شاہت شاہ کا معنی، سید ریاض حسین اور قبلہ مفتی ابراہیم اور چمن زمان؟

*شاہ شاہت کا معنی، دفاع سیدنا حسن،دفاع سیدنا معاویہ اور چمن زمان کے کھلے خط پر گذارشات.........!!*
پس منظر:
سید ریاض حسین شاہ صاھب نے تقریر میں فرمایا کہ...المفھوم:
شاہت الوجوہ کا بڑی بڑی تاریخی کتب میں معنی نہیں بتایا گیا، اس کے اکیس معنی ہیں، میرے ذوق کے معنی یہ ہیں کہ جو پھیل جائے پھیلائے وہ شاہ ہے، مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم شاہ ہیں کہ جب شاہت الوجوہ فرمایا تو مٹی سیدنا علی سے اٹھوائی تاکہ نبوت کا دروازہ تو بند ہے مگر ولات کے نائب علی ہوں اس لیے تو فرمایا جسکا میں مولا علی اسکا مولا، جو سب کچھ سپرد کردے وہ شاہ نہیں،شاہ تو کربلا میں حسین ہے کہ شاہ است حسین.......!!
.
اس پر قبلہ مفتی ابراہیم القادری صاحب نے گرفت فرمائی کہ شاہت کا مزکورہ معنی کرنا ، خود ساختہ ہے اور شاہت کا معنی تاریخ میں ڈھونڈا عجیب گپ ہے اور حیاء سوز بےشرمی کی بات ہے کہ اشارتا کنایتا سیدنا حسن حسین کا تقابل کرکے سیدنا حسن سے شاہ ہونے کی نفی کی جارہی ہے ایسا کام تو رافضی یا تفضیلی کرتے ہیں اور قبلہ مفتی ابراہیم صاحب نے شاید کسی اور کلپ سے سید ریاض شاہ ساھب کی قران میں ایک قسم کی تحریف ثابت کی اور یہ فتوی عام کیا کروایا
.
جس پر چمن زمان صاحب بھڑک اٹھے قبلہ مفتی ابراہیم صاحب کو ابن السلقلقیہ کہا اور کذاب کہا اور شاہت کے معنی پھیلنے والا کا دفاع کیا کچھ حوالے دیے اور مناظرے کا چیلنج دیا اور اعتراض کیا کہ مفتی ابراہیم صاحب نے شیعہ کی فاتحہ خانی کی پیسوں کی لالچ میں اور(ابو سفیان یا معاویہ) کے گستاخ کو کلین چٹ دے دی 
.
چمن زمان کا خط کھلے عام تھا تو ہمارا بھی حق بنتا ہے کہ گذارشات کریں تو اب میں بندہ ناچیز عنایت اللہ حصیر القادری گذارش کرتا ہوں کہ
.
پہلی بات:
چمن زمان صاحب آپ کی مکاریوں خیانتوں تشیع پر تقریبا درجن بھر یا اس سے زائد تحریرات لکھ چکا ہوں،  ہمت کیجیے جواب دیجیے پھر اکابرین کو مناظرے کا چیلنج کرنا، فقیروں کے اعتراضات مواخذات کا جواب اپ سے بن نہیں پاتا اور چلے ہیں اکابرین سے مناظرہ کرنے, ہمت کیجیے پہلے ہماری گرفتوں کا جواب لکھیے مدلل......!!
.
دوسری بات:
چمن زمان صاحب کچھ تو حیاء و شرم ہونی چاہیے....مفتی ابراہیم صاحب آپ کے محسن و باپ جیسے ہیں انہیں گالیاں دینا مذمت کرنا تمہیں ججتا ہے.....؟؟ سید ریاض حسین شاہ ساحب اور مفتی ابراہیم صاحب دونوں بزرگ ہم عمر ہیں اختلاف کریں ایک دوسرے کو کچھ کہیں تو ہم کون ہوتے ہین بیچ میں گالیاں بکنے والے.....؟؟ ہاں ادب سے پردلیل اختلاف کیا جاسکتا ہے جسـمیں مکاری خیانت من مانیت نہ ہو ورنہ قابل مزمت
