Labels

سیدنا ابوبکر و عمر پر اعتراض کا رد..سیدہ فاطمہ کو مکا مارنا؟ محسن شہید کرنا؟ گھر جلانے کی دھمکی؟ اہلبیت کے گھر افضل؟ کاش سیدہ فاطمہ کے گھر کی بےحرمتی نہ کی ہوتی؟

 


.

*کیا سیدنا عمر نے سیدہ فاطمہ کو گھر جلانے کی دھمکی دی…؟؟ کیا سیدنا عمر نے سیدہ فاطمہ کو مکا مارا کہ ان کے پیٹ میں بچہ محسن شہید ہوگیا...؟؟ کیا اہلبیت کے گھر افضل ہیں....؟؟ کیا سیدنا صدیق اکبر نے اعتراف کیا کہ کاش سیدہ فاطمہ کے گھر کی بےحرمتی نہ کی ہوتی......؟؟*
.
*#پہلی،دوسری روایت*
شیعہ(الشيخ محمد فاضل المسعودي اور ابن شہرآشوب اور محشی جواہر المطالب وغیرہ رافضی نیم رافضی)بڑے فخر سے پیش کرتے ہیں کہ سیر اعلام اور میزان االاعتدال وغیرہ کتب اہلسنت میں لکھا ہے کہ عمر نے سیدہ فاطمہ کو مکا مارا اور پیٹ میں بچہ محسن شہید کردیا
انَّ عُمر رفَسَ فَاطِمَة حَتَّى أَسقطتْ محسّناً
بے شک عمر نے فاطمہ کو مکا مارا یہاں تک کہ فاطمہ کا بچہ محسن پیٹ میں شہید ہوگیا 
(سیر اعلام النبلاء،میزان الاعتدال)
.
*#جواب.و.تحقیق...!!*
ایک راوی أحمد بن محمد بن السري بن يحيى بن أبي دارم المحدث کے ترجمہ و حالات میں یہ بات بیان کی ہے کہ یہ محدث غیر معتبر اور غیر ثقہ جھوٹا رافضی کذاب ہے اس کے جھوٹ اور خرابیوں میں سے یہ ہے کہ اس کے پاس کہا جاتا تھا کہ حضرت عمر نے مکا مارا اور بی بی فاطمہ کا پیٹ میں بچہ شہید ہو گیا۔۔۔یہ اس بات پر خاموش رہتا تھا گویا کہ یہ اقرار کر رہا ہوں کہ یہ بات ٹھیک ہے۔۔لہذا یہ اس کے عیوب و جھوٹ خرابیوں میں سے ہے, یہ اس کی غیر مستند باتوں میں سے ہے۔۔۔سیر اعلام النبلاء اور میزان الاعتدال میں اس کی بات کو مستند بات کہہ کر لکھا نہیں ہے بلکہ جھوٹ و بہتان عیوب و تہمت والی غیر مستند غیر معتبر  باتوں میں سے لکھا ہے
۔
شیعوں رافضیوں نیم رافضیوں نے حسبِ عادت بڑی چالاکی اور مکاری دھوکہ دہی سے کام لیتے ہوئے ان دونوں کتابوں کی آدھی عبارت پیش کی اور آدھی کو چھوڑ دیا۔۔۔ہم آپ کے سامنے پوری عبارت پیش کر رہے ہیں ملاحظہ فرمائیے 
.قَالَ الحَاكِمُ: هُوَ رَافضي، غَيْرُ ثِقَةٍ .
وَقَالَ مُحَمَّدُ بنُ حَمَّاد الحَافِظ: كَانَ مُسْتَقِيْمَ  الأَمْر عَامَّة دَهْره، ثُمَّ فِي آخر أَيَّامه كَانَ أَكْثَرَ مَا يُقرأُ عَلَيْهِ المَثَالب، حَضَرْتُه وَرَجُل يَقْرأُ عَلَيْهِ أَنَّ عُمر رفَسَ فَاطِمَة حَتَّى أَسقطتْ
محسّناً
أحمد بن محمد بن السري بن يحيى بن أبي دارم المحدث کے متعلق امام حاکم نے فرمایا ہے کہ یہ رافضی ہے یہ غیر ثقہ ہےمُحَمَّدُ بنُ حَمَّاد الحَافِظ نے فرمایا کہ یہ راوی شروع میں ٹھیک تھا پھر آخری ایام میں اس کے پاس زیادہ تر عیوب و خرابیوں والی باتیں جھوٹ بہتان  تہمت والی باتیں پڑھی جاتی تھی۔۔۔(انہیں خرابیوں اور بہتان اور جھوٹ والی باتوں میں سے ہے کہ) ایک دن میں اس کے پاس آیا اور اس کے پاس ایک شخص پڑھ رہا تھا کہ حضرت عمر نے فاطمہ کو مکا مارا یہاں تک کے سیدہ فاطمہ کے پیٹ میں بچہ محسن شہید ہوگیا 
(سیر اعلام النبلاء15/578)
.
أحمد بن محمد بن السري بن يحيى بن أبي دارم المحدث.
الكوفي الرافضي الكذاب.الحاكم، وقال: رافضي، غير ثقة.
وقال محمد بن أحمد بن حماد الكوفي الحافظ - بعد أن أرخ موته: كان مستقيم  الأمر عامة دهره، ثم في آخر أيامه كان أكثر ما يقرأ عليه المثالب، حضرته ورجل يقرأ عليه: إن عمر رفس فاطمة حتى أسقطت
بمحسن.
أحمد بن محمد بن السري کوفی ہے رافضی ہے کذاب بہت بڑا جھوٹا ہے امام حاکم فرماتے ہیں کہ یہ رافضی ہے غیر ثقہ ہے
 مُحَمَّدُ بنُ حَمَّاد الحَافِظ نے فرمایا کہ یہ راوی شروع میں ٹھیک تھا پھر آخری ایام میں اس کے پاس زیادہ تر عیوب و خرابیوں والی باتیں جھوٹ بہتان  تہمت والی باتیں پڑھی جاتی تھی۔۔۔(انہیں خرابیوں اور بہتان اور جھوٹ والی باتوں میں سے ہے کہ) ایک دن میں اس کے پاس آیا اور اس کے پاس ایک شخص پڑھ رہا تھا کہ حضرت عمر نے فاطمہ کو مکا مارا یہاں تک کے سیدہ فاطمہ کے پیٹ میں بچہ محسن شہید ہوگیا
(میزان الاعتدال1/139ملتقطا)
.
*#تیسری روایت*
درج ذیل فوٹو میں شیعہ کذاب مکار نام نہاد علامہ جعلی محقق شہنشاہ نقوی کتاب لہرا لہرا کر کہہ رہا ہے کہ اہلسنت کی کتاب الملل و النحل میں لکھا ہے کہ حضرت عمر نے بی بی فاطمہ کے پیٹ پے مارا اور(پیٹ میں موجود بچہ) محسن شہید کر دیا...شیعہ اسے بڑے فخر سے خوب پھیلا رہے ہیں
.
*#جواب و تحقیق*
دوستو بھائیو ایک اصول یاد رکھیں بہت کام آئے گا، اصول یہ ہے کہ شیعہ جھوٹ بولتے ہیں اور نام اہلسنت کتاب کا ڈال دیتے ہیں جلد نمبر صفحہ نمبر حتی کہ لائن نمبر بتاتے ہیں تاکہ رعب بیٹھے اور سننے پڑھنے والا سچ سمجھ لیے.... یہ ان کی مکاری دھوکہ بازی جھوٹ و افتراء ہے
لیھذا
شیعہ کی باحوالہ بات کو فورا سچ مت سمجھیے بلکہ معتبر پرمغز اہلسنت عالم سے تصدیق و تردید تحقیق کرائیے
.
الملل و النحل کی پوری بات پڑھیے لکھا ہےکہ
وزاد في الفرية فقال: إن عمر ضرب بطن فاطمة يوم البيعة حتى ألقت الجنين من بطنها
ترجمہ:
(فرقہ نظامیہ کا بانی إبراهيم بن يسار بن هانئ النظام نے)مزید جھوٹ و بہتان باندھتے ہوئے کہا کہ عمر نے فاطمہ کے پیٹ پے مارا اور اپ کے پیٹ میں بچہ گر گیا
(الملل و النحل1/57)
.
ذرا سی بھی عقل والا سمجھ سکتا ہے کہ ملل نحل میں تو اس کو جھوٹ بہتان و افتراء کہا ہے اور شیعہ آدھی بات پیش کرکے مکاری و دھوکہ بازی دیتے ہوئے مفھوم بدل کر پیش کر رہے ہیں....فلعنۃ اللہ علی الکاذبین الماکرین
.
*سیدہ فاطمہ کا گھر جلانے کی دھمکی کی تحقیق.......!!*
سوال:
علامہ صاحب میں بہت پریشان ہوگیا ہوں، کیا یہ میسج اور وڈیو سچ میں صحیح ہے کیا.....؟؟میسج اور وڈیو میں ہے کہ:
اہل سنت کے مشہور محدث، ابن ابی شیبہ کی کتاب ”المصنف“
ابوبکر بن ابی شیبہ (۲۳۵۔۱۵۹) کتاب المصنف کے موْلف صحیح سند سے اس طرح نقل کرتے ہیں:
