Labels

نیکی مدد فیسبک؟ تشہیر امداد لالچ احتساب مجبوری؟

 *مدد،نیکی کر فیسبک پے ڈال…؟؟ دوسروں کو بتانا تشہیر کرنا…؟ لالچ ؟ حاجت ؟ مجبوری کا فائدہ اٹھانا......؟؟*

اصول:

علماء کرام نے آیات و احادیث سے اخذ کیا ہے کہ مدد کی جائے،صدقہ تعاون راشن دیا جائے، نیکی عبادت کی جاءے تو اسکی تشہیر نہ کی جائے کہ تشہیر نہ کرنے سے اخلاص حاصل ہوتا ہے...مگر جن کاموں و عبادات وغیرہ کو اسلام نے سرعام کرنے کا حکم دیا ان کو سرعام و اعلانیہ کیا جاءے اخلاص کے ساتھ لیکن اگر اس سچی نیت سے اعلانیہ دے اعلانیہ نیکی عبادت کرے کہ دوسروں کے لیے ترغیب ہو، بدگمانیوں غلط فھمیوں تہمتوں کا خاتمہ و روک تھام ہو، ڈونرز پیسہ تعاون راشن مدد دینے والوں کے لیے اطمینان کا باعث ہو تو اعلان و تشہیر افضل ہے

.

نیکیوں کا اظہار مخصوص صورتوں میں جائز بلکہ کبھی افضل تک ہوجاتا ہے مثلا نعمت کا اظہار مقصد ہو،اظہار محبت مقصد ہو، مثلا دوسروں کے لیے ترغیب ہوگی، یا دوسروں کےعلم میں اضافہ ہو گا یا لوگ علم و مسائل پوچھیں گے یا لوگ بھی حصہ لیں گے، مدد دیں گے ...مثلا بدگمانیاں ختم ہونگی یا بدگمانیوں غلط فھمیوں کا دروازہ بند ہوگا وغیرہ بشرطیکہ تکبر و ریاء سے بچے(دیکھیے کتاب نیکیاں چھپاؤ ص81تا90)

.

*تشہیر و اعلان اگر وضاحت کے لیے ہو، تہمت بدگمانیوں غلط فھمیوں سے بچنے کے لیے ہو تو بھی اچھا بلکہ لازم........!!*

الحدیث..ترجمہ:

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مغالطوں(غلط فہمیوں میں پڑنے اور غلط فہمیوں مغالطوں میں ڈالنے) سے منع کیا ہے

(ابو داؤد حدیث3656)

.

اتَّقُوا مَوَاضِعَ التُّهَم

تہمت کی جگہوں کاموں طریقوں سے بچو۔۔۔۔علامہ مولا علی قاری نے فرمایا کہ اگرچہ یہ حدیث نہیں ہے مگر احادیث اور صحابہ کے اقوال سے اس کا معنیٰ صحیح ثابت ہوتا ہے  

(دیکھیے اسرار مرفوعہ روایت10]


عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: مَنْ عَرَّضَ نَفْسَهُ لِلتُّهْمَةِ فَلَا يَلُومَنَّ مَنْ أَسَاءَ بِهِ الظَّنَّ

حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جو شخص تہمت کی جگہوں کاموں طریقوں پر اپنے آپ کو رکھے تو اس کے متعلق برے گمان رکھنے والے لوگوں کو وہ ہرگز ملامت نہیں کرسکتا 

[الزهد لأبي داود ,page 98]

.

وضاحت کرنا سنت ہے بلکہ کبھی لازم تک ہوجاتی ہے

حدثنا عبد الله بن مسلمة بن قعنب ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن ثابت البناني ، عن انس : ان النبي صلى الله عليه وسلم كان مع إحدى نسائه، فمر به رجل فدعاه، فجاء، فقال: " يا فلان هذه زوجتي فلانة "، فقال: يا رسول الله، من كنت اظن به فلم اكن اظن بك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الشيطان يجري من الإنسان  مجرى الدم ".

‏‏‏‏ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ایک بی بی کے ساتھ تھے، اتنے میں ایک شخص سامنے سے گزرا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بلایا وہ آیا، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے(وضاحتا) فرمایا: ”اے فلانے! یہ میری فلاں بی بی ہے۔“ وہ شخص بولا، یا رسول اللہ! میں اگر کسی پر گمان کرتا تو آپ پر گمان کرنے والا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شیطان انسان کے بدن میں ایسے پھرتا ہے جیسے خون پھرتا ہے۔“ (تو شاید تیرے دل میں وسوسہ ڈالے کہ پیغمبر ایک اجنبی عورت کے ساتھ جا رہے تھے)۔(مسلم حدیث5678)

.

