شیعہ رافضیوں نیم رافضیوں چمن زمان ہمنوا کے سیدنا معاویہ پر چوٹی کے الزامات کا رد اور چمن زمان کے چیلنج کا جواب اور چمن زمان سے دو لاجواب سوالات

 *سیدنا معاویہ پر رافضیوں نیم رافضیوں کے چوٹی کے چار اعتراضات کی تحقیق اور ملاں چمن زمان سے دو لاجواب سوالات اور چمن زمان کے چیلنج کا جواب.........!!*

ابتدائیہ:

دو چار دنوں سے کچھ لوگ مجھے بار بار وتس اپ میسیج کر رہے ہیں کہ تمہارے اہل سنت کے ایک عالم نے یہ اعتراض اٹھائے ہیں، دم ہے تو جواب دو... میں نے سوچا اہلسنت کا ایسا کون سا عالم ہو سکتا ہے جو اتنے بدترین الزامات سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر لگانے کی جراءت کریگا.....؟؟ میں نے ان لوگوں کو فورا جواب دیا کہ جس نے بھی الزامات اعتراضات لگائے ہیں مجھے نہیں لگتا وہ اہل سنت کا کوئی عالم ہوگا... تلاش کرنے پر پتہ چلا کہ ملاں چمن زمان نے اعتراض الزامی جواب کے انداز میں لگائے ہیں اور ایک چیلنج بھی کیا ہے

.

ہم اللہ کے فضل و کرم سے ان اعتراضات الزامات کا رد پیش کریں گے اور ملاں چمن زمان کے چیلنج کا جواب بھی لکھیں گے اور آخر میں دو لاجواب سوالات بھی چمن زمان کے لیے چھوڑیں گے.....!!

وباللہ التوفیق ،

.

*شیعہ روافض نیم روافض اور چمن زمان کا پہلا اعتراض و الزام کہ اہلسنت کے امام امام بخاری کا استاد لکھتا ہے کہ معاویہ کا تذکرہ کرکے ہماری محفل گندی نہ کرو.....!!*

.

شیعہ روافض و نیم روافض اور چمن زمان و ہمنوا کہتے ہیں کہ امام بخاری کے استاد عبدالرزاق جوکہ ثقہ اہلسنت امام ہیں انہوں نے کہا کہ معاویہ کا تذکرہ کرکے ہمارے مجلس گندی نہ کرو....شیعہ مصنف لکھتا ہے کہ:

ولنعم ما قال عبد الرزاق شيخ البخاري الموثق: (فذكر رجل معاوية فقال: لا تقذر مجلسنا بذكر ولد أبي سفيان

امام عبدالرزاق جو امام بخاری کے استاد اور ثقہ راوی ہیں انہوں نے کیا ہی عمدہ بات کہی ہے کہ

ایک شخص نے ان کے پاس معاویہ کا تذکرہ کیا تو آپ نے کہا کہ ابو سفیان کی اولاد(معاویہ وغیرہ) کا تذکرہ کرکے ہماری مجلس گندی نہ کر

 (تاريخ دمشق 36/187 سير أعلام النبلاء9/570  شیعہ کتاب جواہر التاریخ2/82 چمن زمان کا رسالہ انتباہ ص15)

.

*تحقیق و جواب......!!*

پہلی بات:

امام عبدالرزاق نے اپنی کتب میں کم و بیش 70 سے زائد مرتبہ سیدنا معاویہ کا ذکر کیا اور بعض جگہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی لکھا تو وہ بھلا کیسے کہیں گے کہ سیدنا معاویہ کا تذکرہ محفل کو گندہ کرتا ہے......؟؟ یقینا ان کے متعلق ایسی بات جھوٹی منسوب کی گئ ہو گی.....!! ہم چند حوالےلکھ رہے ہیں تاکہ دعوی پُردلیل بھی بنے

.

عَنْ مَعْمَرٍ , عَنْ قَتَادَةَ: {مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ} [الحديد: 10] قَالَ: فَتْحِ مَكَّةَ

 امام عبدالرزاق روایت کرتے ہیں کہ آیت میں جو ہے کہ فتح سے پہلے اور فتح کے بعد ایمان والوں یعنی صحابہ کے لیے جنت ہے تو اس سے مراد فتح مکہ ہے

(تفسیر عبدالرزاق روایت3155)

 اور سب جانتے ہیں کہ فتح مکہ کے بعد ایمان لانے والوں میں سیدنا معاویہ بھی شامل ہیں تو گویا امام عبدالرزاق کے مطابق سیدنا معاویہ صحابی جنتی ہیں تو بھلا جنتی صحابی کا تزکرہ سے محفل کیسے گندی ہونے کا کہیں گے امام عبدالرزاق.....؟؟

.

مُعَاوِيَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَأَعْتَقَهُمْ , فَأَجَازَ عَلِيٌّ عِتْقَهُمْ

 امام عبدالرزاق فرماتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے ان کو آزاد کردیا تو سیدنا علی نے سیدنا معاویہ کے کام کو نافذ و جائز قرار دے دیا

(مصنف عبدالرزاق روایت18715)

 یہاں امام عبدالرزاق نے سیدنا معاویہ کے ساتھ رضی اللہ تعالی عنہ دوٹوک لکھا ہے... اور سیدنا علی نے سیدنا معاویہ کی موافقت بھی کی یہ بھی امام عبدالرزاق نے لکھا... رضی اللہ تعالی عنہ کا مطلب بنتا ہے کہ اللہ تعالی ان سے راضی ہوا تو جن سے اللہ راضی ہوا ان سے ہم راضی نہ ہوں اور ان کے متعلق کہیں کہ ان کا ذکر مت کرو محفل گندی ہو جائے گی.....؟؟ ناں ناں ایسا ہرگز نہ ہوگا......!!

.