٣٧٠٤٥ - مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ , نا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ , حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ , عَنْ أَبِيهِ أَسْلَمَ أَنَّهُ حِينَ بُويِعَ لِأَبِي بَكْرٍ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عَلِيٌّ وَالزُّبَيْرُ يَدْخُلَانِ عَلَى فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيُشَاوِرُونَهَا وَيَرْتَجِعُونَ فِي أَمْرِهِمْ , فَلَمَّا بَلَغَ ذَلِكَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ خَرَجَ حَتَّى دَخَلَ عَلَى فَاطِمَةَ فَقَالَ: «يَا بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَاللَّهِ مَا مِنْ أَحَدٍ أَحَبَّ إِلَيْنَا مِنْ أَبِيكِ , وَمَا مِنْ أَحَدٍ أَحَبَّ إِلَيْنَا بَعْدَ أَبِيكِ مِنْكِ , وَايْمُ اللَّهِ مَا ذَاكَبِمَانِعِي إِنِ اجْتَمَعَ هَؤُلَاءِ النَّفَرُ عِنْدَكِ ; أَنْ أَمَرْتُهُمْ أَنْيُحَرَّقَ عَلَيْهِمِ الْبَيْتُ» , قَالَ: فَلَمَّا خَرَجَ عُمَرُ جَاءُوهَا فَقَالَتْ: تَعْلَمُونَ أَنَّ عُمَرَ قَدْ جَاءَنِي وَقَدْ حَلَفَ بِاللَّهِ لَئِنْ عُدْتُمْ لَيُحَرِّقَنَّ عَلَيْكُمُ الْبَيْتَ وَايْمُ اللَّهِ لَيَمْضِيَنَّ لِمَا حَلَفَ عَلَيْهِ , فَانْصَرِفُوا رَاشِدِينَ , فَرَوْا رَأْيَكُمْ وَلَا تَرْجِعُوا إِلَيَّ , فَانْصَرَفُوا عَنْهَا فَلَمْ يَرْجِعُوا إِلَيْهَا حَتَّى بَايَعُوا لِأَبِي بَكْرٍ
شیعہ نے ترجمہ کیا کہ:
جس وقت لوگ ابوبکر کی بیعت کر رہے تھے، علی اور زبیر حضرت فاطمہ زہرا کے گھر میں گفتگو اور مشورہ کر رہے تھے اور یہ بات عمر بن خطاب کو معلوم ہوگئی۔ وہ حضرت فاطمہ کے گھر آئے اور کہا: اے رسول کی بیٹی، سب سے محبوب انسان ہمارے نزدیک تمہارے والد گرامی تھے اور ان کے بعد اب تم سب سے زیادہ محترم ہو لیکن خدا کی قسم یہ محبت اس بات کے لئے مانع یا رکاوٹ نہیں بن سکتی کہ یہ لوگ تمہارے گھر میں جمع ہوں اور میں اس گھر کو ان لوگوں کے ساتھ جلانے کا حکم نہ دوں۔
اس جملہ کو کہہ کر باہر چلے گئے جب علی اور زبیر گھر میں واپس آئے تو حضرت فاطمہ زہرا نے علی اور زبیر سے کہا: عمر یہاں آئے تھے اور اس نے قسم کھائی ہے کہ اگر تم دوبارہ اس گھر میں جمع ہوئے تو تمہارے گھر کو ان لوگوں کے ساتھ آگ لگا دوں گا، خدا کی قسم ! اس نے جو قسم کھائی ہے وہ اس کو انجام دے کر رہے گا۔(معترض شیعہ رافضی نیم رافضی نے اگلی دو تین لائنوں کا ترجمہ چھوڑ دیا، پورا ترجمہ یہ ہے کہ سیدہ فاطمہ نے فرمایا اپنا بھلا سوچو اور میرے پاس مت آنا پھر سیدنا علی و زبیر وغیرہ نے بیعت کر لی)
.
رافضی نیم رافضی کے مسیج میں لکھا تھا کہ:
دوبارہ وضاحت کرتا ہوں کہ یہ واقعہ المصنف نامی کتاب میں صحیح سند کے ساتھ نقل ہوا ہے
اور
وڈیو میں مولوی صاحب نے اہلسنت کی کتابوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس روایت کا راوی محمد بن بشر ثقہ ہے
مزید
*رافضی یا نیم رافضی مولوی صاحب کہتے ہیں تفسیر در منثور میں ہے کہ اہلبیت کے گھر افضل ہیں*
 اور یہ بھی *رافضی یا نیم رافضی مولوی صاحب نے کہا کہ اہلسنت کتب میں لکھا ہے کہ ابوبکر کے آخری الفاظ تھے کہ کاش میں نے سیدہ فاطمہ کے گھر کی بے حرمتی نہ کی ہوتی*
.
*جواب.و.تحقیق....!!*
پہلی بات:
وڈیو میں اور میسج میں انتہائی مکاری عیاری دھوکے بازی کا مظاہرہ کیا گیا ہےجوکہ شیعہ رافضی نیم رافضی کی عادت قبیحہ ہے،باطل جھوٹا مکار ہونے کی دلیل ہے....مذکورہ روایت المصنف میں موجود تو ہے مگر صحیح نہیں بلکہ منقطع منکر ضعیف و ناقابل حجت ہے، اس روایت کے پہلے راوی کو ثقہ ثابت کرکے دھوکہ دینے کی کوشش کی گئ ہے کہ روایت صحیح ہے....شیعہ رافضی نیم رافضی اور مولانا َموصوف مکار منافق دھوکے باز نہ ہوتے حق پسند ہوتے تو اس روایت کے مرکزی راوی اسلم کے اس روایت کے متعلق ثابت کرتے کہ اسلم واقعہ میں موجود تھا یا اسلم نے فلاں ثقہ راوی سے سنا 
کتب اہلسنت میں دوٹوک لکھا ہے کہ اسلم راوی دھمکی والے فرضی واقعہ کے وقت موجود ہی نہ تھا تو یہ واقعہ کیسے سنا رہا ہے لازماً کسی اور سے سنا ہوگا مگر کس سے سنا، کسی شیعہ راوی سے تو نہیں سنا ، کسی افواہ کو سن کر روایت تو نہیں کر رہا بحرحال اسلم جب موجود ہی نہ تھا تو اسکی روایت قابل حجت نہیں.....انتہائی ضعیف و منقطع و منکر مردود روایت کہلائے گی
.
*دلیل.....!!*
بیعت کا واقعہ کہ جس میں حضرت عمر کو دھمکی دینے والا کہا گیا ہے اگر بالفرض مان لیا جائے تو مدینہ میں گیارہ ہجری ماہ ربیع الاول کا واقعہ ہے
اور
اس وقت اسلم مکہ میں تھا بارہ ہجری یا گیارہ ہجری ماہ ربیع الاول کے کچھ ماہ بعد حج کے موقعہ پر حضرت عمر نے اسلم کو خریدا تھا کیونکہ یہ غلام تھا.....ثابت ہوا کہ واقعہ بتانے والا مرکزی راوری اسلم واقعہ کے وقت تھا ہی نہیں اس نے ناجانے کس سے کسی شیعہ سے کسی ضعیف سے کسی دشمن اسلام سے یا افواہ سن کر روایت کر دی جوکہ ناقابل حجت ہے
.
امام بخاری فرماتے ہیں
بَعَثَ أَبُو بَكْرٍ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ سَنَةَ إِحْدَى عَشْرَةَ فَأَقَامَ لِلنَّاسِ الْحَجَّ وَابْتَاعَ فِيها أَسْلَمَ
ترجمہ:
گیارہ ہجری کو سیدنا ابوبکر نے سیدنا عمر کو حج قائم کرانے مکہ بھیجا...حضرت عمر نے ان دنوں مکہ میں اسلم کو خریدا
(بخاری....تاریخ صغیر1/62)
.
, عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ , عَنْ أَبِيهِ , قَالَ: " اشْتَرَانِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ سَنَةَ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ
 سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے غلام اسلم فرماتے ہیں کہ مجھے سیدنا عمر بن خطاب نے بارہ ھجری کو خریدا تھا
(الطبقات الكبرى ط دار صادر ج5 ص10)
(جمع الجوامع المعروف للسيوطي14/272)
.
وَقَالَ الْوَاقِدِيُّ: حَجَّ عُمَرَ بِالنَّاسِ سَنَةَ إِحْدَى عَشْرَةَ، فَابْتَاعَ فِيهَا أَسْلَمَ وَقَالَ الْوَاقِدِيُّ أَيْضًا: ثنا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: اشْتَرَانِي عُمَرُ سَنَةَ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ
 واقدی نے روایت کیا ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے 11 کو حج کیا تو اس میں اسلم کو خریدا ، واقدی ہی سے روایت ہے کہ اسلم کہتا ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب نے مجھےبارہ ھجری کو خریدا تھا
(تاريخ الإسلام - ت تدمري5/362)