.
تیسری بات:
آپ حسن ظن کا بھاشن دے رہے ہیں ، اچھی بات ہے مگر یہ حسن ظن مفتی ابراہیم کے ساتھ بھی رکھیے ناں....حسن ظن کے ساتھ یہ قاعدہ بھی یاد رہے کہ:
کل اناء یترشح بما فیہ صرح بہ الامام ابن حجر المکی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ۔
 ہر برتن سے وہی کچھ باہر آتا ہے جو اس کے اندر ہوتا ہے امام ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تصریح فرمائی ہے... 
(فتاوی رضویہ : ج29، ص225) 
.
چوتھی بات:
شاہ لفظ اصل کیا تھا کس زبان کا تھا اسکا اعتبار نہیں بلکہ عرف کا اعتبار ہوگا کہ کس معنی میں استعمال ہوتا ہے، شاہ اردو فارسی کا لفظ ہے تو اسکا معنی اردو لغت میں دیکھا جائے گا ناکہ عربی لغت میں کہ اردو میں کئ الفاظ آکر عربی کے معنی کھو دیتے ہیں
امام احمد رضا فرماتے ہیں:
 صدہا الفاظ عربی ہیں کہ اُردو میں غیر معنی عربی پر مستعمل ہیں ، ان معانی کو(عربی)قاموس میں تلاش کرنا حماقت ہے بلکہ اُردو کے اہل زبان سے دریافت کرنا چاہیے -( فتاوی رضویہ29/86)
.
اردو میں شاہ کے معنی یہ ہیں
تاش یا گنجفے كا میر. آقا ، سردار ، مالک ، حاكم. آصل..جڑ..
آلِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (خصوصیت كے ساتھ امام حسینؓ) كا لقب ؛ سیّد. خدا رسیدہ ، بُزرگ (فقیروں كا لقب).
ساہ ، تاجر ، مہاجن ، ساہوكار.
ساہ ؛ كھرا ، دیانتدار ، امانت دار.
شطرنج كا میر ؛ شطرنج كی كشت.
شہد كی مكھی یا بھڑ وغیرہ كا سربراہ جو عظیم الجثہ ہوتا ہے. كسی ملک ، سلطنت یا مملكت كا خود مختار فرمان٘روا (خصوصاً جسے حكمرانی وراثت میں ملی ہو) ، سلطان ، بادشاہ. نوشہ ، دولھا.. داماد.
بڑا ، بزرگ ، عظیم تر ، برتر ، قوی ؛ بہترین ، عمدہ ؛ اچھا ، معیاری (كمیت یا كیفیت میں)
(ماخذ فرہنگ آصفیہ 3/163فیروز اللغات ص835 ریختہ آن لائن ڈکشنری)
.
اب دیکھنا ہوگا کہ ہمارے عرف میں مذکورہ تمام اردو معنی میں استعمال ہوتا ہے یا اکثر کس معنی میں.....؟؟ یہ بات سب جانتے ہیں کہ عام بول چال میں شاہ سے مراد "سید" ہی ہوتا ہے ہمارے ہاں الا یہ کہ قرائن معنی بدل دیں
اور
جو عام بول چال عرف کو اہمت نہ دے وہ جاہل ہے
قاعدہ:
وَمَنْ لَمْ يَكُنْ عَالِمًا بِأَهْلِ زَمَانِهِ فَهُوَ جَاهِلٌ.
 جو شخص اپنے زمانے کے لوگوں کے اقوال و احوال نہ جانتا ہو(اقوال احوال قرائن مطابق فتوی نہ دے) وہ جاہل ہے
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) ,2/47)
(حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح ,page 415)مزید وضاحت چھٹی بات میں آ رہی ہے

