رافضی نیم رافضی کے اعتراض کہ سیدنا معاویہ صحابی نہیں، طلقاء میں سے ہیں،اسکا جواب

 *شیعہ روافض نیم روافض کا اعتراض کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی نہیں بلکہ طلقاء میں سے ہیں...اسکی تحقیق و رد.......!!*

سوال:

حضرت اس تحریر کا جواب دیجیے، مدلل اور جلد از جلد دیجیے....

جواب:

تحریر میں اہم اعتراضات دو ہیں، نمبر وار ہر ایک کا جواب حاضر ہے

.

*#اعتراض①*

شیعہ روافض نیم روافض کہتے ہیں کہ

/ معاویہ کا شمار صحابہ اکرام میں نہیں ہوتا بلکہ طلقاء میں ہوتا ہے /امام ابن عساکر رضي الله عنه اپنی اسنادِ جید کے ساتھ بحوالہ امام ابوداؤد الطیاسی رضي الله عنه بیان کرتے ہیں وقال ابن عساكر بإسناد عن أبى داود الطياسى ثنا أيوب بن جابر عن أبى إسحاق ، عن لاشود بن يزيد قال : قلت لعائشة :  إلا تعجبين لرجل من الطلقاء ينازع أصحاب محمد صلى الله عليه و آله وسلم في الخلافة فقالت عائشة : وما تعجب من ذلك هو سلطان الله يوتيه البر والفاجر ، وقد ملك فرعون أهل مصر أربعمائة سنة :

حضرت اسود بیان کرتے ہیں کہ میں نے عائشہ رضي الله عنه سے کہا کیا آپ اس شخص (معاويه) پر تعجب نہیں کرتی جو طلقاء میں سے ہے اور خلافت کے معاملہ میں رسول اللہ کے اصحاب (امیر المومنین علی) سے جھگڑتا ہے

تو عائشہ رضي الله عنه نے فرمایا : نہیں تعجب والی بات نہیں، یہ اقتدار الہی ہے وہ نیک و بد کو بھی عطا کرتا ہے اس نے فرعون کو اہل مصر پر چار سو سال تک بادشاہ بنایا اور اسی طرح دیگر کفار کو بھی :(البداية والنهاية (ت: التركي)

الجزء الحادی عشر ، ص/ 130-131

طُلَقَاء اسمِ طَلِیق کی جمع ہے طلیق کے لغوی معنی رہا یا آزاد شدہ غلام کے ہیں ایسا شخص جو قابو میں آگیا ہو، پکڑا جا چکا ہو، گرفتار کیا جا چکا ہو جمہور آئمہ کے قول کے مطابق طلقاء ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو لوگ فتح مکہ کے دن المؤلفة قلوبهم یعنی دباو کے تحت اسلام لانے مثلاً ابوسفیان، معاویہ، یزید اور ان کے دیگر ہمنوا کو طلقاء کہا جاتا ہے

امام ابن‌ منظور، لسان العرب، ج10، ص227. طلیق - فعیل به معنای مفعول - و هوالأسیر إذا أطلق سبیله. مقریزی،

امام تقی‌الدین؛ إمتاع الأسماع، بیروت، دار‌الکتب العلمیة، 1420، طبع اول، ج8، ص388.

امام محمد بن عبد البر، الاستیعاب، ج 1، ص 401


.

*#جواب.و.تحقیق.......!!*

*#پہلی بات.....امام ابن عساکر کے مطابق سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاتب وحی صحابی پابند اسلام نیک بادشاہ ہیں تو امام ابن عساکر انکو کیسے غیر صحابی فاسق فاجر فرعونی قسم کا بادشاہ ثابت کریں گے.....؟؟*

معاوية بن صخر أبي سفيان بن حرب بن أمية بن عبد شمس بن عبد مناف أبو عبد الرحمن الأموي خال المؤمنين وكاتب وحي رب العالمين أسلم يوم الفتح وروى عنه أنه قال أسلمت يوم القضية وكتمت إسلامي خوفا من أبي وصحب النبي (صلى الله عليه وسلم) وروى عنه أحاديث....فملك الناس كلهم عشرين سنة  بالملك ففتح الله به الفتوح ويغزو الروم ويقسم الفئ والغنيمة ويقيم الحدود والله لا يضيع أجر من أحسن عملا

یعنی

 امام ابن عساکر فرماتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اموی ہیں، مومنوں کے ماموں کاتب وحی صحابی ہیں، فتح مکہ کے دن اسلام ظاہر کیا اور مروی ہے کہ فتح مکہ سے پہلے اسلام لائے تھے... تقریبا 20 سال بادشاہ رہے اللہ تعالی نے آپ کی وجہ سے بے بہت فتوحات عطا فرمائیں اور غزوہ روم بھی آپ نے کیا ، آپ پابند اسلام تھے اسلام کی حدود کی سخت پاسداری فرماتے تھے اور اللہ ان جیسے نیکوں کا صلہ ضائع نہیں کرتا

(تاریخ دمشق ابن عساکر61، 59/55)

.

