سیدہ میسون کے متعلق چمن زمان کی منافقت و گندی سوچ

 *سیدہ میسون زوجہ سیدنا معاویہ کے متعلق چمن زمان کے سینے کا گند باہر نکل آیا......!!*

نوٹ:سیدہ سے مراد سید زادی نہین بلکہ سردارہ معنی مراد ہے

تمھید:

چمن زمان نے ایک اور ابھی تازہ تازہ تحریر لکھی ہے جس میں سیدہ میسون پر درج ذیل الزامات لگائے ہیں

پہلا:

کفران عشیر کرکے جہنمی ہوئی

دوسرا:

 کہتا ہے کہ میںسون جس کی تربیت اسلام مخالف ہوئی جس کی تربیت برے ماحول میں ہوئی جس کا کھانا پینا جس کا اٹھنا بیٹھنا جس کا بچپن اور جوانی سب برے ماحول میں ہوئی وہ کیا جانے شوہر کا مقام

تیسرا اعتراض:

 چمن زمان کہتا ہے کہ میسون کہنے لگی کہ میرے چچا کے بیٹوں میں سے کوئی لاغر بندہ بھی ہو تو وہ مجھے زیادہ محبوب ہے ڈیش ویش سے.....پھر ڈیش ڈیش والی عبارت کا ترجمہ کیا:

اہلِ لغت نے:

"عِلْج" کے معنی بیان کیے ہیں: گدھا۔ موٹا طاقتور جنگلی گدھا ، گاؤ خر۔ اکھڑ خشک مزاج آدمی۔

اور "عَلِیف" کے معنی بیان کیے گئے ہیں: وہ چوپایہ جسے موٹا کرنے کے لیے چارہ کھلایا جائے۔ موٹا جانور۔

اس ناہنجار عورت نےیہ دونوں لفظ اپنے شوہر کے لیے بولے

اور

پھر کنایتا لکھا کہ شادی کے بعد میسون بےغیرت عاشقہ تھی کہ دیہاتی لڑکے سے عشق کا اظہار کر رہی تھی اور معاویہ کو گدھا کہہ رہی تھی( نعوذ باللہ)

.

*تحقیق و جواب......!!*

پہلی بات:

 جب ہم نے سیدہ میسون کا اسلام اور تابعیہ ہونا اور اچھا ہونا معتبر کتب سے بتایا تو آپ نے کہا سند دکھاؤ ورنہ قبول نہیں....اب خود اپنے اصول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سند کے بغیر لکھے اشعار و عقل کی بنیاد پر ہی تابعیہ کی مذمت کرنے لگ گئے.....؟؟ یہ دہرا معیار منافقت ہے یا نہیں...؟؟ اگر مذمت بغیر سند کے جائز ہے تو اچھا ہونا بغیر سند کے آپ کو ہضم نہین ہو رہا....؟ کیوں.....؟؟

.

*دوسری بات......!!*

علماء صوفیاء فرماتے ہیں

فَإِنَّ الْإِنَاءَ يَتَرَشَّحُ بِمَا فِيهِ...ہر برتن سے وہی چھلکتا ہے جو اس کے اندر ہوتا ہے(مرقاۃ4/1553) آپ زبان سے جو کچھ چھلک رہا ہے یعنی تابعیہ کو بری بے غیرت ناجائز عاشقہ کہہ رہے ہو....تمھارے اندر کے گند کا پتہ دے رہے ہیں

.

