دین کی تبلیغ یا پیر علماء لیڈر کی تبلیغ؟عقل کل؟ رجوع رد؟ اتباع کیوں لازم؟ ذکر صحابہ و اہلبیت و صالحین

*ہمیں دین کی تبلیغ کرنی ہے پیر کی نہیں…؟؟ ذکرِ انبیاء کرام علیھم السلام ، ذکرِ صحابہ کرام و اہلبیت عظام ، ذکرِ سیدنا صدیق و سیدنا عمر و سیدنا علی اور ذکرِ صالحین کیجیے انکی تعلیمات کی تبلیغ کیجیے مگر اس طرح کہ…؟؟*

تمھید:

سیدنا فاروق اعظم کے ذکر پر ایک شیعہ نے مجھے کہا کہ تمھارے بہت بڑے عالم نے کہا ہے کہ دین کی تبلیغ کرو پیر کی نہیں...اس سے پہلے یہ دیکھا جا چکا ہے کہ امراء اہلسنت میں سے ایک امیر اہلسنت مولانا الیاس قادری کا ذکر خیر کیا جائے یا ذکرِ مجدد امام احمد رضا کیا جائے یا لبیک اپنے سیاسی لیڈر کی اچھی باتیں ذکر کریں یا کسی مجاہد و سرگرم عالم مفکر محقق یا اپنے مرشد یا اپنے لیڈر کی اچھی سچی تعریف کی جائے

تو

کچھ لوگ کہنے لگے کہ "ہمیں دین کی تبلیغ کرنی ہے پیر کی نہیں"........کچھ احباب اہلسنت نے اس نعرے کو لے لیا اور پھیلایا بھی سہی مگر مجھ ناچیز کے مطابق اس نعرے کو نہیں پھیلانا چاہیے بلکہ اسکی جگہ کچھ اس طرح کہا جائے کہ:

ہمیں دین کی تبلیغ کرنی ہے اور سچے دینداروں کی بھی کہ سچے دینداروں کا ذکر دین کا ہی ذکر ہے مگر اس طرح ذکر کیا جائے کہ اللہ کی طرف ، عمل کی طرف ، حق کی طرف ، آخرت کی طرف ذہن جائے اور اس طرح ذکر کیا جائے کہ کسی کی عزت میں کمی نہ کی جائے،میرا پیر میرا پیر کہا جائے مگر  "بس میرا ہی پیر" نہ کہا جائے کہ اس وقت غالبا تنقیص و غلو کا پہلو نکلتا ہے...شیخ الحدیث حضرت علامہ عبدالمصطفٰی اعظمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی نے اسلامی مسائل و خصائل کے خزانے پر مشتمل اپنی شہرۂ آفاق کتاب جنتی زیور میں کیا ہی عمدہ نصیحت لکھی ہے کہ:

ہر مرید پر لازم ہے کہ دوسرے بزرگوں یا دوسرے سلسلہ کی شان میں ہرگز ہرگز کبھی کوئی گستاخی اور بے اَدَبی نہ کرے ، نہ کسی دوسرے پیر کے مریدوں کے سامنے کبھی یہ کہے کہ میرا پیر تمہارے پیر سے اچھا ہے یا ہمارا سلسلہ تمہارے سلسلہ سے بہتر ہے ، نہ یہ کہے کہ ہمارے پیر کے مرید تمہارے پیر سے زیادہ ہیں یا ہمارے پیر کا خاندان تمہارے پیر کے خاندان سے بڑھ چڑھ کر ہے ۔ کیونکہ اس قسم کی فضول باتوں سے دل میں اندھیرا پیدا ہوتا ہے اور فخر و غرور کا شیطان سر پر سوار ہو کر مرید کو جہنم کے گڑھے میں گرا دیتا ہے اور پیروں و مریدوں کے درمیان نفاق و شقاق، پارٹی بندی اور قسم قسم کے جھگڑوں کا اور فتنہ و فساد کا بازار گرم ہو جاتا ہے ۔ (جنتی زیور، ص378)

.

