قران مجید پڑہنے سننے سمجھنے عمل کرنے محبت کرنے کے بعض فضائل

 *قرآن مجید پڑھنے سننے،محبت و ادب کرنے، مستند کتب و تحاریر تقاریر سے سمجھنے عمل کرنے کے بعض فضائل.....!!*

سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " يُؤْتَى بِالْقُرْآنِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَأَهْلِهِ الَّذِينَ كَانُوا يَعْمَلُونَ بِهِ، تَقْدُمُهُ سُورَةُ الْبَقَرَةِ وَآلِ عِمْرَانَ "، وَضَرَبَ لَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَةَ أَمْثَالٍ مَا نَسِيتُهُنَّ بَعْدُ قَالَ : " كَأَنَّهُمَا غَمَامَتَانِ، أَوْ ظُلَّتَانِ سَوْدَاوَانِ بَيْنَهُمَا شَرْقٌ ، أَوْ كَأَنَّهُمَا حِزْقَانِ مِنْ طَيْرٍ صَوَافَّ تُحَاجَّانِ عَنْ صَاحِبِهِمَا

ترجمہ:

سیدنا نواس ابن سمعان فرماتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ قیامت کے دن قرآن اور قرآن والے جو اس پر عمل کرتے تھے یوں بلائے جائیں گے کہ سورۂ بقرہ و آل عمران آگے آگے ہوں گی گویا سفید بادل ہیں یا کالے شامیانے جن کے درمیان کچھ فاصلہ ہوگا گویا وہ صف بستہ پرندوں کی دو ٹولیاں کہ(یہ دونوں سورتیں اور دیگر سورتیں) اپنے عاملوں(جو ان سورتوں پر عمل کریگا،قرآن پر عمل کرے گا ان)کیطرف سے جھگڑتی(عمل کرنے والوں کو جنت لےجانے یا جنت میں اعلی مقام میں لے جانے کے لیےشفاعت کرتی) ہوں گی

(مسلم حدیث1876)

.

رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " أَلَا إِنَّهَا سَتَكُونُ فِتْنَةٌ ". فَقُلْتُ : مَا الْمَخْرَجُ مِنْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ : " كِتَابُ اللَّهِ، فِيهِ نَبَأُ مَا كَانَ قَبْلَكُمْ، وَخَبَرُ مَا بَعْدَكُمْ، وَحُكْمُ مَا بَيْنَكُمْ، وَهُوَ الْفَصْلُ لَيْسَ بِالْهَزْلِ، مَنْ تَرَكَهُ مِنْ جَبَّارٍ قَصَمَهُ اللَّهُ، وَمَنِ ابْتَغَى الْهُدَى فِي غَيْرِهِ أَضَلَّهُ اللَّهُ، وَهُوَ حَبْلُ اللَّهِ الْمَتِينُ، وَهُوَ الذِّكْرُ الْحَكِيمُ، وَهُوَ الصِّرَاطُ الْمُسْتَقِيمُ، هُوَ الَّذِي لَا تَزِيغُ بِهِ الْأَهْوَاءُ، وَلَا تَلْتَبِسُ بِهِ الْأَلْسِنَةُ، وَلَا يَشْبَعُ مِنْهُ الْعُلَمَاءُ، وَلَا يَخْلَقُ عَلَى كَثْرَةِ الرَّدِّ، وَلَا تَنْقَضِي عَجَائِبُهُ، هُوَ الَّذِي لَمْ تَنْتَهِ الْجِنُّ إِذْ سَمِعَتْهُ حَتَّى قَالُوا : { إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا } { يَهْدِي إِلَى الرُّشْدِ }، مَنْ قَالَ بِهِ صَدَقَ، وَمَنْ عَمِلَ بِهِ أُجِرَ، وَمَنْ حَكَمَ بِهِ عَدَلَ، وَمَنْ دَعَا إِلَيْهِ هُدِيَ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ

ترجمہ:

