کرسمس میلاد کی طرح ہے تو میلاد جائز اور کرسمس کیوں ناجائز…؟؟ ہولی دیوالی نیو ائیر رواداری دل صاف...؟؟


*#کرسمس_ہولی_دیوالی نیو ائیر منانےکی ممکنہ جائز صورت اور ناجائز صورتیں...؟؟ رواداری....؟؟کرسمس میلاد کی طرح ہی تو ہے تو پھر میلاد جائز اور کرسمس ممنوع کیوں.....؟؟ ہولی دیوالی کرسمس منانا بےپردگی برائی بےحیائی کرنا اور کہنا کہ بس دل صاف ہونا چاہیے……؟؟*
خلاصہ:
ہندو بدمت یہود نصاری عیسائی اہل کتاب وغیرہ سب غیرمسلموں کے کئ گندے باطل نظریات ہیں لیھذا انکی مجموعاً مخالفت کی جائے گی، انکے تہواروں میں شرکت نہ کی جائے گی نہ مبارکباد دی جائے گی بلکہ جو مسلمان مبارکباد دے اسے سزا دی جائے گی،غیر مسلم و اہل کتاب باطل گندے نظریات پے مشتمل ہیں لیھذا انکے دل صاف نہیں،انہیں مبارکباد دینا انکی تائید ہے جوکہ ٹھیک نہیں،مجموعا باطل گندے کی تائید کرنا دل کی صفائی نہیں بلکہ دل و نظریات کی گندگی ہے،الحاد و منافقت و مفاد پرستی ہے...جس کا دل منافقت شرک کفر نشہ بے حیائی مفاد پرستی عقل پرستی وغیرہ برائیوں سے پاک ہو وہی دل صاف ہوتا ہے اور جسکا دل صاف ہوتا ہے وہ گندے باطل کی تائید نہیں کرتا الا یہ کہ کوئی شرعا مجبور ہو
البتہ
غیرمسلموں کے سچائی پے مبنی تہوار مسلمان اس طرح منا سکتا ہے کہ انکی مخالفت بھی ہو اور مشابہت سے بھی بچا جائے مثلا یوں کہنا کہ "نہ خدا نہ خدا کا بیٹا سیدنا عیسی علیہ السلام کی ولادت و میلاد مبارک و خیر مبارک"، مثلا: سیدنا عیسی علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا نہ سمجھنے والوں کو اور انکو خدا یا خدا کا بیٹا نہ سمجھنے والوں کو اور فحاشی نشہ عیاشی برپردگی کو حلال نہ سمجھنے والوں کو اور تحریف و کفر شرک نہ کرنے والوں کو میلادِ سیدنا عیسی مبارک و خیر مبارک " مثلا "دیوی دیوتاؤں بتوں کے نام و عقیدت کے بغیر اور بےحیائی و بےپردگی و نشے کے بغیر والی ہولی دیوالی کی خوشیاں مبارک و خیر مبارک"....مثلا آتشبازی نشہ بےحیائی اسراف و گناہ کے بغیر نیا سال مبارک و خیر مبارک...
.
سنا ہے کچھ علماء اہلسنت نے نیو ائیر اس طرح منانے کی تجویز دی ہے کہ فحاشی اسراف  آتشبازی بےحیائی بےپردگی دھماچوکڑیوں پر پابندی لگا لگوا کر سوشل میڈیا ٹی وی میڈیا مدنی چینل گھر محلے شہر میں دعاؤں اصلاح اور پرجوش نعتوں نعروں تقریروں محفلوں کا انعقاد کیا جائےکہ امالہ بہترین ازالہ ہے، یعنی برائی سے روک کر نیکی کی طرف اور جائز کی طرف مائل کیا جائے…
.
لیکن
میری کرسمس...ہیپی کرسمس....کرسمس مبارک.....ہولی دیوالی مبارک بول ہی نہیں سکتے بات کفر تک جاسکتی ہے... احتیاط تو یہی ہے کہ ایسے الفاظ سے مبارکباد دی جائے کہ یہود و نصارا مشرکین کی مخالفت مبارکبادی کے الفاظوں سے ظاہر ہو جیسے اوپر الفاظ لکھے.... اور اگر "میلاد سیدنا عیسی مبارک" یوم ولادت سیدنا عیسی مبارک" کہا جائے تو بھی اشارتا رد ہوجاتا ہے لیھذا جائز ہوسکتا ہے لیکن کرسمس ہولی دیوالی مبارک تو بول ہی نہیں سکتے کہ بات کفر تک بھی جا سکتی ہے
Christmass
دو لفظوں سے بنا ہے
Christ
کا معنی کہیں مسیح لکھا ہے تو کہیں آسمانوں میں رہنے والا بادشاہ تو کہیں اسکا معنی خدا لکھا ہے....
mass
کا معنی کہیں نماز کہیں رحمت کہیں عبادت کہیں مقدار لکھا ہے
Christmass
کا ایک معنی ہوا "مسیح کی عبادت" نعوذ باللہ
اسکا ایک اور معنی ہوا کہ "مسیح ایک مقدار حصہ ہے" یعنی تین خدا میں سے ایک....نعوذ باللہ
.
.
*#تفصیل.و.تحقیق....!!*
القرآن..ترجمہ:
اور تم(مسلمان کہلانے والوں)میں سے جو ان(یہودیوں عیسائیوں وغیرہ غیرمسلموں)سے دوستی کرے گا وہ انہی میں شمار ہوگا...(سورہ مائدہ آیت51)
.
الحدیث،ترجمہ:
ہر شخص اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے لیھذا تمہیں سوچنا چاہیےکہ تم کس سے دوستی کر رہے ہو(ترمذی حدیث2378) مروجہ کرسمس ہولی دیوالی منانےوالے، شرکت کرنے والے، مبارک باد دینے والے نام نہاد مسلمان اصلی مسلمان نہیں منافق یا گناہ گار یا گمراہ ہیں...بات کفر تک بھی جاسکتی ہےالا المجبور
.
