باپ نے زنا کیا تو وہ عورت بیٹےکے لیے حرام، حرمت مصاہرت کے دلائل

*زنا سےحرمت مصاہرت کا ثبوت و دلائل........!!*

سوال :

مفتی صاحب کی بارگاہ میں عرض ہے کہ ہمارے ہاں بہت بڑا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے کہ ایک شخص نے نعوذ باللہ زنا کر لیا، اب وہ اپنے بیٹے کو کہتا ہے کہ جس عورت سے اس (یعنی باپ) نے زنا کیا ہے اس زانیہ عورت سے بیٹا شادی کر لے، یہاں کچھ علماء کہہ رہے ہیں کہ یہ جائز ہے، کچھ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں اور کچھ ناجائز فرما رہے ہیں، آپ کی بارگاہ میں درخواست ہے کہ اس مسئلہ میں دلائل کے ساتھ رہنمائی فرمائیں تا کہ مناظرے میں پیش کر سکوں۔

*جواب :*

 سب سے پہلی بات تو میں آپ کو بتاتا چلوں کہ میں کوئی سند یافتہ مفتی نہیں ہوں، اگرچہ کچھ عرصہ فتوی نویسی کی ہے اور اللہ تعالی کے کرم و فضل سے عالم ہوں، کتابوں سے دیکھ کر مسئلے بتاتا ہوں، تحریرات لکھتا ہوں، مفتی اہلِ افتاء کا لقب ہے، انہی کو ججتا ہے، ہم جیسے کم علم گناہ گار کو مفتی مت کہا کیجیے...

جزاکم اللہ خیرا۔

اور ہاں میرا مشورہ ہے کہ مناظرے مت کیا کیجیے کہ عام طور آج کل ہار جیت، بڑائی، بےعزتی مقصود ہوا کرتی ہے جبکہ حقیقۃً مناظرے حق کو ثابت کرنے، حق واضح کرنے، اِفہام و تفہیم کے لئے ہوا کرتے ہیں، آپ اہلِ علم سے کہا کیجیے کہ آؤ مل بیٹھ کر ایک دوسرے کو سمجھائیں گے، دلائل دیں گے، علماء سے دلائل و فتوے لیں گے۔

اب آتے ہیں مذکورہ مسئلہ کی طرف...... تو اس مسئلہ میں ہمارے علمائے کرام دو ٹوک لکھ چکے ہیں کہ یہ جائز نہیں ہے... کچھ دلائل اور حوالہ جات ملاحظہ کیجیے :

*القرآن...........!!*

*"وَلَا تَنْكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُمْ مِنَ النِّسَاءِ"*

ترجمہ : اور جن عورتوں سے تمہارے آباء و اجداد میں سے کسی نے نکاح (جماع) کیا ہو تو تم ان سے نکاح نہ کرو۔

 *(سورۃ النساء : 22)*

تفسير نسفی میں ہے :

*"المراد بالنكاح الوطء أي لا تطؤا ما وطئ آباؤكم و فيه تحريم وطء موطوءة الأب بنكاح أو بملك يمين أو بزنا كما هو مذهبنا و عليه كثير من المفسرين"*

مذکورہ آیت میں نکاح سے مراد وطی کرنا (یعنی ہمبستری کرنا) ہے یعنی جن عورتوں سے تمہارے آباء نے ہمبستری کی ہو تو تم ان سے ہمبستری نہ کرو اور اس آیت میں اس عورت سے ہمبستری کرنے کو حرام کیا گیا ہے جس نے باپ نے نکاح کے ذریعے یا ملکِ یمین کے ذریعے یا زنا کے ذریعے ہمبستری کی ہو، جیسا کہ یہی ہمارا مذہب ہے اور اسی پر مفسرین کی اکثریت ( کا فتویٰ و قول) ہے.

