غوث پاک کی تعلیمات نظریات...فرقوں کی اصلاح و رد

*سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی کرامات تو بہت پڑھی سنی ہونگی آئیے غوث پاک کی تعلیمات اقوال و نظریات کی ایک جھلک پڑھتے ہیں.. غوث پاک کے ماننے والو غوث پاک کی مانو بھی ضرور......!!*

تمھید:

فقہی اختلاف اپنی جگہ مگر غوث پاک سیدنا عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمۃ کے نظریات و اصلاحات پر عمل کرنا اہلسنت پر لازم ہے مگر افسوس بعض اہلسنت گناہ یا خرافات میں پڑ جاتے ہیں یا کچھ معاملات کو جائز تک سمجھ لیتے ہیں اور خود کو قادری کہلواتے بھی ہیں حالانکہ قادریت کی تعلیمات اقوال و نظریات اسکے برخلاف ہیں....تو لیجیے کچھ(تقریبا 40) اہم معاملات نظریات و مسائل کے متعلق غوث پاک کے اقوال و نظریات پڑہیے پھیلائیے تاکہ غوث پاک کے کہلانے والے ماننے والے اس پر عمل بھی کریں

.

نیم رافضی قادری کہلواتے ہیں مگر بعض اہم نظریات میں وہ غوث پاک کی تعلیمات کے خلاف جا رہے ہیں....اسی طرح غیر مقلدین نجدی وہابی دیوبندی اہلحدیث کے نزدیک جو معتبر علماء ہیں ان معتبر علماء کے مطابق سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی نیک متقی پرہیزگار ولی اللہ تھے، قران و سنت کے پیروکار تھے، بدعتی گمراہ ہرگز نہ تھے...تو لیجیے کچھ اہم معاملات نظریات و مسائل کے متعلق غوث پاک کے اقوال و نظریات پڑہیے پھیلائیے تاکہ غوث پاک کے کہلانے والے سنی اور ماننے والے وہابی دیوبندی نجدی وغیرہ بھی اس پر عمل بھی کریں اور باطل پہچانے جائیں

.===============

اہلسنت و نیم رافضی تو غوث پاک کو مانتے ہیں اس پر دلائل و حوالہ جات لکھنے کی حاجت ہی نہیں لیکن نجدی وہابی غیر مقلد دیوبندی اہلحدیث کے ہاں بھی جو معتبر علماء ہیں انہوں نے بھی غوث اعظم کو نیک متقی کہا ہے

.


نجدی وہابی دیوبندی غیر مقلد اہلحدیث کے ہاں بھی معتبر عالم علامہ ذہبی لکھتے ہیں:

الشيخ عبد القادر بن عبد الله بن جنكي دوست، أبو محمد الجيلي البغدادي علم الأولياء، العالم الزاهد 

 شیخ عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمہ اولیاء کے سردار ہیں، عالم ہیں متقی پرہیزگار ہیں( بدعتی گمراہ ہرگز نہیں)

(سير أعلام النبلاء17/367)

.

نجدی وہابی دیوبندی غیر مقلد اہلحدیث کے ہاں بھی معتبر عالم علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں:

وَقَدْ كَانَ صَالِحًا وَرِعًا

 سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی نیک ، متقی پرہیزگار تھے( بدعتی گمراہ ہرگز نہیں تھے)

(البدایہ و النہایۃ12/313)

.

نجدی وہابی دیوبندی غیر مقلد اہلحدیث کے ہاں بھی معتبر عالم علامہ ابن حجر لکھتے ہیں:

يتمسّك بقوانين الشريعة، ويدعو إليها، وينفر من مخالفتها، ويشغل الناس فيها، مع تمسكه بالعبادة والمجاهدة، ومزج ذلك بمخالطة الشاغل غالبا  عنها كالأزواج والأولاد،

 سیدنا عبدالقادر جیلانی شریعت کے قوانین کو مضبوطی سے تھامنے والے تھے، شریعت کی طرف بلاتے تھے اور شریعت کی مخالفت سے لوگوں کو روکتے تھے، بہت کثرت کے ساتھ عبادت اور مجاہدہ کرتے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ دنیاوی جائز و مستحب مشاغل میں بھی مصروف رہتے تھے جیسے کہ ازواج اور اولاد

(مسائل أجاب عنها الحافظ ابن حجر ص18

الجواهر والدرر في ترجمة شيخ الإسلام ابن حجر 2/943)

.

ان اقوال سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا غوث پاک نیک صالح متقی پرہیزگار ولیوں کے سردار تھے بدعتی نہ تھے

تو

آئیے سیدنا عبدالقادر جیلانی کے کچھ اقوال و نظریات ملاحظہ کیجیے جو اہلسنت کے حق میں جاتے ہیں اور نجدیت وہابیت دیوبندیت غیرمقلدیت شیعیت و نیم رافضیت کا جنازہ نکال دیتے ہیں

لیھذا نجدی وہابی دیوبندی اہلحدیث غیرمقلد نیم رافضی منافق منکر باطل ہیں یا پھر انہیں چاہیے کہ وہ سیدنا غوث پاک کے مذکورہ اقوال و نظریات مطابق عمل کریں کہ سیدنا غوث پاک کے یہ اقوال و نظریات قران و حدیث و اسلاف اہلسنت کے نظریات کے مطابق ہیں

.======================

*سیدنا غوث اعظم کا نظریہ و قول نمبر #1*

*صلح کلی نظریہ ٹھیک نہیں، سب کو صحیح کہنا ٹھیک نہیں، صرف اہلسنت ہی برحق ہیں، انہی کی اتباع و پیروی لازم ہے اور باقی بدعتیوں باطوں کو سمجھانا لازم، بدعت و بطلان پے جو ڈٹے رہیں ان سے باءیکاٹ و دوری لازم.....!!*

سیدنا غوث اعظم علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:

تعلم واعمل ثم علم غیرک،عظ نفسک ثم عظ نفس غیرک..علم(مستند ذرائع سے) حاصل کر پھر اس پر عمل کر پھر دوسروں تک علم پھیلا، وعظ کر(الفتح الربانی ص109..112)جو علم کے بغیر صوفی بنے پھرتے ہیں وہ حقیقی صوفی نہیں، اصلی صوفی وہ ہے جو علم و عبادت فقہ و تصوف دونوں پے عمل کرے، وعظ کرے، سمجھائے اور جو بدعت و گمراہی و غفلت پے ڈٹا رہے ان سے دوری اختیار کرے کہ کہیں اسے یا عوام کو بھی بدعتی و گمراہ و غافل نہ بنا دے 

.

 الناجية فهي أهل السنة والجماعة

 سیدنا غوث اعظم علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ نجات والے صرف أهل السنة والجماعة ہیں

(غنیۃ الطالبین1/175)

.

سیدنا غوث اعظم علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:

فعلى المؤمن اتباع السنة والجماعة،وألا يكاثر أهل البدع ولا يدانيهم،ولا يجالسهم ولا يقرب منهم ولا يهنيهم في الأعياد وأوقات السرور، ولا يصلي عليهم إذا ماتوا، ولا يترحم عليهم إذا ذكروا بل يباينهم ويعاديهم في الله -عز وجل-، معتقدًا ومحتسبًا بذلك الثواب الجزيل والأجر الكثير

 تو ہر مومن پر لازم ہے کہ وہ اہل سنت والجماعت کی پیروی کرے اور اہل بدعت کی تعداد نہ بڑھائے اور ان سے زیادہ بحث و مباحثہ بھی نہ کرے، ان سے لین دین نہ کرے اور ان سے اٹھ بیٹھ نہ رکھے اور ان کا قرب حاصل نہ کرے اور انہیں عید کے موقع پر ، خوشی کے مواقع پر مبارکباد نہ دے، جب وہ مر جائیں تو ان کا جنازہ نہ پڑھے اور ان پر رحم کی دعا نہ کرے، ان کا بائیکاٹ کرے اللہ کی رضا کی خاطر ان سے دشمنی رکھے اور یہ معاملات برتنے میں اللہ تعالی سے اجر و ثواب کی امید رکھے

(غنیۃ الطالبین,1/165)

.

منھاجی اور نیم رافضی اور کم علم لوگ و صوفی جو کہتے ہیں سب فرقے ٹھیک ہیں یا اتحاد و صلح کلی کے دعوےدار ہیں اور ساتھ میں قادری بھی کہلواتے ہیں تو یہ لوگ شرعا بھی ٹھیک نہیں اور قادری مشرب کے بھی باغی ہیں

.

سیدنا غوث اعظم علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:

الاعتقاد الصحيح الذي هو الأساس، فيكون على عقيدة السلف الصالح أهل السنة القديمة سنة الأنبياء والمرسلين، الصحابة والتابعين، والأولياء والصديقين

 ایمان و معرفت کی اصل بنیاد صحیح عقائد ہیں، تو  لازم ہے کہ جو  اسلاف نیکوکار گزرے اور اہل سنت جو بہت قدیم ہیں تو ان اسلاف اہلسنت کے عقائد و نظریات جو تھے وہی عقائد و نظریات رکھے... یہی عقائد و نظریات سنت انبیاء مرسلین سے ثابت ہیں صحابہ تابعین اولیاء صدیقین سے ثابت ہیں

(غنیۃ الطالبین 2/277)

.