الحدیث،ترجمہ:
جو غیرمسلموں سےمشابہت کرےوہ ہم مسلمانوں میں سےنہیں تو یہودیوں عیسائیوں سےمشابہت نہ کرو
(ترمذی حدیث2695)
اس قسم کئ احادیث مبارکہ ہیں
لیھذا
یہود و عیساءیوں عیاشوں کی طرح یا ان سے مشابہت کرتے ہوئے یا ان سے شرکت و تائید کرتے ہوئے کرسمس ہولی دیوالی وغیرہ مذہبی تہوار نہیں مناسکتے
مگر
#میلادِ سیدنا عیسی علیہ السلام اس طرح مناسکتےہیں کہ میلاد سیدنا عیسی بھی ہو اور عیسائیوں کی مخالفت بھی ہو(دلیل بخاری حدیث2004)
حدیث پاک کے الفاظ یوں ہیں:
قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ المَدِينَةَ فَرَأَى اليَهُودَ تَصُومُ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، فَقَالَ: «مَا هَذَا؟»، قَالُوا: هَذَا يَوْمٌ صَالِحٌ هَذَا يَوْمٌ نَجَّى اللَّهُ بَنِي إِسْرَائِيلَ مِنْ عَدُوِّهِمْ، فَصَامَهُ مُوسَى، قَالَ: «فَأَنَا أَحَقُّ بِمُوسَى مِنْكُمْ»، فَصَامَهُ، وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ
ترجمہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ یہود عاشورہ کے دن روزہ رکھتے تھے تو رسول کریم نے فرمایا ایسا کیوں کرتے ہیں، عرض کیا کہ یہ نیک و اچھا دن ہے کہ اس دن اللہ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن(فرعون) سے نجات دی تو حضرت موسی نے روزہ رکھا تو حضور نے فرمایا کہ ہم یہود سے زیادہ موسی علیہ السلام کے حقدار ہیں پس رسول کریم نے اس دن روزہ رکھا اور روزہ رکھنے کا حکم دیا....(بخاری حدیث2004)
.
عاشورہ کے دن یہود عید مناتے تھے جیسا کہ بخاری کی اگلی روایت میں ہے کہ:
عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ تَعُدُّهُ اليَهُودُ عِيدًا
ترجمہ:
سیدنا ابو موسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہین کہ عاشورہ کا دن یہود عید شمار کرتے تھے
(بخاری روایت2005)
.
خیال رہے کہ پہلے پہل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ کا روزہ رکھا مگر پھر عاشورہ سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد کے روزے کا بھی حکم دیا تاکہ یہود کی مخالفت ہو، مشابہت نہ ہو
خَالِفُوا الْيَهُودَ صُومُوا التَّاسِعَ وَالْعَاشِرَ
ترجمہ:
یہودیوں کی مخالفت کرو اور عاشورہ کے ساتھ نو محرم کا بھی روزہ رکھو...(شعب الایمان روایت3509)
.
خلاصہ:
ان تینوں روایتوں میں غور کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ یہود و عیساءیوں مشرکوں غیرمسلموں کے وہ تہوار کہ جو سچائی و حق پر مبنی ہوں اس دن کو مسلمان بھی اس طرح مناسکتے ہیں کہ یہود و عیساءیوں ہندو وغیرہ کی مشابہت نہ ہو بلکہ انکی مخالفت ہو....
.
مشرکوں ، ہندو، اہل کتاب یہودیوں عیساءیوں وغیرہ کو حق سمجھ کر یا ان سے دوستی رکھ کر یا انکی مشابہت کرتے ہوئے انکے مذہبی تہوار مسلمان نہیں منا سکتا اگرچہ وہ تہوار صحیح و سچائی کی بنیاد پر ہی کیوں نہ ہوں، انکے تہواروں میں شرکت نہیں کرسکتا، انہیں اپنی جگہ ٹھیک نہیں کہہ سکتا، مبارکباد نہین دے سکتا
البتہ
شرکت تائید و حمایت مشابہت کے بغیر غیرمسلموں کے سچائی و حق پر مبنی تہوار مسلمان الگ طور پر اس طرح مناسکتے ہین کہ غیرمسلموں کی مخالفت بھی ہو
.
اب سیدنا عیسی علیہ السلام کا میلاد کس طرح منایا جائے کہ عیسائیوں کی مخالفت ہو…؟؟ اور کس قمری مہینے کس دن منایا جائے..؟ اس کے لیے مسلم علماء و محققین کو تحقیق و اتفاق کرکے فتوی دینا ہوگا
مگر
اس وقت جائز طریقے و دن ڈھوندنے کے بجائے ایک اہم معاملے پر علماء سرگرم ہیں وہ معاملہ یہ ہے کہ کچھ نام نہاد مسلم علماء سیاستدان فنکار صحافی وغیرہ مطلقا مروجہ کرسمس منانے، شرکت کرنے، مبارک دینے کو جائز و رواداری و عالمی امن کہہ رہے ہیں جوکہ مخالفِ اسلام ہے، اسی کے رد میں علماء ورکرز سرگرم ہیں....
.
ایک اور حدیث پاک ملاحظہ کیجیے
الحدیث:
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم " يصوم يوم السبت والأحد أكثر ما يصوم من الأيام، ويقول: إنهما يوماعيد للمشركين فأنا أحب أن أخالفهم
ترجمہ:
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے ایام کے مقابلے میں ہفتے اور اتوار کے اکثر ایام میں زورہ رکھا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ:
یہ مشرکوں(یہود و عیسائیوں) کے عیدوں کے دن ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ انکی مخالفت کروں...(سنن کبری نسائی حدیث2789, صحیح ابن خزیمہ2167, مستدرک حاکم1593)
.
دیکھا آپ نے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت و اسلامی تعلیم و اصول یہ ہے کہ یہود و نصاری، مشرک و ہندو، ملحدین وغیرہ اسلام مخالف مذاہب و مسالک کی عیدوں میں انکی مخالفت کرنی چاہیے...انکی موافقت کرتے ہوئے مبارک دینا اسلامی تعلیمات میں سے نہیں...
.
یہ مخالفت کا حکم مطلق ہے چاہے انکی عید کسی صحیح نظریے پر ہو یا غلط نظریے پر ہرحال میں انکی عیدوں کے دن کی مخالفت کی جائے گی...دیکھیے ہفتے کے دن عیسائیوں کی عید کسی بری بنیاد پر مبنی نہین بلکہ اسکا عیسائیوں کے لیے عید ہونے کا تذکرہ قران مجید میں ہے مگر پھر بھی اس عید کے دن مخالفت کا حکم ہے
کیونکہ
مجموعی طور پر یہود و نصاری ہندو وغیرہ غیراسلام مذاہبِ مروجہ غلط نظریات و معمولات پر مبنی ہیں حتی کہ اس حدیث پاک مین انکو مشرک تک کہا گیا ہے
.
