تقلید و پیروی کی وجہ؟ سنت فجر جماعت کے وقت؟ فقہ حنفی پر اعتراض کا جواب؟ قیاس اجتہاد تقلید؟

*جماعت کے وقت سنت فجر پڑھنا کیا امام ابو حنیفہ کا محض قیاس ہے جو حدیث کے خلاف ہے؟ صحابہ کرام کے عمل کے خلاف ہے.......؟؟اور اجتہاد قیاس و تقلید کی لزومیت پر مختصر تحقیق  و حوالہ جات اور تقلید و اسلاف کے اقوال کی پیروی کی وجہ.......؟؟*
سوال..وائس کا المفھوم:
علامہ صاحب کالج میں ہمارے پروفیسر صاحب اہلحدیث ہے یا غیرمقلد یا پتہ نہیں کس مسلک کا ہے، وہ کہتا ہے کہ احناف نے جو کہا ہے کہ جماعت ہو رہی ہو تو سنت فجر پڑھ سکتے ہیں یہ اپنی عقل سے حدیث کے خلاف بہت بڑا غلط فتوی دیا ہے حنفیوں نے، کہتا ہے کہ امام اعظم بہت ذہین تھے مگر اپنے قیاس کی عادت کی وجہ سے کئ مسائل میں احادیث پاک کے خلاف چلے گئے مثلا رفع یدین اور سنت فجر جماعت کے وقت کے فتوے امام ابو حنیفہ کی بہت بڑی غلطی ہیں، حدیث کے خلاف ہیں، صحابہ کرام کے عمل کے خلاف ہیں، محض قیاس پر مبنی ہیں
.
جواب.و.تحقیق:
جواب سے پہلے ایک المیے کی طرف اشارہ کرتا چلوں کہ اہل سنت کے مدارس سے جو لوگ فارغ ہوتے ہیں عالم دین بن جاتے ہیں مفتی کورس کر لیتے ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بس ہمیں مدرسہ چلانا ہے مسجد میں پڑھانا ہے... جب کہ ہمیں کافی علم دین حاصل کرنے کے بعد ہر شعبے میں جانا چاہیے فوج پولیس میں جانا چاہیے ،طب میں جانا چاہیے،میڈیکل میں جانا چاہیے،سیاست تجارت میں جانا چاہیے...سائنس و ٹیکنالوجی میں جانا چاہیے، اسکول کالجز یونیورسٹیوں میں جانا چاہیے اور وعظ و نصیحیت تحقیق و تطبیق مسجد مدارس کی طرف توجہ بھی ضروری ہے اور ان اہلسنت علماء مدارس واعظ لکھاری محققین کی مدد بھی ضروری ہے کہ یہی تو اہل علم باشعور لوگ پیدا کرنے بنانے کی فیکٹریاں ہیں...اور حکمرانوں کو چاہیے کہ اہلسنت کے اہل علم حضرات کو زیادہ سے زیادہ مواقع دیں ہر فیلڈ میں....!!
.
*جواب کا خلاصہ......!!*
پیارے بھائی یقین رکھیے فقہ حنفی اور باقی تین فقہ حق و درست ہیں، کوئی بھی برا گمان ذہن میں مت رکھیے،علماء سے رابطہ کیجیے دلائل پوچھیے...رفع یدین نہ کرنے پر الگ مفصل تحریر لکھوں گا، ان شاء اللہ عزوجل... اس وقت مختصر مسلہ کہ سنت فجر کا فقہ حنفی کا یہ طریقہ صحابہ کرام تابعین عظام سے ثابت ہے،احناف نے بعض کتب میں حدیث سے قیاس کیا ہے جو کہ حدیث پر ہی عمل ہے درست ہے اور کچھ کتب میں دو ٹوک لکھا ہے کہ صحابہ کرام کے عمل پر ہم احناف یہ فتوی دے رہے ہیں اور بعض کتب میں حدیث پاک پر عمل و صحابہ کرام کے عمل کو دلیل بنا کر فتوی دیا.... فقہ حنفی کا فتوی یہ ہے کہ: اگر قوی اندازہ ہو کہ فجر کی جماعت ختم ہونے سے پہلے پہلے سنت فجر پرھ کر جماعت کو پالے گا تو اس صورت میں سنت فجر پڑھے اور اگر خدشہ قوی ہو کہ جماعت کا اخری حصہ بھی نہ پاسکے گا تو اس صورت میں سنت فجر نہ پڑھے جماعت میں شامل ہوجائے...یہ فتوی احادیث و صحابہ کرام و تابعین عظام کے عمل کی وجہ سے دیا گیا ہے لیھذا اس فتوی کو بہت بڑی غلطی کہنا خود ایک غلطی ہے، یہ طعن احناف پر نہیں بلکہ ضمناً صحابہ کرام پر بن جاتا ہے، یہ کم علم اہلحدیث غیرمقلد نجدی مولویوں کی عادت ہے کہ تھوڑا سا پڑھ کر عجیب عجیب فتوے دینا شروع کر دیتے ہیں، یہ انکا فقہ سے بغض و گمراہی و جہالت ہے....بات کفر تک جاسکتی ہے، اس لیے احتیاط لازم ہے، وسیع مطالعہ لازم ہے، رجوع توبہ کا دل جگرہ لازم ہے، علماء سے رابطہ افھام تفھیم لازم ہے، اختلاف ہو تو ادب کے ساتھ کہ جس طرح امام شافعی نے احناف سے اختلاف کیا مگر گمراہی بہت بڑی غلطی کا فتوی نہ لگایا... احناف پر مخالفین حدیث ہونے مخالفین صحابہ ہونے کا فتوی نہ لگایا... امام اعظم ابو حنیفہ رحمتہ اللہ تعالی علیہ کبھی اپنی عقل کی بنیاد پر فتوے نہ دیا کرتے تھے بلکہ وہ احادیث مبارکہ کے مطابق فتوی دیتے،  اگر حدیث پاک کسی معاملے میں نہ ہوتی نہ ملتی تو صحابہ کرام کے عمل پر فتویٰ دیتے تھے،ہاں حدیث پاک کی تائید میں صحابہ کرام کے عمل کی تائید میں قیاس و عقلی دلیل کو بھی لے آتے
البتہ جس معاملے میں قرآن سنت حدیث صحابہ کرام کے عمل دوٹوک نہ ہوتے تو وہاں قرآن مجید حدیث پاک صحابہ کرام کے اقوال و اعمال پر قیاس فرمایا کرتے تھے
.
