زکواۃ فطرانہ سادات مدارس علماء طلباء جدت

 *زکواۃ فطرانہ،سادات،مدارس،علماء طلباء غرباء....؟؟*

القرآن:
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْعٰمِلِیْنَ عَلَیْهَا وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الْغٰرِمِیْنَ وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِؕ
ترجمہ:
صدقات(زکواۃ فطرانہ کفارہ وغیرہ فرض واجب صدقات) فقراء کے لیے ہیں، مساکین کے لیے ہیں ، عاملین(جو زکواۃ کی وصولی کےلیے مقرر ہوں) اور مولفۃ القلوب کے لیے ہیں اور غلام و لونڈیان آزاد کرانے کے لیے ہیں اور مقروض کے لیے ہیں اور اللہ کی راہ والوں کے لیے ہیں اور مسافر کے لیے ہیں
(سورہ توبہ آیت60)
.
فالاولى ان لا يخص فى سبيل الله بالحج ولا بالغزو بل يترك أعم منهما ومن ساير أبواب الخير فمن أنفق ماله فى طلبة العلم صدق انه أنفق فى سبيل الله
 آیت میں جو ہے کہ صدقہ(زکوٰۃ فطرہ وغیرہ) اللہ کی راہ والوں کو دیا جا سکتا ہے تو اس سے مراد صرف حج اور غزوہ و جہاد نہیں بلکہ یہ عام ہے تمام ابواب خیر سے، پس جس نے طالب علموں(مدارس) پر صدقہ(زکوٰۃ فطرہ کفارہ نفلی صدقہ مال)خرچ کیا بےشک اس نے اللہ کی راہ میں خرچ کیا
(التفسير المظهري ,4/239)
.
*پہلا مدرسہ............؟؟*
وَأَهْلُ الصُّفَّةِ أَضْيَافُ الْإِسْلَامِ......إِذَا أَتَتْهُ صَدَقَةٌ بَعَثَ بِهَا إِلَيْهِمْ، وَلَمْ يَتَنَاوَلْ مِنْهَا شَيْئًا، وَإِذَا أَتَتْهُ هَدِيَّةٌ أَرْسَلَ إِلَيْهِمْ، وَأَصَابَ مِنْهَا وَأَشْرَكَهُمْ فِيهَا
 اصحاب صفہ اسلام کے مہمان ہیں( اللہ کے مہمان ہیں).....جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صدقہ آتا تو اصحاب صفہ کو دیتے آپ علیہ الصلاۃ والسلام صدقے میں سے کچھ بھی تناول نہ فرماتے اور اگر ہدیہ آتا تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام اصحاب صفہ کی طرف بھیجتے اور خود بھی تناول فرماتے اور ان کے ساتھ شریک ہوتے
(بخاری6452)
.
 علماء کرام نے لکھا کہ صفہ گویا کہ اسلام کا پہلا عظیم الشان مدرسہ تھا اور اس میں رہنے والے صحابہ کرام عظیم الشام اولین مصروف طالب علم تھے
لِأَنَّ طَلَبَ الْعِلْمِ لَيْسَ إلَّا اسْتِفَادَةَ الْأَحْكَامِ وَهَلْ يَبْلُغُ طَالِبٌ رُتْبَةَ مَنْ لَازَمَ صُحْبَةَ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - لِتَلَقِّي الْأَحْكَامِ عَنْهُ كَأَصْحَابِ الصُّفَّةِ، فَالتَّفْسِيرُ بِطَالِبِ الْعِلْمِ وَجِيهٌ خُصُوصًا وَقَدْ قَالَ فِي الْبَدَائِعِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ جَمِيعُ الْقُرَبِ فَيَدْخُلُ فِيهِ كُلُّ مَنْ سَعَى فِي طَاعَةِ اللَّهِ وَسَبِيلِ الْخَيْرَاتِ إذَا كَانَ مُحْتَاجًا
( دو ٹوک الفاظ میں واضح الفاظ میں یہ نہیں آیا کے طالب علموں پر خرچ کرو مدرسوں پر خرچ کرو کیونکہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام کے دور مبارک میں مروجہ طریقے سے مدارس اور طالبعلم موجود نہ تھے لیکن غور کیا جائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں ایک طرح سے مدرسہ موجود تھا اور طالب علم موجود تھے)طالب علم اسی کو کہتے ہیں کہ دین و احکام سیکھنے کے لئے جو اپنے آپ کو وقف کرے تو اصحاب صفہ احکام سیکھنے دین سیکھنے کے لیے وقف تھے گویا وہ اولین عظیم الشان طالبعلم تھے اور صفہ گویا کہہ پہلا مدرسہ تھا.. لہذا فی سبیل اللہ خرچ کرنے سے مراد طالبعلم و مدارس مراد لیا جائے تو بھی یہ صحیح ہے بلکہ فی سبیل اللہ سے مراد مطلقا اللہ کی راہ والے مراد ہیں بشرطیکہ حاجت مند ہوں
(دیکھیے رد المحتار ,2/343 مشرحا ماخوذا)
(درر الحكام شرح غرر الأحكام ,1/189مشرحا ماخوذا)
.