تمام سرگرم اہلسنت تنظیمات مدارس علماء مشائخ ورکرز کو سلام.......جو اپنی طاقت و بساط مطابق جتنی محنت کر رہا ہےاسکی تعریف و حوصلہ افزائی کی جائے،کسی سرگرم سنی کو حقیر نہیں سمجھنا چاہیے، جو اپنی طاقت مطابق سرگرم ہے اسے طعنہ نہ مارا جائے کہ تم نے کونسے تیر مارے...کسی سنی سرگرم کے چھوٹے سے چھوٹے عمل و کردار کو چھوٹا نہ کہا جائے..تعریف و حوصلہ افزائی کی جائے، اہل کی طرف سے تنقید بھی اگر کی جائے تو باسلیقہ پر دلیل ہو، ترقی و تعمیر کے لیے ہو.......دوسرے سچے سرگرم پیروں کا مقام و مرتبہ بھی ملحوظ نظر رہے....اپنے پیر کے ذکر سے زیادہ پیر و علماء کی مدلل بیان کردہ تحریر کردہ تفاسیر احادیث روایات تعلیمات زیادہ بیان کرے

اور

علماء پیر لیڈر کا سچا اچھا تذکرہ اس طرح کرے کہ انسان کو دین کی طرف، اچے اعمال کی طرف ، توبہ استغفار کی طرف،صبر و استقامت کی طرف، برحق سختی و برحق نرمی کی طرف، حسن اخلاق کی طرف، آخرت کی طرف رغبت پیدا ہو…فضول کی چمچہ گیری  یا نقصان دہ ذکر ہرگز نہ کرے


.

مختصرا چند دلائل:

وَ کُلًّا نَّقُصُّ عَلَیۡکَ مِنۡ اَنۡۢبَآءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِہٖ فُؤَادَکَ ۚ وَ جَآءَکَ فِیۡ ہٰذِہِ الۡحَقُّ وَ مَوۡعِظَۃٌ وَّ ذِکۡرٰی لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ

ترجمہ:

اور سب کچھ ہم تمہیں رسولوں کی خبریں سناتے ہیں جس سے تمہارا دل ٹھیرائیں اور اس میں تمہارے پاس حق آیا اور مسلمانوں کو وعظ و نصیحت(سورہ ھود آیت120)

.

اس آیت کی تفسیر میں علامہ حقی فرماتے ہیں

واعلم انه كما يزداد الايمان بالسكينة فكذلك يزداد اليقين على اليقين باستماع قصص الانبيا والأمم السالفة كما قيل حكايات الصالحين

 جان لو کہ ایمان پر ایمان بڑھتا ہے اسی طرح یقین پر یقین بڑھتا ہے انبیاء کرام علیھم السلام کے قصے سن کر اور پہلی امتوں کے قصے سن کر اسی طرح صالحین(صحابہ کرام و اہلبیت اطھار و تابعین عظام و علماء و اولیاء کرام وغیرہ)کی حکایتیں سن کر(اور بروں کا انجام پڑھ سن کر) یقین بڑھتا ہے ایمان بڑھتا ہے(نیک عمل و اچھے اخلاق و صبر و سرگرمی و اخرت کی رغبت ملتی ہے)

(روح البيان ,4/204)



عن ابن عباس قال: أكثروا ذكر عمر فإن عمر إذا ذكر ذكر العدل وإذا ذكر العدل ذكر الله

 سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا ذکرِ خیر زیادہ کرو کہ بے شک جب عمر کو ذکر کرو گے تو عدل کا ذکر ہوگا اور جب عدل کا ذکر ہوگا تو اللہ کا ذکر ہوگا

(جامع الأحاديث25/401)

اشارہ کافی ہے کہ کسی صحابی ولی پیر لیڈر وغیرہ کا ذکر خیر اس طرح کیا جائے کہ اللہ کی توجہ جائے، نیک اعمال حسن اخلاق ، برحق سختی برحق نرمی و اخرت کی طرف توجہ جائے

.

قَالَ قَالَ سُفْيَانُ: «كَانَ يُقَالُ عِنْدَ ذِكْرِ الصَّالِحِينَ تَنْزِلُ الرَّحْمَةُ» قِيلَ: مَنْ ذَكَرَهُ؟ قَالَ: بَعْضُ الْعُلَمَاءِ

 سیدنا سفیان فرماتے ہیں کہ بعض علماء نے ذکر کیا ہے کہ صالحین کا ذکر کرنے سے رحمت نازل ہوتی ہے

(الزهد لأحمد بن حنبل ص264)

.

"ما رأيت للقلب أنفع من ذكر الصالحين

 روایت میں ہے کہ دل کی پاکیزگی کے لیے صالحین کے ذکر(اعمال کردار خدمات تعلمات تشریحات عبادات اقوال وعظ و نصیحت وغیرہ کے تذکرہ) سے بڑھ کر کوئی چیز مفید نہیں

(صفة الصفوة1/18)

.

.

سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم: من أولياء الله؟ قال: «الذين إذا رءوا ذكر الله

ترجمہ:

رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اللہ کے اولیاء صالحین کون ہیں...؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(اللہ کے ایسے فرمانبردار باعمل نیک پرہیزگار، فناء فی اللہ کہ)جنہیں دیکھ کر اللہ یاد آئے

(السنن الکبری للنسائی حدیث11171)

.