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا عنقریب فتنے ہوں گے میں نے عرض کیا یا رسول ﷲ ان سے رہائی کی سبیل کیا ہے؟ فرمایا قرآن.. جس میں تمہارے اگلوں کی خبریں اور پچھلوں کی خبریں اور تمہارے آپس کے معاملات کے فیصلے ہیں قرآن فیصلہ کن ہے وہ کوئی مذاق کی چیز نہیں ہے...جو ظالم اسے چھوڑ دے گا ﷲاس کے ٹکڑے اڑا دے گا... اور جو قرآن  کو چھوڑ کر کسی اور میں ہدایت ڈھونڈے گا وہ گمراہ ہوجائے گا...قرآن ﷲ کی(طرف لے جانے والی ہدایت کی طرف لے جانے والی) مضبوط رسی ہے اور قرآن حکمت والا ذکر ہے وہ سیدھا راستہ ہے... قرآن وہ ہے جس کی برکت سے خیالات بگڑتے نہیں اور جس سے دوسری زبانیں مشتبہ نہیں ہوتیں...قرآن سے علماء سیر نہیں ہوتے ، جو زیادہ دہرانے سے پرانا نہیں پڑتا ، جس کے عجائبات ختم نہیں ہوتے... قرآن ہی وہ ہے کہ جب اسے جنات نے سنا تو یہ کہے بغیر نہ رہ سکے کہ ہم نے عجیب قرآن سنا ہے جو رشد و ہدایت کی رہبری کرتا ہے تو ہم اس پر ایمان لے آئے...جو قرآن کا قائل ہو وہ سچا ہے جس نے اس پر عمل کیا ثواب پائے گا اور جو اس پر فیصلہ کرے گا منصف ہوگا اور جو اس کی طرف بلائے گا وہ سیدھی راہ کی طرف بلائے گا

(ترمذی حدیث2906)

.

النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " مَثَلُ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ، وَهُوَ حَافِظٌ لَهُ مَعَ السَّفَرَةِ الْكِرَامِ، وَمَثَلُ الَّذِي يَقْرَأُ، وَهُوَ يَتَعَاهَدُهُ، وَهُوَ عَلَيْهِ شَدِيدٌ فَلَهُ أَجْرَانِ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ شخص جو قرآن پڑھتا ہے اور وہ اس کا حافظ بھی ہے(اور عمل بھی کرتا ہے) وہ گویا سفرہ کرام(انبیاء اولیاء فرشتوں)کے ساتھ ہے اور جو شخص قرآن مجید بار بار پڑھتا ہے۔ پھر بھی وہ اس کے لیے دشوار ہے تو اسے دوگنا ثواب ملے گا۔

(بخاری حدیث4937)

.

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَثَلُ الْمُؤْمِنِ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ مَثَلُ الْأُتْرُجَّةِ ؛ رِيحُهَا طَيِّبٌ وَطَعْمُهَا طَيِّبٌ، وَمَثَلُ الْمُؤْمِنِ الَّذِي لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ التَّمْرَةِ ؛ طَعْمُهَا طَيِّبٌ وَلَا رِيحَ لَهَا، وَمَثَلُ الْفَاجِرِ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ الرَّيْحَانَةِ ؛ رِيحُهَا طَيِّبٌ وَطَعْمُهَا مُرٌّ، وَمَثَلُ الْفَاجِرِ الَّذِي لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ الْحَنْظَلَةِ ؛ طَعْمُهَا مَرٌّ وَلَا رِيحَ لَهَا، وَمَثَلُ الْجَلِيسِ الصَّالِحِ كَمَثَلِ صَاحِبِ الْمِسْكِ ؛ إِنْ لَمْ يُصِبْكَ مِنْهُ شَيْءٌ أَصَابَكَ مِنْ رِيحِهِ، وَمَثَلُ جَلِيسِ السُّوءِ كَمَثَلِ صَاحِبِ الْكِيرِ ؛ إِنْ لَمْ يُصِبْكَ مِنْ سَوَادِهِ أَصَابَكَ مِنْ دُخَانِهِ

ترجمہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو مومن قرآن پڑھتا ہے اسکی مثال ترنج پھل  کی سی ہے جس کی بو بھی اچھی ہے اور جس کا ذائقہ بھی اچھا ہے اور ایسے مومن کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا اس کھجور کی طرح ہے جس کا ذائقہ اچھا ہوتا ہے لیکن اس میں بو نہیں ہوتی، اور فاجر کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے، نیازبو کی طرح ہے جس کی بو عمدہ ہوتی ہے اور اس کا مزا کڑوا ہوتا ہے، اور فاجر کی مثال جو قرآن نہیں پڑھتا، اندرائن کے مانند ہے، جس کا ذائقہ کڑوا ہوتا ہے، اور اس میں کوئی بو بھی نہیں ہوتی، اور نیک اچھے دوست کی مثال مشک والے(عطار) کی طرح ہے، کہ اگر تمہیں اس سے کچھ بھی نہ ملے تو اس کی خوشبو تو ضرور پہنچ کر رہے گی، اور برے دوست کی مثال اس لوہے کی بٹھی والے کی سی ہے، کہ وہ اگر اس کی سیاہی سے بچ بھی جائے تو اس کا دھواں تو لگ ہی کر رہے گا

(ابوداود حدیث4829)

.

