میلاد کے دلائل پر نجدیوں دیوبندیوں وغیرہ کے اعتراض کے جوابات اور انکی بدعتوں کے جوابات کی تحقیق اور بدعت کی تحقیق

 *میلاد کے بعض دلائل جنکا رد نجدی دیوبندی وہابی اہلحدیث وہابی مشھور کر رہے اس کی تحقیق و جواب اور انہوں نے اپنی بدعتوں پر جو دلائل دیے اسکی تحقیق.......!!*

نجدی دیوبندی وہابی اہلحدیث غیر مقلد وغیرہ کا اعتراض:

 قل بفضل اللہ و برحمتہ فبذالک فلیفرحوا(یونس ۔آیت ۵۸)

اس آیت میں اللہ کی رحمت اور فضل پر خوش ہونے کا کہا گیا ہے اور نبی کریم ﷺ سے بڑا فضل و رحمت رب کی طرف سے اور کیا ہوسکتا ہے؟ اس آیت سے صحابہ کرام نے میلاد کا ثبوت نہ سمجھا تو تم سمجھدار ہو زیادہ یا صحابہ......؟؟ صحابہ پر اتنے نعمت تھے سب کا چرچہ منایا......؟؟تمہارا صدر الافاضل نے نبی پاک کو نمت کہہ کر میلاد کا اثبات نہ کیا.... سور ہ یونس کی آیت کی تفسیر میں لکھتا ہے کہ:

’’فرح کسی پیاری اور محبوب چیز کے پانے سے دل کو جو لذت حاصل ہوتی ہے اسکو فرح کہتے ہیں معنی یہ ہے کہ ایمان والوں کو اللہ کے فضل و رحمت پر خوش ہونا چاہئے کہ اس نے انہیں مواعظ اور شفاء صدور اور ایمان کے ساتھ دل کی راحت و سکون عطا فرمائے حضرت ابن عباس و حسن و قتادہ نے کہ اللہ کے فضل سے اسلام اور اس کی رحمت سے قرآن مراد ہے ایک قول یہ ہے کہ فضل اللہ سے قرآن اور رحمت سے احادیث مراد ہیں‘‘۔ (خزائن العرفان ۔ص:۲۵۶ناشر المجدد احمد رضا اکیڈمی ملنے کا پتہ دارالعلوم امجدیہ کراچی)*

اس تفسیر سے پہلی بات تو یہ معلوم ہوئی کہ خوش ہونا دل کا معاملہ ہے نہ کہ جھنڈیاں لگانا جلوس کرنا بھنگڑے ڈالنا کیک کاٹنا،نیز اس آیت سے میلاد کی خوشی نہیں بلکہ مواعظ حسنہ کی خوشی کرنا معلوم ہوئی

.

*اہل سنت کا جواب*

شکر ہے اتنا تو مان لیا کہ دل خوش کرنا چاہیے نعمت پے....اب رہی بات یہ کی ولادت نبوی نعمت ہے یا نہیں، اس کے متعلق تم نے کہا کہ اس آیت میں مفتی اہلسنت نے قرآن و حدیث کو نعمت قرار دیا ہے میلاد کو نہیں.....تم نے مکاری کی ہے یا پھر تمھارے دل میں مرض ہے یا کم علمی....کیونکہ مفتی اہلسنت نے جب حدیث کو نعمت رحمت قرار دے کر خوشی کا فرمایا تو حدیث سے اعلی افضل ذات ذات محمدی بدرجہ اولیٰ نعمت ثابت ہوئے، لیھذا مفتی اہلسنت اور تمھارے مطابق بھی جب حدیث پر خوشی کی جا سکتی ہے تو حدیث سے اعلی و افضل پیارے نبی کی ولادت پے بھی خوشی کرنی چاہیے... مفتی صاحب نے شاید یہ سمجھا ہو کہ جب میں حدیث کو نعمت اور رحمت قرار دے رہا ہوں تو لوگ خود بخود سمجھ جائیں گے کہ جو حدیث سے بڑھ کر ہے وہ تو نعمت ہی نعمت ہے اس لیے ان کا یہاں پر نام نہیں لیا لیکن ضمناً رسول کریم کا بھی تذکرہ ہو گیا کہ وہ نعمت سے بڑھ کر نعمت ہیں مگر کسی کے بغض و مکاری کا کیا علاج.......؟؟ مفتی اہلسنت صدر الافاضل اپنی اسی تفسیر میں لکھتے ہیں:

منت نعمت عظیمہ کو کہتے ہیں اور بے شک سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت نعمت عظیمہ ہے

(خزائن العرفان تفسیر سورہ آل عمران ایت 164)

ہوگیا نان تمھارا پردا چاک........؟؟ مکار کہیں کے... دیکھ صاف صاف عظیم نعمت قرار دیا ہے رسول کریم کو....اور رحمت تو رسول کریم کو قرآن نے کہا ہے...بچہ بچہ جانتا ہے تو نعمت و رحمت پے خوشی کیجیے رسول کریم کی آمد کی خوشی کیجیے یہی تو میلاد ہے....تم نے کہا کہ مواعظہ حسنہ پے خوشی کرنی چاہیے جب مواعظ سے خوشی جائز تو جو مواعظ سے برھ ہے ذات گرامی ہے اس کی خوشی بدعت کیسے......؟؟ خوشی کیجیے ثابت ہوگیا تو خوشی کے طریقے اسلام نے مقرر نہین کر دیے بلکہ خوشی کے ہر جائز طریقے جائز لیھزا جلوس جھنڈے جھنڈیاں محفلیں عمل عبادات شکرانے خیرات سب جائز خوشی ہیں تو میلاد میں یہ سب جائز.....

.

نجدی دیوبندی وہابی اہلحدیث غیر مقلد وغیرہ کا اعتراض

*دلیل:* واما بنعمۃ ربک فحدث (الضحی ۔آیت ۱۱)

اپنے رب کی نعمتوں کا چرچا کرو۔اس آیت میں رب تعالی اپنی نعمتوں کا چرچا کرنے کا حکم فرمارہے ہیں اور نبی کریم ﷺ سے بڑھ کر نعمت رب کی اور کیا ہوسکتی ہے اس لئے ہم میلا د کرتے ہیں۔ نجدی کا جواب : مولوی صاحب خدا کا خوف کرو ترجمہ میں تحریف نہ کرو ’’حدث‘‘ واحد کا صیغہ ہے اور تم ترجمہ ’’کرو‘‘ جمع کاکررہے ہو۔اس آیت میں تو کہیں بھی دور دور تک ۱۲ ربیع الاول کو ہر سال جشن کرنے کا ذکر نہیں۔نیز اس آیت میں حکم نبی کریم ﷺ کو دیا جارہا ہے تو بتاؤ کیا نبی کریم ﷺ نے ۱۲ ربیع الاول کو اسی طرح چرچا کیا تھا جس طرح تم کرتے ہو یا نبی ﷺ نے اس آیت پر عمل نہیں کیا وہ تو معاذ اللہ آیت کا مطلب نہیں سمجھ سکے اور تمہیں سمجھ آگئی۔نیز کیا صحابہؓ نے بھی آیت کا یہی مطلب بیان کیا جو تم کررہے ہو؟

.

*اہل سنت کا جواب*

پہلی بات:

فحدث واحد کا صیغہ ہے مگر یہ حکم ہر ہر امتی کو ہے خاص نبی پاک کو فقط نہیں، امتی بہت ہیں تو ترجمہ بھی جمع کا کیا گیا تاکہ تمام امتیوں کو سمجھ لگے تو انہیں حکم ہے

مَا عَمِلْتَ مِنْ خَيْرٍ فَحَدث إِخْوَانَكَ

 جو تم بھلائی جانو تو اس کا چرچہ اپنے مسلمان بھائیوں سے کرو

(,تفسير ابن كثير ت سلامة ,8/428)

وَالْحُكْمُ عَامٌّ لَهُ وَلِغَيْرِهِ

 نعمت کے چرچے کرنے کا حکم نبی پاک کو بھی ہے اور نبی پاک کے علاوہ دیگر امتیوں کو بھی ہے

(تفسير القرطبي ,20/102)

اب بتاؤ ہمارا ترجمہ عین تفسیری تحقیقی ترجمہ ہے یا تحریف.....؟؟ تحریف کا ناحق بہت بڑا ھکم لگا کر تم نے خود پر کیا فتوی لگوا دیا اپنے علماء سے پوچھنا کیونکہ کفر کا ناحق فتوی ہو تو فتوی لگانے والے پر لوٹ آتا ہے بحوالہ حدیث بخاری مسلم

.

دوسری بات:

نبی پاک نعمت ہیں انکا چرچہ صحابہ کرام کیا کرتے تھے...خوب کرتے تھے مثلا صحابہ کرام ایک دن محفل سجائے بیٹھے تھے اللہ کا ذکر کر رہے تھے حمد کر رہے تھے، نبی پاک کی آمد و بعثت کا تذکرہ کر رہے تھے کہ یہ اللہ کا عظیم احسان ہے تو نبی پاک نے صحابہ کرام سے فرمایا:

اللہ فرشتوں سے تم پر فخر کر رہا ہے...(صحیح سنن نسائی حدیث5426) مسند احمد طبرانی وغیرہ کتب مین بھی یہ واقعہ درج ہے

ہاں لیکن چرچہ صحابہ کرام صبح شام وقتا فوقتا بلکہ دم با دم کرتے تھے....ہم بھی سارا سال چرچہ کرتے ہیں لیکن بارہ ربیع الاول کو کثرت سے کرتے ہیں، جب ہر وقت چرچہ جائز ہے تو بارہ کو کیوں جائز نہیں......؟؟

.

