فضائلِ سیدنا حسن حسین رضی اللہ تعالیٰ عنھما اور انکے نافرمان و شہید کرنے والے مردود کون....؟؟

 *سیدنا حسن سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنھما کے بعض فضائل اور جعلی محب و نافرمان و قاتلانِ حسین کون....؟؟ اور گستاخاںِ صحابہ و گستاخانِ اہلبیت رافضی نیم رافضی و ناصبی خارجی مردود و باطل ہیں....!!*

.

جمھور اہلسنت علماء کے مطابق سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت باسعادت پانچ شعبان میں ہوئی(کتاب فاطمہ للمدیھش 3/405طبرانی کبیر روایت2852 شیعہ کتاب العواصم ص7)بعض شیعہ کتب میں ہے کہ تین شعبان کو ولادت ہوئی…جمھور کا قول لوگوں کو بتائیے، انکےبلکہ ہر اچھے کےسچےفضائل بیان کیجیے،لکھیے،انکی سیرت و اقوال کا مطالعہ معتبر کتب سے کیجیے اور ان پےعمل کیجیےعمل کرائیے

.

①الحدیث:

هُمَا رَيْحَانَتَايَ مِنَ الدُّنْيَا

یعنی

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حسن حسین دنیا میں میرے دو پھول ہیں(بخاری حدیث3753)

کیا بات رضا اُس چمنستانِ کرم کی

زہرا ہے کلی جس میں حسین اور حسن پھول


.

②الحدیث:

الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ

ترجمہ:

حسن اور حسین اہل جنت کے نوجوانوں کےسردار ہیں

(ترمذی حدیث3768)

یعنی دنیا میں جو نوجوانی میں وفات پاجاءیں گے جنت میں ان کے سردار حسن و حسین رضی اللہ تعالیٰ عنھما ہونگے اور جو دنیا میں ادھیڑ عمر میں انتقال کریں گے جنت میں ان کے سردار سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما ہونگے

الحدیث:

حدثنا الحسن بن الصباح البزار، حدثنا محمد بن كثير العبدي، عن الاوزاعي، عن قتادة، عن انس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لابي بكر وعمر هذان سيدا كهول اهل الجنة من الاولين والآخرين إلا النبيين  والمرسلين

سیدنا انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر و عمر رضی الله عنہما کے سلسلہ میں فرمایا: ”یہ دونوں جنت کے ادھیڑ عمر والوں کے سردار ہوں گے، خواہ وہ اگلے ہوں یا پچھلے، سوائے انبیاء و مرسلین کے

(ترمذی حدیث3664)

.

③الحدیث:

أَنَّهُمْ خَرَجُوا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى طَعَامٍ دُعُوا لَهُ فَإِذَا حُسَيْنٌ يَلْعَبُ فِي السِّكَّةِ، قَالَ : فَتَقَدَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَامَ الْقَوْمِ، وَبَسَطَ يَدَيْهِ فَجَعَلَ الْغُلَامُ يَفِرُّ هَاهُنَا وَهَاهُنَا، وَيُضَاحِكُهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَخَذَهُ، فَجَعَلَ إِحْدَى يَدَيْهِ تَحْتَ ذَقَنِهِ، وَالْأُخْرَى فِي فَأْسِ رَأْسِهِ ، فَقَبَّلَهُ، وَقَالَ : " حُسَيْنٌ مِنِّي، وَأَنَا مِنْ حُسَيْنٍ أَحَبَّ اللَّهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْنًا، حُسَيْنٌ سِبْطٌ مِنَ الْأَسْبَاطِ

ترجمہ:

ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھانے کی ایک دعوت میں نکلے، دیکھا تو حسین رضی اللہ عنہ گلی میں کھیل رہے ہیں، نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم حسین کی طرف لوگوں سے آگے نکل گئے، اور اپنے دونوں ہاتھ پھیلا لیے، حسین رضی اللہ عنہ بچے تھے، ادھر ادھر بھاگنے لگے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  ان کو ہنسانے لگے، یہاں تک کہ ان کو پکڑ لیا، اور اپنا ایک ہاتھ ان کی ٹھوڑی کے نیچے اور دوسرا سر پر رکھ کر بوسہ لیا، اور فرمایا: ”حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں، اللہ اس سے محبت رکھے جو حسین سے محبت رکھے، اور حسین نواسوں میں سے ایک نواسہ ہیں

(ابن ماجہ حدیث144)

.

④كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَامِلَ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ عَلَى عَاتِقِهِ، فَقَالَ رَجُلٌ : نِعْمَ الْمَرْكَبُ رَكِبْتَ يَا غُلَامُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " وَنِعْمَ الرَّاكِبُ هُوَ

ترجمہ:

رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سیدنا حسین کو کندھے پے اٹھائے ہوئے تھےکسی نے کہا کہ کیا عمدہ ہے وہ ذات جس پے حسین سوار ہیں، تو نبی پاک نے فرمایا اور کیا ہی عمدہ ہےوہ جو سوار ہے

(ترمذی حدیث3784)

.

⑤كَانَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يَسْجُدُ، فَيَجِيءُ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ فَيَرْكَبُ ظَهْرَهُ، فَيُطِيلُ السُّجُودَ

رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سجدہ کرتے تو سیدنا حسن و حسین آپ علیہ السلام کی پیٹھ مبارک پے چڑھ جاتے تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سجدے کو لمبا کر دیتے تھے

(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد حدیث15077)

.

⑥النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضُمُّ إِلَيْهِ حَسَنًا وَحُسَيْنًا يَقُولُ: «اللَّهُمَّ إِنِّي أُحِبُّهُمَا فَأَحِبَّهُمَا»

نبی پاکﷺ نے(سیدنا)حسن و(سیدنا)حسین کو سینے سے لگایا اور فرمایا: یا اللہ میں ان سے محبت کرتا ہوں، یا اللہ تو بھی انہیں محبوب رکھ(مسند احمد23133)

.


⑦مَنْ أَحَبَّ الْحَسَنَ، وَالْحُسَيْنَ فَقَدْ أَحَبَّنِي، وَمَنْ أَبْغَضَهُمَا فَقَدْ أَبْغَضَنِي

ترجمہ:

جس نےحسن و حسین سے محبت کی بےشک اس نے مجھ سے محبت کی، جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا..(ابن ماجہ حدیث143)

.

⑧أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخَذَ بِيَدِ حَسَنٍ، وَحُسَيْنٍ، فَقَالَ : " مَنْ أَحَبَّنِي وَأَحَبَّ هَذَيْنِ وَأَبَاهُمَا وَأُمَّهُمَا ؛ كَانَ مَعِي فِي دَرَجَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ

ترجمہ:

بےشک رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے حسن و حسین کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا جو ان سے اور کے والدین سے محبت کرے وہ قیامت کے دن میرے ساتھ ہوگا

(ترمذی حدیث3733)

.

*صحابہ کرام یا اہلبیت عظام سادات کرام کی محبت میں غلو مبالغہ آرائی ہر گز نہیں کرنی چاہیے،کسی صحابی یا کسی اہلبیت  و سادات سے بغض نہیں رکھنا چاہیے،کسی کی توہین و گستاخی نہیں کرنی چاہیے…کئ یا اکثر یا کٹر شیعہ رافضی نیم رافضی اہلبیت و سادات کی محبت میں غلو مبالغہ آرائی کرتے ہیں اور صحابہ کرام کی بے ادبی یا نامناسبیت یا توہین کرتے ہیں جوکہ کبھی گناہ تو کبھی گمراہی تو کبھی کفر کی حد تک چلا جاتا ہے...اسی طرح ناصبی خارجی لوگ کا اہلبیت و سادات کی توہین و گستاخی بےادبی  کرنا نامناسبت کہنا بھی ہلاکت کا باعث بہت بڑا پلید کام ہے جو کبھی گناہ تو کبھی گمراہی تو کبھی کفر تک ہوجاتا ہے،یزیدیت خارجیت ناصبیت بھی ناحق و باطل ہیں تو شیعیت روافض نیم روافض بھی باطل ہیں، سچے معتدل اہلسنت ہی سچے محبانِ صحابہ و محبانِ اہلبیت ہیں، برحق ہیں*

.

: لَمَّا أُتيَ يَزِيدُ بْنُ مُعَاوِيَةَ بِرَأْسِ الْحُسَيْنِ جَعَلَ يَنْكُتُ بِمَخْصَرَةٍ مَعَهُ سِنَّهُ

 جب سیدنا حسین رضی اللہ تعالی عنہ کا سر مبارک یزید کے پاس لایا گیا تو یزید سر مبارک کے دانتوں کو کریدنے لگا

(تاريخ الإسلام - ط التوفيقية5/14)

 یہ یزید پلید کی اہلبیت کی توہین کی ایک علامت ہے... اس نے یہ کیسے گوارا کر لیا کہ سر مبارک تن سے جدا کروایا اور سر مبارک کے دانت کریدنے لگا...اسے ذرا بھی شرم نہ آئی....؟؟

.

سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

هلك في رجلان: محب غال ومبغض

 سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشاد فرمایا کہ میرے متعلق دو قسم کے لوگ ہلاکت میں ہیں ایک وہ جو مجھ سے حد سے زیادہ محبت کریں، ایک وہ جو مجھ سے بغض کریں

(شیعہ کتاب نہج البلاغۃ4/108)

.

شیعہ کتب میں ہے کہ

صنفان من أمتي لا نصيب لهما في الاسلام: الغلاة والقدرية....إياكم والغلو فينا،

غلو کرنے والے اور قدری (کافر فاجر بدمذہب ہیں انکا)دین اسلام میں کوئی حصہ نہیں....ہم اہلبیت کی تعریف میں غلو مبالغہ آرائی سے بچو(شیعہ کتاب بحارالانوار25/270ملتقطا)

.

لعن الله الغلاة....الغلاة كفار، والمفوضة مشركون، من جالسهم أو خالطهم أو واكلهم  أو شاربهم أو واصلهم أ وزوجهم أو تزوج إليهم أو أمنهم أو ائتمنهم على أمانة أو صدق حديثهم أو أعانهم بشطر كلمة خرج من ولاية الله عز وجل وولاية الرسول صلى الله عليه وآله و ولايتنا أهل البيت

خلاصہ:

غلو کرنے والے حد سےبڑھنےوالے لعنتی و کافر ہیں…ان سےقطع تعلق(بائیکاٹ)کرو، انکےساتھ نہ کھاؤ ، نہ پیو، نہ میل جول رکھو،نہ شادی بیاہ کرو، نہ انہیں سچا سمجھو، نہ انکی کسی بھی طرح کی مدد کرو...(شیعہ کتاب بحارالانوار25/273ملخصا)

.

الحدیث:

إِيَّاكُمْ وَالْغُلُوَّ فِي الدِّينِ

خبردار دین میں(اور دینداروں کی محبت تعریف یا مخالف پر تنقید وغیرہ ہر معاملےمیں)خود کو غلو(مبالغہ آرائی،حد سےتجاوز کرنے) سےدور رکھو(ابن ماجہ حدیث3029شیعہ کتاب منتہی المطلب2/729)

.

الحدیث:

قولوا بقولكم، أو بعض قولكم، ولا يستجرينكم الشيطان

ترجمہ:

(نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم میں کچھ الفاظ کہے گئے تھے تو اس پر آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ)

تعظیم کے الفاظ کہو یا بعض الفاظ کہو لیکن خیال رہے کہ شیطان تمھیں جری نا بنا دے(یعنی شیطان تمھیں تعظیم میں حد سے بڑھنے والا،غلو کرنے والا بےباک نا بنا دے)

(ابو داؤد حدیث نمبر4806)

.


جسکو اللہ نے عزت و عظمت دی ہے اسکی عزت تعظیم.و.قدر کرنی چاہیے مگر حد میں رہتے ہوئے.....!! نجدی خارجی لوگ توحید اور اللہ کی شان بیان کرنے کی آڑ میں انبیاء کرام اولیاء کرام کی توہین و تنقیص کرتے ہیں، عام آدمی کہتے لکھتے ہیں، محتاج و بےبس ظاہر کرتے ہیں، غیر اللہ کی تعظیم کو مطلقا شرک و بدعت شرک و بدعت کہتے ہیں وہ ٹھیک نہیں...ہرگز نہیں.......کم سے کم گمراہ تو ضرور ہیں بلکہ کبھی توہین کفر بھی ہوجاتی ہے....اسی طرح بعض اہلسنت و اکثر شیعہ میں سے وہ جاہل ، کم علم ، بےاحتیاطی و غلو کرنے والے حضرات بھی ٹھیک نہیں جو انبیاء کرام علیھم السلام،صحابہ کرام اہلبیت کرام علیھم الرضوان اور اولیاء کرام کی تعظیم میں حد سے بڑھ جائیں، انہیں سجدے کرتے پھریں،انکی منتیں مانگتے پھریں، تعزیے نوحے ماتم کرتے پھریں.......!!