*تیسری بات......!!*

 تمہارے اصول کے مطابق تو جس کی پرورش اس ماحول میں ہوئی ہو تو وہ برا ہے... حالانکہ اسلام فرماتا ہے کہ جب کوئی اگرچہ برے ماحول میں ہو اگر وہ اسلام لے آتا ہے تو سب کچھ معاف...اب اس کی مذمت نہ کی جائے گی اسے برا نہ کہا جائے گا اسے پرانے جرم یاد نہ دلائے جائیں گے... اسے پرانی زندگی کے طعنے نہ مارے جائیں گے

الحدیث:

أَنَّ الْإِسْلَامَ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ

ترجمہ:

اسلام لانے سےپہلے جو گناہ و مظالم کرتوت وغیرہ اس نے کیے اسلام لانے کے بعد اسلام ان گناہ و مظالم مذمتوں لعنتوں وغیرہ سب کچھ کو اسلام مٹا دیتا ہے

(اہلسنت کتاب مسلم حدیث192)

(شیعہ کتاب میزان الحکمۃ2/134)

.

الحدیث:

قَدْ فَعَلْتُ، يَغْفِرُ اللَّهُ لَهُ كُلَّ عَدَاوَةٍ عَادَانِيهَا

میں ابوسفیان سےراضی ہوگیا،اللہ اسکی تمام دشمنیوں کو معاف فرمائے(مستدرک حدیث5108)

نبی پاک راضی،اللہ پاک راضی

جل بھن جائےرافضی،نیم رافضی

.

قالت: يا رسول الله ما كان على ظهر الارض من اهل خباء احب إلي ان يذلوا من اهل خبائك، ثم ما اصبح اليوم على ظهر الارض اهل خباء احب إلي، ان يعزوا من اهل خبائك، قال:ایضا

ترجمہ:

(،ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں اسلام لانے کے بعد) حاضر ہوئیں اور کہنے لگیں یا رسول اللہ! روئے زمین  پر کسی گھرانے کی ذلت آپ کے گھرانے کی ذلت سی زیادہ میرے لیے خوشی کا باعث نہیں تھی لیکن آج کسی گھرانے کی عزت روئے زمین پر آپ کے گھرانے کی عزت سے زیادہ میرے لیے خوشی کی وجہ نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بھی"

(بخاری حدیث3825)

.

وَأَنا أَيْضا بِالنِّسْبَةِ إِلَيْك مثل ذَلِك، وَقيل: مَعْنَاهُ وَأَيْضًا ستزيدين فِي ذَلِك

بھی کا معنی ہے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی تم سے راضی ہوں محبت کرتا ہوں، ایک معنی یہ بنتا ہے کہ اور بھی ترقی و محبت پاؤ گی

(عمدة القاري شرح صحيح البخاري ,16/284)

.

فَعَفَا - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاویہ کی والدہ کو معاف کردیا

(تاريخ ابن الوردي1/124)

.

وبايعتْ رسولَ الله - صلى الله عليه وسلم -، فلما عرفَها، قالت: أنا هند، فاعفُ عما سلف، فعف

ہندہ نے رسول کریم کی بیعت کی اور معافی طلب کی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاویہ کی والدہ کو معاف کردیا

(التاريخ المعتبر في أنباء من غبر1/159)

.

وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ رَسُولُ اللَّهِ

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا دی کہ یا اللہ انکو معاف فرما بخش دے

(تاريخ الطبري = ,3/62)

.

التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ، كَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهُ

گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے گناہ ہی نہ کیا ہو

(ابن ماجہ حدیث4250)

.

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ عَيَّرَ أَخَاهُ بِذَنْبٍ لَمْ يَمُتْ حَتَّى يَعْمَلَهُ ". قَالَ أَحْمَدُ : قالوا: مِنْ ذَنْبٍ قَدْ تَابَ مِنْهُ۔

ترجمہ:

جناب رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جو مسلمان مسلمان کو کسی گناہ پر عار دلاتا ہے تو وہ عار دلانے والا مرنے سے پہلے خود بھی اس گناہ میں مبتلا ہوتا ہے۔

امام احمد نے فرمایا کہ محدثین نے کہا آپ ﷺ کی مراد اس سے وہ گناہ ہے، جس سے اس شحض نے توبہ کرلی ہو۔

(ترمذی حدیث2505)

.