عبد الله وسئل عن رجل انتقص معاوية وعمرو بن العاص أيقال له رافضي قال إنه لم يجترئ عليهما إلا وله خبيئة سوء ما يبغض أحد أحدا من أصحاب رسول الله (صلى الله عليه وسلم) إلا وله داخلة سوء

 امام ابن عساکر فرماتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل رضی اللہ تعالی عنہ سے سوال کیا گیا کہ اُس شخص کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں کہ جو سیدنا معاویہ اور سیدنا عمرو بن عاص کی توہین و گستاخی کرے کیا وہ رافضی کہلائے گا...؟؟ سیدنا امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ سیدنا معاویہ اور سیدنا عمر بن عاص رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق کوئی بھی جرت نہیں کر سکتا لیکن وہ شخص کہ جس کے دل میں خباثت ہو کہ کسی صحابی کے متعلق وہی گستاخی کرے گا کہ جس کے دل میں کوئی برائی و خباثت ہوگی

(تاریخ دمشق ابن عساکر59/210)

 ثابت ہوا کہ امام ابن عساکر اور امام احمد بن حنبل کے مطابق بھی سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ صحابی ہیں ان کے متعلق اچھا عقیدہ ہی رکھنا لازم ہے....!!

.

*#دوسری بات.......!!*

امام ابوداود طیالسی نے اپنی ایک کتاب مسند ابی داؤد الطیالسی میں کم و بیش پندرہ(15)احادیث سیدنا معاویہ سے روایت کی، اگر نعوذ باللہ امام طیالسی کے مطابق سیدنا معاویہ فاجر غیر معتبر ظالم ہوتے تو بھلا ایسے شخص سے حدیث کون لیتا ہے.....؟؟ سیدنا معاویہ سے احادیث لینا بھی اس بات کی گواہی ہے کہ سیدنا معاویہ فاجر و غیر صحابی نہ تھے بلکہ نیک مجتہد صحابی تھے

.

*تیسری بات...سیدنا معاویہ صحابی ہیں، چند حوالے ملاحظہ کیجیے......!!*

دَعَوْنَا مِنْ مُعَاوِيَةَ فَإِنَّهُ قَدْ صَحِبَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

سیدنا ابن عباس فرماتے ہیں سیدنا معاویہ کے متعلق نازیبا بات نہ کرو وہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں

(المعجم الكبير للطبراني11/124)

(الشريعة للآجري5/2459نحوه)

(مشكاة المصابيح1/399نحوہ)

.

قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ: أَيُّهُمَا أَفْضَلُ: مُعَاوِيَةُ أَوْ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ؟ فَقَالَ: «مُعَاوِيَةُ أَفْضَلُ، لَسْنَا نَقِيسُ بِأَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدًا» . قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِيَ الَّذِينَ بُعِثْتُ فِيهِمْ

 امام احمد بن حنبل سے سوال کیا گیا کہ سیدنا معاویہ افضل ہیں یا عمر بن عبدالعزیز، امام احمد بن حنبل نے فرمایا ہے کہ سیدنا معاویہ افضل ہیں... ہم کسی غیر صحابی(حتی کہ عظیم الشان تابعی وغیرہ جیسے عمر بن عبدالعزیز)کو(سیدنا معاویہ وغیرہ)کسی صحابی کے برابر نہیں کرسکتے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سب سے افضل ترین وہ لوگ(صحابہ) ہیں کہ جن میں میں ظاہری حیات رہا

(السنة لأبي بكر بن الخلال2/434)

ثابت ہوا سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فضیلت والے صحابی ہیں، غیر صحابی بڑے بڑے متقی پرہیزگار صوفیاء اولیاء علماء سیدنا معاویہ کے برابر نہیں ہوسکتے

.

سَأَلْتُ أَبَا أُسَامَةَ أَيُّمَا كَانَ أَفْضَلَ مُعَاوِيَةُ أَوْ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ؟ فَقَالَ: لَا نَعْدِلُ بِأَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدًا

 ابو اسامہ سے سوال کیا کہ سیدنا معاویہ افضل ہیں یا عمر بن عبدالعزیز، آپ نے فرمایا کہ ہم کسی غیر صحابی(حتی کہ عظیم الشان تابعی وغیرہ جیسے عمر بن عبدالعزیز)کو(سیدنا معاویہ وغیرہ)کسی صحابی کے برابر نہیں کرسکتے

(جامع بيان العلم وفضله2/1173)

ثابت ہوا سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فضیلت والے صحابی ہیں، غیر صحابی بڑے بڑے متقی پرہیزگار صوفیاء اولیاء علماء سیدنا معاویہ کے برابر نہیں ہوسکتے

.

وَقَالَ رَجُلٌ لِلْمُعَافَى بْنِ عِمْرَانَ: أَيْنَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ مِنْ مُعَاوِيَةَ ؟! .. فَغَضِبَ وَقَالَ: لَا يُقَاسُ بِأَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ

 ایک شخص نے المعافی سے پوچھا کہ سیدنا عمر بن عبدالعزیز کا مرتبہ سیدنا معاویہ کے معاملے میں کتنا ہے...؟؟ آپ غضبناک ہو گئے اور فرمایا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی بھی صحابی(سیدنا معاویہ وغیرہ) کے برابر کوئی نہیں ہو سکتا

(الشفا بتعريف حقوق المصطفى2/123)

ثابت ہوا سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فضیلت والے صحابی ہیں، غیر صحابی بڑے بڑے متقی پرہیزگار صوفیاء اولیاء علماء سیدنا معاویہ کے برابر نہیں ہوسکتے

.