فَكَتَبَ مُعَاوِيَةُ: إِنِّي لَا أُحِلُّ مَا حَرَّمَ اللَّهُ، وَلَا أُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ

 امام عبدالرزاق نے فرمایا کہ سیدنا معاویہ نے لکھا کہ میں اللہ و رسول کے حرام کردہ چیز کو حلال نہیں کر سکتا نہ ہی کرتا ہوں اور اللہ و رسول کی حرام کردہ چیز کو نہ ہی میں حرام کر سکتا ہوں اور نہ کرتا ہوں

(مصنف عبدالرزاق10819)

 سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالئ عنہ کی شریعت کی پابندی کا عالَم دیکھئیے...آپ نے اسلام لانے کے بعد کبھی گناہ نہ کیا، شریعت کی پابندی کی...اجتہادی مسائل میں اجتہاد کیا...بھلا ایسے جلیل القدر صحابی کے ذکر کو امام عبدالرزاق کیسے محفل کی گندگی کہہ سکتے ہیں....؟؟

.

مُعَاوِيَةَ يَخْطُبُ بِالْمَدِينَةِ يَقُولُ: يَا أَهْلَ الْمَدِينَةِ أَيْنَ عُلَمَاؤُكُمْ؟ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «هَذَا يَوْمُ عَاشُورَاءَ، وَلَمْ يُفْرَضْ عَلَيْنَا صِيَامُهُ، فَمَنْ شَاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَصُومَ فَلْيَصُمْ،

 امام عبدالرزاق روایت کرتے ہیں کہ سیدنا معاویہ نے مدینہ میں خطبہ دیا اور فرمایا کہ اے اہل مدینہ تمہارے علماء کہاں ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عاشورہ کا دن اس کے روزے ہم پر فرض نہیں ہیں تم میں سے جو چاہے عاشورہ کا روزہ رکھے جو چاہے روزہ نہ رکھے

(مصنف عبدالرزاق7834)

.


عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ رَأَى مُعَاوِيَةَ يَخْطُبُ عَلَى الْمِنْبَرِ، وَفِي يَدِهِ قُصَّةٌ مِنْ شَعْرٍ قَالَ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ: أَيْنَ عُلَمَاؤُكُمْ يَا أَهْلَ الْمَدِينَةِ؟ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ وَصْلِ هَذَا

 امام عبدالرزاق کی روایت کرتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے بالوں کا گھچا لیا اور ممبر پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ تمہارے علماء کہاں ہیں اے اہل مدینہ....؟؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصنوعی بال ملانے سے منع فرمایا ہے

(مصنف عبدالرزاق روایت5094)

 مذکورہ بالا روایات میں ایک تو سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت ظاہر ہوتی ہے کہ آپ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اھکامات کے سخت پیروکار تھے....دوسری بات یہ بھی ثابت ہوتی ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ ہو تعالئ عنہ تبلیغ فرمایا کرتے تھے جو ممنوع باتیں بری باتیں معاشرے میں نظر آتی ہیں ان سے منع فرماتے تھے تو بھلا خود کیسے برائی میں مبتلا ہونگے... تیسری یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ علماء کی اطاعت کرنے کی تلقین کیا کرتے تھے....بھلا ایسے جلیل القدر صحابی کا ذکر امام عبدالرزاق کے نزدیک کیسے گندا ہو سکتا ہے....؟؟


.

عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ قَالَ: «رَأَيْتُ مُعَاوِيَةَ صَلَّى الْعِش‍َاءَ، ثُمَّ أَوْتَرَ بَعْدَهَا بِرَكْعَةٍ»، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِابْنِ عَبَّاسٍ، فَقَالَ: «أَصَابَ

 امام عبدالرزاق کی روایت کرتے ہیں کہ سیدنا معاویہ ایک رکعت وتر پڑھا کرتے تھے تو اس کا تذکرہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ سیدنا معاویہ نے درست کیا

(مصنف عبدالرزاق روایت4652)

 اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اجتہادی مسائل میں سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اجتہاد فرمایا کرتے تھے اور دیگر صحابہ کرام بھی اجتہاد فرمایا کرتے تھے اور ایک دوسرے کو درست کہا کرتے تھے ایک دوسرے کی مذمت نہیں کیا کرتے تھے

.

*دوسری بات.......!!*

 امام عبدالرزاق کے متعلق جو منسوب ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ ابو سفیان کی اولاد سیدنا معاویہ وغیرہ کا ذکر کرکے محفل گندی نہ کرو تو اس روایت کے مذکورہ تمام حوالے جو لکھے گئے ہیں ان میں الضعفاء للعقیلی کے حوالے سے ہی روایت نقل کی ہے،الضعفاء للعقیلی میں اس روایت کی سند یہ ہے

حَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ زُكَيْرٍ الْحَضْرَمِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ يَزِيدَ الْبَصْرِيُّ قَالَ: سَمِعْتُ مَخْلَدًا الشَّعِيرِيَّ

(الضعفاء للعقیلی3/107)

.

اس سند کا ایک راوی احمد بن زکیر منکر و مردود ہے

لم يكن بذاك، فيه نُكْرة

ترجمہ:

یہ (احمد بن زکیر)معتبر نہیں، یہ منکر(مردود)روایات بیان کرتا ہے..(تاریخ اسلام 6/879)

.

میزان الاعتدال میں ہے کہ:

روى عنه أحاديث مناكير

ترجمہ:

امام عبدالرزاق سے منکر(مردود) روایات کی گئ ہیں

اسی صفحہ پے لاتقذر (سیدنا معاویہ کا ذکر کرکے محفل گندی نہ کرو)والی روایت بھی درج ہے،مطلب امام ذہبی کے مطابق روایت مذکورہ منکر و مردود راوی کی وجہ سے غیرمعتبر اور امام عبدالرزاق سے غیرثابت ہے

(دیکھیے میزان الاعتدال2/610)

.

منکر روایت کے متعلق شیعہ اہلسنت سب کا اتفاق ہے کہ قابل حجت نہیں بلکہ مردود و غیرمعتبر ہے

فمنكر مردود

ترجمہ:

پس منکر روایت مردود ہے

(الباعث الحثیث1/58، شیعہ کتاب احقاق الحق ص210)

.