دیکھا قرآن و سنت کے ساتھ ساتھ اہلسنت علماء و صوفیاء کی پیروی بھی لازم ہے

جو صرف اور صرف قران و سنت کی بات کرتے ہیں ان کے منہ پر طمانچہ ہے کہ قرآن و سنت نے ہی حکم دیا ہے کہ جن امور کے متعلق دوٹوک قرآن و سنت میں نہیں اس میں معتبر علماء و اولیاء کی پیروی کرنا ہوگی، اجتہاد و قیاس و استدلال کی پیروی کرنا ہوگی....کسی نے خوب لکھا کہ کسی نے سوال کیا کہ فلاں مسئلے میں فلاں امام کا کیا فتوی نظریہ ہے تو اس نے کہا میں قرآن حدیث سناتا ہوں تو سوال کرنے والے نے کہا کہ فلاں امام علماء اسلاف تم سے اور مجھ سے زیادہ قرآن و حدیث و سنت و سمجھتے تھے لیھذا اپنی عقل اپنے پاس رکھ اور اسلاف کی شرح و فتوی و سمجھ پر عمل کر ہاں جدید مسئلہ میں جدید علماء کا قیاس و حکم معتبر ہے

.

القرآن..ترجمہ:

اگر معاملات کو لوٹا دیتے رسول کی طرف اور اولی الامر کی طرف تو اہل استنباط(اہلِ تحقیق،باشعور،باریک دان،سمجھدار علماء صوفیاء)ضرور جان لیتے

(سورہ نساء آیت83)

.

الحدیث...ترجمہ:

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو جب یمن (کا گورنر) بنا کر بھیجنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ”جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ آئے گا تو تم کیسے فیصلہ کرو گے؟“ معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کی کتاب کے موافق فیصلہ کروں گا، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر اللہ کی کتاب میں تم نہ پا سکو؟“ تو معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے موافق، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر سنت رسول اور کتاب اللہ دونوں میں نہ پا سکو تو کیا کرو گے؟“ انہوں نے عرض کیا: پھر میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا، اور اس میں کوئی کوتاہی نہ کروں گا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے معاذ رضی اللہ عنہ کا سینہ تھپتھپایا، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے قاصد کو اس چیز کی توفیق دی جو اللہ کے رسول کو راضی اور خوش کرتی ہے

(ابوداؤد حدیث3592)

.

مذکورہ روایت کو بعض نے ضعیف قرار دیا ہے اور امام ابن کثیر اور شوکانی وغیرہ علماء نے صحیح و حسن معتبر دلیل قرار دیا ہے اور ایات و احادیث و اقوال و افعال صحابہ سے اسکی تائید ہوتی ہے کہ یہ حدیث قابل دلیل ہے معتبر ہے

(انظر شرح ابوداود للعباد تحت الحدیث3592)


یہ حدیث مبارک مشعل راہ ہے کہ قران پھر حدیث و سنت پھر قیاس و استدلال....اس حدیث مبارک سے واضح ہوتا ہے کہ قران حدیث و سنت سے اجتہاد و استدلال کرنا برحق و ماہر علماء کا منصب بلکہ ذمہ داری ہے....استدلال و قیاس کرنے میں سب متفق ہوں یہ ضروری نہیں لیھذا غیرمنصوص ظنیات و فروعیات میں کبھی اختلاف ہونا فطری عمل ہے

.

الحدیث…ترجمہ:

غزوہ احزاب سے واپسی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم(یعنی صحابہ کرام) سے فرمایا کہ:

تم میں سے ہر ایک بنی قریظہ پہنچ کر ہی عصر کی نماز پڑھے" (صحابہ کرام نے جلد پہنچنے کی بھر پور کوشش کی مگر)راستے میں عصر کا وقت ختم ہونے کو آیا تو کچھ صحابہ کرام نے فرمایا کہ ہم عصر نماز بنی قریظہ پہنچ کر ہی پڑہیں گے اور کچھ صحابہ کرام نے فرمایا کہ نبی پاک کا یہ ارادہ نا تھا(کہ نماز قضا ہو اس لیے) ہم عصر پڑھ لیں گے

(طبرانی ابن حبان وغیرہ کتب میں روایت ہے جس میں ہے کہ کچھ صحابہ نے راستے میں ہی عصر نماز پڑھ لی اور کچھ نے فرمایا کہ ہم رسول کریم کی تابعداری اور انکے مقصد میں ہی ہیں لیھذا قضا کرنے کا گناہ نہین ہوگا اس لیے انہوں نے بنی قریظہ پہنچ کر ہی عصر نماز پڑھی)

پس یہ معاملہ رسول کریم کے پاس پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایک پر بھی ملامت نا فرمائی

(بخاری حدیث946)

.

دیکھا آپ نے صحابہ کرام علیھم الرضوان کا قیاس و استدلال اور اس میں اختلاف... صحابہ کرام نے اس برحق اختلاف پر ایک دوسرے کو کافر منافق فاسق گمراہ گستاخ نہیں کہا اور نبی پاک نے بھی کسی کی ملامت نا فرمائی...ایسا اختلاف قابل برداشت ہے بلکہ روایتوں مین ایسے فروعی برحق پردلیل باادب اختلاف کو رحمت فرمایا گیا ہے

.

اختلاف ایک فطرتی چیز ہے.... حل کرنے کی بھر پور کوشش اور مقدور بھر علم و توجہ اور اہلِ علم سے بحث و دلائل کے بعد اسلامی حدود و آداب میں رہتے ہوئے پردلیل اختلاف رحمت ہے

مگر

آپسی تنازع جھگڑا ضد انانیت تکبر لالچ ایجنٹی منافقت والا اختلاف رحمت نہیں، ہرگز نہیں...اختلاف بالکل ختم نہیں ہو پاتا مگر کم سے کم ضرور کیا جا سکتا ہے،اس لیے اختلاف میں ضد ،انانیت، توہین و مذمت نہیں ہونی چاہیے بلکہ صبر اور وسعتِ ظرفی ہونی چاہیے... اور یہ عزم و ارادہ بھی ہونا چاہیے کہ اختلاف کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی، ختم نہیں ہو پایا تو اختلاف کو کم سے کم ضرور کیا جائے گا..اختلاف کو جھگڑے سے بچایا جائے گا..

.

سیدنا غوث اعظم علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:

 واحدهم سنيون : وهم الذين أفعالهم وأقوالهم موافقة للشريعة والطريقة ، وهم أهل السنة والجماعة والبواقي بدعيون

ایک سنی ہی اہل حق ہیں، یہی لوگ اہلِ سنت ہیں، یہ وہ ہیں جن کے تمام اقوال اور افعال شریعت و طریقت کے مطابق ہوں ، باقی سب بدعتی ہیں..(سر الاسرار ص140بحذف یسیر)

مطلقا صلح کلی والے لوگ ، ہر ایک فرقے کو ٹھیک کہنے والے لوگ لیڈرز ہرگز حق و قلندر نہیں بلکہ منافق اعظم ہیں…ہاں فروعیات میں اختلاف گناہ و گمراہی نہیں تو فروعیات میں صلح کلی و اتحاد کرنا بہتر بلکہ حسب طاقت لازم ہے

کسی کے کام، کسی کے کرتوت، کسی کے نظریات اہلسنت والے نہ ہوں تو وہ سنی نہیں چاہے لاکھ اپنے آپ کو قادری سنی کہتا پھرے

.=======================

*سیدنا غوث اعظم کا نظریہ و قول نمبر #2*

والحمد لله رب العالمين، وصلواته على سيدنا وسندنا محمد خاتم النبيين، 

 تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں اور صلوۃ وسلام ہمارے سردار ہماری سند محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر جو

خاتم النبيين ہیں

(غنیۃ الطالبین2/257)


 یہ انتہائی اہم اور بنیادی کلیدی عقیدہ ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی مانا جائے... عقیدہ ختم نبوت میں کسی بھی قسم کی تاویل شاویل کرکے اس کو کمزور بنانے والے ٹھیک نہیں

.======================

*سیدنا غوث اعظم کا نظریہ و قول نمبر #3*

 سیدنا غوث پاک کے مطابق فتح مکہ سے پہلے والے اور فتح مکہ کے بعد والے سب کے لئے اچھا وعدہ یعنی جنت کا وعدہ فرمایا ہے.... سیدنا غوث پاک کے مطابق صحابہ کرام کے فضائل بیان کیے جائیں گے ان کے مشاجرات و جگھڑو میں تفصیل میں نہیں پڑا جائے گا... سیدنا غوث پاک کے مطابق جو صحابہ کرام کے متعلق یا کسی بھی صحابی کے متعلق نازیبا الفاظ استعمال کرے اس کو سمجایا جائے گا، سمجھ جاءے تو ٹھیک ورنہ اس سے بائیکاٹ کیا جائے گا... سیدنا غوث پاک کے مطابق سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کچھ عرصے کے لیے اجتہادی باغی تھے لیکن سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد اور سیدنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیدنا معاویہ سے بیعت کے بعد سیدنا معاویہ کی خلافت صحیح و ثابت ہے... سیدنا غوث پاک کے مطابق مذکورہ تمام باتیں اہل سنت کے نزدیک متفقہ ہیں

لیھذا

منھاجی اور نیم رافضی جو قادری بھی کہلواتے ہیں اور سیدنا معاویہ و ان کے خاندان کے مسلمانوں پر دوٹوک یا ڈھکے چھپے انداز میں طعن و مذمت کرتے ہیں،  فضائل سیدنا معاویہ بیان کرنے سے روکتے ہیں چڑتے ہیں اور قادری بھی کہلواتے ہیں تو یہ انکی مکاری یا بغاوت کہلوائے گی کیونکہ انکا یہ عمل قادریت کی تعلیمات کے مطابق نہیں......!! اللہ ہدایت عطاء فرمائے

.