.وكان أهل الصفة يقومون بفروض عظيمة، منها تلقى القرآن والسنة، فكانت الصفة مدرسة للإسلام، فكانت نفقتهم على سائر المسلمين...
اصحاب صفہ( نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک میں اور بعد کے دور میں) عظیم فرائض میں مشغول تھے یعنی قران و سنت میں مصروف تھے تو گویا صفہ اسلام کا (پہلا) مدرسہ تھا اور اس کا خرچہ مسلمانوں پر تھا
( الأنوار الكاشفة لما في كتاب «أضواء على السنة»ص145)
.
*بعض علماء کرام کے مطابق طالب علم مدرس مفتی عالم قاضی (اور امام مسجد) اگرچے غریب نہ ہوں پھر بھی زکواۃ فطرہ وغیرہ بقدر حاجت لے سکتے ہیں*
ان علماء کی دو دلیلیں ہیں
دلیل نمبر ایک:الحدیث:
لَا تَحِلُّ الصَّدَقَةُ لِغَنِيٍّ إِلَّا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَوِ ابْنِ السَّبِيلِ، أَوْ جَارٍ فَقِيرٍ يُتَصَدَّقُ عَلَيْهِ فَيُهْدِي لَكَ أَوْ يَدْعُوكَ
جو فقیر و مسکین نہ ہو وہ زکواۃ نہیں لے سکتا مگر جو اللہ کی راہ میں مصروف(عالم مدرس طالب علم مجاہد مبلغ امام مسجد مفتی)ہو وہ غریب نہ ہوکر بھی لے سکتا ہے اور مسافر اور فقیر پڑوسی جو غنی کو تحفتاً دے دے
(ابوداود حدیث1637)
اسکی سند ضعیف ہے مگر قیاس اور ضعیف حدیث مل کر قابل فتوی قول بن سکتے ہیں
دلیل نمبر دو:قیاس
قرآن و حدیث سنت و فقہ کی رو سے عامل زکوٰۃ یعنی جس کو زکواۃ وصولی کے لیے مقرر کیا گیا ہو وہ غریب نہ ہو کر بھی زکواۃ میں سے قدر حاجت لے سکتا ہے...اس پر قیاس یوں کیا گیا کہ کیونکہ عامل زکواۃ نے زکواۃ وصولی کے لیے خود کو مصروف کر رکھا ہے تو اسی طرح دینی خدمات میں مصروف علماء طلباء مجاہد لکھاری امام مسجد مفتی مبلغین بھی غریب نہ ہو کر بھی قدر حاجت زکواۃ فطرانہ میں سے لے سکتے ہیں
وَلاَ يُشْتَرَطُ فِيمَنْ يَأْخُذُ مِنَ الْعَامِلِينَ مِنَ الزَّكَاةِ الْفَقْرُ
(تمام علماء کا قرآن و سنت حدیث کی بنیاد پر متفقہ فتوی ہے کہ)عامل زکواۃ غریب نہ ہوکر بھی زکواۃ میں سے لے سکتا ہے
(الموسوعة الفقهية الكويتية ,23/318)
.
