سیدنا ابوبکر و عمر وغیرہ صحابہ کرام کےمتعلق شیعوں کا اعتراض کہ جنازہ رسول میں شامل نہ تھے کا تحقیقی جواب

*کیا جنازہِ رسول کریمﷺو تدفین میں سیدنا ابوبکر صدیق و سیدنا عمر و دیگر صحابہ کرام علیھم رضوان شامل نہ تھے؟جیسے کہ شیعہ اعتراض کرتے ہیں.....؟؟*

سوال:

علامہ صاحب ایک شیعہ بار بار اعتراض کر رہا ہے کہ بتاؤ رسول اللہ کے جنازے میں صرف گیارہ لوگ کیوں تھے باقی لاکھوں صحابہ کہاں تھے…؟؟ ایک اور بھائی نے بار بار وڈیو بھیجی اور کہا کہ اسکا جواب دیجیے، وڈیو میں ایک شخص کہہ رہا ہے کہ رسول کریم کی تدفین میں صحابہ شامل نہ تھے ابوبکر و عمر شامل نہ تھے ایسا اہلسنت کی کتب میں لکھا ہے دیکھو المصنف لابن ابی شیبہ

.

جواب:

دونوں جھوٹ و بہتان و مردود ہیں، شیعہ و رافضی و نیم رافضیوں کا ایک طرح سے صحابہ کرام پر طعن و اعتراض ہیں....صحابہ کرام بالخصوص خلفاء راشدین نماز جنازہ اور تدفین میں شامل تھے بلکہ نبی پاک کی نماز جنازہ سکھانے والے، مدفن بتانے والے سیدنا صدیق اکبر تھے

دَخَلَ أبو بكرٍ -رضي الله عنه- على رسولِ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- حينَ ماتَ.....ويُصَلَّى عَلَيهِ؟ وكَيفَ يُصَلِّى عَلَيهِ؟ قال: تَجيئونَ عُصَبًا عُصَبًا فيُصَلُّونَ فعَلِموا أنَّه كما قال، فقالوا: هَل يُدفَنُ؟ وأَينَ؟ فقالَ: حَيثُ قَبَضَ اللهُ روحَه

ترجمہ:

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جب وفات ہو گئی تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ حاضر ہوئے صحابہ کرام نے عرض کیا کہ کیا آپ علیہ الصلوۃ والسلام کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی تو سیدنا صدیق اکبر نے جواب دیا جی ہاں ۔صحابہ کرام نے عرض کیا کیسے نماز جنازہ پڑھیں؟ تو آپ نے فرمایا کہ تم گروہ در گروہ آتے جاؤ اور نماز جنازہ پڑھتے جاؤ... پھر صحابہ کرام نے عرض کیا کہ کیا آپ علیہ الصلاۃ والسلام کو دفن کیا جائے گا اور کہاں دفن کیا جائے گا ؟ تو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام کو وہاں دفن کیا جائے گا جہاں ان کی روح قبض ہوئی 

(السنن الكبرى للبيهقي ت التركي ,7/362روایت6987بحذف)

.

سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھم نے بھی نماز جنازہ پڑھی، دوٹوک تصریح پڑھیے:

ووضع على سريره دخل أبو بكر وعمر فقالا السلام عليك أيها النبى ورحمة الله وبركاته ومعهما نفر من المهاجرين والأنصار قدر ما يسع البيت فسلموا كما سلم أبو بكر وعمر وصفوا صفوفا لا يؤمهم عليه أحد

ترجمہ:

حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے جسد مبارک کو تخت پر لٹایا گیا تو ابوبکر اور عمر دونوں داخل ہوئے اور دونوں نے عرض کیا السلام عليك أيها النبى ورحمة الله وبركاته... سیدنا ابو بکر صدیق اور عمر کے ساتھ مہاجرین اور انصار میں سے صحابہ کرام تھے کہ جتنا گھر میں جگہ تھی پھر سب نے سلام عرض کیا جیسے کہ ابوبکر اور عمر نے سلام عرض کیا اور یہ سب صف باندھے کھڑے ہوئے تھے کوئی امام نہ تھا

(جامع الأحاديث روایت27941)

(كتاب الطبقات الكبرى ط دار صادر2/290)

.

