کیا سید گمراہ ہوسکتا ہے؟ گمراہ ہوجائے تو امامت تعظیم کی جائے گی؟علامہ سعید احمد اسعد پر ناصبیت کے الزام کا جواب

 




 

*کیا سید، خون رسولﷺگمراہی کفر گناہ سے پاک ہیں..؟؟سید اگر بدمذہب ہوجائے تو..؟؟ ملاں چمن زمان وغیرہ کا علامہ سیعد احمد اسعد پر گستاخی بغض اہلبیت ناصبیت کے الزام کا جواب......!!*

حاصل تحریر:

کئ علماء اہلسنت نے قرآن و سنت سے ثابت کیا کہ بعد کے سید حضرات گناہ کفر شرک گمراہی کرسکتے ہیں،ایسا نظریہ رکھنا ناصبیت نہیں ہے،رسول کریم سیدہ فاطمہ و سادات و اہلبیت کی گستاخیِ نہیں ہے.....بعض علماء اہلسنت نے قرآن و سنت سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہوئے فرمایا کہ پہلے کے اور بعد کے تا قیامت سادات گناہ کفر گمراہی نہیں کرتے،جو کفر کرے درحقیقت وہ اصلی سید ہی نہیں ہوگا لیکن ان علماء کے دلائل تحقیق کی کسوٹی عقل و منقولیات کے حساب سے کمزور ہیں...احادیث و فقہ اور سیدی رضا کے فتاوی جات کے مطابق اگر سید کی بدمذہبی حد کفر تک ہو جائے،مرتد ہوجائے تو وہ سید نہیں، مسلمان نہیں رہتا، سمجھانا لازم لیکن جو کفر و ارتداد پے ڈٹا رہے اس سے اب ہرطرح کا بائیکاٹ لازم ، اسکی مذمت کرنا برحق، اسکی تعظیم ختم

اور

اگر حد کفر تک نہ ہو ، مرتد نہ ہو، گمراہ بدعتی فاسق معلن ہو مثلا تفضیلی ہو تو بمطابق فتاوی سیدی امام احمد رضا اسکی حالت تنہائی میں زبانی تعظیم کی جائے گی، پوشیدہ ملاقات کرنا پڑے تو پوشیدہ ملاقاتی ادب کیاجائے گا، اسکی اہانت نہ کرنا لازم ہوگی مگر اس کے ساتھ ساتھ اسے سمجھانا لازم، بدعت گمراہیت تفضیلیت  سے روکنا لازم، گمراہیت بدعت پے ڈٹا رہے تو اس کی وعظ و تقریر نہ سننا لازم،اس سے بائیکاٹ و دوری لازم، اسے امامت خطابت قضاء وغیرہ شرعی عہدوں سے ہٹانا لازم، شرعی عہدے نہ دینا لازم…سرعام ادب نہ کرنا لازم کہ لوگ گمراہ باطل کو حق سمجھیں گے...سچا مسلمان،سنی ہمیشہ سادات کا خادم و باادب ہوتا ہے مگر سید اگر منافق ایجنٹ گمراہ ہوتو اس کی مذمت خود حدیث پاک میں ہے....سید بدعملی گمراہی منافقت کرتا پھرے ہم پھر بھی واہ واہ کریں اسکی سنیں مانیں یہ اسلام نہیں...یہ سادات کے نانا جان کی تعلیمات نہیں..ہمیں سادات سے بڑھ کر ان کے نانا جان حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و علی آلہ و اصحابہ وسلم کی تعلیمات کی پیروی کرنی ہے

.

*علامہ سعید احمد اسعد فرماتے ہیں المفھوم*

خون رسول صلی اللہ علیہ وسلم گمراہ ہوسکتے ہیں لیکن صحابی گمراہ نہیں ہوسکتے

.

چمن زمان وغیرہ کا اعتراض:

چمن زمان صاحب وغیرہ نے علامہ سعید احمد اسعد کے جملے کا معنی غلط لیتے ہوئے اتنا بڑا فتوی لگا دیا کہ سعید احمد کے نزدیک سیدہ فاطمہ حسن حسین وغیرہ اور اسکے بعد کے سادات گمراہ کافر ہوسکتے ہیں، ایسا کہنا ناصبیت بکواس گستاخی ہے

.

*میرا جواب…....!!*

 یہود و نصاریٰ اور گمراہوں رافضیوں نیم رافضیوں فسادیوں کی طرح تم نے غلط معنیٰ مراد لیا.... علامہ سعید احمد اسعد صاحب نے واضح فرمایا کہ صحابہ کرام گمراہ نہیں ہو سکتے تو اہل بیت میں سے وہ اہل بیت بھی ہیں کہ جو صحابہ ہیں جیسے سیدنا حسن حسین سیدہ فاطمہ، تو اہلبیت جسے شرف صحابیت ملا وہ گمراہی کفر فسق و فجور گناہوں سے پاک پاکیزہ نیک عادل دیندار ہیں

البتہ

اس کے علاوہ جو آل رسول ہو، سید ہو وہ کفر گمراہی گناہ کر سکتا ہے یا نہیں......؟؟ تو علامہ سعید احمد اسعد صاحب کے مطابق  یہ ممکن ہے.... تو اس پر رافضیوں اور نیم رافضیوں اور چمن زمان وغیرہ کی طرف سے سعید احمد اسعد صاحب پر نہ جانے کون کون سے فتوے لگانا شروع کر دئیے، گستاخ کافر ناصبی، بغض اہلبیت لعنتی مردود وغیرہ انہیں کہا جانے لگا

.

اب ہم یہ جائزہ لیتے ہیں کہ علامہ سعید احمد اسعد والا نظریہ قرآن و سنت اور اکابرین اہلسنت سے ثابت ہوتا ہے یا نہیں......؟؟

.

*اہم اصول......!!*

 یہ بات بالکل واضح ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن کو گمراہ کافر نہ ہونے کی بشارت دی ان کے علاوہ  امتیوں میں سےکوئی بھی گمراہ کافر مرتد گناہ گار ہو سکتا ہے، یہ بات کئ آیات و احادیث سے ثابت ہے ہم اختصار کے سبب فقط دو ایات مبارکہ پیش کریں گے...صحابہ کرام اور شرف صحابیت والے اہلبیت تو سب علماء کے مطابق قرآن و حدیث کی رو سے اس اصول سے مستثنی ہیں، تو اب بحث پیدا ہوتی ہے کہ کیا بعد کے سید بھی مستثنی ہیں یا نہیں....؟؟ مستثنی نہ ہونا تو بظاہر آیات کے عموم سے ثابت ہوتا ہے کہ بعد کے سادات و غیر سادات میں سے کوئی بھی بظاہر  گمراہ کافر گناہ گار ہوسکتا ہے، اگر کوئی نفی کرے تو اسے دلیل پیش کرنا ہوگی


.

*پہلی آیت…القرآن....!!*

وَ قُلِ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّکُمۡ ۟ فَمَنۡ شَآءَ فَلۡیُؤۡمِنۡ وَّ مَنۡ شَآءَ  فَلۡیَکۡفُرۡ ۙ اِنَّاۤ اَعۡتَدۡنَا لِلظّٰلِمِیۡنَ نَارًا

 آپ فرما دیجئے کہ تمہارے رب کی طرف سے حق آگیا تو اب جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے کفر کر لے کہ(ہمارا کام زبردستی مسلمان کرنا نہیں، جو کفر شرک گناہ کرے گا تو ان کے لیے)ہم نے ظالموں کے لیے کافروں کے لئے جہنم کی آگ تیار کر رکھی ہے

(سورہ الکھف آیت29)

.

وهذا تهديد ووعيد شديد، يقول الله جل جلاله لعباده بواسطة نبيه عليه الصلاة والسلام: بعد أن ظهر لكم الحق، وجاءكم به خاتم الأنبياء محمد صلى الله عليه وسلم، بعد ظهور الحق ومعرفته بأدلته العقلية والمنطقية، فبعد ذلك من شاء فليؤمن ومن شاء فليكفر 

 اس آیت میں ڈرایا گیا ہے اور شدید وعید سنائی گئی ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے تمام بندوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے سنایا کہ جب تم پر حق ظاہر ہوگیا اور تمہارے پاس خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لا چکے تو اب تم چاہو تو ایمان لے آؤ اور چاہو تو کفر کرو(ہمارا کام زبردستی مسلمان کرنا نہیں، جو کفر شرک گناہ کرے گا تو ان کے لیے جہنم کی آگ تیار کر رکھی ہے)

(تفسير المنتصر الكتاني7/5)

.

قد بين لكل واحد منهما عاقبة، فمن شاء اكتسب لنفسه في العاقبة الجنان وما فيها من النعيم، ومن شاء اكتسب ما ذكر في العاقبة من النار وأنواع العذاب، فذلك كله يخرج على الوعيد

 ہر ایک امتی کے لیے واضح ہوگیا ہے کہ اگر چاہے تو وہ اپنے لیے جنت والے کام کرے اور جنت کی نعمتیں پالے اور چاہے تو کفر گناہ گمراہی وغیرہ کرکے جہنم جائے

( تفسير الماتريدي = تأويلات أهل السنة7/166)

.

*دوسری آیت...آلقرآن.......!!*

ثُمَّ  مَاتُوۡا وَ ہُمۡ کُفَّارٌ فَلَنۡ یَّغۡفِرَ اللّٰہُ  لَہُمۡ 

 پھر جو لوگ مر گئے اس حال میں کہ وہ کافر تھے تو اللہ تعالی ان کی ہرگز مغفرت نہیں فرمائے گا

(سورہ محمد آیت34)

.

ثُمَّ مَاتُواْ وَهُمْ كُفَّارٌ فَلَن يَغْفِرَ الله لَهُمْ} قيل هم أصحاب القليب والظاهر العموم

 جو لوگ کافر ہو کر مرے اللہ تعالی ان کی مغفرت نہیں فرمائے گا اس سے مراد اصحاب قلیب ہیں لیکن ظاہر یہ ہے کہ یہ ہر امتی کے لئے ہے( کہ کوئی بھی امتی بعد کے سید غیر سید اگر کفر کی حالت میں مرے گا تو اس کی مغفرت نہیں ہوگی)

(تفسير النسفي = مدارك التنزيل وحقائق التأويل3/330)

.