*چوتھی بات.....!!*

علام ابن کثیر علامہ صغانی،  علامہ ابن حجر عسقلانی امام دارقطنی اور خطیب بغدادی جیسے علماء نے سیدنا معاویہ کی زوجہ میسون بنت بحدل پر کوئی جرح نہ کی بلکہ روایت لکھی بلکہ علامہ صغانی علامہ زبیدی نے دوٹوک تابعیہ لکھا اور علامہ ابن کثیر نے عظیم الشان دین والی لکھا تو ان علماء کے اقوال پر اعتماد لازم ہے...بدگمانی جرم

لیھذا

سیدہ میسون بنت بحدل زوجہ صحابی سیدنا معاویہ کا مسلمان و اچھا ہونا ثابت ہوجاتا ہے

.

وَكَانَتْ حَازِمَةً عَظِيمَةَ الشَّأْنِ جَمَالًا وَرِيَاسَةً وَعَقْلًا وَدِينًا، دَخَلَ عَلَيْهَا مُعَاوِيَةُ يَوْمًا وَمَعَهُ خَادِمٌ خَصِيٌّ، فَاسْتَتَرَتْ مِنْهُ، وَقَالَتْ: مَا هَذَا الرَّجُلُ مَعَكَ؟ فَقَالَ: إِنَّهُ خَصِيٌّ، فَاظْهَرِي عَلَيْهِ. فَقَالَتْ: مَا كَانَتِ الْمُثْلَةُ لِتُحِلَّ لَهُ مَا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ. وَحَجَبَتْهُ عَنْهَا

 یزید کی والدہ میسون عظیم الشان تھی دین کے اعتبار سے عقل کے اعتبار سے ریاست کے اعتبار سے.. ایک دفعہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ ایک خصی شدہ غلام کے ساتھ تشریف لائے تو یزید کی والدہ نے پردہ کر لیا سیدنا معاویہ نے وجہ پوچھی تو فرمایا کہ مثلہ یعنی خصی ہونا یہ کسی چیز کو حلال نہیں کر سکتا جس کو اللہ نے حرام کیا ہو

(البداية والنهاية ت التركي11/463)

.

علامہ بشیر یموت نے سیدنا معاویہ کی زوجہ والدہ یزید میسون کو اسلامی شاعرہ قرار دیا

(شاعرات العرب ص157)

.

علامہ صغانی کے مطابق بھی یزید کی والدہ میسون مسلمان تابعیہ ہیں:

وميسون أمّ يزيدَ بنِ معاوية من التَّابِعِيّات

 یزید کی والدہ میسون تابعیہ مسلمان تھیں

(كتاب التكملة والذيل والصلة للصغاني3/434)

.

علامہ ابن حجر عسقلانی کے مطابق بھی یزید کی والدہ میسون مسلمان تابعیہ ہیں

ميسون بنت بحدل الكليبة، والدة يزيد بن معاوية، روت عن معاوية

 یزید کی والدہ اور سیدنا معاویہ کی زوجہ میسون نے سیدنا معاویہ سے حدیث روایت کی ہے(بھلا غیر مسلم سے کوئی حدیث روایت کرتا ہے؟ نہیں ناں.... تو اسکا مطلب یزید کی والدہ نے اسلام قبول کر لیا تھا اور اسلام پر وفات پائی)

(تبصیر المنتبہ4/1280)

.