لیکن

یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ تعظیم میں بڑھ جانا کبھی مکروہ ہوتا ہے کبھی گناہ اور کبھی گمراہی اور کبھی کفر و شرک، لیھذا ذرا ذرا سی بات پر شرک کفر، شرک کفر کے فتوے لگانے والے فسادی ہیں.........!!

جب

اہلبیت و صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین اور انبیاء کرام علیہم الصلاۃ و السلام حتی کہ سیدالانبیاء فداہ روحی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں احتیاط و سچائی لازم تو پھر امتی یعنی علماء مشائخ صوفیاء مرشد استاد سادات شہداء وغیرہ کی تعریف و شان بیان کرنے میں بھی اسلامی حد، احتیاط و سچائی بدرجہ اولی لازم ہے.......!!

.

*اللہ کی عطاء سے غیب کی خبر سنائی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے......!!*

⑨دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - ذَاتَ يَوْمٍ، وَإِذَا عَيْنَاهُ تَذْرِفَانِ، قُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، أَغْضَبَكَ أَحَدٌ؟ مَا شَأْنُ عَيْنَيْكَ تَفِيضَانِ؟ قَالَ: " بَلْ قَامَ مِنْ عِنْدِي جِبْرِيلُ - عَلَيْهِ السَّلَامُ - قَبْلُ، فَحَدَّثَنِي أَنَّ الْحُسَيْنَ يُقْتَلُ بِشَطِّ الْفُرَاتِ

ترجمہ:

میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک دن حاضر ہوا تو آپ علیہ الصلوۃ والسلام کی آنکھیں آنسو بہا رہی تھی میں نے عرض کیا یا نبی اللہ کسی نے آپ کو غضبناک کیا ہے آپ کیوں رو رہے ہیں...؟ تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میرے پاس سے جبریل ابھی  ابھی اٹھ کے گئے ہیں اور اس نے مجھے بتایا ہے کہ حسین فرات کے کنارے پر شہید کیا جائے گا 

(مسند احمد،بزاز،طبرانی، مجمع الزوائد,9/187)

.

*جعلی محب،  مکار منافق بزدل کالے کٹر غلو کرنے والے شیعہ ہی قاتلانِ حسین ہیں.........!!*

أهل الكوفة لكثرة من بها من الشيعة

 اکثر اہل کوفہ شیعہ ہی تھے

(شیعہ کتاب الاحتجاج - الشيخ الطبرسي2/17)

(شیعہ کتاب أعيان الشيعة - السيد محسن الأمين1/27)

.

أن أهل الكوفة كتبوا إليه: انا معك مائة ألف، وعن داود بن أبي هند عن الشعبي قال: بايع الحسين عليه السلام أربعون ألفا من أهل الكوفة

بے شک کوفی شیعوں نے امام حسین کی طرف خط لکھے بے شک ہم آپ کے ساتھ ہیں اور ہم ایک لاکھ کے قریب ہیں۔۔۔شعبی کی روایت کے مطابق چالیس ہزار کوفیوں نے امام حسین کی بیعت کی 

(شیعہ کتاب بحار الانوار44/337)

.

یزید و ابن زیاد کی دھمکیوں لالچوں میں اکر کوفی شیعوں نے امام حسین کی بیعت توڑ دی

ولاینبغی علینا باغ فمن لم یفعل برئت منہ الذمۃ و ھلال لنا دمہ و مالہ...فلما سمع اہل الکوفۃ  جعل ینظر بعضھم بعضا و نقضوا بیعۃ الحسین

ابن زیاد نے دھمکی دی کہ کہ ہم پر کوئی بغاوت نہ کریں اگر کسی نے بغاوت کی تو وہ اپنا خود ذمہ دار ہے اس کا خون ہمارے لئے حلال ہے اس کا مال ہمارے لئے حلال ہے۔۔۔پس جب اہل کوفہ نے یہ دھمکی سنی تو ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے اور انہوں نے حضرت حسین کی بیعت توڑ ڈالی 

(شیعہ کتاب ناسخ التواریخ ملتقطا2/273,274)

.

جب کوفیوں نےبےوفائی،غداری کی…مسلم بن عقیل کو شہید کیا،جسکی خبر امام حسین کو یہ خبر کربلا کےقریب ملی تو آپ نےفرمایا: قد خذلتنا شيعتنا

ہمارے کہلانے والے شیعوں نے ہمیں رسوا کیا، دھوکہ دیا، بےوفائی کی.

(شیعہ کتاب موسوعہ کلمات الامام الحسین ص422)

.