*گمنامی پوشیدگی کی افضلیت اور صدقہ امداد عبادت تشہیر و اعلان اس لیے ہو کہ دوسروں کو ترغیب ملے گی یا کوئی اور مصلحت ہو تو اعلان و تشہیر افضل ہے.......!!*

القرآن:

 تُبۡدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّا ہِیَ ۚ وَ اِنۡ تُخۡفُوۡہَا وَ تُؤۡتُوۡہَا الۡفُقَرَآءَ فَہُوَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ

 اگر تم صدقہ اور خیرات ظاہر کرکے دو گے اعلانیہ دو گے تو کیا ہی اچھا ہے اور اگر تم اسے چھپا کر دو فقراء کو دو تو وہ تمہارے لیے سب سے اچھا ہے

(سورہ بقرہ آیت 271)

.

فِيهِ دَلَالَةٌ عَلَى أَنَّ إِسْرَارَ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ مِنْ إِظْهَارِهَا؛ لِأَنَّهُ أَبْعَدَ عَنِ الرِّيَاءِ، إِلَّا أَنْ يَتَرَتَّبَ عَلَى الْإِظْهَارِ مَصْلَحَةٌ رَاجِحَةٌ، مِنَ اقْتِدَاءِ النَّاسِ بِهِ، فَيَكُونَ أَفْضَلَ مِنْ هَذِهِ الْحَيْثِيَّةِ

 مذکورہ آیت میں اس بات پر دلالت ہے کہ صدقے کو چھپا کر دینا ظاہر کرنے سے زیادہ افضل ہے کیونکہ اس میں ریاکاری کا خطرہ بہت کم ہے.... ہاں اگر اعلانیہ دینے ظاہر کرکے دینے میں کوئی شرعی مصلحت ہو جیسے کہ لوگوں کو ترغیب ملے گی اور لوگ اس کی پیروی کریں گے تو اعلانیہ دینا ظاہر کرکے دینا افضل ہے

( تفسير ابن كثير - ت السلامة1/701)

.

فهي أفضل من صدقة العلن قال تعالى وإن تخفوها وتؤتوها الفقراء فهو خير لكم وذلك لسلامتها من الرياء والسمعة ويستثنى ما إذا كان المتصدق ممن يقتدى به فجهره بها أفضل

 آیت مبارکہ میں ہے کہ اگر تم صدقہ چھپا کر دو فقراء کو دو تو یہ تمھارے لیے بہتر ہے لہذا چھپا کر صدقہ دینا افضل ہے کہ اس میں ریاکاری سے بچاؤ ہے لیکن اس افضلیت سے یہ مستثنی ہے کہ اگر اعلانیہ صدقہ دے گا تو لوگ اس کی پیروی کریں گے تو اس صورت میں اس کے لیے اعلانیہ صدقہ دینا افضل ہے

(السراج المنير شرح الجامع الصغير ,2/98)

.

الحدیث:

وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ فَأَخْفَاهَا حَتَّى لَا تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا تُنْفِقُ يَمِينُهُ

(عرش کے سائے میں ہوگا وہ شخص کہ)جو صدقہ کو چھپا کر دے یہاں تک کہ اس کا الٹا ہاتھ نہ جانے جو اس کے سیدھے ہاتھ نے خرچ کیا

(بخاری حدیث1423)

.

فَأَعْطَاهُ سِرًّا، لَا يَعْلَمُ بِعَطِيَّتِهِ إِلَّا اللَّهُ،

(اللہ کو وہ شخص محبوب ہے کہ)صدقہ خیرات اس طرح کرے کہ اللہ کے سوا کوئی نہ جانے

(ترمذی حدیث2568)

.