امام دارقطنی اور خطیب بغدادی کے مطابق بھی یزید کی والدہ میسون مسلمان تابعیہ ہیں:

ميسون بنت بحدل زاد علي بن عمر امرأة معاوية ثم قالا عن معاوية أن النبي (صلى الله عليه وسلم) قال " سيكون قوم ينالهم الإخصاء فاستوصوا بهم خيرا "أو نحو هذا من الكلام قال أبو الحسن الدارقطني غريب

 سیدنا معاویہ کی گھر والی میسون نے روایت کیا ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ عنقریب ایسی قوم آئے گی کہ ان کو خصی کیا جائے گا تو ان کے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرنا یا اس طرح کے کچھ الفاظ فرمائے...امام دار قطنی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے(یعنی ضعیف ہے)

(تاريخ دمشق لابن عساكر70/131)

بھلا غیر مسلم سے کوئی حدیث روایت کرتا ہے؟ ہرگز نہیں... اسکا مطلب یزید کی والدہ میسون نے اسلام قبول کر لیا تھا اور اسلام پر وفات پائی

.

وَهِي مِن التَّابِعِيَّاتِ

 یزید کی والدہ میسون تابعیہ مسلمان تھیں

(تاج العروس من جواهر القاموس16/529)

.

تابعی کہتے ہی اسکو ہیں جس نے اسلام پے وفات پائی ہو اور صحابی کی صحبت پائی ہو

: هو من لقي صحابيا مسلما، ومات على الإسلام

 تابعی اس مسلمان کو کہتے ہیں کہ جس کی اسلام پر وفات ہوئی ہو اور اس نے صحابی کی صحبت پائی ہو

(تيسير مصطلح الحديث ص247)

.

تابعین کرام کی فضیلت بزبان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ملاحظہ فرمائیے...!

الحدیث

 قال النبي صلى الله عليه وسلم:" خيركم قرني، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم.

ترجمہ:

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تم میں سب سے بہتر میرے زمانہ کے لوگ (صحابہ) ہیں۔ پھر وہ لوگ جو ان کے بعد آئیں گے (تابعین) پھر وہ لوگ جو اس کے بھی بعد آئیں گے۔ (تبع تابعین)...(بخاری حدیث2651)

.

*پانچویں بات......!!*

چوتھی بات کے دلائل و حوالہ سے ثابت ہو گیا کہ سیدنا معاویہ کی زوجہ یزید کی والدہ میسون بنت بحدل اسلام لائیں تھی اور اسلام پر وفات پائی اور تابعیہ تھیں اور تابعی کی فضیلت حدیث پاک سے ثابت تو انکے متعلق حسن ظن رکھنا بلکہ ہر مسلمان سے حسن ظن رکھنا واجب ہے....اور حسن ظن رکھتے ہوئے ان اشعار کو غیرثابت مانا جائے گا یا پھر اشعار کی اچھی مناسب تشریح کی جائے گی

.

اچھا محمل ، اچھا معنی مراد لینا واجب

قرآن و حدیث سےماخوذ انتہائی اہم اصول.و.حکم.......!!

.

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ  اٰمَنُوا اجۡتَنِبُوۡا کَثِیۡرًا مِّنَ الظَّنِّ ۫ اِنَّ  بَعۡضَ الظَّنِّ   اِثۡمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوۡا وَ لَا یَغۡتَبۡ بَّعۡضُکُمۡ بَعۡضًا(سورہ الحجرات آیت12)

والمؤمن ينبغي أن يحمل كلام أخيه المسلم على أحسن المحامل ، وقد  قال بعض السلف : لا تظن بكلمة خرجت من أخيك سوءا وأنت تجد لها في الخير  محملا .

فمن حق العلماء: إحسان الظن بهم؛ فإنه إذا كان من حق المسلم على المسلم أن يحسن الظن به ، وأن يحمل كلامه على أحسن المحامل، فمن باب أولى العالم

خلاصہ:

قرآن و حدیث میں حکم ہے کہ بدگمانی غیبت تجسس سے بچا جائے،اچھا گمان رکھا جائےاسی وجہ سےواجب ہےکہ مذمت تکفیر تضلیل تفسیق اعتراض کےبجائے عام مسلمان اور بالخصوص اہلبیت صحابہ تابعین اسلاف صوفیاء و علماء کےکلام.و.عمل کو اچھےمحمل،اچھے معنی،اچھی تاویل پے اچھے معنی پے رکھا جائے، اچھے مناسب معنی مراد لیے جاءیں گے

(دیکھیےفتاوی حدیثیہ1/223...فتاوی العلماءالکبار فی الارہاب فصل3...فھم الاسلام  ص20...الانوار القدسیہ ص69)

.