*دلائل.و.تفصیل…...!!*
صحابی سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عملی فتوی ملاحظہ کیجیے
أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، بَيْنَا هُوَ يَلْبَسُ لِلصُّبْحِ إِذْ سَمِعَ الْإِقَامَةَ، فَصَلَّى فِي الْحُجْرَةِ رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ، ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى مَعَ النَّاسِ
کبھی کبھار ایسا ہوتا تھا کہ صحابی سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہا صبح کے لئے لباس پہن رہے ہوتے تھے تو اقامت سن لیتے تھے تو وہ اپنے حجرے میں ہی دو رکعت سنت پڑھ لیتے پھر جا کر لوگوں کے ساتھ جماعت میں شریک ہو جاتے
(المصنف - عبد الرزاق - ت الأعظمي2/443)
بتائے کیا عظیم الشان صحابی سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ بھلا حدیث کے خلاف کر سکتے ہیں.....؟؟ کیا ان سے بھی غلطی ہوئی.....؟؟نعوذ باللہ
.
*صحابی سیدنا ابو درداء کا عمل ملاحظہ کیجیے....!!*
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ مِسْعَرٍ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ أَبِي مَالِكٍ، عَنْ أَبِي عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: «إِنِّي لَأَجِيءُ إِلَى الْقَوْمِ وَهُمْ صُفُوفٌ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ فَأُصَلِّي الرَّكْعَتَيْنِ، ثُمَّ أَنْضَمُّ إِلَيْهِمْ
سیدنا ابو درداء رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ کبھی کبھار ایسا ہوتا ہےکہ  لوگ صف بندی کر کے نماز فجر میں شروع ہو رہے ہوتے ہیں کہ میں پہنچتا ہوں تو میں سنت فجر پڑھ لیتا ہوں اور اس کے بعد جماعت میں شامل ہو جاتا ہوں
(استاد بخاری مصنف ابن أبي شيبة ,2/57)
بتائے کیا عظیم الشان صحابی سیدنا ابودرداء رضی اللہ تعالی عنہ بھلا حدیث کے خلاف کر سکتے ہیں.....؟؟ کیا ان سے بھی غلطی ہوئی.....؟؟نعوذ باللہ
.
*صحابی سیدنا ابن عباس اور صحابی سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما کا عمل ملاحظہ کریں*
حدثنا أبو بكرة، قال: ثنا أبو عمر الضرير، قال: ثنا عبد العزيز بن مسلم، قال: أنا مطرف بن طريف، عن أبي عثمان الأنصاري، قال: «جاء عبد الله بن عباس والإمام في صلاة الغداة , ولم يكن صلى الركعتين فصلى عبد الله بن عباس رضي الله عنهما الركعتين خلف الإمام , ثم دخل معهم» وقد روي عن ابن عمر مثل ذلك
ترجمہ:
حضرت عثمان انصاری فرماتے ہیں کہ سیدنا ابن عباس (نماز فجر ادا کرنے) آئے اور امام فجر کی جماعت کرا رہے تھے اور سیدنا ابن عباس نے سنت فجر نا پڑھیں تھیں، تو آپ نے دو رکعت سنت فجر ادا کیں پھر ان کے ساتھ فجر کی جماعت مین شامل ہوگئے. سیدنا ابن عمر کے متعلق مروی ہے وہ بھی اسی طرح کرتے تھے. (شرح معانی الاثار روایت نمبر2201)
بتائے کیا عظیم الشان صحابی سیدنا ابن عمر اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنھما بھلا حدیث کے خلاف کر سکتے ہیں.....؟؟ کیا ان سے بھی غلطی ہوئی.....؟؟ نعوذ باللہ
.
*سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی موجودگی میں یہ عمل ہوا کرتا تھا.....!!*
رَأَيْتُ رَّجُلَ يَجِيءُ وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ، فَيُصَلِّي الرَّكْعَتَيْنِ فِي جَانِبِ الْمَسْجِدِ ثُمَّ يَدْخُلُ مَعَ الْقَوْمِ فِي صَلَاتِهِمْ»
کبھی کبھار ایسا ہوتا کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نماز فجر پڑھا رہے ہوتے تو ایک شخص آتا اور وہ مسجد کے ایک کونے میں دو رکعت سنت فجر ادا کرتا پھر لوگوں کے ساتھ جماعت میں شریک ہو جاتا(اور سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ اس کی کوئی سرزنش نہ فرماتے)
(استاد بخاری مصنف ابن أبي شيبة ,2/57)
.
عَنِ الشَّعْبِيِّ: «أَنَّ مَسْرُوقًا كَانَ يُصَلِّيهِمَا وَالْإِمَامُ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي الْمَسْجِدِ»
امام شعبی فرماتے ہیں کہ سیدنا مسروق رضی اللہ تعالئ عنہ اس وقت بھی سنت فجر ادا کر لیتے جب امام کھڑا نماز فجر پڑھا رہا ہوتا تھا
(المصنف - عبد الرزاق - ت الأعظمي2/444)
.