معاوية بن أبى سفيان الصحابى ابن الصحابى

 سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنھما صحابی ہیں اور آپ کے والد بھی صحابی ہیں

(تهذيب الأسماء واللغات2/101)



.

معاوية بن أبى سفيان صخر بن حرب بن أمية الأموى: أبو عبد الرحمن الخليفة، صحابى

 سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ اموی خلیفہ اور صحابی ہیں(مغاني الأخيار في شرح أسامي رجال معاني الآثار3/555)

.

مُعَاوِيَةَ وَيَقُولُ: كَانَ مِنَ الْعُلَمَاءِ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ عَلَيْهِ السَّلَامُ

سیدنا فضیل فرماتے ہیں سیدنا معاویہ اصحاب محمد کے علماء صحابیوں میں سے ہیں

(السنة لأبي بكر بن الخلال2/438)

.

مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ) : وَهُمَا صَحَابِيَّانِ

 سیدنا معاویہ صحابی ہیں اور سیدنا ابو سفیان بھی صحابی ہیں

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح1/364)

.

قال ابن الصّلاح: «ثم إن الأمة مجمعة على تعديل جميع الصّحابة ومن لابس الفتن منهم، فكذلك بإجماع العلماء الذين يعتدّ بهم في الإجماع قال الخطيب البغداديّ في الكفاية» مبوبا على عدالتهم: عدالة الصحابة ثابتة معلومة بتعديل اللَّه لهم، وإخباره عن طهارتهم واختياره لهم في نص القرآن.

 علامہ ابن صلاح فرماتے ہیں تمام صحابہ کرام عادل و دیندار ہیں( فاسق و فاجر دنیادار ظالم منافق نہیں) وہ صحابہ کرام بھی عادل و دیندار ہیں جو جنگوں فتنوں میں پڑے(جیسے سیدنا معاویہ وغیرہ) اس پر معتدبہ علماء کا اجماع ہے..خطیب بغدادی فرماتے ہیں تمام صحابہ کرام عادل و دیندار ہیں(فاسق و فاجر ظالم دنیادار منافق نہیں)صحابہ کرام کی تعدیل اللہ نے فرمائی ہے اور اللہ نے ان کی پاکیزگی کی خبر دی ہے 

(امام ابن حجر عسقلانی.. الإصابة في تمييز الصحابة، 1/22)

ثابت ہوا سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ وغیرہ جو جنگوں میں پڑے وہ سب کے سب نیک عادل صحابی ہیں اس پر تمام معتبر علماء کا اجماع ہے اور یہ نظریہ  قرآن و حدیث سے ثابت ہے

.

وَأَمَّا مُعَاوِيَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَهُوَ مِنَ الْعُدُولِ الْفُضَلَاءِ وَالصَّحَابَةِ النُّجَبَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَأَمَّا الْحُرُوبُ الَّتِي جَرَتْ فَكَانَتْ لِكُلِّ طَائِفَةٍ شُبْهَةٌ اعْتَقَدَتْ تَصْوِيبَ أَنْفُسِهَا بِسَبَبِهَا وَكُلُّهُمْ عُدُولٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَمُتَأَوِّلُونَ فِي حُرُوبِهِمْ وَغَيْرِهَا وَلَمْ يُخْرِجْ شئ مِنْ ذَلِكَ أَحَدًا مِنْهُمْ عَنِ الْعَدَالَةِ لِأَنَّهُمْ مُجْتَهِدُونَ اخْتَلَفُوا فِي مَسَائِلَ مِنْ مَحَلِّ الِاجْتِهَادِ كَمَا يَخْتَلِفُ الْمُجْتَهِدُونَ بَعْدَهُمْ فِي مَسَائِلَ مِنَ الدِّمَاءِ وَغَيْرِهَا وَلَا يَلْزَمُ مِنْ ذَلِكَ نَقْصُ أَحَدٍ مِنْهُمْ

سیدنا معاویہ عادل و دیندار فضیلت والے نجباء صحابہ میں سے ہیں باقی جو ان میں جنگ ہوئی تو ان میں سے ہر ایک کے پاس شبہات تھے اجتہاد جس کی وجہ سے ان میں سے کوئی بھی عادل ہونے کی صفت سے باہر نہیں نکلتا اور ان میں کوئی نقص و عیب نہیں بنتا

(امام نووي ,شرح النووي على مسلم ,15/149)

.

*#چوتھی بات....طلقاء کہنے سے صحابیت کی نفی نہیں ہوتی جیسے مہاجر و انصار کہنے سے صحابیت کی نفی نہیں ہوتی......!!*

.

أنه صحابي من الطلقاء

 بے شک وہ صحابی ہیں طلقاء میں سے ہیں

(التنوير شرح الجامع الصغير5/194)

.

الصَّحَابِيُّ، مِنَ الطُّلَقَاءِ

وہ صحابی ہیں طلقاء میں سے ہیں

(سير أعلام النبلاء - ط الرسالة2/543)

.

ذكره ابن سعد، والطّبريّ: وابن شاهين في الصحابة، وكان من الطلقاء

  امام ابن سعد اور امام طبری اور امام ابن شاہین نے انہیں صحابہ میں شمار کیا اور وہ طلقاء میں سے تھے

(الإصابة في تمييز الصحابة4/301)

.

