گستاخ رسول کا حکم؟ قانون ہاتھ میں لینا کب جائز؟ دعوت اسلامی لبیک اور طاہر القادری؟

 *گستاخِ رسول کے متعلق اسلام کی پالیسی...؟؟ گستاخ کے متعلق چار فتوے اور قانون ہاتھ میں لینا کب جائز ؟ اور گستاخوں غازیوں کے متعلق دعوت اسلامی کی پالیسی حکمت یا بزدلی....؟؟ اور گستاخوں کے متعلق لبیک کی سختی یا شریعت پے عمل....؟؟ لبیک و دعوت اسلامی دونوں اہلسنت تو ان میں اختلاف کیوں اور غیراسلامی ملک کے گستاخ کا حکم اور طاہر القادری سے اختلاف کیوں اور رواداری.....؟؟*

سوال:

 چند احباب کے سوالات کا مفہوم یہ ہے کہ علامہ صاحب ہم دعوت اسلامی سے محبت کرتے تھے مگر اودھے پور کے واقعے پر دعوت اسلامی کی طرف سے اظہار لاتعلقی اور اس سے پہلے بھی گستاخ و غازیوں کے معاملے پر اظہار لاتعلقی پر دل دعوت اسلامی سے ٹوٹ رہا ہے… رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیں کہ گستاخوں کو قتل کر دو اور امیر اہلسنت فرمائیں کہ گستاخ کو قتل کرنے والوں سے ہمارا تعلق نہیں، ہماری پالیسی نہیں… کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پالیسی سے بڑھ کر ہے پالیسی دعوت اسلامی کی……؟؟

.

جواب:

 دعوت اسلامی کی پالیسی ہرگز ہرگز ہرگز رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پالیسی سے بڑھ کر نہیں ہے… گستاخان رسول کے معاملے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی پالیسی کیا ہے اور  دعوت اسلامی و لبیک کی پالیسی کیا ہے.....آئیے کچھ تفصیل سے ملاحظہ کرتے ہیں

.

سب سےپہلے

یہ پڑہتے چلیے کہ "فروعی مدلل باادب اختلاف" نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوا آپ کے صحابہ کرام میں ہوا اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف آراء رکھنے والے اور اس پر عمل کرنے والوں میں سے کسی کی بھی سرزنش و مذمت نہ کی...ہاں فروعی معاملات کو لے کر آپس میں جگھڑنا ٹھیک نہیں ہے

.

القرآن:

وَلاَ تَنَازَعُواْ فَتَفْشَلُواْ وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ

ترجمہ:

اور آپس میں مت جگھڑو کہ تم بزدل ہو جاؤ گے اور تمھاری قوت اور وقار جاتا رہے گا..(انفال 46)

.

الحدیث:

حدثنا حفص بن عمر، عن شعبة، عن ابي عون، عن الحارث بن عمرو اخي المغيرة بن شعبة، عن اناس من اهل  حمص، من اصحاب معاذ بن جبل، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، لما اراد ان يبعث معاذا إلى اليمن، قال:" كيف تقضي إذا عرض لك قضاء؟، قال: اقضي بكتاب الله، قال: فإن لم تجد في كتاب الله؟، قال: فبسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فإن لم تجد في سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا في كتاب الله؟، قال: اجتهد  رايي ولا آلو، فضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم صدره، وقال: الحمد لله الذي وفق رسول رسول الله لما يرضي رسول الله".

معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے اصحاب میں سے حمص کے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو جب یمن (کا گورنر) بنا کرب بھیجنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ”جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ آئے گا تو تم کیسے فیصلہ کرو گے؟“ معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کی کتاب کے موافق فیصلہ کروں گا، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر اللہ کی کتاب میں تم نہ پا سکو؟“ تو معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے موافق، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر سنت رسول اور کتاب اللہ دونوں میں نہ پاس کو تو کیا کرو گے؟“ انہوں نے عرض کیا: پھر میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا، اور اس میں کوئی کوتاہی نہ کروں گا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے معاذ رضی اللہ عنہ کا سینہ تھپتھپایا، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے قاصد کو اس چیز کی توفیق دی جو اللہ کے رسول کو راضی اور خوش کرتی ہے

(ابوداؤد حدیث3592)


یہ حدیث مبارک مشعل راہ ہے کہ قران پھر حدیث و سنت پھر قیاس و استدلال....اس حدیث مبارک سے واضح ہوتا ہے کہ قران حدیث و سنت سے اجتہاد و استدلال کرنا برحق و ماہر علماء کا منصب بلکہ ذمہ داری ہے....استدلال و قیاس کرنے میں سب متفق ہوں یہ ضروری نہیں لیھذا غیرمنصوص ظنیات و فروعیات میں کبھی اختلاف ہونا فطری عمل ہے


الحدیث:

 قال النبي صلى الله عليه وسلم لنا لما رجع من الأحزاب: «لا يصلين أحد العصر إلا في بني قريظة» فأدرك بعضهم العصر في الطريق، فقال بعضهم: لا نصلي حتى نأتيها، وقال بعضهم: بل نصلي، لم يرد منا ذلك، فذكر للنبي صلى الله عليه وسلم، فلم يعنف واحدا منهم

ترجمہ:

غزوہ احزاب سے واپسی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم(یعنی صحابہ کرام) سے فرمایا کہ:

تم میں سے ہر ایک بنی قریظہ پہنچ کر ہی عصر کی نماز پڑھے" (صحابہ کرام نے جلد پہنچنے کی بھر پور کوشش کی مگر)راستے میں عصر کا وقت ختم ہونے کو آیا تو کچھ صحابہ کرام نے فرمایا کہ ہم عصر نماز بنی قریظہ پہنچ کر ہی پڑہیں گے اور کچھ صحابہ کرام نے فرمایا کہ نبی پاک کا یہ ارادہ نا تھا(کہ نماز قضا ہو اس لیے) ہم عصر پڑھ لیں گے

(طبرانی ابن حبان وغیرہ کتب میں روایت ہے جس میں ہے کہ کچھ صحابہ نے راستے میں ہی عصر نماز پڑھ لی اور کچھ نے فرمایا کہ ہم رسول کریم کی تابعداری اور انکے مقصد میں ہی ہیں لیھذا قضا کرنے کا گناہ نہین ہوگا اس لیے انہوں نے بنی قریظہ پہنچ کر ہی عصر نماز پڑھی)

پس یہ معاملہ رسول کریم کے پاس پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایک پر بھی ملامت نا فرمائی

(بخاری حدیث946)

.

دیکھا آپ نے صحابہ کرام علیھم الرضوان کا قیاس و استدلال اور اس میں اختلاف... صحابہ کرام نے اس برحق اختلاف پر ایک دوسرے کو کافر منافق فاسق گمراہ گستاخ بزدل شدت پسند وغیرہ کچھ نہیں کہا اور نبی پاک نے بھی کسی کی ملامت و مذمت نا فرمائی...ایسا اختلاف قابل برداشت ہے بلکہ روایتوں مین ایسے فروعی برحق پردلیل باادب اختلاف کو رحمت فرمایا گیا ہے

.