.
*دوسری بات.....!!*
 امام ابن ابی شیبہ نے اپنی کتب میں صحیح روایت کو ہی ذکر کرنے کا التزام نہیں کیا بلکہ آپ کی کتب میں ضعیف جدا اور منکر وغیرہ روایات موجود ہیں حتی کہ موضوع جھوٹی روایات تک بعض علماء کے مطابق موجود ہیں
طريق ابن أبي شيبة: موضوع
امام ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ ابن ابی شیبہ کی جو سند ہے موضوع من گھڑت جھوٹی ہے
(المطالب العالية محققا ابن حجر16/593)
.
أخرجه أيضًا: ابن أبى شيبة (٧/١٩١، رقم ٣٥٢٣٥) . قال العجلونى (١/٢٢) : هو موضوع كما قال الصغانى
 ایک روایت کے متعلق فرماتے ہیں کہ اس روایت کو ابن ابی شیبہ نے لکھا ہے لیکن علامہ عجلونی اور امام صغانی نے اسے موضوع من گھڑت اور جھوٹی روایت قرار دیا ہے
(جامع الأحاديث للسیوطی11/61)
.
 ابن ابی شیبہ نے جابر بن یزید الجعفی سے روایت کی ہے جبکہ کئی علماء کے مطابق یہ سخت ضعیف اور شیعیت میں غلو کرنے والا تھا
- جَابر بن يزِيد الْجعْفِيّ كَانَ ضَعِيفا يغلو فِي التَّشَيُّع
 جابر بن یزید الجعفی سخت ضعیف اور شیعیت میں غلو کرنے والا تھا
(لثقات للعجلي ت البستوي1/264)
.
- جابر بن يزيد الجعفي: شيعي، غال، وثقه شعبة والثوري، وقال أبو داود: ليس عندي بالقوي، وقال النسائي:متروك
 جابر بن یزید شیعہ ہے غلو(حد سے تجاوز) کرنے والا ہے امام شعبہ اور ثوری نے توثیق کی ہے لیکن امام ابوداؤد نے فرمایا ہے کہ وہ میرے مطابق قوی نہیں ہے اور امام نسائی نے فرمایا ہے کہ یہ متروک ہے یعنی اس کی روایات کو ترک کردیا گیا ہے
(ديوان الضعفاء ص59)
.
وهذا من مسند ابن أبي شيبة.قال الأزدي: منكر الحديث.وقال ابنُ مَعِين: ليس بشيء
 ایک روایت کے بارے میں ہے کہ یہ ابن ابی شیبہ نے روایت لکھی ہے لیکن الازدی نے فرمایا یہ منکر الحدیث(صحیح روایت کے خلاف)روایت ہے امام ابن معین نے فرمایا اس روایت کی کوئی وقعت نہیں
(لسان الميزان ت أبي غدة3/448)
 مطلب امام ابن ابی شیبہ ایسی روایت بھی لکھتے تھے کہ جن کی کوئی وقعت نہیں ہوا کرتی تھی وہ منکر مردود ہوا کرتی تھی
.
 مثلا یزید بن ابی زیاد سے امام ابن ابی شیبہ نے روایت لکھی ہیں حالانکہ اس کے بارے میں محدثین نے فرمایا ہے کہ اس کا حافظہ خراب ہو گیا تھا اور وہ منکر الحدیث تھا
يزيد بن أبي زياد لسوء حفظه
 یزید بن ابی زیاد کو چھوڑ دیا گیا ہے کیونکہ اس کے حافظے میں خرابی تھی
(علل الدارقطني14/340)
.
يزيد بْن أَبِي زياد أو ابْن زياد عَنِ الزُّهْرِيّ، منكر الحديث
 یزید بن ابی زیاد منکر الحدیث ہے
(التاريخ الكبير للبخاري - ت المعلمي اليماني8/334)
اور
شیعہ سنی نجدی سب کا متفقہ اصول ہے کہ
فحديثه منكر مردود
ترجمہ:
اس(غیر ثقہ راوی) کی حدیث.و.روایت(بلامتابع بلاتائید مخالفِ صحیح ہو تو)منکر و مردود ہے
[شیعہ کتاب رسائل فی درایۃ الحدیث1/185]
[المقنع في علوم الحديث1/188]
.
*تیسری بات*
کچھ کتب میں اصل واقعہ یہ بیان ہوا ہے کہ سیدنا علی نے چھ ماہ بعد بیعت کی جیسے کہ بخاری مسلم میں ہے بخاري4241 مسلم1759 میں ہے اور اس میں دھمکی شمکی گھر جلانے کا کوئی ذکر نہیں جبکہ ابن ابی شیبہ کی مذکورہ روایت بخاری مسلم کے خلاف یہ بتا رہی ہے کہ بیعت فورا کرلی اور دھمکی دی لیھذا صحیح بخاری مسلم کی روایت کے خلاف ابن ابی شیبہ کی روایت منکر مردود کہلائے گے
لیکن
ایک اور روایت المستدرك4457 اور السنن الكبرى للبيهقي 16/512 میں ہے کہ فورا سیدنا علی نے بیعت کی اور دھمکی شمکی گھر جلانے والی کوئی بات ذکر نہیں کی...لیھذا اس روایت کو لیجیے تو بھی ابن ابی شیبہ کی روایت اس قوی روایت کے خلاف منکر مردود ہے
اور
شیعہ سنی نجدی سب کا متفقہ اصول ہے کہ
فحديثه منكر مردود
ترجمہ:
اس(غیر ثقہ راوی)کی حدیث.و.روایت(بلامتابع بلاتائید
مخالفِ صحیح ہو تو)منکر و مردود ہے
[شیعہ کتاب رسائل فی درایۃ الحدیث1/185]
[المقنع في علوم الحديث1/188]
.
*کیا سیدنا علی اور بی بی فاطمہ کا گھر انبیاء کے گھر سے افضل ہے...روایت کی تحقیق...........!!*
روافض نیم روافض و شیعہ کہتے ہیں کہ
تفسیر در منثور اور تفسیر ثعلبی میں ہے کہ:
حدّثنا المنذر بن محمد القابوسي قال:  حدّثني الحسين بن سعيد قال: حدّثني أبي عن أبان بن تغلب عن نفيع بن الحرث عن أنس بن مالك وعن بريدة قالا: قرأ رسول الله صلى الله عليه وسلّم هذه الآية فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ إلى قوله وَالْأَبْصارُ فقام رجل فقال: أيّ بيوت هذه يا رسول الله؟ قال: «بيوت الأنبياء» .
قال: فقام إليه أبو بكر فقال: يا رسول الله هذا البيت منها- لبيت عليّ وفاطمة-؟
قال: «نعم من أفاضلها
خلاصہ:
علی و فاطمہ کا گھر انبیاء کے گھر سے افضل ہے
(در منثور6/203....تفسیر ثعلبی7/107)
.

