*جشن مولود کعبہ بہت بہت مبارک مگر یاد رہے کہ سیدنا علی کی طرح سیدنا حکیم بھی مولود کعبہ ہیں اور اہم نوٹ پڑہیے گا اور حیدر کرار شیر خدا سیدنا علی المرتضی کے بعض خصوصی فضائل و دو چار اہم اقوال ملاحظہ کیجیے.....!!*
تمھید:
سارے صحابہ کرام و اہلبیت عظام کی فضیلت و عظمت ثابت ہے البتہ سیدنا ابوبکر سیدنا عمر سیدنا عثمان و دیگر بعض صحابہ کرام و اہلبیت عظام و ازواج مطھرات کی خصوصی فضائل بھی آئے ہیں، سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے بعض فضائل ایسے ہیں کہ وہ دوسروں کے لئے بھی آئے ہیں ان کو چھوڑ کر ہم وہ فضائل لکھ رہے ہیں کہ جو خصوصی طور پر سیدنا علی کے لیے اس طرز پر آئے ہیں کہ دوسروں کے لیے نہیں آئے...کچھ ملاحظہ کیجیے
روایت:
عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ : أَقْرَؤُنَا أُبَيٌّ، وَأَقْضَانَا عَلِيٌّ
سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ قراءت کے معاملے میں سب سے بڑھ کر سیدنا ابی ہیں اور ہم سب میں سب سے قضاء کے معاملے میں بڑھ کر سیدنا علی ہیں
(بخاری روایت4481)
شاید یہی وجہ ہے کہ خلفائے راشدین بھی مشکل و اہم مسائل میں دیگر صحابہ کے ساتھ ساتھ اکثر خصوصی طور پر سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ سے مشورہ کیا کرتے تھے.....شاید اس لیے سیدنا علی کو مشکل کشا کہا جاتا ہے.
.
لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ ". أَوْ قَالَ : " لَيَأْخُذَنَّ غَدًا رَجُلٌ يُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ ". أَوْ قَالَ : " يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَيْهِ ". فَإِذَا نَحْنُ بِعَلِيٍّ وَمَا نَرْجُوهُ، فَقَالُوا : هَذَا عَلِيٌّ. فَأَعْطَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَفَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کل جھنڈا میں اس کو دوں گا کہ جس سے اللہ تعالی اور اس کے رسول محبت کرتے ہیں یا فرمایا کہ اللہ تعالی اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں(باقیوں سے بھی اللہ و رسول محبت کرتے ہیں اور باقی بھی اللہ و رسول سے محبت کرتے ہیں) مگر اللہ تعالی اس کی (خصوصی شان کی)وجہ سے فتح عطا فرمائے گا... پھر رسول کریم نے جھنڈا سیدنا مولا علی کو دیا اور اللہ تعالی نےمولا علی کے ذریعے فتح عطاء فرمائی
(بخاری حدیث2975)
.
دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا، وَفَاطِمَةَ، وَحَسَنًا، وَحُسَيْنًا، فَقَالَ : " اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلِي
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی سیدہ فاطمہ سیدنا حسن سیدنا حسین کو جمع فرمایا اور فرمایا کہ یا اللہ یہ میرے(خصوصی) اہل بیت ہیں
(ترمذی حدیث3724)
بے شک نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کافی ہیں لیکن ان پانچ کو خصوصی طور پر جمع کرنا اور ان کے لیے دعا کرنا ان کی خصوصی فضیلت کو ظاہر کرتا ہے
.
خَلَّفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، تُخَلِّفُنِي فِي النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ ؟ فَقَالَ : " أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى ؟ غَيْرَ أَنَّهُ لَا نَبِيَّ
غزوہ تبوک کے موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا جانشین سیدنا علی کو بنایا تو سیدنا علی نے عرض کی کہ مجھے آپ عورتوں اور بچوں پر جانشین بنا رہے ہیں تو حضور نے فرمایا کہ کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تم ایسے ہو جیسے سیدنا ہارون کی نسبت موسی علیہ السّلام سے تھی سوائے اس کے کہ نبوت مجھ پر ختم ہو چکی ہے
(بخاری حدیث2404)
.
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نبی کے ساتھ حضرت علی کو تشبیہ دی جو کہ عظیم فضیلت کی دلیل ہے، اور ایسی تشبیہ کسی اور کے لئے ارشاد نہ فرمائی... لیکن اس تشبیہ سے خلیفہ ہونا ثابت نہیں ہوتا... کیوں کہ سیدنا ہارون علیہ السلام صرف عارضی طور پر نبی پاک کی زندگی میں ہی خلیفہ ہوئے تھے نبی پاک کی زندگی کے بعد خلیفہ نہیں ہوئے تھے نیز رسول کریم نے سیدنا علی کے علاوہ دوسرے صحابہ کرام کو بھی اپنا خلیفہ بنایا ہے.....مثلا
.