سب صحابہ و تابعین نے نماز جنازہ پڑھی:

وُضِعَ عَلَى سَرِيرِهِ فِي بَيْتِهِ، ثُمَّ دَخَلَ النَّاسُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَالًا يُصَلُّونَ عَلَيْهِ، حَتَّى إِذَا فَرَغُوا أَدْخَلُوا النِّسَاءَ، حَتَّى إِذَا فَرَغُوا أَدْخَلُوا الصِّبْيَانَ، وَلَمْ يَؤُمَّ النَّاسَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ

ترجمہ:

حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے جسد مبارک کو تخت پر لٹایا گیا ان کے گھر میں ہی.....پھر لوگ داخل ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر گروہ در گروہ آپ پر نماز جنازہ پڑھتے رہے یہاں تک کہ مرد صحابہ کرام و تابعین وغیرہ نماز جنازہ سے  فارغ ہوگئے تو عورتوں کو داخل کیا گیا تاکہ وہ بھی رسول کریم کی نماز جنازہ پڑھ سکیں... جب عورتوں نے نماز جنازہ پڑھ لیا تو بچوں کو داخل کیا گیا تھا کہ وہ نماز جنازہ پڑھیں اور ان سب نے نماز جنازہ پڑھی، کسی نے کسی کی امامت نہ کی  

(سنن ابن ماجه ,1/520روایت1628)

.

 لَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وُضِعَ عَلَى سَرِيرِهِ , فَكَانَ النَّاسُ يَدْخُلُونَ زُمَرًا زُمَرًا يُصَلُّونَ عَلَيْهِ وَيَخْرُجُونَ وَلَمْ يَؤُمَّهُمْ أَحَدٌ

ترجمہ:

جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی تو آپ کے جسم مبارک کو تخت پر لٹایا گیا تو لوگ(تمام صحابہ کرام و تابعین و اہل اسلام)گروہ در گروہ حاضر ہوتے اور آپ صل اللہ علیہ وسلم کا جنازہ پڑھتے اور پھر نکل جاتے کوئی بھی امام نہ ہوتا 

(استاد بخاری مصنف ابن أبي شيبة ,7/430روایت37041)

.

ثُمَّ أُضْجِعَ عَلَى السَّرِيرِ، ثُمَّ أَذِنُوا لِلنَّاسِ ; فَدَخَلُوا عَلَيْهِ فَوْجًا فَوْجًا يُصَلُّونَ عَلَيْهِ بِغَيْرِ إِمَامٍ، حَتَّى لَمْ يَبْقَ أَحَدٌ بِالْمَدِينَةِ - حُرٌّ وَلَا عَبْدٌ - إِلَّا صَلَّى عَلَيْهِ

ترجمہ:

پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسد مبارک کو تخت پر لٹایا گیا اور پھر لوگوں(تمام صحابہ کرام و تابعین و اہل اسلام) کو اجازت دی گئی کہ وہ نماز جنازہ پڑھیں... تو وہ گروہ در گروہ حاضر ہوتے اور نماز جنازہ پڑھے بغیر امام کے... تو مدینے پاک میں آزاد یا غلام(مرد یا عورت،  بچہ یا بوڑھا) کوئی بھی ایسا شخص نہ بچا کہ جس نے نماز جنازہ نہ پڑھی ہو 

(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد ,9/33روایت14254)

.

نوٹ:نماز جنازہ سب نے پڑھی اس میں سب کا اتفاق ہے، کیسے پڑھی اس میں علماء کا اختلاف ہے، بعض فرماتے ہیں کہ جیسے عام نماز جنازہ ہوتی ہے ایسے بھی ادا کی گئ اور بعض علماء فرماتے ہیں کہ نماز جنازہ فقط اس طرح پڑھی گئ کہ صف بندی کرکے صلاۃ و سلام عرض کیا گیا....یہ ایک الگ موضوع ہے جس پر پھر کبھی لکھیں گے ان شاء اللہ عزوجل

.

.

*#تدفین کے متعلق چند روایات*

وڈیو میں جس روایت کا ذکر ہے وہ یہ ہے

ابْنُ نُمَيْرٍ , عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ , عَنْ أَبِيهِ , أَنَّ أَبَا بَكْرٍ , وَعُمَرَ §لَمْ يَشْهَدَا دَفْنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "

عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ ابوبکر و عمر نبی پاک کے دفنانے میں شریک نہ تھے

(مصنف ابن أبي شيبة7/432)

.