فأما الفرائض فالأولى إشاعتها وإظهارها لتنحفظ قواعد الدين، ويجتمع الناس على العمل بها، فلا يضيع منها شيء، ويظهر بإظهارها جمال دين الإسلام، وتعلم حدوده وأحكامه. والإخلاص واجب في جميع القرب،

 فرائض(اور وہ کام کے جن کو شریعت نے اعلانیہ کرنے کا حکم دیا ہے ان)کی ادائیگی میں پوشیدگی نہ ہو بلکہ اعلانیہ ہو تاکہ لوگ عمل کریں،دوسروں کے لیے ترغیب ہو(بدگمانی غلط فھمی ختم ہو)لوگوں کو علم ہو، معاشرہ کی اصلاح ہو، اسلام کی اچھائ عمدگی ظاہر ہو....لیکن اعلانیہ ہو یا چھپ کے ہر حال میں اخلاص لازم ہے

( المفهم لما أشكل من تلخيص كتاب مسلم3/76)

.

: لو قيل: إنّ ذلك يختلف باختلاف الأحوال لما كان بعيدًا، فإذا كان الإمام مثلًا جائرًا، ومالُ من وجبت عليه مخفيًّا، فالإسرار أولى...وإن كان المتطوّع ممن يُقتدَى به، ويتبع، وتنبعث الهمم على التطوّع بالإنفاق، وسَلِمَ قصده، فالإظهار أولى

 صدقہ اعلانیہ دینا افضل ہے یا چھپا کر دینا افضل ہے اس کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ یہ احوال کے حساب سے افضل ہو جاتا ہے تو یہ کوئی بعید بات نہیں ہے،(مثلا علماء فرماتے ہیں کہ زکواۃ اعلانیہ دینا افضل ہے مگر)اگر حکمران برے ہوں تب زکواۃ چھپا کر فقراء کو دینا افضل ہے(تاکہ حکمرانوں کو پتہ نہ لگے اور وہ انکے عتاب سے بچ جائے اور زکواۃ ضائع نہ ہو اور مال و دولت کی فراوانی کی خبر دوسروں باطلوں غنڈوں بھتہ خوروں کو نہ لگے) اسی طرح اگر نفلی صدقہ دینے والا ایسا شخص ہو کہ اسے دیکھ کر دوسرے لوگ بھی صدقہ دیں گے تو اسے اعلانیہ صدقہ دینا اچھا ہے بشرطیکہ اس کی نیت و مقصود میں کوئی برائی نہ ہو

(ذخيرة العقبى في شرح المجتبى23/67)

.

 إن صدقة السر تطفئ غَضَبَ الرَّبِّ

بےشک پوشیدہ صدقہ اللہ کے غضب سے بچاتا ہے

(جامع صغیر حدیث4683)

.


من عرف أنه يقتدي به غيره حسن منه الصدقة جهراً وكانت

أفضل، قيل فيؤخذ منه أن من عرف أنه يقتدى به في نافلة النهار من الليل كانت نافلة النهار أفضل

 جسے پتہ ہو کہ اگر وہ اعلانیہ صدقہ دے گا تو دوسرے بھی اس کی پیروی کریں گے تو اس کے لئے اعلانیہ صدقہ دینا افضل ہے اسے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جس شخص کو پتہ ہو کہ اگر وہ نفل اعلانیہ پڑھے گا دن میں پڑھے گا لوگ دیکھیں گے تو پھر پیروی کریں گے اور وہ بھی پڑھیں گے تو اس کے لئے یہ اعلانیہ نوافل پڑھنا افضل ہے

(التنوير شرح الجامع الصغير7/497)

.

*کبھی اعلانیہ اور پہل کرنا عظیم فضیلت ہوتا ہے تاکہ دوسروں کو ترغیب ملے...........!!*

مسلم حدیث2351 میں ہے کہ کچھ لوگ اپنی محتاجی غریبی کا اظہار کرکے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے امداد لینے آئے(جس سے ثابت ہوتا ہے کہ واقعی مجبوری ہو تو امداد کی اپیل کرنا جائز ہے)رسول کریم نے ان کی مدد کے لیے صحابہ کرام کو صدقہ کی ترغیب دلائی، ایک صحابی نے پہل کی اور اعلانیہ دیا، اس طرح دوسروں کو مزید ترغیب ملی تو سب کچھ نہ کچھ لانے لگے اور بہت امداد جمع ہوئی جو ان کو دی گئ…اس موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

جس نے نیا طریقہ جاری کیا تو جو بھی اس پر عمل کرے گا تو جاری کرنے والے اولین شخص کو بھی ان سب کا اجر ملے گا اور کسی کا اجر کم نہ ہوگا

اس کی وضاحت میں امام نووی فرماتے ہیں: 