ثُمَّ مَاتُوا وَهُمْ كُفَّارٌ فَلَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ}قيل: هم أصحاب القليب (٤)، وحكمها عام

جو لوگ کافر ہو کر مرے اللہ تعالی ان کی مغفرت نہیں فرمائے گا کہا گیا ہے کہ اس سے مراد اصحاب قلیب ہیں لیکن اس آہت کا  یہ حکم  ہر امتی کے لئے ہے( کہ کوئی بھی امتی بعد کے سید و غیرسید اگر کفر کی حالت میں مرے گا تو اس کی مغفرت نہیں ہوگی)

(تفسير الثعلبي = الكشف والبيان عن تفسير القرآن ط دار التفسير24/210)

.

ثُمَّ مَاتُواْ وَهُمْ كُفَّارٌ فَلَن يَغْفِرَ الله لَهُمْ} حكمٌ يعمُّ كلَّ مَن ماتَ على الكُفر وإنْ صحَّ نزولُه في أصحابِ القَليبِ

 جو کفر پر مرے ان کی مغفرت نہیں ہوگی یہ حکم تمام لوگوں کو عام ہے کہ جو کفر پر مرے اگرچہ اس کا شان نزول اصحاب قلیب ہیں

(تفسير أبي السعود = إرشاد العقل السليم إلى مزايا الكتاب الكريم8/102)

.

مفسرین و شارحیں فقہاء و علماء و صوفیاء نے دوٹوک فرمایا لکھا کہ سبب و شان نزول کی وجہ سے عمومِ ایت و حدیث کو خاص نہیں کرسکتے بشرطیکہ عموم وسیع معنی مراد لینے سے کوئی چیز مانع نہ ہو...اس اصول کے چند حوالہ جات ملاحظہ کیجیے

هذا تخصيص للعموم بالسبب، والمعتبر عموم اللفظ دون خصوص السبب...

 سبب و شان نزول کی وجہ سے کسی عام کو خاص نہیں کر سکتے بلکہ معتبر عموم وسیع معنی ہی ہوگا 

(فقہ حنفی سنی التجريد للقدوري1/150)

.

: العبرة لعموم اللفظ دون خصوص السبب

 صرف خاص سبب و شان نزول ہی مراد نہیں ہوتا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ دیگر عمومی وسیع معنی بھی مراد ہوتے ہیں

(فقہ حنفی سنی علامہ عینی البناية شرح الهداية1/375)

.

وَالِاعْتِبَارُ لِعُمُومِ اللَّفْظِ وَالْعَامُّ يَبْقَى عَلَى عُمُومِهِ حَتَّى لَا يُعْتَبَرَ مَعَهُ خُصُوصُ السَّبَبِ

 لفظ کا عام ہونا معتبر ہے، عام اپنے عموم پر باقی رہے گا یہاں تک کہ عام طور پر خصوصی سبب و شان نزول کی وجہ سے بھی خاص نہیں کیا جاسکے گا

(علامه ابن عابدین شامی حنفی سنی العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية1/150)


.

فالحق أن العبرة بعموم اللفظ لا بخصوص السبب

 حق یہی ہے کہ لفظ کے عمومی وسیع معنی کا اعتبار ہے ، صرف خصوصی سبب کا نہیں

(علامہ فخر الدین رازی شافعی سنی المحصول للرازي3/125)

.

: كون هذا السبب لا يقتضي خصوص الحكم، بل العبرة بعموم االفظ

 سبب اور شان نزول اس چیز کا تقاضا نہیں کرتے کہ حکم اسی کے ساتھ خاص ہو بلکہ معتبر یہی ہے کہ لفظ کا عام ہونا ہی معتبر ہے

(علامہ سیوطی شافعی سنی حاشية السيوطي على تفسير البيضاوي2/469)

.

وَالْأَصْل وان كَانَ عُمُوم اللَّفْظ لَا خُصُوص السَّبَب لَكِن قد يخص بِالسَّبَبِ إِذا كَانَ هُنَاكَ مَانع من الْعُمُوم

 اصل قاعدہ یہی ہے کہ لفظ کا عام ہونا ہی معتبر ہےصرف خصوص معتبر نہیں لیکن کبھی کبھار عام کو سبب و شان نزول کی وجہ سے خاص کر دیا جاتا ہے بشرطیکہ عام وسیع معنیٰ مراد لینے سے کوئی صحیح مانع ہو

(حاشية السندي على سنن النسائي6/110)

.

وَالعِبْرَةُ فِيهِ: عُمُومُ اللَّفْظِ، لَا خُصُوصُ السَّبَبِ

 لفظ کا عمومی وسیع معنیٰ ہی معتبر ہے فقط سبب و شان نزول مراد نہیں ہوتا

(بابات في علوم القرآن ص6)

.

العبرة بعُمُوم اللَّفْظ لا خُصوص السَّبَب

لفظ کا عمومی وسیع معنیٰ ہی معتبر ہے فقط سبب و شان نزول مراد نہیں ہوتا

(اللباب في علوم الكتاب7/٣08)

.

العبرة عموم اللفظ لا خصوص السبب

لفظ کا عمومی وسیع معنیٰ ہی معتبر ہے فقط سبب و شان نزول مراد نہیں ہوتا

(التنوير شرح الجامع الصغير6/46)

.

إذا كان السّبب خاصّاً والجواب عامّاً جاز، وحمل الحكم على عموم اللفظ لا على خصوص السّبب لأنّه جواب وزيادة فائدة

 سبب خاص ہو اور جواب عام ہو یہ ہوسکتا ہے کہ اضافہ و فائدہ ہے،ایسی صورت میں عموم ہی معتبر ہوگا فقط خصوصِ سبب و شان نزول ہی مراد نہ ہوگا

(فتح السلام شرح عمدة الأحكام من فتح الباري4/382)

.

، والمعتبر عموم اللفظ لا خصوص السبب

لفظ کا عمومی وسیع معنیٰ ہی معتبر ہے فقط سبب و شان نزول مراد نہیں ہوتا

(ذخيرة العقبى في شرح المجتبى5/138)

.

خصوص السبب لا يُخَصِّص لأنه لا يعارضه

 سبب و شان نزول عموما کسی عام کو خاص نہیں کرتے کیونکہ یہ اس کے متضاد نہیں ہے

(الإبهاج في شرح المنهاج - ط دبي4/1503)

.

أن خصوص السبب لا يقدح في عموم اللفظ

 کسی خصوصی سبب و شان نزول کا پایا جانا لفظ کے عام وسیع معنی مراد لینے میں عیب و مانع نہیں

(شرح الزرقاني على المواهب8/510)

.

العبرة في عموم اللفظ لا في خصوص السّبب"

لفظ کا عمومی وسیع معنیٰ ہی معتبر ہے فقط سبب و شان نزول مراد نہیں ہوتا

(موسوعة القواعد الفقهية8/1042)

.

الجمهور: على اعتبار اللفظ دون خصوص السبب

جمھور و اکثر علماء کے مطابق لفظ کا عمومی وسیع معنیٰ ہی معتبر ہے فقط سبب و شان نزول مراد نہیں ہوتا

(الدرر اللوامع في شرح جمع الجوامع2/395)

.

الحدیث:

ومن بطأ به عمله، لم يسرع به نسبه

جسکو اسکا عمل پیچھے کر دے اسے اسکا نسب آگے نہیں کرتا

(مسلم.حدیث نمبر2699)

*الحاصل......!!*

 کوئی بھی امتی بعد کے سید و غیر سید کفر شرک گناہ وغیرہ کر سکتا ہے سوائے ان کے کہ جن کو اللہ تعالی نے رسول کریم کے ذریعہ سے یہ فضیلت عطا فرمائی کہ وہ کفر و شرک گناہ وغیرہ سے محفوظ ہیں... صحابہ کرام اور وہ اہل بیت کہ جن کو شرف صحابیت ملی وہ تمام علماء کے مطابق اس فضیلت کو پاتے ہیں... اس کے بعد کے سادات سید حضرات کفر شرک گناہ سے محفوظ ہیں اس کے متعلق کوئی دلیل اگر ہے تو یہ بھی محفوظ کہلائیں گے اگر کوئی دلیل نہیں ہے تو محفوظ نہیں کہلائیں گے....بعد کے سادات محفوظ ہوں ایسی کوئی معتبر دلیل نہیں اکثر علماء کے مطابق....تفصیل درج ذیل ہے

.

*پہلا نظریہ....علماء کے اقوال ملاحظہ کیجئے کہ بعد والے سید سادات حضرات کفر شرک گناہ وغیرہ سے محفوظ نہیں ہیں.....!!*

.

*اہل بیت کے عظیم افراد میں سے ایک سیدنا جواد ابن الرضا بن موسی کاظم اور امام ابو نعیم اور امام ابن حجر ہیثمی کا نظریہ.....!!*

وَأخرج أَبُو نعيم عَن مُحَمَّد الْجواد الْآتِي ابْن عَليّ الرِّضَا الْمُتَقَدّم آنِفا أَنه سُئِلَ عَن حَدِيث (إِن فَاطِمَة أحصنت فرجهَا)الحَدِيث الْمَذْكُور فَقَالَ بِمَا مر عَن أَبِيه ذَاك خَاص بالْحسنِ وَالْحُسَيْن

 علامہ ابن حجر ہیتمی نے روایت کی کہ امام ابو نعیم نے فرمایا کہ امام موسی کاظم کے بیٹے سیدنا جواد فرماتے ہیں کہ سید و سادات جو جہنم سے محفوظ ہیں( گناہ شرک کفر وغیرہ سے محفوظ ہیں) وہ وہ ہیں کہ جو سیدنا حسن اور حسین ہیں(باقی سید و سادات کفر شرک گناہ میں ملوث ہوسکتے ہیں)

(الصواعق المحرقة على أهل الرفض والضلال والزندقة2/532)

.


إنَّ فاطمةَ أحْصَنَت فَرْجَهَا، فحرَّم اللهُ ذُرِّيَّتها على النار" (٢) وهذا لمن خرج من بطنها، مثلِ الحسنِ والحسين، لا لمثلي ومثلِك

سیدنا جواد اہلبیت و سادات میں سے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ جو جہنم سے محفوظ ہیں( گناہ شرک کفر وغیرہ سے محفوظ ہیں) اس سے وہ مراد ہیں کہ جو سیدنا حسن اور حسین کی مثل ہوں، ہم تم (بعد کے سید و سادات) مراد نہیں ہیں(باقی سید و سادات کفر شرک گناہ میں ملوث ہوسکتے ہیں)

(مرآة الزمان في تواريخ الأعيان13/389)

.