.

پانچویں بات:
چوتھی بات میں یہ ثابت کر آئے کہ شاہ کا معنی پھیلنے پھیلانے والا اردو میں نہیں، اور ہم ہمارا تکلم بحث گفتگو خطاب اہلیان اردو سے ہوتا ہے لیکن بقول مفتی ابراہیم صاحب کے کہ عجیب گپ ہے کہ شاہ کا معنی "پھیلنے پھیلانے والا" زبردستی لیا جا رہا ہے تاکہ سیدنا حسن کو شاہ نہ کہا جاسکے...یہ شاہ صاحب کی گپ ایسی حیاء سوز و بےادبی پر مشتمل ہے کہ اس میں سیدنا حسن کی بھی توہین ہے اور سیدنا معاویہ کی بھی توہین کا پہلو نکلتا ہے
شاہ کا معنی پھیلنے پھیلانے والا کسی معتبر کتاب لغت شرح حدیث میں نہیں اس لیے مفتی ابراہیم صاحب نے سچ ہی فرمایا کہ "پھیلانے پھیلنے" والا معنی شاہ کا کسی لغت میں اپتہ پتہ نہیں...لیھذا حدیث میں معنوی تحریف کی ہے شاہ صاحب نے جوکہ گھنونا جرم ہے قابل مذمت ہے رجوع کرنا لازم ہے
مگر انکے چمچے چاپلوس مکار چمن زمان نے کچھ حوالے دے کر کوشش کی ہے کہ" شاہ" کا معنی پھیلنے والا بھی ہوتا ہے
«شَوَّهَ اللَّهُ حُلُوقَكُمْ» أَيْ وَسَّعَهَا
(النهاية في غريب الحديث والأثر2/511)
اسکا جواب یہ ہے کہ یہ "شاہ،شاہت" کا معنی نہیں بلکہ "شوہ تشویھا" کا معنی ہے....باب و وزن بدل جانے سے معنی بدل جاتا ہے....ہمارا دعوی ہے کہ "شاہت" سے پھیلانے پھیلنے کا معنی دکھاؤ جبکہ "شاہت" کے معنی تاریخ شروحات اور کتب لغت میں قبحت (قبیح ہو جائیں چہرے) ہی لکھا ہے...ہم 21 حوالے پیش کر رہے ہیں تاریخ شروح لغت کی کتابوں سے، کیا ان سب پر "پھیلنے پھیلانے " والا معنی مخفی رہا......؟؟ اسلام اہل علم اہل عرب ایک معنی کرین اور ہم من مانی کرتے ہوئے اپنے خود ساختہ معنی ٹھوکتے پھریں یہ کہاں کا انصاف ہے، یہ تو تحریف ہے تحریف معنوی
.
شاہت کا معنی قبحت کتب تاریخ سے:
قَالَ شَاهَت الْوُجُوه أَي قبحت
(سمط النجوم العوالي في أنباء الأوائل والتوالي ,2/275)
.
قال شاهت الوجوه أى قبحت
(تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيس ,2/104]


شاهت الوجوه» أي قبحت الوجوه
[نور الدين الحلبي ,السيرة الحلبية = إنسان العيون في سيرة الأمين المأمون ,2/229]
.
شَاهَتِ الْوُجُوهُ أَيْ: قَبُحَتْ ثُمَّ
[الملا على القاري ,جمع الوسائل في شرح الشمائل ,2/40]
.
وَقَوْلُهُ شَاهَتِ الْوُجُوهُ أَيْ قَبُحَتْ
[إسماعيل الأصبهاني ,دلائل النبوة لإسماعيل لأصبهاني ,page 127]
.
شاهت الوجوه» - أى قبحت-
[القسطلاني ,المواهب اللدنية بالمنح المحمدية ,1/399]


.
شاهت الوجوه: قبحت
(سبل الهدى والرشاد في سيرة خير العباد ,4/149]
.
شاہت کا معنی قبحت شروحات حدیث سے
"شاهت الوجوه أي قَبُحت
(كتاب المعلم بفوائد مسلم3/32)
.
(شَاهَتِ الْوُجُوهُ) أَيْ قَبُحَتْ
(كتاب شرح النووي على مسلم12/122)
.
"شاهت الوجوه" أي قبحت
( إرشاد الساري لشرح صحيح البخاري6/404)
.
: (شاهت الوجوه) أي: قبحت
( لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح9/441)
.
شَاهَت الْوُجُوه أَي قبحت
( شرح السيوطي على مسلم4/388)
.
(شاهت الوجوه) أي قبحت
( فيض القدير4/153)
.
(شَاهَتِ الْوُجُوهُ) ، أَيْ: تَغَيَّرَتْ وَقُبِّحَتْ 
(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح9/3793)
.
شاہت کا معنی قبحت کتب لغت سے
شاهَت الوجوهُ تَشُوهُ شَوْهاً: قَبُحَت.
(,لسان العرب ,13/508)