أَبُوْهُ مِنَ الطُّلَقَاءِ، وَمِمَّنْ حَسُنَ إِسْلاَمُهُ

 ان کے والد طلقاء میں سے تھے اور ان کا اسلام لانا اچھا ہو گیا تھا

(سير أعلام النبلاء - ط الرسالة3/484)

.

معاوية) بنُ أبي سفيانَ خالُ المؤمنين وأميرُهم، الأمويُّ -بضم الهمزة- الصّحابيُّ بنُ الصحابيِّ، كان من مُسلمة الفتح، ومن المؤلَّفة قلوبهم، ثمَّ حَسُنَ إسلامه كأبيه وأمه هند بنت عتبة

یعنی

 سیدنا معاویہ ماموں ہیں مومنین کے اور مومنوں کے امیر ہیں،صحابی ہیں، صحابی کے بیٹے ہیں،فتح مکہ کے دن ایمان ظاہر کیا،پہلے پہل مولفۃ القلوب میں سے تھے پھر اسلام لانا انکا اچھا ہوگیا، اسلام پر اچھائی و پابندی کے ساتھ رہے جیسے کہ انکا والد ابوسفیان اور انکی والدہ ھندہ(کا اسلام اچھا ہوگیا تھا،اسلام پر اچھائی کے ساتھ رہے)

(كشف اللثام شرح عمدة الأحكام3/472)

.

أبو سفيان بن حرب» ، و «معاوية» ابنه، ثم حسن إسلامهما. و «حكيم ابن حزام» ، ثم حسن إسلامه. و «الحارث بن هشام» ، أخو «أبى جهل بن هشام» ، ثم حسن إسلامه. [و «صفوان بن أميّة» ، ثم حسن إسلامه [٢] . و «سهيل ابن عمرو» ، ثم حسن إسلامه. [و «حويطب بن عبد العزى» ، ثم حسن إسلامه] . و «العلاء بن حارثة الثّقفيّ» ، و «عيينة بن حصن بن حذيفة ابن بدر» ، و «الأقرع بن حابس» ، و «مالك بن عوف النّصرى» ، و «العباس ابن مرداس السّلمى» ثم حسن إسلامه. و «قيس بن مخرمة» ، ثم حسن إسلامه. و «جبير بن مطعم» ، ثم حسن إسلامه

 سیدنا ابو سفیان سیدنا معاویہ سیدنا حکیم سیدنا حارث سیدنا صفوان سیدنا سہیل سیدنا حویطب سیدنا علاء سیدنا عیینہ سیدنا اقرع سیدنا مالک بن عوف سیدنا عباس بن مرداس سیدنا قیس سیدنا جبیر

یہ سب پہلے پہل مولفۃ القلوب میں سے تھے پھر اسلام لانا انکا اچھا ہوگیا، اسلام پر اچھائی پابندی کے ساتھ رہے 

(كتاب المعارف1/342)

.

ابْنُ عَمِّ النَّبِيِّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الطُّلَقَاءِ الَّذِيْنَ حَسُنَ إِسْلاَمُهُم..

 نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے بیٹے طلقاء میں سے تھے پھر ان کا اسلام اچھا ہوگیا،اسلام پر اچھائی پابندی کے ساتھ رہے

(سير أعلام النبلاء - ط الرسالة3/95)

.

أسلم هو وأبوه يوم فتح مكة، وشهد حُنينًا وكان من المؤلفة قلوبهم، ثم حسن إسلامه

سیدنا معاویہ اور انکے والد سیدنا ابو سفیان فتح مکہ کے دن ایمان لائے جہاد حنین (وغیرہ) میں شریک ہوئے، پہلے پہل مولفۃ القلوب تھے پھر اسلام پر اچھائی کے ساتھ رہے

(تاريخ الخلفاء سيوطي ص148)

.

ومعاوية بن أبي سفيان ثمّ حسن إسلامه

سیدنا معاویہ پہلے پہل مولفۃ القلوب تھے پھر اسلام پر اچھائی کے ساتھ رہے

(درج الدرر في تفسير الآي والسور ط الفكر1/777)

.

، وكان هو وأبوه من المؤلَّفة قلوبهم، ثم حَسُنَ إسلامُهما

سیدنا معاویہ اور انکے والد ابو سفیان پہلے پہل مولفۃ القلوب تھے پھر اسلام پر اچھائی کے ساتھ رہے

(التاريخ المعتبر في أنباء من غبر1/286)

.

العلماء متفقون على حسن إسلامه

علماء متفق ہیں کہ سیدنا معاویہ کا اسلام لانا اچھا ہوگیا تھا،اسلام پر اچھائی سے رہے

(الإصابة في الذب عن الصحابة  ص220)

.

أبو سفيان بن حرب» ، و «معاوية» ابنه، ثم حسن إسلامهما

سیدنا معاویہ اور انکے والد سیدنا ابو سفیان فتح مکہ کے دن ایمان لائے(پہلے پہل مولفۃ القلوب میں سے تھے) پھر اسلام پر اچھائی کے ساتھ رہے

(المعارف ابن قتيبة 1/342)

.