وَسَبَبُ هَذَا الْكَلَامِ فِي هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّهُ قَالَ فِي أَوَّلِهِ فَجَاءَ رَجُلٌ بِصُرَّةٍ كَادَتْ كَفُّهُ تَعْجِزُ عَنْهَا فَتَتَابَعَ النَّاسُ وَكَانَ الْفَضْلُ الْعَظِيمُ لِلْبَادِي بِهَذَا الْخَيْرِ وَالْفَاتِحُ لِبَابِ هَذَا الْإِحْسَانِ

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کلام کی وضاحت کچھ یوں ہے کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ترغیب دلانے پر ایک صحابی  پہل کرتے ہوئے اعلانیہ طور پر سامان راشن وغیرہ سے بھرا تھیلا لے کر آیا تو دوسروں نے اس کی پیروی کرتے ہوئے صدقہ بہت دیا تو عظیم فضیلت اس ابتدا کرنے والے نیکی کے دروازے کو کھولنے والے شخص کے لیے ہے 

(شرح النووي على مسلم7/104)

.

*امداد شعور علم لیجیے دیجیے مگر اخلاص کے ساتھ....!!*

الحدیث:

إِنَّ هَذَا الْمَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ ، فَمَنْ أَخَذَهُ بِسَخَاوَةِ نَفْسٍ بُورِكَ لَهُ فِيهِ، وَمَنْ أَخَذَهُ بِإِشْرَافِ نَفْسٍ لَمْ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ

 بے شک یہ مال سرسبز اور میٹھا ہے جو شخص اچھے مقصد کے ساتھ لے گا اس کے لئے برکت ہوگی اور جو حرص و لالچ کرتے ہوئے لے گا تو اس کے لئے برکت نہ ہوگی

(بخاری حدیث1472)

وہ ٹرسٹ ، وہ تحریکیں ، وہ لوگ ، وہ لیڈر جو عوام و فلاح کے نام پے چندہ ٹیکس امداد لیتے ہیں تو انہیں اپنی حرص و لالچ نہ ہو،اپنا بینک بیلنس بڑھانا مقصد نہ ہو، اپنی ناحق مراعات و شاہانہ پروٹوکول میں خرچ نہ کریں، شہرت کے لیے دینا جرم ہے، خوشامدی چاپلوس اپنا ووٹر بنانے کے لیے دینا بھی جرم…اخلاص سچائی محنت کے ساتھ چندہ راشن امداد پیسہ دوسروں تک پہنچانا لازم ہے…لینے والوں پر بھی لازم ہے کہ وہ لالچی نہ بنیں،  جتنی حاجت ہو اتنا ہی لیں اور خود محنت کریں،کسی کے محتاج و ناحق مانگنے والے نہ بنیں

.

بات گھمانا سیکھا تاکہ لوگوں کو گرویدہ بناے تو اسکےنہ فرض قبول،نہ نفل(ابوداؤد حدیث5006)وہ واعظ وہ لیکچرار وہ مناظر وہ مقرر وہ لکھاری وہ لیڈرز سیاستدان صحافی چاپلوس اور وکیل وغیرہ نصیحت حاصل کریں جو باتونی مکار ہوتے ہیں…پہچانیے انہیں،نہ مانیے انہیں،نہ سنیے انکی،نہ مدد کیجیے انکی،نہ ووٹ دیجیے انکو…ہم سب پر سچائی و احتیاط و اعتدال لازم


حَدَّثَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ: قُلْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ هِشَامَ بْنَ الْمُغِيرَةِ كَانَ يَصِلُ الرَّحِمَ وَيَقْرِي الضَّيْفَ، وَيَفُكُّ الْعُنَاةَ، وَيُطْعِمُ الطَّعَامَ، وَلَوْ أَدْرَكَ أَسْلَمَ، هَلْ ذَلِكَ نَافِعُهُ؟ قَالَ: " لَا، إِنَّهُ كَانَ يُعْطِي لِلدُّنْيَا وَذِكْرِهَا وَحَمْدِهَا

اسےسخاوت،امداد،کھانا کھلانا،صلہ رحمی خدمات وغیرہ کچھ فائدہ نہ دیں گےکیونکہ وہ یہ سب واہ واہ،دنیاوی مفاد و مطلبیت اور لوگوں کو اپنا خوشامدی چاپلوس بنانےکےلیےکرتا تھا(مسند ابی یعلی حدیث6965ملخصاماخوذا)واہ واہ، ووٹ بینک بڑھانے،شہرت دولت کمانے،خوشامدی چاپلوسی غلامی کرنے کروانےکےلیے امداد سخاوت تبلیغ تقریر تحریر کچھ فائدہ نہ دیگی…کثرت یا قلت سے دیجیے لیجیے کیجیےمگر دل سے،اخلاص سے،بغیر لالچ کے…!!

