صاحب نصاب پر قربانی واجب ہونے کے دلائل اور ایک قربانی پورے گھر کی طرف سے کےجواب اور قربانی کے ثواب میں اہل خانہ کو شریک کیجیے

 *ایک قربانی سارے گھر کی طرف سے یا ہر مالک نصاب الگ الگ قربانی کرے..........؟؟ قربانی کے ثواب میں اہل خانہ وغیرہ کو بھی شامل کیجیے یہ سنت سے ثابت ہے......!!*

.
سوال:
[[ پورے گھر کی طرف سے ایک قربانی کافی ہے ]]
 عطاء بن یسار کہتے ہیں کہ میں نے ابوایوب انصاری صحابی پوچھا کہ رسول الله صلی الله علیه وسلم کے دور میں قربانیاں کیسے کی جاتی تھیں ؟ آپ نے فرمایا : 
ایک آدمی ایک بکری اپنی طرف سے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے قربانی کرتا تھا اور وہ اسی سے کھاتے پیتے تھے مگر اب لوگ ایک دوسرے پر فخر کے لیے قربانیاں کرتے ہیں جیسے کہ تم دیکھ رہے ہو-"[ سنن الترمذی : ١٥٠٥ ]
.
علامہ صاحب ہم نے تو سنا تھا کہ گھر میں ایک سے زائد افراد صاحب نصاب ہوں تو ہر ایک پر الگ قربانی ہے جبکہ مذکورہ حدیث سے تو کچھ اور ثابت ہو رہا ہے…مدلل رہنمائی فرمائیں
.
جواب:
*قربانی واجب ہونے کی دلیل اور ہر صاحب نصاب پر الگ الگ واجب ہونے کی دلیل  قرآن و  تفاسیر سے*
القرآن:
فَصَلِّ  لِرَبِّکَ وَ انۡحَرۡ 
ترجمہ:
تو اپنے رب ہی کےلیے (عید )نماز پڑھو اور قربانی کرو۔…(سورہ الکوثر آیت نمبر 2 )

فعلى هذا يثبت به وجوب صلوة العيد والاضحية
اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ قربانی اور نماز عید واجب ہے 
[التفسير المظهري ,10/353]
۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَعْدٍ، قَالَ: ثني أَبِي، قَالَ: ثني عَمِّي، قَالَ: ثني أَبِي، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ} [الكوثر: 2] قَالَ: " الصَّلَاةَ الْمَكْتُوبَةَ، وَالنَّحْرُ: النُّسُكُ وَالذَّبْحُ يَوْمَ الْأَضْحَى "
سیّدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ وانحر سے مراد حج کی قربانیاں اور عید الاضحی کی قربانی مراد ہیں
[تفسير الطبری,24/693]
.
قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ} [الْكَوْثَر: 2].
يَعْنِي: صَلاةَ عِيدِ الأَضْحَى، وَانْحَرِ الْبُدن.... وَالأَوَّلُ أَصَحُّ.
فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ} [الْكَوْثَر: 2]کی چند تفاسیر ہیں صحیح ترین تفسیر یہ ہے کہ نماز پڑھ سے مراد عید نماز پڑھ اور وانحر سے مراد قربانی کر 
[شرح السنة للبغوي ,4/326]

وَأخرج ابْن جرير وَابْن الْمُنْذر عَن ابْن عَبَّاس {وانحر} قَالَ: الصَّلَاة الْمَكْتُوبَة وَالذّبْح يَوْم الْأَضْحَى
ابْن جرير اور ابْن الْمُنْذرنے سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ہے کے وانحر سے مراد عید الاضحی کے دن قربانی کرنا ہے 
[الدر المنثور في التفسير بالمأثور ,8/651]

إنها صلاة عيد الأضحى لاقترانها بقوله وَانْحَرْ وكانوا يقدمون الأضحية على الصلاة فأمروا بتأخيرها عنها
پہلے پہل قربانی پہلے کرتے تھے اور نماز بعد میں پڑھتے تھے تو اللہ تعالی نے حکم دیا کہ عید نماز پڑھو اور اس کے بعد قربانی کرو 
[تفسير النيسابوري ,6/578]
.
والراجح....ما ذهب إليه أبوحنيفة من أنها واجبة على الأعيان لقوله تعالى: {فصل لربك وانحر} [الكوثر: 2]
امام ابو حنیفہ نے فرمایا ہے کہ قربانی ہر ایک مالک نصاب پر ہوگی یہی قول راجح ہے کیونکہ قرآن میں حکم ہے کہ عید کی نماز پڑھو اور قربانی کرو 
[مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ,5/22]
.