 بارہ کو خصوصیت کے ساتھ صحابہ کرام نے چرچہ نہ کیا اسکی وضاحت نیچے سوالات جوابات میں آ رہی ہے

.

نجدی دیوبندی وہابی اہلحدیث غیر مقلد وغیرہ کا اعتراض:

 نبی کریم ﷺ کے نعمت ہونے کا انکار نہیں لیکن اگر اس آیت سے نعمت پر جشن کرنا بھنگڑے ڈالنا معلوم ہورہا ہے تو اللہ فرماتا ہے و ان تعدوا نعمت اللہ لا تحصوھا (ابراہیم آیت ۳۴)اگر تم رب کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو شمار نہ کرسکو گے معلوم ہوا کہ رب کی نعمتیں لا تعداد ہیں پھر تو انسان کو اپنی زندگی کا ہر پل ہر گھڑی جشن جھنڈیوں جلوسوں روڈوں کو بلاک کرنے میں گزاردینا چاہئے ان تمام نعمتوں پر جشن نہ کرنا کیا اس بات کی دلیل نہیں کہ تم رب کی نعمتوں کے منکر ہو اسی لئے تو مشرک ہو۔

.

*اہل سنت کا جواب*

پہلی بات:

ہم میلاد کے مخصوص جشن کو سنت فرض واجب نہیں کہتے لیھذا جو نہ کرے وہ مشرک کافر نہیں....تم نے کیسے کہہ دیا کہ ہم مشرک کا فتوی لگاتے ہیں...ہاں میلاد سے بغض و عداوت و نفرت ضرور کالے دل کی نشانی ہے

.

دوسری بات:

بے شک اللہ کی بہت نعمتیں ہیں سب کا چرچہ ممکن نہین لیکن اسکا یہ مطلب تو نہیں کہ اہم اہم ترین نعمتوں کا بھی چرچہ نہ کیا جاءے.....؟؟ اتنا تو ہم کر ہی سکتے ہیں کہ وقتا فوقتا حسب طاقت حسب وقت نعمتون کا چرچہ کرنا چاہیے

.

نجدی دیوبندی وہابی اہلحدیث غیر مقلد وغیرہ کا اعتراض:

 تمہارے مسلک کا مستند ترین مولوی غلام رسول سعیدی صاحب امام رازی ؒ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ:

’’نبی ﷺ کو کس نعمت کے بیان کا حکم دیا گیا ہے ؟۔۔مجاہد نے کہا اس نعمت سے مراد قرآن ہے کیونکہ اللہ تعالی نے سیدنا محمد ﷺ کو جوسب سے عظیم نعمت عطا فرمائی ہے وہ قرآن ہے ‘‘۔ (تبیان القرآن ج۱۲ ص ۸۳۶)*

لو جی جس نعمت کا چرچا کرنے کا رب نے خود نبی کو حکم دیا اس پر جشن تو کیا تم کو پڑھنے کی توفیق نہیں اور جس بات کا ذکر دور دور تک نہیں اس پر پورے ملک میں تم نے ہنگامہ بدتمیزی کھڑا کیا ہوا ہے۔

.

*اہل سنت کا جواب*

تم نے خیانت کی ہے...دھوکہ دیا ہے... گمراہ کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے...کیونکہ تم نے علامہ سعیدی کی آدھی بات لکھی ہے....علامہ سعیدی لکھتے ہیں:

تمام اطاعات اور عبادات سے مقصود یہ ہے کہ دل اللہ تعالی کی یاد میں مستغرق ہوجائے، اس سورت میں جن عبادات کا حکم دیا ہے، اس کے بعد یہ حکم دیا کہ دل اور زبان پر اللہ تعالی کی نعمتوں کا ذکر ہو اور انسان بار بار اللہ کی نعمتوں کا ذکر کرتا رہے اور ان کو دہراتا رہے تاکہ وہ کبھی اللہ تعالی کی نعمتوں کو بھول نہ سکے۔(تبیان القرآن ج۱۲ ص ۸۳۶)*

اب بتا علامہ سعیدی علیہ الرھمۃ کے مطابق فقط ایک نعمت  قران نہیں بلکہ دیگر نعمتیں بھی مراد ہیں....یہی دیگر مفسرین نے بھی فرمایا ہے

وحدثْ بنعمةِ الله كُلِّها

 اللہ کی تمام نعمتوں کا چرچہ کرو

(,تفسير أبي السعود = إرشاد العقل السليم إلى مزايا الكتاب الكريم ,9/171)

.

وَأَمَّا بنعمة ربك} عليك بالنبوة وغيره

 نعمت سے مراد نبوت اور نبوت کے علاوہ دیگر نعمتیں بھی مراد ہیں

(تفسير الجلالين ,page 812)

.

وهذا الأمرُ يَعُمَّ الأمة، انتهى، وقال آخرونَ: بل هُوَ عُمُوم في جميعِ النِّعم

  نعمتوں کے چرچے کرنے کا حکم صرف نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں بلکہ تمام امت کو ہے، اور نعمتوں سے مراد کوئی ایک نعمت مراد نہیں بلکہ تمام نعمتیں مراد ہیں

(,تفسير الثعالبي = الجواهر الحسان في تفسير القرآن ,5/603)

.

نجدی دیوبندی وہابی اہلحدیث غیر مقلد وغیرہ کا اعتراض:

 تمہارے صدر الافاضل خلیفہ رضاخان نعیم الدین مراد آبادی لکھتا ہے کہ :

’’نعمتوں سے مراد وہ نعمتیں ہیں جو اللہ تعالی نے اپنے حبیب ﷺ کو عطا فرمائیں اور وہ بھی جن کا حضور ﷺ سے وعدہ فرمایا ‘‘۔(خزائن العرفان ص۷۰۹)

لو جی بات ہی ختم یہاں نبی ﷺ کے نعمت ہونے کا ذکر نہیں بلکہ ان نعمتوں کا ذکر ہے جو نبی کریم ﷺ کو عطا فرمائی گئی ہیں

.

*اہل سنت کا جواب*

صدر الافاضل نے ایک تفسیر لکھی ہے باقی تفسیروں کو پہلے لکھ چکے تھے وہاں سے دیکھ کر سب سمجھ جاتے کہ نعمت سے مراد نبی پاک بھی ہیں...اس لیے تکرار و طوالت سے بچنے کے لیے اتنا لکھ دیا ورنہ آپ ایک اور جگہ لکھتے ہیں:

منت نعمت عظیمہ کو کہتے ہیں اور بے شک سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت نعمت عظیمہ ہے

(خزائن العرفان تفسیر سورہ آل عمران ایت 164)

اور اوپر علامہ سعیدی و دیگر مفسرین کا قول بھی گذرا کہ نعمت سے مراد تمام نعمتیں ہیں

.


نجدی دیوبندی وہابی اہلحدیث غیر مقلد وغیرہ کا اعتراض:

*دلیل :* وذکرھم بایام اللہ دیکھو قرآن میں اللہ فرمارہا ہے کہ دن مناو اس لئے ہم نبی ﷺ کا میلاد والا دن مناتے ہیں۔

جواب: مولوی صاحب خدا کا خوف کرو ترجمہ میں تحریف نہ کرو۔تمہیں دیکھ کر تو یہودی بھی شرماجائیں۔پوری آیت اس طرح ہے:

ولقد ارسلنا موسی بآیتنا ان اخرج قومک من الظلمات الی النور و ذکرھم بایام اللہ ان فی ذالک لایت لکل صبار شکور(سورہ ابراہیم آیت ۵)

اس آیت میں اللہ تعالی حضرت موسی علیہ السلام کو ایام اللہ کی تذکیر کاحکم فرمارہے ہیں تو بتاؤ کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسی طرح اپنا میلاد ہر سال مانایاجس طرح تم مناتے ہو؟اگر نہیں اور یقیناًنہیں تو رب کے کلام میں تحریف سے باز آجاؤ۔ عمدۃ المفسرین عماد الدین ابن کثیر ؒ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ:

’’موسی علیہ السلام ان(بنی اسرائیل) کو اللہ کی نعمتیں یاد دلا�ؤیعنی فرعون کے ظلم و قہر سے اللہ کا ان کو نجات دلانا،سمند ر کا ان کیلئے پھاڑ دینا ،ان پر بادل سے سایہ کیئے رکھنا ،آسمان سے ان کیلئے من و سلوی کا نزول اس کے علاوہ وہ دیگر نعمتیں جو بنی اسرائیل پر اللہ نے کی وہ سب ان کو یاد دلاؤ‘‘۔

(تفسیر ابن کثیر ج۴ص۴۷۸)

.

*اہل سنت کا جواب*

 تم نے ہماری دلیل کو سمجھا ہی نہیں اور اعتراض جڑ دیا...اور یہودیت و تحریف کا فتوی لگا دیا.... ہم تو یہ کہتے ہیں کہ جس طرح سیدنا موسی علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالی نے حکم دیا کہ اللہ کے دن یاد لائیں اسی طرح ہر مومن کو چاہیے کہ وہ دوسروں کو اللہ کے دن اللہ کی نعمتیں یاد دلائے


وَقِيلَ: الْمُرَادُ بِذَلِكَ كُلُّ مُؤْمِنٍ

 اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ ہر مومن کو اللہ تعالی کے دن یاد دلائیں

[فتح القدير للشوكاني ,3/113]

.

وإن كان فيه آيات لجميع الناس لأنه يعتبر بها ويغفل عنها.