*صحابی سیدنا ابن مسعود اور صحابی ابودرداء رضی اللہ عنھما بھی اسی طرح کرتے تھے*
حدثنا أبو بشر الرقي، قال: ثنا أبو معاوية، عن مسعر، عن عبيد بن الحسن، عن أبي عبيد الله، عن أبي الدرداء «أنه كان يدخل المسجد والناس صفوف في صلاة الفجر , فيصلي الركعتين في ناحية المسجد , ثم يدخل مع القوم في الصلاة»
حدثنا أبو بشر الرقي، قال: ثنا أبو معاوية، عن أبي مالك الأشجعي، عن أبي عبيدة، عن عبد الله يعني ابن مسعود، أنه كان يفعل ذلك
ترجمہ:
سیدنا ابودرداء مسجد میں داخل ہوتے اور لوگ صفیں باندھے نماز فجر ادا کر رہے ہوتے تھے تو آپ مسجد کے ایک کونے میں دو رکعت فجر کی سنتیں ادا کرتے پھر جماعت میں شریک ہوجاتے... حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے متعلق مروی ہے کہ وہ بھی اسی طرح کرتے تھے..
(شرح معانی الاثار روایت نمبر2205,2206)
بتائے کیا عظیم الشان صحابی سیدنا ابن مسعود سیدنا ابودرداء رضی اللہ تعالی عنھما بھلا حدیث کے خلاف کر سکتے ہیں.....؟؟ کیا ان سے بھی غلطی ہوئی.....؟؟ نعوذ باللہ
.
عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ «أَنَّهُ جَاءَ إِلَى الْمَسْجِدِ وَالْإِمَامُ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ، فَصَلَّى الرَّكْعَتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يَلِجَ الْمَسْجِدَ عِنْدَ بَابِ الْمَسْجِدِ»
سیدنا سعید بن جبیر مسجد کی طرف آئے اور امام فجر کی نماز پڑھا رہے تھے تو آپ نے دو رکعت سنت فجر ادا کی(اور پھر جماعت میں شامل ہو گئے)
(استاد بخاری مصنف ابن أبي شيبة ,2/56)
بتائے کیا عظیم الشان تابعی امام سیدنا سعید بن جبیر بھلا حدیث کے خلاف کر سکتے ہیں.....؟؟ کیا ان سے بھی غلطی ہوئی.....؟؟ نعوذ باللہ
.
عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: «إِذَا دَخَلْتَ الْمَسْجِدَ وَالنَّاسُ فِي صَلَاةِ الصُّبْحِ وَلَمْ تَرْكَعْ رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ فَارْكَعْهُمَا، وَإِنْ ظَنَنْتَ أَنَّ الرَّكْعَةَ الْأُولَى تَفُوتُكَ»
سیدنا مجاہد فرماتے ہیں کہ اگر آپ مسجد میں داخل ہوئے اور لوگ صبح کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھ رہے ہیں اور آپ نے سنت فجر ادا نہیں کی تو جلدی سے سنت فجر ادا کر لیجئے اگرچہ تمہیں خوف ہو کہ جماعت کی پہلی رکعت آپ سے چھوٹ جائے گی
(استاد بخاری مصنف ابن أبي شيبة ,2/57)

الْحَسَنِ قَالَ: «إِذَا دَخَلْتَ الْمَسْجِدَ وَالْإِمَامُ فِي الصَّلَاةِ، وَلَمْ تَكُنْ رَكَعْتَ رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ، فَصَلِّهِمَا ثُمَّ ادْخَلْ مَعَ الْإِمَامِ
امام حسن فرماتے ہیں کہ جب تم مسجد میں داخل ہو اور امام صاحب نماز فجر پڑھا رہے ہوں اور آپ نے دو رکعت فجر سنت نہیں پڑھی ہو تو آپ سنتیں پڑھ لیں پھر جماعت میں شامل ہو جائیں
(المصنف - عبد الرزاق - ت الأعظمي2/444)

کسی صحیح حدیث میں واضح الفاظ کے ساتھ یہ حکم نہین آیا کہ فجر کی سنت جماعت کے وقت مت پڑھو، ایسا حکم نہیں آیا بلکہ سنت فجر اور جماعت دونوں کو پا لینے کا مذکورہ طریقہ صحابہ کرام تابعین عطام سے مروی ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا، اس کے علاوہ مذکورہ طریقہ احادیث کے بھی مطابق ہے، کیونکہ احادیث میں جماعت کی بھی تاکید ہے اور سنتِ فجر کی بھی تاکید ہے لیھذا مذکورہ طریقے میں دونوں تاکیدوں پر عمل ہو جاتا ہے، جماعت بھی مل جاتی ہے اور سنت بھی ادا ہو جاتی ہے

حدیث پاک میں فجر کی سنتوں کی تاکید ملاحظہ کیجیے
الحدیث:
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا تدعوهما، وإن طردتكم الخيل
ترجمہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان دو رکعتوں(فجر کی دو رکعت سنتوں کو) مت چھوڑو اگرچے تمھیں گھوڑے روند ڈالیں
(ابوداؤد حدیث1258)
.