الصِّيَامُ وَالْقُرْآنُ يَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَقُولُ الصِّيَامُ: أيْ رَبِّ إِنِّي مَنَعْتُهُ الطَّعَامَ وَالشَّهَوَاتِ بِالنَّهَارِ فَشَفِّعْنِي فِيهِ يَقُولُ الْقُرْآنُ: رَبِّ مَنَعْتُهُ النَّوْمَ بِاللَّيْلِ فَشَفِّعْنِي فِيهِ فَيُشَفَّعَانِ

 روزہ اور قرآن شفاعت کریں گے قیامت کے دن... روزہ عرض کرے گا اے میرے رب میں نے اسے کھانے پینے اور شہوات سے روکا تو اس کے متعلق میری شفاعت قبول فرما، قرآن مجید کہے گا اے میرے رب رات کو سونے سے میں نے اسے روکا(کہ مجھے پڑھتا رہا سمجھتا رہا)تو اس کے متعلق میری شفاعت قبول فرما....تو شفاعت قبول کر دی جائے گی

(الجامع الصغير وزيادته حدیث7329)

.

إِنَّ نَبِيَّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " إِنَّ اللَّهَ يَرْفَعُ بِهَذَا الْكِتَابِ أَقْوَامًا، وَيَضَعُ بِهِ آخَرِينَ

 بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی قوم کو قرآن(پڑھنے مستند کتب سے سمجھنے عمل کرنے پھیلانے) کے ذریعے سے رفعت و بلندی عطا فرمائے گا اور ایک قوم کو(کچھ لوگوں)کو قرآن(نہ پڑھنے عمل نہ کرنے،غلط تشریح پھیلانے) کی وجہ سے گرا دیگا

(مسلم..ابن ماجہ حدیث218)

.

وَإِنَّمَا نَزَلَ كِتَابُ اللَّهِ يُصَدِّقُ بَعْضُهُ بَعْضًا، فَلَا تُكَذِّبُوا بَعْضَهُ بِبَعْضٍ، فَمَا عَلِمْتُمْ مِنْهُ فَقُولُوا، وَمَا جَهِلْتُمْ فَكِلُوهُ إِلَى عَالِمِهِ

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قرآن مجید اسکا بعض حصہ دوسرے بعض حصے  کی تصدیق کرتا ہے تو قرآن کے بعض حصے کو بعض کی وجہ سے مت جھٹلاؤ جس کا تمہیں(قران و حدیث و سنت کے ذریعے)سمجھ آجائے تو وہ بات کہو(عمل کرو پھیلاؤ) جس کی تمہیں سمجھ نہ آئے تو وہ عالم(صحابہ کرام اہلبیت عظام تابعین مستند علماء اولیاء) کی طرف سپرد کرو، ان سے سمجھو

(مسند احمد حدیث6741)

.

النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " يَجِيءُ الْقُرْآنُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيَقُولُ : يَا رَبِّ، حَلِّهِ، فَيُلْبَسُ تَاجَ الْكَرَامَةِ، ثُمَّ يَقُولُ : يَا رَبِّ، زِدْهُ، فَيُلْبَسُ حُلَّةَ الْكَرَامَةِ، ثُمَّ يَقُولُ : يَا رَبِّ، ارْضَ عَنْهُ، فَيَرْضَى عَنْهُ، فَيُقَالُ لَهُ : اقْرَأْ وَارْقَ وَيُزَادُ بِكُلِّ آيَةٍ حَسَنَةً

 نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قرآن کے قاری قرآن پر عمل کرنے والے کو قیامت کے دن لایا جائے گا تو قرآن کہے گا یا رب اسے زیور پہنا تو اسے کرامت کا تاج پہنایا جائے گا قرآن فرمائے گا یا الہی عزوجل اسے مزید آراستہ فرما تو اسے(قران پڑھنے عمل کرنے والے کو) کرامت کا جبہ پہنایا جائے گا... قرآن فرمائے گا یا الہی عزوجل اس سے خصوصی رضامندی فرما ، اللہ اس سے خصوصی رضامندی فرمائے گا... پھر اسے کہا جائے گا قرآن کو پڑھتا جا اور جنت کے درجات پے بڑھتا جا اور ہر آیت کے بدلے میں اسے نیکی ملتی جائے گی

(ترمذی حدیث2915)

.