عامل زکواۃ(زکواۃ وصول کرنے والے) پر قیاس کے چند حوالے ملاحظہ کیجیے:
ويجوز للعامل الأخذ وإن كان غنيا لأنه فرغ نفسه لهذا العمل فيحتاج إلى الكفاية قال في المنح وبهذا التعليل يقوى ما نسب للواقعات من أن طالب العلم يجوز له أخذ الزكاة ولو غنيا إذا فرغ نفسه لإفادة العلم واستفادته لعجزه عن الكسب والحاجة داعية إلى ما لا بد منه
 زکوۃ وصول کرنے کے لئے جس کو مقرر کیا گیا ہو اگرچہ وہ غریب نہ ہو پھر بھی وہ زکوٰۃ میں سے لے سکتا ہے کیونکہ اس نے اپنے آپ کو اس عمل کے لیے مصروف کردیا ہے تو اس کو قدر حاجت کی ضرورت ہے، اس علت کو دیکھا جائے تو وہ جو فتوی میں ہے کہ طالب علم غریب نہ ہو کر بھی زکوۃ لے سکتا ہے وہ فتوی قوی لگتا ہے کیونکہ طالب علم نے اپنے آپ کو علم حاصل کرنے اور علم پھیلانے کے لئے مشغول کر دیا ہے تو اس کے لیے قدر حاجت لینا جائز ہوگا
(حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح ,page 720)
.
وَهَذَا التَّعْلِيلُ يُقَوِّي مَا نُسِبَ إلَى بَعْضِ الْفَتَاوَى مِنْ أَنَّ طَالِبَ الْعِلْمِ يَجُوزُ لَهُ أَنْ يَأْخُذَ مَالَ الزَّكَاةِ وَإِنْ كَانَ غَنِيًّا إذَا فَرَّغَ نَفْسَهُ لِإِفَادَةِ الْعِلْمِ وَاسْتِفَادَتِهِ لِكَوْنِهِ عَاجِزًا عَنْ الْكَسْبِ، وَالْحَاجَةُ دَاعِيَةٌ إلَى مَا لَا بُدَّ مِنْهُ كَالْقَاضِي وَالْمُفْتِي
(زکوۃ وصول کرنے کے لئے جس کو مقرر کیا گیا ہو اگرچہ وہ غریب نہ ہو پھر بھی وہ زکوٰۃ میں سے لے سکتا ہے کیونکہ اس نے اپنے آپ کو اس عمل کے لیے مصروف کردیا ہے تو اس کو قدر حاجت کی ضرورت ہے،)اس علت کو دیکھا جائے تو وہ جو فتوی میں ہے کہ طالب علم غریب نہ ہو کر بھی زکوۃ لے سکتا ہے وہ فتوی قوی لگتا ہے کیونکہ طالب علم نے اپنے آپ کو علم حاصل کرنے اور علم پھیلانے کے لئے مشغول کر دیا ہے تو اس کے لیے قدر حاجت لینا جائز ہوگا *اسی طرح قاضی و مفتی(اسی طرح امام مسجد علماء مبلغین وغیرہ) کے لیے بھی جائز ہوگا* 
(مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر ,1/220)
.
تَعْلِيلِ حِلِّ الدَّفْعِ لِلْعَامِلِ الْغَنِيِّ بِأَنَّهُ فَرَّغَ نَفْسَهُ لِهَذَا الْعَمَلِ فَيَحْتَاجُ إلَى الْكِفَايَةِ إلَخْ قَالَ: وَبِهَذَا التَّعْلِيلِ يَقْوَى مَا نُسِبَ إلَى بَعْضِ الْفَتَاوَى أَنَّ طَالِبَ الْعِلْمِ يَجُوزُ لَهُ أَنْ يَأْخُذَ الزَّكَاةَ، وَإِنْ كَانَ غَنِيًّا إذَا فَرَّغَ نَفْسَهُ لِإِفَادَةِ الْعِلْمِ وَاسْتِفَادَتِهِ لِكَوْنِهِ عَاجِزًا عَنْ الْكَسْبِ، وَالْحَاجَةُ دَاعِيَةٌ إلَى مَا لَا بُدَّ مِنْهُ، وَهَكَذَا رَأَيْته بِخَطٍّ مَوْثُوقٍ وَعَزَاهُ إلَى الْوَاقِعَاتِ، وَاَللَّهُ - تَعَالَى - أَعْلَمُ اهـ..قُلْت: وَقَدْ رَأَيْته أَيْضًا فِي جَامِعِ الْفَتَاوَى مَعْزِيًّا إلَى الْمَبْسُوطِ وَنَصُّهُ: وَفِي الْمَبْسُوطِ لَا يَجُوزُ دَفْعُ الزَّكَاةِ إلَى مَنْ يَمْلِكُ نِصَابًا إلَّا إلَى طَالِبِ الْعِلْمِ....