*#پانچویں بات...سیدہ عائشہ کا فرمان کہ معاویہ اچھے ہیں،کچھ معاملات کی وجہ سے سیدنا معاویہ کے متعلق اگر سیدہ عائشہ نے کچھ نازیبا اگر فرمایا بھی تو سیدنا معاویہ نے عذر سنایا وضاحت دی اور سیدہ عائشہ نے عذر قبول کر لیا لیھذا معاذ اللہ فاجر فرعونی ظالم حاکم کہنے والی روایت باطل ہے......!!*


كَيْفَ أَنَا فِي حَاجَاتِكِ وَرُسُلِكِ وَأَمْرِكِ؟، قَالَتْ: صَالِحٌ

 سیدنا معاویہ نے فرمایا کہ( اجتہاد کی بنیاد پے جنگ و قتل کو چھوڑییے)آپ کے معاملے میں اے سیدہ عائشہ میں کیسا ہوں...؟؟ سیدہ عائشہ نے فرمایا آپ اچھے ہیں

(المعجم الكبير للطبراني19/319)

.

يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ.كَيْفَ أَنَا فِيمَنْ سِوَى ذَلِكَ مِنْ حَاجَاتِكِ وَأَمْرِكِ؟ قَالَتْ: صَالِحٌ

 (اجتہاد کی بنیاد پے جنگ و قتل کو چھوڑییے) اے ام المومنین اس کے علاوہ میں کیسا ہوں تو سیدہ عائشہ نے فرمایا آپ اچھے ہیں

(دلائل النبوة للبيهقي6/457)

.

يَا أمَّ الْمُؤْمِنِينَ كَيْفَ أَنَا فِيمَا سِوَى ذَلِكَ مِنْ حَاجَاتِكَ وَأَمْرِكَ؟ قَالَتْ: صَالِحٌ...فَلَمْ يَزَلْ يَتَلَطَّفُ حَتَّى دَخَلَ فَلَامَتْهُ فِي قَتْلِهِ حُجْرًا، فَلَمْ يَزَلْ يَعْتَذِرُ حَتَّى عَذَرَتْهُ

(اجتہاد کی بنیاد پے جنگ و قتل کو چھوڑییے) اے ام المومنین اس کے علاوہ میں کیسا ہوں تو سیدہ عائشہ نے فرمایا اچھے ہیں... سیدنا حجر کے قتل کے معاملے میں سیدہ عائشہ نے سیدنا معاویہ کی ملامت فرمائی تو سیدنا معاویہ نے عذر پیش کیا یہاں تک کہ سیدہ عائشہ نے عذر قبول کر لیا

(البداية والنهاية ت شيري8/60)

.

*#چھٹی بات.......!!*

ممکن ہے اصل بات اتنی ہو مگر بڑھا چڑھا کر پیش کی گئ ہو

الْأَسْوَدِ قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ: إِنَّ رَجُلًا مِنَ الطُّلَقَاءِ يُبَايِعُ لَهُ - يَعْنِي مُعَاوِيَةَ -، قَالَتْ: «يَا بُنَيَّ، لَا تَعْجَبْ هُوَ مُلْكُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ»

 سیدنا اسود فرماتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ سے عرض کی کے ایک شخص جو طلقاء صحابیوں میں سے ہے یعنی معاویہ کی بیعت کی جا رہی ہے(حالانکہ طلقاء سے پہلے والے صحابہ جو طلقاء سے افضل ہیں وہ موجود ہیں)کیا یہ عجیب بات نہیں....؟ سیدہ عائشہ نے فرمایا کہ تعجب میں مت پڑیے یہ اللہ تعالی کی بادشاہت ہے جسے چاہے عطا فرمائے

(المصنف - ابن أبي شيبة - ت الحوت6/186)

.

*#ساتویں بات…....!!*

 شیعہ روافض نیم روافض کی پیش کردہ روایت جس میں کہا گیا ہے کہ سیدنا معاویہ صحابی نہیں ہیں اس روایت کا ایک راوی عبد الرحمن بن محمد بن یاسر جوبری ہے... تو اس کا یہ مطلب بنا کے جوبری کے مطابق سیدنا معاویہ صحابی نہیں ہیں حالانکہ جوبری سے ثابت ہے کہ وہ کہا کرتے تھے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ صحابی ہیں

حَتَّى أَدْرِي مَذْهَبَكَ فِي مُعَاوِيَة. فَقُلْتُ: صَاحِبِ رَسُوْلِ اللهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-، وَتَرَحَّمْتُ عَلَيْهِ

عبد الرحمن بن محمد بن یاسر جوبری سے کہا کہ سیدنا معاویہ کے متعلق اپنا نظریہ عقیدہ بتاؤ...عبد الرحمن بن محمد بن یاسر جوبری نے کہا کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں اور ان پر اللہ تعالی کی خصوصی رحمت ہو

(سیر اعلام النبلاء13/134)

.

*#آٹھویں بات.....شیعہ روافض نیم روافض کی پیش کردہ روایت کے راوی ضعیف و مجھول ہیں، بات فضیلیت کی نہیں کہ ضعیف بھی مقبول ہوتی، بات حکم شرع فاسق و فاجر فرعونی بادشاہ کہنے تک کی بات ہے اور ایسے معاملات(حکم شرعی لگانے ثابت کرنے) میں ضعیف روایت قابل قبول نہیں.......!!*

.