وقالَ: شاهت الوجوه، أَراد: قَبُحت؛ يقال: شاهَ وجهُ فلان يَشُوه شَوْهاً وشَوْهَةً، إِذا قَبُح،
[ابن الأنباري ,الأضداد لابن الأنباري ,page 285]
.
شاهَتِ الوُجُوه) ، فهَزَمَهم اللَّهُ تَعَالَى.قالَ أَبو عَمْرو: أَي قَبُحَتِ الوُجُوه
[,تاج العروس ,36/420]

.
شَاهَت الْوُجُوه أَي قبحت
[جمهرة اللغة ,1/240]
.
(شَاهَتِ) الْوُجُوهُ قَبُحَتْ وَبَابُهُ
[مختار الصحاح ,page 171]
.
شوه: فِي حَدِيث النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم أَنه رَمَى الْمُشْركين يومَ حُنين بكفَ من حَصًى وَقَالَ: شَاهَت الوجوهُ، فَكَانَت هزيمةُ الْقَوْم..قَالَ أَبُو عبيد: قَالَ أَبُو عَمْرو: يَعْنِي قَبُحَت الوُجوه
[الأزهري ,تهذيب اللغة ,6/190]
.
رمى المشركين بالتراب وقال: "شاهت" الوجوه! أي قبحت
[الفَتَّنِي ,مجمع بحار الأنوار ,3/265]
.
شاہت کا معنی پھیلنا پھیلانا عقلا بھی ٹھیک نہیں:
جی ہاں بالفرض باطل شاہت کا معنی پھیلنا پھیلانا کیا جائے تو شاہت الوجوہ کا معنی بنے گا "چہرے پھیل گئے، چہرے پھیلاء دیے گئے" جوکہ موقعہ مناسبت سے مطابقت ہی نہیں رکھتے
.
لیھذا شاہ صاحب کو خود ساختہ معنی فٹ کرکے حدیث میں تحریف معنوی سے رجوع کرنا لازم ہے اور چمن زمان جیسوں پر لازم ہے کہ اندھے چاپلوس چمچے مکار مت بنو،..... حق کہو اگرچے معاملے کسی قریبی کا ہو(دلیل سورہ انعام آیت52)


.