اختلاف ایک فطرتی چیز ہے.... حل کرنے کی بھر پور کوشش کرنہ چاہیے اور مقدور بھر علم و توجہ اور اہلِ علم سے بحث و دلائل کے بعد اسلامی حدود و آداب میں رہتے ہوئے پردلیل اختلاف رحمت ہے

مگر

آپسی تنازع جھگڑا ضد انانیت تکبر لالچ ایجنٹی منافقت والا اختلاف رحمت نہیں، ہرگز نہیں...اختلاف بالکل ختم نہیں ہو پاتا مگر کم سے کم ضرور کیا جا سکتا ہے،اس لیے اختلاف میں ضد ،انانیت، توہین و مذمت نہیں ہونی چاہیے بلکہ صبر اور وسعتِ ظرفی ہونی چاہیے... اور یہ عزم و ارادہ بھی ہونا چاہیے کہ اختلاف کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی، ختم نہیں ہو پایا تو اختلاف کو کم سے کم ضرور کیا جائے گا..اختلاف کو جھگڑے سے بچایا جائے گا..

.

اختلاف کی بنیاد حسد و ضد ہر گز نہیں ہونی چاہیے...

اختلاف اپنی انا کی خاطر نہ ہو

اختلاف لسانیت قومیت کی خاطر نہ ہو

اختلاف ذاتی مفاد لالچ کی خاطر نہ ہو

اختلاف شہرت واہ واہ کی خاطر نہ ہو

اختلاف فرقہ پارٹی کی خاطر کی نہ ہو

اختلاف کسی کی ایجنٹی کی خاطر نہ ہو

اختلاف منافقت، دھوکے بازی کی خاطر نہ ہو

اختلاف ہو تو دلیل و بھلائی کی بنیاد پر ہو، بہتر سے بہترین کی طرف ہو، علم و حکمت سے مزین ہو،

.

ہر شخص کو تمام علم ہو،ہر طرف توجہ ہو، ہر میدان میں ماہر ہو یہ عادتا ممکن نہیں، شاید اسی لیے مختلف میدانوں کے ماہر حضرات کی شوری ہونا بہت ضروری ہے، اسی لیے اپنے آپ کو عقل کل نہیں سمجھنا چاہیے....بس میں ہی ہوں نہیں سوچنا چاہیے...ترقی در ترقی کرنے کی سوچ ہو، ایک دوسرے کو علم، شعور، ترقی دینے کی سوچ ہو....!!

.


کسی کا اختلاف حد درجے کا ہو، ادب و آداب کے ساتھ ہو، دلائل و شواہد پر مبنی ہو تو اس سے دل چھوٹا نہیں کرنا چاہیے...ایسے اختلاف والے کی تنقیص و مذمت نہیں کرنی چاہیے

.

*گستاخِ رسول کے متعلق اسلام  کی پالیسی و حکم*

 دراصل گستاخ رسول کے متعلق دوٹوک واضح حکم کہ جو چاہے قتل کر دے، ایسا حکم نہیں آیا… وہ جو ایک حدیث پاک ہے کہ گستاخ رسول کو قتل کر دو تو اسکا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عام آدمی قتل کرے اور یہ بھی معنی ہوسکتے ہیں کہ عام آدمی خود سے قتل نہ کرے بلکہ قاضی کے حکم سے قتل کیا جائے اور یہ حدیث ہے بھی ضعیف کہ جس سے حکمِ شریعت ثابت نہیں ہوتا البتہ فضیلت کے معاملے میں ضعیف حدیث مقبول ہے

.

 قرآن و حدیث میں ہے کہ چور کا ہاتھ کاٹو، زانی کو رجم کرو تو اسکا یہ مطلب نہیں کہ قاضی کے بغیر خود سے قتل کرو ہاتھ کاٹو بلکہ مطلب یہ ہے کہ قاضی سزا دے....اسی طرح حدیث کا یہ مطلب بھی بن سکتا ہے کہ گستاخ رسول کو قاضی سزا دے،عوام نہ دے

.

اوپر بیان جا چکا کہ قیاس کرنے کی اجازت بلکہ قیاس کرنے کا حکم خود نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا اور قیاس کرنے میں اختلاف خود نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک میں ہوا، قیاس کرکے مدلل اختلاف رائے کرکے الگ الگ فتوے پر عمل نبی پاک کے سامنے ہوا مگر نبی پاک نے کسی کی سرزنش و مذمت نہ فرمائی

تو

 گستاخ رسول کی سزا کے متعلق صحیح صریح نص دوٹوک موجود نہیں تو صحابہ کرام علیھم الرضوان تابعین عظام اور علماء کرام نے قیاس کیا اور ان میں اختلاف ہوا اور چار فتوے اہم فتوے دییے گئے

.

فتوی①گستاخ کو قتل کر دینا واجب ہے, توبہ کرے تو توبہ قبول مگر سزا معاف نہیں ہوگی لیکن یہ سزائے موت قاضی ہی دیگا،عوام کو قانون ہاتھ میں لینے کا اختیار نہیں

.

فتوی②بلاتکرار و بلافساد کسی سے گستاخی ہوجائے تو سمجھایا جائے توبہ کرائی جائے اور وہ اگر توبہ کرلے تو توبہ قبول سزا معاف ، قتل و بائیکاٹ لازم نہیں...توبہ نہ کرے یا ضدی فسادی ہو یا بار بار گستاخی کرے تو قاضی سزا موت دے مگر اس فتوی کا ایک استثنائی پہلو بھی ہے کہ ضدی فسادی تکرار والا مشھور گستاخ کو قاضی کے حکم کے بغیر عام آدمی بھی قتل کرسکتا ہے

.

فتوی③گستاخ کو ہر حال میں سزائے موت دو......قانون ہاتھ میں لیتے ہوئے گستاخِ رسول کو اسی وقت، اسی جگہ پھڑکا دو........!!

.

فتوی④ایک فتوی یہ ہے کہ ذمی غیر مسلم گستاخ کو سمجھایا جائے، بڑے نقصان کا خطرہ ہو تو بائیکاٹ نہ کیا جائے سزاء موت نہ دی جائے بلکہ ہوسکے تو مذمت کی جائے،ہوسکے تو ہلکی پھلکی تادیبی کاروائی کی جائے،ہوسکے تو معافی و توبہ کا مطالبہ کیا جائےائندہ احتیاط کا کہا جائے…اسی طرح حربی غیرمسلم گستاخ سے بائیکاٹ و جہاد حسب طاقت لازم ہے لیکن اگر طاقت نہ ہو یا بہت بڑے نقصان کا اندیشہ ہو تو بائیکاٹ و قتل نہ کرنا جائز ہے

.=============

*#فتوی_نمبر_ایک*

گستاخ کو قتل کر دینا واجب ہے, توبہ کرے تو توبہ قبول مگر سزا معاف نہیں ہوگی لیکن یہ سزائے موت قاضی ہی دیگا،عوام کو قانون ہاتھ میں لینے کا اختیار نہیں

جَزَاءَهُ الْقَتْلُ عَلَى وَجْهِ كَوْنِهِ حَدًّا، وَلِذَا عَطَفَ عَلَيْهِ قَوْلَهُ وَلَا تُقْبَلُ تَوْبَتُهُ لِأَنَّ الْحَدَّ لَا يَسْقُطُ بِالتَّوْبَةِ فَهُوَ عَطْفُ تَفْسِيرٍ؛ وَأَفَادَ أَنَّهُ حُكْمُ الدُّنْيَا، أَمَّا عِنْدَ اللَّهِ تَعَالَى فَهِيَ مَقْبُولَةٌ

 جو شخص کسی بھی نبی کسی بھی رسول کی گستاخی کرے تو اسے حد کے طور پر قتل کیا جائے گا، توبہ کرے گا تو اللہ کی بارگاہ میں اس کی توبہ اگرچہ قبول ہے لیکن سزا معاف نہیں ہوگی

(رد المحتار ,4/232)

.

