منکرین میلاد کا اعتراض کہ میلاد کے معاملے میں تم اعلی حضرت بریلوی کے خلاف ہو...کا جواب

 *امام اہلسنت سیدی احمد رضا کے مطابق ولادت کی تاریخ و میلاد......؟؟*

اعتراض:

 السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ علامہ صاحب یہ اعتراض بہت پھیلایا جا رہا ہے کہ سیدی اعلی حضرت کے مطابق ولادت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ آٹھ ربیع الاول ہے جبکہ وفات بارہ ربیع الاول ہے(فتاوی رضویہ جلد 26)اور وصایا سیدی احمد رضا میں ہے کہ رضا کی بات سے دور مت ہٹو..لیکن تم بریلوی احمد رضا کے خلاف چل رہے ہو

.

 وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ و مغفرتہ

جواب:

سیدی امام احمد رضا کے مطابق علم زیجات کے حساب سے ولادت آٹھ ربیع الاول بنتی ہے مگر منقولا بارہ ربیع الاول ہے اور اسی پر عمل جاری رہا ہے تو لیھذا اسی پر عمل کرتے ہوئے بارہ کو میلاد خصوصیت کے ساتھ منانا ہوگا اور سیدی رضا کے مطابق وفات تیرہ ربیع الاول کو ہے،بالفرض بارہ کو وفات مان لیا جائے تب بھی بارہ کو ولادت کی خوشی منائی جائے گی میلاد کیا جائے گا کیونکہ ماتم و سوگ کا اس دن حکم نہیں(یہ ہے سیدی رضا کے کلام کا خلاصہ)

لیھزا ہم سیدی امام احمد رضا کی تعلیم و حکم پر عمل کرتے ہوئے بارہ کو میلاد خصوصیت کے ساتھ مناتے ہیں...تم نے جو کہا کہ رضا کے خلاف چل رہے ہو یہ جھوٹ ہے مکاری ہے خیانت ہے دھوکہ بازی ہے یا تم معترض کی کم علمی غفلت ہے

.

نیز ہم کہتے ہیں کہ آپ کے مطابق جو تاریخ ولادت کی ہے اسی کو میلاد مناؤ، مگر مناؤ تو سہی، چلو آٹھ ہی کو منا لو مگر مناؤ تو سہی.......!!

.

امام اہلسنت مجدد دین و ملت پروانہ شمع رسالت سیدی احمد رضا فرماتے ہیں:

سائل نے یہاں تاریخ سے سوال نہ کیا اس (تاریخ ولادت نبی صلی اللہ علیہ وسلم)میں اقوال بہت مختلف ہیں، دو، آٹھ، دس، بارہ، سترہ، اٹھارہ، بائیس، سات قول ہیں مگر اشہر و اکثر و ماخوز و معتبر بارہویں ہے۔ مکہ معظمہ میں ہمیشہ اسی تاریخ مکان مولد اقدس کی زیارت کرتے ہیں کما فی المواھب ۲؎ والمدارج(جیسا کہ مواہب لدنیہ اور مدارج النبوۃ میں ہے۔ت) اورخاص اس مکان جنت نشان میں اسی تاریخ مجلس میلاد مقدس ہوتی ہے۔( ۲؎ المواہب اللدنیہ المقصدالاول ۱/ ۱۴۲)اسی میں ہے:ھو الذی علیہ العمل۲؎(یہی وہ ہے جس پر عمل ہے۔ت)(۲؎شرح الزرقانی عل المواہب اللدنیۃ المقصدالاول ذکرتزوّج عبداﷲ آمنہ دارالمعرفۃ بیروت ۱/ ۱۳۲ ).....شرح الہمزیہ میں ہے:ھوالمشہور وعلیہ العمل۳؎(یہی مشہور ہے اور اسی پر عمل ہے۔ت) اسی طرح مدارج وغیرہ میں تصریح کی۔(۳؎ الفتوحات الاحمدیۃ بالمنح المحمدیۃ شرح الہمزیۃ تحت قولہ لیلۃ المولد جمالیہ قاھرہ ص۱۰)....