.

الحدیث،ترجمہ:

دوبھوکے بھیڑیے اگر بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑدئیے جائیں تو اتنا نقصان نہیں پہنچاتے جتنا کہ مال و دولت کی حرص اور حب جاہ(طلب شہرت،حب ناموری)مومن کے دین کو نقصان پہنچاتے ہیں(ترمذی حدیث2376)#لیڈر وہی، #علماء وہی ،#مبلغ،واعظ،لکھاری،مناظر وہی #خدمتگار وہی جو لکھتےہیں،تقریر کرتےہیں،خدمات کرتے ہیں خلوص کے ساتھ، حق کےلیے.......!!

.

*کھانا راشن ادویات،تعمیر مکان،حاجات......؟؟*

الحدیث:

يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَفْشُوا السَّلَامَ، وَأَطْعِمُوا الطَّعَامَ، وَصَلُّوا وَالنَّاسُ نِيَامٌ، تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ بِسَلَامٍ

 اے لوگو سلام کو عام کرو اور کھانا کھلاؤ اور (فرائض واجبات سنت کے علاوہ) نوافل بھی پڑھو جب لوگ سو رہے ہوں تو جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ گے

(ترمذی حدیث2485)

 حدیث پاک میں واضح حکم ہے کہ فقط خرچ کرنے صدقے دینے سے کام نہیں بنے گا، صحیح عقائد و عبادات بھی ضروری ہیں...کھانا کھلانا مطلق ہے پکا پکایا کھانا کھلایا جائے یا پھر راشن دیا جائے یا پھر پیسے دیے جائیں گے وہ اپنی مرضی کا راشن لے کر کھانا پکا کر کھائیں سب فضیلت میں داخل ہیں

.

الحدیث:

المسلم أخو المسلم لا يظلمه ولا يسلمه، ومن كان في حاجة أخيه كان الله في حاجته، ومن فرج عن مسلم كربة، فرج الله عنه كربة من كربات يوم القيامة

ترجمہ:

مسلمان مسلمان کا بھائی ہے،وہ نا اس پر ظلم کرے اور نا ظلم

 کرنے دے،نہ بےیار و مددگار چھوڑے اورجو اپنے(مسلمان بھائی) کی حاجت روائی میں ہو اللہ اسکی حاجت روائی فرمائے گا، اور جو کسی مسلمان سے مصائب.و.مشقت تکالیف دور کرے اللہ قیامت کے دن اس سے تکالیف.و.مشقت دور فرمائے گا...(بخاری حدیث2442)

.

زلزلہ زدگان،سیلاب زدگان، بارش متاثرین و یتیم و غرباء مستحقین کو بےیار و مددگار مت چھوڑیے انکی مدد انکی حاجت و ضرورت کے مطابق وقتا فوقتا کرتے رہا کیجیے،بعض کی اشد ضرورت پکا ہوا کھانا ہے انہیں پکا پکایا کھانا و صاف پانی دیجیے، بعض کی حاجت خشک راشن ہے انہیں راشن دیجیے،بعض کی اہم ضرورت یہ ہے کہ گھروں محلوں سے فورا پانی نکالا جائے تو ان کے لیے نکاسی آب کےلیے مدد کیجیے،کسی کو ضرورت ادویات و علاج خیموں ترپالوں پلاسٹک و لکڑیوں گیس سیلنڈروں کی ہے تو اس حساب سے مدد کیجیے،کسی کی حاجت مکانوں کی تعمیر ہے تو تعمیرات میں مدد کیجیے…حسب حاجت مدد کرنا زیادہ بہتر ہے و نافع ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ معتبر مستحق کو پیسے دییے جاءیں جو وہ اپنی حاجت میں استعمال کرے

.