چھٹی بات:
سرکار کل عالم نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کرنا پھر سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی ولایت متصلہ اشارتا کنایتا ثابت کرنا پھر "سپرد کر دے وہ شاہ نہیں" کہنا پھر "کربلا میں شاہ است حسین کہنا" یہ ترتیب یہ طرز یہ قرینہ کلام واضح کرتا ہے کہ "سپرد کردے وہ شاہ نہیں" سیدنا حسن کے لیے بولا گیا ہے....اگر قرینہ کلام سیاق و سباق کو مدنظر نہ رکھا جائے تو ہر کوءی توہین اشارتا کرتا پھرے گا اور کہے گا کہ نام تو نہیں لیا....اس لیے علماء نے سیاق و سباق قرائن کو بڑی اہمیت دی ہے
فقد ظھرلک ان جمود المفتی او القاضی علی ظاھر المنقول مع ترک العرف والقرائن الواضحۃ والجھل باحوال الناس یلزم منہ تضییع حقوق کثیرۃ وظلم خلق کثیرین۱؎
اس تفصیل سے واضح ہوگیا کہ اگر مفتی یا قاضی عرف اور قرائن واضحہ چھوڑ کر اور لوگوں کے حالات سے بے خبر ہو کر نقل شدہ حکم کے ظاہر پر جمود اختیار کر لے تو اس سے بہت سے حقوق کی بر بادی اور بے شمار مخلوق پر ظلم و زیادتی لازم آئے گی اھ۔ (۱؎ شرح عقودرسم المفتی رسالہ من رسائل ابن عابدین،سہیل اکیڈمی لاہور    ۱ /۴۷)
(فتاوی رضویہ 1/162)
.
لیھذا چمن زمان صاھب یہ کہہ کر جان مت چھڑاؤ جان مت بچاو کہ جی سیدنا حسن کا نام نہیں لیا........ورنہ یہ مکاری عیاری منافقانہ چال کہلائے گی
.
ساتویں بات:
سید ریاض حسین شاہ صاحب نے جو فرمایا...المفھوم: کہ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم شاہ ہیں کہ جب شاہت الوجوہ فرمایا تو مٹی سیدنا علی سے اٹھوائی تاکہ نبوت کا دروازہ تو بند ہے مگر ولات کے نائب علی ہوں اس لیے تو فرمایا جسکا میں مولا علی اسکا مولا.. اس سے یہ واضح تاثر دے رہے ہیں شاہ صاحب کہ روحانی ولایتی قطبی خلیفہ سیدنا علی بلافصل ہیں
جبکہ
اہلسنت کا نظریہ ہے کہ روحانی ولایتی قطبی خلفاء بلافصل بھی سیدنا ابوبکر صدیق ہیں پھر سیدنا عمر پھر سیدنا عثمان پھر سیدنا علی....حق چار یار کی نسبت سے چار حوالے ملاحظہ کیجیے
①و فی شرح المواهب اللدنية قال: أول من تقطب بعد النبی الخلفاء الأربعة على ترتيبهم في الخلافة، ثم الحسن هذا ما عليه الجمهور
شرح المواهب اللدنية میں ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے پہلے جو قطب ہیں وہ خلفائے اربعہ ہیں اس ترتیب پر جو ان کی خلافت کی ترتیب ہے یعنی سب سے پہلے قطب سیدناابوبکر صدیق ہیں پھر سیدنا عمر پھر سیدنا عثمان ہیں پھر سیدنا علی قطب ہیں پھر سیدنا حسن(رضی اللہ تعالیی عنھم اجمعین)اور یہ وہ(نظریہ قول) ہے کہ جس پر جمہور(علماء اور صوفیاء)ہیں 
(جلاء القلوب2/265)
.
②وأول من تقطب بعد النبي يَةُ الخلفاء الأربعة على ترتيبهم في الخلافة، ثم الحسن، هذا ما عليه الجمهور
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے پہلے جو قطب ہیں وہ خلفائے اربعہ ہیں اس ترتیب پر جو ان کی خلافت کی ترتیب ہے یعنی سب سے پہلے قطب سیدناابوبکر صدیق ہیں پھر سیدنا عمر پھر سیدنا عثمان ہیں پھر سیدنا علی قطب ہیں پھر سیدنا حسن(رضی اللہ تعالیی عنھم اجمعین)اور یہ وہ(نظریہ قول) ہے کہ جس پر جمہور(علماء اور صوفیاء)ہیں 
(مشتهى الخارف الجاني ص506)
.
③وبعد عصرہ صلی اللہ علیہ وسلم خلیفتہ القطب، متفق علیہ بین اہل الشرع و الحکماء۔۔۔انہ قد یکون متصرفا ظاہرا فقط کالسلاطین و باطنا کالاقطاب و قد یجمع بین الخلافتین  کالخلفاء الراشدین کابی بکر و عمر بن عبدالعزیز
اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ مبارکہ کے بعد جو آپ کا خلیفہ ہوا وہی قطب ہے اس پر تمام اہل شرع(علماء صوفیاء)اور حکماء کا اتفاق ہے کہ خلیفہ کبھی ظاہری تصرف والا ہوتا ہے جیسے کہ عام بادشاہ اور کبھی فقط باطنی تصرف والا ہوتا ہے جیسے کہ قطب اور کبھی خلیفہ ایسا ہوتا ہے کہ جو ظاہری تصرف بھی رکھتا ہے اور باطنی تصرف بھی رکھتا ہے(وہ بادشاہ بھی ہوتا ہے اور قطب بھی ہوتا ہے)جیسے کہ خلفائے راشدین مثلا سیدنا ابو بکر صدیق اور عمر بن عبدالعزیز    
(نسیم الریاض3/30ملتقطا)
.