فَإِنْ كَانَ بِهِ قُتِلَ حَدًّا وَلَا تُقْبَلُ تَوْبَتُهُ

 اگر کوئی گستاخِ رسول ہو تو اس کو حد کے طور پر قتل کیا جائے گا اور اس کی توبہ سے اسکی سزا معاف نہیں ہوگی

(درر الحكام شرح غرر الأحكام ,1/301)

.


ما لو ارتد بسببه - صلى الله عليه وسلم - ثم تاب فإنه يقتل حدا ولا تقبل توبته في إسقاط القتل عنه

 اگر کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کرے تو وہ کافر ہو گیا ، مرتد ہوگیا اگر توبہ کرے تو بھی اس کو قتل کیا جائے گا ، قتل کے معاملے میں اس کی توبہ قبول نہیں

(النهر الفائق شرح كنز الدقائق ,3/253)



.

الرِّدَّةُ بِسَبِّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَالَ فِي فَتْحِ الْقَدِيرِ كُلُّ مَنْ أَبْغَضَ رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - بِقَلْبِهِ كَانَ مُرْتَدًّا فَالسَّابُّ بِطَرِيقِ أَوْلَى ثُمَّ يُقْتَلُ حَدًّا عِنْدَنَا فَلَاتُقْبَلُ تَوْبَتُهُ فِي إسْقَاطِهِ الْقَتْلَ قَالُوا هَذَا مَذْهَبُ أَهْلِ الْكُوفَةِ وَمَالِكٍ

 فقہ حنفی( کے بعض علماء) اور فقہ مالکی کے مطابق جو شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض رکھے یا گستاخی کرے تو اس کو حد کے طور پر قتل کیا جائے گا،(اللہ کی بارگاہ میں اسکی توبہ قبول ہے مگر) سزا کے معاملے میں اس کی توبہ قبول نہیں ہوگی(توبہ سے سزا معاف نہ ہوگی)

(البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري136 ,5/135)

.

لِأَنَّهُ الَّذِي يُقِيمُ الْحُدُودَ فِي الْعَادَةِ

 سزائیں دینا عام طور پر قاضی کا ہی کام ہے

 (رد المحتار ,6/140)

.

الحدیث:البَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَبِي رَافِعٍ اليَهُودِيِّ رِجَالًا مِنَ الأَنْصَارِ، فَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَتِيكٍ، وَكَانَ أَبُو رَافِعٍ يُؤْذِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ ملخصا:

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چند انصار صحابہ کو خیبر بھیجا یہودی ابو رافع کو قتل کرنے کے لیے کیونکہ ابو رافع گستاخ رسول تھا، رسول کریم کو(زبان و کلام وغیرہ سے) اذیت پہنچاتا تھا

(بخاری حدیث4039)

اس میں اشارہ ہے کہ قاضی حکم و اجازت دیگا تو ہی قتل کیا جائے گا

.

جَاءَ رَجُلٌ فَقَالَ: إِنَّ ابْنَ خَطَلٍ مُتَعَلِّقٌ بِأَسْتَارِ الكَعْبَةِ فَقَالَ «اقْتُلُوهُ

ترجمہ:

ایک شخص نے نبی پاک سے عرض کی کہ ابن خطل(ضدی فسادی گستاخ) کعبے کے پردوں میں لپٹا ہوا ہے آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا اسے ہرحال میں قتل کر دو

(بخاری حدیث1846)

اس میں اشارہ ہے کہ قاضی حکم و اجازت دیگا تو ہی قتل کیا جائے گا

.

أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " مَنْ لِكَعْبِ بْنِ الْأَشْرَفِ ؟ فَإِنَّهُ قَدْ آذَى اللَّهَ وَرَسُولَهُ ". قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ : أَتُحِبُّ أَنْ أَقْتُلَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ : " نَعَمْ.... فَقَتَلَهُ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کعب بن اشرف کو کون قتل کرے گا اس نے اللہ کو اذیت دی ہے اس کے رسول کو اذیت دی ہے، گستاخی کی ہے....مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ نے فرمایا کہ میں اسے قتل کروں گا اور اس گستاخ کو قتل کر دیا

(بخاری حدیث3031ملخصا)

اس میں اشارہ ہے کہ قاضی حکم و اجازت دیگا تو ہی قتل کیا جائے گا

.



.=================

*#فتوی_نمبر_دو*

بلاتکرار و بلافساد کسی سے گستاخی ہوجائے تو سمجھایا جائے توبہ کرائی جائے اور وہ اگر توبہ کرلے تو توبہ قبول سزا معاف ، قتل و بائیکاٹ لازم نہیں...توبہ نہ کرے یا ضدی فسادی ہو یا بار بار گستاخی کرے تو قاضی سزا موت دے

مگر

 اس فتوی کا ایک استثنائی پہلو بھی ہے کہ ضدی فسادی تکرار والا مشھور گستاخ کو قاضی کے حکم کے بغیر عام آدمی بھی قتل کرسکتا ہے

.

اس فتوی کی تفصیل و دلائل و حوالہ جات یہ ہیں

*مرتد، اسی طرح گستاخ کی سزا میں اگرچہ تفصیل ہے مگر اس سےتوبہ کرائی جائے گی انکی توبہ قبول ہے*

الحدیث:

كَانَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ أَسْلَمَ، ثُمَّ ارْتَدَّ وَلَحِقَ بِالشِّرْكِ، ثُمَّ تَنَدَّمَ فَأَرْسَلَ إِلَى قَوْمِهِ : سَلُوا لِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ هَلْ لِي مِنْ تَوْبَةٍ ؟ فَجَاءَ قَوْمُهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا : إِنَّ فُلَانًا قَدْ نَدِمَ، وَإِنَّهُ أَمَرَنَا أَنْ نَسْأَلَكَ هَلْ لَهُ مِنْ تَوْبَةٍ ؟ فَنَزَلَتْ : { كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ قَوْمًا كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ } إِلَى قَوْلِهِ : { غَفُورٌ رَحِيمٌ }، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ فَأَسْلَمَ

ترجمہ:


ایک انصاری مسلمان ہوا پھر مرتد ہوگیا اور مشرکوں کے ساتھ جا ملا پھر وہ نادم ہوا تو اس نے اپنی قوم کی طرف پیغام بھیجا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرو کہ کیا میری توبہ قبول ہے تو اسکی قوم رسول کریم کی طرف آئی اور عرض کیا کہ فلاں مرتد ہو چکا ہے اور اس نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم آپ سے پوچھیں کہ کیا میری کوئی توبہ قبول  ہے تو یہ آیت نازل ہوئی { كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ قَوْمًا كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ }إِلَى قَوْلِهِ : { غَفُورٌ رَحِيمٌ } تو قوم نے یہ پیغام اس کی طرف بھیجا اور وہ مرتد مسلمان ہو گیا(اور اس کی توبہ قبول ہوگئ)

(نسائی حدیث4068)

.