ایسا تذکرہ کیجیے اپنے محبوب کا کہ آپ کو اور دوسروں کو اللہ یاد آئے، آخرت یاد آئے،نیک اعمال حسن اخلاق اپنانے کا دل چاہے...صحابہ اہلبیت تابعین علماء اولیاء پیر لیڈر کی سچی اچھی خدمات تعلیمات ، انکی نیکیاں کرامات، مدح و تعریف و تذکرہِ خیر کیا جاے مگر اس طرح کہ نیک عمل و آخرت کی طرف توجہ جائے،بد عقیدگی بدعملی سے نفرت کی طرف توجہ جائے

.

*معتبر اسلاف کی تشریحات تعلیمات کی تبلیغ.......!!*

القرآن:

یُضِلُّ بِہٖ کَثِیۡرًا ۙ وَّ یَہۡدِیۡ بِہٖ کَثِیۡرًا

اس(مثال و اسی طرح قرآن و حدیث) سے بعض لوگ گمراہ ہوتے ہیں اور بعض ہدایت پاتے ہیں

(سورہ بقرہ آیت26)

اسی لیے سیدنا سفیان بن عیینہ فرماتے ہیں

الحديث مَضِلَّة إلا للفقهاء

ترجمہ:

حدیث(اسی طرح آیت عام آدمی کےلیے)گمراہی کا سبب بن سکتی ہے سوائے فقہاء کے

(الجامع لابن أبي زيد القيرواني ص 118)

تو آیت و حدیث پڑھتے ہوءے معتبر اہلسنت عالم کی تفسیر و تشریح مدنظر ہو تقلید ہو یہ لازم ہے ورنہ اپنے سے نکات و مسائل نکالنا گمراہی بلکہ کفر تک لے جاسکتا ہے....وہ عالم وہ مجتہد و فقیہ نکات و مسائل نکال سکتا ہے جو بلاتصب وسیع الظرف ہوکر اکثر تفاسیر و احادیث کو جانتا ہو لغت و دیگر فنون کو جانتا ہو مگر آج کے مصروف دور میں اور علم و حافظہ کے کمی کے دور میں اور فنون و احاطہ حدیث و تفاسیر کے کمی کے دور میں بہتر بلکہ لازم یہی ہے کہ عالم فقیہ بھی تقلید کرے، کسی مجتہد کے قول و تفسیر و تشریح کو لے لے کیونکہ ہر مسلے پر اجتہاد مجتہدین کر چکے

البتہ

جدید مسائل میں باشعور وسیع الظرف وسیع علم والا عالم اپنی رائے پردلیل باادب ہوکر قائم کر سکتا ہے

.

لیھذا اپنی طرف سے تبلیغ اسلام کرنے کے بجائے لازم ہے کہ ان تفاسیر تشریحات اقوال کی تبلیغ کرے جو معتبر صالحین فرما چکے....آیت و حدیث کی لازما تبلیغ کی جاءے مگر ساتھ ساتھ معتبر صالحین کی تعلیمات و تشریحات کی تبلیغ بھی کی جائے

.

القران..ترجمہ:

اللہ کی اطاعت کرو،اور رسول کی اور اولی الامر (برحق معتبر علماء ، امراء)کی اطاعت کرو.(سورہ نساء آیت59)

.

القرآن..ترجمہ:

اگر معاملات کو لوٹا دیتے رسول کی طرف اور اولی الامر کی طرف تو اہل استنباط(اہلِ تحقیق، باشعور، باریک دان،وسیع العلم و التجربہ، سمجھدار علماء صوفیاء)ضرور جان لیتے

(سورہ نساء آیت83)

.

بےشک صرف اللہ کافی ہے....رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کافی ہیں مگر اللہ و رسول کے احکامات کو سمجھنے کے لیے اللہ و رسول نے ہی حکم دیا کہ اہل استنباط اہل علم سمجھدار کی طرف رجوع کیا جائے کہ انہیں تمام و اکثر احکمات مدنظر ہوتے ہیں جس سے وہ آیت و حدیث کا صحیح مفھوم و حکم نکال لیتے ہیں....لیھذا قرآن و حدیث کے ساتھ ساتھ ایسوں کے اخذ کردہ نکات تشریحات تعلیمات کی تبلیغ بھی لازم ہے

 ہاں

کسی عالم پیر لیڈر کو روا نہیں کہ خود کو عقل کل سمجھے، غلط غلط فھمی سے پاک سمجھے، توبہ رجوع استغفار کو عار سمجھے، وعظ و مشاورت سے خود کو مستغنی سمجھے

ہاں

کسی مرید شاگرد کم عمر کم مرتبہ والے کو روا نہیں کہ بےادبانہ اعتراض کرے بلکہ اس پر لازم ہے کہ ہمیشہ با ادب ہوکر مشورہ دے توجہ دلائے عرض کرے، قبول ہو جائے تو پھولے نہ سمائے بلکہ ترقی در ترقی کرنے کی عمل و سوچ رکھے اور عاجزی و انکساری اپنائے رکھے

.