 آیت اگرچہ حضرت موسی علیہ الصلاۃ والسلام کے متعلق ہیں لیکن اس میں تمام لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں کہ وہ نصیحت حاصل کریں ، غافل نہ ہوں، اللہ کے دن ، اللہ کی نعمتیں یاد کریں

[تفسير الماوردي = النكت والعيون ,3/122]

.

كأنه قال لكل مؤمن 

 یہ صرف قوم موسی کے لیے نہیں بلکہ گویا کہ یہ حکم ہر مومن کے لئے ہے کہ اسے یاد دلانا چاہئے اللہ کے دنوں کا

[تفسير النسفي = مدارك التنزيل وحقائق التأويل ,2/162]

.

وَأَرَادَ لِكُلِّ مُؤْمِنٍ

 اللہ کے دن میں نشانیاں ہیں اس کو یاد کرنا چاہیے اللہ کے دن یاد کرنے چاہیے، یہ ہر مومن کے لیے ہے

[تفسير البغوي - إحياء التراث ,3/30]

.

 الحمداللہ ہم اہل سنت اس بات پر عمل کرتے ہیں وقتا فوقتا محفلیں کرتے رہتے ہیں وعظ و نصیحت کرتے رہتے ہیں اللہ کے دن یاد دلاتے رہتے ہیں اللہ کی نعمت یاد دلاتے رہتے ہیں خوشی کا اظہار کرتے ہیں تو کبھی نصیحت و عبرت کی محفل و گفتگو بھی کرتے ہیں، میلاد و عرس بھی انہی ایام اللہ کی ایک کڑی ہیں

.

*نجدی دیوبندی وہابی اہلحدیث غیر مقلد وغیرہ کی تحریر اور اس پر ہمارا جواب........!!*

نجدی دیوبندی وہابی اہلحدیث غیر مقلد وغیرہ لکھتے ہیں:

جشن عید میلادالنبی ﷺ کے متعلق 11 مشہور سوالات اور کچھ عقلی ڈھکوسلے بھی ہیں جن کا جواب حاضر خدمت ہے، جشن عیدمیلادالنبی کو ثابت کرنے کیلئے میلاد منانے والے حضرات 11 سوالوں پر مشتمل یہ تحریر ہر جگہ کاپی پیسٹ کرتے ہیں جس کے جوابات یہاں دیے جا رہے ہیں۔

*سوال1 :*  ہر سال جشن سعودیہ منایا جاتا ہے جس کا قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں۔*جواب :*  سعودیہ یا کسی ملک کا اپنے ملک کے بننے یا ملک سے متعلق کسی اور معاملے کا جشن منانا دُنیاوی معاملات میں سے ہے ، دِین سے متعلق نہیں ، اس لیے اِسے بدعت نہیں کہا جاتا۔ بدعت کے متعلق جو احادیث آئی ہیں وہ دینی معاملات کے متعلق ہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :" جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی بات شروع کی جو اس میں نہیں تھی، تو وہ مردود ہے "(صحیح المسلم - 4492)

.

*اہل سنت کا جواب*

 جشن سعودیہ منانا ثواب ہے یا گناہ یا فالتو.......؟؟

اگر فالتو ہے تو ترک کر دینا لازم ہے

الحدیث:

مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْكُهُ مَا لَا يَعْنِيهِ

 مسلمان کے اسلام کی اچھائی میں سے ہے کہ وہ فالتو چیزوں کو چھوڑ دے ترک کردے..(ترمذی حدیث2317)

.

اگر دنیاوی گناہ ہے تو بھی چھوڑ دینا ترک کرنا لازم


.

اگر ثواب ملے گا تو ہمیں بتائیے دنیا پے ثواب ملتا ہے یا دین پے....؟؟ تو دینی جشن ہوا ناں.......؟؟ اگر دنیاوی جشن کہو اور کہوں کے ثواب بھی ملے گا اور بدعت بھی نہیں تو میلاد کے جشن کو بھی کہو کہ ثواب ملے گا دین کا ضروری حصہ نہین مگر بدعت بھی نہیں.....دوغلا پالیسی مت اپنانا

.

نجدی دیوبندی وہابی اہلحدیث غیر مقلد وغیرہ لکھتے ہیں

*سوال 2 :*  ہر سال غسل کعبہ ہوتا ہے جس کا قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں۔*جواب :*  غسل کعبہ کا ثبوت آیات اور احادیث دونوں میں موجود ہے پوسٹ کو مختصر رکھنے کیلئے ایک ایک ہی ذکر کروں گا۔*قرآن میں اللہ فرماتا ہے :*وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ اور میرے گھر (کعبہ) کو پاکیزہ کرو ، طواف کرنے والوں کیلئے اور قیام کرنے والوں کیلئے اور رکوع و سجود کرنے والوں کیلئے "

(سورۃ 22 الحج - آیت 26)*عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :*ثُمَّ أَمَرَ رُسولُ اللَّہ بِلاَلاً ، فَرَقَيَ عَلَى ظَهْرِ الْكَعْبَةِ ، فَأَذَّنَ بِالصَّلاَةِ ، وَقَامَ الْمُسْلِمُونَ فَتَجَرَّدُوا فِي الأُزُرِ ، وَأَخَذُوا الدِّلاَءَ ، وَارْتَجَزُوا عَلَى زَمْزَمَ يَغْسِلُونَ الْكَعْبَةَ ، ظَهْرَهَا وَبَطْنَهَا ، فَلَمْ يَدَعُوا أَثَرًا مِنَ الْمُشْرِكِينَ إِلاَّ مَحَوْهُ ، أَوْ غَسَلُوهُ.:::*(فتح مکہ کے دن) رسول اللہ ﷺ نے بلال رضی اللہ  عنہ کو حکم دِیا کہ نماز کے لیے اذان کہیں تو بلال نے نماز کیلئے اذان دی، تو مسلمان پانی کے برتن  لے کر زمزم پر ٹوٹ پڑے اور کعبہ کو باہر اور اندر سے  دھویا۔ اور مشرکین کے اثرات میں کوئی ایسا اثر نہیں چھوڑا جسے مِٹا نہ دِیا  ، دھو نہ دِیا ہو "(مصنف ابن ابی شیبہ/کتاب المغازی/باب 34حدیث فتح مکہ)کعبہ کو خوشبو لگانا بھی اس کی پاکیزگی میں ہی آتا ہے جس کا قرآن نے حکم دیا ہے، جیسا کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :طَيِّبُوا الْبَيْتَ، فَإِنَّ ذَلِكَ مِنْ تَطْهِيرِهِ اللہ کے گھر کو خُوشبُو دار کیا کرو، کیونکہ ایسا کرنا اُس کو پاکیزہ کرنے میں سے ہے(اخبار مکہ از امام محمد بن عبداللہ الازرقی)اور عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ بھی مذکورہ ہے کہ :کانَ يُجَمِّرُ الْكَعْبَةَ كُلَّ يَوْمٍ بِرَطْلٍ مِنْ مُجْمَرٍ، وَيُجَمِّرُ الْكَعْبَةَ كُلَّ يَوْمِ جُمُعَةٍ بِرَطْلَيْنِ مِنْ مُجْمَرٍوہ کعبہ کو ہر روز ایک رطل (خُوشبُو ) سُلگا کر خُوشبُو دار کیا کرتے تھے، اور ہر جمعہ کے دِن کعبہ کو دو رطل (خُوشبُو) سُلگا کر خُوشبُو دار کیا کرتے تھے "

.

*اہل سنت کا جواب*

اب آیا ناں اونٹ پہاڑ کے نیچے......غسل کعبہ کے متعلق ہمارا اعتراض تھا کہ سالانہ ہوتا ہے جسکی سالانہ  ہونے  کی دلیل نہیں....آپ نے جو دلائل دییے کسی میں نہین کہ سالانہ غسل کعبہ دو......لیکن پھر بھی تم نے سالانہ غسل کعبہ کی تعیین کو بدعت نہ کہا کیونکہ اسکی اصل ثابت تھی اسی طرح رسول کریم کا ذکر و تزکرہ کرنا،  اپ کی عزت کرنا کروانا، آپ کی تعلیمات عام کرنا...آپ کے حالات زندگی بیان کرنا....خوشی میں صدقہ کرنا...خوشی کا اظہار کرنا....سب کا حکم ثابت ہے....بس اعتراض تھا تو یہ تھا کہ مروجہ طریقہ دور سابق میں موجود نہیں تھا تو بعینہ غسل کعبہ کا مروجہ طریقہ دور سابق میں نہ تھا....لیھذا دونوں بدعت نہیں

.

.

نجدی دیوبندی وہابی اہلحدیث غیر مقلد وغیرہ لکھتے ہیں

*سوال 3 :*  ہر سال غلاف کعبہ تبدیل کیا جاتا ہے جس کا قران و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں۔جواب :*  کعبہ پر غلاف کا ہونا ابرہیم علیہ السلام سے چلا آ رہا ہے مشرکین اس طریقے پر عمل پیرا تھے بعد میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت عطا کی گئی تو انہوں نے بھی اس طریقے کو جاری رکھا کبھی منسوخ نہیں کیا، غلافِ کعبہ کے متعلق بہت سی احادیث موجود ہیں صرف ایک کا ذکر کروں گا۔فتح مکہ کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے اِرشاد فرمایا :وَلَكِنْ هَذَا يَوْمٌ يُعَظِّمُ اللَّهُ فِيهِ الْكَعْبَةَ ، وَيَوْمٌ تُكْسَى فِيهِ الْكَعْبَةُآج وہ دن ہے جس دن اللہ کعبہ کی عظمت کو اور بڑھا دے گا اور آج کے دن کعبہ کو غلاف پہنایا جاۓ گا "(صحیح البخاری - 4280)

.