.

.

 ولادت باسعادت آٹھ تاریخ کو ہوئی، اہل زیجات کا اسی پر اجماع ہے۔.....اور شک نہیں کہ تلقی امت بالقبول کے لئے شان عظیم ہے.....وان لم یصادف الواقع ونظیرہ قبلۃ التحری (اگرچہ وہ واقع کے مطابق نہ ہو اس کی نظیر قبلہ تحری ہے۔ت) لاجرم عید میلاد والا بھی کہ عید اکبر ہے قول و عمل جمہور مسلمین ہی کے مطابق بہتر ہےفلاوفق العمل ماعلیہ العمل (بہترین ومناسب ترین عمل وہی ہے جس پرجمہور مسلمانوں کاعمل ہو۔ت)

.

قول مشہور و معتمد جمہور دوازدہم ربیع الاول شریف ہے ...غرض بارہویں کسی حساب سے نہیں آتی، اور ان چار کے سوا پانچویں کوئی صورت نہیں، قول جمہور پر یہ اشکال پہلے امام سہیلی کے خیال میں آیا اور اسے لاحل سمجھ کر انہوں نے قول یکم اور امام ابن حجرعسقلانی نے دوم کی طرف عدول فرمایا...اور تحقیق یہ ہے کہ حقیقۃً بحسب رؤیت مکہ معظمہ ربیع الاول شریف کی تیرہویں تھی...تیرہویں ہی تاریخ پر صادق آئے گا اور دوشنبہ کی تیرہویں بے تکلف صحیح ہے.....اورحق و صواب وہی قول جمہور بمعنی مذکور ہے یعنی واقع میں تیرہویں اور بوجہ مسطور تعبیر میں بارہویں

.

.

شرع مطہر میں مشہور بین الجمہور ہونے کے لئے وقعت عظیم ہے اور مشہور عندالجمہور ہی ۱۲ربیع الاول ہے اورعلم ہیأت وزیجات کے حساب سے روز ولادت شریف ۸ربیع الاول ہےکما حققناہ فی فتاوٰنا (جیساکہ ہم نے اپنے فتاوٰی میں اس کی تحقیق کردی ہے۔ت) یہ جوشبلی وغیرہ نے ۹ربیع الاول لکھی کسی حساب سے صحیح نہیں۔ تعامل مسلمین حرمین شریفین و مصروشام بلاداسلام وہندوستان میں۱۲ ہی پرہے اس پرعمل کیا جائے،، اور روز ولادت شریف اگر آٹھ یا بفرض غلط نو یا کوئی تاریخ ہو جب بھی بارہ کو عید میلاد کرنے سے کون سی ممانعت ہے وہ وجہ کہ اس شخص نے بیان کی خود جہالت ہے، اگر مشہور کا اعتبار کرتا ہے تو ولادت شریف اور وفات شریف دونوں کی تاریخ بارہ ہے ہمیں شریعت نے نعمت الٰہی کاچرچا کرنے اور غم پر صبر کرنے کا حکم دیا، لہٰذا اس تاریخ کو روز ماتم وفات نہ کیا روز سرور ولادت شریفہ کیا کما فی مجمع البحارالانوار (جیساکہ مجمع البحارالانوارمیں ہے۔ت) اوراگرہیأت وزیج کاحساب لیتاہے تو تاریخ وفات شریف بھی بارہ نہیں بلکہ تیرہ ربیع الاول کماحققناہ فی فتاوٰنا

(جیسا کہ ہم نے اپنے فتاوٰی میں اس کی تحقیق کردی ہے۔ت) بہرحال معترض کااعتراض بے معنی ہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم

(فتاوی رضویہ جلد 26 ص411تا428ملتقطا)

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App,twitter nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.