*فقہ حنفی کا فتوی ملاحظہ کیجیے کہ محض عقل کی بنیاد پر فتوی نہیں دیا بلکہ دونوں احادیث پر عمل کو دلیل بنایا صحابہ کرام تابعین عظام کے عمل کو دلیل بنایا......!!*
: "إلا سنة الفجر إذا أمن فوت الجماعة" إنما خصت سنة الفجر لأن لها فضيلة عظيمة قال صلى الله عليه وسلم: "ركعتا الفجر خير من الدنيا وما فيها" وروي صلوهما وإن طردتكم الخيل أو أن فيهما الرغائب ولكن لما كانت للجماعة فضيلة أيضا يعمل بها بقدر الإمكان عند التعارض فإن خشي فوت الجماعة دخل مع الإمام لأنه لما تعذر إحرازهما يحرز أفضلهما وهو الجماعة
یعنی
جب جماعت کھڑی ہو جائے تو کوئی بھی سنت ہرگز نہ پڑھیں سوائے سنت فجر کے بشرطیکہ خوف نہ ہو کہ جماعت نکل جائے گی... سنت فجر کے متعلق استثنائی فتویٰ اس لیے دیا گیا کہ اس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ سنت فجر دنیا و مافیہا سے بہتر ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم مروی ہے کہ سنت فجر ادا کرو اگرچہ تمہیں گھوڑے روند ڈالیں... ایک طرف جماعت کی سخت تاکید ہے اور دوسری طرف سنت فجر کی بھی تاکید ہے تو دونوں پر اس طرح عمل ممکن ہے کہ جلدی سے سنت فجر ادا کر لے اور پھر جماعت کو بھی پالے تو اس صورت میں دونوں حدیثوں پر عمل ہوجائے گا اور اگر جماعت کے ختم ہو جانے کا خوف ہو تو پھر جماعت میں شریک ہو جائے سنت فجر کو چھوڑ دے کہ جماعت کی تاکید و فضیلت زیادہ ہے
(حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح ص190)
.
ومن انتهى إلى الإمام في صلاة الفجر؛ وهو لم يصل ركعتي الفجر إن خشي أن تفوته ركعة ويدرك الأخرى يصلي ركعتي الفجر عند باب المسجد ثم يدخل لأنه أمكنه الجمع بين الفضيلتين....وخصت سنة الفجر بقوله - عَلَيْهِ السَّلَامُ - «لا تدعوهما وإن طردتكم الخيل» رواه أبو داود
جو شخص مسجد میں آیا اور امام صاحب فجر کی جماعت کرا رہے تھے اور اس شخص نے سنت فجر ادا نہ کی تھی اگر اس کو قوی امید ہو کہ وہ سنت پڑھ لے گا اور پھر جماعت کو بھی پالے گا تو فجر کی سنتیں پڑھ لے اور پھر جماعت میں شامل ہو جائے تاکہ حدیث پاک میں جو دونوں کی فضیلت ہے ان دونوں کی فضیلت کو پالے... یہ استثنائی فتوی سنت فجر کے متعلق اس لئے دیا گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا سنت فجر کے متعلق کہ اسکو مت چھوڑنا اگرچہ تمھیں گھوڑے روند ڈالیں...اس حدیث پاک کو امام ابو داود نے روایت کیا ہے
(البناية شرح الهداية2/569)
.
: إلَّا سُنَّةَ فَجْرٍ) لِمَا رَوَى الطَّحَاوِيُّ وَغَيْرُهُ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّهُ دَخَلَ الْمَسْجِدَ وَأُقِيمَتْ الصَّلَاةُ فَصَلَّى رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ فِي الْمَسْجِدِ إلَى أُسْطُوَانَةٍ وَذَلِكَ بِمَحْضَرِ حُذَيْفَةَ وَأَبِي مُوسَى، وَمِثْلُهُ عَنْ عُمَرَ وَأَبِي الدَّرْدَاءِ وَابْنِ عَبَّاسٍ وَابْنِ عُمَرَ كَمَا أَسْنَدَهُ الْحَافِظُ الطَّحَاوِيُّ فِي شَرْحِ الْآثَارِ، وَمِثْلُهُ عَنْ الْحَسَنِ وَمَسْرُوقٍ وَالشَّعْبِيِّ
جب جماعت شروع ہو جائے تو کوئی بھی سنت ادا نہیں کر سکتے سوائے سنت فجر کے بشرطیکہ قوی امید ہو کہ جماعت کو بھی پالے گا... اس استثنائی فتوے کی وجہ یہ ہے کہ کئ صحابہ کرام و تابعین عظام سے مروی ہے کہ وہ اسی طرح کیا کرتے تھے کہ جماعت شروع ہوجانے کے بعد بھی سنت فجر پڑھ لیتے تھے اور اس کے بعد جماعت میں شامل ہو جاتے تھے
یہ طریقہ دوٹوک یا حکماً مروی ہے سیدنا ابن مسعود سے سیدنا حذیفہ سے سیدنا ابو موسی اشعری سے اور سیدنا عمر سے اور سیدنا ابو درداء سے اور سیدنا ابن عباس سے اور سیدنا ابن عمر سے اور سیدنا حسن سے اور سیدنا مسروق سے اور سیدنا شعبی سے رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین
(رد المحتار ط الحلبي1/378)
.
دیکھا آپ نے کہ فقہ حنفی میں یہ فتوی احادیث پر عمل اور صحابہ کرام تابعین عظام کے عمل پر عمل کی وجہ دیا گیا ہے....محض عقل کی بنیاد پر نہیں دیا گیا...اسے صریح غلطی کہنا، حدیث کی مخالفت کہنا خود ایک غلطی و بےباکی کم علمی و گمراہی ہے
.
*فقہ حنفی کے فتوی کی ایک اور دلیل......!!*
أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ فَلَا صَلَاةَ إِلَّا الْمَكْتُوبَةَ، إِلَّا رَكْعَتَيِ الصُّبْحِ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب جماعت کھڑی ہو جائے تو جماعت میں شامل ہونے کے علاوہ کوئی بھی نماز نہیں پڑھ سکتے سوائے سنت فجر کے( بشرطیکہ قوی امید ہو کہ سنت پڑھ کر جماعت میں شامل ہو جائے گا)
(السنن الكبرى - البيهقي - ط العلمية2/679)
(جمع الجوامع المعروف امام سیوطی 1/300)
.