لیھذا
کرسمس ہولی دیوالی وغیرہ صحیح نظریات کی بنیاد پر عید مانی جائے تو بھی اسکی مخالفت کی جائے گی، شرکت نہ کی جاءے گی، مبارکبادی نہ دی جائے، ہندو یہود و نصاری وغیرہ کی مخالفت کی جائے گی کیونکہ مجموعی طور پر یہود و نصاری ہندو وغیرہ ٹھیک نہیں...انہیں بدل کر مسلمان کرنا ہی اسلام کا اصل منشاء و مقصد ہے... اسلام ان کو کچھ مشروط حقوق دیتا ہے کہ وہ اپنی مذہبی تہوار منائیں مگر مسلمانوں کو اجازت نہیں دیتا کہ ان میں شرکت کریں یا مبارک باد دیں... رواداری یہ ہے کہ ہم انکے تہوار نہ منائیں مگر وہ خود حدود میں منائیں تو روا ہے....ان میں مسلمانوں کی شرکت رواداری نہین بلکہ خلافِ اسلام اقدام،منافقت و مشارکت ہے…ہمیں اسلامی عید پے غیرمسلم مبارک باد دیں، تحائف دیں ، دعوت کریں تو قبول نہ کیجیے اور یہ مت سوچیے کہ انہوں نے مبارکبادی دی لیھذا بدلے میں ہمیں ان کے تہواروں پے مبارکباد دینی چاہیے بلکہ دوٹوک بولیے کہ
معذرت اے غیرمسلم ذمیوں تم سے دشمنی نہیں،معاہدے کےتحت حدود میں تم اور ہم پر امن رہیں گےمگر ہم تمھارے تہواروں میں شرکت نہیں کرسکتے،تمھیں حق نہیں کہہ سکتے،تمھیں مبارکباد نہیں دےسکتے…البتہ اس طرح مبارکبادی دی جاسکتی ہے کہ انکا رد بھی ہو
مثلا "سیدنا عیسی علیہ السلام  کو نہ خدا،  نہ خدا کا بیٹا کہنے سمجھنے والوں کو ولادت و میلاد مبارک و خیر مبارک"
مثلا "دیوی دیوتاؤں بتوں کے نام و عقیدت کے بغیر اور بےحیائی و بےپردگی و نشے کے بغیر والی ہولی دیوالی کی خوشیاں مبارک و خیر مبارک"....مثلا آتشبازی نشہ بےحیائی اسراف و گناہ کے بغیر نیا سال مبارک و خیر مبارک"
یہی برحق رواداری ہے
.
یہود کہتے ہیں عزیر تو اللہ کا بیٹا ہے،عیسائی کہتے ہیں مسیح(سیدنا عیسی)اللہ کا بیٹا ہے، یہ سب ان کے منہ کی باتیں ہیں(اللہ تو بیوی بیٹا بیٹی سے پاک ہےاور)اللہ کے سوا کوئی معبود و خدا نہیں(سورہ توبہ30,31)سیدنا عیسی علیہ السلام کو قولا فعلا غیراللہ و غیرمعبود سمجھنے والوں کو میلاد سیدنا عیسی مبارک
.
الحدیث:
قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة ولهم يومان يلعبون فيهما، فقال: ما هذان اليومان؟ قالوا: كنا نلعب فيهما في الجاهلية، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الله قد أبدلكم بهما خيرا منهما: يوم الأضحى، ويوم الفطر 
ترجمہ:
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو اہلِ مدینہ کے دو دن مقرر تھے جس میں میں کھیل کود تفریح کرتے(عید مناتے تھے) آپ علیہ السلام نے فرمایا یہ کیا دن ہیں..؟ عرض کی کہ جاہلیت کے زمانے میں ہم اس دن کھیل کود تفریح کرتے تھے، اس پر آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا:
بے اللہ نے ان دِنوں کے بدلے میں اچھے دن یعنی عیدالفطر اور عیدالاضحی عطا کیے ہیں
(ابو داود حدیث1134)
.
اسی حدیث پاک کی شرح میں ہے کہ:
.نهي عن اللعب والسرور فيهما، من أهدى في النيروز بيضة إلى مشرك تعظيما لليوم فقد كفر بالله تعالى، وإن أراد بالشراء التنعم والتنزه، وبالإهداء التحاب جريا على العادة، لم يكن كفرا لكنه مكروه
خلاصہ:
ان(غیر اسلامی مذہبی تہواروں)میں اہل.اسلام کو کھیل کود تفریح سے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا ہے، نوروز(غیراسلامی مذہبی تہوار)کے دن اس دن کی تعظیم کرتے ہوئے کسی مسلم نے انڈہ کسی مشرک کو ہدیہ دیا تو وہ کافر ہو گیا، ہاں اگر بغیر تعظیم کے یہ کیا تو گناہ.و.ممنوع ہے کفر نہیں
(مرقاۃ شرح مشکاۃ تحت الحدیث1439)
.
وَكَمَا أَنَّهُمْ لَا يَجُوزُ لَهُمْ إِظْهَارُهُ فَلَا يَجُوزُ لِلْمُسْلِمِينَ مُمَالَاتُهُمْ عَلَيْهِ وَلَا مُسَاعَدَتُهُمْ وَلَا الْحُضُورُ مَعَهُمْ بِاتِّفَاقِ أَهْلِ الْعِلْمِ
اہل علم کا متفقہ فتوی ہے کہ اہل کتاب(مسلم ممالک)میں سرعام اپنی عیدیں نہیں مناسکتے(اپنے چرچوں گرجاگھروں میں بلند آواز کے بغیر مناسکتےہیں)اہل کتاب کی عیدوں کے دن مسلمان(عوام و حکمران) شرکت و تائید نہیں کرسکتے(مبارکباد نہیں دےسکتے)(احکام اہل الذمۃ3/1245ملخصا)
.
وَلَا يُمَكَّنُونَ مِنْ إظْهَارِ صَلِيبِهِمْ فِي عِيدِهِمْ؛ لِأَنَّهُ إظْهَارُ شَعَائِرِ الْكُفْرِ، فَلَا يُمَكَّنُونَ مِنْ ذَلِكَ فِي أَمْصَارِ الْمُسْلِمِينَ، وَلَوْ فَعَلُوا ذَلِكَ فِي كَنَائِسِهِمْ لَا يُتَعَرَّضُ لَهُمْ
مسلمانوں کے علاقوں میں عیسائیوں کو انکے عید کے دن صلیب اور دیگر شعار و مذہبی نشانیاں سرعام دکھانے کی اجازت نہیں دی جائے گی،اگر اپنے چرچ میں کریں تو روا ہے
(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ,7/113)

یہ ہے اصل رواداری......ہندو یہودی عیسائی ملحد وغیرہ کو انکے مخصوص عقائد و اعمال و تہوار سرعام منانے کی اجازت نہیں تو شرکت کرنا مبارکیں دینا بدرجہ اولیٰ ممنوع قرار پائے گا
.