واتفق أهل السنة على وجوب الكف عما شجر بينهم، والإمساك عن مساوئهم، وإظهار فضائلهم ومحاسنهم..وقال -صلى الله عليه وسلم-: «إذا ذكر أصحابي فأمسكوا»...وقال -صلى الله عليه وسلم-: «طوبي لمن رآني ومن رأى من رآني».وقال -صلى الله عليه وسلم-: «لا تسبوا أصحابي فمن سبهم فعليه لعنة الله».

وقال -صلى الله عليه وسلم- في رواية أنس: «إن الله -عز وجل- اختارني واختار لي أصحابي، فجعلهم أنصاري، وجعلهم أصهاري، وأنه سيجيء في آخر الزمان قوم ينقصونهم، ألا فلا تواكلوهم، ألا فلا تشاربوهم، ألا فلا تناكحوهم، ألا فلا تصلوا معهم، ألا فلا تصلوا عليهم، عليهم حلت اللعنة..قال الله تعالى فيهم: {لا يستوي منكم من أنفق من قبل الفتح وقاتل أولئك أعظم درجة من الذين أنفقوا من بعد وقاتلوا وكلًا وعد الله الحسنى} [الحديد: 10)

وأما قتاله -رضي الله عنه- لطلحة والزبير وعائشة ومعاوية -رضي الله عنهم- فقد نص الإمام أحمد -رحمه الله- على الإمساك عن ذلك، وجميع ما شجر بينهم من منازعة ومنافرة وخصومة...لأن الله تعالى يزيل ذلك من بينهم يوم القيامة، كما قال -عز وجل-: {ونزعنا ما في صدورهم من غل إخوانًا على سرر متقابلين} [الحجر: 47].ولأن عليًا -رضي الله عنه- كان على الحق في قتالهم....وأما خلافة معاوية بن أبي سفيان -رضي الله عنه- فثابتة صحيحة بعد موت علي -رضي الله عنه- وبعد خلع الحسن بن علي -رضي الله عنهما- نفسه من الخلافة وتسليمها إلى معاوية..

خلاصہ:

اہلسنت اس بات پر متفق ہیں کہ صحابہ کرام میں جو کچھ ہوا اس میں کسی بھی گروہ پر زبان درازی سے رک جانا لازم ہے اور لازم ہے کہ ان کے فضائل و اچھائیاں بیان کی جائیں کہ احادیث پاک میں یہی حکم ہے،حدیث پاک میں ہے کہ جب میرے صحابہ کا ذکر ہو تو زبان درازی سے رک جاؤ..اور حدیث پاک میں ہے کہ جس نے میرے صحابہ کو برا کہا اس پر لعنت ہے...حدیث پاک میں ہے کہ جو میرے صحابہ ہیں اور جو میرے رشتےدار اہلبیت ہیں جو ان میں سے کسی کو برا کہے تو(سمجھاؤ ...سمجھ جائیں تو ٹھیک ورنہ بائیکاٹ کرو)ان کے ساتھ نہ بیٹھو،  ان کے ساتھ نہ کھاؤ پیو،نہ ان سے شادی بیاہ کرو، ان کے پیچھے نہ نماز پڑھو، نہ انکا جنازہ پڑھو ان گستاخون پر لعنت ہے…!! یاد رکھو جو فتح مکہ سے پہلے ایمان لائے اور جو بعد میں ایمان لائے وہ برابر تو نہیں مگر دونوں گروہ سے اچھا وعدہ(جنت کا) ہے اللہ کا اور یہ بھی آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ قیامت کے دن ان اختلاف کرنے والے صحابہ کرام کا آپس میں خصوصی مہر و محبت اللہ پیدا فرما دیگا اور جو سیدنا علی سیدنا معاویہ سیدہ عائشہ سیدنا طلحہ سیدنا زبیر رضی اللہ عنھم میں اختلاف ہوا تو ہر ایک کے پاس دلیل تھی لیکن سیدنا علی حق پے تھے اور باقی (اجتہادی)باغی ہوئے مگر جب سیدنا حسن نے صلح فرما لی تو سیدنا معاویہ کی خلافت صحیح و ثابت کہلائے گی

(غنیۃ الطالبین 1/161تا164ملتقطا)

.=============================

*سیدنا غوث اعظم کا نظریہ و قول نمبر #4*

سأل النبي -صلى الله عليه وسلم -هداية عمه أبى طالب، فأبى أن يهديه

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے سوال کیا کہ ابوطالب کو ہدایت دے لیکن اللہ نے ابوطالب کو ہدایت دینے سے انکار کر دیا..(غنیۃ الطالبین 2/49)

چمن زمان نے جھوٹی دلیل کے ساتھ ابوطالب کو سیدنا اور رضی اللہ عنہ اور سلام اللہ علیہ لکھا اور رجس(کفر شرک وغیرہ)سے پاک قرار دیا رسول کریمﷺکے آباء و اجداد کی طرح پاکیزہ عظیم و منبع قرار دیا اور شیعہ اور کذاب راویوں سے روایات لیں جوکہ جمھور اہلسنت اور قادری مشرب سے بغاوت ہے…اب چمن زمان و ہمنوا نیم رافضی مثلا حنیف قریشی عرفان شاہ مشہدی ریاض شاہ وغیرہ سنی قادری کہلانے لکھنے کے لائق نہیں......!! اگر لکھے گا تو غوث پاک کی ماننا بھی لازم ہوگا ورنہ مکاری منافقت کہلائے گی

.========================

*سیدنا غوث اعظم کا نظریہ و قول نمبر #5*

نماز کی تاکید:

فذكر الخيرات كلها جملة وهي جميع الطاعات مع اجتناب جميع المعاصي، فأفرد الصلاة بالذكر وأوصاهم بها خاصة.....ولا يصلى عليه ولا يدفن في مقابر المسلمين

 سیدنا غوث اعظم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے تمام نیکیوں کو ایک جگہ پر ذکر کیا اور تمام برائیوں سے منع کرنے کو ایک جگہ ذکر کیا اور اس کے بعد نماز کو خصوصیت کے ساتھ الگ ذکر کیا اور اس کی تاکید کی، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نماز کی کتنی اہمیت ہے... فقہ حنبلی یعنی غوث اعظم کی فقہ کے مطابق بے نمازی شخص کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی اور اس کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن بھی نہیں کیا جائے گا

(غنیۃ الطالبین2/187..188)

.==========================

*سیدنا غوث اعظم کا نظریہ و قول نمبر #6*

*انبیاء کرام علیھم السلام و علماء و اولیاء وغیرہ شفاعت کریں گے.......!!*

فقد أثبت الله تعالى في الآخرة شفاعة، وكذلك في السنة.....وكذلك ما من نبي إلا وله شفاعة...وكذلك للصديقين والصالحين من كل أمة شفاعة..خلاف ما زعمت القدرية من إنكار ذلك

 اللہ تعالی کے کلام سے ثابت ہوتا ہے کہ آخرت کے دن( گناہ گاروں)شفاعت ہوگی اور اسی طرح سنت سے بھی ثابت ہے..... اسی طرح ہر نبی شفاعت کرے گا اور اسی طرح صدیقین صالحین بھی شفاعت کریں گے... شفاعت کا انکار قدریہ بدعتی فرقے نے کیا ہے

(غنیۃ الطالبین 1/147,148)

.=======================

*سیدنا غوث اعظم کا نظریہ و قول نمبر #7*

*وسیلہ...!!*

ويتوسل إلى الله تعالى بصاحب الشهر محمد -صلى الله عليه وسلم

 اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ پیش کرنا چاہیے

(غنیۃ الطالبین1/342)

 بظاہر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم انتقال فرما چکے ہیں لیکن پھر بھی انتقال کے بعد وفات کے بعد وسیلہ ان کو بنانے کا حکم دے رہے ہیں سیدنا غوث پاک... جس سے ثابت ہوتا ہے کہ زندہ کا بھی وسیلہ پیش کیا جاسکتا ہے اور بظاہر وفات شدہ کا وسیلہ بھی پیش کیا جاسکتا ہے

.

وكذلك يستحب أن يتوسلوا بالزهاد والصالحين وأهل العلم والفضل والدين

 اور اسی طرح مستحب ہے کہ نیک لوگوں صالح لوگوں اہل علم و فضل والے دین والے لوگوں کا وسیلہ پیش کرنا چاہیے

(غنیۃ الطالبین2/215)

 اولیاء علماء نیک لوگوں کا وسیلہ پیش کرنا چاہیے چاہے وہ زندہ ہوں چاہے وہ بظاہر وفات شدہ ہوں...یہ ہے اہلسنت و سیدنا عبدالقادر جیلانی کی تعلیم

.=======================

*سیدنا غوث اعظم کا نظریہ و قول نمبر #8*

*معراج جسمانی اور دیدار الہی برحق ہے.......!!*

ونؤمن بأن النبي -صلى الله عليه وسلم- رأى ربه -عز وجل- ليلة الإسراء بعيني رأسه لا بفؤاده ولا في المنام

 سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی فرماتے ہیں کہ ہم یہ ایمان رکھتے ہیں کہ بے شک نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات اللہ پاک کا دیدار کیا اپنے سر کی آنکھوں سے.... وہ جو کہتے ہیں کہ فقط دل سے دیدار کیا یا خواب میں دیدار کیا تو یہ بات ٹھیک نہیں ہے

(غنیۃ الطالبین1/141)

.=======================

*سیدنا غوث اعظم کا نظریہ و قول نمبر #9*

*علم غیب حقیقی و اصلی اللہ عزوجل کو ہے اور اللہ جتنا چاہے انبیاء و اولیاء کو عطاء فرماتا ہے مگر......؟؟*

إذ ذاك لا يكاد يدرك إلا أن يشاء الله أن يكرم به بعض أوليائه وأصفيائه....، ولا ينقدح إلا بعلم لدني وأخبار والغيوب وأسرار الأمور، فهو للمحبوبين والمرادين والمختارين الفانين بالله

 اس غیب کے علم کا ادراک کسی کو نہیں ہو سکتا مگر یہ کہ اللہ تعالی جس پر کرم فرمائے جسے چاہے بعض اولیاء اصفیاء کو علم غیب عطا فرماتا ہے، علم لدنی اور غیب کی خبریں اور غیب اور معاملات کے اسرار و رموز یہ سب ان لوگوں کے لئے ہوتے ہیں کہ جو اللہ کے محبوب ہوتے ہیں مراد ہوتے ہیں مختار ہوتے ہیں فنا فی اللہ ہوتے ہیں

(غنیۃ الطالبین 258 ،1/254)

.