فمثلا عند خروج الرسول صلّى الله عليه وسلم في غزوة الأبواء- ودان- في ربيع الأول (سنة ٢ هـ) استخلف على المدينة سعد بن عبادة وفي غزوة بواط في نفس الشهر استخلف سعد بن معاذ وفي خروجه لمطاردة كرز بن جابر الفهري في نفس الشهر استخلف زيد بن حارثة وفي غزوة ذات العشيرة استخلف أبا سلمة بن عبد الأسد
مثال کے طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا سعد بن عبادہ کو خلیفہ بنایا... اور ایک موقع پر سیدنا سعد بن معاذ کو خلیفہ بنایا اور ایک موقع پر سیدنا زید بن حارثہ کو خلیفہ بنایا اور ایک موقع پر سیدنا ابو سلمہ کو خلیفہ بنایا
( السيرة النبوية والتاريخ الإسلامي ص152)
.
بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَيْشًا فِيهِمْ عَلِيٌّ، قَالَتْ : فَسَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ رَافِعٌ يَدَيْهِ يَقُولُ : " اللَّهُمَّ لَا تُمِتْنِي حَتَّى تُرِيَنِي عَلِيًّا
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا اور ہاتھ اٹھائے ہوئے دعا فرما رہے تھے یا اللہ عزوجل مجھے اس وقت تک وفات نہ دینا جب تک کہ علی کو نہ دیکھ لو
(ترمذی حدیث3737)
ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا علی ان خصوصی صحابہ و اہلبیت میں سے ہیں جن کے ساتھ رسول کریم کی خصوصی محبت تھی کہ ان کے لیے فرمایا کہ انہیں دیکھے بغیر وفات نہ آئے،ایسا کلام و لطف و عنایت و خصوصیت کسی اور کے لیے نہیں فرمائی
.
مختلف احادیث مبارکہ کو جمع کرنے سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑوں میں سے سب سے زیادہ محبوب سیدنا ابوبکرصدیق تھے اور ازواج مطہرات میں سب سے زیادہ محبوب سیدہ خدیجہ تھیں اور موجودہ ازواج مطہرات میں سیدہ عائشہ سب سے زیادہ محبوب تھیں اور نوجوانوں میں سب سے زیادہ محبوب سیدناعلی تھے اور موجودہ اولاد میں سب سے زیادہ محبوب سیدہ فاطمہ تھیں....سیدہ فاطمہ کے لیے قریش کے بڑے بڑے سرداروں نے بڑے بڑے اشرف نے رشتے بھیجے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حکم سے یہ رشتہ سیدنا علی سے کرایا جو کہ سیدنا علی کی خصوصیت و فضیلت ہے
أنه صلى الله عليه وسلم قال: (إن الله تعالى أمرني أن أزوج فاطمة من علي) .رواه الطبراني ورجاله ثقات
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالی نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں فاطمہ کا نکاح علی سے کر دوں... اس کو طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں
( كتاب اتحاف السائل بما لفاطمة من المناقب والفضائل ص34)
.
رَأَيْتُ عَلِيًّا يُضَحِّي بِكَبْشَيْنِ، فَقُلْتُ لَهُ : مَا هَذَا ؟ فَقَالَ : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْصَانِي أَنْ أُضَحِّيَ عَنْهُ، فَأَنَا أُضَحِّي عَنْهُ
سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے دو مینڈھوں کی قربانی کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وصیت کی ہے کہ میں ان کی طرف سے قربانی کیا کروں تو میں ان کی طرف سے قربانی کیا کروں گا
(ابوداود حدیث2790)
یہ خصوصی فضیلت اور عنایت ہے سیدنا علی کے لیے کہ آپ نے ان کو وصیت فرمائی... اس کے علاوہ اگر کوئی وصیت ہوتی تو سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ منظر عام پر لاتے لہذا باطلوں کی طرف سے جو اعتراضات کیے جاتے ہیں کہ دوسری کوئی وصیت تھی وہ سب جھوٹ ہے
.