*تحقیق.و.جواب*
اس روایت کے بعض راوی مجھول تو بعض غالی شیعہ تو بعض جھوٹے وضاع ہیں لیھذا یہ روایت موضوع من گھڑت ہے جسے غالی شیعہ راویوں نے اپنی طرف سے بنا کر صحابہ کرام اور رسول کریم کی طرف منسوب کردیا ہے اور اہلسنت کی بعض کتب میں جمع و تحقیق کےلیے لکھی گئ ہے ناکہ بطور حق و ثابت ہونے کےطور پر .....نیز تفسیر ثعلبی میں اس تفسیر کو غیر معتبر کہا....مذکورہ روایت کے بعد امام ثعلبی لکھتے ہیں
وأولى الأقوال بالصواب أنّها المساجد
ترجمہ:
درست قول یہ ہے کہ گھروں سے مراد مساجد ہیں
(تفسیر ثعلبی الکشف و البیان7/107)

.
اب آئیے شیعوں رافضیوں نیم رافضیوں تفضیلیوں کی پیش کردہ روایت کے راویوں کے احوال ملاحظہ کرتے ہیں
اس روایت کا ایک راوی منذر قابوسی مجھول غیر قوی ضعیف و متروک ہے
 منذر بن محمد القابوسي.
قال الدارقطني: مجهول.
ترجمہ:
امام دار قطنی نے فرماما کہ منذر بن محمد القابوسی مجھول(غیر معلوم)ہے
(میزان الاعتدال رقم8764)
.
.
[7915 - منذر بن محمد بن المنذر.]
عن أبيه.وعنه ابن عقدة.قال الدارقطني: ليس بالقوي. انتهى.
منذر بن محمد القابوسي قوی راوی نہیں

وقال في غرائب مالك: ضعيف
منذر بن محمد القابوسي ضعیف ہے

[7915 مكرر- منذر بن محمد القابوسي [وهو منذر بن محمد بن المنذر]]قال الدارقطني: مجهول. انتهى.وذكر ابن المواق أن البرقاني سأل الدارقطني عنه فقال:متروك الحديث.
منذر بن محمد القابوسي متروک ہے(یعنی اس کی روایات کو ترک کر دیا گیا ہے اسکی روایات معتبر نہیں)
قلت: وهو أخباري يروي الأنساب ونحوها وهو الذي قبله فيما أرى.
(لسان المیزان8/153,154)
.
اس روایت کا ایک راوی
الحسين بن سعيد کا ذکر مشھور شیعہ امامی مصنفین میں ملتا ہے...(لسان الميزان ت أبي غدة3/166)
(شیعہ کتاب المفيد من معجم رجال الحديث - محمد الجواهري - ص 169)
لیھذا عین ممکن ہے یہ روایت اس نے گھڑی ہو
.
اس روایت روایت کا ایک راوی ابان بن تغلب متروک و غالی شیعہ ہے...عین ممکن ہے یہ جھوٹی روایت اس نے گھڑی ہو
أبان بن تغلب:
أَنَّهُ كَانَ فِيهِ غُلُوٌ فِي التَّشَيُّع
ترجمہ:
بےشک ابان بن تغلب غالی شیعہ تھا
ِ(الضعفاء الکبیر للعقیلی1/36)
.
- أبان بن تغلب مذموم المذهب
ابان بن تغلب برے مذہب والا تھا
(أحوال الرجال ص97)
.
أبان بن تغلب.....صدوق، شيعي، غال
 ابان بن تغلب صدوق ہے لیکن شیعہ ہے غلو کرنے والا حد سے تجاوز کرنے والا ہے
(ديوان الضعفاء ذهبي ص11)
.
بعض علماء نے فرمایا کہ ابان سے ثقہ راوی روایت لے تو قبول ہوسکتی ہے جبکہ یہاں اس سے روایت کرنے والا ثقہ نہیں لیھذا اسکی ایسی روایات غیر معتبر
.
.
اس روایت کا ایک راوی نفیع بن حرث الاعمی کذاب جھوٹا تھا، من گھڑت جھوٹی روایات گھڑتا تھا...عین ممکن ہےمذکورہ جھوٹی روایت اس نے گھڑی ہو
أَبُو دَاوُدَ الْأَعْمَى وَاسْمُهُ نُفَيْعُ بْنُ الْحَرْثِ وَهُوَ وَضَّاعٌ كَذَّابٌ
 ابو داود اعمی نفیع بن حرث بہت بڑا جھوٹا ہے اور یہ اپنی طرف سے باتیں بیان کر کے اس کو حدیث یا روایات کہتا تھا
(تحفۃ الاحوذی9/49)
.
بعض آئمہ نے ان سے روایت لی تو اسکی وجہ یہ تھی کہ اسکا شاہد موجود تھا جبکہ یہاں اسکی روایت کا کوئی شاہد موجود نہیں لیھزا غیر معتبر و مردود کہلائے گی
وَكَذَّبَهُ بَعْضُهُمْ، قَالُوا وَأَجْمَعُوا عَلَى تَرْكِ الرِّوَايَةِ عَنْهُ، وَنَسَبَهُ ابْنُ مَعِينٍ إِلَى الْوَضْعِ، نَعَمْ لِلْمَتْنِ شَاهِدٌ
 نفیع بن حرث بعض علماء نے اس کو جھوٹا راوی قرار دیا ہے اور انہوں نے فرمایا ہے کہ اس بات پر سب متفق ہیں کہ اسکی روایت کو چھوڑ دیا جائے گا، امام ابن معین نے فرمایا کہ یہ اپنی طرف سے باتیں گھڑ لیتا تھا اور اسے حدیث و روایات کہتا تھا... ابن ماجہ میں اس کی روایت موجود ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس روایت کا ایک شاہد موجود ہے
(حاشية السندي على سنن ابن ماجه2/26)
.
أبو داود الأعمى: يضع، هالك قد غير
 ابو داود اعمی نفیع بن حرث اپنی طرف سے باتیں بیان کر کے اسے حدیث اور روایت کہتا تھا یہ ھلاک راوی ہے اور اس کا حافظہ خراب ہوگیا تھا
(ديوان الضعفاء ص457)
.
وفيه نفيع وهو أبو داود الأعمى قال أبو داود: ضعيف جدا وقال الذهبي: تركوه وكان يترفض ورواه الطبراني في الكبير قال الهيثمي: وفيه أبو داود الأعمى كذاب
 نفیع ابو داؤد الاعمی ضعیف جدا ہے(ضعیف جدا روایت فضائل میں بھی معتبر نہیں ہوتی) ذہبی نے فرمایا کہ اس کی احادیث اور روایات کو ترک کردیا گیا ہے اور یہ رافضیت کا اظہار کرتا تھا، امام ہیثمی نے فرمایا کہ ابو داؤد الاعمی بہت بڑا جھوٹا ہے
(فيض القدير6/175)
.
(فقال قتاده)رجل كذاب...: سمعت أحمد بن حنبل يقول: أبو داود الأعمى يقول: سمعت العبادلة ابن عمر وابن عباس وابن الزبير، ولم يسمع منهم شيئًا."الكامل" ٨/ ٣٢٨، "تهذيب الكمال" ٣٠/ ١٢
نفیع بن حرث ابو داود اعمی کے بارے میں سیدنا قتادہ نے فرمایا کہ بہت بڑا جھوٹا شخص ہے امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ یہ شخص کہتا تھا کہ میں نے چار عبداللہ نامی صحابہ سے سنا ہے اور ابن عمر اور ابن عباس اور ابن زبیر سے سنا ہے حالانکہ یہ جھوٹ بول رہا ہے اس نے ان سے نہیں سنا
(الجامع لعلوم الإمام أحمد - الرجال19/290)
.