*اہل سنت کا جواب*

 تمہاری دی گی دلیل میں یہ کہاں لکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال کعبہ کو غلاف چڑھاتے تھے......؟؟ لہذا ہر سال غلاف کعبہ چڑھانا یہ تمہارا اس دلیل سے تو ثابت نہیں ہوتا لیکن پھر بھی تم اس کو بدعت نہیں کہتے کیونکہ اس کی اصل ثابت ہے.... اسی طرح میلاد پر خوشی کا اظہار کرنا روزہ رکھنا خیرات کرنا ذکر خیر کرنا تذکرہ کرنا وعظ و نصیحت کرنا سب کی اصل ثابت ہے....بس مسلہ تھا تو یہ تھا کہ سالانہ کہاں لکھا ہے.....؟؟ تو جی غلاف کعبہ سالانہ نبی پاک نے کب تبدیل کیا یا حکم دیا....؟؟ چونکہ سالانہ صرف سہولت و مناسبت کی وجہ سے ہے اس لیے سالانہ غلاف کعبہ بدلنا سالانہ میلاد کرنا بدعت نہین کہ انکی اصل ثابت ہے....!!

.

نجدی دیوبندی وہابی اہلحدیث غیر مقلد وغیرہ لکھتے ہیں:

*سوال 4 :*  غلاف کعبہ پر آیات لکھی جاتی ہیں جس کا قران و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں۔جواب :  قرآن میں اللہ فرماتا ہے :وَمَنۡ يُّعَظِّمۡ شَعَآئِرَ اللّٰهِ فَاِنَّهَا مِنۡ تَقۡوَى الۡقُلُوۡبِ

" اور جو اللہ کے مقرر کردہ شعائر کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کے تقویٰ سے ہے "(سورۃ 22 الحج - آیت 32)کعبہ یقیناً شعائر اللہ میں سے اول و افضل ترین ہے ، پس اُس کی تعظیم کرتے ہوئے اُس کے غِلاف پر اللہ تبارک و تعالیٰ کا ہی کلام، یعنی قران کریم کی آیات لکھی جانا دُرست ہے، البتہ سونے وغیرہ سے لکھنا فضول خرچی میں آتا ہے اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔

.

*اہل سنت کا جواب*

 جس طرح کعبہ شریف کی تعظیم کا حکم ہے اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کا حکم ہے... جس طرح کعبہ کی تعظیم میں سے ہے کہ اس پر آیات لکھی جائیں اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم میں سے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ آپ کا میلاد منایا جائے

.

القرآن:

تُعَزِّرُوۡہُ وَ تُوَقِّرُوۡہُ....ترجمہ: نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم اور توقیر کرو(سورہ فتح ایت9)

.

ومن تعظيمه عمل المولد إذا لم يكن فيه منكر

 اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی تعظیم میں سے میلاد منانا بھی ہے بشرطیکہ اس میں کوئی ممنوع کام نہ ہو

[تفسیر روح البيان ,9/56]


فانظر إلى ماخص الله به هذا الشهر ، ويوم الاثنين، ألا ترى أن صوم هذا اليوم فيه فضل عظيم لأنه ﷺ ولد فيه ؟ فعلى هذا ينبغي إذا دخل هذا الشهر الكريم أن يكرم ويعظم ويحترم الاحترام اللائق، إتباعاً نه ﷺ في كونه كان يخص الأوقات الفاضلة بزيادة فعل البر فيها وكثرة الخيرات....فتشريف هذا اليوم متضمن التشريف هذا الشهر الذي ولد فيه فينبغي أن تحترمه حق الاحترام

خلاصہ:

 اللہ تعالی نے اس مہینہ کو ربیع الاول کو فضیلت بخشی ہے اور پیر کے دن کو فضیلت بخشی ہے، لہذا ہمیں اس مہینے کی تعظیم کرنی چاہیے اور احترام کرنا چاہیے اور نیکی کے کام کثرت سے کرنے چاہئیے، خیرات کی کثرت کرنی چاہیے(یہی تو میلاد ہے میلاد تعظیم نبوی ہے)

(السیوطی حسن المقصد ص57...58)

.

أنه ﷺ كان يعظم يوم مولده، ويشكر الله تعالى فيه على نعمته الكبرى عليه، وتفصله عليه بالجود لهذا الوجود، إذ سعد به كل موجود، وكان يعبر عن ذلك التعظيم بالصيام كما جاء في الحديث عن أبي قتادة : أن رسول الله ﷺ سئل عن صوم يوم الاثنين؟ فقال: «فيه ولدت، وفيه أنزل علي» رواه الإمام مسلم في الصحيح في كتاب الصيام . وهذا في معنى الاحتفال به إلا أن الصورة مختلفة ولكن المعنى موجود سواء كان ذلك بصيام أو إطعام طعام أو اجتماع على ذكر أو صلاة على النبي ﷺ أو سماع شمائله الشريفة....أن تعظيمه ﷺ مشروع، والفرح بيوم ميلاده الشريف بإظهار السرور وصنع الولائم والاجتماع للذكر وإكرام الفقراء من أظهر مظاهر التعظيم والابتهاج والفرح والشكر لله، بما هدانا لدينه القويم، وما من به علينا من بعثه عليه أفضل الصلاة والتسليم

خلاصہ:

 حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی ولادت کے دن کو تعظیم والا قرار دیا ہے وہ اس طرح کہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام اس میں روزہ رکھا کرتے تھے، میلاد کی محفل کرنا ذکر اجتماع کرنا کھانا کھلانا صلاۃ و سلام پڑھنا ذکر و اذکار عبادات کرنا حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی سیرت بیان کرنا خوشی کا اظہار کرنا سب حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی تعظیم کے مظاہر میں سے ہے

(حول الاحتفال ص24...28)

.

*سوال.......!!*

 اگر میلاد مروجہ طریقے سے منانا تعظیم ہے تو یہ تعظیم صحابہ کرام نے کیوں نہیں کی........؟؟ کیا آپ صحابہ کرام سے بڑھ کر ہو....؟؟

*جواب*

الحدیث:أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا، مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ، وَلَا نَصِيفَهُ....ترجمہ:

 اگر تم میں سے کوئی ایک شخص سونے کا پہاڑ خرچ کر دے تو بھی میرے صحابہ کرام کے ایک مد یا آدھا مد خرچ کرنے کے برابر نہیں

(بخاری حدیث3673)

 آج کے دور میں اگر کوئی سونے کا پہاڑ بھی خرچ کر دے تو بظاہر صحابہ کرام سے بڑھ گیا مگر رسول کریم کے فرمان کی وجہ سے یہ فضیلت صحابہ کرام کی ہے کہ ہم کثرت کے باوجود انکی نیکیوں کے برابر نہیں ہوسکتے.... آج ہم کثرت اور اہتمام کے ساتھ میلاد مناتے ہیں تو تعظیم و ثواب وغیرہ میں صحابہ کرام کے برابر نہیں ہو سکتے.... ہاں یہ بات ہے کہ صحابہ کرام اگر پابندی کے ساتھ اہتمام کے ساتھ میلاد مناتے تو ہم پر لازم ہو جاتا جب کہ رسول کریم اور صحابہ کرام ہم پر مشقت کرنا نہیں چاہتے تھے


.

نجدی دیوبندی وہابی اہلحدیث غیر مقلد وغیرہ لکھتے ہیں:

*سوال 6 :*  مدارس میں ختم بخاری شریف ہوتا ہے جس کا قران و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں۔

*جواب :*  مدارس میں ہونے والی ایسی تمام سرگرمیاں دین کے طور پر منعقد نہیں کی جاتیں، بلکہ جس طرح سکولوں اور کالجوں میں مختلف فنکشن منعقد کئے جاتے ہیں اسی طرح مدارس میں تعلیم کے آخر میں ایسی محفل منعقد کی جاتی ہے اس کا تعلق مدارس کی سرگرمیوں سے ہے دین سے نہیں اور بدعت تب ہی ہو گی جب آپ بطور دین کسی عمل کو سر انجام دیں گے۔ اس کا ذکر پہلے سوال میں بھی ہو چکا ہے۔

.

*اہل سنت کا جواب*

سوال نمبر ایک کا جواب ہی اسکا جواب ہے


.

نجدی دیوبندی وہابی اہلحدیث غیر مقلد وغیرہ لکھتے ہیں:

*سوال 7 :*  سیرت النبی کے اجتماعات منعقد ہوتے ہیں جس کا قران و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں۔

*جواب :*  قرآن میں اللہ فرماتا ہے :وَلۡتَكُنۡ مِّنۡكُمۡ اُمَّةٌ يَّدۡعُوۡنَ اِلَى الۡخَيۡرِ وَيَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَيَنۡهَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡكَرِ‌ؕ وَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ‏تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی رہنے چاہییں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں، اور برائیوں سے روکتے رہیں جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے "

(سورۃ 3 آل عمران - آیت 104)قرآن ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم لوگوں تک دین پہنچائیں اور انہیں بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکیں، لوگوں کے سامنے دین اسلام کا تعارف کرواتے ہوۓ رسول اللہ ﷺ کی سیرت بیان کرنا تو ایک لازمی امر ہے، رسول اللہ کی سیرت کے بغیر آپ کیسے کسی کو دین اسلام کی تبلیغ کر سکتے ہیں۔ایسے اجتماعات آپ بھی منعقد کروائیں ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہو گا، ہمارا اختلاف اس معاملے پر ہے کہ کیا ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سالگرہ کے طور پر کوئی جشن منانا چاہیے ؟ اس کا ثبوت آپ سے درکار ہے۔

.