علماء نے اس حدیث پاک کو ضعیف قرار دیا ہے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کے عمل کی وجہ سے اور آئمہ کے اجتہاد کی وجہ سے اس کا ضعف ختم ہو جانا چاہیے
لیھذا
سنت فجر کے معاملے میں فقہ حنفی اور فقہ مالکی کے پاس تین دلائل ہیں
ایک:ضعیف حدیث جسکا ضعف ختم ہوجائے گا
دو:صحابہ کرام و تابعین عظام کا عمل
تین:صحیح احادیث پر تطبیقا عمل
.
فقہ شافعی اور فقہ حنبلی پر کوئی مکمل طور پر عمل کرتا ہے تو اس پر ہمیں اعتراض نہیں..... ہمیں اعتراض بے جا اعتراض اور بے جا نکتہ چینی اور بے جا مذمت پر ہے...ہمیں اعتراض غیرمقلدوں اہلحدیثوں جہلمیوں کی بے باکی پر ہے، اسلاف پر طعنہ زنی کرنے پر ہے... ہمیں اعتراض اس بات پر ہے کہ دو چار حدیثیں پڑھ لیتے ہیں اور خود کو بہت بڑا مجتہد سمجھ لیتے ہیں اور ائمہ پر اسلاف پر فتوے جھاڑنا شروع کر دیتے ہیں
ہمیں اس اعتراض اس بات پر ہے کہ اپنے علماء کی تو تقلید کر لیتے ہیں لیکن جب ہم تقلید کرتے ہیں تو ہم پر اعتراض کرتے ہیں... شرک بدعت کے فتوے جھاڑنا شروع کر دیتے ہیں
جب کہ تقلید بھی برحق ہے اور قیاس بھی برحق ہے اجتہاد بھی برحق ہے
.
القرآن:
لَوۡ رَدُّوۡہُ  اِلَی الرَّسُوۡلِ وَ اِلٰۤی اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡہُمۡ لَعَلِمَہُ الَّذِیۡنَ یَسۡتَنۡۢبِطُوۡنَہٗ
اگر معاملات و مسائل کو لوٹا دیتے رسول کی طرف اور اولی الامر کی طرف تو اہل استنباط(اہلِ تحقیق،باشعور،باریک دان،سمجھدار علماء صوفیاء)ضرور جان لیتے
(سورہ نساء آیت83)
آیت مبارکہ میں واضح حکم دیا جارہا ہے کہ اہل استنباط کی طرف معاملات کو لوٹایا جائے اور انکی مدلل مستنبط رائے و سوچ و حکم کی تقلید و پیروی کی جائے.....اس آیت سے اہل کے لیے قیاس و اجتہاد کرنے کی مشروط اجازت کی طرف اشارہ ہے اور عوام پر تقلید کرنے کی طرف واضح اشارہ ہے
.
يَسْتَخْرِجُونَهُ وَهُمُ الْعُلَمَاءُ..الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُنَافِقِينَ، لَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِلَى ذَوِي الرَّأْيِ وَالْعِلْمِ،...وَفِي الْآيَةِ دَلِيلٌ عَلَى جَوَازِ الْقِيَاسِ، فَإِنَّ مِنَ الْعِلْمِ مَا يُدْرَكُ بِالتِّلَاوَةِ وَالرِّوَايَةِ وَهُوَ النَّصُّ، وَمِنْهُ مَا يُدْرَكُ بِالِاسْتِنْبَاطِ وَهُوَ الْقِيَاسُ عَلَى الْمَعَانِي الْمُودَعَةِ فِي النُّصُوصِ
اہل استنباط سے مراد وہ لوگ ہیں کہ جو احکام و نکات نکالتے ہوں اور وہ علماء ہیں... آیت میں منافقین اور مومنین سب کو حکم ہے کہ وہ معاملات کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹا دیں اور اہل علم کی طرف لوٹا دیں اور رائے و قیاس کرنے والوں کی طرف لوٹا دیں... اس آیت میں دلیل ہے کہ قیاس کرنا بالکل جائز ہے کہ علم وہ ہوتا ہے کہ جو نص یعنی قرآن اور حدیث و سنت سے ملتا ہے یا پھر ان سے نکالا جاتا ہے یہی تو قیاس ہے
(تفسیر بغوی2/255)
.
دلت هذه الآية على أنَّ القياس حُجَّة... أن في الأحْكَام ما لا يُعْرَف بالنَّصِّ، بل بالاستِنْبَاطِ... أن العَامِيِّ يجِب عليه تَقْلِيد العُلَمَاء
مذکورہ آیت مبارکہ دلالت کرتی ہے کہ قیاس ایک دلیل و حجت ہے، اس آیت سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ بعض احکام نص سے معلوم ہوتے ہیں اور بعض احکام قیاس و استنباط سے معلوم ہوتے ہیں.... بے شک عام آدمی پر واجب ہے کہ وہ علماء کرام کی تقلید کرے
(اللباب فی علوم الکتاب6/526)
.
دَلَّتْ هَذِهِ الْآيَةُ عَلَى أَنَّ الْقِيَاسَ حُجَّةٌ فِي الشَّرْعِ..الْعَامِّيَّ يَجِبُ عَلَيْهِ تَقْلِيدُ الْعُلَمَاءِ
مذکورہ آیت مبارکہ دلالت کرتی ہے کہ قیاس ایک دلیل و حجت ہے اور بے شک عام آدمی پر واجب ہے کہ وہ علماء کرام کی تقلید کرے
(تفسیر کبیر10/154)
.