*(تفسير النسفي = مدارك التنزيل وحقائق التأويل،1/345)*

تفسير أبي السعود میں ہے : 

*"بالوجه المحرَّمِ تثبتُ به الحُرمةُ"*

حرام طریقہ سے جماع کیا ہو (مثلاََ زنا کیا ہو) تو اس سے حرمتِ (مصاہرت) ثابت ہو جاتی ہے (یعنی بیٹوں کے لئے وہ عورت حرام ہوجائے گی اور اسی طرح اجداد کے لئے بھی حرام ہو جائے گی.)

*(تفسير أبي السعود، 2/159)*

تفسير قرطبی میں ہے :

*"فَإِنْ كَانَ الْأَبُ تَزَوَّجَ امْرَأَةً أَوْ وَطِئَهَا بِغَيْرِ نِكَاحٍ حَرُمَتْ عَلَى ابْنِهِ"*

اگر باپ نے کسی عورت سے نکاح کیا یا بغیر نکاح کے اس سے ہمبستری کی یعنی زنا کیا تو دونوں صورتوں میں وہ عورت اس کے بیٹے پر حرام ہو گئی ہے۔

*(تفسير القرطبي، 5/103)*

أحكام القرآن للجصاص میں ہے :

*"فَاقْتَضَى ذَلِكَ تَحْرِيمَ مَنْ وَطِئَهَا أَبُوهُ مِنْ النِّسَاءِ عَلَيْهِ"*

 اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ جس عورت سے باپ نے وطی یعنی جماع کیا یا زنا کیا تو وہ عورت بیٹے پر حرام ہو جاتی ہے.

*(أحكام القرآن للجصاص، 2/142، مطبوعہ العلمیہ)*

.

*الحدیث..........!!*

*"قال رجل: يا رسول الله، إني زنيت بامرأة في الجاهلية وابنتها، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " لا أرى ذلك، و لايصلح ذلك : أن تنكح امرأة تطلع من ابنتها"*

 ایک شخص نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے ایک عورت سے زنا کیا تھا جاہلیت کے زمانے میں اور اس کی بیٹی سے بھی زنا کیا تھا تو اس سے شادی ہو سکتی ہے یا نہیں تو نبی پاک نے فرمایا کہ شادی نہیں ہو سکتی۔

(کیونکہ عورت سے زنا کیا تو حرمت مصاہرت ثابت ہوگئی اور اس کی بیٹی تمہاری بیٹی بن گئی تو بیٹی سے نکاح نہیں ہو سکتا۔)

*(مصنف عبد الرزاق الصنعانی،7/ 201)*

 اس حدیث پاک میں واضح ثبوت ہے کہ زنا سے حرمت مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے یعنی باپ نے کسی عورت سے زنا کیا تو وہ عورت گویا کہ بیٹے کے لئے ماں بن گئی ہے۔

.

*الحدیث..........!!*

*"قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ نَظَرَ إِلَى فَرْجِ امْرَأَةٍ، لَمْ تَحِلَّ لَهُ أُمُّهَا، وَلَا ابْنَتُهَا"*

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے کسی عورت کی شرمگاہ (فرجِ داخل) کو دیکھا تو اس عورت کی ماں اس کے لئے حلال نہیں ہے اور اس عورت کی بیٹی بھی اس کے لئے حلال نہیں ہے.

*(استاد بخاری مصنف ابن أبي شيبة، 3/480)*

 یہ حدیث پاک مطلق ہے کہ شادی کر کے کسی عورت سے جماع کیا یا زنا کیا دونوں صورتوں میں حرمت مصاہرت ثابت ہو جاتی ہے اور اس عورت کی ماں اس کے لئے حرام ہو جاتی ہے اور اس عورت کی بیٹی اس کے لئے حرام ہو جاتی ہے اسی طرح وہ عورت اس کے بیٹوں کے لیے ماں کی طرح حرام ہو جاتی ہے۔ 


*بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے فتاویٰ و اقوال..............!!*