،قال عمر رضی اللہ عنہ

ولا تظنن بكلمة خرجت من مسلم شراً وأنت تجد لها في الخير محملا

حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں

مسلمان کوئی بات کرے اور آپ اس کا اچھا محمل و معنی  پاتے ہوں تو اسے برے معنی پر محمول ہرگز نہ کریں 

(جامع الاحادیث روایت31604)

.

سیدی اعلٰی حضرت امامِ اہلِ سنت امام احمد رضا خان بریلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

یہ نکتہ بھی یاد رہے کہ بعض محتمل لفظ جب کسی مقبول سے صادر ہوں بحکمِ قرآن انہیں "معنی حسن" پر حمل کریں گے، اور جب کسی مردود سے صادر ہوں جو صریح توہینیں کرچکا ہو تو اس کی خبیث عادت کی بنا پر معنی خبیث ہی مفہوم ہوں گے کہ:

 کل اناء یترشح بما فیہ صرح بہ الامام ابن حجر المکی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ۔

 ہر برتن سے وہی کچھ باہر آتا ہے جو اس کے اندر ہوتا ہے امام ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تصریح فرمائی ہے... 

(فتاوی رضویہ : ج29، ص225)

صوفیاء اور سیدی اعلیٰ حضرت کے اس قاعدہ مطابق تم چمن زمان روافض نیم روافض مردودوں کی بات کی اچھی تاویلیں اچھے معنی مراد نہ لئے جائیں گے بلکہ تم مردودوں کے منہ سے مردود معنی ہی مراد ہونگے اور مردود ہی کہلائے گی

جبکہ

سیدہ میسون سیدنا معاویہ کی زوجہ سے کوئی مردودیت ثابت نہیں ان کا کوئی مردود عمل ثابت نہیں لہذا اس کے شعر کا اچھا معنی مراد لینا واجب ہے

.

شعر یہ ہے

وخرقٌ من بني عمِّي نحيفٌ … أحبُّ إليَّ من علجٍ عليفِ

اس شعر سے پہلے ایک شعر تھا جس کو چمن زمان صاحب نے بھی تسلیم کیا کہ جس میں سیدہ میسون نے دیہاتی ماحول کو اچھا پسندیدہ قرار دیا

لیھزا اس شعر میں بھی دیہاتی ماحول کی ہی بات ہو رہی ہے اور معنی یہ ہے کہ

 میرے دیہات کا کمزور سا پرندہ....شہر کے گدھے جنہیں کھلا پلا کر موٹا کیا گیا ہو ان سے زیادہ کمزور پرندے دیہات کے پسند ہیں مجھے(شاید دیہاتی ماحول میں کمزور یعنی چھوٹی چھوٹی چڑیوں کی چہچہاہٹ کی پسندیدگی کی طرف اشارہ ہے)

.

خرق کا معنی ہے:

ایک قسم کا پرندہ...ایک معنی بےوقوف کے بھی ہیں

والخُرَّق، كرُكَّعٍ: طائِر

خرق کا ایک معنی پرندہ بھی ہے

(تاج العروس ,25/226)


چمن زمان گندہ ذہن نے یہ معنی لیے کہ

دیہاتی کمزور بےوقوف لڑکا موٹے تازے گدھے معاویہ سے بہتر ہے....نعوذ باللہ.... جب کہ اچھے لوگ یہ معنی مراد لیں گے کہ خرق کا معنی پرندہ بھی ہے تو دیہاتی لڑکا معنی مراد نہین ہونگے اچھے معنی مراد ہونگے کہ دیہات کے کمزور پرندے مجھے پسند ہیں شہر کے جنگلی گدھوں سے جن کو کھلا پلا کر موٹا تازہ اگرچے کر دیا گیا ہو

.