وفي هذه الآية دليل على وجوب القول بالاجتهاد، عند عدم النص...فقد دل بذلك على أن من العلم ما يدرك بالتلاوة والرواية، وهو النص، ومنه ما يدرك بغيرهما، وهو المعنى، وحقيقة الأعتبار والاستنباط والقياس: الحكم بالمعاني المودعة في النصوص غير الحكم بالنصوص
یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ جب نص نہ ہو تو اجتہاد اور قیاس کرنا واجب ہے اور اس پر عمل کرنا بھی لازم ہے..اس آیت سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ بعض احکام نص سے معلوم ہوتے ہیں اور بعض احکام قیاس و استنباط سے معلوم ہوتے ہیں
(تفسیر ثعلبی10/493)
.
الحدیث:
حدثنا حفص بن عمر، عن شعبة، عن ابي عون، عن الحارث بن عمرو اخي المغيرة بن شعبة، عن اناس من اهل  حمص، من اصحاب معاذ بن جبل، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، لما اراد ان يبعث معاذا إلى اليمن، قال:" كيف تقضي إذا عرض لك قضاء؟، قال: اقضي بكتاب الله، قال: فإن لم تجد في كتاب الله؟، قال: فبسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فإن لم تجد في سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا في كتاب الله؟، قال: اجتهد  رايي ولا آلو، فضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم صدره، وقال: الحمد لله الذي وفق رسول رسول الله لما يرضي رسول الله".
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے اصحاب میں سے حمص کے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو جب یمن (کا گورنر) بنا کر بھیجنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ”جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ آئے گا تو تم کیسے فیصلہ کرو گے؟“ معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کی کتاب کے موافق فیصلہ کروں گا، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر اللہ کی کتاب میں تم نہ پا سکو؟“ تو معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے موافق، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر سنت رسول اور کتاب اللہ دونوں میں نہ پاسکو تو کیا کرو گے؟“ انہوں نے عرض کیا: پھر میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا، اور اس میں کوئی کوتاہی نہ کروں گا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے معاذ رضی اللہ عنہ کا سینہ تھپتھپایا، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے قاصد کو اس چیز کی توفیق دی جو اللہ کے رسول کو راضی اور خوش کرتی ہے
(ابوداؤد حدیث3592)
.
ضعفه الشيخ الألباني، ولكن بعض أهل العلم صححه أو حسنه، ومنهم ابن كثير في أول تفسير سورة الفاتحة، وكذلك الشوكاني حسنه وقال: إن ابن كثير جمع فيه جزءاً وقال: كذلك أيضاً أبو الفضل بن طاهر المقدسي جمع فيه جزءاً.وقد وجدت آثار عن عدد من الصحابة تدل على ما دل عليه
ابو داود شریف کی مذکورہ حدیث کو شیخ البانی نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن بعض اہل علم نے اس حدیث کو صحیح و دلیل قرار دیا ہے یا پھر حسن معتبر دلیل قرار دیا ہے جیسے کہ امام ابن کثیر نے اور جیسے کہ امام شوکانی نے صحیح یا حسن معتبر دلیل قرار دیا ہے... بعض ائمہ نے تو اس حدیث کی تائید و تخریج و شرح پر کتب و رسائل تک لکھے ہیں... صحابہ کرام سے بہت سارے آثار مروی ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ سب سے پہلے قرآن اور حدیث بھر اقوال صحابہ پھر ان پر کیا گیا اجتہاد و قیاس  کرنا اور عمل کرنا کرانا جائز بلکہ لازم و برحق ہے
(شرح ابوداود للعباد تحت الحدیث3592)
.
یہ حدیث مبارک مشعل راہ ہے کہ قران پھر حدیث و سنت پھر قیاس و استدلال....اس حدیث مبارک سے واضح ہوتا ہے کہ قران حدیث و سنت سے اجتہاد و استدلال کرنا برحق و ماہر علماء کا منصب بلکہ ذمہ داری ہے....استدلال و قیاس کرنے میں سب متفق ہوں یہ ضروری نہیً لیھذا غیرمنصوص ظنیات و فروعیات میں کبھی اختلاف ہونا فطری عمل ہے

الحدیث:
قال النبي صلى الله عليه وسلم لنا لما رجع من الأحزاب: «لا يصلين أحد العصر إلا في بني قريظة» فأدرك بعضهم العصر في الطريق، فقال بعضهم: لا نصلي حتى نأتيها، وقال بعضهم: بل نصلي، لم يرد منا ذلك، فذكر للنبي صلى الله عليه وسلم، فلم يعنف واحدا منهم
ترجمہ:
غزوہ احزاب سے واپسی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم(یعنی صحابہ کرام) سے فرمایا کہ:
تم میں سے ہر ایک بنی قریظہ پہنچ کر ہی عصر کی نماز پڑھے" (صحابہ کرام نے جلد پہنچنے کی بھر پور کوشش کی مگر)راستے میں عصر کا وقت ختم ہونے کو آیا تو کچھ صحابہ کرام نے فرمایا کہ ہم عصر نماز بنی قریظہ پہنچ کر ہی پڑہیں گے اور کچھ صحابہ کرام نے فرمایا کہ نبی پاک کا یہ ارادہ نا تھا(کہ نماز قضا ہو اس لیے) ہم عصر پڑھ لیں گے
(طبرانی ابن حبان وغیرہ کتب میں روایت ہے جس میں ہے کہ کچھ صحابہ نے راستے میں ہی عصر نماز پڑھ لی اور کچھ نے فرمایا کہ ہم رسول کریم کی تابعداری اور انکے مقصد میں ہی ہیں لیھذا قضا کرنے کا گناہ نہین ہوگا اس لیے انہوں نے بنی قریظہ پہنچ کر ہی عصر نماز پڑھی)
پس یہ معاملہ رسول کریم کے پاس پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایک پر بھی ملامت نا فرمائی
(بخاری حدیث946)
.