 ابن معين يقول أبو داود الأعمى يضع ليس بشيء وقال أبو حاتم منكر الحديث ضعيف الحديث وقال البخاري يتكلمون فيه وقال الترمذي يضعف في الحديث وقال النسائي متروك الحديث وقال في موضع آخر ليس بثقة ولا يكتب حديثه وقال العقيلي كان ممن يغلو في الرفض وقال ابن عدي هو في جملة الغالية بالكوفة وقال ابن حبان في الضعفاء نفيع أبو داود الأعمى يروي عن الثقات الموضوعات توهما
لا يجوز الاحتجاج به
 نفیع بن حرث ابوداود الاعمی کے متعلق امام ابن معین فرماتے ہیں کہ یہ اپنی طرف سے باتیں گھڑ لیتا تھا اور اسے حدیث و روایت کہتا تھا لہذا یہ معتبر نہیں ہے امام ابو حاتم نے فرمایا کہ ضعیف ہے اور منکر حدیث بیان کرتا ہے جو صحیح کے خلاف ہوتی ہیں.. امام بخاری نے فرمایا کہ اس میں بہت کلام کیا ہے علماء نے.. امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ ضعیف ہے.. امام نسائی نے فرمایا کہ اس کی روایات و احادیث کو ترک کر دیا گیا ہے... امام عقیلی نے فرمایا یہ ان لوگوں میں سے تھا کہ جو رافضیت میں غلو کرتا تھا... امام ابن عدی نے فرمایا کہ یہ کوفہ میں غالی شیعوں میں سے تھا... امام ابن حبان نے فرمایا کہ یہ ثقہ راویوں سے من گھڑت موضوع جھوٹی روایتیں بیان کرتا تھا تو لہذا اس کی بیان کردہ روایت و احادیث سے دلیل پکڑنا جائز نہیں ہے
(تهذيب التهذيب ابن حجر10/471)


.
بےشک صحابہ کرام اہلبیت اطھار سیدنا علی اور سیدہ بی بی فاطمہ سب کی عظیم شان و مرتبہ ہے مگر اسکا یہ مطلب نہیں کہ ان کے معاملےمیں غلو یا کمی بیشی کی جائے....لازم ہے کہ برحق و سچی روایات سے شان بیان کی جائے....رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین
.
*سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ و فداہ روحی پر رافضی نیم رافضی کا مضبوط ترین سمجھا جانے والا اعتراض اور اسکی تحقیق....*
شیعہ روافض نیم روافض کہتے ہیں
_ابوبکر کے آخری الفاظ....._
_"کاش مدینے میں_ ۔ میں نے فاطمہ بنتِ محمد(س) کے گھر کی بےحرمتی نہ کی ھوتی، چاھے وہاں میرے خلاف جنگ کی منصوبہ بندی ہی کیوں نہ کی جارہی ہوتی"_ 
*_کتبِ اھلِ سنّت:1.تاریخِ یعقوبی، 2.تاریخِ طبری، 3.مروّج الذّھب، 4.کنزالاعمال 5.الامامۃوالسیاسۃ.
_سب مومنین پرفرض ھے کہ پہلے خلیفہ کا یہ اعترافِ جرم دوسرے مومنین تک ضرور پہنچائیں، بی-بی فاطمہ(س) آپکے حق میں دعاگو ہوں گی._
حوالہ جات :
تاريخ الإسلام جلد 3 صفہہ 118 و تاريخ الطبري جلد 2 صفہہ  619 جلد 3 صفہہ 430 ط دار المعارف مصر ۔ الامامة والسياسة  ابن قتيبة الدينوري تحقيق الزيني جلد 1 صفہہ 24 و تاريخ مدينة دمشق ابن عساكر جلد 30 صفہہ 422 و شرح نهج البلاغة  ابن أبي الحديد جلد 2 صفہہ 46 
و المعجم الكبير الطبراني جلد 1 صفہہ 62 و مجمع الزوائد  الهيثمي جلد 5 صفہہ 202 و مروج الذهب مسعودي شافعي  جلد1 صفہہ 290 و ميزان الاعتدال الذهبي جلد 3 صفہہ  109 و لسان الميزان ابن حجر  جلد 4 صفہہ 189 و كنز العمال  المتقي الهندي جلد 5 صفہہ631 وغیرہ ..