القرآن..لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَہَا
اللہ تعالی کسی کو اس کی طاقت۔و۔وسعت سے زیادہ حکم نہیں دیتا 
(سورہ بقرہ ایت286)
۔
ان تمام تفاصیل و دلائل و حوالہ جات سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر ایک شخص کو حکم ہے چاہے وہ مرد ہو عورت ہو جوان ہو یا بوڑھا ہو اسے حکم ہے کہ وہ قربانی کرےہاں یہ حکم اس سے مشروط ہے کہ قربانی کی طاقت بھی ہو اور طاقت سے مراد مالک نصاب ہونا ہے جیسا کہ نیچے تفصیل آرہی ہے 
۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے تو حکم دیا ہے تو یہ قربانی اور عید کی نماز فرض ہونی چاہیے انہیں واجب کیوں کہتے ہیں۔؟
اس کا یہ ہے کہ آیت ‏مبارکہ کی ایک تفسیر وہ ہے جو اوپر بیان ہوئی اور اس کے علاوہ بھی دیگر کچھ اور تفاسیر ہیں۔۔۔لہذا آیت قطعی تو ہے لیکن قربانی اور عید نماز پر قطعی الدلالہ نہیں ہے۔۔۔۔جب آیت یا حدیث قطعی الثبوت اور ظنی الدلالہ ہو تو اس سے واجب ثابت ہوتا ہے فرض ثابت نہیں ہوتا

أَنَّ الْأَدِلَّةَ السَّمْعِيَّةَ أَرْبَعَةٌ، الْأَوَّلُ قَطْعِيُّ الثُّبُوتِ وَالدَّلَالَةِ كَنُصُوصِ الْقُرْآنِ الْمُفَسَّرَةِ أَوْ الْمُحْكَمَةِ وَالسُّنَّةِ الْمُتَوَاتِرَةِ الَّتِي مَفْهُومُهَا قَطْعِيٌّ الثَّانِي قَطْعِيُّ الثُّبُوتِ ظَنِّيُّ الدَّلَالَةِ كَالْآيَاتِ الْمُؤَوَّلَةِ الثَّالِثُ عَكْسُهُ كَأَخْبَارِ الْآحَادِ الَّتِي مَفْهُومُهَا قَطْعِيٌّ الرَّابِعُ ظَنِّيُّهُمَا كَأَخْبَارِ الْآحَادِ الَّتِي مَفْهُومُهَا ظَنِّيٌّ، فَبِالْأَوَّلِ يَثْبُتُ الِافْتِرَاضُ وَالتَّحْرِيمُ، وَبِالثَّانِي وَالثَّالِثِ الْإِيجَابُ وَكَرَاهَةُ التَّحْرِيمِ؛ وَبِالرَّابِعِ تَثْبُتُ السُّنِّيَّةُ وَالِاسْتِحْبَابُ.
خلاصہ:
سمعی دلائل کی چار اقسام ہیں
نمبر ایک قطعی الثبوت قطعی الدلالہ۔۔۔۔اس سے فرض اور حرام کا حکم ثابت ہوتا ہے 
نمبر دو قطعی الثبوت ظنی الدلالہ۔۔اس سے واجب اور مکروہ تحریمی کا حکم ثابت ہوتا ہے  
نمبر تین ظنی الثبوت قطعی الدلالہ۔۔۔۔ اس سے بھی واجب اور مکروہ تحریمی کا حکم ثابت ہوتا ہے  
نمبر چار ظنی الثبوت ظنی الدلالہ۔۔۔اس سے سنت اور مستحب کا حکم ثابت ہوتا ہے  
[رد المحتار ,6/337]