*سیدنا ابو کریب اور امام ابن حجر عسقلی امام عقیلی کا نظریہ*

قال أبو كريب: هذا للحسن وللحسين ومن أطاع الله منهم

أبو كريب فرماتے ہیں جو جہنم سے محفوظ ہیں( گناہ شرک کفر وغیرہ سے محفوظ ہیں) اس سے مراد سیدنا حسن اور سیدنا حسین ہیں اور وہ سادات وہ سید حضرات کہ جو  اللہ کی اطاعت کریں(باقی سید و سادات کفر شرک گناہ میں ملوث ہوسکتے ہیں)

(لسان الميزان ت أبي غدة6/131)

 یہاں یہ تاویل بھی ختم ہوگئی کہ سیدنا جواد نے عاجزی اور انکساری کرتے ہوئے فرمایا تھا، تاویل اس لئے رد ہوگئی کہ سیدنا جواد نے ایک اصول بیان کردیا کہ محفوظ وہ سید و سادات ہیں کہ جو اللہ کی اطاعت کریں

.

قَالَ أَبُو كُرَيْبٍ: هَذَا الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ، وَلِمَنْ أَطَاعَ اللَّهَ مِنْهُمْ

أبو كريب فرماتے ہیں جو جہنم سے محفوظ ہیں( گناہ شرک کفر وغیرہ سے محفوظ ہیں) اس سے مراد سیدنا حسن اور سیدنا حسین ہیں اور وہ سادات وہ سید حضرات کہ جو  اللہ کی اطاعت کریں(باقی سید و سادات کفر شرک گناہ میں ملوث ہوسکتے ہیں)

(الضعفاء الكبير للعقيلي3/184)

یہاں یہ تاویل بھی ختم ہوگئی کہ سیدنا جواد نے عاجزی اور انکساری کرتے ہوئے فرمایا تھا، تاویل اس لئے رد ہوگئی کہ سیدنا جواد نے ایک اصول بیان کردیا کہ محفوظ وہ سید و سادات ہیں کہ جو اللہ کی اطاعت کریں

.

*سیدنا جواد ابن الرضا بن موسی کاظم کا نظریہ*

: هَلْ لَكَ أَنْ أُدْخِلَكَ عَلَى ابْنِ الرِّضَا؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَأَدْخَلَنِي، فَسَلَّمْنَا عَلَيْهِ وَجَلَسْنَا، فَقَالَ لَهُ: حَدِيثُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ فَاطِمَةَ أَحْصَنْتَ فَرْجَهَا، فَحَرَّمَ اللَّهُ ذُرِّيَّتَهَا عَلَى النَّارِ. قَالَ: «خاصٌّ لِلْحَسَنِ، وَالْحُسَيْنِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا»

سادات جو جہنم سے محفوظ ہیں( گناہ شرک کفر وغیرہ سے محفوظ ہیں) یہ شرف صرف سیدنا حسن اور حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے لئے خاص ہے(باقی سید و سادات کفر شرک گناہ میں ملوث ہوسکتے ہیں)

(تاريخ أصبهان = أخبار أصبهان1/292)

.

[محمد الجواد]أبو جعفر محمد بن علي الرضا بن موسى الكاظم بن جعفر الصادق بن محمد الباقر المذكور قبله، المعروف بالجواد......فقال له: حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم أن فاطمة رضي الله عنها أحصنت فرجها فحرم الله ذريتها على النار، قال: ذلك خاص بالحسن والحسين رضي الله عنهما

 سیدنا جواد سے عرض کی گئی کہ سیدہ فاطمہ اور ان کی تمام اولاد( قیامت تک کی اولاد سید و سادات)جہنم سے محفوظ ہے تو آپ نے فرمایا نہیں یہ صرف سیدنا حسن اور حسین کے ساتھ خاص ہے

(وفيات الأعيان4/175)

.

*خطیب بغدادی اور علامہ شامی کا نظریہ*

وروى الخطيب أن الإمام علي بن موسى المديني- رضي الله تعالى عنه- سئل هذا الحديث فقال: هذا خاص بالحسن والحسين- رضي الله تعالى عنهما

علامہ شامی لکھتے ہیں کہ امام خطیب بغدادی نے روایت کیا ہے کہ سیدنا جواد سے پوچھا گیا اس حدیث کے بارے میں کے سیدہ فاطمہ اور ان کی اولاد قیامت تک کی اولاد سید و سادات جہنم سے محفوظ ہیں گناہوں سے محفوظ ہیں شرک کفر سے محفوظ ہیں تو آپ نے فرمایا کہ نہیں یہ صرف سیدنا حسن اور حسین کے ساتھ خاص ہے

(سبل الهدى والرشاد في سيرة خير العباد11/50)

.

*علامہ صنعانی کا نظریہ*

فيحتمل أن يراد جميع ذريتها ويكون هذا مقتضيًا للنجاة مشروطًا بعدم المانع من الشرك وارتكاب الكبائر كغيره من أحاديث فضائل الأعمال.....قيل المراد مؤمني أهل بيته بنو هاشم وبنو المطلب أو فاطمة وعلي وابناهما أو زوجاته

 ذریت سے مراد پہلی اولاد ہوتی ہے اس اعتبار سے جہنم نہ جانے(شرک کفر گناہ سے محفوظ ہونے)کی بات سیدہ فاطمہ کی اپنے پیٹ مبارک والی اولاد ہوگی.... اور ایک احتمال یہ ہے کہ ذریت سے مراد تمام اولاد ہوتی ہے اگر یہ معنی لیا جائے تو (بعد کے سید و سادت کی) نجات کے لئے شرط ہے کہ وہ شرک کفر کبیرہ گناہ سے بچیں.... ایک قول یہ ہے کہ یہاں اہل بیت سے مراد بنو ہاشم بنو مطلب کہ مومنین اہل بیت مراد ہیں... یا پھر اس سے مراد فاطمہ علی ان دونوں کے بیٹے یا ازواج مراد ہیں

(التنوير شرح الجامع الصغير4/14...6/347)

.


*امام عقیلی ، سیدنا ابو کریب،  خطیب بغدادی علامہ العصامی کا نظریہ*

الْعقيلِيّ قَالَ أَبُو كريب هَذَا لِلْحسنِ وَالْحُسَيْن وَلمن أطَاع الله مِنْهُم وَفِي لفظ إِن الله عز وَجل غير معذبك وَلَا ولدك وروى الْخَطِيب الْبَغْدَادِيّ أَن الإِمَام عَليّ بن مُوسَى الرِّضَا سُئِلَ عَن هَذَا الحَدِيث فَقَالَ هَذَا خَاص بالْحسنِ وَالْحُسَيْن

 امام عقیلی فرماتے ہیں کہ سیدنا ابو کریب نے فرمایا ہے جہنم سے محفوظ ہونا( کفر شرک گناہ سے محفوظ ہونا) یہ سیدنا حسن اور حسین کے ساتھ خاص ہے اور اس(سید و سادات) کے لیے جو اللہ تعالی کی اطاعت کرے(جو سید و سادات گناہ کفر شرک کرے اس لیے یہ محفوظ ہونا ثابت نہیں) خطیب بغدادی نے روایت کیا ہے کہ امام جواد سے اس حدیث کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ سیدنا حسن اور حسین کے ساتھ خاص ہے

(سمط النجوم العوالي في أنباء الأوائل والتوالي1/529)

.

*دوسرا نظریہ.... بعض علماء فرماتے ہیں کہ بعد کے جو سید و سادات ہیں وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم جائیں یہ نہیں ہوگا بلکہ عارضی طور پر(گناہ و گمراہی کی سزا پاکر پاکیزہ ہونے کے لیے) وہ جہنم جا سکتے ہیں*


امام مناوي کا نظریہ:

) أي حرم دخول النار عليهم فأما هي وابناها فالمراد في حقهم التحريم المطلق وأما من عداهم فالمحرم عليهم نار الخلود وأما الدخول فلا مانع من وقوعه للبعض للتطهير هكذا فافهم

 علامہ مناوی فرماتے ہیں کہ سیدہ فاطمہ اور دو ان کے بیٹے جہنم پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حرام ہیں ان کے علاوہ جو سید و سادات ہیں تو وہ بھی ہمیشہ جہنم میں تو نہیں رہیں گے لیکن پاکیزہ ہونے کے لیے کچھ عرصہ جہنم جا سکتے ہیں

(فيض القدير2/462)

.

علامہ زرقاني کا نظریہ

، فأما هي، وابناها، فالمنع مطلق، وأما من عداهم، فالممنوع عنهم نار الخلود، فلا يمتنع دخول بعضهم للتطهير

سیدہ فاطمہ اور دو ان کے بیٹے جہنم پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حرام ہیں ان کے علاوہ جو سید و سادات ہیں تو وہ بھی ہمیشہ جہنم میں تو نہیں رہیں گے لیکن پاکیزہ ہونے کے لیے کچھ عرصہ جہنم جا سکتے ہیں

(شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية4/332)

.

*تیسرا نظریہ... علامہ ابن حجر مکی علامہ نبہانی اور سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا کا نظریہ ہے کہ سیدہ فاطمہ کی اولاد اور ان کے سلسلہ نسب کے افراد تا قیامت تک کے سید و سادات جہنم سے محفوظ ہیں*

جواب:

پہلی بات

علامہ ابن حجر مکی نے پہلے یہ قول فرمایا لیکن اسکے بعد انہوں نے فرمایا کہ یہ خصوصیت صرف سیدنا حسن اور حسین کی ہے جیسے کہ اوپر گزرا

.

دوسری بات:

امام اہلسنت سیدی احمد رضا فرماتے ہیں:

سلف صالحین و ائمہ دین سے آج تک اہل حق کا یہ معمول رہا ہےکہ کلام اللہ و کلام رسول کے سوا ہر ایک کا قول لیا جا سکتا ہے اور اس پر رد بھی کیا جا سکتا ہے دلائل کے ساتھ(فتاوی رضویہ15/469ملخصا)لیھذا سیدی رضا نے بھی کئی اکابرین سے اختلاف کیا، لیکن میں کون ہوتا ہوں کہ ان سے اختلاف کروں... ہاں البتہ معتبر متبحر مستند عالم سیدی رضا کے مقابلے میں دیگر علمائے اہل سنت کا قول اختیار کرے تو ناصبی خارجی بغض اہلبیت گستاخ نہیں...لیھذا علامہ سعید احمد اسعد ناصبی نافرمان گستاخ نہیں

.