④قطب.....وھو الغوث ایضا و ھو سید الجماعۃ فی زمانہ۔۔یحوز الخلافۂ الظاہریۃ کما حاز الخلافۃ الباطنیۃ کابی بکر و عمر و عثمان و علی رضوان اللہ تعالیٰ علھیم...و ذہب التونسی من الصوفیۃ الی ان اول من تقطب بعدہ صلی اللہ علیہ وسلم  ابنتہ فاطمۃ و لم ار لہ فی ذالک سلفا
قطب اس کو غوث بھی کہتے ہیں اور وہ اپنے زمانے میں تمام امتیوں کا سردار و افضل ہوتا ہے...خلیفہ کبھی ایسا ہوتا ہے جو ظاہری خلافت بھی پاتا ہے اور باطنی خلافت و قطبیت بھی پاتا ہے جیسے کہ سیدنا ابو بکر صدیق اور سیدنا عمر اور سیدنا عثمان اور سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ اجمعین اور صوفیاء میں سے تونسی اس طرف گئے ہیں کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد اول قطب ان کی بیٹی فاطمہ ہے اور ہم اس مسئلہ میں ان کا کوئی ہمنوا و حوالہ نہیں پاتے  
(مجموع رسائل ابن عابدین 2/265ملتقطا)
.
آٹھویں بات:
چمن زمان اعتراض کیا کہ مفتی ابراہیم صاحب نے شیعہ کی فاتحہ خانی کی پیسوں کی لالچ میں اور(ابو سفیان یا معاویہ) کے گستاخ کو کلین چٹ دے دی
جواب:
پیسوں کی لالچ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں ؟ آپ کو الھام ہوا...؟ یا اپنی عادت پر دوسروں کو قیاس کر رہے ہو.....؟؟ جبکہ یہ عین ممکن ہے کہ وہ شیعہ بظاہر نام کا شیعہ ہو اور مفتی صاھب انکے اہلخانہ وغیرہ کو اہلسنت سے قریب کرنے کے لیے گئے ہوں اور سیدنا ابوسفیان یا سیدنا معاویہ کی گستاخی پر کوئی توبہ کرے تو کیا اسکی توبہ قبول نہیں...نہیں تو دکھاؤ حوالے...مفتی صاحب نے کلین چٹ نہ دی بلکہ توبہ کروائی،  اچھا کام کروایا
.
خلاصہ:
①سید ریاض حسین شاہ صاحب کے متعلق جو مفتی ابراہیم صاحب نے فرمایا کہ گپیں ماریں ہیں بالکل درست کہا ہے کیونکہ شاہت کا معنی تاریخ کی کتب میں بھی ہے جسکا اعتراف چمن زمان نے بھی کیا
.
②مفتی ابراہیم صاحب نے یہ بھی درست لکھا کہ "شاہت" کا معنی پھیلنا پھیلانا کسی کتاب میں نہیں کیونکہ شاہت کا معنی تمام علماء نے "قبحت" کیا ہے....شاہت سے ہٹ کر "شوہ تشویھا" باب سے پھیلنا پھیلانا کا معنی آ سکتا ہے، یہاں چمن زمان کی مکاری بھی پکڑی گئ
.
③مفتی ابراہیم صاھب نے جو لکھا کہ حیاء سوز بات ہے کہ سیدنا حسن سے شاہ کی نفی کی جارہی ہے...بالکل درست فرمایا ہے، یہ توہین سیدنا حسن کی بھی ثابت ہوتی ہے تو توہین سیدنا معاویہ کی بھی ثابت ہوتی ہے،یہاں چمن زمان کی بےجا تاویل پکڑی گئ
.
④سیدنا علی کو روحانی خلیفہ بلافصل ثابت کرنے کی کوشش کی ہے سید ریاض حسین شاہ صاحب نے جوکہ اہلسنت نظریات کے خلاف ہے...چمن زمان کی خاموشی معنی خیز ہے
.
⑤مفتی ابراہیم صاھب نے جو لکھا کہ سید ریاض حسین نے قران میں تحریف کی ہے....اسکا مجھے علم نہیں...واللہ تعالیٰ اعلم
.
⑥چمن زمان نے "ابن سلقلقیہ اور کذاب کہا گالیاں دیں مفتی ابراہیم صاحب کو جو کہ ناحق و برائی و جرم ہے، ہم اسکی پر زور مذمت کرتے ہیں کاش قاضی وقت مرمت بھی کرے...اللہ ہدایت دے سمجھ دے سچائی دے وسعت ظرفی دے حق بیانی کی توفیق دے....دقیق مطالعہ توجیہ تطبیق سیاق سباق وغیرہ مختلف جہات کی طرف توجہ کی توفیق عطاء فرمائے....حدیث پاک میں ہے کہ منافق کی نشانی ہے کہ جب جگھڑا کرتا ہے تو گالیاں بکتا ہے
(بخاری حدیث34)
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
whats App,twitter nmbr
00923468392475
03468392475
other nmbr
03062524574

Post a Comment

1 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.
  1. بہت خوب علامہ حصیر صاحب

    ReplyDelete