۔
*ہر گھر پر نہیں بلکہ ہر فرد ہر مالدار صاحب نصاب شخص پر قربانی واجب ہونے کی دلیل حدیث پاک سے*
الحدیث:
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ كَانَ لَهُ سَعَةٌ، وَلَمْ يُضَحِّ، فَلَا يَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا»
ترجمہ:
بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس میں طاقت ہو وسعت ہو اور اور اس کا ارادہ قربانی نہ کرنے کا ہو  تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے 
[سنن ابن ماجه ,2/1044 حدیث3123]
[السنن الكبرى للبيهقي19/250حدیث19044]
[مسند أحمد,8/261حدیث8256]
[المستدرك ,4/258حدیث7565]
.
القرآن:
لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفۡسًا اِلَّا وُسۡعَہَا
اللہ تعالی کسی کو اس کی طاقت۔و۔وسعت سے زیادہ حکم نہیں دیتا 
(سورہ بقرہ ایت286)
۔
آیت اور حدیث پاک سے واضح ہوتا ہے کہ قربانی کا حکم ہر اس مرد اور عورت پر ہے جس میں وسعت طاقت مالداری ہو
لہذا یہ حکم گھر کےتمام وسعت والے،صاحب نصاب  افراد کے لیے ہے۔۔۔گھر میں چاہے جتنے بھی افراد وسعت طاقت صاحب نصاب ہیں تو ان پر قربانی الگ الگ واجب۔۔۔۔ایک کی طرف سے قربانی کر دینے سے دوسروں کے واجب کی ادائیگی نہیں ہوگی
 .
.
قربانی ہرگھر پر نہیں بلکہ  صاحب نصاب پر ہے:
وَمِنْهَا الْغِنَى لِمَا رُوِيَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَنَّهُ قَالَ: «مَنْ وَجَدَ سَعَةً فَلْيُضَحِّ» شَرَطَ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - السَّعَةَ وَهِيَ الْغِنَى وَلِأَنَّا أَوْجَبْنَاهَا بِمُطْلَقِ الْمَالِ وَمِنْ الْجَائِزِ أَنْ يَسْتَغْرِقَ الْوَاجِبُ جَمِيعَ مَالِهِ فَيُؤَدِّي إلَى الْحَرَجِ فَلَا بُدَّ مِنْ اعْتِبَارِ الْغِنَى وَهُوَ أَنْ يَكُونَ فِي مِلْكِهِ مِائَتَا دِرْهَمٍ أَوْ عِشْرُونَ دِينَارًا أَوْ شَيْءٌ تَبْلُغُ قِيمَتُهُ ذَلِكَ
قربانی ہر مالدار پر  واجب ہےکیونکہ حدیث پاک میں ہے کہ جو وسعت والا ہو۔۔۔۔تو رسول کریم نے قربانی کا وجوب مالداری پر کر دیا اگر امیر غریب ہر ایک پر قربانی واجب کر دی جائے تو اس میں بہت حرج ہے لہذا قربانی مالدار پر واجب ہے اور مالدار سے مراد وہ ہے کہ جو مالک نصاب ہو یعنی ساڑھے سات تولہ سونا ہو یا ساڑھے باون تولہ چاندی ہو یا اتنی(ساڑھے باون تولے چاندی جتنی یا ساڑھے سات تولے سونے جتنی)مالیت کی کچھ ایسی چیز یا چیزیں ہو کہ جو اس کی حاجت و قرض سے زائد ہو   
[بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ,5/64]
۔
 ضروریات و قرض نکال کر ساڑھے باون تولے چاندی ہو یا اتنی رقم ہو یا ساڑھے سات تولے سونا ہو یا اتنی رقم ہو  یا ایسی کوئی زائد چیز یا چیزیں ہوں جن کی قیمت ساڑھے باون تولے چاندی جتنی ہوتی ہو تو وہ مالک نصاب ہے اس پر قربانی واجب ہے....گھر میں اگر ایک سے زائد لوگ مالک نصاب ہوں تو ہر مالک نصاب پر الگ قربانی ہوگی
.
.
وَهِيَ مَشْرُوعَةٌ فِي أَصْلِ الشَّرْعِ بِالْإِجْمَاعِ، وَالْأَصْلُ فِيهَا قَبْلَ الْإِجْمَاعِ قَوْلُهُ تَعَالَى: {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ} [الكوثر: 2] أَيْ: صَلِّ صَلَاةَ الْعِيدِ، وَانْحَرِ النُّسُكَ، كَمَا قَالَهُ جَمْعٌ مُفَسِّرُونَ، وَاخْتُلِفَ هَلْ هِيَ سُنَّةٌ أَوْ وَاجِبَةٌ؟ فَقَالَ مَالِكٌ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَصَاحِبَا أَبِي حَنِيفَةَ: هِيَ سُنَّةٌ مُؤَكَّدَةٌ. وَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ: هِيَ وَاجِبَةٌ عَلَى الْمُقِيمِينَ مِنْ أَهْلِ الْأَمْصَارِ، وَاعْتَبَرَ فِي وُجُوبِهَا النِّصَابَ. قَالَ ابْنُ حَجَرٍ: وَدَلِيلُنَا مَا جَاءَ بِسَنَدٍ حَسَنٍ: أَنَّ أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ كَانَا لَا يُضَحِّيَانِ مَخَافَةَ أَنْ يَرَى النَّاسُ ذَلِكَ وَاجِبًا، وَفِيهِ أَنَّهُ مَحْمُولٌ عَلَى أَنَّهُمَا مَا كَانَا مِنْ أَهْلِ الْوُجُوبِ، وَتَعْلِيلُهَا وَقَعَ لِتَوَهُّمِ عُمُومِ الْوُجُوبِ، وَمِمَّا يَدُلُّ عَلَى الْوُجُوبِ مُوَاظَبَتُهُ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - عَشْرَ سِنِينَ مُدَّةَ إِقَامَتِهِ بِالْمَدِينَةِ، وَقَوْلُهُ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - فِيمَا سَبَقَ: فَلْيَذْبَحْ أُخْرَى مَكَانَهَا فَإِنَّهُ لَا يُعْرَفُ فِي الشَّرْعِ الْأَمْرُ بِالْإِعَادَةِ إِلَّا لِلْوُجُوبِ، وَحَمْلُهُ عَلَى النَّدْبِ كَمَا فَعَلَهُ ابْنُ حَجَرٍ مَرْدُودٌ، وَمِمَّا يُؤَيِّدُ الْوُجُوبَ خَبَرُ: «مَنْ وَجَدَ سَعَةً لِأَنْ يُضَحِّيَ فَلَمْ يُضَحِّ فَلَا يَحْضُرْ مُصَلَّانَا» وَأَمَّا قَوْلُ ابْنِ حَجَرٍ: أَنَّهُ مَوْقُوفٌ عَلَى أَبِي هُرَيْرَةَ فَمَرْفُوعٌ ; لِأَنَّ مِثْلَ هَذَا الْمَوْقُوفِ فِي حُكْمِ الْمَرْفُوعِ.
[مرقاة المفاتيح ,3/1077]
.