أني أقدم على قوم بايعوني بألسنتهم وقلوبهم، وقد انعكس الأمر لأنهم استحوذ عليهم الشيطان فأنسيهم ذكر الله، والآن ليس لهم مقصد إلا قتلي وقتل من يجاهد بين يدی

میں(امام حسین)تو یہ سمجھ کر کوفیوں کے پاس جا رہا تھا کہ انہوں نے زبان اور دلوں سے میری بیعت کی ہے لیکن معاملہ اس کےالٹ نکلا۔۔۔ان کوفیوں پر شیطان نے غلبہ حاصل کر لیا ہے اور اللہ کی یاد سے بھلا دیا ہے اب ان کوفی شیعوں کا مقصد مجھے اور میرے ساتھیوں  اہل بیت کو  قتل کرنا ہی ہے (شیعہ کتاب موسوعہ کلمات الامام الحسین ص483)

ثابت ہوا کہ سیدنا حسین نے بھی کوفی شیعوں کو اپنا قاتل غدار مکار جھوٹا منافق دھوکے باز کہا

.

*سیدہ بی بی زینب سیدنا زین العابدین وغیرہ نے بھی انہی کوفی مکار غدار جعلی محبان اہلبیت شیعوں کو قاتل ظالم مکار بےوفا قرار دیا......!!*

اما بعد،اے اہل کوفہ ! اے غدارو،  اے مکارو، ابےحیلہ بازو

تم ہم پر گریہ کرتے ہو اور خود تم نے ہم کو قتل کیا ہے۔ ابھی تمہارے ظلم سے ہمارا رونا موقوف نہیں ہوا اور تمہارے ستم سے ہمارا فریاد و نالہ ساکن نہیں ہوا اور تمہاری مثال اس عورت کی ہے جواپنے رسّہ کو مضبوط بٹتی اور پھر کھول ڈالتی ہے…………تم ہم پر گریہ و نالہ کرتے ہو حالانکہ خود تم ہی نے ہم کو قتل کیا ہے۔ سچ ہے وﷲ! لازم ہے کہ تم بہت گریہ کرو اور کم خوش ہو۔ تم نے عیب و عارِ ابدی خود خرید کیا ۔اس عار کا دھبّہ کسی پانی سے تمہارے جامے سے زائل نہ ہوگا۔جگر گوشہ خاتم پیغمبران و سید جوانانِ بہشت کے قتل کرنے کا کس چیز سے تدارک کر سکتے ہو! …… اے اہل کوفہ! تم پر وائے ہو !! تم نے کن جگر گوشہ ہائے رسول کو قتل کیا اور کن باپردے گان اہل بیت رسول کو بے پردہ کیا؟ کس قدر فرزندانِ رسول کی تم نے خونریزی کی ،ان کی حرمت کو ضائع کیا ۔تم نے ایسے بُرے کام کئے جن کی تاریکیوں سے زمین و آسمان گھر گیا۔‘‘

(شیعہ کتاب الاحتجاج - الشيخ الطبرسي2/29)

(شیعہ کتاب أعيان الشيعة - السيد محسن الأمين1/613)

.

جب مدینہ میں صحابہ کرام کو پتہ چلا کہہ بے وفا غدار کوفی شیعوں نے یزیدی فوج کے ساتھ مل کر لختِ جگر امام حسین کو شہید کر دیا ہے تو اس پر اکثر صحابہ کرام نے یزید سے بغاوت کردی اور شدید مخالف ہو گئے اور امام حسین کا بدلہ لینے لے لیے تیار ہونے لگے....جب یزید کو پتہ چلا تو اس نے بہت ہی بڑا لشکر مدینہ بھیجا اور بے دردی سے کئ صحابہ کرام اور انکی اولاد و خاندان کو شہید کیا......اس طرح صحابہ کرام اور انکی اولادوں نے امام حسین کی خاطر اور اسلام و حق کی خاطر شہادت تو قبول کی مگر کوفی شیعوں کی طرح بے وفائی غداری منافقت نہیں کی...یہاں ایک بچگانہ سا سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ صحابہ کرام اور انکی اولادیں  کربلا کے بعد تو یزید کے خلاف نکلے مگر کربلا سے پہلے امام حسین کے ساتھ کیوں نا نکلے.......؟؟اس کا جواب واضح ہے کہ امام حسین جنگ کے لیے نہیں نکلے تھے کہ صحابہ کرام اور انکی اولادیں اہل مکہ اہل مدینہ وغیرہ بھی ساتھ جاتے.....امام عالی مقام تو بیعت کے لیے کوفہ جا رہے تھے کوفی شیعوں کے بلانے پر...شاید امام حسین کوفہ کو اپنا مرکز بنانا چاہتے تھے شاید اسی لیے اپنے اہل و عیال سمیت ہجرت کرکے کوفہ روانہ ہوئے...