المفھم شرح مسلم میں ایک حدیث پاک سے استدلال کرتے ہوئے لکھا ہے...ترجمہ: امام اور سربراہ(لیڈر، کسی بڑے)کو مشورہ دینا چاہیے خواہ انہوں نے مشورہ طلب نا کیا ہو

(المفھم شرح مسلم 1/208بحوالہ تبیان القرآن تحت تفسیر سورہ الشوری آیت10)

امام نووی علیہ الرحمۃ ایک حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں.

ترجمہ:

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب امام اور سربراہ(لیڈر اکابر) کوئی حکم مطلق دے اور اس کے متبعین میں سے کسی شخص کی رائے اس کے خلاف ہوتو اس کو چاہیے کہ وہ امیر و سربراہ کے سامنے اپنی رائے پیش کرے تاکہ امیر اس پر غور کرے، پس اگر امیر پر یہ منکشف ہو کہ اس متبع کی رائے(مشورہ) صحیح ہے تو اسکی طرف رجوع کر لے ورنہ اس متبع کے شبہ کو زائل کرے اور اسکی تسلی کرے..

(شرح مسلم للنووی1/581بحوالہ تبیان القرآن تحت تفسیر سورہ الشوری آیت10)

.

لیھذا تعمیری تنقید،  باادب سوال و اعتراض ضروری ہے ورنہ خوف ہے کہ ہر کوئی خود کو سب کچھ سمجھ بیٹھے گا...

.

مجد دین و ملت امام اہلسنت سیدی احمد رضا فرماتے ہیں:سلف صالحین و ائمہ دین سے آج تک اہل حق کا یہ معمول رہا ہےکہ کلام اللہ و کلام رسول کے سوا ہر ایک کا قول لیا جا سکتا ہے اور اس پر رد بھی کیا جا سکتا ہے (فتاوی رضویہ15/469ملخصا) فروعی اختلاف فطری چیز ہے، رحمت ہے،اہلسنت میں بھی ملے گا،اس سے دل چھوٹا نہ کیجیے،اکثر اتباع توجیہ تطبیق کیجیے اگر اختلاف کریں تو ادب و سلیقےسےدلیل سے،تعذر بیان کرکے

.

لیھذا اپنے آپ کو مشورے سے غیرمحتاج مت سمجھیے، کوئی اپ سے اختلاف کرے تو دلائل سے جواب دیجیے، تسلی بخش جواب دیجیے ورنہ قبول کر لیجیے....یہ مت کہیے کہ میں تو بڑا ہوں فلاں فلاں کا استاد ہو، میں تو لیڈر ہوں، میرے تو فلاں فلاں عہدے ہیں،  مرشد عالم مفتی ہونا مت جتائیے تسلی بخش جواب دیجیے ورنہ حق قبول کیجیے...مشورہ لیتے رہیے.. خطاء سے پاک مت سمجھیے... اپنے آپ کو بہت بڑی توپ مت سمجھیے،اپنے آپ کو علمِ کل اور عقلِ کل مت سمجھیے، یہ مت سمجھیے کہ بس میں ہوں، بس میری پارٹی میری تنظیم ہی ہے، باقی سب کو گھاس نا ڈالنا، عزت نا دینا ٹھیک نہیں،ہاں دوسری کی بہتری ترقی کی کوشش کرنی چاہیے مگر آپ کی بات مشورہ ٹھیک نکلے قبول کیا جائے تو آپ کو بلکہ سب کو خودپسندی میں نہیں رہنا چاہیے، خود پسندی ہلاکت خیز بیماری ہے

الحدیث:

 قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم: " «المهلكات ثلاث: إعجاب المرء بنفسه، وشح مطاع، وهوى متبع»

ترجمہ:

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین چیزیں ہلاک کر دیتی ہیں

1:خود پسندی

2:لالچ و بخل کی اطاعت

3:خواہشاتِ نفس کی پیروی

(مجمع الزوائد حدیث315)

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App,twitter nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574

Post a Comment

1 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.