بعض کتب میں لکھا ہے کہ صحابی سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کعبہ میں پیدا ہوئے اس کے علاوہ کوئی پیدا نہیں ہوا... بعض کتب میں لکھا ہے کہ صحابی سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ تعالی عنہ ہی کعبہ میں پیدا ہوئے اس کے علاوہ کوئی پیدا نہیں ہوا... بعض کتب میں ہے کہ دونوں ہستیاں کعبہ میں پیدا ہوئیں...ہمیں یہ تیسرا قول قوی ترین لگتا ہے...میرے مطابق بہتر ہے دونوں ہستیوں کا اکھٹے تذکرہ کیا جائے کہ دونوں کعبہ میں پیدا ہوئے تاکہ حق سچ واضح ہو اور سیدنا علی و سیدنا حکیم بن حزام کی فضیلت بھی ثابت ہو مگر شیعہ روافض نیم روافض کے مرچ مسالے افضلیت و سیدنا عیسی علیہ السلام سے تقابل اور وحی وغیرہ کی باتوں جھوٹے قصوں کا رد بھی ہو... مثلا یو ں لکھا جائے کہ
.
اندازےکےمطابق 13رجب سیدنا مولا علی کعبہ شریف میں پیدا ہوئے،جشن مولود کعبہ بہت بہت مبارک مگر یاد رہے صحابی سیدنا حکیم بھی کعبہ شریف میں پیدا ہوئے(از اخبار مکہ3/198تحفہ اثناعشریہ164,166
.
میری معلومات کے مطابق سب سے قوی ترین دلیل اور حوالہ یہ ہے:
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَبِي يُوسُفَ، قَالَ: ثنا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَطَاءَ بْنَ أَبِي رَبَاحٍ، رَضِيَ اللهُ عَنْهُ يَقُولُ: سَمِعْتُ عُبَيْدَ بْنَ عُمَيْرٍ، يَقُولُ: " سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، رَضِيَ اللهُ عَنْهُ....وَأَوَّلُ مَنْ وُلِدَ فِي الْكَعْبَةِ: حَكِيمُ بْنُ حِزَامٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ.... وَأَوَّلُ مَنْ وُلِدَ فِي الْكَعْبَةِ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ: عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے جو کعبہ میں پیدا ہوا وہ حکیم بن حزام رضی اللہ تعالی عنہ ہیں اور بنو ہاشم میں سے جو سب سے پہلے کعبہ میں پیدا ہوا وہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ ہیں
(أخبار مكة للفاكهي ,3/198روایت2018ملتقطا)
.
أقول لا مانع من ولادة كليهما فى الكعبة المشرّفة
تاریخ الخمیس کے مصنف کہتے ہیں کہ میں کہتا ہوں کہ سیدنا علی اور سیدنا حکیم بن حزام دونوں کا کعبہ مشرفہ میں پیدا ہونے کی نفی کی کوئی وجہ و دلیل نہیں ہے
(تاريخ الخميس في أحوال أنفس النفيس1/279)
.
تیرہ رجب کو جشن مولود کعبہ یعنی سیدنا علی کے کعبہ میں ولادت ہونے کا دن منایا جاتا ہے.. جشن مولود کعبہ بہت بہت مبارک ہو مگر یاد رہے سیدنا حکیم بن حزام بھی کعبہ میں پیدا ہوئے
لیکن
میرے مطابق ساتھ ساتھ یہ بھی بیان کرنا چاہئے اس سے افضلیت اور سیدنا عیسی علیہ السلام سے تقابل اور وحی وغیرہ کے جو نکات نکالے جاتے ہیں وہ ٹھیک نہیں ہیں کیونکہ قران و سنت سے ثابت ہے کہ انبیاء کرام افضل ہیں کسی صحابی یا اہلبیت کا کسی نبی پاک سے تقابل ٹھیک نہیں، اور سیدنا حکیم بن حزام بھی کعبہ میں پیدا ہوئے...رضی اللہ تعالیٰ عنھم....اور جشن ولادت منانے کے جائز طریقوں سے منانا چاہیے کفار مشرکین اور شیعہ مکار روافض نیم روافض سے مشابہت نہیں کرنی چاہیے...ہرگز نہیں.........!!
مثلا یوں لکھا جائے کہا جائے کہ
.
اندازےکےمطابق 13رجب سیدنا مولا علی کعبہ شریف میں پیدا ہوئے،جشن مولود کعبہ بہت بہت مبارک مگر یاد رہے صحابی سیدنا حکیم بھی کعبہ شریف میں پیدا ہوئے(از اخبار مکہ3/198تحفہ اثناعشریہ164,166
.