ومن يطلعه الله تعالى عليه من رسله وأنبيائه وخواص أوليائه

 اور علم غیب اللہ تعالی عطا فرماتا ہے اپنے رسولوں کو انبیاء کرام کو اور خاص اولیاء کرام کو

(غنیۃ الطالبین2/282)علم غیب الھام وغیرہ وہی معتبر جو شریعت کے مطابق ہوں، باقی علم جو مخالف اسلام نہ ہو مگر وہ قرآن و سنت میں بھی مذکور نہ ہو تو ولی اللہ اس کے ذریعے شرعی حکم ثابت نہ کرے گا

کیونکہ

مکاشفہ کشف مراقبہ استخارہ الھام وغیرہ وہی معتبر جو قرآن و سنت شریعت کے موافق آئے ورنہ شیطان و نفس کی طرف سے ہے.........!!

وهو كتاب الله وسنة رسوله صلى الله عليه وسلم ، لا تخرج عنهما فإن خطر خاطر أو وجد إلهام فاعرضه على الكتاب والسنة

 قرآن مجید اور سنت رسول سے کبھی بھی باہر مت جانا اگر تمہیں کوئی بات پتہ چلےغیب کی یا تمہیں کوئی الہام آئے تو اس کو قرآن مجید اور سنت پر پیش کرو اگر اس کے موافق ہو تو صحیح ورنہ رد کر دو(فتح الرباني ص24)الھام کشف استخارہ کے نام پے چور پکڑنا، قسمت بتانا، ڈھارے لگانا، قطعی طور پر بتانا کہ تم پر جادو نظربد بندش وغیرہ ہے یا قطعی طور پر بتانا کہ تمھاری دل میں فلاں بات ہے یا قطعی بتانا کہ تم نے فلاں گناہ کیا ہے اور اس طرح کی دیگر شرعی احکامات ثابت کرنا جن کے ثبوت کے لیے شرع شریف نے گواہ وغیرہ مقرر کیے ہیں تو ایسے مواقع پے ثبوتا استخارے الھام کشف وغیرہ معتبر نہیں...ہاں استخارے کشف مراقبے الھام سے شرع شریف کے موافق ظنی غیرقطعی اشارے مل سکتے ہیں

.=========================

*سیدنا غوث اعظم کا نظریہ و قول نمبر #10*

*ولایت فقیری طریقت کی اصل و بنیاد شریعت ہی ہے، شریعت و سنت کی پیروی کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی اور سختی و جہاد و شادی و ظاہری دنیا.....؟؟*

الاسلام ثم الایمان چم العمل بکتاب اللہ عزوجل و شریعۃ رسولہ صلی اللہ علیہ وسلم ثم الاخلاص فی العمل حتی ھداہ ...اذا وصل قلب العبد الی ربہ عزوجل اغناہ بہ عن الخلق یقربہ  و یمکنہ و یملکہ

قرآن و سنت پے عمل کرو، شریعت(فرض واجب سنت مستحب) پے عمل کرو اخلاص کے ساتھ، اسی طرح کرتے رہو یہاں تک کہ اللہ تمہیں فھم و فراست ولایت و قرب دے دیگا ان شاء اللہ عزوجل اور اسے (دنیا میں دل و دولت طاقت پر) جگہ دے گا، مالک بنائے گا(الفتح الربانی ص102)ولایت شریعت کے بغیر نہیں ملتی، جسکا عمل عقیدہ شرع شریف کے موافق نہ ہو وہ پیر ولی مرشد نہیں، ہرگز نہیں... اسی طرح اللہ کی عطا سے اولیاء کرام نگہبان و مالک بھی ہیں

.

فالولی کامل الولایۃ المحمدیۃ

اللہ کے ولی کو ہر حال میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنا ہوتی ہے..(سر الاسرار ص72)اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مستحقین پے سختی بھی کی اور زیادہ نرمی کی، علم پھیلایا، وعظ فرمایا تو جنگی جہاد بھی فرمایا،شادی جائز تفریح بھی کی تو اتنی عبادت بھی کرتے کہ قدم مبارک سوج جاتے(بخاری مسلم وغیرہ)

الشریعۃ شجرۃ و الطریقۃ اغصانھا والمعرفۃ اوراقھا والحقیقۃ اثمارھا

شریعت ایک درخت ہے طریقت اسکی ٹہنیاں ہیں(شریعت کا حصہ ہیں کہ درخت یعنی شریعت کے بغیر انکا وجود ممکن نہیں) اور معرفت اسکے پتے ہیں(شریعت کا حصہ ہیں کہ درخت یعنی شریعت کے بغیر انکا وجود ممکن نہیں) اور حقیقت اسکا پھل ہے(شریعت کا حصہ ہے کہ درخت یعنی شریعت کے بغیر پھل کا وجود ممکن نہیں)

(سرالاسرار ص62)

.=======================

*سیدنا غوث اعظم کا نظریہ و قول نمبر #11*

*مریدوں  شاگردوں سے نذرانے خدمات ہاتھ چموانے واہ واہ کروانے وغیرہ کی لالچ ہرگز نہ رکھے......!!*

ولا ينبغي له أن يرتفق من المريد بحال لا بالانتفاع بماله ولا بخدمته، ولا يأمل من الله عز وجل عوضًا في تأديبه، ولا شيئًا، بل يؤدبه ويربيه موافقة لله عز وجل أداء لأمره وقبولاً لهديته وطرفته، فإن المريد الذي جاء من غير تخيير من الشيخ ولا استجلاب، بل قدر محض بإرشاد الله تعالى له وهدايته وإنقاذه إليه، فإنه هدية من الله، فعليه قبوله

 مرشد کے لئے یہ ضروری ہے کہ مرید سے کسی قسم کی مدد نہ چاہے اس کے مال سے نفع حاصل کرنے کی مدد نہ چاہے اور اس کی خدمت سے نفع حاصل کرنے کی مدد نہ چاہے، اس کی تربیت اللہ کی رضا کی خاطر بغیر لالچ کے کرتا رہے... ہاں اگر مرید اپنے دل سے کوئی ہدیہ دے تو اس کو قبول کر لے

(غنیۃ الطالبین2/285)

.

ما اعرف الاکل الا من شیئین اما بالکسب مع ملازمۃ الشرع او بالتوکل، ویلک الا تستحی من اللہ عزوجل تترک کسبک و تکدی من الناس

شریعت پر پابندی سے عمل کر اور کما کر کھا، تجھے اللہ سے شرم نہیں آتی کہ(بلامجبوری بلااجازتِ شرع)مانگ کر کھاتے ہو،بھیک مانگتے ہو(اسے فقیری کہتے ہو،یہ فقیری نہیں گناہ ہے) ہاں تو نے توکل کیا اور بن مانگے تجھے ملا تو کھانے میں حرج نہیں(اسی طرح جن مواقع پے شرع شریف نے مانگنے کی اجازت دی تو وہ بھی جائز ہے)

(جلاء الخاطر ص64ملخصا)

.

ویحک تقعد فی صعومتک و قلبک فی بیوت الخلق منتظر لمجیئھم و ھدایاھم

بربادی ہے تیری ، افسوس ہے تجھ پر کہ تو اپنی گدی حجرے میں بیٹھا ہوتا ہے مگر تیرا دل لوگوں کے آنے(اپنی تعظیم ہونے، مشھور ہونے، بڑا ہونے ، ہاتھ پاؤں چموانے کی خواہش رکھتا ہے) اور(اپنی ذاتی مفاد کے لیے) انکے تحائف و نذرانے کا منتظر ہوتا ہے..(الفتح الربانی ص97) اگر بغیر لالچ کے کچھ ملے تو بے شک جائز ہے مگر بہتر ہے کہ مرشد خود کاروبار یا اجارہ کرکے کما کر یا امیروں سے لیکر غرباء کو دینے والا سخی ہو

.=========================

*سیدنا غوث اعظم کا نظریہ و قول نمبر #12*

*تبرک....ہاتھ پاؤں چومنا....تعظیم و شفقت کرنا.....!!*

وإن أحب أن يتمسح بالمنبر تبركًا به

 اور اگر چاہے تو منبر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوئے تبرک کے لیے تو یہ جائز ہے

(غنیۃ الطالبین1/37)

.