زکوۃ وصول کرنے کے لئے جس کو مقرر کیا گیا ہو اگرچہ وہ غریب نہ ہو پھر بھی وہ زکوٰۃ میں سے لے سکتا ہے کیونکہ اس نے اپنے آپ کو اس عمل کے لیے مصروف کردیا ہے تو اس کو قدر حاجت کی ضرورت ہے، اس علت کو دیکھا جائے تو وہ جو فتوی میں ہے کہ طالب علم غریب نہ ہو کر بھی زکوۃ لے سکتا ہے وہ فتوی قوی لگتا ہے کیونکہ طالب علم نے اپنے آپ کو علم حاصل کرنے اور علم پھیلانے کے لئے مشغول کر دیا ہے تو اس کے لیے قدر حاجت لینا جائز ہوگا... *امام ابن نجیم فرماتے ہیں کہ جامع الفتاوی میں مبسوط کی طرف منسوب فتوی ہے کہ طالب علم اگرچے غریب نہ ہو مالک نصاب تو بھی وہ زکوٰۃ لے سکتا ہے.....*
(البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري ,2/260)
.
عدم جواز کے دلائل کا یہی جواب دیا جاتا کہ جس طرح عاملین زکواۃ مستثنی ہیں اسی طرح مذکورہ افراد بھی مستثنی ہیں
.
*میں علامہ عنایت اللہ حصیر اگر مفتی ہوتا تو فی زمانہ مذکورہ مدلل پرلاجک فتوے پر فتوی دیتا کہ علمِ دین حاصل کرنے اور  پڑھانے اور پھیلانے میں مصروف طالب علم علماء لکھاری مبلغین امام مسجد مفتی کے لیے زکوۃ فطرہ کفارہ وغیرہ لینا بقدر حاجت جائز ہے اگرچہ یہ لوگ غریب نہ ہوں مگر میں چونکہ مفتی نہیں اس لیے اس پر فتوی نہیں دے سکتا، شاید کہ کوئی مفتی اس پر فتوی دے دے یا شاید کسی نے دیا ہو....؟؟ بحرحال غریب مستحق مدارس طلباء علماء لکھاری مبلغ امام مسجد مفتی وغیرہ تو یقینا یقینا زکوٰۃ فطرہ نفلی صدقہ لے سکتے ہیں بلکہ انہیں دینا عظیم الشان کاموں میں سے ہے لیکن ان میں سے جو غریب نہ ہوں وہ حیلہ شرعی کرکے لے سکتے ہیں*
.
*ریڑھ کی ہڈی کے مہروں کی طرح............؟؟*
احسان.و.بھلائی کا بدلہ احسان.و.بھلائی ہے(سورہ الرحمٰن آیت60) دینی خدمات میں سرگرم سچے بھلے لوگ و ادارے مستحق ہیں کہ ہم ان کے ساتھ بھلائی کریں،جانی مالی وقتی حوصلاتی تعاون کریں…معتبر اہلسنت سرگرم مدارس، علماء، خطباء، امام مسجد،لکھاری وغیرہ میں سے ہر ایک ریڑھ کی ہڈی کے مہرے کی طرح ہیں انہیں مالی تعاون کریں کرائیں مضبوط بنائیں،مدارس میں بچے داخل کرائیں
.
*طلباء.و مدارس میں صدقے کا ثواب ایک کے بدلے سات سو یا اس سے بھی بڑھ کر.........!!*
زکاۃ فطرانہ صدقات تحائف و تعاون عام طور پر مستحق غریب رشتے دار اور دیگر غرباء اور مدارس میں دے سکتے ہیں
مگر
بہتر ہے کہ اچھےغیور خود'دار غرباء کو دھونڈ دھونڈ کر دیں
اور معتمد و سرگرم اہلسنت مدارس علماء لکھاری مبلغ امام وغیرہ کو تو لازمی دیں اور خوب اجر پائیں…ایک کے بدلے سات سو اور اس سے بھی زیادہ اجر پائیں....!!