دیکھا آپ نے صحابہ کرام علیھم الرضوان کا قیاس و استدلال اور اس میں اختلاف... صحابہ کرام نے اس برحق اختلاف پر ایک دوسرے کو کافر منافق فاسق گمراہ گستاخ نہیں کہا اور نبی پاک نے بھی کسی کی ملامت نا فرمائی...ایسا اختلاف قابل برداشت ہے بلکہ روایتوں میں ایسے فروعی برحق پردلیل باادب اختلاف کو رحمت فرمایا گیا ہے
.
الِاجْتِهَادُ وَالِاسْتِنْبَاطُ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ وَسُنَّةِ نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِجْمَاعُ الْأُمَّةِ هُوَ الْحَقُّ الْوَاجِبُ، وَالْفَرْضُ اللَّازِمُ لِأَهْلِ الْعِلْمِ. وَبِذَلِكَ جَاءَتِ الْأَخْبَارِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَنْ جَمَاعَةِ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِينَ. وَقَالَ أَبُو تَمَّامٍ الْمَالِكِيُّ: أَجْمَعَتِ الْأُمَّةُ عَلَى الْقِيَاسِ
قرآن مجید اور سنت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجتہاد کرنا اور استنباط و قیاس کرنا اور اجماع امت یہ سب حق اور واجب ہیں، قرآن و حدیث سنت و اقوال صحابہ پر اجتہاد و قیاس کرنا اہل علم پر فرض اور لازم ہے... یہی حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اکثر صحابہ اور تابعین سے مروی ہے، ابو تمام مالکی فرماتے ہیں کہ تمام علماء کا اجماع ہے کہ قیاس شرعی چیز ہے، شرعی دلیل ہے
(تفسير القرطبي = الجامع لأحكام القرآن7/172)
.
قال ابن تيمية: "ومن كان متبحرًا في الأدلة الشرعية أمكنه أن يستدل على غالب الأحكام بالنصوص وبالأقيسة....وقال ابن القيم: ".... فهذه نبذة يسيرة تطلعك على ما وراءها من أنه ليس في الشريعة شيء يخالف القياس
ابن تیمیہ کہتا ہے کہ جو دلائل شرعیہ میں متبحر ہو اس کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ نصوص کے ساتھ اکثر احکام نکالے اور جن میں نص نہ ہو اس میں قیاس کرے...ابن قیم کہتا ہے کہ مذکورہ بہت سارے دلائل ہیں کہ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ دلائل قیاس کرنے کی مخالفت نہیں کرتے
(معالم أصول الفقه عند أهل السنة والجماعة ص184)
.
إن أكثر الصحابة رضي الله تعالى عنهم كانوا يَعْمَلُون بالقياس ....ابنُ جرير الطبري: إن إنكارَه بدعةٌ،
بے شک اکثر صحابہ کرام قیاس پر عمل کیا کرتے تھے اور ابن جریر طبری نے فرمایا ہے  کہ قیاس کا انکار کرنا تو بدعت ہے
(فيض الباري على صحيح البخاري6/517)
.
ہر ایک کو اجتہاد و قیاس و اختلاف کی بھی اجازت نہیں... اختلاف و قیاس و اجتہاد کے لیے اہل استنباط میں سے ہونا ضروری ہے... کافی علم ہونا ضروری ہے... وسعت ظرفی اور تطبیق و توفیق توجیہ تاویل ترجیح وغیرہ کی عادت ضروری ہے، جب ہر ایرے غیرے کم علم کو اختلاف کی اجازت نا ہوگی تو اختلافی فتنہ فسادات خود بخود ختم ہوتے جاءیں گے، کم ہوتے جائیں گے
.
امام احمد رضا فرماتے ہیں:
اطلاق و عموم سے استدلال نہ کوئی قیاس ہے نہ مجتھد سے خاص(اطلاق و عموم سےاستدلال کوئی بھی ماہر عالم کرسکتا ہے اس کے مجتہد ہونا ضروری نہیں)..(فتاویٰ رضویہ جلد7 صفحہ496)
.
ہاں اطلاق و عموم میں کیا کیا آئے گا اور کون اور کیا کس وجہ سے اطلاق و عموم نہیں آئے گا..؟ یہ سمجھ بوجھ بھی ضروری ہے... جس کے لیے
آیات احادیث اثارِ صحابہ و تابعین و آئمہ اسلام...اور
وسیع گہرا مطالعہ...عقائد فقہ لغت علم المعانی والبیان
اور اس قسم کے دیگر علوم پر نظر ضروی ہے... ایسے علماء محققین کو اطلاق و عموم سے استدلال جائز و ثواب بلکہ کبھی لازم تک ہوجاتا ہے......!!
.
قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ: «مَنْ كَانَ عَالِمًا بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ وَبِقَوْلِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِمَا اسْتَحْسَنَ فُقَهَاءُ الْمُسْلِمِينَ وَسِعَهُ أَنْ يَجْتَهِدَ رَأْيَهُ...قال الشافعی لَا يَقِيسُ إِلَّا مَنْ جَمَعَ آلَاتِ .الْقِيَاسِ وَهَى الْعِلْمُ بِالْأَحْكَامِ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ فَرْضِهِ وَأَدَبِهِ وَنَاسِخِهِ وَمَنْسُوخِهِ وَعَامِّهِ وَخَاصِّهِ وإِرْشَادِهِ وَنَدْبِهِ
....وَلَا يَكُونُ لِأَحَدٍ أَنْ يَقِيسَ حَتَّى يَكُونَ عَالِمًا بِمَا مَضَى قَبْلَهُ مِنَ السُّنَنِ، وَأَقَاوِيلِ السَّلَفِ وَإِجْمَاعِ النَّاسِ وَاخْتِلَافِهِمْ وَلِسَانِ الْعَرَبِ وَيَكُونُ صَحِيحَ الْعَقْلِ حَتَّى يُفَرِّقَ بَيْنَ الْمُشْتَبِهِ، وَلَا يُعَجِّلَ بِالْقَوْلِ وَلَا يَمْتَنِعَ مِنَ الِاسْتِمَاعِ مِمَّنْ خَالَفَهُ لَأَنَّ لَهُ فِي ذَلِكَ تَنْبِيهًا عَلَى غَفْلَةٍ رُبَّمَا كَانَتْ مِنْهُ.... وَعَلَيْهِ بُلُوغُ عَامَّةِ جَهْدِهِ، وَالْإِنْصَافُ مِنْ نَفْسِهِ حَتَّى يَعْرِفَ مِنْ أَيْنَ قَالَ مَا يَقُولُ
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ کے شاگرد رشید محمد بن حسن فرماتے ہیں کہ جو کتاب اللہ کا عالم ہو سنت رسول اللہ کا عالم ہوتا ہے اور صحابہ کرام کے اقوال کا عالم ہو اور فقہاء کے اجتہاد و استنباط و قیاس کا عالم ہو اس کے لئے جائز ہے کہ وہ قیاس و اجتہاد کرے... امام شافعی فرماتے ہیں کہ قیاس و اجتہاد وہی کرسکتا ہے کہ جس نے قیاس کے لیے مطلوبہ علوم و فنون میں مہارت حاصل کی ہو، مثلا قرآن کریم(اور سنت رسول) کے احکامات کا علم ہو قرآن کریم(و سنت رسول) کے فرض واجبات آداب ناسخ  منسوخ عام خاص اور اس کے ارشادات و مندوبات وغیرہ کا علم ہو... قیاس و اجتہاد صرف اس عالم کے لئے جائز ہے کہ جو عالم ہو سنتوں کا، اسلاف(صحابہ کرام تابعین عظام و دیگر ائمہ)کے اقوال کا عالم ہو، اسلاف کے اجماع و اختلاف کا عالم ہو، لغت عرب کے فنون کا عالم ہو، عمدہ عقل والا ہو تاکہ اشتباہ سے بچ سکے،اور جلد باز نہ ہو،اور مخالف کی بات سننے کا دل جگرہ رکھتا ہوکہ ممکن ہے یہ غفلت میں ہو اور مخالف کی تنقید سے غفلت ہٹ جائے اور اس پر واجب ہے کہ دلائل پر بھرپور غور کرے انصاف کے ساتھ بلاتعصب اور اسے پتہ ہونا چاہیے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے کس بنیاد پر کہہ رہا ہے
(جامع بیان العلم و فضلہ2/856)
.
*تقلید و اسلاف کی پیروی کی ایک بنیادی وجہ.....؟؟*
آیات پاک و حدیث پاک کی تنسیخ تخصیص توضیح تفسیر و تشریح دوسری ایات و احادیث سے ہوتی ہے جس پر کئ دلائل و حوالہ جات ہیں...مثلا
الحدیث:
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ينسخ حديثه بعضه بعضا، كما ينسخ القرآن بعضه بعضا ".
‏‏‏‏ ترجمہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث کو دوسری  حدیث منسوخ و مخصوص(و تشریح) کر دیتی ہے۔ جیسے قرآن کی ایک آیت دوسری آیت سے منسوخ و مخصوص(و تفسیر) ہو جاتی ہے
(مسلم حدیث777)
لیھذا یہ اصول یاد رہے کہ بعض آیات و احادیث کی تشریح تنسیخ تخصیص دیگر آیات و احادیث سے ہوتی ہے....عام آدمی کے لیے اسی لیے تقلید لازم ہے کہ اسے ساری یا اکثر احادیث و تفاسیر معلوم و یاد نہیں ہوتیں،مدنظر نہیں ہوتیں تو وہ کیسے جان سکتا ہے کہ جو ایت یا حدیث وہ پڑھ رہا ہے وہ کہیں منسوخ یا مخصوص تو نہیں.....؟؟ یااسکی تفسیر و شرح کسی دوسری آیت و حدیث سےتو نہیں.....؟ اسی لیے سیدنا سفیان بن عیینہ فرماتے ہیں
الحديث مَضِلَّة إلا للفقهاء
ترجمہ:
حدیث(اسی طرح آیت عام آدمی کےلیے)گمراہی کا سبب بن سکتی ہے سوائے فقہاء کے
(الجامع لابن أبي زيد القيرواني ص 118)
تو آیت و حدیث پڑھتے ہوءے معتبر اہلسنت عالم کی تفسیر و تشریح مدنظر ہو تقلید ہو یہ لازم ہے ورنہ اپنے سے نکات و مسائل نکالنا گمراہی بلکہ کفر تک لے جاسکتا ہے....وہ عالم وہ مجتہد و فقیہ نکات و مسائل نکال سکتا ہے جو بلاتصب وسیع الظرف ہوکر اکثر تفاسیر و احادیث کو جانتا ہو لغت و دیگر فنون کو جانتا ہو مگر آج کے مصروف دور میں اور علم و حافظہ کے کمی کے دور میں اور فنون و احاطہ حدیث و تفاسیر کے کمی کے دور میں بہتر بلکہ لازم یہی ہے کہ عالم فقیہ بھی تقلید کرے، کسی مجتہد کے قول و تفسیر و تشریح کو لے لے کیونکہ ہر مسلے پر اجتہاد مجتہدین کر چکے
البتہ
جدید مسائل میں باشعور وسیع الظرف وسیع علم والا عالم اپنی رائے پردلیل باادب ہوکر قائم کر سکتا ہے
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
whats App,twitter nmbr
00923468392475
03468392475
other nmbr
03062524574


Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.