الحدیث:

أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ ارْتَدَّ عَنِ الْإِسْلَامِ، وَلَحِقَ بِالْمُشْرِكِينَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى : { كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ قَوْمًا كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ } إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، فَبَعَثَ بِهَا قَوْمُهُ، فَرَجَعَ تَائِبًا، فَقَبِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلِكَ مِنْهُ

ترجمہ:

بے شک ایک انصاری مرتد ہوگیا اور مشرکوں سے جا ملا تو یہ آیت نازل ہوئی{ كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ قَوْمًا كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ } إِلَى آخِرِ الْآيَةِ،تو قوم نے یہ آیت اس کی طرف بھیجی اور وہ واپس توبہ کرتے ہوئے مسلمان ہو گیا تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کی توبہ قبول فرما لی 

(مسند احمد حدیث2218)

.

وَإِنِّي مَرَرْتُ بِمَسْجِدٍ لِبَنِي حَنِيفَةَ، فَإِذَا هُمْ يُؤْمِنُونَ بِمُسَيْلِمَةَ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِمْ عَبْدُ اللَّهِ ، فَجِيءَ بِهِمْ، فَاسْتَتَابَهُمْ

ترجمہ:

راوی کہتا ہے کہ میں مسجد بنی حنیفہ کے پاس سے گزرا تو وہ لوگ مسیلمہ کذاب پر ایمان لاتے تھے تو سیدنا عبداللہ نے ان مرتدین کی طرف بھیجا اور مرتدین کو لایا گیا تو سیدنا عبداللہ نے ان سے توبہ کرائی

(ابوداود روایت2762)

.

مذکورہ حدیث و روایات میں توبہ کرانے اور توبہ قبول کرنے کی بات اگرچہ مرتد کے متعلق ہے مگر علماء نے استدلال کرتے ہوءے عام گستاخ کو مرتد کے زمرے میں رکھا ہے

وأما من قال بقبول توبته فظاهر كلامهم أنهم يقولون باستتابته كما يستتاب المرتد،..فذهب الجمهور من أهل العلم إلى أن المرتد يستتاب، وحكى ابن القصار أنه إجماع من الصحابة على تصويب قول عمر في الاستتابة، ولم ينكره أحد منهم، وهو قول عثمان وعلي وابن مسعود، وبه قال عطاء بن أبي رباح والنخعي والثوري ومالك وأصحابه، والأوزاعي والشافعي وأحمد وإسحاق وأصحاب الرأي

ترجمہ:

جو(صحابہ تابعین فقہاء)اس چیز کے قائل ہیں کہ گستاخ کی توبہ قبول ہے تو ان کے کلام کا ظاہر یہ ہے کہ گستاخ سے توبہ کرائی جائے گی جیسے کہ مرتد سے توبہ کرائی جاتی ہے.....تو جمہور اور اکثریت اہل علم کی اس طرف گئی ہے کہ مرتد سے توبہ کرائی جائے گی۔۔ابن القصار نے فرمایا کہ اس بات پر اجماع صحابہ ہو چکا ہے کہ سیدنا عمر نے مرتد سے توبہ کرائی اور صحابہ نے آپ کو صحیح قرار دیا اور کسی نے بھی اختلاف نہ کیا تو یہ اجماع صحابہ ہو گیا اور یہی قول ہےسیدنا عثمان  کا, یہی قول ہےسیدنا علی کا , یہی قول ہے سیدنا ابن مسعود کا اور ایسا ہی کہا ہے سیدنا عطاء بن أبي رباح نے اور سیدنا النخعي و الثوري نے اور امام مالك وأصحابه نے، اور امام الأوزاعي و الشافعي نے،  اور امام أحمد و إسحاق اور أصحاب الرأي(یعنی یہی کہا ہے احناف نے)

رضی اللہ تعالیٰ عنھم و رحمۃ اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین

[السيف المسلول ,page 215بحذف یسیر] 

.

ثابت ہوا عام مرتد کی توبہ قبول ہے اور فقہ حنفی کے بعض علماء اور فقہ مالکی شافعی کے مطابق عام گستاخ بھی مرتد کے حکم میں ہے لیھذا اس سے توبہ کرائی جائے گی، اسکی توبہ قبول کی جائے گی......البتہ بار بار گستاخی یا سرعام گستاخی کے ذریعے فساد پھیلانے والے کی توبہ اگرچہ قبول ہے مگر اسے قتل کیا جائے گا بلکہ بلا اجازت قاضی عام ادمی قتل کرسکتا ہے جسکی تفصیل نیچے آرہی ہے

.

*بعض فقہاء حنفی کے مطابق گستاخ و مرتد کا ایک ہی حکم کہ انہیں سمجھایا جائے توبہ کا کہاجائے توبہ کرلیں تو قتل نہ کیے جائیں سوائے اس کے کہ ضدی فسادی گستاخ یا بار بار گستاخی کرنے والے کو قتل ہی کیا جائے گا چاہے توبہ ہی کیوں نہ کر لے*

قلت: أرأيت الرجل المسلم إذا ارتد عن الإسلام كيف الحكم فيه؟ قال: يعرض عليه الإسلام، فإن أسلم وإلا قتل

ترجمہ:

امام محمد نےامام ابو حنیفہ علیھما الرحمۃ سے پوچھا کہ ایک شخص مرتد ہوگیا تو اس کا کیا حکم ہے تو امام ابو حنیفہ نے فرمایا کہ اس پر اسلام پیش کیا جائے گا(اسکے اعتراضات و خدشات کا رد کیا جاءے گا سمجھایا جائے گا)اگر اسلام کو قبول کرلے تو ٹھیک ورنہ قتل کر دیا جائے گا 

[الأصل للشيباني ط قطر ,7/492]

.

یہ تو تھا مرتد کا حکم اور فقہ حنفی کے بعض علماء اور فقہ شافعی میں عام گستاخ کا حکم بھی مرتد کی طرح ہے

أَنَّ مَذْهَبَ أَبِي حَنِيفَةَ وَالشَّافِعِيِّ حُكْمُهُ حُكْمُ الْمُرْتَدِّ، وَقَدْ عُلِمَ أَنَّ الْمُرْتَدَّ تُقْبَلُ تَوْبَتُهُ كَمَا نَقَلَهُ هُنَا عَنْ النُّتَفِ وَغَيْرِهِ، فَإِذَا كَانَ هَذَا فِي سَابِّ الرَّسُولِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَفِي سَابِّ الشَّيْخَيْنِ أَوْ أَحَدِهِمَا بِالْأَوْلَى

ترجمہ:

بے شک امام ابو حنیفہ اور امام شافعی کا مذہب یہ ہے کہ عام گستاخ کا حکم مرتد والا حکم ہے۔۔۔اور بے شک اس سے پتہ چلا کہ مرتد کی توبہ قبول ہے جیسے کہ یہاں پر نقل ہے نتف وغیرہ سے۔۔جب عام گستاخ رسول کی توبہ قبول ہے تو سیدنا ابو بکر اور عمر کے گستاخ کی توبہ بھی بدرجہ اولی قبول ہے 

[(رد المحتار) ,4/234]

.