*#اہم_نوٹ*
شاید اہلسنت علماء کرام مفتیان عظام مشائخ عظام میں سے کسی کا موقف ہو کہ سیدنا علی کا مولود کعبہ ہونا ثابت نہیں کہ انکے مطابق صحیح روایات میں ولادت مولا علی کی جگہ کعبہ کے بجائے کوئی لکھی ہے یا شاید بعض فرماءیں کہ جشن مولود کعبہ منانا شیعہ سے مشابہت ہے یا باطل نظریات پھیلنے کا خطرہ ہے اس لیے وہ مولود کعبہ یا جشن کی نفی کریں، روکیں یا خاموشی کریں یا صرف اتنا لکھیں کہ ولادت سیدنا علی المرتضی مبارک ہو یا فقط شان مولا علی صحیح روایت سے بیان کریں اور اس قسم کا حکم و فتوی دیں...تو اس قسم کی کوئی اہلسنت مفتیان کرام علماء و مشائخ عظام میں سے کسی کی وال پے دیکھیں یا تیرہ رجب کو انکی وال پے کچھ بھی نہ دیکھیں یا نفی و تردید دیکھیں تو بدگمانی ہر گز ہرگز نہ کریں.....اہلسنت مفتیان کرام علماء و مشائخ عظام وسیع نظر و تجربہ رکھتے ہیں، ضرور انکی نظر میں کوئی اصلاحی پہلو ہوگا وگرنہ ان میں سے ہر ایک بلکہ ہر اصلی سنی سچا محب علی ہے، سچا محب صحابہ ہے، سچا محب اہلبیت ہے
.
*سیدنا علی المرتضی کے دو چار اہم اقوال......!!*
اجتہادی اختلاف محبت کے منافی نہیں اور بغض و منافقت و نفرت بھی نہیں لیھذا سیدہ عائشہ ، سیدنا معاویہ ، سیدنا طلحہ وغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین کا سیدنا علی ، سیدنا حسن ، سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین سے جو اختلاف ہوا وہ اجتہادی تھا جوکہ محبت کے منافی نہیں، بغض و منافقت و نفرت نہیں...ہرگز نہیں.......!!
.
سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
والظاهر أن ربنا واحد ونبينا واحد، ودعوتنا في الاسلام واحدة. لا نستزيدهم في الإيمان بالله والتصديق برسوله صلى الله عليه وآله ولا يستزيدوننا. الأمر واحد إلا ما اختلفنا فيه من دم عثمان
یہ بات بالکل واضح ہے ظاہر ہے کہ ان(سیدنا معاویہ سیدہ عائشہ وغیرہ)کا اور ہمارا رب ایک ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہے، انکی اور ہماری اسلامی دعوت و تبلیغ ایک ہے، ہم ان کو اللہ پر ایمان رسول کریم کی تصدیق کے معاملے میں زیادہ نہیں کرتے اور وہ ہمیں زیادہ نہیں کرتے...ہمارا سب کچھ ایک ہی تو ہے بس صرف سیدنا عثمان کے قصاص کے معاملے میں اختلاف ہے
(شیعہ کتاب نہج البلاغۃ3/114)
ثابت ہوا کہ سیدنا علی کا ایمان سیدنا معاویہ کا ایمان سیدنا معاویہ کا اسلام سیدنا علی کا اسلام اہل بیت کا اسلام صحابہ کرام کا اسلام قرآن و حدیث سب کے سب معاملات میں متفق ہی تھے،سیدنا علی و سیدنا معاویہ وغیرہ سب کے مطابق قرآن و حدیث میں کوئی کمی بیشی نہ تھی....پھر کالے مکار بے وفا ایجنٹ غالی جھوٹے شیعوں نے الگ سے حدیثیں بنا لیں، قصے بنا لیے،الگ سے فقہ بنالی، کفریہ شرکیہ گمراہیہ نظریات و عمل پھیلائے، سیدنا علی و معاویہ وغیرہ صحابہ کرام و اہلبیت عظام کے اختلاف کو دشمنی منافقت کفر کا رنگ دے دیا...انا للہ و انا الیہ راجعون
.
