانہ۔۔یحوز الخلافۂ الظاہریۃ کما حاز الخلافۃ الباطنیۃ کابی بکر و عمر و عثمان و علی رضوان اللہ تعالیٰ علھیم...و ذہب التونسی من الصوفیۃ الی ان اول من تقطب بعدہ صلی اللہ علیہ وسلم  ابنتہ فاطمۃ و لم ار لہ فی ذالک سلفا
قطب(روحانی خلیفہ) اس کو غوث بھی کہتے ہیں اور وہ اپنے زمانے میں تمام امتیوں کا سردار و افضل ہوتا ہے...خلیفہ کبھی ایسا ہوتا ہے جو ظاہری خلافت بھی پاتا ہے اور باطنی خلافت و قطبیت بھی پاتا ہے جیسے کہ سیدنا ابو بکر صدیق اور سیدنا عمر اور سیدنا عثمان اور سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ اجمعین اور صوفیاء میں سے تونسی اس طرف گئے ہیں کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد اول قطب ان کی بیٹی فاطمہ ہے اور ہم اس مسئلہ میں ان کا کوئی ہمنوا و حوالہ نہیں پاتے  
(مجموع رسائل ابن عابدین 2/265ملتقطا)
.
*یہ کیا مکار منافق گمراہ کفر کے فتوی لگا کر فرقہ واریت پھیلا رہے ہو.........؟؟*
القرآن..ترجمہ:
حق سے باطل کو نا ملاؤ اور جان بوجھ کر حق نہ چھپاؤ
(سورہ بقرہ آیت42)
.
الحدیث:
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم أترعون عن ذكر الفاجر؟، اذكروه بما فيه يعرفه الناس
ترجمہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
کیا تم(زندہ یا مردہ)فاجر(فاسق معلن منافق , خائن، دھوکے باز مکار گمراہ بدمذہب) کو واضح کرنے(مذمت کرنے) سے ہچکچاتے ہو...؟(جیسا وہ ہے ویسا کہنے سے گھبراتے ہو...؟؟)
اسے ان چیزوں(ان کرتوتوں، عیبوں اعلانیہ گناہوں ، خیانتوں، منافقتوں دھوکے بازیوں) کے ساتھ واضح کرو جو اس میں ہوں تاکہ لوگ اسے پہچان لیں(اور اسکی گمراہی خیانت منافقت بدعملی دھوکے بازی مکاری سے بچ سکیں)
(طبرانی کبیر حدیث1010)
یہ حدیث پاک  کتبِ حدیث و تفاسیر اور فقہ و تصوف کی کئی کتب میں موجود ہے... مثلا جامع صغیر، شعب الایمان، احیاء العلوم، جامع الاحادیث، کنزالعمال، کشف الخفاء ردالمحتار ، عنایہ شرح ہدایہ، فتاوی رضویہ، تفسیر ثعالبی، تفسیر درمنثور وغیرہ کتب میں موجود ہے
.

لیھذا ایسوں کے عیوب مکاریاں منافقتیں خیانتیں دھوکے بازیاں گمراہیاں کفرایات وغیرہ بیان کرنا برحق ہے لازم ہے اسلام کا حکم ہے....یہ عیب جوئی نہیں، غیبت نہیں،... یہ فرقہ واریت نہیں، یہ حسد نہیں، بغض نہیں بلکہ حق کی پرواہ ہے، اسلام کے حکم کی پیروی ہے...ایسوں کی پردہ پوشی کرنا جرم ہے..ہاں حدیث پاک میں یہ بھی واضح ہے کہ وہ عیوب، وہ خیانتیں، وہ دھوکے بازیاں وہ کرتوت وہ مکاریا وہ گمراہیاں وہ کفریات بیان کیے جائیں جو اس میں ہوں...جھوٹی مذمت الزام تراشیاں ٹھیک نہیں...اور فروعی اختلاف جو دلیل و سچائی پر مبنی ہو اس میں مذمت ٹھیک نہیں،اس میں اتحاد و برداشت لازم،  وسعتِ ظرفی لازم ہے
.
سچوں(کو پہچان کر ان)کا ساتھ دو(سورہ توبہ آیت119)
دین و دنیا کو بدنام تو جعلی منافق مکار کر رہےہیں....عوام و خواص سب کو سمجھنا چاہیےکہ #جعلی_مکار_منافق تو علماء پیر اینکر لیڈر سیاست دان جج وکیل استاد ڈاکٹر فوجی وغیرہ افراد و اشیاء سب میں ہوسکتےہیں،ہوتے ہیں
تو
جعلی کی وجہ سے #اصلی سےنفرت نہیں کرنی چاہیےبلکہ اصلی کی تلاش اور اسکا ساتھ دینا چاہیے
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
whats App nmbr
00923468392475
03468392475
other nmbr
03062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.