وَقَدْ نَقَلَ ابْنُ أَفْلَاطُونَ زَادَهُ فِي كِتَابِهِ الْمُسَمَّى بِمُعِينِ الْحُكَّامِ أَنَّهَا رِدَّةٌ حَيْثُ قَالَ مَعْزِيًّا إلَى شَرْحِ الطَّحَاوِيِّ مَا صُورَتُهُ مَنْ سَبَّ النَّبِيَّ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - أَوْ بَغَضَهُ كَانَ ذَلِكَ مِنْهُ رِدَّةً وَحُكْمُهُ حُكْمُ الْمُرْتَدِّينَ اهـ.وَفِي النَّتْفِ مَنْ سَبَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّهُ مُرْتَدٌّ وَحُكْمُهُ حُكْمُ الْمُرْتَدِّ وَيُفْعَلُ بِهِ مَا يُفْعَلُ بِالْمُرْتَدِّ اهـ.فَقَوْلُهُ وَيُفْعَلُ بِهِ مَا يُفْعَلُ بِالْمُرْتَدِّ ظَاهِرٌ فِي قَبُولِ تَوْبَتِهِ

معین الاحکام اور شرح طحاوی میں ہے کہ جو کسی بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض رکھے یا اس کی گستاخی کرے تو مرتد ہوجائے گا اور اس کا حکم مرتدین والا ہوگا، توبہ کرے گا تو اس کی توبہ قبول کی جائے گی اور اسے سزا نہ دی جائے گی مرتد کی طرح

(البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري ,5/135)



.

وَلِهَذَا أَفْتَى أَكْثَرُهُمْ بِقَتْلِ مَنْ أَكْثَرَ مِنْ سَبِّ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - مِنْ أَهْلِ الذِّمَّةِ وَإِنْ أَسْلَمَ بَعْدَ أَخْذِهِ...فَقَدْ أَفَادَ أَنَّهُ يَجُوزُ عِنْدَنَا قَتْلُهُ إذَا تَكَرَّرَ مِنْهُ ذَلِكَ وَأَظْهَرَه..قَوْلُهُ وَبِهِ أَفْتَى شَيْخُنَا) أَيْ بِالْقَتْلِ لَكِنْ تَعْزِيرًا كَمَا قَدَّمْنَاهُ عَنْهُ وَيَنْبَغِي تَقْيِيدُهُ بِمَا إذَا ظَهَرَ أَنَّهُ مُعْتَادُهُ كَمَا قَيَّدَهُ بِهِ فِي الْمَعْرُوضَاتِ أَوْ بِمَا إذَا أَعْلَنَ بِهِ...بَلْ أَفْتَى بِهِ أَكْثَرُ الْحَنَفِيَّةِ إذَا أَكْثَرَ السَّبَّ...جَوَازِ قَتْلِ الْمَرْأَةِ إذَا أَعْلَنَتْ بِالشَّتْمِ فَهُوَ مَخْصُوصٌ مِنْ عُمُومِ النَّهْيِ عَنْ قَتْلِ النِّسَاءِ...فَيَدُلُّ عَلَى جَوَازِ قَتْلِ الذِّمِّيِّ الْمَنْهِيّ عَنْ قَتْلِهِ بِعَقْدِ الذِّمَّةِ، إذَا أَعْلَنَ بِالشَّتْمِ أَيْضًا

ترجمہ ملخصا:

اسی وجہ سے اکثر فقہاء احناف نے فتوی دیا ہے کہ جو بار بار نبی پاک کی گستاخی کرے اسے قتل کیا جائے گا چاہے وہ بظاہر مسلمان ہو یا ذمی کافر اگرچہ مسلمان ہوجائے (حربی گستاخ کافر تو بدرجہ اولیٰ قتل کیا جائے گا)

اس عبارت سے یہ فائدہ نکلتا ہے کہ ہم احناف کے نزدیک جب گستاخی بار بار ہو تو اس کو قتل کرنا جائز ہے۔۔۔اور مصنف نے جو کہا ہے کہ اسی پر ہمارے استاد نے فتوی دیا ہے تو یہ فتوی تعزیرا قتل کرنا جائز ہے اور یہ قتل کرنا اس وقت جائز ہے جب وہ عادی گستاخ ہو یا بار بار گستاخی کرے یا سرعام گستاخی کرکے فساد پھیلائےتو ایسے گستاخ کو قتل کرنا جائز ہے۔۔۔یہ تو ایک امام کا نہیں بلکہ اکثر احناف کا فتویٰ ہے۔۔۔اسی طرح عورت اگر بار بار گستاخی کرے یا سرعام گستاخی کرکے فساد پھیلائے تو اسے قتل کرنا جائز ہے اسی طرح ذمی کافر کا بھی حکم یہی ہے  

[(رد المحتار)216 ,4/215ملتقطا]

.

امام اہلسنت مجدد دین و ملت سیدی احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:

ہمارے ائمہ مذہب رضی الله تعالٰی عنہم کے نزدیك ساب(عام گستاخ رسول) مرتد ہےاور اس کے سب احکام مثل مرتد، مرتداگر توبہ کرے تقبل ولا یقتل(قبول کریں گے اور قتل نہ کریں گے)

(فتاوی رضویہ15/152)

.

*#گستاخ.و.مرتد کو سمجھایا جائیگا اور بار بار گستاخی کرنے والے یا ضدی فسادی گستاخ کو بلاحکم قاضی قتل کرنا جائز ہے*

.

عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ " أَنَّ يَهُودِيَّةً كَانَتْ تَشْتُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَقَعُ فِيهِ، فَخَنَقَهَا رَجُلٌ حَتَّى مَاتَتْ، فَأَبْطَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَمَهَا

 سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک یہودی عورت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کیا کرتی تھی تو اس گستاخ عورت کو ایک شخص نے گلا گھونٹ کر مار دیا اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گستاخِ رسول عورت کا خون رائیگاں قرار دے دیا

(السنن الكبرى - البيهقي - ط العلمية7/96)

واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ قاضی وقت یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بغیر ہی ایک شخص نے قتل کر دیا اور اس کے بعد رسول کریم نے فرمایا کہ اس گستاخ عورت کا خون رائیگاں ہے


.

الحدیث:

ایک عورت صحابی کے سامنے گستاخی کیا کرتی تھی، اسے صحابی نے بہت سمجھایا مگر وہ نا مانی، ایک رات حسبِ عادت گستاخی کر رہی تھی تو صحابی نے اسے قتل کر دیا اور معاملہ رسول کریم تک پہنچا تو آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فیصلہ فرمایا کہ: 

«ألا اشهدوا أن دمها هدر

ترجمہ: خبردار سب سن لو......!! بے شک اس (گستاخِ رسول)کا خون رائیگاں ہے

(ابو داؤد حدیث4361)

.