.
*جواب.و.تحقیق.......!!*
پہلی بات
ہم نے سمجھا کہ یہ سوشل میڈیا پر بیٹھے ہوئے مکار رافضیوں نیم رافضیوں کا چھوڑا ہوا شوشہ ہے مگر جب کتب شیعہ کی طرف رجوع کیا تو پتہ چلا کہ انہوں نے بڑے زور و شور سے اس کو دلیل بنایا ہے
مثلا شیعوں کی معتبر کتاب بحار الانوار کا متن اور اس پر شیعوں کا حاشیہ ملاحظہ کیجئے
ذكر القصة جمهور علماء العامة، ونص عليها الطبري في تاريخه ٤ / ٥٢، وابن قتيبة في الإمامة والسياسة ١ / ١٨، والمسعودي في مروج الذهب ١ / ٤١٤، وابن عبد البر في العقد الفريد ٢ / ٢٥٤، وأبو عبيدة في الأموال: ١٣١١،  وغيرهم، والاسناد صحيح رجاله كلهم ثقات عندهم أربعة منهم من رجال الصحاح الست، كما نص على ذلك شيخنا الأميني في الغدير ٧ / ١٧٠ - ١٧١، فراجع. وانظر حول الكشف عن بيت فاطمة سلام الله عليها - غير ما مر - تاريخ ابن جرير ٢ / ٦١٩، وميزان الاعتدال ٢ / ٢١٥، وغيرهما
(شیعہ کتاب بحار الانوار و حاشیتہ30/124)
.
عبد الزهراء شیعہ مصنف اس روایت کے حوالے لکھتا ہے
الحافظ سعيد بن منصور (المتوفى 227) وقال حديث حسن (1).حميد بن زنجويه (2) (المتوفى 251) ابن قتيبة الدينوري (3) (المتوفى 2766) اليعقوبي (4) (المتوفى 292) الطبري (5) (المتوفى 310) الجوهري (66) (المتوفى 323) ابن عبد ربه الأندلسي (7) (المتوفى 3288) خيثمة بن سليمان الإطرابلسي (8) (المتوفى 343) المسعودي (9) (المتوفى 346) الطبراني (100) (المتوفى 360) الحافظ ابن عساكر (11) (المتوفى 5711) وقال: أخبرنا جماعة  في كتبهم
(شیعہ کتاب الهجوم على بيت فاطمة ص157)
.
۔
*دوسری بات*
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے فرماتے ہیں 
فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ : سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " لَا نُورَثُ ؛ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ ". إِنَّمَا يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ فِي هَذَا الْمَالِ، وَاللَّهِ لَقَرَابَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ أَصِلَ مِنْ قَرَابَتِي
سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی کہ آل محمد اہل بیت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اس مال سے خرچہ راشن وغیرہ ملتا رہے گا جیسے کہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم دیتے رہتے تھے اور اللہ کی قسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار مجھے اپنے رشتے داروں سے زیادہ محبوب ہیں 
(بخاری 4036)
 دل پہ ہاتھ رکھ کے تعصب کی عینک اتار کر ایمان سے بتائیےجو شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لخت جگر سے اس طرح محبت کا اظہار کر رہا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار زیادہ محبوب ہیں مجھے میرے رشتےداروں سے۔۔۔کیا ایسا محبت کرنے والا با ادب شخص سیدہ فاطمہ طیبہ طاہرہ کے گھر کی بے حرمتی کرے گا...؟ ہرگز نہیں
.
۔
 ذرا سیدنا صدیق اکبر کی شفافیت کا بھی حال سنتے چلیے ...خلیفہ اول،خلیفہ برحق سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے وفات کے وقت وصیت فرمائی:
اے میری پیاری بیٹی عائشہ(صدیقہ طیبہ طاہرہ)سن....!!
میں نے کبھی خلافت کو دنیا دولت منافعہ کمانے کا ذریعہ نہیں بنایا، البتہ معمولی تنخواہ لی، معمولی کھایا، معمولی پہنا.....اس وقت گھر میں تھوڑا بہت جو کچھ ہے وہ یہ ہے کہ ایک غلام ہے ایک پانی بھرنے کی اونٹی ہے اور ایک پرانی چادر.........میں جب وفات پا جاؤں تو یہ سب بیت مال بھیج دینا..(دیکھیے طبقات کبری3/146)
.
جسکی شفافیت و صدیقیت و احتیاط و خوف خدا کا
یہ عالم ہو تو کیا وہ کسی اہلبیت کا حق غصب کرسکتا ہے؟ہرگز نہیں....!! یہی وجہ ہے کہ باغ فدک سیدنا علی نے بھی اولاد فاطمہ میں بطور میراث تقسیم نہ کیا بلکہ اسکی وہی صورت برقرار رکھی جو سیدنا ابوبکر و عمر نے رکھی تھی.....رضی اللہ عنھم اجمعین
.
جَمَعَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بَنِي مَرْوَانَ حِينَ اسْتُخْلِفَ، فَقَالَ : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ لَهُ فَدَكُ، فَكَانَ يُنْفِقُ مِنْهَا، وَيَعُودُ مِنْهَا عَلَى صَغِيرِ بَنِي هَاشِمٍ، وَيُزَوِّجُ مِنْهَا أَيِّمَهُمْ، وَإِنَّ فَاطِمَةَ سَأَلَتْهُ أَنْ يَجْعَلَهَا لَهَا فَأَبَى، فَكَانَتْ كَذَلِكَ فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ، فَلَمَّا أَنْ وَلِيَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَمِلَ فِيهَا بِمَا عَمِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَيَاتِهِ حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ، فَلَمَّا أَنْ وَلِيَ عُمَرُ عَمِلَ فِيهَا بِمِثْلِ مَا عَمِلَا حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ، ثُمَّ أُقْطِعَهَا مَرْوَانُ، ثُمَّ صَارَتْ لِعُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ. قَالَ عُمَرُ - يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ : فَرَأَيْتُ أَمْرًا مَنَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَامُ لَيْسَ لِي بِحَقٍّ، وَأَنَا أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ رَدَدْتُهَا عَلَى مَا كَانَتْ. يَعْنِي عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
 سیدنا عمر بن عبدالعزیز جب خلیفہ ہوئے تو فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فدک کو خرچ کیا کرتے تھے بنو ہاشم وغیرہ پر ...سیدہ فاطمہ نے رسول کریم سے فدک مانگا لیکن رسول کریم نے ان کی ملکیت میں نہ دیا پھر یہی طریقہ جاری رہا سیدنا ابوبکر صدیق کے دور میں سیدنا عمر کے دور میں پھر میرے حصے میں آیا میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ جو چیز رسول کریم نے اپنی بیٹی سیدہ فاطمہ کو نہ دی وہ بھلا میری کیسی ہو سکتی ہے میں اس کو اسی طریقے پر جاری کرتا ہوں جو طریقہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا جو طریقہ ابوبکرصدیق کا تھا جو طریقہ سیدنا عمر کا تھا  
(ابوداود 2972)
.
*تیسری بات*
اب آتے ہیں  رافضیوں نیم رافضیوں کے دیے گئے حوالہ جات کی طرف
ایک حوالہ طبرانی و مجمع الزوائد کا:
جواب:
 حوالہ تو دے دیا لیکن علامہ ہیثمی کا تبصرہ  حذف کر دیا جو کہ مکاری ہے دھوکہ  بازی ہے اور خیانت ہے...باطل ہونے کی نشانی ہے
علامہ ہیثمی اس روایت کو لکھنے کے بعد فرماتے ہیں 
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ، وَفِيهِ عُلْوَانُ بْنُ دَاوُدَ الْبَجَلِيُّ، وَهُوَ ضَعِيفٌ، وَهَذَا الْأَثَرُ مِمَّا أُنْكِرَ عَلَيْهِ
اس روایت میں علوان بن داود ہیں جو کہ سخت ضعیف ہے اور جو اس نے یہ بات کہی ہے تو یہ صحیح روایات کے خلاف منکر روایت ہے 
(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد5/203)
اور
شیعہ سنی نجدی سب کا متفقہ اصول ہے کہ
فحديثه منكر مردود
ترجمہ:
اس(غیرثقہ)کی حدیث.و.روایت(بلامتابع بلاتائید
مخالفِ صحیح ہو تو)منکر و مردود ہے
[شیعہ کتاب رسائل فی درایۃ الحدیث1/185]
[المقنع في علوم الحديث1/188]
.
 دوسرا حوالہ: مروج الذہب کا
جواب:
پہلی بات 
سند ہی نہیں لکھی
دوسری بات
 اسے اہلسنت عالم کہنا عین مکاری دھوکے بازی ہے...مروج الذہب کا مصنف معتزلی شیعہ تھا معتبر اہلسنت نہ تھا اگرچہ اسکی کتب میں سنی شیعہ معتزلی سب کی حمایت میں مواد موجود ہے
صَاحب غرائب
مروج الذهب کا مصنف غجیب و غریب (بے سر و پا) باتیں لکھتا تھا
(الوافي بالوفيات21/5)
.
وكان معتزليًّا
 مروج الذهب کا مصنف (سنی نہیں) معتزلی تھا
(كتاب تاريخ الإسلام - ت بشار7/829)
.
وكتبه طافحة بأنه كان شيعيا متعزليا
 مروج الذهب کا مصنف اسکی کتب بھری پڑی ہیں ایسی باتوں سے کہ جو اسکے شیعہ اور معتزلی ہونے کا ثبوت ہیں
(ابن حجر العسقلاني ,لسان الميزان ,4/225)
.
 حتی کہ شیعہ مصنفین نے اسے اپنا معتبر عالم تک لکھا ہے
علي بن الحسين بن علي المسعودي بخط التقي المسعودي شيعي وكتاب مروج الذهب لا يظهر منه تشيعه والمعتمد كتبه الآخر بخط ولده المجلسي: أقول عندنا كتاب اثبات الوصية له ويدل على أنه من أكمل الشيعة وخواصهم
 مروج الذہب کا مصنف مسعودی شیعہ تھا بلکہ کامل شیعہ تھا خواص شیعہ میں سے تھا
(أعيان الشيعة - السيد محسن الأمين - ج ٨ - الصفحة ٢٢١)
.
 تیسرا حوالہ:
تاریخ اسلام اور میزان الاعتدال کا
جواب :
اور یہاں بھی چلا کی مکاری اور دھوکہ بازی خیانت کرتے ہوئے مصنف کا تبصرہ حذف کردیا جو رافضیوں نیم رافضیوں شیعوں کے باطل مردود فسادی جھوٹے مکار ہونےکی نشانی ہے
علامہ ذہبی فرماتے ہیں اس روایت کے متعلق 
علوان" بن داود البجلي مولى جرير  بن عبد الله ويقال علوان بن صالح قال البخاري علوان بن داود ويقال ابن صالح منكر الحديث وقال العقيلي له حديث لا يتابع عليه
ولا يعرف إلا به
 علوان بن داود اس روایت کا راوی ہے امام بخاری نے کہا ہے کہ یہ منکر الحدیث ہے  صحیح حدیث و روایت کے خلاف روایت کرتا ہے امام عقیلی نے فرمایا کہ اس کی حدیث کی کسی نے مطابقت نہیں کی 
( ميزان الاعتدال3/108)
اور
شیعہ سنی نجدی سب کا متفقہ اصول ہے کہ
فحديثه منكر مردود
ترجمہ:
اس(غیرثقہ)کی حدیث.و.روایت(بلامتابع بلاتائید
مخالفِ صحیح ہو تو)منکر و مردود ہے
[شیعہ کتاب رسائل فی درایۃ الحدیث1/185]
[المقنع في علوم الحديث1/188]
.
 چوتھا حوالہ:
تاریخ یعقوبی کا
جواب:
أحمد بن أبي يعقوب اسحق (ت ٢٨٤ هـ)  مؤرخ شيعي إمامي
 تاریخ یعقوبی کا مصنف امامی شیعہ تھا 
(كتاب عصر الخلافة الراشدة محاولة لنقد الرواية التاريخية وفق منهج المحدثين19)
.
 حتی کہ شیعوں نے اسے اپنا علامہ مانا  ہے 
 ويظهر تشيعه من كتابه في التاريخ .... أن مؤلفه شيعي
 تاریخ یعقوبی کی کتب سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ شیعہ تھا اور اس کے جو کتابیں ہیں ان میں شیعہ روایات ہیں 
.(شیعہ کتاب اعیان الشیعۃ3/202)
.
 پانچواں حوالہ:
الامامۃ والسیاسۃ کا
جواب:
الامامۃ و السیاسۃ بھی معتبر اہلسنت کتاب نہیں بلکہ متنازعہ کتاب ہے بعض نے اسے ابن قتیبہ کی تصنیف ہی قرار نہ دیا بعض نے لکھا کہ ابن قتیبہ دو تھے ایک سنی ایک شیعہ،شیعہ نے کتاب لکھی اور شیعہ اسے سنی مصنف کہہ کر دھوکہ دیتے ہیں..(دیکھیے میزان الکتب ص 275 لسان المیزان ر4460)
.
 چھٹا حوالہ:العقد الفرید کا...
جواب:
معتبر اہل سنت کتاب نہیں بلکہ اس میں شیعہ روایات موجود ہیں باطل روایات موجود ہیں تو اس کی روایات کو دیگر روایات کی بنیاد پر پرکھا جائے گا