*#بس_دل_صاف ہونا چاہیے...؟؟اور قشقہ(ٹیکہ)صلیب.....؟؟*
الحدیث:
 لَا يَسْتَقِيمُ إِيمَانُ عَبْدٍ حَتَّى يَسْتَقِيمَ قَلْبُهُ، وَلَا يَسْتَقِيمُ قَلْبُهُ حَتَّى يَسْتَقِيمَ لِسَانُهُ "
بندے کا ایمان درست نہیں ہوسکتا اگر دل(باطن)درست نہ ہو اور دل درست نہیں ہوسکتا اگر زبان(ظاہر)درست نہ ہو(مجمع زوائد حدیث165) اللہ انہیں ہدایت دے جو بدعملی بےحیائی بدکلامی بدعقیدگی بد اخلاقی وغیرہ ظاہری برائیوں سے نہیں بچتے اور کہتے ہیں کہ"بس دل صاف ہونا چاہیے"
.
فتاوی رضویہ میں ہےکہ:
یہ خیال کہ باطِن (یعنی دل) صاف ہونا چاہئے ظاہر کیسا ہی ہو مَحض باطِل ہے،حدیث میں فرمایا کہ"اِس کا دل ٹھیک ہوتا تو ظاہر آپ(یعنی خود ہی) ٹھیک ہوجاتا(فتاوی رضویہ 605/22)
سیدی رضا کا اشارہ شاید مزکورہ حدیث پاک کی طرف ہے،شاید انہوں نے اسی حدیث پاک کا مستدل و خلاصہ و مفھوم لکھا ہے...واللہ تعالیٰ اعلم
.
من وضع قلنسوۃ المجوس علی راسہ فقیل لہ فقال ینبغی ان یکون القلب سویا کفر"قال"ای لانہ ابطل حکم ظواھر الشریعۃ
ترجمہ:
جس نے اپنے سر پر مجوس کی ٹوپی رکھی،پھر اس سے کہا گیا(تو نے ایسا کیوں کیا)تو اس نے کہا دل سیدھا صاف ہونا چاہئے،تو یہ کفر ہوگیا...فرمایا(یعنی اس کے کفر کی وجہ یہ ہے کہ)اس نے شریعت کے ظاہری احکام کو ٹھکرایا
(فتاوی رضویہ24/549
نحوہ فی "الجامع فی الفاظ الکفر ص84)
.

مسئلہ ۲۲ و ۲۳:ماتھے پر #قشقہ(ٹیکہ) تِلك لگانا یا کندھے پر صلیب رکھنا کفر ہے،وفی منح الروض،لووضع الغل علی کتفہ فقد کفر اذا لم یکن مکرھا
منح الروض میں ہے اگر کسی نے اپنے کندھے پر زنجیر (صلیب)رکھی تو کافر ہوگیا بشرطیکہ مجبورنہ کیاگیا ہو
(فتاوی رضویہ24/549ملتقطا)

 لیھذا غیراسلامی مذہبی تہوار منانا ، شرکت کرنا ، مبارکبادیں دینا تحائف لینا دینا رواداری کہنا قشقےٹیکے لگوانا صلیب کی تعظیم کرنا غیراسلامی مذہبی شعار اپنانا یا انکی تعظیم کرنا
بےپردگی بےحیائی برائی کرنا
اور
کہنا کہ بس دل صاف ہونا چاہیے،ہرگز ہرگز ٹھیک نہیں،یہ ریاست مدینہ کی تعلیمات نہیں…چونکہ غیر مسلم کئ گندے و باطل نظریات و اعمال والے ہیں لیھذا انہیں مبارکباد دینا دل کی صفائی نہیں بلکہ گندگی و باطل ہونے پے تائید و منافقت و مفاد پرستی و جہالت ہے حتی کہ جو مبارکباد دے اسے علماء نے قابل سزا جرم قرار دیا ہے
مغنی المحتاج میں ہے:
ويعزر من وافق الكفار في أعيادهم،ومن هنأه بعيده
ترجمہ:
جو کافروں کے مذہبی تہواروں میں ان سے موافقت کرے اسے تعزیراً سزا دی جائے گی، اور اسے بھی تعزیراً سزا دی جائے گی جو غیرمسلموں کے مذہبی تہواروں پے مبارکباد دے(مغنی المحتاج4/194بالحذف الیسیر)
.
القرآن،ترجمہ:
سرکشی اور گناہ میں مدد نا کرو.(سورہ مائدہ آیت2)
اسی ایت سے استدلال کرتے ہوئے علماء کرام نے
فتوی دیا کہ:
نصرانی نے مسلمان سے گرجے کا راستہ پوچھا یا ہندو نے مندر کا تو نہ بتائے کہ گناہ پر اعانت(مدد)کرنا ہے۔ اگرکسی مسلمان کا باپ یا ماں کافر ہے اور کہے کہ تو مجھے بت خانہ پہنچا دے تو نہ لے جائے اور اگر وہاں سے آنا چاہتے ہیں تولاسکتا ہے۔ (عالمگیری کتاب السیر،الباب الثامن فی الجزیۃ فصل 2/350 بحوالہ بہار شریعت حصہ 9 ص452)
.
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قرآن و احادیث سے اخذ کرکے فتوی دیا اور صحابہ علیھم الرضون نے بلانکیر عملا تائید کی کہ:
اجْتَنِبُواأَعْدَاءَ اللهِ الْيَهُودَ , وَالنَّصَارَى فِي عِيدِهِمْ يَوْمَ جَمْعِهِمْ , فَإِنَّ السَّخَطُ يَنْزِلُ عَلَيْهِمْ
ترجمہ:
اللہ کے دشمن یہود و نصاری کے تہواروں عیدوں(میں شرکت تائید غیر مشروط مبارکبادی) سے دور رہو کہ بےشک ان پر اللہ کا غضب نازل ہوتا ہے
(شعب الایمان روایت8940)
.