اس حدیث پاک سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابی نے بار بار سمجھایا تاکہ توبہ کرے اور قتل سے بچے، مگر وہ بار بار گستاخی کرتی رہی تو صحابی نے بار بار گستاخی کرنے والے کو قاضی کے حکم کے بغیر قتل کر ڈالا اور پھر قاضی اعظم یعنی رسول کریم کےپاس پہنچے تو آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے بار بار گستاخی کرنے والے گستاخ کا خون راءیگاں قرار دیا....یہی حکم فقہ حنفی میں بیان کیا گیا ہے

.

جس طرح چور کو سزا قاضی دیگا مگر جسکا چور ہونا معروف ہو اور چوری کر رہا ہو تو اسے بلاحکم قاضی عام آدمی بھی قتل کرسکتا ہے اسی طرح بدرجہ اولی گستاخ جسکی گستاخی مشھور ہو فسادی ہو گستاخی الحاد فساد پھیلا رہا ہو تو اسے بلااجازت قاضی و عدلیہ کوئی بھی عام ادمی قتل کرسکتا ہے....مسلۂ

رأى رجلا يسرق ماله فصاح به أو ينقب حائطه أو حائط غيره وهو معروف بالسرقة فصاح به ولم يهرب حل قتله ولا قصاص عليه

ترجمہ:

(خلیفہ اعلی حضرت مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ اسکا تفسیری ترجمہ فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:

مکان میں چور گھسا اور ابھی مال لے کر نکلا نہیں اس نے شور و غل کیا مگر وہ بھاگا نہیں یا اس کے مکان میں یا دوسرے کے مکان میں نقب لگا رہا ہے اور شور کرنے سے بھاگتا نہیں، اس کو قتل کرنا جائز ہے۔ بشرطیکہ چور ہونا اس کا مشہور ومعروف ہو۔

[النهر الفائق شرح كنز الدقائق ,3/165]

[(رد المحتار) ,6/546]

[بہارِ شریعت حصہ 17 صفحہ761]

.==============

*#فتوی_نمبر_تین*

ایک فتوی یہ ہے کہ گستاخ کو ہر حال میں سزائے موت و بائیکاٹ لازم......قانون ہاتھ میں لیتے ہوئے گستاخِ رسول کو اسی وقت، اسی جگہ پھڑکا دو........!!

.

عظیم تابعی فقیہ و قاضی حضرت امام لیث بن سعد کہ جن کے بارے میں امام شافعی فرمایا کرتے تھے کہ:

وكان الإمام الشافعي يقول: «اللَّيْثُ أَفْقَهُ مِنْ مَالِكٍ إِلاَّ أَنَّ أَصْحَابَه لَمْ يَقُوْمُوا بِهِ

ترجمہ:

امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ حضرت لیث بن سعد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تو امام مالک سے بھی زیادہ فقیہ و عالم تھے مگر افسوس کہ ان کے شاگر ان کے اقوال و قضایا اور فتاوی جات کو مستقل مذہب کی صورت میں جمع نا کرسکے

(حاشیہ تاویل مختلف الحدیث 1/428)

.

ایسے عظیم تابعی کہ جو امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

سے بھی بڑھ کر تھے انکا فتوی و فیصلہ سنیے......!!

عبارت نمبر ایک:

مَنْ شَتَمَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَهْلِّ الذِّمَّة قَالَ اللَّيْثُ يُقْتَلُ مَكَانَهُ(بالحذف الیسیر)

.

عبارت نمبر دو:

وقال الليث في المسلم يسب النبيﷺ إنه لا يُناظر ولايُستتاب ويُقتل مكانه

.

یعنی:

عظیم فقیہ و قاضی تابعی امام لیث بن سعد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں مسلم یا غیرمسلم جو بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کرے تو کسی فیصلے ، کسی مناظرے و مباحثے کی ضرورت نہیں، گستاخِ رسول کو اسی وقت ، اسی جگہ قتل کر دیا جائے

(دیکھیے , احکام القران للجصاص ، التمھید 6/168)

.

گستاخِ رسول کو سمجھایا جائے اسے عدالت سزائے موت دے الا یہ کہ ضدی عادی یا فسادی ہو تو عام آدمی بھی قتل کرسکتا ہے جیسے کہ اوپر تفصیل گذری

مگر

عالمی یا ملکی عدلیہ کی نظر اندازی ، چالبازی ، ایجنٹی ، سستی ہوگی ، گستاخی کی ترویج ہوگی تو لوگ خود بخود لازماً حضرت لیث رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے فتوے پر عمل کریں گے اور دارین میں سرخ رو ہو جائیں گے، ثوابِ جزیل پائیں گے... ان شاء اللہ عزوجل

.==================


*#فتوی_نمبر_چار*

ایک فتوی یہ ہے کہ ذمی غیر مسلم گستاخ کو سمجھایا جائے، بڑے نقصان کا خطرہ ہو تو بائیکاٹ نہ کیا جائے سزاء موت نہ دی جائے بلکہ ہوسکے تو مذمت کی جائے،ہوسکے تو ہلکی پھلکی تادیبی کاروائی کی جائے،ہوسکے تو معافی و توبہ کا مطالبہ کیا جائےائندہ احتیاط کا کہا جائے…اسی طرح حربی غیرمسلم گستاخ سے بائیکاٹ و جہاد حسب طاقت لازم ہے لیکن اگر طاقت نہ ہو یا بہت بڑے نقصان کا اندیشہ ہو تو بائیکاٹ و قتل نہ کرنا جائز ہے

حوالہ و دلیل:

فصل: [حكم أهل الذمة في سب الرسول صلى الله عليه وسلم]

قال أبو جعفر: (ومن كان من ذلك من أهل الذمة: فإنه يؤدب ولا يقتل)..لأنهم قد أقروا على دينهم، ومن دينهم عبادة غير الله، وتكذيب الرسول..ويدل عليه: ما روي "أن اليهود دخلوا على النبي عليه الصلاة والسلام، فقالوا: السام عليك، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: وعليكم"، ولم يوجب عليهم قتلاً

خلاصہِ ترجمہ:

فقہ حنفی کے کچھ علماء کا فتوی ہے کہ ذمی غیرمسلم گستاخ کی مذمت کی جائے ہوسکےتو تادیبی کاروائی کی جائےمگر معاہدہ نہ ٹوٹے گا، وہ واجب القتل نہیں،بائیکاٹ لازم نہیں دلیل بخاری حدیث6024(از شرح مختصر الطحاوی 6/142)

.

وَيُؤَدَّبُ الذِّمِّيُّ وَيُعَاقَبُ عَلَى سَبِّهِ دِينَ الْإِسْلَامِ أَوْ النَّبِيَّ أَوْ الْقُرْآنَ

ذمی غیرمسلم نے قران کی یا دین اسلام کی یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کی تو(قتل و بائیکاٹ لازم نہیں)سمجھایا جائے گا ہوسکے تو تادیبی کاروائی کی جائے گے (البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري ,5/125)

.