*"جَرَّدَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ جَارِيَةً فَنَظَرَ إِلَيْهَا، ثُمَّ سَأَلَهُ بَعْضُ بَنِيهِ أَنْ يَهَبَهَا لَهُ، فَقَالَ: «إِنَّهَا لَا تَحِلُّ لَكَ»"*

سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک باندی سے مباشرت کی اور آپ کے کسی بیٹے نے عرض کی کہ آپ مجھے وہ باندی ہبہ کر دیں تاکہ میں اس سے نکاح کروں تو آپ نے فرمایا کہ میں نے مباشرت کی ہے تو وہ تمہارے لیے حلال نہیں ہے۔

*(مصنف عبد الرزاق الصنعاني،6/280)*

صحابی سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے اس فتوے سے بالکل واضح ہوتا ہے کہ بغیر نکاح کے مباشرت کرنے سے وہ عورت بیٹوں کے لیے ماں کی طرح ہو جاتی ہے، حرام ہو جاتی ہے.


*"عن عبد الله قال: «لاينظر الله إلى رجل نظر إلى فرج امرأة وابنتها"*

صحابی سیدنا عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی اس شخص کی طرف نظر نہیں فرماتا ہے جو کسی عورت کی شرمگاہ کی طرف نظر کرے (یعنی مباشرت کرے) اور پھر اس کی بیٹی کی شرمگاہ کی طرف بھی۔

*(استاد بخاری مصنف ابن أبي شيبة، 3/480)*

یہ فتوی بھی عام و مطلق ہے کہ چاہے حلال طریقے سے مباشرت کرے یا زنا سے ہر دو صورت میں حرمت مصاہرت ثابت ہو جاتی ہے اور اس عورت کی بیٹی اس شخص پر حرام ہو جاتی ہے اور وہ عورت اس کے بیٹوں کے لیے ماں کی طرح حرام ہو جاتی ہے۔



*"عِمْرَانَ بْنِ الْحُصَيْنِ فِي الرَّجُلِ يَقَعُ عَلَى أُمِّ امْرَأَتِهِ؟ قَالَ: «تَحْرُمُ عَلَيْهِ امْرَأَتُهُ»"*

 صحابی سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کوئی شخص کسی عورت کی ماں سے جماع (حلال جماع یا زنا) کر لے تو وہ اس پر حرام ہو جاتی ہے۔

*(استاد بخاری مصنف ابن أبي شيبة، 3/480)*

یہ فتوی بھی عام و مطلق ہے کہ چاہے حلال طریقے سے مباشرت کرے یا زنا سے ہر دو صورت میں حرمت مصاہرت ثابت ہو جاتی ہے اور اس عورت کی بیٹی اس شخص پر حرام ہو جاتی ہے اور وہ عورت اس کے بیٹوں کے لیے ماں کی طرح حرام ہو جاتی ہے۔


*بعض تابعین وغیرہ اسلاف رحمھم اللہ تعالیٰ کے اقوال...........!!*

*"عَطَاءٍ، قَالَ: «إِذَا أَتَى الرَّجُلُ الْمَرْأَةَ حَرَامًا حُرِّمَتْ عَلَيْهِ ابْنَتُهَا، وَإِنْ أَتَى ابْنَتَهَا حُرِّمَتْ عَلَيْهِ أُمُّهَا»"*

 سیدنا عطاء فرماتے ہیں کہ جب کسی شخص نے کسی عورت سے زنا کیا تو اس عورت کی بیٹی اس پر حرام ہو گی اور اگر اس کی بیٹی سے زنا کیا تو اس کی ماں اس پر حرام ہوگی.