اس روایت کا دوسرا راوی مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ يَزِيدَ الْبَصْرِيُّ مجہول ہے اور ایسے معاملات میں مجہول کی روایت مقبول نہیں ہوتی

المَجْهُولُ غَيْرُ مُحْتَجٍّ بِهِ

ترجمہ:

مجہول راوی کی روایت سے دلیل نہیں پکڑ سکتے

(لسان الميزان ج1 ص198)


.

*تیسری بات......!!*

امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالی علیہ جیسے متبحر نڈر امام سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق اس روایت کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ امام عبدالرزاق سے اس قسم کی کوئی بات میں نے نہیں سنی

وذكروا يومًا عنده معاوية، فقال: لا تقذِّروا مجلسَنا بِذكره. قال عبدُ الله بن أحمدَ بن حنبل: وسألتُ أبي عن هذا، فقال: أمَّا أنا فلم أسمعْ منه هذا، ولم أسمعْ منه شيئًا من هذا

( مرآة الزمان في تواريخ الأعيان ج14 ص118)

.=======================

*شیعہ روافض نیم روافض اور چمن زمان کا دوسرا اعتراض و الزام کہ امام بخاری کے استاد نے فرمایا کہ معاویہ کفر پے مرا اللہ کی قسم.......!!*

حوالہ: مات واللَّه معاوية على غير الإسلام

( الجامع لعلوم الإمام أحمد - العقيدة4/524 چمن زمان کا رسالہ انتباہ ص14)

.

*جواب و تحقیق......!!*

پہلی بات:

دلویہ کی روایت علی بن جعد کے بجائے یحیی بن عبدالحمید الحمانی کے متعلق مکمل سند کے ساتھ ہے، لگتا ہے یہاں دلویہ کو یا ابن ھانی کو وھم ہوا ہے کہ امام بخاری کے استاد علی بن جعد کے متعلق کہہ دیا لیھذا غیر معتبر

.

دوسری بات:

مکمل سند ہی نہیں ملی ہمیں اس بہت بڑے فتوے کی اور بغیر سند و بلادلیل کے اتنا بڑا فتوی لگانا معتبر نہیں

.

تیسری بات:

امام احمد بن حنبل نے اس بات پر کیا جواب دیا کچھ نہیں معلوم....اگر ایسی بات ہوتی تو امام احمد بن حنبل ضرور تصدیق فرماتے

.

چوتھی بات:

علی بن جعد نے سیدنا ابن عمر کے متعلق نازیبا لفظ کہے پھر رجوع کیا....اسکا مطلب کہ عین ممکن ہے اس نے دیگر برے اعتقاد و الفاظ سے بھی رجوع کیا ہو

.

پانچویں بات:

امام احمد بن حنبل نے علی بن جعد کے متعلق دو قول فرمائے

ایک:

کہ اس سے احادیث و روایات لکھو

دو:

 اس سے احادیث و روایات مت لکھو

.

قَالَ بن حَنْبَل اكتبوا عَن عَليّ بن الْجَعْد فَإِن عِنْده أَشْيَاء حسانا

 امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ علی بن جعد سے روایت لکھو کہ اس کے پاس اچھی روایات و احادیث موجود ہیں

( كتاب التعديل والتجريح، لمن خرج له البخاري في الجامع الصحيح3/955)

.

أحمد، نهاه أن يكتب عن علي بن الجعد

 امام احمد بن حنبل نے منع فرمایا کہ علی بن جعد سے کوئی بھی حدیث یا روایت وغیرہ مت لکھو

(كتاب موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل في رجال الحديث وعلله4/131)

.

قَالَ أَحْمد بن حَنْبَل اكتبوا عَن عَليّ بن الْجَعْد فَإِن عِنْده أَشْيَاء حسانا

امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ علی بن جعد سے روایت لکھو کہ اس کے پاس اچھی روایات و احادیث موجود ہیں

(كتاب من روى عنهم البخاري في الصحيح ص156)

.

سألت أحمد بن حنبل، عن علي بن الجعد، فقال: ثقة، اكتب عنه

 راوی کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا امام احمد بن حنبل سے پوچھا کہ علی بن جعد سے روایات و احادیث لکھوں...؟ تو فرمایا کہ جی ہاں وہ ثقہ ہے اس سے روایات و احادیث لکھو

(كتاب موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل في رجال الحديث وعلله3/34)

.

وقال أحمد: ويقع في أصحاب النبي -صلى اللَّه عليه وسلم...كان أحمد لا يرى الكتابة عن علي بن الجعد ولا سعيد بن سليمان

 سیدنا امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ علی بن جعد صحابہ کرام کے بارے میں نازیبا(ناقد و نازیبا کملمات کہتا) تھا، اور امام احمد بن حنبل فرمایا کرتے تھے علی بن جعد اور سعید بن سلیمان سے روایات و احادیث نہ لکھو

(كتاب الجامع لعلوم الإمام أحمد - الرجال18/271)

صحابہ کرام پے تنقید سے مراد یہ بھی ہوسکتی ہے کہ وہ سیدہ عائشہ و سیدنا طلحہ و سیدنا زبیر و سیدنا معاویہ کو اجتہادی خطاء پر کہتا ہو یا کہتا ہو کہ سیدنا معاویہ نے ولی عہد بنانے کے اجتہاد میں درستگی نہیں کی....یا اس طرح کے دیگر مسائل اجتہادیہ...اس طرح کی تنقید بھی قابل مذمت ہے کہ ہمیں حدیث پاک میں حکم ہے کہ صحابہ کرام کے متعلق زبان قابو میں رکھیں، انکے اختلافات جھگڑوں کی تفصیل میں نہ پڑیں سب کو عادل کہیں، گناہ گار کافر منافق نہ کہیں...بحرحال تنقید کی اور ممکن ہے شدید تنقید بھی کی ہو تو علماء نے اسے بدعتی جھمی مردود قرار دیا اور اسکی بیان کردہ احادیث لکھنے سے منع کردیا

مگر

پھر عین ممکن ہے بلکہ حسن ظن یہی ہے کہ اس نے رجوع کر لیا تھا تبھی تو امام احمد بن حنبل و امام بخاری جیسے جلیل القدر محدثین نے انکی بیان کردہ روایات لکھنے کا فرمایا اور لکھی بھی سہی......!!