کسی اچھے نے اگر کوئی اور معنی کییے ہوں تو انکی بے توجہی کہلائے گی.....!!

.

جعلتنى ‌علجا حَتَّى جعلتنى عنيفا میں نی سے مراد سیدنا معاویہ نہیں بلکہ مجازا سیاق و سباق کی وجہ سے "شہر" مراد ہوگا یعنی اے میسون تم نے شہر کے جانوروں کو گدھے سے تشبیہ دی جوکہ اچھا نہیں اور پھر تشبیہ دینے کے بعد دیہاتی کمزور پرندوں کو پسندیدہ کہا تو تجھے دیہات سے اتنی فطری محبت....جا تجھے طلاق

.

*سوال...یزید کی والدہ اچھی تھی تو سیدنا معاویہ نے طلاق کیوں دی.....؟؟*

مختلف وجوہات بیان ہوئی ہیں لیکن ہمیں یہ  وجہ اقوی و احسن و لائق تابعیہ لگی کہ انکا دل  فطری طور پے شہر میں نہیں لگتا تھا انکا دل فطری طور پر دیہات پسند کرتا تھا، جب فطری دل لگی میں کمی محسوس کی سیدنا معاویہ نے تو طلاق دی

ميسون بنت بحدل بن أنيف الكلبي. أم يزيد بن معاوية تزوجها معاوية وطلقها من فرط حنينها إلى البادية 

 میسون بنت بحدل یزید کی والدہ ہیں سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر والی ہیں، سیدنا معاویہ نے ان سے نکاح کیا تھا اور پھر ان کو اس وجہ سے طلاق دی تھی کہ انکو دیہات سے سخت محبت تھی

(شاعرات العرب في الجاهلية والإسلام ص157)

.

وكانت بدوية، ثقلت عليها الغربة عن قومها لما تزوجت بمعاوية في الشام، فسمعها تقول هذه الأبيات، فطلقها

 یزید کی والدہ میسون بنت بحدل دیہاتی تھیں سیدنا معاویہ جب ان کو نکاح کرکے شام لے آئے تو ان پر دیہات کی جدائی گراں گذری اور دیہات کی شان میں اس کی یاد میں شعر کہنے لگیں تو یہ شعر سیدنا معاویہ نے سنے تو انہوں نے ان کو طلاق دے دی

(الأعلام للزركلي7/339)

.


*چھٹی بات........!!*

برا ہونا بے غیرت ہونا ایک شرعی حکم ہے مذمت ہے جو کہ ضعیف سند سے بھی ثابت نہیں ہوتی اور چمن تم نے اشعار کی تو کوئی سند ہی پیش نہیں کی...لیھذا اشعار سے مذمتی معنی متعین ہوں تو اشعار کالعدم غیرمعتبر کہلائیں گے......!!

الإجماع على أن الأحكام لا تثبت بالضعيف

 اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ احکام شرعی  ضعیف روایت ضعیف حدیث سے ثابت نہ ہونگے

(أحكام الحديث الضعيف - ضمن «آثار المعلمي» ص158)

.

لا يعْمل بالضعيف فِي الْحَلَال وَالْحرَام

حلال و حرام میں ضعیف معتبر نہیں 

(كتاب النكت على مقدمة ابن الصلاح للزركشي2/317)

.

يتْرك)أَي الْعَمَل بِهِ فِي الضَّعِيف إِلَّا فِي الْفَضَائِل

فضائل کے علاوہ(احکام عقائد مذمت) میں  ضعیف روایت ضعیف حدیث پر عمل نہ کیا جائے گا

(شرح نخبة الفكر للقاري ص185)

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App,twitter nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.