اس روایت میں آخری راوی عروہ بن زبیر ہے جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دفن کے سال پیدا ہی نہیں ہوا تھا تو وہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ ابوبکر و عمر حاضر نہ ہوئے....؟؟مزید یہ کہ مذکورہ روایت صحیح روایت کے خلاف بھی ہے تو مقطوع و منکر ہے...مردود و باطل ہے

شیعہ سنی نجدی سب کا متفقہ اصول ہے کہ

فحديثه منكر مردود

ترجمہ:

اس(غیرثقہ)کی حدیث.و.روایت(بلامتابع بلاتائید ہو تو)منکر و مردود ہے

(شیعہ کتاب رسائل فی درایۃ الحدیث1/185)

(اہلسنت کتاب المقنع في علوم الحديث1/188)

.

ولد عروة سنة ثلاث وعشرين . فهذا قول قوي ، وقيل : مولده بعد ذلك

عروہ بن زبیر 23ھجری میں پیدا ہوئے یہ قول قوی ہے اور کہا گیا ہے کہ 23ھجری کے بھی بعد پیدا ہوئے(جبکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات 11ھجری میں ہوئی)

(سیر اعلام النبلاء4/423)

.


جب تدفین کا وقت آیا تو صحابہ کرام میں اختلاف ہوا کہ کہاں دفنایا جائے تو سیدنا صدیق اکبر نے حدیث پاک سنا کر مسلہ حل کر دیا:

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: لَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اخْتَلَفُوا فِي دَفْنِهِ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا مَا نَسِيتُهُ، قَالَ: «مَا قَبَضَ اللَّهُ نَبِيًّا إِلَّا فِي المَوْضِعِ الَّذِي يُحِبُّ أَنْ يُدْفَنَ فِيهِ»، ادْفِنُوهُ فِي مَوْضِعِ فِرَاشِهِ

ترجمہ:

جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی تو صحابہ کرام میں اختلاف ہو گیا کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام کو کہاں دفن کیا جائے تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشاد فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےاس متعلق  ایک حدیث پاک سنی ہے کہ جس کو میں کبھی نہیں بھولا...نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ کوئی بھی نبی اسی جگہ وفات پاتا ہے کہ جس جگہ پر اس کا دفن ہونا محبوب ہوتا ہے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی وفات کی جگہ پر دفن کیا جائے گا 

(سنن الترمذي ت شاكر ,3/329 روایت1018)

.

لما فرغ من جهاز رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يوم الثلاثاء وضع على سريره فى بيته وكان المسلمون قد اختلفوا فى دفنه فقال قائل ادفنوه فى مسجده وقال قائل ادفنوه مع أصحابه بالبقيع قال أبو بكر سمعت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يقول ما مات نبى إلا دفن حيث يقبض فرفع فراش النبى - صلى الله عليه وسلم - الذى توفى عليه ثم حفر له تحتہ

ترجمہ:

جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسد مبارک دفن کرنے کا وقت آیا تو اسے تخت پر لٹایا گیا، مسلمانوں میں اختلاف ہو گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کہاں دفن کیا جائے تو ایک کہنے والے نے کہا کہ مسجد میں دفن کیجیے اور ایک کہنے والے نے کہا کہ دفن کیجیے جنت البقیع میں اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشاد فرمایا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ھوئے سنا کہ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ نبی پاک کو وہاں دفن کیا جاتا ہے جہاں اس کی روح قبض ہوتی ہے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی جگہ دفن کیا گیا 

(جامع الأحاديث ,25/236روایت27897)

.

 أَنَّهُمْ شَكُّوا فِي قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْنَ يَدْفِنُونَهُ؟ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ النَّبِيَّ لَا يُحَوَّلُ عَنْ مَكَانِهِ , يُدْفَنُ حَيْثُ يَمُوتُ» فَنَحَّوْا فِرَاشَهُ فَحَفَرُوا لَهُ مَوْضِعَ فِرَاشِهِ

ترجمہ:

صحابہ کرام میں اختلاف ہو گیا کہ حضور علیہ الصلوۃ و السلام کی قبر مبارک کہاں کی جائے،کہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دفن کریں؟... سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ میں نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ نبی پاک کو اس جگہ سے نہیں ہٹایا جاتا جہاں اس کی وفات  ہوئی ہو تو آپ علیہ الصلاۃ والسلام کو اسی جگہ پر دفن کیا گیا  

(استادِ بخاری مصنف ابن أبي شيبة ,7/427 روایت37022)

.


✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.