.
وَحُجَّتُنَا فِي ذَلِكَ قَوْله تَعَالَى {فَصَلِّ لِرَبِّك وَانْحَرْ} [الكوثر: 2] أَيْ وَانْحَرْ الْأُضْحِيَّةَ وَالْأَمْرُ يَقْتَضِي الْوُجُوبَ.
وَقَالَ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - «مَنْ وَجَدَ سَعَةً وَلَمْ يُضَحِّ فَلَا يَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا» وَإِلْحَاقُ الْوَعِيدِ لَا يَكُونُ إلَّا بِتَرْكِ الْوَاجِبِ. وَقَالَ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - «مَنْ ضَحَّى قَبْلَ الصَّلَاةِ فَلْيُعِدْ وَمَنْ لَمْ يُضَحِّ فَلْيَذْبَحْ عَلَى اسْمِ اللَّهِ تَعَالَى» وَالْأَمْرُ يُفِيدُ الْوُجُوبَ، وَفِي قَوْلِهِ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - ، وَلَا حُجَّةَ فِي قَوْلِهِ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - وَلَمْ تُكْتَبْ عَلَيْكُمْ فَإِنَّا نَقُولُ بِأَنَّهَا غَيْرُ مَكْتُوبَةٍ بَلْ هِيَ وَاجِبَةٌ فَالْمَكْتُوبُ مَا يَكُونُ فَرْضًا
ہم احناف کے قول کی دلیل اللہ تعالی کا یہ حکم ہے کہ عید کی نماز پڑھو اور قربانی کرو۔۔۔۔اور رسول کریم نے فرمایا کہ جس جس میں طاقت ہو اور قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے اس بات کا بھی تقاضہ ہے کہ قربانی واجب ہے۔۔۔اور حضور علیہ الصلاۃ والسلام کا ارشاد ہے کہ جس نے نماز سے پہلے قربانی کی تو وہ نماز کے بعد دوبارہ کرے تو دوبارہ کا حکم وجوب کا تقاضا کرتا ہے۔۔۔اور حدیث میں جو ہے کہ تم پر قربانی نہیں لکھی گئی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ فرض نہیں کی گئی بلکہ واجب کی گئی ہے  
[المبسوط للسرخسي ,12/8بالحذف الیسیر]
.
*سوال میں مذکور حدیث پاک کا جواب*
پوری حدیث پاک اور اس کے متصل امام ترمذی کا تبصرہ بھی ملاحظہ کیجیے
حدثني يحيى بن موسى , حدثنا ابو بكر الحنفي، حدثنا الضحاك بن عثمان , حدثني عمارة بن عبد الله , قال: سمعت عطاء بن يسار , يقول: سالت ابا ايوب الانصاري: كيف كانت الضحايا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال: " كانالرجل يضحي بالشاة عنه , وعن اهل بيته , فياكلون , ويطعمون , حتى تباهى الناس , فصارت كما ترى " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح , وعمارة بن عبد الله هو: مدني , وقد روى عنه مالك بن انس , والعمل على هذا عند بعض اهل العلم , وهو قول احمد , وإسحاق: " واحتجا بحديث النبي صلى الله عليه وسلم انه ضحى بكبش , فقال: هذا عمن لم يضح من امتي " , وقال بعض اهل العلم: لا تجزي الشاة إلا عن نفس واحدة , وهو قول عبد الله بن المبارك: وغيره من اهل العلم.
عطاء بن یسار کہتے ہیں کہ میں نے ابوایوب انصاری رضی الله عنہ سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے میں قربانیاں کیسے ہوتی تھی؟ انہوں نے کہا: ایک آدمی اپنی اور اپنے گھر والوں  کی طرف سے ایک بکری قربانی کرتا تھا، وہ لوگ خود کھاتے تھے اور دوسروں کو کھلاتے تھے یہاں تک کہ لوگ (کثرت قربانی پر) فخر کرنے لگے، اور اب یہ صورت حال ہو گئی جو دیکھ رہے ہو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: 
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، 
۲- راوی عمارہ بن عبداللہ مدنی ہیں، ان سے مالک بن انس نے بھی روایت کی ہے، 
۳- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے، ان دونوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ آپ نے ایک مینڈھے کی قربانی کی اور فرمایا: ”یہ میری امت کے ان لوگوں کی طرف سے ہے، جنہوں نے قربانی نہیں کی ہے“، 
۴- بعض اہل علم کہتے ہیں: ایک بکری ایک ہی آدمی کی طرف سے کفایت کرے گی، عبداللہ بن مبارک اور دوسرے اہل علم کا یہی قول ہے(ترمذی تحت حدیث1505)
دیکھا آپ نے امام ترمذی نے ان لوگوں کو بھی اہل علم میں شمار کیا ہے کہ جو ہر مالک نصاب پر الگ الگ قربانی کا کہتے ہیں۔۔۔امام ترمذی نے انہیں اہل علم کہا ہے مخالفین سنت یا اہل بدعت نہیں کہا۔۔
۔
*ہر گھر کی طرف سے ایک قربانی کافی ہوگی ایسی احادیث کا جواب یہ ہے*
جواب نمبر ایک:
ایسی احادیث منسوخ ہیں،امام ابوداود روایت کرتے ہیں
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ، ح وحَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا بِشْرٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْنٍ، عَنْ عَامِرٍ أَبِي رَمْلَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مِخْنَفُ بْنُ سُلَيْمٍ، قَالَ: وَنَحْنُ وُقُوفٌ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَفَاتٍ قَالَ: «يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ عَلَى كُلِّ أَهْلِ بَيْتٍ فِي كُلِّ عَامٍ أُضْحِيَّةً وَعَتِيرَةً، أَتَدْرُونَ مَا الْعَتِيرَةُ هَذِهِ؟ الَّتِي يَقُولُ النَّاسُ الرَّجَبِيَّةُ» قَالَ أَبُو دَاوُدَ: «الْعَتِيرَةُ مَنْسُوخَةٌ هَذَا خَبَرٌ مَنْسُوخٌ»
حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا اے لوگو ہر گھر پر ہر سال ایک قربانی ہے اور ایک عَتِيرَةً لازم ہے۔۔۔کیا تم جانتے ہو کہ عتیرہ کیا ہے عَتِيرَةً وہ ہے جس کو تم رجبی کہتے ہو
امام ابوداؤد فرماتے ہیں کہ عتیرہ منسوخ ہے اور یہ حدیث منسوخ ہے 
[سنن أبي داود ,3/93 حدیث2788]