لیھذا

حاصل یہ کہلائے گا کہ امام بخاری کے استاد علی بن جعد نے رجوع کر لیا تھا،  رجوع کی دلیل یہ ہے کہ پہلے محدثین نے اس سے روایت لینے لکھنےسے منع کیا پھر اجازت بھی دی جیسا کہ اوپر حوالہ جات گذرے تو یہ تضاد نہیں ہوسکتا بلکہ علی بن جعد نے رجوع کر لیا ہوگا...دوسری دلیل یہ ہے کہ  اس نے صحابہ کرام کی شان بیان کی ہے اور سیدنا معاویہ کا اعتبار کرتے ہوئے انکے توسط سے حدیث بھی بیان کی ہے...اگر نعوذ باللہ ان کے مطابق سیدنا معاویہ کفر پر وفات پاگئے تھے تو کافر کے توسط سے کیسے حدیث بیان کی جاسکتی ہے......؟؟


.

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ زُهَيْرٍ، نَا يَعْقُوبُ بْنُ كَعْبٍ الْأَنْطَاكِيُّ قَالَ: سَمِعْتُ يُوسُفَ بْنَ أَسْبَاطٍ قَالَ: سَمِعْتُ سُفْيَانَ يَقُولُ: «كُلُّ مَنْ أَكَلَ الْجَرْيَ وَمَسَحَ عَلَى الْخُفَّيْنِ، وَسَلِمَ مِنْهُ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ فَهُوَ بَرِيءٌ مِنَ الْأَهْوَاءِ»

 امام بخاری کے شیخ علی بن جعد روایت کرتے ہیں کہ سیدنا سفیان ثوری فرماتے ہیں کہ جو بھی الجری(ایک قسم کی مچھلی) کھائے اور موزوں پر مسح کریں اور صحابہ کرام ان کی زبان سے محفوظ ہوں تو وہ شخص اھواء(نفسانی خواہشات،گمراہی وغہرہ) سے بری ہے

(مسند بن الجعد روایت1877)

 امام بخاری کے استاد علی بن جعد کا صحابہ کرام کے متعلق ایسا عقیدہ بیان کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ صحابہ کرام کے متعلق نازیبا کلمات کہنے نازیبا سوچ رکھنے سے رجوع کر چکا تھا

.

 حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، أنا شُعْبَةُ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ ذَكْوَانَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي؛ فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا أَدْرَكَ مَدَّ أَحَدِهِمْ، وَلَا نَصِيفَهُ

 امام بخاری کے استاد علی بن جعد حدیث پاک روایت کرتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میرے صحابہ کو برا نہ کہو، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ جتنا سونا خرچ کرے تو میرے صحابہ کے ایک مد کے برابر نہیں ہیں اور نہ ہی نصف مد کے برابر ہے

(مسند بن الجعد روایت738)

امام بخاری کے استاد علی بن جعد کا صحابہ کرام کے متعلق ایسی حدیث پاک بیان کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ صحابہ کرام کے متعلق نازیبا کلمات کہنے نازیبا سوچ رکھنے سے رجوع کر چکا تھا

.

 أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: نا عَلِيٌّ قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ يَقُولُ: قَدِمَ مُعَاوِيَةُ الْمَدِينَةَ، وَكَانَ آخِرَ قَدْمَةٍ قَدِمَهَا، فَخَطَبَنَا، فَأَخْرَجَ كُبَّةً مِنْ شَعْرٍ، فَقَالَ: «مَا كُنْتُ أَرَى أَنَّ أَحَدًا يَفْعَلُ هَذَا غَيْرَ الْيَهُودِ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمَّاهُ الزُّورَ. يَعْنِي الْوِصَالَ

 امام بخاری کے استاد علی بن جعد روایت کرتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے خطبہ دیا اور بالوں کا گچھا لے کر فرمایا کہ میں تو یہ سمجھتا تھا کہ یہودیوں کے علاوہ اس کو کوئی استعمال نہیں کرتا(مسلمان کیسے استعمال کرسکتے ہیں)کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو جھوٹ قرار دیا دھوکہ قرار دیا یعنی مصنوعی بال لگانے کو

(مسند بن الجعد روایت94)

امام بخاری کے استاد علی بن جعد کا سیدنا معاویہ کے توسط سے حدیث پاک بیان کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ سیدنا معاویہ کے متعلق نازیبا کلمات کہنے نازیبا سوچ رکھنے سے رجوع کر چکا تھا

.====================

*شیعہ روافض نیم روافض اور چمن زمان کا تیسرا اعتراض و الزام کہ الحمانی فرماتے ہیں کہ معاویہ کفر پے مرا اللہ کی قسم.......!!*

حوالہ:مات مُعَاوِيَةُ عَلَى غَيْرِ مِلَّةِ الْإِسْلَامِ

(حضرت) معاویہ کا خاتمہ اسلام پہ نہیں ہوا

(الضعفاء الكبير للعقيلي 412/4 ، تاریخ بغداد 251/16 چمن زمان کا رسالہ انتباہ ص14)

.

*تحقیق و جواب.......!!*

پہلی بات:

الضعفاء الكبير للعقيلي 412/4 کا حوالہ دیا لیکن اسی صفحہ پر دو چار بار یحیی بن عبد الحمید الحمانی کو جھوٹا قرار دیا گیا....سوچیے اس حوالے میں اسکے کرتوت جھوٹ بیان کیے گئے ہین یا اسکی بات کو معتبر کہہ کر بیان کیا گیا ہے.....؟؟ حوالہ وہ ہوتا ہے کہ جسکو سچ کہہ کر لکھا گیا ہو لیکن یہاں مکاری سے کام لیا رافضیوں نے چمن زمان وغیرہ نیم رافضیوں نے.......!!