*تمام مکتبہ فکر کے مطابق غیر مسلموں یا مسلمان فاسقوں کے ساتھ مشابہت کرنا کم از کم ممنوع و ناجائز ہے کیونکہ حدیث پاک ہے کہ«مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ» یعنی جو جس سے مشابہت کرے گا وہ اسی میں شمار ہوگا...ہر مکتبہ فکر سے چند حوالہ جات حاضر ہیں......!!*
غیرمقلدوں اہلحدیثوں کے ہاں معتبر علامہ کحلانی لکھتے ہیں:
من تشبه بقوم) ظاهرًا في ملبوسه وهيئته (فهو منهم) معدود إن كانوا من أهل الخير فهو من أهله أو من أهل الشر.. وقال ابن حجر في الفتح: سنده حسن
 حدیث مبارکہ میں ہے کہ جو جس سے مشابہت کرے گا وہ اسی میں شمار ہوگا اس سے مراد یہ ہے کہ ظاہری لباس میں یا ہیئت میں( یا افعال میں کسی بھی معاملے میں)مشابہت کرے گا تو وہ اسی میں شمار ہوگا اگر بروں کی مشابہت کرے گا تو برا شمار ہوگا غیرمسلموں کی مشابہت اختیار کرے گا تو یا تو کافر ہوگا یا گناہ ہوگا اگر اچھوں کی مشابہت اختیار کرے گا تو اچھا کہلائے گا.... علامہ ابن حجر نے اس حدیث کی سند کو حسن کہا ہے(جو کہ معتبر ہے دلیل بن سکتی ہے)
(التنوير شرح الجامع الصغير10/178)
.
غیرمقلدوں اہلحدیثوں کے ہاں معتبر علامہ محمد بن علي بن آدم بن موسى الأثيوبي الولوي لکھتے ہیں:
لأن موافقتهم فِي ذلك تشبه بهم، وَقَدْ قَالَ صلّى الله تعالى عليه وسلم فيما أخرجه أبو داود بإسناد صحيح، منْ حديث ابن عمر رضي الله تعالى عنهما، مرفوعًا: "منْ تشبّه بقوم، فهو منهم"
( غیر مسلموں کی اور فجار کی اور فاسقوں کی)مشابہت نہیں کر سکتے کیوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ جو جس سے مشابہت کرے گا وہ اسی میں شمار ہوگا اس کی سند صحیح ہے
( ذخيرة العقبى في شرح المجتبى32/255)
.
غیرمقلدوں اہلحدیثوں نجدیوں سعودیوں کے ہاں معتبر علامہ ابن باز لکھتا ہے:
فقد أخرج أبو داود وابن حبان وصححه عن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من تشبه بقوم فهو منهم (٣) » وهو غاية في الزجر عن التشبه بالفساق أو بالكفار في أي شيء مما يختصون به من ملبوس أو هيئة
 امام ابو داؤد اور امام ابن حبان نے حدیث نقل کی ہے اور اس کو صحیح قرار دیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو جس سے مشابہت اختیار کرے گا وہ اسی میں شمار ہو گا... اس حدیث پاک میں ڈانٹا گیا ہے کہ فاسقوں اور کافروں سے مشابہت نہیں کرنی چاہیے چاہے وہ کسی بھی معاملے میں لباس میں ہو یا ہیئت میں ہو یا کسی بھی معاملے میں ہو
(مجموع فتاوى ومقالات متنوعة - ابن باز25/350)
.
«مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ» أَخْرَجَهُ أَبُو دَاوُد وَصَحَّحَهُ ابْنُ حِبَّانَ) الْحَدِيثُ فِيهِ ضَعْفٌ وَلَهُ شَوَاهِدُ عِنْدَ جَمَاعَةٍ مِنْ أَئِمَّةِ الْحَدِيثِ عَنْ جَمَاعَةٍ مِنْ الصَّحَابَةِ تُخْرِجُهُ عَنْ الضَّعْفِ...وَالْحَدِيثُ دَالٌّ عَلَى أَنَّ مَنْ تَشَبَّهَ بِالْفُسَّاقِ كَانَ مِنْهُمْ أَوْ بِالْكُفَّارِ أَوْ بِالْمُبْتَدِعَةِ فِي أَيِّ شَيْءٍ مِمَّا يَخْتَصُّونَ اعتقد کفر، لم یعتقد لایکفر
 جو جس کے ساتھ مشابہت کرے گا وہ اسی میں شمار ہوگا اس حدیث کو امام ابو داؤد نے نقل کیا ہے اور امام ابن حبان نے نقل کیا ہے اور صحیح قرار دیا ہے...حدیث میں ضعف ہے لیکن ائمہ حدیث کے مطابق صحابہ کرام سے ایسی احادیث بطور شواہد منقول ہیں ہیں جو اس حدیث کو ضعیف ہونے سے نکال کر معتبر حدیث بنا دیتے ہیں.... حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو فاسقوں کے ساتھ مشابہت کرے گا تو وہ انہی میں شمار ہوگا اور جو کفار کے ساتھ یا بد مذہبوں کے ساتھ بدعتیوں کے ساتھ مشابہت کرے گا تو اگر اعتقاد جواز کا رکھے گا تو کفر ہو گا اگر اعتقاد جواز کا نہیں رکھے گا تو گناہ گار ہوگا
(سبل السلام2/647ملخصا)
.
سلفیوں غیرمقلدوں نجدیوں وہابیوں اہلحدیثوں کے ہاں معتبر عالم ابن قیم لکھتا ہے:
من تشبه بقوم فهو منهم» وهذا إسناد جيد وهذا الحديث أقل أحواله أن  يقتضي تحريم التشبه بهم
 حدیث پاک میں ہے کہ جو جس سے مشابہت کرے گا اسی میں شمار ہوگا اس کی سند جید معتبر ہے... اس حدیث پاک سے کم سے کم اتنا تو ضرور ثابت ہوتا ہے کہ کفار(اور فاسقوں) کے ساتھ مشابہت کرنا حرام ہے
(اقتضاء الصراط المستقيم1/269)
.