*اہل سنت کا جواب*

 یہ ہوئی نہ اصل بات .... اب آئے ناں آپ راہ حق پر.... آپ نے ایک معین تاریخ کو مطلق آیت سے استدلال کیا ہے اور جواز بلکہ ثواب ثابت کیا ہے

اسی طرح

ہم مطلق آیات سے میلاد ثابت کرتے ہیں،لیھزا تعیین تعیین کی رٹ مت لگانا اور مان جانا کہ استدلال درست ہے اگرچہ تعین صرف مناسبت ہے ورگرنہ کسی بھی دن میلاد منایا جاسکتا ہے بلکہ میلاد کے مشمولات مین سے کچھ نہ کچھ  ہر دن رات یا وقتا فوقتا ادا کرتے ہیں ہم......!!

.

جس طرح تم نے مطلق آیت سے استدلال کیا اسی طرح

میلاد کے استدلال میں کئ ایات ہیں ہم تین آیات پر اکتفاء کرتے ہیں


القرآن...ترجمہ:

اپنے رب کی نعمت کا چرچہ کر..(سورہ والضحی آیت11)

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی نعمت ہیں(بخاری روایت3977)میلاد میں اللہ کریم کی عظیم نعمت یعنی حضرت سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا چرچہ ہی تو ہوتا ہے

.

القرآن...ترجمہ:

کہہ دیجیے اللہ کے فضل و رحمت اور اسی پر خوشی کرنا چاہیے..(سورہ یونس آیت58)میلاد میں اللہ کی عظیم رحمت اور  اللہ کی عظیم نعمت پر خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے

.

القرآن....ترجمہ: نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم اور توقیر کرو(سورہ فتح ایت9) میلاد میں آپ کی شان و عظمت ہی تو بیان ہوتی ہے آپ کی تعظیم ہی تو کی جاتی ہے

.

.

نجدی دیوبندی وہابی اہلحدیث غیر مقلد وغیرہ لکھتے ہیں:

*سوال 8 :*  ہر سال تبلیغی اجتماع ہوتا ہے جس کا قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں۔

*جواب :*  تبلیغی اجتماع کے متعلق تو سوال نمبر 7 میں ہے

.

*اہل سنت کا جواب*

وہی بات جو سوال نمبر ایک کے جواب میں لکھی ہم نے

.

نجدی دیوبندی وہابی اہلحدیث غیر مقلد وغیرہ لکھتے ہیں:

*سوال 9 :*  صحابہ کرام کی وفات کے ایام منائے جاتے ہیں جس کا قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں۔

*جواب :*  یہ بات درست ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے یوم پیدائش یا یوم وفات کو منانے کی قرآن و حدیث میں کوئی دلیل نہیں اسلئے اس سے بھی اجتناب کرنا چاہیے۔

.

*اہل سنت کا جواب*

مگر تم لوگ اجتناب نہیں کرتے....تو یہ منافقت ہوئی یا.....؟؟

.

.

نجدی دیوبندی وہابی اہلحدیث غیر مقلد وغیرہ لکھتے ہیں

*سوال 10 :*  جشن دیوبند و اہلحدیث منایا جاتا ہے جس کا قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں۔

*جواب :*  اگر یہ جشن بھی جشن میلاد کی طرح بطور دین منعقد کیا جاتا ہے تو یقیناً بدعت ہے، اگر اس کا تعلق مدرسے کی کسی سرگرمی سے ہے تو اس کا جواب سوال نمبر 6 میں دیا جا چکا ہے۔

.

*اہل سنت کا جواب*

سوال نمبر ایک کا جواب پڑہیں

.

.

نجدی دیوبندی وہابی اہلحدیث غیر مقلد وغیرہ لکھتے ہیں

*سوال11 :*  جشن عیدمیلادالنبی منانے سے کس صحابی، امام  یا محدث نے منع کیا ہے۔

*جواب :*  قرآن میں اللہ فرماتا ہے :

اَ لۡيَوۡمَ اَكۡمَلۡتُ لَـكُمۡ دِيۡنَكُمۡ وَاَ تۡمَمۡتُ عَلَيۡكُمۡ نِعۡمَتِىۡ وَرَضِيۡتُ لَـكُمُ الۡاِسۡلَامَ دِيۡنًا‌ ؕ آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا ہے "(سورۃ 5 المائدة - آیت 3)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :سب سے سچی بات اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور بہترین طریقہ محمد ﷺ کا طریقہ ہے اور بدترین کام وہ ہیں جنھیں دین میں اپنی طرف سے جاری کیا گیا ۔ ہر ایسا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جائے گی "(سنن نسائی - 1579)

(سنن ابن ماجہ - 45)

(مسند احمد - 336)

.

*اہل سنت کا جواب*

*بدعت کی تحقیق اور تفرقہ کا ایک حل....!!*

سوال:

کیا میلاد فاتحہ شب براءت ،شب معراج، شب قدر کی سالانہ عبادات و شب بیداری ، کونڈے ایصال ثواب وغیرہ سنت ہیں یا بدعت..؟؟

بدعت کس کو کہتے ہیں...؟؟

.

جواب:

میلاد فاتحہ چہلم عرس کونڈے ایصال ثواب دعا بعد جنازہ، اذان سے قبل درود شب براءت ،شب معراج، شب قدر کی سالانہ عبادات و شب بیداری وغیرہ وہ کام جو اہلسنت کرتے ہیں یہ سب مروجہ صورت میں جائز و ثواب ہیں مگر انکی اصل قرآن و سنت سے ثابت ہے، یہ کام مروجہ صورت کے ساتھ سنت نہیں بلکہ جائز و ثواب ہیں... سنت کے علاوہ جائز و ثواب بھی اسلام کی تعلیمات کا حصہ ہیں.. یہ تمام امور شرعا اصلا بدعت و گناہ نہیں..

.

فرقہ واریت یا اختلاف کی ایک بڑی وجہ وہ سوچ ہے جو معاشرے میں پھیلا دی گئ ہے اور مسلسل پھیلائی جا رہی ہے کہ جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا اور جو کام صحابہ کرام نے نہیں کیا وہ بدعت ہے... جو کام سنت نہین وہ بدعت ہے کہہ دیا جاتا ہے..لیھذا اذان سے پہلے درود و سلام، دعا بعد نماز جنازہ، میلاد فاتحہ شب بیداری وغیرہ وغیرہ سب بدعت ہیں..پھر یہ بدعت وہ بدعت ایک لمبی لسٹ شروع کردی جاتی ہے

جو امت میں تفرقہ کا کلیدی کردار ادا کرتی ہے.. لیھذا ان مسائل میں اتفاق کیا جائے تو *بہت بڑا #اتحاد* ہوسکتا ہے..

.

حدیث پاک میں ہے کہ:

وما سكت عنه فهو مما عفا عنه

ترجمہ:

جس چیز کے متعلق(قرآن و احادیث میں)خاموشی ہو(مطلب دوٹوک حلال یا دوٹوک حرام نہ کہا گیا ہو تو)وہ معاف ہے، جائز ہے... (ابن ماجہ حدیث3368)

یہ حدیث ترمذی اور ابوداؤد وغیرہ بہت کتابوں میں ہے

.

حدیث پاک میں ہے:

من سن في الإسلام سنة حسنة، فعمل بها بعده، كتب له مثل أجر من عمل بها، ولا ينقص من أجورهم شيء

ترجمہ:

جس نے اسلام میں نیا اچھا طریقہ جاری کیا تو اس کے بعد

جو جو  اس پر عمل کرے گا ان سب کا ثواب اسے ملے گا اور عمل کرنے والوں کے ثواب میں بھی کمی نا آے گی

(مسلم حدیث نمبر1017...6800)

یہ حدیث پاک ابن ماجہ سنن نسائی وغیرہ بہت کتابوں میں بھی ہے

.

ان دونوں احادیث مبارک سے ثابت ہوتا ہے کہ:

①جو کام سنت نا ہو وہ معاف اور جائز کہلائے گا...لیھذا یہ کہنا کہ فلان کام سنت نہیں اس لیے بدعت ہے، یہ کہنا غلط ہے کیونکہ حدیث پاک کی روشنی سے واضح ہے کہ جو سنت نا ہو وہ معاف اور جائز کہلائے گا... ہاں اگر سنت نا ہو اور جائز بھی نا ہو بلکہ اسلام کے اصولوں کے خلاف ہو تب بدعت و گناہ کہلائے گا

.

②اگر کوئی آپ سے کہے کہ فلاں کام سنت نہیں بدعت ہے تو آپ فورا جواب دیں کہ ٹھیک ہے سنت نہیں تو کیا جائز بھی نہیں...؟؟

.

③بے شک سنت کی عظمت ہے مگر اسی سنت نے ہمیں سکھایا ہے کہ سنت کے علاوہ جائز بھی کوئی چیز ہے... لیھذا سنت سنت کی رٹ لگانے کے ساتھ ساتھ جائز جائز کی رٹ لگانا بھی ضروری ہے

.

④ان احادیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ وہ عبادت وہ نیک کام جسکا کوئی ایک طریقہ مقرر نا ہو تو اس کے نئے طریقے بدعت نہیں بلکہ اس کے نئے پرانے سب طریقے جائز ہیں....ہاں جس کام جس عبادت کے طریقے اسلام نے متعین و مخصوص کر دیے ہیں ان میں نیا طریقہ نکالنا ٹھیک نہیں... جیسے نماز روزے کے نئے طریقے نکالنا ٹھیک نہیں مگر صدقہ خیرات ذکر اذکار درود میلاد فاتحہ ایصال ثواب شب براءت ،شب معراج، شب قدر کی سالانہ عبادات و شب بیداری وغیرہ کے نئے پرانے سب طریقے جائز ہیں بشرطیکہ اسلام کے کسی اصول کے خلاف نا ہوں..