.

دوسری بات:

تاریخ بغداد 251/16 حوالہ لکھا لیکن اس کے متصل یہ بھی لکھا ہے کہ

 قَالَ دلويه: كذب عدو الله

یعنی یہ جو یحیی بن عبد الحمید الحمانی نے کہا ہے کہ معاویہ کی وفات اسلام پر نہیں ہوئی....یہ اللہ کے دشمن یحیی بن عبد الحمید الحمانی کا جھوٹ ہے

(تاریخ بغداد 251/16)

حوالے آدھے پیش کرکے اگلی بات چھپا دینا مکاری و مردودیت نہیں تو کیا ہے.......؟؟


وَقَالَ أَحْمَدُ بنُ مُحَمَّدِ بنِ صَدَقَة، وَأَبُو شَيْخٍ، عَنْ زِيَادِ بنِ أَيُّوْبَ دلَّوَيْه سَمِعْتُ يَحْيَى بنَ عَبْدِ الحَمِيْدِ يَقُوْلُ: مَاتَ مُعَاوِيَةُ عَلَى غَيْرِ مِلَّةِ الإِسْلاَمِ..قَالَ أَبُو شَيْخٍ: قَالَ دلَّوَيْه: كَذَبَ عَدُوُّ اللهِ

دلَّوَيْه کہتا ہے کہ یحیی بن عبد الحمید کہتا ہے کہ معاویہ کی اسلام پر وفات نہیں ہوئی تو دلویہ فرماتے ہیں کہ یحیی بن عبدالحمید اللہ کا دشمن ہے اس نے جھوٹ بولا ہے

(كتاب سير أعلام النبلاء - ط الرسالة10/533)

.

یحیی بن عبد الحمید الحمانی کے متعلق علماء و محدثین کی آراء پڑہیے........!!

قال ابْن نمير: الحماني كذاب...يحيى بن عبد الحميد ساقط متلون، ترك حديثه...وَقَال النَّسَائي (٣) : ضعيف...وَقَال أَبُو بَكْر بْن خزيمة: سمعت مُحَمَّد بْن يَحْيَى وذكر يحيى بن عبد الحميد الحماني، فَقَالَ: ذهب كالأمس الذاهب

 ابن نمیر کہتے ہیں کہ یحییٰ بن عبدالحمید الحمانی بہت بڑا جھوٹا تھا...الحمانی ساقط ہے(اسکی باتیں معتبر نہیں  بلکہ ساقط ہیں)رنگین راوی ہے اسکی باتوں روایتوں کو ترک کیا گیا ہے... امام نسائی نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے اور امام ابن خزیمہ فرماتے ہیں کہ الحمانی گیا گذرا ہے

(كتاب تهذيب الكمال في أسماء الرجال جز31 ص427الخ)


.

وذكره الهيثمي في المجمع (١/ ٩٩)، ثم قال: رواه الطبراني في الأوسط، وأبو يعلى، وفيه يحيى الحِمَّاني، ضعَّفه أحمد، ورماه بالكذب، ورواه البزّار، وضعّفه براو آخر...وذكره البوصيري في الإتحاف -خ- (٣/ ٨٧ أ) مختصر، ثم قال: رواه أبو يعلى عن يحيى بن عبد الحميد الحِمّاني، وقد ضعَّفه الجمهور

 امام ہیثمی فرماتے ہیں کہ الحمانی کو امام احمد بن حنبل نے ضعیف قرار دیا اور اس کے متعلق فرمایا کہ یہ جھوٹا راوی ہے...الحمانی کو جمہور و اکثر علماء محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے

(كتاب المطالب العالية ابن حجر عسقلاني13/467)

.

سمعتُ ابن حماد يقول: قال السعدي يَحْيى بن عَبد الحميد ساقط ملون..وقال النسائي يَحْيى الحماني كوفي ضعيف..

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقُمِّيُّ، حَدَّثَنا عَبد اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ قُلْتُ لأبي ان بن الْحِمَّانِيِّ حَدَّثَ عَنْكَ عَنْ إِسْحَاقَ الأَزْرَقُ عَنْ شَرِيك، عَنْ بَيَانَ عَنْ قَيْسٍ عَنِ الْمُغِيرَةِ عَن النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيهِ وَسلَّمَ أَبْرِدُوا بِالصَّلاةِ قَالَ كَذَّابٌ مَا حَدَّثْتُهُ

 سعدی فرماتے ہیں کہ یحییٰ بن عبدالحمید الحمانی ساقط(غیر معتبر) ہے رنگین ہے... امام نسائی نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے... الحمانی نے امام احمد بن حنبل سے ایک روایت کی تو امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ الحمانی بہت بڑا جھوٹا ہے میں نے اس کو ایسی کوئی بات نہیں سنائی

(كتاب الكامل في ضعفاء الرجال9/96)

اگر کچھ محدثین نے اس سے روایت کی تو اسکی وجہ یہ ہوگی کہ ایسی روایت کسی دوسرے راوی سے بھی ہوگی یا مزکورہ روایت اس کی بدعقیدگی کے موافق نہ ہوگی یا اسکی صحیح روایت ہوگی کہ اسکی تائید کسی نص سے ہوتی ہوگی

.

===================

*شیعہ روافض نیم روافض اور چمن زمان کا چوتھا اعتراض و الزام کہ امام طحاوی کے مطابق معاویہ گدھا ہے......!!*

أَنَّ أَبَا غَسَّانَ مَالِكَ بْنَ يَحْيَى الْهَمْدَانِيَّ حَدَّثَنَا قَالَ: ثنا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَطَاءٍ , قَالَ: أنا عِمْرَانُ بْنُ حُدَيْرٍ , عَنْ عِكْرِمَةَ أَنَّهُ قَالَ: كُنْتُ مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ عِنْدَ مُعَاوِيَةَ نَتَحَدَّثُ حَتَّى ذَهَبَ هَزِيعٌ مِنَ اللَّيْلِ , فَقَامَ مُعَاوِيَةُ , فَرَكَعَ رَكْعَةً وَاحِدَةً , فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: «مِنْ أَيْنَ تُرَى أَخَذَهَا الْحِمَارُ

(شرح معانی الاثار روایت1719..چمن زمان کا رسالہ انتباہ ص14)

.