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ الَّذِي لَيْسَ فِي جَوْفِهِ شَيْءٌ مِنَ الْقُرْآنِ كَالْبَيْتِ الْخَرِبِ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس کے پیٹ میں(دل میں دماغ میں) قرآن میں سے کچھ بھی نہیں ہے وہ ویران اجڑے ہوئے گھر کی طرح ہے

(ترمزی حدیث2913)

.

النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں کہ جو قرآن کا علم(قران و حدیث و سنت و اقوال صحابہ و مستند علماء معتبر کتب سے)حاصل کرتے ہیں(قرآن پڑھتے ہیں سمجھتے ہیں) اور قرآن کا علم دیتے ہیں(قرآن پڑھاتے ہیں ، حدیث و سنت و اقوال صحابہ و مستند علماء کی کتب سےسمجھاتے ہیں)

(بخاری حدیث5027)

.

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ وَعَمِلَ بِمَا فِيهِ أُلْبِسَ وَالِدَاهُ تَاجًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ضَوْءُهُ أَحْسَنُ مِنْ ضَوْءِ الشَّمْسِ فِي بُيُوتِ الدُّنْيَا لَوْ كَانَتْ فِيكُمْ، فَمَا ظَنُّكُمْ بِالَّذِي عَمِلَ بِهَذَا ؟

 بے شک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے قرآن پڑھا اور اس پر عمل کیا تو اللہ تعالی اس کے والد کو قیامت کے دن ایسا تاج پہنائے گا کہ اس کی چمک سورج کی چمک سے زیادہ خوبصورت ہوگی....(جب پڑھانے میں کردار ادا کرنے والے والد کی یہ شان ہے تو) جو عمل کرے گا اس کی کتنی شان ہوگی؟

(ابوداؤد حدیث1453)

.

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِنْ كِتَابِ اللَّهِ فَلَهُ بِهِ حَسَنَةٌ، وَالْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا، لَا أَقُولُ : الم حَرْفٌ، وَلَكِنْ أَلِفٌ حَرْفٌ، وَلَامٌ حَرْفٌ، وَمِيمٌ حَرْفٌ

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے قرآن کا ایک حرف پڑھا اس کے لیے ایک نیکی ہے اور ایک نیکی دس نیکیوں کے ساتھ ہوگی، میں نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف ہے لام ایک حرف ہے میم ایک حرف ہے

(ترمذی حدیث2910)

.

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " يَقُولُ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ : مَنْ شَغَلَهُ الْقُرْآنُ عَنْ ذِكْرِي وَمَسْأَلَتِي، أَعْطَيْتُهُ أَفْضَلَ مَا أُعْطِي السَّائِلِينَ

 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ جس کو قرآن( پڑھنے سمجھنے)کی وجہ سے ذکر و دعا کا زیادہ موقعہ نہ ملا تو اسے میں دعا(اور ذکر)کرنے والوں سے افضل(زیادہ) عطاء کرونگا

(ترمذی حدیث2926)

.

 كَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ يَقُولُ: «الْبَيْتُ إِذَا تُلِيَ فِيهِ كِتَابُ اللَّهِ اتَّسَعَ بِأَهْلِهِ، وَكَثُرَ خَيْرُهُ، وَحَضَرَتْهُ الْمَلَائِكَةُ، وَخَرَجَتْ مِنْهُ الشَّيَاطِينُ، وَالْبَيْتُ الَّذِي لَمْ يُتْلَ فِيهِ كِتَابُ اللَّهِ، ضَاقَ بِأَهْلِهِ، وَقَلَّ خَيْرُهُ، وَتَنَكَّبَتْ عَنْهُ الْمَلَائِكَةُ، وَحَضَرَهُ الشَّيَاطِينُ

 سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ جس گھر میں قرآن شریف کی تلاوت کی جائے تو اس گھر میں وسعت ہو جاتی ہے اس میں خیر بڑھ جاتی ہے ملائکہ و رحمت کے فرشتے نازل ہوتے ہیں...شیاطین وہاں سے بھاگ جاتے ہیں... اور وہ گھر جس میں قرآن مجید کی تلاوت نہیں کی جاتی وہ گھر تنگ ہوجاتا ہے (وسیع ہو کر بھی تنگ ہو جاتا ہے بےبرکتی بےسکونی ہوجاتی ہے) اور اس میں خیر کم ہو جاتی ہے، ملائکہ اور رحمت کے فرشتے اس گھر سے بے رخی کر لیتے ہیں اور شیاطین وہاں آ جاتے ہیں

(استاد بخاری مصنف ابن ابی شیبہ روایت30027)

.

: وَكَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ يَقُولُ لأَبِي مُوسَى، وَهُوَ جَالِسٌ فِي الْمَجْلِسِ: يَا أَبَا مُوسَى ذَكِّرْنَا رَبَّنَا، فَيَقْرَأُ عِنْدَهُ أَبُو مُوسَى وَهُوَ جَالِسٌ فِي الْمَجْلِسِ وَيَتَلَاحَنُ

 سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ مجلس میں سیدنا ابو موسی اشعری سے عرض کیا کرتے تھے کہ ہمیں اللہ کی یاد دلاؤ تو سیدنا ابو موسی اشعری قرآن مجید کی تلاوت سناتے تھے اور خوبصورت آواز میں تلاوت سناتے تھے

(صحيح ابن حبان: التقاسيم والأنواع4/338)

ایک تلاوت کرے اور باقی غور سے سنیں یہ یہاں سے بھی ثابت ہوا.....اور کبھی لطف اندوز تلاوت حمد و نعت سننا چاہیے تو کبھی علم کی بات غور فکر میں مگن رہنا چاہیے اور عمل تو ہر حال میں لازم ہے......!!

.

عَبْدِ اللَّهِ قَالَ : مَنْ أَحَبَّ الْقُرْآنَ فَلْيُبْشِرْ.

سیدنا عبداللہ ابن مسعود فرماتے ہیں کہ جو قرآن سے محبت کرتا ہے تو اسے(جنت رحمت) کی بشارت ہو

(دارمی روایت3367)

محبت کا اظہار بھی ضروری ہے

.

كَعْبٍ قَالَ: «عَلَيْكُمْ بِالْقُرْآنِ فَإِنَّهُ فَهْمُ الْعَقْلِ، وَنُورُ الْحِكْمَةِ، وَينَابِيعُ الْعِلْمِ،

 سیدنا کعب رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ تم پر قرآن کریم کو(قرآن و حدیث و اقوال صحابہ و اہلبیت و مستند کتب کے ذریعے) سمجھنا تلاوت کرنا لازم ہے کہ بے شک عقل کی فہمی قرآن ہے اور حکمت کا نور قرآن ہے اور علم کے چشمے قرآن ہے

(حلية الأولياء وطبقات الأصفياء - ط السعادة5/376)

.

عِكْرِمَةَ ...كَانَ يَضَعُ الْمُصْحَفَ عَلَى وَجْهِهِ

صحابی سیدنا عکرمہ رضی اللہ تعالی عنہ قرآن مجید کو اپنے چہرے پر لگایا کرتے تھے

(دارمی روایت3393)

سینے سے لگانا ، آنکھوں پے لگانا چومنا بھی ثابت ہوا،حجر اسود کو چومنا ثابت ہے تو اس پر قیاس کرکے علماء نے قرآن چومنے کا جائز و ثواب ہونا ثابت کیا ہے


فَمَنْ أَحَبَّ الْقُرْآنَ فَقَدْ أَحَبَّ اللهَ , افْقَهُوا مَا يُقَالُ لَكُمْ»

سیدنا سفیان بن عیینہ فرماتے ہیں کہ جو قرآن سے محبت کرتا ہے تو وہ اللہ سے محبت کرتا ہے، تو سمجھو جو تمہارے لئے(قرآن و حدیث مستند کتب میں) کہا جا رہا ہے

(حلیۃ الأولياء وطبقات الأصفياء - ط السعادة7/302)

.

الحدیث:فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا

جاہل(کم علم) فتویٰ دیں گے تو وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے( لہذا ایسوں سے بچو)

(بخاری حدیث100)

.