وَسَبِّ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -) وَقَالَ الشَّافِعِيُّ يُنْتَقَضُ أَمَانُهُ بِالسَّبِّ لِأَنَّهُ يَنْقُضُ الْأَيْمَانَ فَكَذَا الْأَمَانُ بَلْ أَوْلَى لِأَنَّهُ دُونَهُ وَهُوَ خَلَفٌ عَنْهُ وَلَنَا «أَنَّ يَهُودِيًّا قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - السَّامُ عَلَيْك فَقَالَ أَصْحَابُهُ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - نَقْتُلُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ لَا» رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ فَلَمْ يَنْتَقِضْ - عَلَيْهِ السَّلَامُ - عَهْدَهُ وَلَمْ يَقْتُلْهُ فَيَكُونُ حُجَّةً عَلَيْهِ وَعَلَى مَالِكٍ فِي وُجُوبِ الْقَتْلِ بِسَبِّ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -

 ایک یہودی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کی تو بعض صحابہ کرام نے اجازت چاہی کہ ہم اسے قتل کر دیں تو آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے منع کردیا یہ دلیل ہے کہ گستاخ رسول کو قتل کرنا واجب نہیں ہے بخلاف امام مالک کے

(تبيين الحقائق وحاشية الشلبي ,3/281)

.

من أظهر سبّ النَّبِي [صلى الله عَلَيْهِ وَسلم] من أهل الذِّمَّة عزّر، وَلَا ينْتَقض عَهده وَلَا يقتل

 غیر مسلم اگر گستاخی رسول کرے تو اس کے ساتھ تعزیراً تادیبی کاروائی کی جائے گی لیکن اسے قتل نہیں کیا جائے گا اور اس کا عہد نہیں ٹوٹے گا

(اللباب في الجمع بين السنة والكتاب ,2/765)

.

هَذَا إذَا سَبَّهُ كَافِرٌ، وَأَمَّا إذَا سَبَّهُ أَوْ وَاحِدًا مِنْ الْأَنْبِيَاءِ - صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِمْ أَجْمَعِينَ - مُسْلِمٌ، فَإِنَّهُ يُقْتَلُ حَدًّا

 غیر مسلم اگر گستاخی رسول کرے تو اسے قتل نہیں کیا جائے گا اگر مسلمان گستاخی کرے تو اس کو قتل کیا جائے گا حد کے طور پر

(درر الحكام شرح غرر الأحكام ,1/299)

.================

*#دعوت _اسلامی_کی_پالیسی*

اہلسنت کے امیروں میں سے ایک امیر اہلسنت قبلہ مولانا الیاس قادری اور انکی تنظیم کے علماء کی پالیسی و فتوی ملاحظہ کیجیے، لکھتے ہیں:

گستاخ رسول کو معاف نہیں کیا جاسکتا، اسکی سزا قتل ہے، مگر سزائے موت دینا قاضی کا کام ہے، عوام گستاخوں سے بائیکاٹ کریں مگر عوام قانون ہاتھ میں نہیں لے سکتے

(کتاب گستاخان رسول کا عملی بائیکاٹ کیجیے ص30..35ملخصا)

یعنی دعوت اسلامی نے فتوی نمبر ایک پر عمل کیا ہے....لیھزا دعوت اسلامی کی پالیسی ذاتی رائے و مفاد پر مبنی نہیں بلکہ ایک فتوی پر مبنی ہے.......!!

لیھذا دعوت اسلامی قابل مذمت نہیں

.

جبکہ لبیک کے انداز سے لگتا ہے کہ واجب القتل ہونے کے معاملے میں فتوی نمبر ایک اور عام آدمی قتل کر سکتا ہے اس معاملے میں فتوی نمبر دو یا تین پے عمل پیرا ہیں کہ گستاخ توبہ کرے نہ کرے،  گستاخی ایک بار کرے یا بار بار کرے، قاضی حکم دے یا نہ دے ہر حال میں گستاخ کو قتل کیا جاسکتا ہے...

لیھذا لبیک قابل مذمت نہیں

.

 اس معاملے میں طاہر الکادری کی مذمت ہم اس لئے کرتے ہیں کہ وہ تضاد بیانی کی بنیاد پر اختلاف کرتا ہے، بظاہر ایجنٹی کی بنیاد پر اختلاف کرتا ہے ، یہاں بیٹھ کر کچھ کہتا ہے اور گوروں کے پاس جا کر کچھ کہتا ہے

.

طاہر الکادری کہتا ہے کہ غیرمسلم ممالک کے گستاخ اور گستاخانہ کارٹونز بنانے والوں پر اسلامی حکم یعنی سزاء موت لاگو نہین ہوگی...

.

جواب:

یہ فتوی اس کے ایجنٹ منافق گمراہ ہونے کی واضح  دلائل و شواہد میں سے ایک ہے کیونکہ ضدی عادی فسادی گستاخ کہیں بھی ہو، کسی بھی اسلامی غیراسلامی ملک ریاست میں ہو اسے قتل کیاجائے گا....اوپر بیان کردہ دلائل کے علاوہ بطور نمونہ دو واقعات، احادیث پیش ہیں

.

¹:مکہ جب الگ غیر اسلامی ریاست، الگ ملک کا درجہ رکھتا تھا وہاں مشھور گستاخ رہتے تھے جو اللہ رسول مسلمانوں کی توہین و گستاخیاں کرتے ، اشعار کہتے تھے... فتح مکہ کے دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہ فرمایا کہ یہ لوگ چونکہ غیراسلامی ملک کے گستاخ تھے اس لیے سزا نہیں...ایسا نبی پاک نے نہ فرمایا....بلکہ ان غیراسلامی ریاست ملک کے چند ضدی فسادی گستاخ باشندوں کے لیےحکم تھا کہ قتل کییے جائیں حتی کہ اتنا تک فرمایا کہ اگر کعبے کے پردوں میں لپٹا ہو تب بھی قتل کر دو

الحدیث:

جَاءَ رَجُلٌ فَقَالَ: إِنَّ ابْنَ خَطَلٍ مُتَعَلِّقٌ بِأَسْتَارِ الكَعْبَةِ فَقَالَ «اقْتُلُوهُ

ترجمہ:

ایک شخص نے نبی پاک سے عرض کی کہ ابن خطل(ضدی فسادی گستاخ) کعبے کے پردوں میں لپٹا ہوا ہے آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا اسے ہرحال میں قتل کر دو

[صحيح البخاري ,3/17حدیث1846]


.

²:اسی طرح خیبر یا حجاز الگ غیراسلامی ریاست و ملک کا درجہ رکھتا تھا وہاں بھی ایک یہودی ضدی فسادی گستاخ ابو رافع رہتا تھا...نبی پاک نے یہ نہ فرمایا کہ وہاں اسلامی شریعت نافز نہیں لیھذا گستاخ پے سزا نہیں، ایسا نہیں فرمایا بلکہ چند صحابہ کرام بھیجے تاکہ اسے چوری چھپے یا علی الاعلان یا کسی حیلے بہانے سے کسی بھی طرح قتل کر دیں

الحدیث:


البَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَبِي رَافِعٍ اليَهُودِيِّ رِجَالًا مِنَ الأَنْصَارِ، فَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَتِيكٍ، وَكَانَ أَبُو رَافِعٍ يُؤْذِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ ملخصا:

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چند انصار صحابہ کو خیبر بھیجا یہودی ابو رافع کو قتل کرنے کے لیے کیونکہ ابو رافع گستاخ رسول تھا، رسول کریم کو(زبان و کلام وغیرہ سے) اذیت پہنچاتا تھا

[صحيح البخاري ,5/91حدیث4039]

.