وقبل أحدهما رأس الآخر ويده على وجه التبرك والتدين جاز

 اگر ایک مسلمان بھائی دوسرے مسلمان بھائی(یا ولی مرشد استاد صالحین سادات)  کا ہاتھ(یا پاؤں وغیرہ)تبرک اور دینی لحاظ سے چومتا ہے تو یہ جائز ہے

(غنیۃ الطالبین1/40)

.

ويستحب التواضع لكل واحد من المسلمين.ويستحب توقير الشيوخ ورحمة الأطفال والعفو عنهم ولا يترك تأديبهم

 اور مستحب و ثواب ہے کہ ہر مسلمان کے ساتھ عاجزی کے ساتھ پیش آئے اور مستحب ہے ثواب ہے کہ مشائخ اساتذہ مرشد علماء صوفیاء وغیرہ کا احترام کرے ادب کرے اور بچوں پر رحمت کرے انہیں معاف کرے اور انکی تربیت کرے

(غنیۃ الطالبین1/91)

.========================

*سیدنا غوث اعظم کا نظریہ و قول نمبر #13*

*مرشد استاد علماء مشائخ بزرگ کے لیے احتراما کھڑے ہونا چاہیے.......!!*

ويتسحب القيام للإمام العادل..والوالدين وأهل الدين والورع وكرام الناس

 اور مستحب و ثواب ہے کہ نیک بادشاہ کے لیے کھڑا ہو جائے اور والدین کے لئے کھڑا ہو جائے اور دین داروں کے لئے کھڑا ہو جائے نیک متقی پرہیز گاروں کے لیے عزت والوں کے لیے کھڑا ہو جائے

(غنیۃ الطالبین1/40)

.========================


*سیدنا غوث اعظم کا نظریہ و قول نمبر #14*

*فکر اخرت کیجیے...ولی اللہ وہ جو کبھی ہوش و حواس میں شریعت کے خلاف نہیں جاتا بلکہ شریعت پر سختی سے عمل پیرا ہو کر قرب الہی پا سکتا ہے.......!!*

فالولی کامل الولایۃ المحمدیۃ

اللہ کے ولی کو ہر حال میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنا ہوتی ہے..(سر الاسرار ص72)

.

 واما الحالیۃ... یقولون للشیخ حالۃ لا یعبر عنھا الشرع و ھذہ بدعۃ...واما الاولیائیہ فانھم یقولون اذا وصل العبد الی مرتبۃ الاولیاء سقطت عنہ تکالیف الشرع ....وھذا کفر

فرقہ حالیہ و اولیاءیہ جو کہتے ہیں کہ مرشد جو کرے اسکی پکڑ نہیں، اور کہتے ہیں کہ جو ولایت کے درجے کو پہنچ جائے اس سے احکامِ شریعت عبادات وغیرہ معاف ہوجاتے ہیں، اس کے لیے حرام حلال ہوجاتے ہیں یہ بدعتی کافر زندیق ملحد دائرہ اسلام سے خارج ہیں.(سرالاسرار ص140ملخصا)

.

الدنیا مزرعۃ الاخرۃ فاذا لم یزرعہ فی ھذہ لم یحصد فی الاخرۃ

دنیا آخرت کی کھیتی ہے جو یہاں نہیں بوئے گا وہاں آخرت میں کچھ حاصل نہیں کر پائے گا..(سرالاسرار ص85)جو کہتے ہیں ہمارے مرشد پہنچے ولی ہیں،انہیں عبادت کی کیا ضرورت وہ گمراہ ہیں بلکہ بات کفر تک جاسکتی ہے، علم و عمل دونوں لازم

.

=========================

*سیدنا غوث اعظم کا نظریہ و قول نمبر #15*

*زیارت قبور،میت کی تعظیم اور ایصال ثواب  اور صاحب قبر کے وسیلے سے دعا برحق ہیں شرک بدعت و جہالت نہیں......!!*

 بل يقف عند موضع وفوقه منه أن لو كان حيًا، ويحترمه كما لو كان حيًا، ويقرأ إحدى عشرة مرة: قل هو الله أحد وغيرها من القرآن، ويهدي ثواب ذلك لصاحب القبر وهو أن يقول: اللهم إن كنت قد أثبتني على قراءة هذه السورة، فإني قد أهديت ثوابها لصاحب هذا القبر، ثم يسأل الله حاجته

 جب مزار پر حاضر ہو تو اس جگہ ٹھہرے کہ جس جگہ اگر وہ زندہ ہوتا تو کس طرح ٹھہرتا اور اس کا اسی طرح احترام کرے کہ جس طرح اگر وہ زندہ ہوتا تو کس طرح احترام کرتا... اور گیارہ مرتبہ سورہ اخلاص پڑھے اور اس کے علاوہ قرآن مجید کی دیگر آیات و سورتیں تلاوت کرے اور صاحب قبر کو ایصال ثواب کر دے پھر اللہ تعالی سے اپنی حاجت مانگے

((غنیۃ الطالبین1/91)

.=========================

*سیدنا غوث اعظم کا نظریہ و قول نمبر #16*

*تعویذ دوا دعا جھاڑ پھونک دم جائز و ثواب ہے بدعت و جہالت نہیں........؟؟*

خلاصہ:

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ تکلیف میں ہوتے تو قل شریف پڑھ کر اپنے اوپر دم کیا کرتے تھے اور یہ دعا پڑھ کر بھی دم کیا کرتے تھےأعوذ بوجه الله الكريم وكلماته التامات من شر ما خلق وذرأ وبرأ، ومن شر كل دابة ربي آخذ بناصيتها... اسی طرح قرآن مجید اسمائے حسنی وغیرہ سے جھاڑ پھونک کرنا جائز ہے کیونکہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے کہ قرآن میں سے ہم وہ نازل کرتے ہیں کہ شفا اور رحمت ہے مومنین کے لیے... اسی طرح جب بیمار پڑ جائیں تو علاج کرانا بھی جائز ہے حجامہ کے ذریعہ سے پچنا لگانے کے ذریعے سے دوائی پینے کے ذریعہ سے مشروبات پینے کے ذریعہ سے یا جسم کا کوئی عضو کو کاٹنے سے کہیں زیادہ نہ پھیل جائے مرض... اسی طرح جو بھی جسم کے لیے مفید ہو اس سے علاج کیا جا سکتا ہے.. رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ کیا طب میں بھلائی ہے تو آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی نے جو بھی بیماری نازل کی ہے اس کی دوا نازل کی ہے

(غنیۃ الطالبین1/92, 94)

.

ويكتب للمحموم ويعلق عليه ما روى عن الإمام أحمد بن حنبل رحمه الله أنه قال: حممت فكتب لي من الحمى بسم الله الرحمن الرحيم بسم الله وبالله محمد رسول الله: {يا نار كوني بردًا وسلامًا على إبراهيم * وأرادوا به كيدًا فجعلناهم الأخسرين} [الأنبياء: 69 - 70]

 اور بخار ( اسی طرح دیگر امراض) میں تعویذ لکھ کر اسے( گلے بازو گھر وغیرہ میں)لٹکایا جا سکتا ہے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ مجھے بخار ہوا تو میرے لئےبخار سے نجات کیلئے یہ تعویذ لکھا گیا

بسم الله الرحمن الرحيم بسم الله وبالله محمد رسول الله: {يا نار كوني بردًا وسلامًا على إبراهيم * وأرادوا به كيدًا فجعلناهم الأخسرين} [الأنبياء: 69 - 70]

غنیۃ الطالبین1/93)

.==========================

*سیدنا غوث اعظم کا نظریہ و قول نمبر #17*

*شب قدر،  شب معراج، عاشورہ، عید رات،شب براءت وغیرہ میں شب بیداری کرنا بدعت نہیں، ثواب ہے.......!!*

وقد جمع بعض العلماء -رحمهم الله- الليالي التي يستحب إحياؤها فقال: إنها أربع عشرة ليلة في السنة، وهي أول ليلة من شهر المحرم، وليلة عاشوراء، وأول ليلة من شهر رجب، وليلة النصف منه، وليلة سبع وعشرين منه، وليلة النصف من شعبان، وليلة عرفة، وليلتا العيدين، وخمس ليال منها في شهر رمضان وهي وتر ليالي العشر الأواخر

بعض علمائے کرام نے (قرآن و سنت صحابہ کرام  وغیرہ کے اقوال وغیرہ سے) اخذ کیا ہے کہ چودہ راتیں وہ ہیں کہ جن میں شب بیداری کرنا مستحب و ثواب ہے

 محرم کی پہلی رات.. عاشورہ کی رات... رجب کی پہلی رات اور پندرہ رجب کی رات... شب براءت ...شب معراج... عرفہ(نو ذوالحج) کی رات... عید الفطر اور عید الاضحی کی رات... رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں کی پانچ راتیں

(غنیۃ الطالبین1/328)

.=========================

*سیدنا غوث اعظم کا نظریہ و قول نمبر #18*

*فقہی مسائل میں تقلید کرنے پر انکار و مذمت نہیں کرسکتے، تقلید برحق ہے شرک بدعت نہیں......!!*

وأما الذي كان الشيء مما اختلف الفقهاء فيه وساغ في الاجتهاد، كشرب عامي النبيذ مقلدًا لأبي حنيفة رحمه الله، وتزج امرأة بلا ولي على ما عرف من مذهبه، لم يكن لأحد ممن هو على مذهب الإمام أحمد والشافعي رحمهما الله الإنكار عليه