*جواب و تحقیق......!!*

پہلی بات:

خود علامہ طحاوی نے اسی روایت کی دوسری سند ذکر کی جس میں "الحمار" (گدھا کہنے) کے الفاظ نہیں گویا امام طحاوی حمار لفظ کو غیر معتبر غیر ثابت قرار دے رہے ہیں

.

دوسری بات:

 جس روایت میں سیدنا معاویہ کے متعلق حمار(گدھا)ہونے کی بات کی گئی ہے اس کا ایک راوی عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَطَاءٍ الْخَفَّافُ غیرقوی ضعیف مضطرب خطاء کرنے والا ہے

سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ قَالَ: عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَطَاءٍ الْخَفَّافُ ضَعِيفُ الْحَدِيثِ مُضْطَرِبٌ

 امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ عبد الوہاب بن عطاء ضعیف ہے مضطرب ہے

(كتاب الضعفاء الكبير للعقيلي3/78)

.

قال الخليلي: عبد الوهاب بن عطاء الخفاف يكتب حديثه ولا يحتج به

الخلیلی نے فرمایا کہ عبد الوہاب بن عطاء کی حدیث لکھی تو جائے گی لیکن اس سے دلیل نہیں پکڑ سکتے

(كتاب التذييل على تهذيب التهذيب ص267)

.

وقال البخاري والنسائي: ليس بالقوي. وقال النسائي أيضًا...وقال ابن حجر: صدوق، ربما أخطأ،

 عبد الوہاب بن عطاء کے متعلق امام بخاری اور امام نسائی نے فرمایا کہ یہ قوی راوی نہیں ہے... امام ابن حجر فرماتے ہیں کہ صدوق ہے لیکن خطاء کرتا ہے

(حاشیہ تفسير الثعلبی ج4 ص7)

.

عبد الْوَهَّاب بن عَطاء أَبُو نصر الْخفاف الْعجلِيّ يروي عَن خَالِد الْحذاء وَابْن عون قَالَ أَحْمد ضَعِيف الحَدِيث مُضْطَرب وَقَالَ الرَّازِيّ لَيْسَ بِقَوي الحَدِيث وَقَالَ النَّسَائِيّ لَيْسَ بِالْقَوِيّ

 عبد الوہاب بن عطاء کے متعلق امام احمد نے فرمایا کہ ضعیف ہے مضطرب ہے امام رازی نے فرمایا کہ قوی نہیں ہے امام نسائی نے فرمایا کہ قوی نہیں ہے

(كتاب الضعفاء والمتروكون لابن الجوزي2/158)

.

تیسری بات:

 مذکورہ روایت کے راوی کا حال آپ جان چکے خطاء کرنے والا ضعیف راوی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں صحیح سند کے ساتھ بخاری میں ہے کہ سیدنا ابن عباس نے سیدنا معاویہ کو فرمایا کہ وہ فقیہ ہیں

قِيلَ لِابْنِ عَبَّاسٍ : هَلْ لَكَ فِي أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ مُعَاوِيَةَ فَإِنَّهُ مَا أَوْتَرَ إِلَّا بِوَاحِدَةٍ ؟ قَالَ : إِنَّهُ فَقِيهٌ.

 سیدنا ابن عباس سے عرض کی گئی کہ آپ امیر المومنین سیدنا معاویہ کے متعلق کیا فرماتے ہیں وہ ایک رکعت وتر پڑھتے ہیں تو سیدنا معاویہ نے فرمایا کہ بیشک سیدنا معاویہ فقیہ ہیں

(بخاری روایت3765)

.=====================

*ملاں چمن زمان سے دو لاجواب سوالات......!!*

 ویسے تو ہم چمن زمان کے لئے بہت سارے لاجواب سوالات چھوڑ چکے ہیں اس کی تحریرات پر مسلسل رد لکھ رہے ہیں جس کا جواب ان سے نہ ہو پا رہا ہے یا نہ وہ لکھ پا رہے ہیں..... لیکن یہاں اس تحریر میں دو سوالات کرنا میرا مقصود ہے، یہ دو وہ سوالات ہیں کہ جن کے جواب میں اس نے انتباہ نامی رسالہ لکھا لیکن کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکا... جس شخص نے بھی چمن زمان سے یہ دو سوالات کیے تھے بہت زبردست کیے تھے.... ہم تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ ان دو سوالات کو لکھ رہے ہیں اور چیلنج کر رہے ہیں کہ چمن زمان صاحب اس کا تسلی بخش جواب لکھ کر دیں

.

پہلا سوال:

امام خازن نے گناہ کی نسبت اہلبیت کی طرف کی

وقيل في معنى الآية: استغفر لذنبك أي لذنوب أهل بيتك وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِناتِ يعني من غير أهل بيته

(تفسير الخازن لباب التأويل في معاني التنزيل4/146)

اور

سیدی امام احمد رضا نےاسی ایت میں گناہ کی نسبت خاص و عام مسلمانوں کی طرف کی اور سیدی امام احمد رضا کے متعلق چمن زمان لکھتا ہے...ہم باب نظریات میں امام اہلسنت امام احمد رضا خان کی شخصیت پر مکمل اعتماد کرتے ہیں

(دیکھیے چمن زمان کا رسالہ جدید نعرے ص57,58)

اب

سوال یہ ہے کہ جب گناہ کی نسبت خاص و اہلبیت کی طرف کرنے سے مذکورہ دونوں ہستیاں خارج از اہل سنت قرار نہ پائے تو سیدہ فاطمہ کی طرف اجتہادی خطا کی نسبت کرنے والے قبلہ علامہ مفتی ڈاکٹر aشرف jلالی صاحب کو اہل سنت سے تم چمن زمان نے کیسے خارج کر دیا......؟؟

.