.

*نئے طریقے بدعت نہیں تو #پھر_آخر_بدعت_ہے_کیا.....؟؟*

دراصل بدعت کی تعریف واضح الفاظ میں کسی آیت کسی حدیث میں نہیں آئی، جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جو کام صحابہ کرام نے نہیں کیا وہ بدعت ہے ہم انہیں کہتے ہیں کہ کسی حدیث میں یہ دکھا دیں کہ بدعت وہ ہے جو کام صحابہ کرام نے نا کیا ہو...؟؟

کچھ لوگ کہتے ہیں جو سنت نہیں وہ بدعت ہے، یہ بھی ٹھیک نہیں کیونکہ اوپر احادیث کی زبانی بتایا جا چکا ہے کہ جو کام سنت نا ہو وہ جائز بھی کہلا سکتا ہے، سنت کے بعد جائز بھی ایک قیمتی چیز ہے

.

*پھر آخر بدعت ہے کیا.....؟؟*

آیات تفاسیر احادیث میں غور کرکے بدعت کی تعریف اخذ کی گئ ہے جسے علماء کرام نے جامع انداز میں کچھ یوں بیان فرمایا ہے کہ:المراد بھا ما احدث ولیس لہ اصل فی الشرع،،ویسمی فی عرف الشرع بدعۃ، وماکان لہ اصل یدل علیہ الشرع فلیس ببدعۃ فالبدعۃ فی عرف الشرع مذمومۃ بخلاف اللغۃ

ترجمہ:

بدعت اس نئ چیز کو کہتے ہیں جسکی شریعت میں کوئ اصل نا ہو،،شریعت میں اسی کو بدعت کہا جاتا ہے

اور

جس نئے کام کی اصل ہو کہ اس پر شریعت رہنمائ کرے وہ تو بدعت نہیں، بدعۃ شریعت میں مذموم ہی ہوتی ہے"با خلاف لغت(اور ظاہری بدعت) کے"

(فتح الباری 13/253،اصول الایمان ص126

اصول الرشاد ص64 مرعاۃ،عمدۃ القاری، مجمع بحار الانوار

فتح المبین،وغیرہ بہت کتابوں میں بھی یہی تعریف ہے

جن تین کتابوں کا مکمل حوالہ لکھا ہے وہ اس لیے کہ پہلی کتاب تمام کے ہاں معتبر ہے خاص کر اہل حدیث کے لیے

اور دوسری کتاب وہابیوں کی ہے سعودی عرب کی حکومت نے چھاپی ہے اور تیسری کتاب امام اہلسنت سیدی احمد رضا کے والد صاحب کی کتاب ہے)

.

سیدنا عمر کا فتوی اور جمھور صحابہ کرام کا عدم انکار:

نِعْمَ الْبِدْعَةُ هَذِهِ

یہ کیا ہی اچھی بدعت ہے

(بخاری جلد2 صفحہ707)

یہ فتوی دیگر بہت کتابوں میں بھی ہے

 سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے بدعت کو کیا ہی اچھی بدعت کہا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ بظاہر کوئی چیز بدعت ہوتی ہے لیکن اس کی اصل شریعت میں ہوتی ہے تو وہ اچھی بدعت کہلاتی ہے اور اس پر جمھور صحابہ کرام علیھم الرضوان نے انکار بھی نہیں کیا تو اکثر صحابہ کرام کے مطابق بدعت اچھی بھی ہوتی ہے... بعض صحابہ کرام سے جو مروی ہے کہ انہوں نے بعض نیک کاموں کو بدعت کہا تو یہ ان کا  غیر مفتی بہ یا مؤول قول کہلائے گا

.

سنی وہابی نجدی شیعہ اہل حدیث وغیرہ تمام کی کتابوں میں "موضوع حدیث" لفظ بولا جاتا ہے جبکہ حقیقت میں کوئ "حدیث" موضوع نہیں ہوتی ..اسکو فقط ظاہر کے لحاظ سے اور لغت و معنی مجاز کے لحاظ سے "حدیث" کہا جاتا ہے

اسی طرح "اچھی بدعت" حقیقت میں بدعت نہیں اسے فقط ظاہر کے لحاظ سے لغت و مجاز کے لحاظ سے بدعت کہا جاتا ہے... اوپر صحابہ کرام کے فتوے میں جو اچھی بدعت فرمایا گیا وہ بھی حقیقت میں بدعت نہیں...اسے ظاہر و لغت کے لحاظ سے بدعت فرمایا گیا ہے... بدعت کی جو پانچ اقسام بتائی جاتی ہیں وہ بھی دراصل ظاہر و لغت کے لحاظ سے ہیں ورنہ بدعت حسنہ حقیقتا بدعت ہی نہیں، بدعت کی تعریف میں"بخلاف لغت کے" الفاظوں میں اسی چیز کو بیان کیاگیا ہے

.

*وہابیوں اہلحدیثوں غیرمقلدوں نجدیوں کا امام ابن تیمیہ پہلے اپنا نظریہ  لکھتا ہے اور پھر بطور دلیل یا نقل امام شافعی کے قول کو برقرار رکھتا ہے کہ*

 وَمَا خَالَفَ النُّصُوصَ فَهُوَ بِدْعَةٌ بِاتِّفَاقِ الْمُسْلِمِينَ وَمَا لَمْ يُعْلَمْ أَنَّهُ خَالَفَهَا فَقَدْ لَا يُسَمَّى بِدْعَةً قَالَ الشَّافِعِيُّ - رَحِمَهُ اللَّهُ -: الْبِدْعَةُ بِدْعَتَانِ: بِدْعَةٌ خَالَفَتْ كِتَابًا وَسُنَّةً وَإِجْمَاعًا وَأَثَرًا عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَهَذِهِ بِدْعَةُ ضَلَالَةٍ. وَبِدْعَةٌ لَمْ تُخَالِفْ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ فَهَذِهِ قَدْ تَكُونُ حَسَنَةً لِقَوْلِ عُمَرَ: نِعْمَتْ الْبِدْعَةُ هَذِهِ هَذَا الْكَلَامُ أَوْ نَحْوُهُ رَوَاهُ البيهقي بِإِسْنَادِهِ الصَّحِيحِ فِي الْمَدْخَلِ

جو نص شرعی یعنی( قرآن و حدیث) خلاف ہو وہ بدعت ہے اس پر سب کا اتفاق ہے اور جس کے بارے میں یہ معلوم نہ ہو کہ وہ نص کے خلاف ہے تو اس کو بدعت نہیں کہیں گے... امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں ایک بدعت وہ ہے کہ جو کتاب اللہ اور سنت کے خلاف ہو یا اجماع کے خلاف ہو یا(جمھور) صحابہ کرام کے اقوال کے خلاف ہو تو یہ بدعت گمراہی ہے اور دوسری بدعت وہ ہے کہ جو ان چیزوں کے خلاف نہ ہو تو یہ بدعت حسنہ ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ سیدنا عمر نے فرمایا تھا کہ یہ کیا ہی اچھی بدعت ہے، اس قسم کی بات کو امام بیہقی نے سند صحیح کے ساتھ روایت کیا ہے

( مجموع الفتاوى ابن تيميه20/163)

.

*کل بدعۃ ضلالۃ(ہر بدعت گمراہی ہے)کی وضاحت انہی ابن تیمیہ وہابی سے سنیے...لکھتا ہے*

عَنْهُ فَيَعُودُ الْحَدِيثُ إلَى أَنْ يُقَالَ: " كُلُّ مَا نُهِيَ عَنْهُ " أَوْ " كُلُّ مَا حُرِّمَ " أَوْ " كُلُّ مَا خَالَفَ نَصَّ النُّبُوَّةِ فَهُوَ ضَلَالَةٌ " وَهَذَا أَوْضَحُ مِنْ أَنْ يَحْتَاجَ إلَى بَيَانٍ بَلْ كُلُّ مَا لَمْ يُشْرَعْ مِنْ الدِّينِ فَهُوَ ضَلَالَةٌ. وَمَا سُمِّيَ " بِدْعَةً " وَثَبَتَ حُسْنُهُ بِأَدِلَّةِ الشَّرْعِ فَأَحَدُ " الْأَمْرَيْنِ " فِيهِ لَازِمٌ: إمَّا أَنْ يُقَالَ: لَيْسَ بِبِدْعَةِ فِي الدِّينِ وَإِنْ كَانَ يُسَمَّى بِدْعَةً مِنْ حَيْثُ اللُّغَةُ. كَمَا قَالَ عُمَرُ: " نِعْمَت الْبِدْعَةُ هَذِهِ " وَإِمَّا أَنْ يُقَالَ: هَذَا عَامٌّ خُصَّتْ مِنْهُ هَذِهِ الصُّورَةُ لِمُعَارِضِ رَاجِحٍ كَمَا يَبْقَى فِيمَا عَدَاهَا عَلَى مُقْتَضَى الْعُمُومِ كَسَائِرِ عمومات الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ، وَهَذَا قَدْ قَرَّرْته فِي " اقْتِضَاءِ الصِّرَاطِ الْمُسْتَقِيمِ " وَفِي " قَاعِدَةِ السُّنَّةِ وَالْبِدْعَةِ " وَغَيْرِهِ.