يتْرك)أَي الْعَمَل بِهِ فِي الضَّعِيف إِلَّا فِي الْفَضَائِل

(شرعی حکم میں)حدیث ضیف پر عمل نہ کیا جائے گا مگر فضائل میں ضعیف حدیث پر عمل کرنا جائز ہے

(شرح نخبة الفكر للقاري ص185)

.

شیعہ روافض نیم روافض کی پیش کردہ روایت کا ایک راوی ایوب بن جابر کے متعلق علماء کے اقوال ملاحظہ کیجیے

سَأَلْتُ يَحْيَى بْنَ مَعِينٍ عَنْ أَيُّوبَ بْنِ جَابِرٍ فَقَالَ: ذَهَبْتُ إِلَى أَيُّوبَ بْنِ جَابِرٍ وَقَدْ كَتَبْتُ عَنْهُ وَكَانَ أَيُّوبُ بْنُ جَابِرٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ جَابِرٍ لَيْسَا بِشَيْءٍ

 امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں کہ ایوب بن جابر اور محمد بن جابر کوئی حیثیت نہیں رکھتے ، معتبر نہیں

(الضعفاء الكبير للعقيلي1/114)

.

وَقَالَ النَّسَائِيُّ أَيُّوبُ بْنُ جَابِرٍ ضَعِيفٌ

 امام نسائی فرماتے ہیں کہ ایوب بن جابر ضعیف ہے

(الكامل في ضعفاء الرجال2/17)

.

 عيسى بن يونس، أنه كان يرميه بالكذب

 عیسی بن یونس ایوب بن جابر کے متعلق کہا کرتے تھے کہ وہ جھوٹا ہے

(موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل في رجال الحديث وعلله1/138)

.

أيوب بن جابر بن سيار؛ ضعيف واهٍ، ضعَّفه الأئمة

 ایوب بن جابر واہی ہے، ضعیف ہے، اس کو کئی اماموں نے ضعیف قرار دیا ہے

(ديوان السنة - قسم الطهارة3/100)


.

كان علي بن المديني يضعف حديث أيوب بن جابر.

سمعت أبي يقول: أيوب بن جابر ضعيف الحديث قال وسئل أبو زرعة (١٦٧ ك) عن أيوب بن جابر فقال واهي الحديث ضعيف

 امام علی بن مدینی فرماتے تھے کہ ایوب بن جابر ضعیف الحدیث ہے اور امام ابو حاتم کے بیٹے فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے پوچھا ایوب بن جابر کے متعلق تو فرمایا

واہی الحدیث اور ضعیف ہے

(الجرح والتعديل لابن أبي حاتم2/243)

.

أَيُّوبُ بْنُ جَابِرٍ مِنْ أَهْلِ الْيَمَامَةِ ضَعِيفٌ لَا يُحْتَجُّ بِهِ

 ایوب بن جابر اہل یمامہ میں سے ہے ضعیف ہے اس کی روایت سے(بلا متابع معتبر) دلیل نہیں پکڑ سکتے

(علل الدارقطني = العلل الواردة في الأحاديث النبوية5/159)

.

 کچھ کتب میں اس کی تعدیل بھی آئی ہے لیکن جرح مفسر ہے تو جرح مفسر مقدم ہے

وَالْجرْح) بِفَتْح الْجِيم بِمَعْنى التجريح. (مُقَدم على التَّعْدِيل) أَي عِنْد التَّعَارُض

 جب ایک طرف توثیق و تعدیل ہو اور دوسری طرف جرح مفسر ہو تو جرح مقدم کہلائے گی

(الملا على القاري ,شرح نخبة الفكر للقاري ,page 741)

.

*#آٹھویں بات....طلقاء کا شیعہ روافض نیم روافض نے غلط معنی بیان کیا کہ طلقاء زبردستی مسلمان ہوتے ہیں...طلقاء سے مراد کیا ہے، چند عبارات پیش ہیں،انصاف سے پڑہیے......!!*

.

(الطلقاء) جمع طليق: وهم أهل مكة الذين عفا عنهم رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم فتح مكة، فقال لهم: «اذهبوا فأنتم الطلقاء»

طلقاء ان اہل مکہ کو کہتے ہیں کہ جن کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن معاف کر دیا تھا اور فرمایا تھا کہ تم آزاد ہو(چاہو تو ایمان لاؤ ، چاہو تو دنیا و آخرت کی بربادی پے ڈٹے رہو، کہ ہمارا کام سمجھانا ہے، زبردستی مسلمان کرنا نہیں)

(جامع الأصول2/319)

.

(الطلقاء) أهل مكة؛ لأنه -صلى الله عليه وسلم- منَّ عليهم، وأطلقهم يوم فتح مكة 

طلقاء وہ اہل مکہ ہیں کہ جن پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احسان کرتے ہوئے انہیں فتح مکہ کے دن آزاد کر دیا تھا(کہ چاہو تو ایمان لاؤ ، چاہو تو دنیا و آخرت کی بربادی پے ڈٹے رہو، کہ ہمارا کام سمجھانا ہے، زبردستی مسلمان کرنا نہیں)

(المفهم لما أشكل من تلخيص كتاب مسلم3/684)

.