دوسرا سوال:

 درج ذیل علماء اہل سنت نے بعض انبیاء کرام علیھم السلام کی طرف خطاء کی نسبت کی یا اجتہادی خطا کی نسبت کی

امام اعظم ابو حنیفہ

الفقه الأكبر ,page 37]

.

علامہ مولا علی قاری سنی

شرح فقہ اکبر

.

شاہ ولی اللہ دہلوی کے شاگرد ثناء اللہ نقشبندی حنفی

[التفسير المظهري ,6/215]

.

علامہ ماوردی شافعی سنی

[اتفسير النكت والعيون ,3/457]

.

علامہ سید حسین بغوی شافعی

[تفسير البغوي - طيبة ,5/333]

.

علامہ کورانی حنفی سنی

[الكوثر الجاري إلى رياض أحاديث البخاري ,6/36]

.

علامہ موفق حنبلی سنی

[روضة الناظر وجنة المناظر ,2/354]

.

مفتی احمد یار خان نعیمی سنی حنفی قادری

نور العرفان تحت سورہ المومنون آیت27)

.

علامہ سعیدی سنی حنفی

تبیان القرآن تحت سورہ الاعلی آیت6)

.

مفتی نعیم الدین مرادآبادی سنی حنفی قادری

(خزائن العرفان تحت سورہ بقرہ ایت36)

.

علامہ ابن ہمام حنفی سنی

(مسامرہ ص195)

.

علامہ آلوسی نقشبندی سنی حنفی

[روح المعاني ,7/68]

.

امام احمد رضا خان قادری سنی حنفی

  المعتقد المنتقد مع المعتمدالمستند  ۔ صفحہ نمبر (252)  تا (253)

.

تو سوال یہ ہے کہ جب بعض انبیاء کرام علیہم السلام کی طرف خطاء(اجتہادی خطاء) کی نسبت کرنے سے کوئی اہل سنت سے خارج نہیں ہو جاتا تو پھر سیدہ فاطمہ کی طرف اجتہادی خطا کی نسبت کرنے والے قبلہ علامہ مفتی ڈاکٹر aشرف jلالی صاحب کو اہل سنت سے تم چمن زمان نے کیسے خارج کر دیا......؟؟

.=====================

*چمن زمان کے چیلنج کا جواب........!!*

 چمن زمان نے اپنے انتباہ رسالے میں بڑے زور و شور سے چیلنج دیا کہ

 مسجد میں جمعہ کی نماز کے لیے بڑا مجمعہ بلاؤ اور وہاں پر تم اپنی ماں بہن کو خطاء پر کہو..... اگر نہیں کہہ سکتے اور یقینا نہیں کہہ سکتے تو پھر سیدہ فاطمہ کو خطاء پر کیسے کہا جا سکتا ہے......؟؟

.

جواب:

 بڑے مجمعے کو بلائیے اور وہاں پر میراث کا مسئلہ چھیڑئے اور اپنی ماں بہن وغیرہ کے متعلق یہ کہئے کہ شرعا ان کو میراث میں حق نہیں بنتا لیکن یہ مطالبہ کر رہی ہیں تو یہ خطا پر ہیں..... تو یقینا اس سے لوگ یہی مراد لیں گے کہ علمی طور پر خطاء پر ہیں یا تقاضہ کرنے میں خطاء پر ہیں نہ کہ اس سے دوسرا کوئی غلط معنیٰ مراد لینگے

تو

 تو پھر سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق میراث کے معاملے میں ان کو وقتی اجتہادی خطا پر کہا تھا علامہ قبلہ مفتی aشرف jلالی نے..... تو یقینا یہی معنیٰ مراد ہوں گے اور یہی معنی  لوگ سمجھے کہ اجتہادی خطاء وقتی خطاء ہے.... اور اجتہادی خطاء مدلل کسی کی طرف نسبت کرنا کوئی جرم و عیب نہیں....مدلل اجتہادی خطا کی نسبت کرنے والا خارج از اہل سنت نہیں

.

 خطا پر ہیں.. خطا پر ہیں کہتے رہنا واقعی ایک عیب کی بات ہے لیکن علمی حلقے میں علمی انداز میں میراث و اجتہاد کے معاملے میں مدلل خطاء کی نسبت کرنا عیب کی بات نہیں

کیونکہ

سیاق و سباق سے بہت فرق پڑتا ہے


علماء نے سیاق و سباق قرائن کو بڑی اہمیت دی ہے

فقد ظھرلک ان جمود المفتی او القاضی علی ظاھر المنقول مع ترک العرف والقرائن الواضحۃ والجھل باحوال الناس یلزم منہ تضییع حقوق کثیرۃ وظلم خلق کثیرین۱؎

اس تفصیل سے واضح ہوگیا کہ اگر مفتی یا قاضی عرف اور قرائن واضحہ چھوڑ کر اور لوگوں کے حالات سے بے خبر ہو کر نقل شدہ حکم کے ظاہر پر جمود اختیار کر لے تو اس سے بہت سے حقوق کی بربادی اور بے شمار مخلوق پر ظلم و زیادتی لازم آئے گی اھ۔ (۱؎ شرح عقودرسم المفتی رسالہ من رسائل ابن عابدین،سہیل اکیڈمی لاہور    ۱ /۴۷)

(فتاوی رضویہ 1/162)

.

بعض کتب میں اتنا تک لکھا ہے کہ جب بھی (علمی ماحول میں)خطاء بولا جائے تو وہ اجتہادی خطاء ہی مراد ہوتا ہے

اعلم أنّ الخطأ والصواب يستعملان في المجتهدات

ترجمہ:

جان لو کہ بےشک خطاء اور صواب اجتہاد میں استعمال ہوتے ہیں[كشاف اصطلاحات الفنون والعلوم ,1/683]

.