مسئلہ:
لنگر،نیاز،عرس،فاتحہ وغیرہ پے خرچ کرنےپے1کےبدلے10نیکیاں ہیں(دلیل سورہ انعام160)اور طالب علم دین(و برحق سرگرم مدارس علماء لکھاری علم و شعور جہاد)پر خرچ کرنےمیں1کے بدلے700 یا اس سےبھی زیادہ نیکیاں ملیں گی(دلیل سورہ بقرہ261)(فتاوی رضویہ246 ،10/305ملخصا) لنگر،نیاز،عرس،فاتحہ پے زکواۃ فطرہ خرچ نہیں کرسکتے البتہ ان پے نفلی صدقہ نیاز خرچ کرسکتے ہیں…زیادہ بہتر ، زیادہ مفید، زیادہ ثواب پے زیادہ خرچ کیجیے، معتبر سرگرم مدارس و علماء و مبلغین پے زیادہ خرچ کیجیے، علم شعور مدارس طلباء پے زیادہ خرچ کیجیے اور اس کے ساتھ ساتھ دیگر غرباء پے زکواۃ فطرہ نفلی صدقہ خرچ کیجیے اور کتابوں فلاحی کاموں پے نفلی صدقہ بھی خرچ کیجیے کہ نا جانے کونسی ادا اور نیکی مقبول و محبوب ہو جائے
.
*سادات کرام کی خدمت.........!!*
وَإِنَّا لَا تَحِلُّ لَنَا الصَّدَقَةُ
 نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بے شک ہمارے لیے(سادات کرام کے لیے) صدقہ(زکواۃ فطرہ وغیرہ فرض واجب صدقہ) حلال نہیں ہے
(ابوداود حدیث1650)
.
نفلی صدقہ یعنی ہدیہ تحفہ سادات کرام کو دیا جاسکتا ہے بلکہ مستحق سید کو لازمی دینا چاہیے…حتی کہ زکواۃ فطرہ اگر کسی غریب کو دیا جائے اور وہ غریب تحفے ہدیے کے طور پر سادات کرام کو دے دے تو بھی یہ حیلہ طریقہ جائز ہے سنت سے ثابت ہے
أُتِيَ بِلَحْمٍ تُصُدِّقَ بِهِ عَلَى بَرِيرَةَ، فَقَالَ : " هُوَ عَلَيْهَا صَدَقَةٌ وَهُوَ لَنَا هَدِيَّةٌ
بریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کو صدقے کا گوشت ملا(اور آپ رضی اللہ تعالی عنہا نے نبی پاک کو تحفے ہدیے کے طور پر پیش کیا تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے تناول فرمایا)اور فرمایا کہ یہ بریرہ کے لیے صدقہ ہے لیکن ہمارے لیے ہدیہ ہے
(بخاری حدیث1495)
 لہذا سادات کرام اور وہ علماء مفتی لکھاری امام مسجد جو غریب نہ ہو ان کا خصوصی خیال رکھیے اور نفلی صدقہ دیتے رہیے، تحفے ہدیے کے طور پر خدمت کیا کیجیے اور اگر زکوۃ فطرہ انکو دینا ہو تو کسی معتبر عالم فاضل یا معتبر تنظیم ٹرسٹ سے کہیے کہ میرے پاس زکواۃ فطرہ کے پیسے ہیں اور میں فلاں کو دینا چاہتا ہوں تو آپ حیلہ شرعی کر دیجیے یا کرا دیجیے اور فلاں سید عالم مفتی امام مسجد لکھاری کے گھرانے کو ہدیہ پیش کیجیے........!!
.

اہم نوٹ:
احسان جتا کر،تکلیف پہنچا کر اپنےصدقات باطل نہ کرو(سورہ بقرہ آیت264)زکاۃ،فطرہ لینےوالےمولوی،مدارس،غرباء وغیرہ پر احسان نہ جتاؤ…انکو کمتر نہ سمجھو
.