تیسری بات:

 اس نظریہ پر ایسے قطعی دلائل بھی نہیں کہ جو باب عقائد میں معتبر ہوں.... جن دلائل سے استدلال کیا جاتا ہے ان کا جواب درج ذیل ہے

.

*پہلی دلیل.....آیت تطہیر......!!*

جواب:

علامہ آلوسی نقشبندی فرماتے ہیں

والآية لا تقوم دليلا على عصمة أهل بيته صلّى الله عليه وسلم وعليهم وسلم الموجودين حين نزولها وغيرهم ولا على حفظهم من الذنوب على ما يقوله أهل السنّة....وهو على معنى الشرط أي يريد بنهيكم وأمركم ليذهب عنكم الرجس ويطهركم إن انتهيتم وائتمرتم ضرورة أن أسلوب الآية...والآية متضمنة الوعد منه عزّ وجلّ لأهل بيت نبيه صلّى الله عليه وسلم بأنهم أن ينتهوا عما ينهي عنه ويأتمروا بما يأمرهم به يذهب عنهم لا محالة مبادئ ما يستهجن ويحليهم أجلّ تحلية بما يستحسن، وفيه إيماء إلى قبول أعمالهم وترتب الآثار الجميلة عليها قطعا ويكون هذا خصوصية لهم ومزية على من عداهم من حيث إن أولئك الأغيار إذا انتهوا وائتمروا لا يقطع لهم بحصول ذلك.

یعنی

 آیت تطہیر اہل بیت کے معصوم ہونے اور گناہ شرک کفر وغیرہ سے محفوظ ہونے پر دلالت نہیں کرتی، کیونکہ آیت میں غور کیا جائے تو یہ ایک قسم کی شرط ہے کہ اگر تم اللہ و رسول کی اطاعت کرو گے تو پھر تمہارے لئے تطہیر ہوگئی یعنی ان کی قبولیت یقینی ہے جبکہ دیگر لوگ اگر گناہوں سے باز رہیں تو ان کی قبولیت یقینی نہیں ہے

(تفسیر روح المعانی11/199ملتقطا)

.

فالواجبُ أن تُعَلَّلَ العِلّةُ بما يدل على التخلية والتحلية

( آیت کا سیاق و سباق و دیگر دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ) واجب ہے کہ یہ تطھیر اس وقت ہو گی کہ جب وہ اپنے آپ کو اللہ تعالی  اور رسول کی اطاعت سے سنواریں اور گناہوں سے کفر و شرک وغیرہ سے باز رہیں

(فتوح الغيب في الكشف عن قناع الريب12/422)

.

: أَنَّهُ يُذْهِبُ الرِّجْسَ عَنْهُمْ، وَيُطَهِّرُهُمْ بِمَا يَأْمُرُ بِهِ مِنْ طَاعَةِ اللَّهِ، وَيَنْهَى عَنْهُ مِنْ مَعْصِيَتِهِ ; لِأَنَّ مَنْ أَطَاعَ اللَّهَ أَذْهَبَ عَنْهُ الرِّجْسَ، وَطَهَّرَهُ مِنَ الذُّنُوبِ تَطْهِيرًا

 یعنی اللہ تعالی نے ان کو ویسے ہی پاک نہیں کیا بلکہ ان کے لیے یہ شرط لگائی کہ اگر وہ اللہ کی اطاعت کریں گے اور معصیت سے گناہوں سے کفر و شرک سے بچیں گے تو اللہ تعالی ان کو پاکیزہ کر دے گا

(أضواء البيان في إيضاح القرآن بالقرآن - ط الفكر6/238)

.

فهل أنتم سالكون سبيل الطهارة والتزكية من بين سائر الأمم، لما خصكم بهذا النبي المكرم أم أنتم كسائر الأمم السالفة كأن لم توعظوا؟ نحوه قوله تعالي: {إنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ البَيْتِ ويُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا}

 گویا اللہ تعالی اس آیت میں یہ فرما رہا ہے کہ کیا تم پاکیزگی کے راستے پر چلو گے یا پاکیزگی کے راستے پر نہ چلو گے اگر پاکیزگی کے راستے پر چلو گے، اللہ تعالی کی اطاعت کرو گے رسول کی اطاعت کرو گے تو اللہ تعالی تمہیں پاکیزہ فرما دے گا

(الكاشف عن حقائق السنن 8/2554)

.

يريد ان يطهر اهل بيت النبي صلى الله عليه وسلم من الآثام ان اتقوا

 اہل بیت سید و سادات وغیرہ کو اللہ تعالی پاک کرنا چاہتا ہے بشرطیکہ وہ تقوی اختیار کریں

(التفسير المظهري7/342)

.

*احادیث اور انکی تحقیق....پہلی روایت... سیدہ فاطمہ نے اپنی خصوصی پاکیزگی کو برقرار رکھا تو اللہ تعالی نے ان کو اور ان کی ذریت کو تمام اولاد کو جہنم پر حرام کر دیا ہے*

جواب:

پہلی بات:

 اس روایت میں عقلی پوائنٹ نوٹ کرنے کی ضرورت ہے کہ خون رسول کو وجہ قرار نہیں دیا گیا بلکہ خصوصی پاکیزگی کو وجہ قرار دیا گیا ہے جبکہ جو محفوظ مانتے ہیں وہ وجہ خون رسول ہونے کو قرار دیتے ہیں اور دوسری بات یہ بھی کہ کفار مشرکین بھی تو خون رسول یعنی سیدنا آدم علیہ السلام کا خون ہیں..لیھذا ایسے معاملات میں محض عقل و عشق کے گھوڑے پے سوار ہونے کے بجائے منقولیات و دلائل کو دیکھا جائے

.

دوسری بات:

 اللہ عذاب نہیں دے گا سیدہ فاطمہ کی اولاد کو اس سے مراد سیدنا حسن اور حسین ہیں جیسے کہ نیچے آئے گا اور کچھ حوالہ جات اوپر گذرے

.

تیسری بات:

اسکی دو سندیں مجھے ملیں

پہلی سند:

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُقْبَةَ السَّدُوسِيُّ، قَالَ: نا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: نا عَمْرُو بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زِرٍّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ

(مسند البزار = البحر الزخار5/223)

.

دوسری سند:

أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ الْآدَمِيُّ، بِبَغْدَادَ، ثنا سَعِيدُ بْنُ عُثْمَانَ الْأَهْوَازِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ السَّدُوسِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عِمْرَانَ الْقَيْسِيُّ، ثنا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ، وَحَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ الْمُزَنِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْحَضْرَمِيُّ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ غَنَّامٍ، قَالَا: ثنا أَبُو كُرَيْبٍ، ثنا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ، وَحَدَّثَنِي أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ بَالَوَيْهِ، ثنا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ الْمُطَرِّزُ، ثنا عَلِيُّ بْنُ الْمُثَنَّى الطُّوسِيُّ، ثنا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ، ثنا عَمْرُو بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ

(المستدرك على الصحيحين للحاكم - ط العلمية3/165)

.

 دونوں روایتوں میں مرکزی راوی عمر بن غیاث ہے جو کہ سخت ضعیف شیعہ راوی ہے

وقال الدَّارَقُطْنِيّ: من شيوخ الشيعة من أهل الكوفة

 امام دارقطنی فرماتے ہیں کہ عمر بن غیاث الکوفہ کے بڑے بڑے شیعوں میں سے ایک ہے

(موسوعة أقوال أبي الحسن الدارقطني في رجال الحديث وعلله2/484)

.

مذکورہ روایت ذکر کی اور فرمایا

- عَمْرو بن عتاب عَن عَاصِم بن أبي النجُود لَيْسَ بِشَيْء وَقد اتهمَ

 یہ راوی کوئی حیثیت نہیں رکھتا اور اس پر اعتراض ہے کہ یہ جھوٹ بولتا تھا یا حدیثیں اپنی طرف سے گھڑ لیتا تھا

(الكشف الحثيث ص202)

.

وقال ابن حبّان: يروي عن عاصم ما ليس من حديثه، ولعله سمعه في اختلاط عاصم والاحتجاج بروايته ساقط إذا انفرد

 امام ابن حبان فرماتے ہیں کہ یہ راوی وہ حدیث بیان کرتا تھا کہ جس میں وہ الفاظ ہوتے ہیں نہیں تھے، جب یہ منفرد ہو تو اس کی روایت سے استدلال کرنا ساقط ہے

(المطالب العالية محققا16/183)


.

مذکورہ روایت بھی لکھی اور فرمایا

سَألتُ البُخارِيّ عَنْ عُمَر بْن غياث، عَن عاصم روى عَنْهُ أَبُو نعيم فقال منكر الحديث.

 امام بخاری فرماتے ہیں کہ یہ راوی عمر بن غیاث منکر الحدیث ہے (یعنی صحیح حدیث کے خلاف روایت کرتا ہے)

(ابن عدي كتاب الكامل في ضعفاء الرجال6/119)

.

قال أبو حاتم والبخاري: منكر الحديث.وقال ابن حبان: يروي عن عاصم ما ليس من حديثه.وقال الدارقطني، وَغيره: ضعيف.وقال ابن عَدِي: يقال: كان مرجئا

 امام ابوحاتم اور امام بخاری فرماتے ہیں کہ یہ منکر الحدیث ہے (صحیح روایات کے خلاف روایت بیان کرتا ہے) امام ابن حبان نے فرمایا کہ یہ عاصم سے وہ حدیث بیان کرتا ہے کہ جو حدیثیں نہیں ہوتی امام دار قطنی اور دیگر ائمہ نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے اور  ابن عدی نےفرمایا یہ مرجی(بدمذہب)

 تھا

(لسان الميزان ت أبي غدة6/131)

.

دوسری سند:

ونا ابن شاهين نا أحمد بن محمد بن سعيد بن عبد الرحمن نا محمد بن عبيد بن عتبة نا محمد بن إسحاق البلخي نا تليد عن عاصم عن زر عن عبد الله

(تاريخ دمشق لابن عساكر14/174)

.

 اس سند کے ایک راوی محمد بن اسحاق البلخی کے بارے میں ہے کہ وہ جھوٹا تھا

محمد بن إسحاق البلخي كان يضع للكلام إسنادا وكان كذابا يروي أحاديث من ذات نفسه مناكير

 محمد بن اسحاق بلخی اپنی طرف سے کلام بنا لیتا اور اس کی سند بھی اپنی طرف سے بنا لیتا تھا اور یہ بہت بڑا جھوٹا تھا اور یہ اپنی طرف سے منکر( جو صحیح روایات کے خلاف ہوتی تھیں وہ) بیان کرتا تھا

(لسان الميزان ت أبي غدة6/547)

(البداية والنهاية ت التركي14/675نحوہ)

.