.

10=عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ كُلَّ نَبِيٍّ أُعْطِيَ سَبْعَةَ نُجَبَاءَ أَوْ نُقَبَاءَ وَأُعْطِيتُ أَنَا أَرْبَعَةَ عَشَرَ ". قُلْنَا : مَنْ هُمْ ؟ قَالَ : " أَنَا وَابْنَايَ، وَجَعْفَرُ، وَحَمْزَةُ، وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَمُصْعَب بْنُ عُمَيْرٍ، وَبِلَالٌ، وَسَلْمَانُ، وَعَمَّارٌ، وَالْمِقْدَادُ، وَحُذَيْفَةُ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ 

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

بے شک ہر نبی کو سات برگزیدہ نگہبان(ایک روایت مین رفقاء یعنی خاص ساتھی بھی آیا ہے..ایک روایت میں وزراء بھی آیا ہے.. ایک روایت میں نقباء یعنی ضامن ،سردار، اعلی اخلاق و قابلیت کے مالک بھی آیا ہے)دیے گئے ہیں اور مجھے چودہ دیے گئے ہیں..ہم نے ان(حضرت علی)سے پوچھا وہ چودہ کون ہیں فرمایا

وہ چودہ یہ ہیں

میں(یعنی حضرت علی)میرے دونوں بیٹے(یعنی حضرت حسن حسین)جعفر،حمزہ،ابوبکر،عمر ،مصعب بن عمیر،بلال، سلمان، عمار ،عبد اللہ ابن مسعود،ابوذر اور مقداد رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین

(ترمذی حدیث نمبر3785)

.

مفتی احمد یار خان نعیمی اس کی شرح میں

 لکھتے ہیں:

معلوم ہوا کہ ان چودہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک خاص قسم کا قرب حاصل تھا جو دوسروں کو حاصل نہیں،

دوسرے حضرات کو اور قسم کی خصوصیات حاصل ہیں..اس چمن میں ہر پھول کا رنگ و بو علیحدہ ہے..تمام احادیث پر نظر رکھنی چاہیے..

(مرآت شرح مشکاۃ جلد8 صفحہ500)

.

امامِ عالی مقام سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی شہادت سے پہلے سختی سے حکم دیا تھا کہ:

لا تشقي علي جيبا، ولا تخمشي علي وجها، ولا تدعي علي بالويل والثبور

ترجمہ:جب میں شہید ہوجاؤں تو اپنے کپڑے مت پھاڑنا، اپنا چہرہ(سینہ، پیٹھ) زخمی مت کرنا(ماتم مت کرنا) اور یہ مت پکارنا کہ ہائے مصیبت، ہائے ہم ہلاک ہوگئے(مطلب نوحے ماتم چیخ و پکار مت کرنا)

(شیعہ کتاب بحار الانواز45/3)

ماتم نوحے غم منانے والے مکار جعلی محب ہیں،اصلی محب ہائے حسین کے بجائے واہ حسین کہتے ہیں

.

*سیدنا حسن نے سیدنا معاویہ کی بیعت کی اور انکی بیعت کرنے کا حکم دیا.....!!*

جمع الحسن رءوس أهل العراق في هذا القصر  قصر المدائن- فقال: إنكم قد بايعتموني على أن تسالموا من سالمت وتحاربوا من حاربت، وإني قد بايعت معاوية، فاسمعوا له وأطيعو

ترجمہ:

سیدنا حسن نے مدائن کے ایک محل میں عراق وغیرہ کے بڑے بڑے لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا کہ تم لوگوں نے میری بیعت کی تھی اس بات پر کہ تم صلح کر لو گے اس سے جس سے میں صلح کروں اور تم جنگ کرو گے اس سے جس سے میں جنگ کروں تو بے شک میں نے معاویہ کی بیعت کر لی ہے تو تم بھی سیدنا معاویہ کی بات سنو مانو اور اطاعت کرو 

(الإصابة في تمييز الصحابة ,2/65)

(المعرفة والتاريخ3/317)

(كوثر المعاني الدراري5/176)

(تاريخ بغداد ت بشار1/467)

(شیعہ کتاب جواهر التاريخ - الشيخ علي الكوراني العاملي3/81نحوہ)

.