حدیث پاک میں دو چیزوں کا حکم تھا نمبر1 قربانی نمبر2 عتیرہ۔ ۔۔۔۔امام ابو داؤد نے عتیرہ کو بھی منسوخ قرار دیا اور اس خبر کو بھی منسوخ قرار دیا۔۔۔۔عین ممکن ہے کہ اول اسلام میں ہر گھر پر قربانی لازم ہو اور پھر حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے یہ حکم وسعت والوں کو دیا ہو 
.
وَتَقُولُ: إِنَّ الشَّاةَ لَا تُجْزِئُ عَنْ أَكْثَرَ مِنْ وَاحِدٍ , وَتَذْهَبُ إِلَى أَنَّ مَا كَانَ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا احْتَجَّتْ بِهِ الْفِرْقَتَانِ الْأُولَيَانِ لِقَوْلِهِمَا , مَنْسُوخٌ أَوْ مَخْصُوصٌ
وہ جو مذہب ہے کہ ایک بکری ایک سے زائد لوگوں کی طرف سے پوری ہو سکتی ہے اور ان کے احادیث سے دلائل بھی ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ احادیث منسوخ ہے یا مخصوص ہے 
[شرح معاني الآثار ,4/178]

.
جواب نمبر دو:
یہ حدیث فقہ شافعی وغیرہ کی دلیل ہے ہم احناف کے دلائل اوپر مذکور ہوچکے قرآن و حدیث سے احناف کے دلائل قوی و راجح ہیں...لیھذا مذکوہ حدیث مرجوح ہے، احتیاط کے بھی خلاف ہے
.
جواب نمبر تین:
یہ حدیث فقہ شافعی وغیرہ کی دلیل ہے ہم احناف کے دلائل اوپر مذکور ہوچکے، قرآن و حدیث سے احناف کے دلائل قوی و راجح ہیں، اس لیے فقہ حنفی پر عمل ہی میں احتیاط ہے
لیکن
اگر کوئی امام شافعی  وغیرہ کا مقلد بن کر عمل کرے تو کرسکتا ہے.....غیرمقلد نام نہاد اہل حدیث وغیرہ اسلاف کا گستاخ و جری بن کر عمل کرنے والا مردود ہے
وَسُنَّةَ كِفَايَةٍ فِي حَقِّ أَهْل الْبَيْتِ الْوَاحِدِ، وَهَذَا رَأْيُ الشَّافِعِيَّةِ وَالْحَنَابِلَةِ. فَقَدْ قَالُوا: إِنَّ الشَّخْصَ يُضَحِّي بِالأُْضْحِيَّةِ الْوَاحِدَةِ - وَلَوْ كَانَتْ شَاةً - عَنْ نَفْسِهِ وَأَهْل بَيْتِهِ.
[الموسوعة الفقهية الكويتية ,5/78]
.
*جواب نمبر4 اور قربانی کے ثواب میں اہل خانہ کو شریک کیجیے........!!*
اس حدیث میں جو شرکت ہے یا اہل بیت کی طرف سے ہے وہ ثواب میں شرکت مراد ہے۔۔۔یعنی قربانی اہل خانہ کے بڑے کی طرف سے ہوگی کیونکہ اکثر بڑا ہی مالدار ہوتا ہے اور گھر کا بڑا اپنی  قربانی کے ثواب میں سب اہل خانہ کو شامل کرے گا 
علامہ عینی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں
أنه كان يضحي ويجعل ثوابه هبة لأهل بيته
ترجمہ:
کہ بے شک حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کرتے اور اس کا ثواب اپنے اہل خانہ کو ھبہ کرتے تھے(یعنی اہل خانہ کو قربانی کے ثواب مین شریک کرتے تھے)
(البنایہ شرح ہدایہ جلد12 صفحہ16)
.
تحفۃ المحتاج میں ہے کہ:
خبر اللهم هذا عن محمد وأمة محمد محمول على التشريك في الثواب وهو جائز ومن ثم قالوا له أن يشرك غيره في ثواب أضحيته
ترجمہ:
وہ جو حدیث پاک ہے کہ "اللهم هذا عن محمد وأمة محمد" اسکا محمل(معنی.و.مقصد) یہ ہے کہ ثواب میں شریک کیا جائے اور یہ جائز ہے، اس(حدیث پاک)کی بنیاد پر علماء فرماتے ہیں کہ قربانی کے ثواب میں دوسروں کو شریک کرسکتے ہیں
(تحفۃ المحتاج جلد9 صفحہ349)
.
لہذا گھر میں ایک سے زائد مالک نصاب افراد ہیں تو ہر ایک پر الگ قربانی ہو گی اور بہتر ہے کہ جب کوئی قربانی کرے تو اسے چاہیے کہ قربانی کے ثواب میں اپنے اہل خانہ اور دیگر اہل اسلام کو بھی  شامل کرے..........!!
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
whats App nmbr
00923468392475
03468392475
other nmbr
03062524574

Post a Comment

1 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.