آیات پاک و حدیث پاک کی تنسیخ تخصیص توضیح تفسیر و تشریح دوسری ایات و احادیث سے ہوتی ہے جس پر کئ دلائل و حوالہ جات ہیں ہم اختصار کے پیش نظر فقط ایک حدیث پاک پیش کر رہے ہیں

الحدیث:

كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ينسخ حديثه بعضه بعضا، كما ينسخ القرآن بعضه بعضا ".

‏‏‏‏ ترجمہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کو دوسری  حدیث منسوخ و مخصوص(و تشریح) کر دیتی ہے۔ جیسے قرآن کی ایک آیت دوسری آیت سے منسوخ و مخصوص(و تفسیر) ہو جاتی ہے

(مسلم حدیث777)

لیھذا یہ اصول یاد رہے کہ بعض آیات و احادیث کی تشریح تنسیخ تخصیص دیگر آیات و احادیث سے ہوتی ہے....عام آدمی کے لیے اسی لیے تقلید لازم ہے کہ اسے ساری یا اکثر احادیث و تفاسیر معلوم و یاد نہیں ہوتیں،مدنظر نہیں ہوتیں تو وہ کیسے جان سکتا ہے کہ جو ایت یا حدیث وہ پڑھ رہا ہے وہ کہیں منسوخ یا مخصوص تو نہیں.....؟؟ یااسکی تفسیر و شرح کسی دوسری آیت و حدیث سےتو نہیں.....؟ اسی لیے سیدنا سفیان بن عیینہ فرماتے ہیں

الحديث مَضِلَّة إلا للفقهاء

ترجمہ:

حدیث(اسی طرح آیت عام آدمی کےلیے)گمراہی کا سبب بن سکتی ہے سوائے فقہاء کے

(الجامع لابن أبي زيد القيرواني ص 118)

تو آیت و حدیث پڑھتے ہوءے معتبر اہلسنت عالم کی تفسیر و تشریح مدنظر ہو تقلید ہو یہ لازم ہے ورنہ اپنے سے نکات و مسائل نکالنا گمراہی بلکہ کفر تک لے جاسکتا ہے....وہ عالم وہ مجتہد و فقیہ نکات و مسائل نکال سکتا ہے جو بلاتصب وسیع الظرف ہوکر اکثر تفاسیر و احادیث کو جانتا ہو لغت و دیگر فنون کو جانتا ہو مگر آج کے مصروف دور میں اور علم و حافظہ کے کمی کے دور میں اور فنون و احاطہ حدیث و تفاسیر کے کمی کے دور میں بہتر بلکہ لازم یہی ہے کہ عالم فقیہ بھی تقلید کرے، کسی مجتہد کے قول و تفسیر و تشریح کو لے لے کیونکہ ہر مسلے پر اجتہاد مجتہدین کر چکے

البتہ

جدید مسائل میں باشعور وسیع الظرف وسیع علم والا عالم اپنی رائے پردلیل باادب ہوکر قائم کر سکتا ہے

.

القران..ترجمہ:

اللہ کی اطاعت کرو،اور رسول کی اور اولی الامر (برحق معتبر علماء ، امراء)کی اطاعت کرو.(سورہ نساء آیت59)

.

القرآن..ترجمہ:

اگر معاملات کو لوٹا دیتے رسول کی طرف اور اولی الامر کی طرف تو اہل استنباط(اہلِ تحقیق، باشعور، باریک دان،وسیع العلم و التجربہ، سمجھدار علماء صوفیاء)ضرور جان لیتے

(سورہ نساء آیت83)

.

مذکورہ آیات و احادیث و دیگر دلائل سےثابت ہوتا ہے کہ آیت کی تـشریح و تخصیص یا تنسیخ آیت سے ہوسکتی ہے حدیث سے ہوسکتی ہے اور حدیث کی تشریح و تخصیص یا تنسیخ حدیث و آیت سے ہوسکتی ہے…آیات و احادیث و اقوال صحابہ کرام و اقوال ِ اسلاف پے گہری وسیع نظر ہو تو ہی آپ وسیع علم والے اجتہاد و استنباط والے درجے کو پاسکتے ہیں

ورنہ

کسی مجتہد یا اہل استنباط و وسیع علم والے کی اتباع و تقلید لازم کیونکہ آپ کو پتہ ہی نہیں ہوگا کہ کونسی آیت یا حدیث منسوخ ہے کونسی مخصوص، کونسی مشرح اور کونسی مرجوح........!!

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App,twitter nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.