*لیکن*

جب سیدنا حسن نے حدیث پاک کی بشارت مطابق سیدنا معاویہ سے صلح کی، سیدنا معاویہ کی تعریف کی،انکی بیعت کی،بیعت کرنے کا حکم دیا تو بعض شیعوں نےسیدنا حسن کو کہا:في أنه كان أصحاب الحسن المجتبى (عليه السلام) يقولون له: يا مذل المؤمنين و يا مسود الوجوه

ترجمہ

بعض شیعوں نے امام حسن کو کہا اے مومنوں کو ذلیل کرنےوالے،مومنوں کے منہ کالا کرنے والے

(شیعہ کتاب مستدرک سفینہ بحار8/580)

.

*بعض لوگ کہتے ہیں کہ سیدنا حسن نے صلح کی مگر سیدنا حسین نے بیعت نہیں کی...یہ جھوٹ ہے، سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی بیعت کی تھی.....!!*

 فقال:يا حسن قم قبايع فقام وبايع، ثم قال للحسين عليه السلام: قم فبايع، فقام فبايع،

 (جب صلح ہوگئی)تو ثالثی نے عرض کی یا حسن اٹھییے اور سیدنا معاویہ کی بیعت کر لیجیے تو سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ اٹھے اور سیدنا معاویہ کے ہاتھ پے بیعت کر لی پھر سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کی کہ اٹھیے اور بیعت کیجئے تو سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اٹھے اور سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پے بیعت کرلی

(شیعہ کتاب بحار الأنوار -المجلسي ج44 ص61)

(شیعہ کتاب اختيار معرفة الرجال,الطوسي1/325نحوه)

.

*بیعت و صلح کے بعد بھی صلح و بیعت قائم رہی تحفے تحائف محبتوں  کا سلسلہ رہا.....!!*

كَانَ الْحُسَيْنُ يَفِدُ إِلَى مُعَاوِيَةَ فِي كُلِّ عَامٍ فَيُعْطِيهِ وَيُكْرِمُهُ

ترجمہ:

سیدنا حسین ہر سال سیدنا معاویہ کے پاس وفد کی صورت میں جاتے اور سیدنا معاویہ انہیں مال و دولت تحائف دیتے اور سیدنا معاویہ سیدنا حسین کی بڑی عزت ، اکرام و احترام کرتے تھے(البداية والنهاية ط الفكر8/151)

.

أَنَّ الْحَسَنَ، وَالْحُسَيْنَ كَانَا يَقْبَلَانِ جَوَائِزَ مُعَاوِيَةَ

ترجمہ:

بےشک سیدنا حسن و حسین سیدنا معاویہ کے تحائف قبول فرمایا کرتے تھے

(مصنف ابن أبي شيبة روایت20330)

(شیعہ کتاب تهذيب الأحكام 6/337)

.

سیدنا حسن اور حسین کا سیدنا معاویہ سے تحائف قبول کرنا اور ان کی بیعت کرنا اور بیعت کرنے کا حکم دینا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ فاسق و فاجر منافق ظالم ہرگز نہ تھے۔۔۔حتی کہ سیدنا معاویہ وفات تک شرائطِ صلح پر رہے، دین اسلام پے رہے ورنہ خلاف ورزی پر حسنین کریمین ضرور بیعت توڑ دیتے،  اعلان بغاوت حقہ کرتے جیسے کہ یزید کے معاملے میں کیا

.

فنعى الوليد إليه معاوية فاسترجع الحسين...سیدنا حسین کو جب سیدنا معاویہ کی وفات کی خبر دی گئ تو آپ نےاِنَّا لِلّٰہِ وَ  اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ پڑھا…(شیعہ کتاب اعلام الوری طبرسی1/434) مسلمان کو کوئی مصیبت،دکھ ملےتو کہتے ہیں اِنَّا لِلّٰہِ وَ  اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ(سورہ بقرہ156)ثابت ہوا سیدنا معاویہ امام حسین کے مطابق کافر ظالم منافق دشمن برے ہرگز نہ تھے جوکہ مکار فسادی نافرمان دشمنان اسلام گستاخانِ معاویہ کے منہ پر طمانچہ ہے

.