 اس اس سند کا ایک اور راوی تلید ہے جس کے بارے میں ہے کہ وہ فاسق ہے دجال ہے اسے روایت نہیں لے سکتے بہت بڑا جھوٹا ہے

بْن مَعِين يَقُولُ تليد بْن سُلَيْمَان كَانَ كذَّابًا وَكَانَ يشتم عُثْمَان بْن عفان وكل من شتم عُثْمَان أو أحدا من أصحاب رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دجال فاسق ملعون لا يكتب حديثه

 امام ابن معین فرماتے ہیں کہ تلید بہت بڑا جھوٹا تھا اور یہ سیدنا عثمان بن عفان کی توہین و گستاخی کرتا تھا تو جو شخص کسی بھی ایک صحابی رسول کی توہین و گستاخی کرے وہ فاسق دجال ہے ملعون ہے اس کی حدیث نہیں لکھی جائے گی

(الكامل في ضعفاء الرجال2/284)

.

الْجُوزَجَانِيُّ قَالَ: سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ يَقُولُ: حَدَّثَنِي تَلِيدٌ وَهُوَ عِنْدِي كَانَ يَكْذِبُ

 امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ تلید میرے مطابق جھوٹ بولتا تھا

(الضعفاء الكبير للعقيلي1/171)

.

بعض نے لاباس فرمایا لیکن جرح مفسر مقدم ہے اس لیے مردود و نا مقبول....وَالْجرْح) بِفَتْح الْجِيم بِمَعْنى التجريح. (مُقَدم على التَّعْدِيل) أَي عِنْد التَّعَارُض

 جب ایک طرف توثیق و تعدیل ہو اور دوسری طرف جرح مفسر ہو تو جرح مقدم کہلائے گی

(الملا على القاري ,شرح نخبة الفكر للقاري ,page 741)

.

*دوسری روایت....!!*

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَابَهْرامَ الْأَيْذَجِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ مَرْزُوقٍ، ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُوسَى بْنِ عُثْمَانَ الْأَنْصَارِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ صَيْفِيُّ بْنُ رِبْعِيِّ، يُحَدِّثُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ابْنِ الْغَسِيلِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِفَاطِمَةَ: «إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ غَيْرَ مُعَذِّبِكِ، وَلَا وَلَدِكِ»

اے فاطمہ اللہ تجھے اور تیری اولاد کو عذاب نہ دے گا

(المعجم الكبير للطبراني11/263)

.

جواب:

پہلی بات:

 اللہ عذاب نہیں دے گا سیدہ فاطمہ کی اولاد کو اس سے مراد سیدنا حسن اور حسین ہیں جیسے کہ نیچے آئے گا اور کچھ حوالہ جات اوپر گذرے

.

دوسری بات:

 اس کا پہلا راوی مجہول الحال ہے اور ایسے معاملات میں مجھول الحال کی روایت مقبول نہیں ہے

قلت (مجهول الحال) وإكثار الطبراني عنه يرفعه من جهالة العين

أَحْمَدُ بْنُ مَابَهْرامَ الْأَيْذَجِيُّ سے امام طبرانی نے روایت کی ہیں تو اس لیے یہ مجہول العین تو نہیں ہے لیکن مجہول الحال ضرور ہے

(إرشاد القاصي والداني إلى تراجم شيوخ الطبراني ص106)

.

وقال البيهقي: " لا يجوز الاحتجاج بأخبار المجهولين "وقال الذهبي: " لا حجة فيمن ليس بمعروف العدالة، ولا انتفت عنه الجهالة...وقال ابن رجب: " ظاهر كلام الإمام أحمد أن خبر مجهول الحال لا يصح ولا يحتج به

 امام بیہقی فرماتے ہیں کہ مجہول کی روایت سے دلیل نہیں پکڑ سکتے امام ذہبی فرماتے ہیں کہ جس کی عدالت عادل ہونا مجھول ہو جس کا حال مجہول ہو وہ دلیل نہیں بن سکتا... امام ابن رجب اور امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ مجہول الحال کی روایت صحیح نہیں ہے اس سے دلیل نہیں پکڑ سکتے

(تحرير علوم الحديث1/486)

.

، وَقيل: إِنَّمَا قبل أَبُو حنيفَة رَحمَه الله فِي صدر الْإِسْلَام حَيْثُ كَانَ الْغَالِب على النَّاس الْعَدَالَة، فَأَما الْيَوْم فَلَا بُد من التركيز لغَلَبَة الْفسق، وَبِه قَالَ صَاحِبَاه أَبُو يُوسُف، وَمُحَمّد..وَحَاصِل الْخلاف: أَن المستور من الصَّحَابَة، وَالتَّابِعِينَ وأتباعهم، يقبل بِشَهَادَتِهِ صلى الله تَعَالَى عَلَيْهِ وَسلم لَهُم بقوله: " خير الْقُرُون قَرْني، ثمَّ الَّذين يَلُونَهُمْ " وَغَيرهم لَا يقبل إِلَّا بتوثيق، وَهُوَ تَفْصِيل حسن.

جمھور نے مجھول الحال کی روایت کو رد کیا ہے لیکن امام اعظم قبول فرماتے ہیں لیکن کہا گیا ہے(اور یہی امام قاری کے نزدیک معتبر و اچھی بات ہے کہ) اور یہی امام اعظم کے شاگرد خاص امام محمد امام ابو یوسف کا نظریہ ہے کہ وہ مجہول کہ جو صحابی ہو تابعی ہو یا تبع تابعی ہو اس کی روایت قبول ہے اور دیگر مجھول الحال کی روایت قبول نہیں ہے

(شرح نخبة الفكر للقاري ص519)

اور یہاں جو مجھول ہے وہ نہ تو صحابی ہے نہ تابعی نہ تبع تابعی لیھذا مقبول نہیں

.

*تیسری روایت......!!*

أَخْبَرَنَا أَبُو سَهْلٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زِيَادٍ الْقَطَّانُ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ يُونُسَ، ثنا أَبُو عَلِيٍّ الْحَنَفِيُّ، ثنا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ الثُّمَالِيِّ، عَنْ أَبِي رَجَاءٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «سَأَلْتُ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ أَنْ لَا يُدْخِلَ أَحَدًا مِنْ أَهْلِ بَيْتِي النَّارَ فَأَعْطَانِيهَا»

  نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ سے سوال کیا کہ میرے کسی بھی اہل بیت کو جہنم میں داخل نہ فرمائے تو اللہ تعالی نے میری دعا قبول فرما لی

(أمالي ابن بشران - الجزء الأول ص148)

.

پہلی بات:

اللہ عذاب نہیں دے گا سیدہ فاطمہ کی اولاد کو اس سے مراد سیدنا حسن اور حسین ہیں جیسے کہ نیچے آئے گا اور کچھ حوالہ جات اوپر گذرے

.

دوسری بات:

سند میں ثمالی رافضی ہے اور روایت فضائل اہل بیت میں ہیں اور قاعدہ ہے کہ ایسے کی ایسی روایت موضوع ومن گھڑت جھوٹی کہلائے گی

وَأَبُو حَمْزَة الثمالِي رَافِضِي

ابو حمزہ ثمالی رافضی ہے

(ابن عراق... تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة1/402)

.

وَأَبُو حَمْزَة الثمالِي رَافِضِي

ابو حمزہ ثمالی رافضی ہے

الزيادات على الموضوعات للسيوطي 1/268...269)

.

قاعدہ ہےکہ متفرد راوی رافضی ہو روایت فضائل اہلبیت میں ہو تو موضوع من گھڑت جھوٹی کہلائی گی

قاعدہ:

مدار سند حدیث پر ہے اگر اس سے روایت کرنے والا کذاب یا وضاع متفرد ہو تو وہ روایت موضوع ہوگی اور اگر ضعیف ہے تو روایت صرف ضعیف ہوگی(شرح الزرقانی علی المواہب الفصل الاول من المقصد الثامن فی طبہ صلی اللہ علیہ وسلم ج9 صفحہ 337 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ)حضرت علامہ ملا علی قاری فرماتے ہیں: موضوع اس روایت کو کہا جاتا ہے جس کے راوی پر کذب کا طعن ہو(شرح نخبۃ الفکر فی مصطلحات اہل الاثر  جلد1 صفحہ 435 دار الارقم لبنان بیروت)

موضوع تو جب ہوتی کہ اس کا راوی متہم بالکذب ہوتا....یا ناقل رافضی(ہو اور) حضرات اہلبیت کرام علٰی سیدہم وعلیہم الصلاۃ والسلام کے فضائل میں وہ باتیں روایت کرے جو اُس کے غیر سے ثابت نہ ہوں(تو روایت موضوع  من گھرٹ جھوٹی مردود کہلائے گی)،جیسے حدیث:لحمك لحمی ودمك دمی (تیرا گوشت میرا گوشت،تیرا خُون میرا خُون.ت)

(فتاوی رضویہ 5/461..466ملتقطا)

.

اس سند کا ایک اور راوی کدیمی کے متعلق پڑہیے

محمَّد بن يُونُس بن مُوسَى أَبُو الْعَبَّاس الْكُدَيْمِي مَتْرُوك

 مذکورہ روایت کا الکدیمی راوی متروک مردود ہے

(سؤالات الحاكم للدارقطني ص137)

.

قال ابن أبي حاتم: سمعت أبي وعرض عليه شيء من حديث محمد ابن يونس الكديمي فقال: ليس هذا حديث أهل الصدق

 امام ابو حاتم نے فرمایا کہ الکدیمی سچا نہیں ہے

(التذييل على تهذيب التهذيب ص384)

.


قَالَ ابْنُ عَدِيٍّ: اتُّهِمَ الكُدَيْمِيُّ بِوَضْعِ الحَدِيْثِ.

 مذکورہ روایت کے ایک راوی الکدیمی کے متعلق امام ابن عدی فرماتے ہیں کہ اس پر تہمت ہے کہ یہ جھوٹی من گھڑت روایات گھڑ لیتا تھا

قَالَ ابْنُ حِبَّانَ: لَعَلَّهُ قَدْ وَضَعَ أَكْثَر مِنْ أَلفِ حَدِيْثٍ.