 اور اگر معاملہ ایسا ہو کہ جس میں فقہاء کا اختلاف ہو تو ان مسائل میں عام شخص کو جائز ہے کہ وہ امام ابو حنیفہ یا امام شافعی وغیرہ کی تقلید کرے اس پر انکار کرنا جائز نہیں ہے

((غنیۃ الطالبین1/116)

.=====================

*سیدنا غوث اعظم کا نظریہ و قول نمبر #19*

*زبان سے نیت بدعت نہیں........!!*

ومحلها القلب، فإن ذكر ذلك بلسانه مع اعتقاده بقلبه كان قد أتى بالأفضل، وإن اقتصر على الاعتقاد بالقلب أجزأ

 نیت کے لیے ضروری ہے کہ دل میں نیت ہو اور اگر زبان سے نیت بھی کرے تو یہ اچھا ہے افضل ہے اور اگر فقط دل سے ہی نیت کرے تو بھی کافی ہے

(((غنیۃ الطالبین1/14)

 .====================

*سیدنا غوث اعظم کا نظریہ و قول نمبر #20*

*زیادہ لمبی داڑھی یا خشخشی داڑھی ممنوع ہے، ایک مشت یا اس سے تھوڑی زیادہ رکھنا چاہیے......!!* 

وأما إعفاء اللحية فهو توفيرها وتكثيرها، ومنه قوله تعالى: {حتى عفوا} [الأعراف: 95] أي كثروا، وقد روي أن أبا هريرة رضي الله تعالى عنه كان يقبض على لحيته فما فضل من قبضته جزه، وكان عمر رضي الله تعالى عنه يقول: خذ ما تحت القبضة

 اور داڑھی کو چھوڑ دینے کا حکم ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ اس کو زیادہ کیا جائے گھنا کیا جائے(لیکن کم و بیش مشت برابر کہ) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ وہ ایک قبضہ ایک مشت داڑھی رکھتے تھے اور جو زیادہ ہوتی تھی اس کو کاٹ دیتے تھے اور اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرمایا کرتے تھے کہ جو ایک مشت سے زیادہ داڑھی ہو اس کو کاٹ دو

(غنیۃ الطالبین1/42)

.=====================

*سیدنا غوث اعظم کا نظریہ و قول نمبر #21*

* تین جگہوں کے علاوہ بھی دوسری جگہوں کا سفر کرنا جائز اور ثواب ہے، شرک بدعت نہیں....*

وينبغي أن يكون سفره لطاعة من الطاعات كالحج أو زيارة النبي- صلى الله عليه وسلم- أو زيارة شيخ أو موضع من المواضع الشريفة.أو لمباح كالتجارة..

 اور چاہیے کہ اس کا سفر کسی بھی نیک کام کے لئے ہو جیسے کہ حج یا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت یا آپ کی روضہ مبارک کی زیارت یا یا کسی ولی کی زیارت یا کسی عزت و شرف والے مقام کی زیارت کیلئے سفر کرنا یا مباح کے لیے سفر کرنا جیسے تجارت کے لئے سفر کرنا وغیرہ مقصد ہونا چاہیے

.((غنیۃ الطالبین1/81)

.====================

*سیدنا غوث اعظم کا نظریہ و قول نمبر #22*

* وفات کے بعد وفات شدہ سنتا ہے.....!!*

"إذا مات أحدكم فسويتم عليه التراب فليقم أحدكم على رأس قبره ثم يقول: يا فلان ابن فلانة، فإنه يسمع

 جب کوئی تم میں سے وفات پا جائے اور تم اس پر مٹی ڈال دو تو تم میں سے کوئی شخص اس کی قبر کے سرہانے کھڑا ہو جائے اور کہے اے فلاں بن فلاں کہ مردہ سنتا ہے

(غنیۃ الطالبین2/234)

 جب عام میت کا یہ عالم ہے کہ وہ سنتا ہے تو  انبیائے کرام اولیاء کرام کی طاقت کیا ہوگی اندازہ لگانا مشکل نہیں

.====================

*سیدنا غوث اعظم کا نظریہ و قول نمبر #23*

* تراویح سنت ہے بدعت نہیں اور یہ آٹھ رکعت نہیں بلکہ بیس رکعت ہے......!!*

وصلاة التراويح سنة النبي -صلى الله عليه وسلم صلاها ليلة، وروى ليلتين، وروى ثلاثًا، ثم انتظروه فلم يخرج، وقال: "لو خرجت لفرضت عليكم"...ثم استديمت في أيام عمر -رضي الله عنه... وهي عشرون ركعة

 نماز تراویح نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات یا دو یا تین راتیں تراویح پڑھائی پھر صحابہ کرام آپ کا انتظار کرتے رہے لیکن نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم تشریف نہ؛ لائے اور فرمایا کہ اگر میں آتا تو پھر یہ تراویح فرض ہوجاتی، پھر سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت میں تراویح پر پابندی سے عمل کیا گیا.... اور تراویح بیس رکعت ہے

((غنیۃ الطالبین24، 2/25)

.===================

*سیدنا غوث اعظم کا نظریہ و قول نمبر #24*

*امام اعظم کہنا.......!!*

الإمام الأعظم أبى حنيفة النعمان -رحمه الله تعالى

 سیدنا غوثِ اعظم رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ امام اعظم ابو حنیفہ نعمان رحمۃ اللہ تعالی علیہ

((غنیۃ الطالبین2/85)

 ناجانے کیوں کچھ لوگوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھتا ہے کہ جی امام اعظم نہ کہو یہ شرک بدعت ہے حالانکہ اسکا مطلب ہوتا ہے کہ اپنے دور کے امام اعظم...جیسے فاروق اعظم کہنا برحق ہے

.===================

*سیدنا غوث اعظم کا نظریہ و قول نمبر #25*

*مرشد کی ضرورت اور مرشد کیسا ہو......؟؟*

ويكثر مجالسة الفقهاء والعلماء بالله، ليستفيد منهم أمر دينه، ويعرفونه سلوك الطريق إلى الله تعالى، وحسن الأدب في طاعته، والقيام في أمره، وينبهونه على ما خفي عليه من أمر السلوك في طريقه، فلا بد لكل من سلك طريقًا لم يعرفه من دليل يدله، ومرشد يرشده، وهاد يهديه، وقائد يقوده

 فقہائے کرام اور علمائے کرام جو اللہ تک پہنچے ہوئے ہیں ان کی محفلوں میں زیادہ بیٹھو تاکہ تم اپنے دین کے معاملات ان سے حاصل کرو اور اللہ تعالی تک پہنچنے کے راستے کی معرفت ان سے حاصل کرو، اور یہ ان سے جان سکو کہ اللہ تعالی کی عبادت  اچھے طریقے سے کیسے کی جا سکتی ہے اور اللہ تعالی کے حکم کو کیسے قائم رکھا جا سکتا ہے ، اور اللہ تعالی کی طرف جانے والے راستے میں کیا کیا احتیاط کی جائے... تو جو شخص بھی طریقت کے راستے پر چلنا چاہے تو اس کے لئے ضروری ہے مرشد کا ہونا کہ جو اس کی رہنمائی کرے ، ضروری ہے ہدایت والے کا ہونا کہ جو اسے ہدایت دے اور قائد کا ہونا کہ جو اسکی قیادت کرے

(غنیۃ الطالبین1/247)

 بات بالکل واضح ہے کہ مرشد ایسا ہو کہ جو علم ظاہر و علم باطن ہر چیز کا ماہر ہو...

.====================

*سیدنا غوث اعظم کا نظریہ و قول نمبر #26*

لاتعجل فان من استعجل اخطاء او کاد، من تأني اصاب او کاد ای قارب ان یصیب، العجلۃ من الشیطان والتؤدۃ من الرحمن.

 جلد بازی نہ کرو کہ جس نے جلدبازی کی اس نے خطا کی یا قریب ہے کہ خطا کر دے گا..جس نے اناءت کی اس نے درستگی کو پالیا یا قریب ہے کہ پالے...انائت(جلد بازی نہ کرنا،مناسب وقت موقعہ الفاظ انداز کا لحاظ رکھنا ، ثابت قدمی، سنجیدگی، وقار، وسعتِ ظرفی،صبر) اللہ کی طرف سے ہے اور جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے

.(الفتح الربانی ص27)

زندگی کا بہت ہی اہم اصول کہ جلدبازی نہیں کرنی چاہیے... چاہے دینی معاملہ ہو یا دنیاوی یا تصوفی...

سیاسی معاملہ ہو یا ذاتی معاملہ....

باہر کا معاملہ ہو یا گھریلو معاملہ....

دوستی کا معاملہ ہو یا دشمنی کا....

محبت کا معاملہ ہو یا نفرت کا....

 کچھ خریدنے کا معاملہ ہو یا بیچنے کا...

رشتہ توڑنے کا معاملہ ہو یا کسی سے رشتہ جوڑنے کا...

کسی پر اعتماد کا معاملہ ہو یا بے اعتمادی کا...

کسی کو سمجھنےسمجھانے کا معاملہ ہو یا تنقید کا.....

کسی کی تائید و تعریف کا معاملہ ہو یا تردید و مذمت کا...

الغرض

ہر معاملے میں جلد بازی ٹھیک نہیں، اہل علم سے، اہلِ شعور سے حتی کہ چھوٹوں سے بھی مشاورت کر لینی چاہیے مگر جلد بازی نہیں کرنی چاہیے...مناسب انداز و لحاظ رکھنا چاہیے، غصہ ہی غصہ تکبر جلدبازی میں نقصان و تباہی ہے.....اختلافات جگھڑے فسادات کی ایک بڑی وجہ عدمِ برداشت اور جلد بازی ہے

.===================

*سیدنا غوث اعظم کا نظریہ و قول نمبر #27*

تابعوا حتی تتابعوا،  اخدموا حتی تخدموا....اما سمعتم کما تدین تدان..