هذا ما صالح عليه الحسن بن علي بن أبي طالب معاوية بن أبي سفيان: صالحه على أن يسلم إليه ولاية أمر المسلمين، على أن يعمل فيهم بكتاب الله وسنة رسوله صلى الله عليه وآله وسيرة الخلفاء الصالحين

(شیعوں کے مطابق)امام حسن نے فرمایا یہ ہیں وہ شرائط جس پر میں معاویہ سے صلح کرتا ہوں، شرط یہ ہے کہ معاویہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ اور سیرتِ نیک خلفاء کے مطابق عمل پیرا رہیں گے

(شیعہ کتاب بحار الانوار جلد44 ص65)

سیدنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے "نیک خلفاء کی سیرت" فرمایا جبکہ اس وقت شیعہ کے مطابق فقط ایک خلیفہ برحق امام علی گذرے تھے لیکن سیدنا حسن "نیک خلفاء" جمع کا لفظ فرما رہے ہیں جسکا صاف مطلب ہے کہ سیدنا حسن کا وہی نظریہ تھا جو سچے اہلسنت کا ہے کہ سیدنا ابوبکر و عمر و عثمان و علی رضی اللہ عنھم خلفاء برحق ہیں تبھی تو سیدنا حسن نے جمع کا لفظ فرمایا...اگر شیعہ کا عقیدہ درست ہوتا تو "سیرت خلیفہ" واحد کا لفظ بولتے امام حسن....اور دوسری بات یہ بھی کہ سیدنا معاویہ خلفاء راشدین کی راہ حق پے چلے ورنہ سیدنا حسن حسین رضی اللہ تعالیٰ عنھما ضرور بیعت توڑ دیتے،سیدنا حسن حسین کی صلح رسول کریم کی صلح ہے جو سیدنا معاویہ کو عادل بادشاہ بنا دیتی ہے

.الحدیث:

أَنَا حَرْبٌ لِمَنْ حَارَبَكُمْ، وَسِلْمٌ لِمَنْ سَالَمَكُمْ

ترجمہ:

(رسول کریم نے حسن حسین وغیرہ اہلبیت سے فرمایا) تم جس سے جنگ کرو میری اس سے جنگ ہے،تم جس سے صلح کرو میری اس سے صلح ہے

(اہلسنت کتاب صحیح ابن حبان حدیث6977)

(شیعہ کتاب بحار الانوار32/321)

.

اور تیسری بات بھی اہلسنت کی ثابت ہوئی کہ "قرآن و سنت" اولین ستون ہیں کہ ان پے عمل لازم ہے جبکہ شیعہ قرآن و سنت کے بجائے اکثر اپنی طرف سے اقوال گھڑ لیتے ہیں اور اہلبیت کی طرف منسوب کر دیتے ہیں...

.

شیعہ تعریف میں یا تنقید میں یا عقائد  فقہ و تاریخ میں اپنی طرف سے احادیث روایات اقوال قصے کہانیاں بنا کر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم و اہلبیت کی طرف منسوب کرتے ہیں،لیھذا ان مردودوں کی کسی بات کا اعتبار مت کیجیے، شیعہ کی بتائی گئ وہی بات وہی روایت وہی تاریخ معتبر جو قرآن و سنت و مستند تاریخ کے موافق ہو

لعنهم الله قد وضعوا أخبارا

اللہ کی لعنت ہو مفوضہ(شیعوں کے ایک فرقے پر) جنہوں نے

جھوٹی روایات(من گھڑت احادیث اقوال قصے)گھڑ لی ہیں

(شیعہ کتاب من لايحضره الفقيه -الصدوق1/290)

(شیعہ کتاب وسائل الشيعة - الحر العاملي 5/422)

.

الناس ﺃﻭﻟﻌﻮﺍ ﺑﺎﻟﻜﺬﺏ ﻋﻠﻴﻨﺎ

امام جعفر صادق فرماتے ہیں کہ لوگ(شیعہ) جو(بظاہر)ہم اہلبیت کے محب کہلاتے ہیں انہوں نے اپنی طرف سے باتیں، حدیثیں اقوال قصے گھڑ لی ہیں اور ہم اہلبیت کی طرف منسوب کر دی ہیں جوکہ جھوٹ ہیں(شیعہ کتاب رجال کشی ﺹ135, 195،شیعہ کتاب بحار الانوار 2/246,....2/250)

لیھذا

شیعہ کی بیان کردہ روایات احادیث قصے وہی معتبر ہیں جو قرآن و سنت و مستند تاریخ کے موافق ہوں ورنہ جھوٹ و بہتان و مردود و غیرمقبول کہلائیں گے

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App,twitter nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.