*(استاد بخاری، مصنف ابن أبي شيبة، 3/481)*



*"مُجَاهِدٍ، وَعَطَاءٍ، قَالَا: «إِذَا فَجَرَ الرَّجُلُ بِامْرَأَةٍ، فَإِنَّهَا تَحِلُّ لَهُ، وَلَا يَحِلُّ لَهُ شَيْءٌ مِنْ بَنَاتِهَا»"*

 سیدنا مجاہد اور سیدنا عطاء فرماتے ہیں کہ کسی شخص نے کسی عورت سے زنا کیا تو اس کی کوئی بھی بیٹی اس کے لئے حلال نہیں ہے.

*(استاد بخاری، مصنف ابن أبي شيبة، 3/481)*


*"سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ عَنْ رَجُلٍ يَفْجُرُ بِأُمِّ امْرَأَتِهِ، فَقَالَ: «أَمَّا الْأُمُّ فَحَرَامٌ، وَأَمَّا الْبِنْتُ فَحَلَالٌ»"*

سیدنا سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے اپنی عورت کی ماں سے زنا کیا تو عورت سے نکاح ہو سکتا ہے مگر اس کی ماں سے نکاح نہیں ہوسکتا۔

*(استاد بخاری،مصنف ابن أبي شيبة، 3/481)*



*"معْمَرٍ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: «إِذَا نَظَرَ الرَّجُلُ فِي فَرْجِ امْرَأَةٍ مِنْ شَهْوَةٍ لَا تَحِلُّ لِابْنِهِ"*

سیدنا معمر سیدنا ابن طاؤس سیدنا طاوس فرماتے ہیں کہ کسی نے کسی عورت کی شرمگاہ سے مباشرت کی تو اس کی بیٹی اس کے لیے حرام ہو گی.

*(مصنف عبد الرزاق الصنعاني،6/278)*


*"الزُّهْرِيَّ عَنْ رَجُلٍ قَبَّلَ أَمَتَهُ أَوْ لَمَسَهَا، هَلْ يَطَأُ أُمَّهَا؟ قَالَ: «لَا، وَلَا تَحِلُّ لِأَبِيهِ، وَلَا لِابْنِهِ»"*

سیدنا زہری فرماتے ہیں کسی نے اپنی باندی سے مباشرت کی تو اس باندی کی والدہ اس پر حرام ہو گئی اور یہ اس کے باپ دادا کے لئے اور بیٹوں کے لئے بھی حرام ہو گی۔

*(مصنف عبد الرزاق الصنعاني، 6/280)*

مذکورہ تمام فتاویٰ جات سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ زنا کیا جائے یا جائز طریقے سے جماع کیا جائے، دونوں صورتوں میں حرمتِ مصاہرت ثابت ہو جاتی ہے، عورت کی ماں اور عورت کی بیٹیاں اس پر حرام ہو جاتی ہیں اور اس کے بیٹوں کے لئے بھی وہ عورت حرام ہو جاتی ہیں۔


*فقہ سے بعض حوالہ جات...................!!*

*وَتَحْرُمُ مَوْطُوءَاتُ آبَائِهِ وَ أَجْدَادِهِ، وَإِنْ عَلَوْا وَلَوْ بِزِنًى"*

 آباء و اجداد نے جن عورتوں کے ساتھ وطی کی یا زنا کیا تو وہ عورتیں بیٹوں، پوتوں کے لئے حرام ہو جاتی ہیں۔

*(رد المحتار المعروف فتاوی شامی، 3/28)*

.

*"حُرْمَةُ الْمُصَاهَرَةِ، وَحُجَّتُنَا فِي ذَلِكَ قَوْله تَعَالَى {وَلَا تَنْكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُمْ} [النساء: ٢٢]، وَقَدْ بَيَّنَّا أَنَّ النِّكَاحَ لِلْوَطْءِ حَقِيقَةً فَتَكُونُ الْآيَةُ نَصًّا فِي تَحْرِيمِ مَوْطُوءَةِ الْأَبِ عَلَى الِابْنِ"*