اذْهَبُوا، فَأَنْتُمُ الطُّلَقَاءُ. فَعَفَا عَنْهُمْ، وَكَانَ اللَّهُ قَدْ أَمْكَنَهُ مِنْهُمْ، وَكَانُوا لَهُ فَيْئًا، فَلِذَلِكَ سُمِّيَ أَهْلُ مَكَّةَ الطُّلَقَاءَ

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جاؤ تم آزاد ہو(چاہو تو ایمان لاؤ ، چاہو تو دنیا و آخرت کی بربادی پے ڈٹے رہو کہ ہمارا کام سمجھانا ہے، زبردستی مسلمان کرنا نہیں) رسول کریم نے انہیں معاف کر دیا، لہذا ان اہل مکہ کو طلقاء کہتے ہیں

(الكامل في التاريخ - ت تدمري2/125)

.

الطُلَقاءُ وهُم الَّذين خلّى عَنْهُم يومَ فتْحِ مكّة، وأطلقھم

طلقاء انکو کہتے ہیں کہ جن کو فتح مکہ کے دن رسول کریم نے آزاد کر دیا تھا اور ان کا راستہ چھوڑ دیا تھا(کہ چاہیں تو ایمان لائیں ، چاہیں تو دنیا و آخرت کی بربادی پے ڈٹے رہیں کہ ہمارا کام سمجھانا ہے زبردستی مسلمان کرنا نہیں)

(تاج العروس26/120)

.

الطلقاء، يعني: الذين خلى عنهم يوم فتح مكة وأطلقهم

طلقاء انکو کہتے ہیں کہ جن کو فتح مکہ کے دن رسول کریم نے آزاد کر دیا تھا اور ان کا راستہ چھوڑ دیا تھا(کہ چاہیں تو ایمان لائیں ، چاہیں تو دنیا و آخرت کی بربادی پے ڈٹے رہیں کہ ہمارا کام سمجھانا ہے زبردستی مسلمان کرنا نہیں)

(شرح الزرقاني على المواهب اللدنية3/498)

.

الطُّلَقَاءُ) هُوَ بِضَمِّ الطَّاءِ وَفَتْحِ اللَّامِ وَبِالْمَدِّ وَهُمُ الَّذِينَ أَسْلَمُوا يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ وَهُوَ جَمْعُ طَلِيقٍ يُقَالُ ذَاكَ لِمَنْ أُطْلِقَ مِنْ إِسَارٍ أَوْ وَثَاقٍ قَالَ الْقَاضِي فِي الْمَشَارِقِ قِيلَ لِمُسْلِمِي الْفَتْحِ الطُّلَقَاءُ لِمَنِّ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ

طلقاء وہ کہ جو فتح مکہ کے دن ایمان لے آئے ، ان کو اس لئے طلقاء کہا جاتا ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر خصوصی احسان کیا

(شرح النووي على مسلم7/153)

.

اور بالفرض طلقاء زبردستی مسلمان کو کہا جائے تو بھی سیدنا معاویہ پر اعتراض نہیں اٹھتا کہ ان سمیت کئ طلقاء

حسن الاسلام ، اچھے اسلام والے ، پابند اسلام بن گئے تھے جیسے کہ اوپر بات نمبر تین اور چار میں ثابت کیا گیا ہے

.

*#اعتراض②*

شیعہ روافض نیم روافض کہتے ہیں کہ

امیر المومنین علی ابن ابی طالب نے جنگ صفین میں اپنے رفقا سے خطاب میں جو بیان کیا آئمہ اہلسنت اسے طلقاء کا حقیقی تعارف شمار کرتے ہیں جناب علی ابن ابی طالب نے اپنے لشکر سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ؛

وَتَحَرَّوْا لِحَرْبِ عَدُوِّکُمْ، فَانْتَبِهُوا إِنَّمَا تُقَاتِلُونَ الطلقاء وَأَبْنَاءَ الطلقاء وَ أَهْلَ الْجَفَاءِ، وَ مَنْ أَسْلَمَ کَرْهاً... وَلِلْإِسْلَامِ کُلِّهِ حَرْباً، أَعْدَاءَ السُّنَّةِ وَالْقُرْآنِ، وَ أَهْلَ الْبِدَعِ وَالْأَحْدَاثِ، وَ أَکَلَةَ الرِّشَا، وَ عَبِیدَ الدُّنْیا:

اپنے دشمنوں سے جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ اور جان لو کہ تم طلقاء اور ان کے بیٹوں اہل جفا سے نبرد آزما ہو جو دباؤ کے تحت ڈر کے مارے اسلام لائے یہ وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ اسلام سے جنگ کرتے رہے یہ لوگ قرآن و سنت کے دشمن ہیں یہی لوگ اہل بدعت ہیں یہی لوگ راشی اور دنیا کے رسیا بندے ہیں۔(دینوری، ابن‌قتیبه؛ الامامه والسیاسه، بیروت، دارالاضواء، 1410 ق، طبع اول، ص178.)

.

*#جواب......!!*

پہلی بات:

الامامۃ و السیاسۃ معتبر اہلسنت کتاب نہیں بلکہ متنازعہ کتاب ہے حتی کہ بعض نے اسے ابن قتیبہ کی تصنیف ہی قرار نہ دیا بعض نے لکھا کہ ابن قتیبہ دو تھے ایک سنی ایک شیعہ،شیعہ نے کتاب لکھی اور شیعہ اسے سنی مصنف کہہ کر دھوکہ دیتے ہیں..(دیکھیے میزان الکتب ص 275 لسان المیزان ر4460)

.