الحديث سنده حسن.قال المؤلِّف: أخرجه أبو داود، وصحَّحهُ ابن حبان.والحديث فيه ضعف، ولكن له شواهد عند جماعة من أئمة الحديث، عن جماعةٍ من الصحابة، تُخْرِجه عن دائرة الضعف....الحديث يدل على أنَّ من تشبَّه بالفسَّاق كان منهم، أو بالكفَّار، أو المبتدعة، في أي شيء...كان على طريقتهم
 جو جس کے ساتھ مشابہت کرے گا اسی میں شمار ہوگا اس کی سند حسن معتبر ہے... اس کو امام ابو داؤد نے نقل کیا ہے اور ابن حبان نے صحیح قرار دیا ہے حدیث میں ضعف ہے لیکن اس کے دیگر احادیثی شواہد ہیں کہ جو اس کو ضعیف ہونے سے نکال کر معتبر بنا دیتے ہیں... حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ فاسقوں کے ساتھ جو مشابہت کرے گا وہ انہی میں شمار ہوگا یا جو کفار اور بد مذہبوں کے ساتھ کسی بھی معاملے میں مشابہت کرے گا تو وہ انہی کے طریقہ پر کہلائے گا
(توضيح الأحكام من بلوغ المرام7/363)
.
امام ملا علی قاری حنفی سنی جو دیوبندیوں اور اہلسنت کے ہاں معتبر ہیں وہ لکھتے ہیں اور وہابیوں دیوبندیوں کے ہاں معتبر عالم خلیل احمد لکھتے ہیں:
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - (مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ) : أَيْ مَنْ شَبَّهَ نَفْسَهُ بِالْكُفَّارِ مَثَلًا فِي اللِّبَاسِ وَغَيْرِهِ، أَوْ بِالْفُسَّاقِ أَوِ الْفُجَّارِ أَوْ بِأَهْلِ التَّصَوُّفِ وَالصُّلَحَاءِ الْأَبْرَارِ. (فَهُوَ مِنْهُمْ) : أَيْ فِي الْإِثْمِ وَالْخَيْرِ
 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو جس قوم سے مشابہت کرے گا کفار کے ساتھ مشابہت کرے گا یا فاسقوں کے ساتھ مشابہت کرے گا یا غیر مسلموں کے ساتھ مشابہت کرے گا یا یا نیک لوگوں کے ساتھ مشابہت کرے گا یا تصوف والوں کے ساتھ مشابہت کرے گا تو انہی میں شمار ہوگا... یعنی اچھوں کے ساتھ مشابہت کرے گا تو اچھا شمار ہوگا بروں کے ساتھ مشابہت کرے گا تو گنہگار ہوگا
(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة 7/2782)
(بذل المجهود في حل سنن أبي داود12/59)
.
الواجبُ البعد عن مشابهة أهل الضلال؛ سواء أكان هذا التشبه مما يُخرج من الملة، أو كان يفضي إلى المعصية؛ فإنَّ من تشبه بقوم، فهو منهم.
 واجب ہے کہ گمراہوں سے مشابہت نہ کی جائے، چاہے مشابہت کبھی کفر ہو یا کبھی گناہ ہو کیونکہ حدیث پاک میں ہے کہ جو جس کے ساتھ مشابہت کرے گا وہ اسی میں شمار ہوگا
(توضيح الأحكام من بلوغ المرام2/85)
.
غیرمقلدوں اہلحدیثوں نجدیوں سعودیوں کے ہاں معتبر علامہ ابن باز لکھتا ہے:
فإنا قد نهينا أن نتشبه بهم لقول النبي صلى الله عليه وسلم من تشبه بقوم فهو منهم
 ہمیں منع کیا گیا ہے کہ ان(یہود و نصاری غیرمسلم مشرکین اور فساق فجار وغیرہ)کے ساتھ مشابہت اختیار کریں کیونکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ جو جس سے مشابہت اختیار کرے گا انہی میں شمار ہوگا
(شرح رياض الصالحين لابن عثيمين6/587)

.
علامہ ابن الملک حنفی سنی لکھتے ہیں:
وقال: مَن تشَبَّهَ بقومٍ"؛ يعني من شبَّه نفسَه بالكفارِ مثلاً في اللِّباس وغيرِه، أو بالفُسَّاق، أو بالنّساء، أو بأهلِ التصوف والصلَحاء.فهو منهم" في الإثم والخير
  حدیث پاک میں ہے کہ جو جس کے ساتھ مشابہت اختیار کرے گا وہ اسی میں شمار ہوگا.... جو کفار کے ساتھ مشابہت کرے گا یا فساق کے ساتھ فاسقوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرے گا یا عورتوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرے گا نیک لوگوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرے گا تو انہی میں شمار ہوگا یہ مشابہت لباس کے معاملے میں ہو یا کسی بھی معاملے میں ہو اگر اچھائی میں مشابہت کرے گا تو اچھا شمار ہوگا اگر گناہ میں مشابہت کرے گا تو گناہ گار ہوگا
(شرح المصابيح لابن الملك5/24)
.
دیوبندیوں اور اہلسنت و احناف کے ہاں معتبر محدث دھلوی لکھتے ہیں:
وهو بإطلاقه يشمل الأعمال والأخلاق واللباس سواء كان بالأخيار أو بالأشرار
 حدیث پاک میں ہے کہ جو جس کے ساتھ مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں کہلائے گا یہ حدیث مطلق ہے، ' اعمال کو شامل ہے اخلاق کو شامل ہے لباس کو شامل ہے کہ جو بھی جس بھی معاملے میں جس کے ساتھ مشابہت اختیار کرے گا انہی میں شمار ہوگا اگر اچھوں کی مشابہت اختیار کرے گا تو اچھا شمار ہوگا اگر بروں کی مشابہت اختیار کرے گا تو برا شمار ہوگا
(لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح7/356)
.
علامہ مناوی شافعی سنی لکھتے ہیں:
فمن سلك طريق أهل الله ورد عليهم فصار من السعداء ومن سلك طريق الفجار ورد عليهم وكان منهم فصار من الأشقياء والإنسان مع من أحب ومن تشبه بقوم فهو منهم
 حدیث پاک میں ہے کہ جو جس کے ساتھ مشابہت اختیار کرے گا اسی میں شمار ہوگا لہذا جو اللہ والوں کے طریقے پر چلے گا تو سعادت مندوں میں شمار ہوگا اور اگر فاسق و فاجر کے طریقے پر چلے گا تو بروں میں شمار ہوگا
(فيض القدير5/47)
.
تشبه صنع الكفار، وقد قال عليه السلام: (من تشبه بقوم فهو منهم)
 یہ کفار کے ساتھ مشابہت ہے اور یہ ممنوع ہے کیونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ جو جس سے مشابہت کرے گا اسی میں شمار ہوگا
(فقہ حنفی التجريد للقدوري2/674)
.