 حرمت مصاہرت ثابت ہے اور اس کی دلیل  یہ آیت مبارکہ ہے : وَلَا تَنْكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُمْ} [النساء: ٢٢]، لہٰذا یہ آیت واضح دلیل ہے کہ باپ نے کسی عورت کے ساتھ جائز طریقے سے یا ناجائز طریقے سے جماع کیا تو وہ بیٹے کے لئے حرام ہو جاتی ہے۔

*(المبسوط للسرخسی،4/205)*


*"فَمَنْ زَنَى بِامْرَأَةٍ أَوْ وَطِئَهَا بِشُبْهَةٍ حَرُمَتْ عَلَيْهِ أُصُولُهَا وَ فُرُوعُهَا، وَ تَحْرُمُ الْمَوْطُوءَةُ عَلَى أُصُولِ الْوَاطِئِ وَ فُرُوعِهِ"*

کسی شخص نے کسی عورت سے زنا کیا یا شبہ کے ساتھ جماع کیا تو اس پر اس عورت کے تمام اصول (ماں دادی وغیرہ) اور تمام فروع (بیٹی پوتی وغیرہ) حرام ہو جاتی ہیں اور زنا یا جماع کرنے والے کے اصول. (باپ دادا وغیرہ) اور اس کے فروع ( بیٹوں پوتوں وغیرہ) پر وہ عورت حرام ہوجاتی ہے۔

*(الاختيار لتعليل المختار، 3/88)*


*"حُرْمَةَ الْمَرْأَةِ عَلَى أُصُولِ الزَّانِي وَ فُرُوعِهِ"*

زنا کرنے والے کے اصول (باپ دادا وغیرہ) اور اس کے فروع (بیٹوں پوتوں وغیرہ) پر زانیہ عورت حرام ہوجاتی ہے۔

*(البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري،3/108)*



*"الْأُمُّ، أَوْ مَوْطُوءَةُ الْأَبِ وَكُلٌّ مِنْهُمَا حَرَامٌ"*

ماں اور وہ عورت جس سے باپ نے جماع یا زنا کیا دونوں ہی بیٹے پر حرام ہیں.

*(مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر، 1/376)*



*خلاصہ..........!!*

*"وقولنا قول عمر وابن مسعود وابن عباس في الأصح وعمران بن الحصين وجابر وأبيّ وعائشة وجمهور التابعين كالبصري والشعبي والنخعي والأوزاعي وطاوس وعطاء ومجاهد وسعيد بن المسيب وسليمان بن يسار وحماد والثوري وإسحاق بن راهويه""*

زنا یا جائز جماع سے حرمت مصاہرت ثابت ہوتی ہے ( مثلاً وہ عورت آباء و اجداد اور بیٹوں وغیرہ کے لئے حرام ہو جاتی ہے اور عورت کے اصول و فروع اس کے لئے حرام ہو جاتے ہیں۔)

یہی ہم احناف کا فتویٰ اور سیدنا عمر و سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنھما کا فتویٰ ہے اور اصح قول کے مطابق یہی فتویٰ سیدنا ابن عباس کا بھی ہے اور سیدنا عمران بن حصین اور سیدنا جابر اور سیدنا ابی اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھم جیسے جلیل القدر اکابر صحابہ کرام کا بھی ہے۔

اور

یہی فتویٰ جمہور تابعین کا ہے جیسے کہ امام بصری و شعبی کا یہی فتویٰ ہے اور امام نخعی، امام اوزاعی کا فتوی ہے اور سیدنا عطاء، سیدنا مجاہد، سیدنا سعید بن مسیب کا بھی یہی فتوی ہے اور امام سلیمان، امام حماد، امام ثوری، امام اسحاق بن راھویہ کا بھی یہی فتوی ہے۔

*(فتح القدیر، 3/ 219)*


*✍️تحریر : العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر*

whats App,twitter nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574

Post a Comment

1 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.
  1. جزاک اللہ خیرا علامہ صاحب، اس مسئلہ پر دلائل عوام کی نظر میں بالکل نہیں ہوتے.

    ReplyDelete