دوسری بات:

 سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی اتنی بڑی بات اور اتنا بڑا فتوی... یقینا ایسی بات کے لئے سند کا ہونا بہت ضروری ہے، حالانکہ اس کی کوئی بھی سند موجود نہیں ہے اور جب سند موجود نہ ہو تو ایسی بات معتبر نہیں کہلاتی بلکہ جھوٹ کہلاتی ہے کہ جو سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف منسوب کی گئی ہے

الإِسْنَادُ مِنَ الدِّينِ. وَلَوْلَا الإِسْنَادُ لَقَالَ مَنْ شَاءَ مَا شَاءَ

 سند دین کے اصولوں میں سے ہے اگر سند (لانے لکھنے کی سختی)نہ ہوتی تو جو شخص جو منہ میں آتا کہہ دیتا

(صحيح مسلم - ت عبد الباقي1/15)

(شرح صحيح البخاري للحويني4/1)

(العلل الواقع بآخر جامع الترمذي - ت بشار ص232نحوہ)

(الكافي في علوم الحديث ص403)

(مقدمة ابن الصلاح ومحاسن الاصطلاح ص437)

(الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع للخطيب البغدادي2/213)اور بھی بہت ساری کتب میں ایسا لکھا ہے

.

تیسری بات:

مزکورہ روایت میں سیدنا معاویہ وغیرہ کو اسلام دشمن منافق قران و سنت کا دشمن کہا گیا ہے جبکہ سیدنا علی کے مطابق سیدنا معاویہ ایسے نہ تھے

نہج البلاغۃ میں سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حکم موجود ہے کہ:

ومن كلام له عليه السلام وقد سمع قوما من أصحابه يسبون أهل الشام أيام حربهم بصفين إني أكره لكم أن  تكونوا سبابين، ولكنكم لو وصفتم أعمالهم وذكرتم حالهم كان أصوب في القول

ترجمہ:

جنگ صفین کے موقعے پر اصحابِ علی میں سے ایک قوم اہل الشام (سیدنا معاویہ سیدہ عائشہ وغیرھما رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین) کو برا کہہ رہے تھے، لعن طعن کر رہے تھے

تو

حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا:

تمہارا (اہل شام، معاویہ ، عائشہ صحابہ وغیرہ کو) برا کہنا لعن طعن کرنا مجھے سخت ناپسند ہے ، درست یہ ہے تم ان کے اعمال کی صفت بیان کرو...(شیعہ کتاب نہج البلاغۃ ص437)

.

ثابت ہوا سیدنا معاویہ سیدہ عائشہ وغیرہ صحابہ کرام کی تعریف و توصیف کی جائے، شان بیان کی جائے....یہی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو پسند ہے....ثابت ہوا کہ سیدنا معاویہ سیدہ عائشہ وغیرہھما صحابہ کرام پر لعن طعن گالی و مذمت کرنے والے شیعہ ذاکرین ماکرین  رافضی نیم رافضی محبانِ اہلِ بیت نہیں بلکہ نافرمان و مردود ہیں،انکےکردار کرتوت حضرت علی کو ناپسند ہیں..سخت ناپسند

.

ان عليا لم يكن ينسب أحدا من أهل حربه إلى الشرك ولا إلى النفاق ولكنه كان يقول: هم إخواننا بغوا علينا

ترجمہ:

بےشک سیدنا علی اپنےاہل حرب(سیدنا معاویہ،سیدہ عائشہ اور انکےگروہ)کو نہ تو مشرک کہتےتھےنہ منافق…بلکہ فرمایا کرتےتھےکہ وہ سب ہمارے(دینی)بھائی ہیں مگر(مجتہد)باغی ہیں(شیعہ کتاب بحارالانوار32/324)

(شیعہ کتاب وسائل الشیعۃ15/83)

(شیعہ کتاب قرب الاسناد ص94)

سیدنا ابوبکر و عمر، سیدنا معاویہ وغیرہ صحابہ کرام کو کھلےعام یا ڈھکے چھپے الفاظ میں منافق بلکہ کافر تک بکنے والے،توہین و گستاخی کرنےوالےرافضی نیم رافضی اپنےایمان کی فکر کریں…یہ محبانِ علی و اہلبیت نہیں بلکہ نافرمانِ علی ہیں،نافرمانِ اہلبیت ہیں

.

فنعى الوليد إليه معاوية فاسترجع الحسين...سیدنا حسین کو جب سیدنا معاویہ کی وفات کی خبر دی گئ تو آپ نےاِنَّا لِلّٰہِ وَ  اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ پڑھا…(شیعہ کتاب اعلام الوری طبرسی1/434) مسلمان کو کوئی مصیبت،دکھ ملےتو کہتے ہیں اِنَّا لِلّٰہِ وَ  اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ(سورہ بقرہ156)ثابت ہوا سیدنا معاویہ امام حسین کے مطابق کافر ظالم منافق دشمن برے ہرگز نہ تھے جوکہ مکار فسادی نافرمان دشمنان اسلام گستاخانِ معاویہ کے منہ پر طمانچہ ہے

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App,twitter nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.