خلاصہ

 ہر بدعت گمراہی ہے تو اس کا جواب یہ ہوسکتا ہے کہ جس کی اصل ثابت نہ ہو وہ بدعت ہے اور ایسی ہر بدعت گمراہی ہے اور جس کی اصل ثابت ہو وہ بدعت ہی نہیں ہے تو وہ لغت و ظاہر کے اعتبار سے بدعت ہے اور وہ گمراہی نہیں ہے ، وہ بدعت حسنہ ہے... یا پھر یہ کہا جائے گا کہ ہر بدعت گمراہی ہے اس عموم سے بدعت حسنہ مستثنی ہے جیسے کہ قرآن و حدیث کے کئ عموم ہوتے ہیں اور اس سے کچھ چیزیں مستثنی ہوتی ہیں

( مجموع الفتاوى ابن تيميه10/370)

.

*ابن حزم اور بدعت قولی فعلی بدعت حسنہ*

البدعة: كل ما قيل أو فعل مما ليس له أصل في ما نسب إليه، وهو في الدين كل ما لم يأت [في القرآن ولا] عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، إلا منها ما يؤجر عليه صاحبه ويعذر فيما قصد به الخير، ومنها ما يؤجر عليه صاحبه جملة ويكون حسنا

 بدعت ہر اس قول کو کہتے ہیں ہر اس فعل کو کہتے ہیں کہ جس کی اصل ثابت نہ ہو... شریعت میں بدعت وہ ہے کہ جس کی اصل قرآن و سنت سے ثابت نہ ہو... جس کی اصل ثابت ہو تو وہ بدعت حسنہ ہے اس پر اجر دیا جاتا ہے

(رسائل ابن حزم4/410)

.

*ابن جوزی اور بدعت*

 ومتى أسند المحدث إِلَى أصل مشروع لم يذم

 جس بدعت کی اصل ثابت ہو اس کی مذمت نہیں ہے( وہ تو دراصل بدعت ہے ہی نہیں اسے تو ظاہر اور لغت کے اعتبار سے بدعت کہا جاتا ہے)

(ابن جوزي تلبيس إبليس ص18)

.

*وہابیوں اہلحدیثوں غیرمقلدوں نجدیوں کا امام شوکانی علامہ ابن حجر کی عبارت لکھتا ہے اور اسکی نفی نہیں کرتا جسکا صاف مطلب ہے کہ یہ عبارت، یہ نظریہ بھی یا یہی نظریہ ٹھیک ہے*

وَالتَّحْقِيقُ أَنَّهَا إنْ كَانَتْ مِمَّا يَنْدَرِجُ تَحْتَ مُسْتَحْسَنٍ فِي الشَّرْعِ فَهِيَ حَسَنَةٌ، وَإِنْ كَانَتْ مِمَّا يَنْدَرِجُ تَحْتَ مُسْتَقْبَحٍ فِي الشَّرْعِ فَهِيَ مُسْتَقْبَحَةٌ، وَإِلَّا فَهِيَ مِنْ قِسْمِ الْمُبَاحِ، وَقَدْ تَنْقَسِمُ إلَى الْأَحْكَامِ الْخَمْسَةِ

 تحقیق یہ ہے کہ جو ظاہر اور لغت کے اعتبار سے بدعت ہو تو اس کی تقسیم کچھ یوں ہوگی کہ اگر وہ شریعت کے کسی اصول کے  تحت اچھی درج ہو سکتی ہو تو وہ بدعت حسنہ ہے اور اگر وہ شریعت کے کسی اصول کے تحت بری ہو تو وہ بری بدعت ہے اگر یہ دونوں صورتیں نہ ہو تو وہ بدعت مباحہ ہے اور بدعت کی پانچ قسمیں بیان کی جاتی ہے

(كتاب نيل الأوطار3/65)

.

*کل بدعۃ ضلالۃ کا جواب و وضاحت*

فإن قلت: ففي الحديث: "كل بدعة ضلالة "؟ قلت: أراد بدعة لا أصل لها في الإسلام؛ بدليل قوله: "من سنَّ سُنَّةً حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها إلى يوم القيامة

 حدیث میں جو ہے کہ ہر بدعت گمراہی ہے تو اس سے مراد وہ ہے کہ جس کی اصل ثابت نہ ہو وہ گمراہی ہے (کیونکہ بدعت جس کی اصل ثابت ہو وہ گمراہی نہیں)کیونکہ حدیث پاک میں ہے کہ جس نے نیا اچھا طریقہ جاری کیا تو اسے اجر ملے گا اور عمل کرنے والوں کا اجر بھی ملے گا قیامت تک

(الكوثر الجاري إلى رياض أحاديث البخاري4/331)

.

: شر الأمور محدثاتها: يعني: المحدثات التي ليس لها في الشريعة أصل يشهد لها بالصحة والجواز، وهي المسمّاة بالبدع؛ ولذلك حكم عليها بأن كل بدعة ضلالة. وحقيقة البدعة: ما ابتُدئ وافتُتح من غير أصل شرعي، وهي التي قال فيها - صلى الله عليه وسلم -: من أحدث في أمرنا ما ليس منه فهو ردّ

 تمام نئے امور میں سے گندی چیز بدعت ہے... نئے امور جو برے ہیں ان سے مراد وہ ہیں کہ جن کی اصل شریعت میں ثابت نہ ہو اسی کو بدعت کہتے ہیں اور اسی لئے کہتے ہیں کہ ہر بدعت گمراہی ہے یہی بدعت کی حقیقت ہے حدیث پاک میں ہے کہ جو ہمارے دین میں نئی چیز پیدا کرے تو وہ مردود ہے تو اس سے مراد بھی یہی بدعت ہے کہ جس کی اصل ثابت نہ ہو

(القرطبی..المفهم لما أشكل من تلخيص كتاب مسلم2/508)

.

*بدعت کی تعریف و تنقیح پے مزید کچھ حوالے*

، ومتى استند المحدث إلى أصل مشروع لم يذم...متى تكون البدعة حسنة؟فالبدعة الحسنة متفق على جواز فعلها والاستحباب لها رجاء الثواب لمن حسنت نيته فيها، وهي كل مبتدع موافق لقواعد الشريعة غير مخالف لشيء

 ہر وہ نیا کام کہ جس کی اصل ثابت ہو تو اس کی مذمت نہیں ہے... بدعت کب حسنہ ہو جاتی ہے کہ اس پر عمل جائز ہو جائے اور ثواب کی امید ہو تو بظاہر جو بدعت ہو وہ اگر شرعی قواعد کے موافق ہو تو بدعت حسنہ ہے

(حقيقه السنة والبدعة للسيوطي ص92)

.

ما ليس له أصلٌ في الشرع، وإنما الحامل عليه مجرد الشهوة أو الإرادة، فهذا باطلٌ قطعًا، بخلاف محدَثٍ له أصلٌ في الشرع إما بحمل النظير على النظير، أو بغير ذلك؛ فإنه حسنٌ....فالحاصل: أن البدعة منقسمةٌ إلى الأحكام الخمسة؛ لأنها إذا عرضت على القواعد الشرعية. . لم تخل عن واحدٍ من تلك الأحكام

 ہر وہ بدعت کہ جس کی شریعت میں اصل ثابت نہ ہو بلکہ اس پر عمل کرنے کے لیے خواہش نفس ہی ہو تو یہ قطعاً باطل بدعت ہے اور وہ نیا کام کہ جو بظاہر بدعت ہو لیکن اس کی شریعت میں اصل موجود ہو تو وہ بدعت حسنہ ہے... الحاصل بدعت کی پانچ قسمیں ہیں کیونکہ بدعت کو قواعد شریعت پر پرکھا جائے گا تو پانچ قسمیں بنیں گی

(الفتح المبين بشرح الأربعين لابن حجر الہیثمی ص476)

.

أَنَّ الْبِدْعَةَ الْمَذْمُومَةَ مَا لَيْسَ لَهَا أَصْلٌ مِنَ الشَّرِيعَةِ يُرْجَعُ إِلَيْهِ، وَهِيَ الْبِدْعَةُ فِي إِطْلَاقِ الشَّرْعِ، وَأَمَّا الْبِدْعَةُ الْمَحْمُودَةُ فَمَا وَافَقَ السُّنَّةَ، يَعْنِي: مَا كَانَ لَهَا أَصْلٌ مِنَ السُّنَّةِ يُرْجَعُ إِلَيْهِ، وَإِنَّمَا هِيَ بِدْعَةٌ لُغَةً لَا شَرْعًا

 شریعت میں جو بدعت کی مذمت ہے تو اس سے مراد وہ بدعت ہے کہ جس کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہ ہو اور وہ نیا کام کے جو بظاہر بدعت ہو لیکن وہ اچھا ہو تو وہ بدعت حسنہ ہے جس کی سنت سے اصل ثابت ہو.... بدعت حسنہ دراصل بدعت ہی نہیں اسے لغوی اعتبار سے،(ظاہری اعتبار سے)بدعت کہا جاتا ہے شرعی اعتبار سے وہ بدعت نہیں ہے

(كتاب جامع العلوم والحكم ت الأرنؤوط2/131)

.

وَمَا كَانَ مِنْ بِدْعَةٍ لَا تُخَالِفُ أَصْلَ الشَّرِيعَةِ وَالسُّنَّةِ فَتِلْكَ نِعْمَتِ الْبِدْعَةُ

 وہ بدعت کے جو شریعت کے اصولوں کے خلاف نہ ہو تو وہ کیا ہی اچھی بدعت ہے

(كتاب الاستذكار لابن عبد البر 2/67)

.