 اس کے متعلق امام ابن حبان نے فرمایا کہ شاید اس نے ایک ہزار سے بھی زیادہ حدیثیں جھوٹی گھڑی ہیں

قَالَ ابْنُ عَدِيٍّ: وَادَّعَى رُؤْيَةَ قَوْمٍ لَمْ يَرَهُم، تَرَكَ عَامَّةُ مَشَايِخِنَا الروایۃ

امام ابن عدی فرماتے ہیں کہ اس نے ان لوگوں کے دیکھنے کا دعوی کیا جس کو اس نے دیکھا ہی نہیں ہمارے اکثر علماء نے اس کی روایات کو ترک کر دیا ہے

قالَ أَبُو عُبَيْدٍ الآجُرِّيُّ: رَأَيْتُ أَبَا دَاوُدَ يُطْلِقُ فِي مُحَمَّدِ بنِ يُوْنُسَ الكَذِبَ، 

امام آجری فرماتے ہین کہ امام ابوداود فرماتے تھے کہ محمد بن یونس الکدیمی جھوٹا ہے

قَالَ مُوْسَى، وَهُوَ مُتَعَلِّقٌ بِأَستَارِ الكَعْبَةِ: اللَّهُمَّ! إِنِّيْ أُشْهِدَكُ أَنَّ الكُدَيْمِيَّ كَذَّابٌ، يَضَعُ الحَدِيْثَ

موسی کعبہ کے پردوں سے لپٹ کر فرماتے ہیں اے اللہ تو گواہ ہونا کدیمی بہت بڑا جھوٹا ہے، من گھڑٹ جھوٹی روایات گھڑ لیتا ہے

(سير أعلام النبلاء - ط الرسالة13/304)

.

*چوتھی روایت.......!!*

أخبرنا أبو إسحاق إبراهيم بن غسان البصري إجازة، أن أبا علي الحسين بن علي بن أحمد بن محمد بن أبي زيد حدَّثهم، قال: حدثنا أبو القاسم عبدالله بن أحمد بن عامر الطائي قال: حدثنا أبي أحمدُ...

(مناقب علی لابن المغازلی ص118)

.

پہلی بات:

اللہ عذاب نہیں دے گا سیدہ فاطمہ کی اولاد کو اس سے مراد سیدنا حسن اور حسین ہیں جیسے کہ نیچے آئے گا اور کچھ حوالہ جات اوپر گذرے

.

دوسری بات:

سند کا راوی غیر معتبر ہے

عبد الله بن أحمد بن عامر عن أبيه عن أهل البيت له نسخة

 باطلة...

عبداللہ بن احمد اپنے باپ سے اہل بیت سے ایسے نسخے سے روایت کرتا ہے جو نسخہ باطل ہے

( الزيادات على الموضوعات2/676)

.

وعبد الله هذا ضعيف جدا

اور یہ عبداللہ بن احمد شدید ضعیف راوی ہے

(فيض القدير4/124)

.

أحسبُه واضع تلك النّسخة

میں سمجھتا ہوں کہ عبداللہ بن احمد نے اس نسخے کو گھڑ لیا ہے جس سے یہ ایسی روایات کرتا ہے

( تاريخ الإسلام - ت بشار7/490)

.

هو محل التهمة وتكلم فيه البيهقي

عبداللہ بن احمد  اس کی بیان کردہ روایات تہمت کی جگہ ہیں یعنی جھوٹی بےبنیاد روایات ہیں اور اس راوی پر امام بیھقی نے بھی جرح کی ہے

(لسان الميزان ت أبي غدة1/490)

.

*پانچویں روایت..... کہ کتاب اللہ اور اہل بیت کو تھامے رکھو تو گمراہ نہیں ہو گے یہ دونوں اکٹھے رہیں گے قیامت کے دن حوض کوثر پر مجھے ملیں گے*

پہلی سند:

3786 حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْكُوفِيُّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحَسَنِ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ : رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّتِهِ يَوْمَ عَرَفَةَ وَهُوَ عَلَى نَاقَتِهِ الْقَصْوَاءِ يَخْطُبُ، فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ : " يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي قَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا : كِتَابَ اللَّهِ، وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي

(ترمذی حدیث3786)

.

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْحَضْرَمِيُّ، ثنا نَصْرُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْوَشَّاءُ، ثنا زَيْدُ بْنُ الْحَسَنِ الْأَنْمَاطِيُّ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرٍ

(المعجم الكبير للطبراني3/66)

.

پہلی بات:

اللہ عذاب نہیں دے گا سیدہ فاطمہ کی اولاد کو اس سے مراد سیدنا حسن اور حسین ہیں جیسے کہ نیچے آئے گا اور کچھ حوالہ جات اوپر گذرے

.

دوسری بات:

سند میں راوی غیر معتبر ہے

- زيد بن الحسن القرشي الكوفي الانماطي عن جعفر الصادق ومعروف بن خربوذ وعنه إسحاق وابن المديني ضعف 

 انماطی ضعیف راوی ہے

(الكاشف1/416)

.

وَفِيهِ زَيْدُ بْنُ الْحَسَنِ الْأَنْمَاطِيُّ، قَالَ أَبُو حَاتِمٍ: مُنْكَرُ الْحَدِيثِ

 امام ابوحاتم فرماتے ہیں کہ انماطی منکر الحدیث ہے(یعنی صحیح حدیث کی روایات کے خلاف روایت کرتا ہے)

(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد9/165)

.

دوسری تیسری چوتھی سند:

 حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُنْذِرِ الْكُوفِيُّ ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، قَالَ : حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ عَطِيَّةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ . وَالْأَعْمَشُ ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَا : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي أَحَدُهُمَا أَعْظَمُ مِنَ الْآخَرِ : كِتَابُ اللَّهِ حَبْلٌ مَمْدُودٌ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ، وَعِتْرَتِي أَهْلُ بَيْتِي، وَلَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ

(ترمذی حدیث3788)

.

11104 حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْرَائِيلَ - يَعْنِي إِسْمَاعِيلَ بْنَ أَبِي إِسْحَاقَ الْمُلَائِيَّ - عَنْ عَطِيَّةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ 

(مسند احمد)

.

11211 حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ - يَعْنِي ابْنَ أَبِي سُلَيْمَانَ - عَنْ عَطِيَّةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ

(مسند احمد)

.

مذکورہ تینوں روایات میں مرکزی راوی عطیہ ہے اور عطیہ راوی کے متعلق علمائے جرح و تعدیل کے اقوال ملاحظہ کیجئے 

ضعيف الحديث وكان شيعيا

عطیہ عوفی ضعیف الحدیث ہے اور یہ شیعہ تھا 

(سیراعلام النبلاء5/326)

.

2321 - عَطِيَّة بن سعد أَبُو الْحسن الْكُوفِي ضعفه الثَّوْريّ وهشيم وَيحيى وَأحمد والرازي وَالنَّسَائی

عطیہ بن سعد الکوفی کو امام ثوری نے امام هشيم نے امام یحییٰ نے امام احمد نے امام رازی نے امام نسائی نے ضعیف قرار دیا ہے 

[الضعفاء والمتروكون,2/180)

۔

عطبة بن سعد العوفى [الكوفي]

تابعي شهير ضعيف..كان عطية يتشيع

عطبة بن سعد العوفى الكوفي مشہور تابعی ہے ضعیف ہے اور اس میں شیعیت تھی 

[ميزان الاعتدال ,3/79]

.

وذكر عطية العوفى فقال هو ضعيف الحديث

عطیہ عوفی کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ یہ ضعیف الحدیث ہے 

[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم ,6/383]

.

وَقَال مسلم بن الحجاج: قال أحمد وذكر عطية العوفي، فقال: هو ضعيف الحديث....وكان يعد مع شيعة أهل الكوفة

امام مسلم نے فرمایا کہ امام احمد نے فرمایا کہ ذکر ہوا عطیہ عوفی کا تو فرمایا کہ وہ ضعیف الحدیث ہے اور یہ کوفی شیعوں میں شمار کیا جاتا تھا 

[تهذيب الكمال في أسماء الرجال148 ,20/147]

.


وَكَذَا ضعفه غير وَاحِد....وَكَانَ شِيعِيًّا

اسی طرح عطیہ عوفی کو کئی علماء نے ضعیف قرار دیا ہے اور یہ شیعہ تھا 

[الوافي بالوفيات ,20/56]

.

عطیہ عوفی کوفی جسکو اکابر علماء جرح و تعدیل نے ضعیف و غیر معتبر شیعہ راوی کہا جب ایسا راوی ایسی روایت کرے کہ جو صحیح روایت کے خلاف ہو عقل اور حقیقت کے بھی خلاف ہو اور اسکی روایت کی مثل و تائید کسی معتبر روایت سے نہ ہو تو یقینا اسکی ایسی منفرد روایت مردود ناقابل حجت کہلائے گی

.

پانچویں سند:

4711 - حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ مُصْلِحٍ الْفَقِيهُ بِالرِّي، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَيُّوبَ، ثَنَا يَحْيَى بْنُ الْمُغِيرَةِ السَّعْدِيُّ، ثَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَبْدِ اللهِ النَّخَعِيِّ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ صُبَيْحٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْه، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ: كِتَابَ اللهِ، وَأَهْلَ بَيْتِي، وَإِنَّهُمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ

(مستدرك)

.

سند کا راوی جریر غالی شیعہ تھا

جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ

وقال أبو داود: كان يصر من التشيع على أمر عظيم

 امام ابو داؤد فرماتے ہیں کہ جریر بن عبد الحمید یہ شیعیت کے بہت بڑے معاملے پر اصرار کرتا تھا

(كتاب الجامع في الجرح والتعديل1/126)

.

ونسبه قتيبة (٥) إلى شيءٍ من التَّشيُّع المفرط

 جریر بن عبد المجید کو امام قتیبہ نے غالی تشیع کی طرف نسبت کی ہے

(كتاب العواصم والقواصم في الذب عن سنة أبي القاسم8/119)

 بعض ائمہ نے ان سے روایت ہے تو اس کی وجہ یہ ہوگی کہ یہ اپنے مذہب کے متعلق روایت نہیں کر رہا ہو گا اور کوئی منفرد روایت نہیں کر رہا ہوگا

.