..ويدل كثير من كلامه على تشيع فيه وميل إلى الحد من بني أمية وهذا عجيب منه لأنه أحد مواليهم وكان الأولى به أن يكون ممن يواليهم لا ممن يعاديهم)]البداية والنهاية () [وقال في موضع آخر ـ رحمه الله تعالى ـ : ( كان فيه تشيع شنيع ومغالاة في أهل البيت
 عقد الفرید کے مصنف کی کتب میں ایسی باتیں ہیں کہ جو اس کے شیعہ ہونے کی نشاندہی کرتے ہیں یہ بہت برا شیعہ تھا اہل بیت میں غلو کرتا تھا 
(البداية والنهاية 10/ 433)11/230)
اور مذکورہ واقعہ کی سند بھی نہیں لکھی
.
 ساتواں حوالہ: أبو عبيدة في الأموال کا.....
جواب:
قال الأصمعى ، وقال أبو عمرو ، وفيه خمسة وأربعون حديثا لا أصل لها
 ابو عبیدہ نے چالیس کے قریب ایسی حدیث بیان کی ہیں جن کی کوئی اصل نہیں ہے 
(سیر اعلام النبلاء10/502)
 لہذا اس کی بیان کردہ روایت کو پرکھا جائے گا کہ معتبر کتاب میں موجود ہے یا نہیں ہے
اس میں بھی سند وہی ہے جو طبری و طبرانی کی ہے جسکی تفصیل تحقیق نیچے آرہی ہے
.
 اٹھواں حوالہ:کزالعمال کا...
جواب:
سند نہیں لکھی
.
 نواں حوالہ:تاریخ طبری کا...
جواب:
اس میں اس روایت کی دو سندیں لکھی ہیں جسکی تحقیق نیچے آرہی ہے
.
 دوسواں حوالہ لأحاديث المختارة کا....
جواب:
اس روایت کی سند بھی وہی ہے جو طبری طبرانی نے لکھی جس کی تحقیق نیچے آ رہی ہے
.
 گیارواں حوالہ: ابن عساکر کا....
جواب:
اس روایت کی سند بھی وہی ہے جو طبری طبرانی نے لکھی جس کی تحقیق نیچے آ رہی ہے
.
 بارواں حوالہ:کنزالعمال کا....
جواب:
سند نہیں لکھی
.
 تیرواں حوالہ:لسان المیزان کا...
جواب:
مکاری اور دھوکہ بازی خیانت کرتے ہوئے مصنف کا تبصرہ حذف کردیا جو رافضیوں نیم رافضیوں شیعوں کے باطل مردود فسادی جھوٹے مکار ہونے کی نشانی ہے
وكتبه طافحة بأنه كان شيعيا متعزليا
 مروج الذهب کا مصنف اسکی کتب بھری پڑی ہیں ایسی باتوں سے کہ جو اسکے شیعہ اور معتزلی ہونے کا ثبوت ہیں
(ابن حجر العسقلاني ,لسان الميزان ,4/225)