*#نوٹ*

اسلام کا اصل مقصد یہ ہے کہ ہدایت ملے لوگ نیک بنیں، اچھا معاشرہ تشکیل پائے....سزاؤں کا بھی یہی مقصد ہے کہ معاشرے کے لیے بھلائی ہو ، لوگ سزاؤں سے عبرت و نصیحت حاصل کریں ورنہ کم سے کم سزا کے خوف سے ہی جرم سے بچیں کہ معاشرہ کسی نہ کسی طرح اچھا بنے، بنا رہے

لیھذا

گستاخ غیرگستاخ سب کے لیے دعاءِ ہدایت کی دعا کرنی چاہیے،ابو جھل کا گستاخ و دشمن اسلام ہونا بچے بچے کو معلوم ہے اور سیدنا عمر مسلمان ہونے سے پہلے دشمنان اسلام میں شمار ہوتے تھے مگر نبی پاک نے ان کے لیے بھی ہدایت کی دعا کی

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «اللَّهُمَّ أَعِزَّ الإِسْلَامَ بِأَحَبِّ هَذَيْنِ الرَّجُلَيْنِ إِلَيْكَ بِأَبِي جَهْلٍ أَوْ بِعُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ»

ترجمہ:

بے شک رسول کریم نے فرمایا یا اللہ اسلام کو عزت عطا فرما ان دو لوگوں میں سے کسی ایک کو ہدایت دے کر جو تجھے زیادہ محبوب ہو، ابو جھل یا عمر بن خطاب

(سنن الترمذي ت شاكر ,5/617 حديث3681)

.

*#سوال_رواداری…؟؟*

اسلام اور پاکستان رواداری کا سبق دیتا ہے....برداشت امن و تحفظ کا درس دیتا ہے...گستاخی کے نام پے قتل روداری کے خلاف نہیں تو کیا ہے...؟ اظہارِ رائے کی آزادی کے خلاف نہیں تو اور کیا ہے............؟؟

.

جواب:

دیکھیں ایک حکومت زبردست موٹروے بناتی ہے اور اس پر  گاڑی چلانے کے مختلف اصول و پابندیاں طے کرتی ہے

مثلا:

①ٹول ٹیکس دینا ہوگا

②موٹروے کو واضح نقصاں نہیں پہنچانا ہوگا

③گاڑی 120 یا 130 فی گھنٹہ کی رفتار سے تیز نہیں چلانا ہوگا

④گاڑی اپنی سائیڈ پر چلانی ہوگی

⑤کسی اور موٹروے بنانے والوں کو دخل اندازی کی اجازت نہیں ہوگی....کسی اور موٹروے کے اصول یہاں زبردستی لاگو نہیں ہونگے....بلکہ اس موٹروے کے بانی.و.وارثان کے اصول و قوانین چلیں گے

.

ان پابندیوں کو سب برحق و بہتر سمجھتے ہیں، انہیں رواداری و آزادی کے خلاف نہیں سمجھتے.... ان اصول و پابندیوں کے توڑنے والے کو مجرم کہا جاتا ہے، اسے مختلف قسم کی سزائیں دی جاتی ہیں

اب اگر کوئی ٹول ٹیکس نہ دے یا رفتار بڑھا دے یا اپنی ساٹیڈ سے ہٹ کر گاڑی چلائے اور کہے کہ:

میری گاڑی میری مرضی........؟؟

کہے کہ:

میری ازادی میری مرضی....؟؟

کہے کہ:

مجھے اصول و پابندیاں منظور نہیں مگر گاڑی پھر بھی چلاوں گا اور حکومت کی پابندی و سزاوں کو رواداری آزادی کے خلاف کہے تو..........؟؟

اپنا ٹریکٹر موٹروے پر ہل سمیت کھروچتا ہوا نقصان پنچاتا ہوا چلائے اور کہے کہ میرا ٹریکٹر میری مرضی.....؟ میری ازادی رواداری میری مرضی............؟؟

کہے کہ:

موٹروے پر پابندیاں لگانے والے بانی و وارثان کی ایسی تیسی تو.....؟؟


.

ایسا کرنے والے کو حکومت اور معاشرہ کیا کہے گا......؟

اس کے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے گا....؟

کیا اسے ایسی حرکات کی اجازت ہوگی....؟؟

کیا اسے ایسی ناحق و نقصان دہ آزادی دی جائے گی.......؟؟

کیا اسے موٹروے بنانے والے کی گستاخی کی اجازت دے جائے گی.........؟؟

یقینا نہیں......ہرگز نہیں

.

اسی طرح ملک پاکستان بلکہ پوری دنیا اسلام کے لیے بنا ہے اس میں رہنا ہے تو اسلامی پابندیوں اصولوں پر چلنا ہوگا.......میری مرضی  میری آزادی نہیں کہنا ہوگا.... شراب جوا سود فحاشی زنا گستاخی کو فروغ نہیں دینا ہوگا.... بانییان اسلام محافظان اسلام کی گستاخی نہیں کرنی ہوگی.... میرا جسم میری مرضی نہیں کہنا ہوگا....میرا جسم میری مرضی کہہ کر فحاشی پھیلانے اسلامی معاشرہ بگاڑنے کی اجازت نہیں ہوگی

.

میری زبان، میرا دماغ، میری آزادی میری مرضی  کہہ کر گستاخی و بدعقیدگی ، جوا زنا فحاشی، سیکیولر ازم، مغربیت و الحاد وغیرہ غیراسلامی تہذیب و افکار پھیلانے، اسلامی معاشرے کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں ہوگی... یہی رواداری ہے یہی پابند شدہ ازادی برحق ہے

.

یہ اسلامی اصول پابندیاں "رواداری و آزادی" کے خلاف نہیں

بلکہ یہی برحق و بہتر رواداری و مفید آزادی ہے......جس میں معاشری کی بھلائی ہے، انفرادی بھلائی بھی ہے اور خالق و بانیان سے وفاداری و اطاعت بھی ہے

.

اگر ہیں منظور اسلامی پابندیاں تو رہو اس ملک و دنیا میں

اور

اگر پابندیاں نہیں منظور تو اس موٹروے اس اسلامی ملک و دنیا سے آپ کو دور جانا ہوگا........ورنہ اصول و پابندیوں کی خلاف ورزی پر سزاء ہوگی، سختی ہوگی، آپ کو مجرم و غدار کہا جائے گا، اپ کی مذمت کی جائے گی....کسی اور ملک کو اجازت نہیں ہوگی کہ وہ اس موٹروے پر ایسا کراوئے، جراءم کرائے... معاشرہ بگڑوائے اور اسے انسانی حقوق و ازادی کا نام دے.....ایسا کرنے کی ہرگز اجازت نہیں ہوگی....یہ غداری و ظلم ہے، دوسروں کی حق تلفی ہے...یہی برحق و لازم ہے...

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App,twitter nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.