چھٹی سند:

 - حَدَّثَنَاهُ أَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاقَ، وَدَعْلَجُ بْنُ أَحْمَدَ السِّجْزِيُّ، قَالَا: أَنْبَأَ مُحَمَّدُ بْنُ أَيُّوبَ، ثنا الْأَزْرَقُ بْنُ عَلِيٍّ، ثنا حَسَّانُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْكَرْمَانِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ، عَنِ ابْنِ وَاثِلَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ: نَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ عِنْدَ شَجَرَاتٍ خَمْسِ دَوْحَاتٍ عِظَامٍ، فَكَنَسَ النَّاسُ مَا تَحْتَ الشَّجَرَاتِ، ثُمَّ رَاحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشِيَّةً فَصَلَّى، ثُمَّ قَامَ خَطِيبًا، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَذَكَرَ وَوَعَظَ، فَقَالَ: مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ: ثُمَّ قَالَ: " أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا إِنِ اتَّبَعْتُمُوهُمَا، وَهُمَا: كِتَابُ اللَّهِ، وَأَهْلُ بَيْتِي عِتْرَتِي

(مستدک)

.

اس سند میں ایک راوی کرمانی خطاء کرتا تھا

حَسَّانُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْكَرْمَانِيُّ فِي حَدِيثِهِ وَهْمٌ

 حسان بن ابراہیم الکرمانی اس کی حدیث میں وہم ہوتا ہے خطا ہوتی ہے

(الضعفاء الكبير للعقيلي1/255)

.

قال النسائي: ليس بالقوي

 امام نسائی نے فرمایا کہ یہ قوی معتبر راوی نہیں ہے

(ديوان الضعفاء ص78)

.

رُبمَا أَخطَأ

خطاء کرتا تھا

(الثقات لابن حبان6/224)

.

اس سند کا دوسرا راوی ابن سلمہ متروک و ضعیف غیر معتبر ہے

: قلتُ للدَّارَقُطْنِيِّ يحيى بن سلمة بن كهيل، قال متروك

 امام دارقطنی فرماتے ہیں کہ یحییٰ بن سلمہ بن کہیل متروک راوی ہے

(موسوعة أقوال أبي الحسن الدارقطني في رجال الحديث وعلله2/579)

.

الإِسناد لضعف محمد بن سلمة بن كهيل

 محمد بن سلمہ بن کہیل ضعیف راوی ہے

(المطالب العالية محققا16/72)

.

سمعتُ ابن حماد يقول: قَالَ السعدي مُحَمد ويحيى ابنا سلمة بْن كهيل واهيا الحديث

 امام ابن حماد اور امام سعدی فرماتے ہیں کہ محمد اور یحیی یہ دونوں سلمہ کے بیٹے ہیں دونوں واھی الحدیث ہیں(واہیات ہیں)

(الكامل في ضعفاء الرجال7/444)

.

محمد بن سلمة بن كهيل أخو يحيى قال الجوزجاني: ذاهب واهي الحديث

 محمد بن سلمہ امام جوزجانی فرماتے ہیں کہ یہ ذاہب الحدیث الحدیث گیا گزرا واہیات راوی ہے

(رجال الحاكم في المستدرك2/209)

.

ساتویں سند:

.حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ جَعْفَرٍ، قَالَ: نا عَلِيُّ بْنُ ثَابِتٍ، قَالَ: نا سُعَادُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي مَقْبُوضٌ وَإِنِّي قَدْ تَرَكْتُ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ كِتَابَ اللَّهِ وَأَهْلَ بَيْتِي وإِنَّكُمْ لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُمَا

(مسند البزار = البحر الزخار3/89)

.

اس سند میں حارث شیعہ جھوٹا راوی ہے

كان الحارث متهمًا "في التشيع"

 حارث پر اعتراض ہے کہ وہ تشیع  کرتا تھا

(الثقات للعجلي ت قلعجي ص103)

.

سمعت الشعبي يقول: حدثني الحارث، وأشهد أنه أحد الكذابين

 حارث کے متعلق میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ بہت بڑے جھوٹوں میں سے ایک ہے

(موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل في رجال الحديث وعلله1/213)

.

وكان ابن مهدي قد ترك حديث الحارث.وقال ابن أبي خيثمة: سمعت أبي يقول: الحارث الأعور كَذَّاب...وقال الشَّعبي: ثنا الحارث، وأشهد أنه أحد الكَذَّابين.وقال أبو إسحاق السبيعي: زعم الحارث الأعور، وكان كذابًا..وقال أبو زرعة: لا يُحْتَجّ بحديثه.وقال أبو حاتم: ليس بقوي، ولا ممن يحتج بحديثه.

یعنی

 ابن مہدی نے حارث کی حدیث کو ترک کر دیا تھا.. ابو خیثمہ فرماتے ہیں کہ حارث اعور کذاب جھوٹا راوی ہے... امام شعبی فرماتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ حارث جھوٹے راویوں میں سے ایک ہے...امام سبیعی فرماتے ہیں کہ حارث بہت بڑا جھوٹا ہے... امام ابو زرعہ فرماتے ہیں کہ اس کی حدیث سے دلیل نہیں پکڑ سکتے امام ابو حاتم نے فرمایا ہے کہ یہ قوی معتبر راوی نہیں ہے اور یہ ان میں سے نہیں ہے جس کی حدیث سے دلیل پکڑی جائے

( الكمال في أسماء الرجال4/70)

.

آٹھویں سند:

حَدَّثَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنِ الرُّكَيْنِ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ حَسَّانَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ خَلِيفَتَيْنِ: كِتَابُ اللهِ، حَبْلٌ مَمْدُودٌ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، أَوْ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ، وَعِتْرَتِي أَهْلُ بَيْتِي، وَإِنَّهُمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ

(مسند أحمد - ط الرسالة35/456)

.

سند میں نخعی برے خراب حافظے والا غیر معتبر راوی ہے

شريك بن عبد الله النخعي: ضعيف، فإنه سيء الحفظ

 شریک بن عبداللہ النخعی ضعیف ہے اس کا حافظہ برا تھا خراب تھا

(نثل النبال بمعجم الرجال2/170)

.

شريك بن عبد الله النخعي: قال القطان: ما زال مخلطاً، وقال أبو حاتم: له أغاليط، وقال الدارقطني: ليس بقوي

 امام قطان فرماتے ہیں کہ یہ اختلاط کرتا تھا اور امام دارقطنی فرماتے ہیں کہ یہ قوی معتبر راوی نہیں تھا اور امام ابوحاتم فرماتے ہیں کہ اس کی بہت غلطیاں ہیں

(ديوان الضعفاء ص187)

.

*اگر بالفرض مذکورہ روایات کو مان بھی لیا جائے تو علماء نے لکھا کہ ہر سید مراد نہیں بلکہ وہ سید جو شریعت کی پیروی کرے وہ مراد ہے......!*

.

فَالْمُرَادُ بِهِمْ أَهْلُ الْعِلْمِ مِنْهُمُ الْمُطَّلِعُونَ عَلَى سِيرَتِهِ، الْوَاقِفُونَ عَلَى طَرِيقَتِهِ، الْعَارِفُونَ بِحُكْمِهِ وَحِكْمَتِهِ

( وہ جو روایت میں ہے کہ اہل بیت کو پکڑے رکھو تھامے رکھو وہ کفر شرک گمراپی گناہ سے محفوظ ہیں) یہ ان اہل بیت سید و سادات کے لئے ہے کہ جو اہل علم ہوں رسول کریم کی سیرت کو جانتے ہوں اور رسول کریم کی طریقت کو جانتے ہو رسول کریم کے حکم اور حکمتوں کو جانتے ہوں

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح9/3975)

.

أن المراد بالعترة هم الذين وافق أمرهم كتاب الله

(وہ جو روایت میں ہے کہ اہل بیت کو پکڑے رکھو تھامے رکھو وہ کفر شرک گمراپی گناہ سے محفوظ ہیں) اس سے مراد وہ سید و سادات ہیں کہ جن کا معاملہ(قول و عمل کتاب اللہ( اور نبی پاک کی سنت )کے موافق ہو

(الكوكب الدري على جامع الترمذي4/425)

.

المراد بعترته العلماء العاملون منهم

(وہ جو روایت میں ہے کہ اہل بیت کو پکڑے رکھو تھامے رکھو وہ کفر شرک گمراپی گناہ سے محفوظ ہیں) اس سے مراد وہ سید و سادات ہیں کہ جو شریعت پر عمل کرتے ہو

(التنوير شرح الجامع الصغير4/216)

(فيض القدير شرح الجامع الصغير3/14)

.

*اس مسئلے میں اہم اصل صحیح حدیث یہ دو تھیں....جن میں کتاب اللہ کو مضبوطی سے تھامے رکھنے اور سنت رسول کو مضبوطی سے تھامے رکھنے کی نصیحت کی گئی ہے اور ان میں اہل بیت کی اتباع و پیروی کی نصیحت نہیں کی گئی جبکہ اوپر والی احادیث میں راویوں کی طرف سے یہ غلطی یا وہم وغیرہ ہوا کہ انہوں نے اس میں اضافہ کردیا کہ تا قیامت سادات کی بھی پیروی کرنی ہے لیھذا اوپر والی روایات شدید ضعیف یا من گھڑت یا غیر معتبر منکر ہیں*

.

*اصل اہم صحیح روایات یہ دو ہیں*

وقد تركت فيكم ما لن تضلوا بعده إن اعتصمتم به كتاب الله،

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میں تم میں وہ چھوڑے جارہا ہوں کہ جس کو تم مضبوطی سے پکڑے رکھو گے تو تم گمراہ نہیں ہوں گے اور وہ کتاب اللہ ہے

(صحیح مسلم حدیث2950)

.

، وانا تارك فيكم ثقلين ، اولهما كتاب الله فيه الهدى والنور ، فخذوا بكتاب الله واستمسكوا به ، فحث على كتاب الله ورغب فيه ، ثم قال : واهل بيتي اذكركم الله في اهل بيتي ، اذكركم الله في اهل بيتي ، اذكركم الله في اهل بيتي

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑ کے جا رہا ہوں پہلی کتاب اللہ ہے کہ جس میں ہدایت ہے نور ہے تو کتاب اللہ کو تھامے رکھو... پھر فرمایا کہ میرے اہل بیت میں تمہیں اہل بیت کے متعلق حسن سلوک کی نصیحت کرتا ہوں میں تمہیں اہل بیت کے متعلق حسن سلوک کی نصیحت کرتا ہوں میں تمہیں اہل بیت کے متعلق حسن سلوک کی نصیحت کرتا ہوں

(صحیح مسلم حدیث6225)

 اس حدیث پاک میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اہل بیت کو مضبوطی سے تھامے رکھنے کی نصیحت نہیں کی گئی کہ تم اہل بیت کو تھامو گے تو گمراہ نہیں ہو گے ایسا نہیں فرمایا گیا

.

" تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا: كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں اگر تم ان کو مضبوطی سے تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے کتاب اللہ اور اللہ کے نبی کی سنت یعنی میری سنت

(جامع بيان العلم وفضله1/755)

(موطأ مالك رواية أبي مصعب الزهري2/70نحوہ)

(جمع الجوامع المعروف  12/422نحوہ)

(إتحاف المهرة لابن حجر12/518نحوہ)

(مستدرک حاکم 1/172نحوہ)

(السنن الكبرى - البيهقي - ط العلمية10/194نحوہ)

.

*سید نعوذ باللہ بدمذہب گمراہ ہوجائے تو..........؟؟*

جواب...خلاصہ:

سید اگر حد کفر تک ہو جائے،مرتد ہوجائے تو وہ سید نہیں رہتا یا سید ہی نہیں ہوتا.. مسلمان نہیں رہتا، سمجھانا لازم لیکن جو کفر و ارتداد پے ڈٹا رہے اس سے اب ہرطرح کا بائیکاٹ لازم ، اسکی مذمت کرنا برحق، اسکی تعظیم ختم

اور

اگر حد کفر تک نہ ہو ، مرتد نہ ہو، گمراہ بدعتی فاسق معلن ہو مثلا تفضیلی ہو تو بمطابق فتاوی سیدی امام احمد رضا اسکی حالت تنہائی میں زبانی تعظیم کی جائے گی، پوشیدہ ملاقات کرنا پڑے تو پوشیدہ ملاقاتی ادب کیاجائے گا، اسکی اہانت نہ کرنا لازم ہوگی

مگر

اس کے ساتھ ساتھ اسے سمجھانا لازم، بدعت گمراہیت تفضیلیت  سے روکنا لازم، گمراہیت بدعت پے ڈٹا رہے تو اس کی وعظ و تقریر نہ سننا لازم،اس سے بائیکاٹ و دوری لازم، اسے امامت خطابت قضاء وغیرہ شرعی عہدوں سے ہٹانا لازم، شرعی عہدے نہ دینا لازم…سرعام ادب نہ کرنا لازم کہ لوگ گمراہ باطل کو حق سمجھیں گے

.

سچا مسلمان،سنی ہمیشہ سادات کا خادم و باادب ہوتا ہے مگر سید اگر منافق ایجنٹ گمراہ ہوتو اس کی مذمت خود حدیث پاک میں ہے....سید بدعملی گمراہی منافقت کرتا پھرے ہم پھر بھی واہ واہ کریں اسکی سنیں مانیں یہ اسلام نہیں...یہ سادات کے نانا جان کی تعلیمات نہیں..ہمیں سادات سے بڑھ کر ان کے نانا جان حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و علی آلہ و اصحابہ وسلم کی تعلیمات کی پیروی کرنی ہے

.

الحدیث: 

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَقُولُوا لِلْمُنَافِقِ سَيِّدٌ

ترجمہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ منافق کو سید نہ کہو(ابو داود حدیث4977)

.


الحدیث:

ومن بطأ به عمله، لم يسرع به نسبه

جسکو اسکا عمل پیچھے کر دے اسے اسکا نسب آگے نہین کرتا

(مسلم.حدیث نمبر2699)

.

فَإِذَا أُمِرَ بِمَعْصِيَةٍ فَلَا سَمْعَ وَلَا طَاعَةَ

جب بات گناہ(کفر گمراہی) کی ہو تو اسکی بات نہ سنو نہ مانو

(بخاری حدیث2955)


الحدیث:

[ ایاکم و ایاھم لا یضلونکم و لا یفتنونکم ]

’’گمراہوں،گستاخوں، بدمذہبوں سے دور بھاگو ، انہیں اپنے سے دور کرو(سمجھانے کے ساتھ ساتھ قطع تعلق و بائیکاٹ کرو) کہیں وہ تمہیں بہکا نہ دیں، کہیں وہ تمہیں فتنہ میں نہ ڈال دیں‘‘(صحیح مسلم1/12)

.

ایک امام نےقبلہ کی طرف تھوکا،رسول کریمﷺنےفرمایا:

لایصلی لکم

ترجمہ:

وہ تمھیں نماز نہیں پڑھا سکتا

(ابوداؤد حدیث481، صحیح ابن حبان حدیث1636,

مسند احمد حدیث16610 شیعہ کتاب احقاق الحق ص381)

.

صدر الشریعہ خلیفہ اعلی حضرت سیدی مفتی امجد علی اعظمی فرماتے ہیں:

اس وقت جو کچھ ہم کرسکتے ہیں وہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں سے مُقاطَعہ(بائیکاٹ) کیاجائے اور ان سے میل جول نشست وبرخاست وغیرہ ترک کریں.(بہار شریعت جلد1 حصہ9 ص60)

.

چند اوراق بعد لکھتے ہیں:

سب سے بہتر ترکیب وہ ہے جو ایسے وقت کے لیے قرآن وحدیث میں ارشاد ہوئی اگر مسلمان اس پر عمل کریں تمام قصوں سے نجات پائیں دنیا وآخرت کی بھلائی ہاتھ آئے۔ وہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں سے بالکل میل جول چھوڑ دیں، سلام کلام ترک کر دیں، ان کے پاس اٹھنا بیٹھنا، ان کے ساتھ کھانا پینا، ان کے یہاں شادی بیاہ کرنا، غرض ہر قسم کے تعلقات ان سے قطع کر دیں..(بہار شریعت جلد1 حصہ9 ص84)

.

الحدیث:

فَلَا تُجَالِسُوهُمْ، وَلَا تُؤَاكِلُوهُمْ، وَلَا تُشَارِبُوهُمْ، وَلَا تُنَاكِحُوهُمْ، وَلَا تُصَلُّوا مَعَهُمْ، وَلَا تُصَلُّوا عَلَيْهِمْ

ترجمہ:

بدمذہبوں گستاخوں کے ساتھ میل جول نہ رکھو، ان کے ساتھ کھانا پینا نہ رکھو، ان سے شادی بیاہ نہ کرو، ان کے معیت میں(انکے ساتھ یا ان کے پیچھے) نماز نہ پڑھو(الگ پرھو)اور نہ ہی انکا جنازہ پڑھو

[السنة لأبي بكر بن الخلال ,2/483حدیث769]

.

الحدیث:

فلا تناكحوهم ولا تؤاكلوهم ولا تشاربوهم ولا تصلوا معهم ولا تصلوا عليهم

ترجمہ:

بدمذہبوں گستاخوں کے ساتھ شادی بیاہ نہ کرو، ان کے ساتھ کھانا پینا نہ رکھو، ان کے معیت میں (انکے ساتھ یا ان کے پیچھے) نماز نہ پڑھو(الگ پرھو)اور نہ ہی انکا جنازہ پڑھو

[جامع الأحاديث ,7/431حدیث6621]

.

قادیانی،نیچری، رافضی،وہابی، چکڑالوی،دیوبندی(جو کٹر دیوبندی یا گستاخ ہو)وغیرہم،جو مشرب رکھتا ہو ہرگز سید نہیں(فتاوی رضویہ29/640)

.

*#اہم_سوال:*

مذکورہ احادیث سے سید مستثنی ہیں جیسا کہ فتاوی رضویہ میں ہے کہ سید بدعمل بدمذہب تفضیلی بھی ہو جائے تو اسکا ادب کیا جائے گا

.

جواب:

سیدی رضا کے مذکورہ فتوے کے علاوہ انکا یہ فتوی بھی ملاحظہ کیجیے کہ کسی نے پوچھا کہ تفضیلی سید امامت کراسکتا ہے یا نہیں تو آپ نے جواب میں لکھا کہ:

تمام اہلسنت کا عقیدہ اجماعیہ ہے کہ صدیق اکبر و فاروق اعظم رضی ﷲ تعالی عنہ مولی علی کرم ﷲ تعالی وجہہ الکریم سے افضل ہیں،ائمہ دین کی تصریح ہے جو مولی علی کو ان پر فضیلت دے مبتدع بدمذہب ہے، اس کے پیچھے نماز مکروہ ہے۔فتاوی خلاصہ وفتح القدیرو بحرالرائق وفتاوی عالگیریہ وغیرہا کتب کثیرہ میں ہے:ان فضل علیا علیھما فمبتدع(اگر کوئی حضرت علی کو صدیق و فاروق پر فضیلت دےتا ہے تو وہ بدعتی ہے ۔ت)

( خلاصۃ الفتاوی کتاب الصلوۃ الاقتداء باھل الہوائ مطبوعہ مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ ۱ /۱۴۹)

ف: خلاصۃ الفتاوی میں ''ان فضل علیا علی غیرہ'' ہے ۔غنیہ وردالمحتارمیںہے:الصلوۃ خلف المبتدع تکرہ بکل حال ۲؎

(بدمذہب کے پیچھے ہر حال میں مکروہ ہے)

(۲؎ ردالمحتار باب الامامۃ مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱ /۴۱۴)ارکان اربعہ میں ہے:الصلوۃ خلفھم تکرہ کراھۃ شدیدۃ ۳؎

(ان یعنی تفضیلی شیعہ کی اقتداء میں نماز شدید مکروہ ہے۔ت)(۳؎رسائل الارکان فصل فی الجماعۃ مطبوعہ مطبع علوی انڈیا ص۹۹)

تفضیلیوں کے پیچھے نماز سخت مکروہ یعنی مکروہ تحریمی ہے کہ پڑھنی گناہ اور پھیرنی واجب ۔وﷲ تعالی اعلم

(فتاوی رضویہ6/622)

.

دیکھا سیدی امام احمد رضا علیہ الرحمۃ نے بےشک ادب کا بھی فتوی دیا تھا اور یہ بھی فتوی دیا کہ وہ امامت کے لائق نہیں،اسکے پیچھے نماز جائز نہیں

لیھذا

تطبیقا کہنا پڑے گا کہ سید گمراہ بدعتی بدمذہب تفضیلی ہوجائے تو سمجھاءیں گے،حالت تنہائی میں زبانی ادب کریں گے،تنہائی میں ملنا پڑے تو ملاقاتی ادب کریں گے اور اس کے علاوہ کوئی رعایت نہیں....سیدی رضا نے عام فقہی عبارات کو سادات پر بھی فٹ کیا لیھذا اوپر والی تمام احادیث سادات پر بھی فٹ ہونگیں...واللہ تعالیٰ اعلم و رسولہ صلی اللہ علیہ وسلم اعلم بالصواب

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App,twitter nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.