) فالبَدْعَةُ بِدْعَتَانِ: بِدْعَةُ هُدَى، وبِدْعَةُ ضَلاَلَةٍ، وبِدْعَةُ الضَّلاَلةِ كُلُّ مَا ابْتُدِعَ على غَيْرِ سُنَّةِ

 بدعت کی دو قسمیں ہیں نمبر1 ہدایت والی بدعت ، نمبر2 گمراہی والی بدعت، گمراہی والی بدعت وہ ہے کہ جو سنت کے خلاف ہو

(كتاب تفسير الموطأ للقنازعي1/87)

.

وَصَفَهَا بِنِعْمَتْ لِأَنَّ أَصْلَ مَا فَعَلَهُ سُنَّةً

 جس کی اصل سنت سے ثابت ہو تو وہ کیا ہی اچھی بدعت ہے

(شرح الزرقاني على الموطأ1/418)

.

وَإِنْ لَمْ تُوجَدْ فِي الزمان الأول، فأصولها موجودة

 بدعت حسنہ کے مروجہ طریقے کہ جو بظاہر پہلے کے زمانے میں نہ تھے لیکن اس کے اصول موجود تھے تو اس لیے یہ اچھی بدعت ہیں

(الاعتصام للشاطبي ت الشقير والحميد والصيني1/48)

.


الْبِدْعَة مَا لَيْسَ بمكروه فتسمى بِدعَة مُبَاحَة وَهُوَ مَا يشْهد لحسنه أصل الشَّرْع

 ظاہر اور لغت کے اعتبار سے جو بدعت ہو لیکن وہ مکروہ نہ ہو تو اس کو بدعت مباحہ کہتے ہیں اور یہ وہ ہے کہ جس کی اصل شریعت سے ثابت ہو

(الصنعاني ،ثمرات النظر في علم الأثر ص46)

.

، وإلا فقد عرفت أن من البدع ما هو واجب....، أو مندوب

 ورنہ آپ جانتے ہیں کہ بدعت کی ایک قسم واجب بھی ہوتی ہے اور ایک قسم اچھی بھی ہوتی ہے

(عبدالحق محدث دہلوی، لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح1/507)

.

*بدعت کی تعریف تصوف کی کتب سے*

وَعَنْ زَيْنِ الْعَرَبِ الْبِدْعَةُ مَا أُحْدِثَ عَلَى غَيْرِ قِيَاسِ أَصْلٍ مِنْ أُصُولِ الدِّينِ.وَعَنْ الْهَرَوِيِّ الْبِدْعَةُ الرَّأْيُ الَّذِي لَمْ يَكُنْ لَهُ مِنْ الْكِتَابِ وَلَا مِنْ السُّنَّةِ سَنَدٌ ظَاهِرٌ أَوْ خَفِيٌّ مُسْتَنْبَطٌ وَقِيلَ عَنْ الْفِقْهِيَّةِ الْبِدْعَةُ الْمَمْنُوعَةُ مَا يَكُونُ مُخَالِفًا لِسُنَّةٍ أَوْ لِحِكْمَةِ مَشْرُوعِيَّةِ سُنَّةٍ فَالْبِدْعَةُ الْحَسَنَةُ لَا بُدَّ أَنْ تَكُونَ عَلَى أَصْلٍ وَسَنَدٍ ظَاهِرٍ أَوْ خَفِيٍّ أَوْ مُسْتَنْبَطٍ

 خلاصہ

 امام زین العرب فرماتے ہیں کہ حقیقتا شرعا بدعت اس کو کہتے ہیں کہ جو اصول دین کے قیاس سے ثابت نہ ہو، امام ھروی فرماتے ہیں کہ شرعا بدعت وہ ہے کہ جس کی قرآن اور سنت سے اصل ظاہر نہ ہو یا جسکی خفی اصل ثابت نہ ہو یا جسکی مستنبط اصل نہ ہو تو وہ شرعا بدعت ہے برائی ہے وگرنہ جسکی اصل ظاہر یا اصل خفی یا اصل مستنبط موجود ہو وہ بدعت حسنہ ہے

( بريقة محمودية في شرح طريقة محمدية وشريعة نبوية في سيرة أحمدية1/87)

.

فكم من محدث حسن كما قيل في إقامة الجماعات في التراويح إنها من محدثات عمر رضي الله عنه وأنها بدعة حسنة إنما البدعة المذمومة ما يصادم السنة القديمة أو يكاد يفضي إلى تغييرها

 کئ ایسے نئے امور ہوتے ہیں کہ جو بدعت حسنہ کہلاتے ہیں جیسے کہ تراویح کی (مستقل)جماعت کروانا یہ سیدنا عمر کی بدعات حسنہ میں سے ہے ... حقیقی بدعت تو وہ ہے یا بدعت مذمومہ تو وہ ہے کہ جو سنت قدیمہ کے خلاف ہو یا سنت کو تغیر کرنے والی ہو

(الغزالي ,إحياء علوم الدين ,1/276)


.

*بدعت کے متعلق فقہ سے ایک ایک حوالہ بطور تبرک......!!*

لَكِنْ قَدْ يَكُونُ بَعْضُهَا غَيْرَ مَكْرُوهٍ فَيُسَمَّى بِدْعَةً مُبَاحَةً وَهُوَ مَا شَهِدَ لِجِنْسِهِ أَصْلٌ فِي الشَّرْعِ

 جو کام بظاہر بدعت ہو لیکن وہ مکروہ نہیں ہوتے تو اس کو بدعت مباحہ کہتے ہیں وہ وہ ہے کہ جس کی اصل شریعت میں ثابت ہو

(فقه حنفي البحر الرائق 3/258)


.

البدعة منقسمة إلى واجبة ومحرمة ومندوبة ومكروهة ومباحة, قال: والطريق في ذلك أن تعرض البدعة على قواعد الشريعة, فإن دخلت في قواعد الإيجاب .. فهي واجبة أو في قواعد التحريم .. فمحرمة, أو المندوب .. فمندوبة, أو المكروه .. فمكروهة, أو المباح .. فمباحة

 بدعت کی درج ذیل قسمیں ہے واجب مکروہ حرام مستحب مباح.... اس کی صورت یہ ہے کہ بدعت کو شریعت کے قواعد پر پرکھا جائے گا اگر وہ واجب کے قواعد میں ہو تو بدعت واجبہ ہے اگر وہ حرام کے قواعد میں ہو تو بدعت حرام ہے اور اگر وہ مستحب کے زمرے میں آتی ہوں تو بدعت مستحب ہے اور اگر وہ مکروہ کے تحت آتی ہو تو مکروہ ھے ورنہ مباح ہے

(فقہ شافعی النجم الوهاج في شرح المنهاج10/323)

(فقہ حنفی رد المحتار,1/560 نحوہ)


.

أحدث في الإسلام مما لا أصل له لا في الكتاب ولا في السنة

 شریعت کی رو سے بدعت وہ ہے کہ جس کی کوئی اصل ثابت نہ ہو قرآن سے اور نہ ہی سنت سے(جس کی اصل ثابت ہو وہ تو بدعت ہی نہیں وہ تو اچھی بدعت و ثواب ہے)

(فقہ حنبلی شرح زاد المستقنع - الشنقيطي - التفريغ210/8)

.

تَقَدَّمَ ذِكْرُ أَصْلِ فِعْلِهَا وَمَا كَانَ كَذَلِكَ فَلَا يَكُونُ بِدْعَةً...أَنَّ الْبِدَعَ قَدْ قَسَّمَهَا الْعُلَمَاءُ عَلَى خَمْسَةِ أَقْسَامٍ:بِدْعَةٌ وَاجِبَةٌ الْبِدْعَةُ الثَّانِيَةُ: بِدْعَةٌ مُسْتَحَبَّةٌ الْبِدْعَةُ الثَّالِثَةُ: وَهِيَ الْمُبَاحَةُ الْبِدْعَةُ الرَّابِعَةُ:وَهِيَ الْمَكْرُوهَةُ الْبِدْعَةُ الْخَامِسَةُ: وَهِيَ الْمُحَرَّمَةُ

 اس کی اصل ثابت ہے تو یہ بدعت نہیں... بے شک بدعت کی علماء نے پانچ قسمیں بنائی ہے بدعت واجب بدعت مستحب بدعت مباح بدعت مکروہ بدعت حرام

(فقہ مالکی المدخل لابن الحاج..290...2/257)

.

الحاصل:

خلاصہ یہ ہے کہ

①سنت کے علاوہ جائز بھی اسلام کا ایک اہم ستون ہے... جائز کو بھلانا گمراہی و تفرقہ کا باعث ہے

②ہر نئ چیز شرعا مذموم بدعت نہیں ہوتی...جو سنت نا ہو وہ بدعت نہیں بلکہ جائز کہلائے گی بشرطیکہ کہ اسلامی اصول کے خلاف نا ہو...بدعت اس نئ چیز کو کہتے ہیں جسکی اصل موجود نہ ہو

③میلاد فاتحہ اذان سے پہلے درود، بعد نماز جنازہ دعا، سوئم چہلم عرس کونڈے ایصال ثواب ، شب براءت ،شب معراج، شب قدر کی سالانہ عبادات و شب بیداری وغیرہ جو کام اہلسنت کرتے ہیں وہ برائی و بدعت نہیں کیونکہ انکی اصل قرآن و سنت میں موجود ہے... ذرا غور کیجیے گا کہ مذکورہ کام جس طریقے سے آج کیے جاتے ہیں بالکل اسی طریقے سے پہلے نہیں کیے جاتے تھے مگر ان امور کی اصل قرآن وسنت مین موجود ہے لیھذا یہ موجودہ مروجہ طریقوں کے ساتھ مذکوہ کام سنت نہیں بلکہ جائز و ثواب ہیں مگر انکی اصل قرآن و سنت سے ثابت ہے......!!

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.