*عالم کورس مکمل توجہ ، کثیر و دقیق مطالعہ تدبر تحشیہ تخریج توجیہ تطبیق کی عادات کے ساتھ مکمل کیجیے یا چار پانچ درجے پڑہیے بنیادی علم حاصل کیجیے پھر بعض علم دین پھیلانے میں وقف و ماہر ہوں اور بعض استاد لیچکرار ڈاکٹر انجنئیر مفتی واعظ مصنف تاجر پولیس فوجی ، سیاستدان ، صحافی، سائنسدان شاعر نعت خواں کچھ بھی اچھا بنیں…،مختلف شعبوں میں جائیں چھا جائیں اور اسکے ساتھ ساتھ علم و شعور لیتے رہنے پھیلاتے رہنے سے تاحیات وابستگی بھی رکھیں*
.
آپ اگر والد ہیں سرپرست ہیں مدرسے کے بڑے ہیں تو اپنے بیٹے ماتحت طالب علم کو سمجھائیے اسے تعلیم بھرپور توجہ و نگرانی میں رب کی رضا کے لیے دلوائیے... تاکہ آپ کا بیٹا ، آپ کا اسٹودنٹ مکمل توجہ سے علم حاصل کرکے قابل علمی عملی شخصیت بنے
پھر
کچھ دینی ماہر بنیں اور کچھ دیگر شعبوں کے اچھے ماہر بنیں..........!!

.
القرآن..ترجمہ:
*جو قوت،طاقت ہوسکے تیار رکھو..(انفال60)*
آیت مبارکہ مین غور کیا جائے تو ایک بہت عظیم اصول بتایا گیا ہے... جس میں معاشی طاقت... افرادی طاقت... جدید ہتھیار کی طاقت... دینی علوم و مدارس کی طاقت، جدید تعلیم و ترقی کی طاقت.... علم.و.شعور کی طاقت... میڈیکل اور سائنسی علوم کی طاقت... جدید فنون کی طاقت... اقتدار میں اچھے لوگوں کو لانے کی طاقت.. احتیاطی تدابیر مشقیں جدت ترقی
اور دیگر طاقت و قوت کا انتظام کرنا چاہیے... یہ بھی جہاد کا حصہ ہیں..اس ایت مبارکہ سے اچھی جدت و ٹیکنالوجی اچھی دولت طاقت سب کا ثبوت ہے
.
ایک دفعہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام کے پاس *دولتمندی* کا تذکرہ ہوا تو آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
لا بأس بالغنى لمن اتقى، والصحة لمن اتقى خير من الغنى، وطيب النفس من النعيم
ترجمہ:
دولت مندی(جائز طریقے سے دولت پیسہ کمانے) میں کوئی مضائقہ نہیں اُس کے لیے جو تقوی کرے، اور صحت دولت سے بہتر ہے اُس کے لیے جو تقوی کرے،اور اچھی طبیعت(خوش اخلاقی، پاکیزہ طبیعت) نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے
(ابن ماجہ حدیث2141)
الحدیث،ترجمہ:
کیا ہی اچھا ہے وہ "اچھا مال" (وہ پاکیزہ، حلال مال.و.دولت) جو اچھے شخص کے پاس ہو..(مسند احمد حدیث7309)
الحدیث،ترجمہ:
طاقتور(اچھی دولت طاقت والا) مومن کمزور مومن سےزیادہ بہتر و اللہ کو زیادہ محبوب ہے(مسلم حدیث2664)
.
فتاوی رضویہ میں ہے
*جدت* ممنوع نہیں بشرطیکہ کسی ممنوع شرعی میں شامل نہ ہو(فتاوی رضویہ22/191)
اسلام جدت ، جدید تعلیم.و.ٹیکنالوجی اچھی پاکیزہ معیشت دولت کےخلاف نہیں بلکہ اسےکسی حد تک ضروری تک قرار دیتا ہے
مگر
جدت و تعلیم کے نام پر خفیہ سیکیولرازم، لبرل ازم ،فحاشی بےحیائی غلامی ایجنٹی منافقت،کھلی آزادی کےخلاف ہے
.
مدارس کی جدت اچھا اقدام ہے
مگر
*اسکول کالج یونیورسٹی کےنصاب.و.نظام کی ترقی و اسلامئیزیشن اولین ترجیحی فریضہ ہے*
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
whats App,twitter nmbr
00923468392475
03468392475
other nmbr
03062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.