وَلَا يَحِلُّ الِاسْتِمَاعُ إلَيْهِ؛ لِأَنَّ فِيهِ تَشَبُّهًا بِفِعْلِ الْفَسَقَةِ
 یہ سننا جائز نہیں ہے کیونکہ اس میں فاسق لوگوں کے ساتھ مشابہت ہے
(فقہ حنفی تبيين الحقائق1/91)
(فقہ حنفی خزانة المفتين ص622 نحوہ)
.
، وذلك صنيع أهل الكتاب، والتشبيه بهم مكروه قال عليه السلام: «من تشبه بقوم فهو منهم
 یہ اہل کتاب کا طریقہ ہے اور اہل کتاب سے مشابہت جائز نہیں ہے کیونکہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا ہے کہ جو جس کے ساتھ مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں شمار ہوگا
(فقہ حنفی النهاية في شرح الهداية3/92)
.
. وَيُمْنَعُ التَّشَبُّهُ بِهِمْ كَمَا تَقَدَّمَ لِمَا وَرَدَ فِي الْحَدِيثِ «مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ»
 (کفار و مشرکین اور اہل کتاب یہود و نصاریٰ فاسق و فاجر وغیرہ کے ساتھ)مشابہت ممنوع ہے کیونکہ حدیث پاک میں ہے کہ جو جس کے ساتھ مشابہت اختیار کرے گا وہ انہی میں شمار ہوگا
(فقہ مالکی المدخل لابن الحاج2/48)
.
وَمِنْ أَقْبَحِ الْبِدَعِ مُوَافَقَةُ الْمُسْلِمِينَ النَّصَارَى فِي أَعْيَادِهِمْ بِالتَّشَبُّهِ بِأَكْلِهِمْ وَالْهَدِيَّةِ لَهُمْ وَقَبُولِ هَدِيَّتِهِمْ فِيهِ وَأَكْثَرُ النَّاسِ اعْتِنَاءً بِذَلِكَ الْمِصْرِيُّونَ وَقَدْ قَالَ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - «مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ»
 بری بدعتوں میں سے ہے کہ یہود و نصاری کی عیدوں تہواروں میں اس طرح مشابہت کی جائے کہ ان کے ساتھ کھانا کھایا جائے یا انہیں تحفہ دیا جائے یا ان کا تحفہ قبول کیا جائے تو یہ سب بری بدعت ہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو جس کے ساتھ مشابہت اختیار کرے گا اسی میں شمار ہوگا
(فقہ شافعی الفتاوى الفقهية الكبرى4/239)
.
هو من فعل المجوس، "ومن تشبه بقوم فهو منهم
 یہ مجوسیوں کا طریقہ ہے ممنوع ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو جس کے ساتھ مشابہت اختیار کرے گا اسی میں شمار ہوگا
(فقہ حنبلی الجامع لعلوم الإمام أحمد - الفقه13/347)
.
لما فيه من التشبه بأهل الكتاب وفي الحديث «من تشبه بقوم فهو منهم» رواه أحمد وغيره بإسناد صحيح
 ممنوع ہے اور جائز نہیں ہے کیونکہ اس میں اہل کتاب یہود و نصاری کی مشابہت ہے اور حدیث پاک میں ہے کہ جو جس کے ساتھ مشابہت کرے گا انہی میں شمار ہوگا ہے اسکی سند صحیح ہے
(فقہ حنبلی حاشية الروض المربع لابن قاسم1/515)
.
طاہر الکادری منہاجی کا نظریہ:
جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے وہ اُنہی میں سے (شمار ہوتا) ہے۔‘‘اس حدیث مبارکہ کی رو سے رسم و رواج کی ہر وہ چیز جو غیرمسلموں تک مخصوص ہو وہ ممنوع ہوگی
(برائے مزید معلومات ملاحظہ ہو: خطاب شیخ الاسلام، سی ڈی نمبر: 540)
.
 مذکورہ بالا تمام حوالہ جات سے بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ چاہے کوئی مقلد ہو چاہے کوئی غیرمقلد ہو، چاہے کوئی اہلحدیث ہو چاہے کوئی وہابی ہو، چاہے سلفی ہو چاہے دیوبندی ہو منہاجی ہو یا پھر اہل سنت حنفی شافعی مالکی حنبلی ہو
 سب کے مطابق اہل کتاب یہود و نصاری غیرمسلم مشرکین اور فاسق و فاجر وغیرہ سے مشابہت نہیں کر سکتے اور انہوں نے دلیل اسی حدیث پاک کو بھی بنایا ہے کہ جس میں ہے کہ جو جس کے ساتھ مشابہت اختیار کرے گا اسی میں شمار ہوگا.... محققین کا اس حدیث پاک سے دلیل پکڑنا اور پھر اسے حسن قرار دینا معتبر قرار دینا صحیح قرار دینا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ حدیث انفرادی طور پر ضعیف ہو تو بھی شواہد و وجوہ تحسین کی وجہ سے حسن معتبر صحیح ہے
.
*یہودی عیسائی وغیرہ اہل کتاب و ہندو و ملحد وغیرہ غیرمسلموں کی گندگی و باطل ہونے کی ایک جھلک ملاحظہ کیجیے*
القرآن:
 بَلۡ لَّعَنَہُمُ اللّٰہُ بِکُفۡرِہِمۡ
بلکہ ان کے کفر کی وجہ سے ان(کافر منکر یہود و نصاری وغیرہ اہل کتاب)پے اللہ کی لعنت ہے
(بقرہ آیت88) کفر پر لعنت تو کفر سے بڑھ کر جو چیز ہے یعنی شرک و لادینیت نیچریت الحادیت ہندوئیت یہودیت وغیرہ پر تو زیادہ مستحق لعنت ہیں
کفر  و شرک الحادیت تو بڑی گندگی ہے، گندگی والوں کو کیسے اچھا برحق کہا جاسکتا ہے ، کیسے مبارکیں دیں جاسکتی ہیں...؟
.