*افضل صدقہ، حاجت، انفع، معلم،لکھاری........؟؟*

الْأَفْضَلِيَّةُ مِنَ الْأُمُورِ النِّسْبِيَّةِ، وَكَانَ هُنَاكَ أَفْضَلَ لِشِدَّةِ الْحَرِّ وَالْحَاجَةِ وَقِلَّةِ الْمَاءِ

 نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف امور کو افضل صدقہ قرار دیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی صدقہ کس نسبت سے افضل ہوتا ہے اور کوئی صدقہ کس نسبت سے افضل ہوتا ہے اور اس حدیث پاک میں افضل صدقہ پانی اس لیے ہے کہ اس کی حاجت زیادہ تھی

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ,4/1342)

.

تو وقت و حالات کے مطابق ضرورت و نفع کو دیکھ کر اس میں خرچ کرنے کو ترجیح دینی چاہیے

بلکہ

 تھوڑا تھوڑا کرکے ہر نیکی میں دیں، وقتا فوقتا صدقہ کریں، وقتا فوقتا قران پڑہیں حدیث پڑہیں معتبر کتب سے قران و حدیث کو سمجھیں سمجھائیں پھیلاءیں عمل کریں نوافل درود پڑہیں نیکیاں کریں گناہوں سے بچیں، حسن اخلاق اپنائیں، علم و شعور اگاہی پھیلائیں، مدد کریں، فلاحی کام کریں. غرباء کو جس کی حاجت زیادہ ہو وہ دیں...جس کا نفع عام و زیادہ ہو وہ کریں، مدارس میں دیں.. علماء لکھاری مبلغین کی مدد کریں.......کسی بھی نیکی کو کمتر نہ سمجھیں کہ نہ جانے کونسی نیکی کونسی ادا اللہ کے ہاں محبوب و مقبول ہوجائے...الحدیث:لَا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوفِ شَيْئًا، کسی بھی نیکی کو کمتر نہ سمجھو

(مسلم حدیث2626...6690)

.

*احتساب..........!!*

نبی پاکﷺنے عہدےدار سےحساب لیا(دیکھیےبخاری حدیث 6979) حضرت سیدنا عمر عہدےداروں کا احتساب لیتے تھے(دیکھیے عمدۃ القاری9/105)

اپنا احتساب کرو قبل اس کے کہ تمھارا احتساب کیا جائے(ترمذی تحت2459)وزرا لیڈرز مولوی تنظیمیں خود حساب دیں اور انکا منصف مزاج محتسب ادارہ بھی ہونا چاہیے کہ یہ لوگ کیا تھے؟کیا بن گئے؟ کیسےبن گئے؟کہاں سےلیا،کہاں خرچ کیا؟مہنگائی ترقیاتی کام کیےنہ کیے؟کیوں نہ کیے؟کیسےکیے؟کتنےمیں کیے؟قرض لیا؟ دیا؟کتنا؟کہاں سے؟کیوں؟ کن شرائط پے؟کن سے؟…عوام اپنا احتساب کرےاچھا کیا؟ برا کیا؟ کیوں کیا؟کن کو تعاون ووٹ دیا کیوں دیا؟…لکھاری صحافی حساب دیں اپنا احتساب کریں کہ کیا بولا؟کیا لکھا؟کس کےلیے؟کیوں؟ کس بنیاد پے؟

.

*مجبوری کا فائدہ مت اٹھائیے...........!!*

بےشک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجبور سے(اسکی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے)خرید و فروخت سے منع کیا ہے

(ابو داؤد حدیث3382)

.

جالب(اشیاء و خوراک کو عوام کے لیے دستیاب کرنے والا، لانے والا)برکت سےنورازا جائے گا اور ممنوع احتکار(ناحق ذخیرہ اندوزی،ناحق مہنگائی کرنے)والا لعنتی ہے(ابن ماجه حدیث2153)

.

دوکاندار احباب و تاجر حضرات اگر آپ کو واقعی بڑے ڈیلر سے اشیاء مہنگی مل رہی ہیں تب تو آپ کا قصور نہیں

لیکن

اگر پرانہ اسٹاک موجود ہے یا مناسب ریٹ پے اشیاء ڈیلر دے رہے ہیں تو آپ کا اور اسی طرح بڑے ڈیلرز کا عوام کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہے بلکہ باعثِ لعنت ہے، بےبرکتی کا باعث ہے، آسانی کرو اسلام و انسانیت کی ترجمانی کرو....راحت و سکون و مٹھاس پاؤ گے، اخرت کا اجر ہی اصلی مقصود ہونا چاہیے

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.