.
*پانچویں بات*
مذکورہ روایت کی سند یہ ہے
حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنْبَاعِ رَوْحُ بْنُ الْفَرَجِ الْمِصْرِيُّ، ثنا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ، حَدَّثَنِي عُلْوَانُ بْنُ دَاوُدَ الْبَجَلِيُّ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:
[الطبراني ,المعجم الكبير للطبراني ,1/62
.
باقی تاریخ طبری میں یہ روایت مکمل سند کے ساتھ لکھی ہے طبری میں یہ دو سندیں لکھی ہیں
.
¹حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُكَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُلْوَانُ، عَنْ  صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، عَنْ أَبِيهِ،
.
²وَحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْمُرَادِيُّ، قَالَ:  حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ الْمِصْرِيُّ، قَالَ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، عَنْ عُلْوَانَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، أَنَّ أَبَا بكر الصديق رضى الله عَنْهُ(تاریخ طبری3/431)
.
.قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، عَنِ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ عُلْوَانَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ
(الأموال للقاسم بن سلام ,page 174)
.
 ان چاروں سندوں میں واضح دیکھا جاسکتا ہے کہ سندوں میں اسکا مرکزی راوی علوان ہے، طبری کے علاوہ بھی جہاں کہیں بھی یہ روایت مجھے ملی تو اس میں یہی راوی علوان موجود تھا.....واللہ تعالی اعلم
.
سارے قصے کا دار و مدار اس علوان نامی راوی پر ہے آئیے پڑھتے ہیں کہ یہ علوان راوی کیسا تھا....کہیں اس نے جھوٹ گھڑ کر سیدنا ابوبکر کی طرف منسوب تو نہیں کر دیا.....؟؟
.
قال البخاري وأبو سعيد بن يونس: " منكر الحديث
 امام بخاری اور امام ابو سعید نے فرمایا کہ یہ راوی  علوان منکر الحدیث( صحیح حدیث و روایات کے خلاف روایات کرتا) ہے
(المعجم الصغير لرواة الإمام ابن جرير الطبري ,1/388)
.
علوان" بن داود البجلي مولى جرير  بن عبد الله ويقال علوان بن صالح قال البخاري علوان بن داود ويقال ابن صالح منكر الحديث وقال العقيلي له حديث لا يتابع عليه
ولا يعرف إلا به
 یہ راوی  علوان منکر الحدیث(صحیح حدیث و روایات کے خلاف روایات کرتا) ہےاسکی رواہت کی تاءید کسی معتبر نے نہیں کی
( لسان الميزان4/188)

.

منكر الحديث....وَلَا يُعْرَفُ عُلْوَانُ إِلَّا بِهَذَا مَعَ اضْطِرَابِ الْإِسْنَادِ، وَلَا يُتَابَعُ عَلَيْهِ 
علوان منکر الحدیث(صحیح حدیث و روایات کے خلاف روایات کرتا) ہے،علوان کی کوئی پہچان نہیں سوائے اس کے کہ یہ اس روایت کے ذریعہ سے پہچانا جاتا ہےاس کی اس روایت میں اضطراب بھی ہے اور اس کی اس روایت کی تائید و متابعت کسی دوسری روایت سے نہیں ہوتی 
(الضعفاء الكبير للعقيلي ,3/421)

منكر الحديث وقال العقيلي: له حديث لا يتابع عليه، ولا يعرف إلا به
علوان منکر الحدیث(صحیح حدیث و روایات کے خلاف روایات کرتا) ہےامام عقيلي فرماتے ہیں کہ علوان کی کوئی پہچان نہیں سوائے اس کے کہ یہ اس روایت کے ذریعہ سے پہچانا جاتا ہے اور اس کی اس روایت کی تائید و متابعت کسی دوسری روایت سے نہیں ہوتی 
(ميزان الاعتدال ,3/108)
.
قال البخاري: علوان بن داود ويُقال: ابن صالح منكر الحديث.
وقال العقيلي: له حديث لا يتابع عليه، وَلا يعرف إلا به.
وقال أبو سعيد بن يونس: منكر 
  امام بخاری فرماتے ہیں کہ علوان منکر الحدیث ہے(صحیح حدیث و روایات کے خلاف روایات کرتا ہے) یہ علوان بن داود ہے اور اسے علوان بن صالح بھی کہا گیا ہے..امام عقيلي فرماتے ہیں کہ علوان کی کوئی پہچان نہیں سوائے اس کےکہ یہ اس روایت کے ذریعہ سے پہچانا جاتا ہےاور اس کی اس روایت کی تائید و متابعت کسی دوسری روایت سے نہیں ہوتی 
ابوسعید بن یونس نے فرمایا کہ علوان منکر الحدیث(صحیح حدیث و روایات کے خلاف روایات کرتا)ہے
(لسان الميزان ت أبي غدة ,5/472)

.اور
شیعہ سنی نجدی سب کا متفقہ اصول ہے کہ
فحديثه منكر مردود
ترجمہ:
اس(غیرثقہ)کی حدیث.و.روایت(بلامتابع بلاتائید
مخالفِ صحیح ہو تو)منکر و مردود ہے
[شیعہ کتاب رسائل فی درایۃ الحدیث1/185]
[المقنع في علوم الحديث1/188]
.
نیز اس روایت کا ایک اور راوی محمد بن اسماعیل مرادی مجھول و باطل مردود ہے
مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل الْمرَادِي عَن أَبِيه قَالَ أَبُو حَاتِم مَجْهُول وَأَبوهُ مَجْهُول والْحَدِيث الَّذِي رَوَاهُ بَاطِل
  مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل الْمرَادِی کے متعلق امام ابو حاتم نے فرمایا ہے کہ یہ اور اس کا والد مجہول ہیں اور اس نےجو حدیث بیان کی وہ باطل ہے  
(الضعفاء والمتروكون لابن الجوزي3/42)
.
مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل الْمرَادِي لَا يدرى من هُوَ والْحَدِيث بَاطِل
  مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل الْمرَادِی مجہول راوی ہے اور اس نے جو حدیث بیان کی ہے وہ باطل ہے 
(المغني في الضعفاء2/555)
.
محمد بن إسماعيل المرادي. أتى بحديث باطل
  مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل الْمرَادِی نےجو حدیث بیان کی ہے وہ باطل ہے
(لسان الميزان ت أبي غدة6/570)
.

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات اور مرض اور وصیت وغیرہ کے متعلق تمام احوال مستند کتب میں آئے ہیں جس میں مذکورہ واقعہ کا کچھ اتا پتہ ہی نہیں لیھذا یہ منفرد و منکر روایت مردود باطل و ناقابل حجت ہے…سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایسا کچھ نہیں کیا اور نہ ہی کہا اور نہ ہی سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا و فداھا روحی کے گھر کی بےحرمتی کی...اس سلسلہ میں جو کچھ شیعہ روافض نیم روافض بیان کرتے ہیں وہ جھوٹ ، مکاری دجل و فریب ضعیف جدا، منکر و مردود باطل ہے
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
whats App،twitter nmbr
00923468392475
03468392475
other nmbr
03062524574


Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.