 اسلاف کی پیروی کرو تاکہ تمہاری پیروی کی جائے خدمت کرو تمہاری خدمت کی جائے گی کہ تم نے نہیں سنا کہ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے

(الفتح الربانی ص46)

 اپنے آپ کو عقل سمجھ کر عجیب عجیب باتیں کرتے پھرنا یہ اچھی بات نہیں ہے بلکہ اسلاف کی پیروی کرنی چاہیے ان شاء اللہ اس کی برکت سے تمہاری پیروی کی جائے گی... اولیاء کی اکابرین کی اسلاف کی سادات کی بلکہ عام مسلمانوں کی بلکہ  پرامن کافروں کی بھی خدمت کرنی چاہیے...خدمت خلق کرنی چاہیے... تھوڑا بہت اپنا نفع سوچ لینا بھی اچھی بات ہے لیکن زیادہ تر دوسروں کے کام آنا دوسروں کو نفع پہنچانے کی غرض ہونی چاہیے... من موجی من پرست اناپرست متکبر لالچی مفادی مطلبی نہیں ہونا چاہیے

.===================

*سیدنا غوث اعظم کا نظریہ و قول نمبر #28*

علیکم بالاتباع من غیر ابتداع، علیکم بمذھب السلف الصالح،ویحک تحفظ القرآن ولا تعمل بہ،تحفظ سنۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولا تعمل بھا، فلای شیء تفعل ذالک؟ تامر الناس  وانت لا تفعل و تنھاھم وانت لا تنتھی قال عزوجل کبر مقتا عنداللہ ان تقولوا ما لا تفعلون...

 تم پر ضروری ہے کہ تم اسلاف کی پیروی کرو بدعت نہ نکالو... تیرے لئے ھلاکت ہو کہ تو قرآن کو یاد کرتا ہے قرآن پڑھتا ہے اور اس پر عمل نہیں کرتا رسول اللہ کی سنت کو یاد کرتا ہے لیکن اس پر عمل نہیں کرتا، یہ تو کیوں کرتا ہے اور دوسروں کو بھلائی کا حکم دیتا ہے لیکن خود بھلائی نہیں کرتا لوگوں کو روکتا ہے اور تو خود برائی سے نہیں رکتا... اللہ عزوجل ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ کے نزدیک سب سے بری بات یہ ہے کہ تم وہ بات کہو جس پر تم خود عمل نہیں کرتے

(الفتح الربانی ص47..48)

.=======================

*سیدنا غوث اعظم کا نظریہ و قول نمبر #29*

*بس دل صاف ہونا چاہیے.........؟؟*

اعمالک دلائل علی اعتقادک، ظاہرک دلیل علی باطنک

 تیرے عمل تمہارے عقیدے پر دلالت کرتے ہیں اور تمہارا ظاہر تمہارے باطن پر دلالت کرتا ہے

(الفتح الربانی ص49)

 لہذا تمہارے عمل اچھے ہوئے تو تمہارا عقیدہ بھی اچھا ہو گا اگر تمہارے عمل برے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ تمہارے عقیدے میں کچھ نہ کچھ کھوٹ ضرور ہے... تمہارا اگر ظاہر ٹھیک نہیں ہے ظاہر میں تم عبادت گزار نیک نہیں ہو تو یہ مت سمجھو کہ تمہارا باطن صاف ہے... تمہارا باطن صاف ہوتا تو تمہارے عمل اچھے ہوتے.... وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ بس دل صاف ہونا چاہیے غلط کہتے ہیں.... دل باطن اور ظاہر دونوں ہی صاف اور اچھے ہونے چاہیے

.=====================

*سیدنا غوث اعظم کا نظریہ و قول نمبر #30*

*اکابرین کا دامن پکڑے رہو مگر اکابر کون.......؟؟*

فان النبی صلی اللہ علیہ وسل. قال البرکۃ فی اکابرکم...قال ما اراد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ذکر السن فحسب،بل حتی یضاف الی کبر السن التقوی فی امتثال الامر و الانتھاء عنی النھی و ملازمۃ الکتاب و السنۃ و الا فکم من شیخ لا یجوز احترامہ و الا السلام علیہ و لیس فی رویتہ برکۃ،الاکابر المتقون الصالحون امتورعون العاملون بالعلم المخلصون فی العمل.

 بے شک نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ برکت تمہارے اکابرین میں ہے، اکابرین سے مراد فقط عمر میں بڑا ہونا نہیں ہے بلکہ عمر اور تجربے میں بڑا ہونے کے ساتھ ساتھ تقوی اور اور اللہ کے احکامات بجا لانا اور اللہ کے منع کردہ چیزوں سے رک جانا اور قرآن اور سنت کو لازم پکڑ لینا اسی سے ہی کوئی اکابر و بزرگ بنتا ہے... ورنہ تم نہیں دیکھتے کہ کیا ایسے بڑی عمر کے روتے ہیں سفید ریش ہوتے ہیں ان ان کا احترام کرنا جائز نہیں ہوتا ان کو سلام کرنا جائز نہیں ہوتا ان کو دیکھنے میں کوئی برکت نہیں ہوتی.... تو اکابرین سے مراد تقوی وپرہیزگاری والے نیکو کار اللہ سے ڈرنے والے اپنے علم پر عمل کرنے والے اور عمل میں مخلص جو ہوں وہ اکابرین ہیں.(الفتح الربانی ص49..50)

.=====================

*سیدنا غوث اعظم کا نظریہ و قول نمبر #31*

قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم نعم المال الصالح للرجل الصالح

 سیدنا عبدالقادر جیلانی فرماتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کیا ہی اچھا ہے وہ اچھا مال جو اچھے شخص کے پاس ہو

(..(الفتح الربانی ص144)دیندارو پاکیزہ طریقے سے خوب دولت کماؤ ، اچھی جگہ خرچ کرو، طب ٹیکنالوجی سائنس طاقت سیاست میں جاؤ انہیں پاکیزہ بناؤ…اے دولتمندو طاقتورو سیاستدانوں ججو جرنیلو پاکیزہ و دیندار بن جاو

.

جب معاملہ ایسا ہے تو پھر اگر دیندار یا مولوی علامہ مفتی کے پاس کچھ دولت گاڑی بنگلہ پلاٹ ہوں تو اس پر تنقید و مذمت کی بارش نہیں کرنی چاہیے... بلکہ کلیجے میں ٹھنڈ پڑنی چاہیے کہ حلال پیسہ اچھے کے پاس جائز طریقے سے جا رہا ہے... ہاں اگر فریب دھوکہ غلط طریقے سے یا دین کے نام پر لیے گئے پیسوں سے ذاتی دنیا بنائی جائے تو سخت سخت سخت جرم و گناہ ہے...جہاں بدگمانی افواہ کی مذمت ہے وہیں افواہوں کی تردید اور سد باب اور وضاحت بھی ضروری... تہمت کے مقامات سے بچنا بھی ضروری ہے..

.

افسوس کہ عام طور پر جس کے پاس جتنی دولت طاقت حکومت آتی جاتی ہے اتنی ہی عیاشی بڑھتی جاتی ہے، غرور تکبر بڑھتا جاتا ہے... کئ امیر لیڈر تو ورکرز عوام محبین کو غلام و ناچیز کیڑے مکوڑے سمجھتے ہیں...

اللہ کرے اس کو دولت طاقت اقتدار عہدہ ملے جو بااخلاق ہو، باشعور احساس والا ہو، سخی دل اور سنجیدہ دماغ والا ہو،

قدر دان ہو... دوسروں کی قدر کرے عزت دے... دوسروں کو سہارا دے، انہیں غیرمحتاج بنائے باشعور بنائے..

.=========================

*سیدنا غوث اعظم کا نظریہ و قول نمبر #32*

بجہادین ظاہر و باطن

 2 جہاد ہیں.. ظاہری جہاد اور باطنی جہاد

(الفتح الربانی ص83)

 جس طرح باطنی جہاد یعنی اپنی آپ کی اصلاح، شیطان و نفس سے جہاد، دوسروں کی اصلاح جہاد ہے

اسی طرح

ظاہری جہاد بھی حسب وقت لازم ہے...وہ صوفی نہیں جو ظاہری جہاد، کافروں منافقوں ضدی فسادیوں نااہلوں ظالموں سے جہاد کی نفی کرتا پھرے اگرچہ ظاہری جہاد کا اول حصہ یہ ہے کہ سمجھایا جائے، سمجھ جائیں تو بہتر ورنہ امن معاہدے کیے جائیں اور ضدی فسادی کا آخری علاج موت و جنگی جہاد ہی ہے.....!!

.==================

*سیدنا غوث اعظم کا نظریہ و قول نمبر #33*

عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال اخوف ما اخاف علی امتی  من منافق علیم اللسان...