ما ما صح عنهم من خطأ فإنه يحمل على الاجتهاد....لا  على سوء الاعتقاد والكفر

جو اسلاف سے صحیح ثابت ہو کہ انہوں نے خطاء کی یا کہی تو اس خطاء کو خطاء اجتہادی پر محمول کیا جائے گا(خطاء اجتہادی ہی مراد لی جائے گی)خطاء سے برا اعتقاد کفر وغیرہ مراد نہ لی جائے گی

(المنقذ من الضلال امام غزالی188)

.

لیھذا کسی صحیح المذہب سچے عاشق رسول محب صحابہ محب اہلبیت سے خطاء لفظ نکلے تو اسکا اچھا معنی و محمل مراد لینا واجب اور بدگمانی حرام ہے......!!

.

*اچھا محمل ، اچھا معنی مراد لینا واجب.....!! قرآن و حدیث سےماخوذ انتہائی اہم اصول.و.حکم.......!!*

.

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ  اٰمَنُوا اجۡتَنِبُوۡا کَثِیۡرًا مِّنَ الظَّنِّ ۫ اِنَّ  بَعۡضَ الظَّنِّ   اِثۡمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوۡا وَ لَا یَغۡتَبۡ بَّعۡضُکُمۡ بَعۡضًا(سورہ الحجرات آیت12)

والمؤمن ينبغي أن يحمل كلام أخيه المسلم على أحسن المحامل ، وقد  قال بعض السلف : لا تظن بكلمة خرجت من أخيك سوءا وأنت تجد لها في الخير  محملا .

فمن حق العلماء: إحسان الظن بهم؛ فإنه إذا كان من حق المسلم على المسلم أن يحسن الظن به ، وأن يحمل كلامه على أحسن المحامل، فمن باب أولى العالم

خلاصہ:

قرآن و حدیث میں حکم ہے کہ بدگمانی غیبت تجسس سے بچا جائے،اچھا گمان رکھا جائےاسی وجہ سےواجب ہےکہ مذمت تکفیر تضلیل تفسیق اعتراض کےبجائے عام مسلمان اور بالخصوص اہلبیت صحابہ اسلاف صوفیاء و علماء کےکلام.و.عمل کو

حتی الامکان

اچھےمحمل،اچھے معنی،اچھی تاویل پے رکھا جائے

(دیکھیےفتاوی حدیثیہ1/223...فتاوی العلماءالکبار فی الارہاب فصل3...فھم الاسلام  ص20...الانوار القدسیہ ص69)

.

،قال عمر رضی اللہ عنہ

ولا تظنن بكلمة خرجت من مسلم شراً وأنت تجد لها في الخير محملا

حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں

مسلمان کوئی بات کرے اور آپ اس کا اچھا محمل و معنی  پاتے ہوں تو اسے برے معنی پر محمول ہرگز نہ کریں 

(جامع الاحادیث روایت31604)

.

سیدی اعلٰی حضرت امامِ اہلِ سنت امام احمد رضا خان بریلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

یہ نکتہ بھی یاد رہے کہ بعض محتمل لفظ جب کسی مقبول سے صادر ہوں بحکمِ قرآن انہیں "معنی حسن" پر حمل کریں گے، اور جب کسی مردود سے صادر ہوں جو صریح توہینیں کرچکا ہو تو اس کی خبیث عادت کی بنا پر معنی خبیث ہی مفہوم ہوں گے کہ:

 کل اناء یترشح بما فیہ صرح بہ الامام ابن حجر المکی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ۔

 ہر برتن سے وہی کچھ باہر آتا ہے جو اس کے اندر ہوتا ہے امام ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تصریح فرمائی ہے... 

(فتاوی رضویہ : ج29، ص225)

.

جب سے سیدنا معاویہ کے عرس کا معاملہ حالیہ سالوں میں چل نکلا ہے تو اکثر عوام اہلسنت جانتی ہے کہ خطاء کا ایک معنی خطاء اجتہادی ہے جو سیدنا معاویہ سے ہوئی..لیھزا سچے عالم سے مسلہ علمیہ میں علمی ماحول میں کہے گئے لفظ خطاء کو عوام و عرف اہلسنت گالی گستاخی نہیں سمجھے بلکہ عوام پر واجب کہ وہ علمی ماحول میں سچے محب اہلبیت و صحابہ سے بولے گئے لفظ خطاء کو گالی بے ادبی نہ سمجھے

.

ایک تو ہم نے معتبر کتب سے ثابت کر دیا کہ علمی حلقہ میں کوئی سچا مسلمان خطاء بولے تو واجب ہے کہ خطاء اجتہادی مراد لی جائے...

.

دوسرا ہم نے ثابت کر دیا کہ حلقہ اہل علم میں خطاء کی کئ اقسام ہیں خطاء خطاء اجتہادی کا احتمال رکھتا ہے لیھذا چمن زمان کا کہنا کہ احتمال نہیں رکھتا جھوٹ خیانت بغض تعصب غلو ایجنٹی نہیں تو اور کیا ہے....؟؟ جعلی محقق زماں کو خطاء کے کئ معنی معلوم نہ ہوں ایسا بظاہر نہیں لگتا

.

تیسرا یہ کہہ بالفرض محال چمن زمان کی بات مان لی جائے کہ خطاء سے مراد ہمیشہ برا معنی ہی مراد ہوتا ہے تو انکے قاعدے کہ عرف بدلتا رہتا ہے سے ثابت ہو رہا ہے کہ حالیہ چند سالوں میں خطاء اجتہادی عرف عام میں مشھور و معروف ہو چکا ہے لیھذا اس حالیہ عرف کی وجہ سے خطاء سے مراد خطاء اجتہادی ہے جوکہ نہ تو بےادبی ہے نہ گستاخی نہ کفر نہ گمراہی.....لیھذا چمن زمان کی عرف عرف کی رٹ کا پول بھی کھل گیا.....!!

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App,twitter nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574

.

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.