القرآن:
اِنَّ الَّذِیۡنَ یَکۡتُمُوۡنَ مَاۤ اَنۡزَلۡنَا مِنَ الۡبَیِّنٰتِ وَ الۡہُدٰی مِنۡۢ بَعۡدِ مَا بَیَّنّٰہُ لِلنَّاسِ فِی الۡکِتٰبِ  ۙ  اُولٰٓئِکَ یَلۡعَنُہُمُ اللّٰہُ  وَ  یَلۡعَنُہُمُ  اللّٰعِنُوۡنَ
ترجمہ:
جو(یہود و نصاری وغیرہ اہل کتاب)میں سے جو بینات و ھدی کو چھپاتے ہیں(یا تحریف کرتے ہیں) ان پر اللہ کی لعنت ہے اور لعنت کرنے والوں کی لعنت ہے
(سورہ بقرہ آیت159)
احکامات شرعیہ کو بدلنے والے چھپانے والے اہل کتاب اور مسلمانوں میں سے منافق بدمذمب تو گندگی والے ہیں، ان کے ساتھ محبت کیسے کی جاسکتی ہے، کیسے مبارکیں دی جاسکتی ہیں...؟؟
.
القرآن:
اُولٰٓئِکَ جَزَآؤُہُمۡ  اَنَّ عَلَیۡہِمۡ لَعۡنَۃَ اللّٰہِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ وَ النَّاسِ اَجۡمَعِیۡنَ....اِلَّا الَّذِیۡنَ تَابُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِ ذٰلِکَ وَ اَصۡلَحُوۡا
ترجمہ:
ان(کافر منکر اہل کتاب) کی جزاء یہ ہے کہ ان پر اللہ ملاءکہ اور تمام لوگوں کی لعنت ہے ہاں ان پر لعنت نہیں جو توبہ کریں ایمان لائیں نیک بن جائیں
(سورہ آل عمران ایت87,89)
.

القرآن:
اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ اُوۡتُوۡا نَصِیۡبًا مِّنَ الۡکِتٰبِ یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡجِبۡتِ وَ الطَّاغُوۡتِ وَ یَقُوۡلُوۡنَ لِلَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ہٰۤؤُلَآءِ اَہۡدٰی مِنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا سَبِیۡلًا...اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ ؕ
ترجمہ:
کیا تم نے، وہ(یہود نصاری وغیرہ اہل کتاب) نہ دیکھے جنہیں کتاب کا ایک حصہ ملا ایمان لاتے ہیں بت اور شیطان پر اور کافروں کو کہتے ہیں کہ یہ مسلمانوں سے زیادہ راہ پر ہیں،انہی(کافر مشرک منکر اہل کتاب)پے اللہ کی لعنت ہے
(سورہ نساء آیت51,52)
بت و شیطان اور شیطانی کام مثلا فحاشی زنا جوا سود نشہ والوں کو کیسے اچھا کہا جاسکتا ہے....ایسی گندگی عیاشی من پرستی کو لفظاً یا عملاً جائز قرار دینے والے یہودی عیسائی ہندو وغیرہ کو کیسے مبارکیں دی جاسکتی ہیں....؟؟
.
الحدیث،ترجمہ:
ہر شخص اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے لیھذا تمہیں سوچنا چاہیےکہ تم کس سے دوستی کر رہے ہو
(ترمذی حدیث2378)
#کرسمس منانےوالے نام نہاد مسلمان اصلی مسلمان ہی نہیں منافق یا گمراہ ہیں الا مجبور شرعی کے.......!!
.
پہچانیے.....!!
پہچانیے ایسے منافق، مکار، دھوکے باز لیڈروں کو، جعلی مولویوں کو ، حکمرانوں کو، سیاستدانوں کو جو مسلمان بھی کہلاتے ہیں اور یہودی ہندو سکھ عیسائی انگریز لبرل وغیرہ غیرمسلموں کے بھی ہوتے ہیں، سب سے دوستیاں نبھاتے ہیں
.
القرآن..ترجمہ:
اور تم(مسلمان کہلانے والوں)میں سے جو ان(یہودیوں عیسائیوں وغیرہ غیرمسلموں)سے دوستی کرے گا وہ انہی میں شمار ہوگا...(سورہ مائدہ آیت51)
.
القرآن...ترجمہ:
لوگوں میں سے کچھ ایسے(منافق مکار دھوکے باز)ہیں جو کہتے ہیں ہم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لائے حالانکہ وہ ایمان لانے والے نہیں، اللہ کو اور ایمان والوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں، وہ دھوکہ تو اپنے آپ کو دے رہے ہیں..
(سورہ بقرہ ایت8,9)
جب ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان والے ہیں اور جب اپنے شیطانوں(غیرمسلم لیڈروں عھدے داروں وغیرہ) سے الگ ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تمھارے ساتھ ہیں
(سورہ بقرہ آیت14)
.
پہچانیے ایسے منافقوں کو مکاروں کو... ایسوں کا ساتھ نا دیجیے... انہیں ووٹ و عزت نا دیجیے... ان سے تعاون نا کریں، انکی پیروی نا کریں... اس طرح یہ اپنی موت آپ مرجائیں گے..
.

ہولی دیوالی کرسمس نوروز وغیرہ غیراسلامی تہواروں کے متعلق فتوے کا خلاصہ:
آیات، احادیث و آثار میں غور کیا جائے تو ثابت ہوتا ہے کہ:
کافروں کے میلے، تہوار(کرسمس ہولی دیوالی نوروز وغیرہ)اور مذہبی جلوسوں کی شان و شوکت بڑھانا، شان و شوکت بڑھانے یا تعظیم کے لیے ان تہواروں میں شرکت کرنا، ان تہواروں کی تعظیم کرنا، ان تہواروں کی تعظیم میں تحفے دینا، مبارکباد دینا، الغرض کسی بھی طریقے سے تعظیم کرنا کفر ہے
البتہ
اگر تعظیم اور شان و شوکت بڑھانا مقصد نا ہو اور کوئی کفریہ شرکیہ کام بھی نا کیا جائے اور کوئی کفریہ شرکیہ الفاظ بھی نا کہے جائیں تو کفر نہیں بلکہ گناہ ہے مکروہ و ممنوع ہے
البتہ
اہل کتاب، یہود و عیساءیوں وغیرہ غیرمسلموں کے وہ تہوار کہ جو سچائی و حق پر مبنی ہوں اس دن کو مسلمان بھی اس طرح مناسکتے ہیں کہ انکی مشابہت نہ ہو بلکہ انکی مخالفت ہو..(ماخذ:بہارِ شریعت جلد1 حصہ9 صفحہ88 فتاوی رضویہ جلد21 صفحہ157, 166,170,186 اور جلد21/30، صفحہ 264-266 )
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
whats App،twitter nmbr
00923468392475
03468392475
other nmbr
03062524574


Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.