 سیدنا عبدالقادر جیلانی فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ مجھے سب سے زیادہ خوف میری امت پر اس شخص سے ہے کہ جو زبان کی ہیر پھیر کا بڑا ماہر منافق ہوگا

(الفتح الربانی ص55)

 مکاروں منافقوں سے دوری بہت ضروری ہے.... ان سے عام طور پر بحث و مباحثہ ہی نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان سے بحث و مباحثہ پرمغز برحق علماء ہی کریں... کسی کی دو چار مکاریوں سے سمجھ جانا چاہیے کہ یہ زبان کا بڑا چلاک چال باز مکار فریبی ہے اس سے دور رہیے

.===================

*سیدنا غوث اعظم کا نظریہ و قول نمبر #34*

علیکم بالکرم و الایثار فی طاعۃ الحق عزوجل لا فی معصیۃ، تشاغلوا بالاکتساب مع ملازمۃ الطاعۃ

 تم پر لازم ہے کہ تم دوسروں پر کرم نوازیاں کرو اور ایثار کرو لیکن یہ اللہ کی اطاعت میں کرو گناہ کے معاملے میں مت کرو....اکتساب(فیض دولت کمائی) کرو اور تم پر اللہ کے اطاعت بھی لازم ہے

.(الفتح الربانی ص199)

 من موجی من پرست دولت پرست شہرت پرست لالچ بخل کنجوسی مکاری مفاد پرستی اسلام و انسانیت و تصوف کے خلاف ہے...کرم نوازیاں کرنی چاہیے، سخی ہونا چاہیے، دوسروں کا بھلا سوچنے والا ہونا چاہیے...مریدوں شاگردوں محبین عوام کو کیڑے مکوڑے نہیں سمجھنا چاہیے...انکی ترقی و تربیت و بلند مرتبے کی سوچ رکھنی چاہیے، کردار ادا کرنا چاہیے...!!

.======================

*سیدنا غوث اعظم کا نظریہ و قول نمبر #35*

استعینوا علی کل صنعۃ بصالح اھلھا

 ہر معاملے میں نیک لوگ ہوتے ہیں ماہر لوگ ہوتے ہیں تو ان سے مدد حاصل کرنی چاہیے...(الفتح الربانی ص163)

 یہ ایک انتہائی اہم اصول بیان کیا گیا ہے

 دو چار حدیثیں کتابیں پڑھ لیں اور اپنے آپ سے مسائل نکالنا شروع کر دیے... اسلاف پر طعن و تشنیع  مذمت کرنا شروع کر دیے... یہ گمراہی ہے علم کے معاملے میں آپ علم کے فن میں آنا چاہتے ہیں تو اس فن میں جو ماہر علماء گزرے ہیں جنہوں نے شروحات لکھی ہیں تفسیر لکھی ہیں کتابیں لکھی ہیں ان سے آپ مدد حاصل کریں، مشاورت کریں ان سے علم حاصل کریں ان سوالوں کے جوابات حاصل کرے... علم کے بہت ساری قسمیں ہیں ہر ایک میں اس وقت موجود علماء کرام ہیں تو اس قسم کے علماء سے رابطہ کریں سوال جواب کریں بحث مباحثہ کریں عمل کریں...تطبیق توفیق تاویل ترجیح اعتذار بیان کریں

.

 تصوف کے میدان میں آنا چاہتے ہیں تو کسی ماہر کو مرشد بنا لیجئے... صوفیوں کی باتیں سمجھنا چاہتے ہیں تو صوفیوں سے اس کی شرح پوچھئے تشریح پوچھئے...

.

 سیاست میں آنا چاہیے کہ سنت انبیاء ہے تو ماہر سیاستدانوں سے رابطہ کیجئے... اچھی سیاست کیجیے جو جھوٹ کرپشن مکاری ایجنٹی بزدلی جلدبازی سے پاکیزہ ہو

.

 تجارت میں آنا چاہتے ہیں تو اس شعبے میں جو ماہر ہیں ان سے مشورہ کیجئے.... طب و سائنس ٹیکنالوجی فوج وغیرہ جدت ترقی و فنون میں آنا چاہیے تو ان میدانوں کے ماہرین سے مدد حاصل کیجیے

.

 دس تدریس وعظ و نصیحت تقریر بیان تحریر فتوی وغیرہ معاملات میں آتے ہیں تو اس فیلڈ کے ماہرین سے مشورہ کیجئے ان سے مدد لیجیے

.======================

*سیدنا غوث اعظم کا نظریہ و قول نمبر #36*

الصوفی من صفا باطنہ و ظاہرہ بمتابعۃ کتاب اللہ عزوجل و سنۃ رسولہ

 صوفی تو وہ ہے کہ جس کا ظاہر اور باطن صاف اور پاکیزہ ہو کتاب اللہ کی پیروی کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی کرتے ہوئے...(الفتح الربانی ص256)

 ولی اللہ کی صوفی کی سب سے بڑی کرامت یہی ہے کہ وہ شریعت پر سختی سے عمل پیرا ہو... اس کے علاوہ دیگر کرامات کا ظاہر ہونا صوفی کے لیے ولی اللہ کے لئے ضروری نہیں ہے... یہ لمبے لمبے بال ، یہ عجیب و غریب قسم کے لباس، بہت ہی بادشاہانہ لباس یا بہت ہی عاجزانہ لباس... یہ سب کے ساتھ میٹھا انداز... یہ سب کو صحیح کہنا... یہ سب صوفی کی حقیقت میں شامل نہیں ہے... صوفی تو وہ ہے جو شریعت پر سخت عمل پیرا مخلص ہو

.====================

*سیدنا غوث اعظم کا نظریہ و قول نمبر #37*

*قبر مزار کی زیارت و ایصال ثواب برحق ہے، انہیں وسیلہ بنانا برحق ہے مگر قبر و مزار کو یا ولی مرشد کو سجدہ کرنا ٹھیک نہیں......!!*

فأنت يا رسول الله أحق أن يسجد لك، فقال- صلى الله عليه وسلم-: أرأيت لو مررت بقبري أكنت تسجد له؟ قال: قلت: لا. قال- صلى الله عليه وسلم-: فلا تفعلوا ذلك

 ایک صحابی نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ زیادہ حقدار ہیں کہ آپ کو سجدہ کیا جائے تو آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ نہ مجھے سجدہ کرو اور نہ میری قبر کو سجدہ کرنا

(غنیۃ الطالبین 1/106)

 جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کو سجدہ کرنا جائز نہیں ہے ان کی قبر کو سجدہ کرنا جائز نہیں ہے اولیاء کرام کو مرشد کو سجدہ کرنا، انکی قبروں کو سجدہ کرنا ، قبر کا طواف کرنا جائز نہیں ہے 

.====================

*سیدنا غوث اعظم کا نظریہ و قول نمبر #38*

*عبادت صرف اللہ کی کرو، منت صرف اللہ سے مانگو البتہ...؟؟*

ولله عز وجل من الزكوات والنذور

 زکوۃ صرف اور صرف اللہ کی خاطر دو، اور منت صرف اللہ ہی کے لیے ہے

((غنیۃ الطالبین2/215)

 علمائے کرام نے کتابوں میں لکھا کہ منت صرف اور صرف اللہ ہی سے مانگ سکتے ہیں اللہ کے علاوہ اولیاء کرام سے ڈائریکٹ منت نہیں مانگ سکتے... ہاں البتہ یوں کہا جاسکتا ہے کہ یا اللہ میں تجھ سے منت مانگتا ہوں کہ میرا فلاں کام ہوجائے تو میں فلاں ولی اللہ کے دربار کے فقراء پر خرچ کروں گا تو حرج نہیں.....(فتاوی شامی3/492 فتاوی عالمگیری جلد1 صفحہ216)

.=======================

*سیدنا غوث اعظم کا نظریہ و قول نمبر #39*

متی تھدی الی باب ربک عزوجل..متی تقدم الاخرۃ علی الدنیا، متی تقدم الخالق علی الخلق، متی تقدم الصلاۃ علی دکانک و ارباحک، متی تقدم السائل علی نفسک،  متی تقدم امر اللہ عزوجل والانتھاء عن نہیہ و الصبر علی الافات

(غافل، دنیا و گناہ میں مگن ، منافق، گمراہ بدعتی،مشرک ، کافر سب سے غوث اعظم فرماتے ہیں کہ) تم کب حق کی طرف رجوع کرو گے، کب اپنے خواہشات و لذات سے نکلو گے،یہ دنیا و لذات کچھ نہیں، اس سے جان چھڑا ، اللہ کی طرف راغب ہوجا، اپنے کاروبار و مشغولیت سے وقت نکال کر نماز پڑھ عبادات کر، اللہ کے احکام مان اور اسکی منع کردہ سے بچ اور(اگر شریعت پے عمل کرنے سے دولت صحت کم ملے تو یہ اللہ کی طرف سےامتحان ہوسکتا ہے لیھذا)آفات و مصائب پے صبر کر

(جلاء الخاطر ص18ملخصا ماخوذا)

.

*#40#

پیرانِ پیر بڑا مدرسہ چلاتے،درس و وعظ فرماتےتھے(بدایۃ نہایہ12/252) اےسادات، اے پیر فقیرو، گدی نشینو

مدرسےبناؤ، مدرسےچلاؤ، تصنیف.و.وعظ اپناؤ،خرافات مٹاؤ

.

اللہ کریم ہم سب کو سمجھنے اور عمل کرنے پھیلانے کی توفیق عطا فرمائے

.

عرس تو کرامات خدمات وعظ و نصیحت کےلیے ہے،صرف کرامات بیان کرنا اور خرافات کا رد نہ کرنا،تعلیمات عام نہ کرنا،قرآن و سنت کےذریعے اور اسلاف کے اقوالِ زریں کےذریعے نصیحت نہ کرنا،علم عام نہ کرنا عرس کی روح کےخلاف ہے..!!

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App nmbr

00923468392475

03468392475

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.