عن علي عليه السلام أنه سئل عن قتلى الجمل أمشركون هم؟
قال: لا بل من الشرك فروا، قيل: فمنافقون، قال: لا ان المنافقين لا يذكرون الله الا قليلا: قيل: فما هم؟ قال: إخواننا بنوا علينا....ان عليا عليه السلام لم يكن ينسب أحدا من اهل حربه إلى الشرك ولا إلى النفاق ولكن (ولكنه كان - خ) يقول هم إخواننا بغوا علينا....ان عليا عليه السلام كان يقول لأهل حربه انا لم نقاتلهم على التكفير لهم ولم نقاتلهم على التكفير لنا ولكنا رأينا انا على حق ورأوا انهم على حق
سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ سے سوال کیا گیا کہ جنگ جمل کے ہمارے مخالفین صحابہ کیا مشرک و کافر ہیں سیدنا علی نے فرمایا نہیں تو انہوں نے کہا کہ کیا پھر وہ منافق(ظالم غاصب مرتد) ہیں...؟؟ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا نہیں... انہوں نے کہا کہ پھر وہ کیا ہیں؟ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا وہ تو ہمارے بھائی ہیں جنہوں نے(اجتہادی) بغاوت کی ہے... سیدنا علی اپنے مخالفین جو جنگ کرتے تھے جنگ جمل اور جنگ صفین ان تمام صحابہ کرام کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ وہ نہ تو منافق ہیں نہ مشرک ہیں ، فرمایا کرتے تھے ہم ان سے جنگ کفر(منافقت) کی بنیاد پر نہیں کرتے بلکہ اس بنیاد پر جنگ کی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ درستگی پر ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہم درستگی پر ہیں...(شیعہ کتاب جامع أحاديث الشيعة 141 16/126)
.
صحابہ کرام اہلبیت عظام کی محبت میں غلو مبالغہ آرائی ہر گز نہیں کرنی چاہیے،کئ یا اکثر یا کٹر شیعہ اہلبیت کی محبت میں غلو(حد سے تجاوز) کرتے ہیں جوکہ کبھی کفر تو کبھی گمراہی تو کبھی گناہ کی حد تک چلا جاتا ہے...
.
سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
هلك في رجلان: محب غال ومبغض
سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے ارشاد فرمایا کہ میرے متعلق دو قسم کے لوگ ہلاکت میں ہیں ایک وہ جو مجھ سے حد سے زیادہ محبت کریں، ایک وہ جو مجھ سے بغض کریں
(شیعہ کتاب نہج البلاغۃ4/108)
.
شیعہ کتب میں ہے کہ
صنفان من أمتي لا نصيب لهما في الاسلام: الغلاة والقدرية....إياكم والغلو فينا،
غلو کرنے والے اور قدری (کافر فاجر بدمذہب ہیں انکا)دین اسلام میں کوئی حصہ نہیں....ہم اہلبیت کی تعریف میں غلو مبالغہ آرائی سے بچو(شیعہ کتاب بحارالانوار25/270ملتقطا)
.
لعن الله الغلاة....الغلاة كفار، والمفوضة مشركون، من جالسهم أو خالطهم أو واكلهم أو شاربهم أو واصلهم أ وزوجهم أو تزوج إليهم أو أمنهم أو ائتمنهم على أمانة أو صدق حديثهم أو أعانهم بشطر كلمة خرج من ولاية الله عز وجل وولاية الرسول صلى الله عليه وآله و ولايتنا أهل البيت
خلاصہ:
غلو کرنے والے حد سےبڑھنےوالے لعنتی و کافر ہیں…ان سےقطع تعلق(بائیکاٹ)کرو، انکےساتھ نہ کھاؤ ، نہ پیو، نہ میل جول رکھو،نہ شادی بیاہ کرو، نہ انہیں سچا سمجھو، نہ انکی کسی بھی طرح کی مدد کرو...(شیعہ کتاب بحارالانوار25/273ملخصا)
.
الحدیث:
إِيَّاكُمْ وَالْغُلُوَّ فِي الدِّينِ
خبردار دین میں(اور دینداروں کی محبت تعریف یا مخالف پر تنقید وغیرہ ہر معاملےمیں)خود کو غلو(مبالغہ آرائی،حد سےتجاوز کرنے) سےدور رکھو(ابن ماجہ حدیث3029شیعہ کتاب منتہی المطلب2/729)
.
الحدیث:
قولوا بقولكم، أو بعض قولكم، ولا يستجرينكم الشيطان
ترجمہ:
(نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم میں کچھ الفاظ کہے گئے تھے تو اس پر آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ)
تعظیم کے الفاظ کہو یا بعض الفاظ کہو لیکن خیال رہے کہ شیطان تمھیں جری نا بنا دے(یعنی شیطان تمھیں تعظیم میں حد سے بڑھنے والا،غلو کرنے والا بےباک نا بنا دے)
(ابو داؤد حدیث نمبر4806)
.
جسکو اللہ نے عزت و عظمت دی ہے اسکی عزت تعظیم.و.قدر کرنی چاہیے مگر حد میں رہتے ہوئے.....!! نجدی خارجی لوگ توحید اور اللہ کی شان بیان کرنے کی آڑ میں انبیاء کرام اولیاء کرام کی توہین و تنقیص کرتے ہیں، عام آدمی کہتے لکھتے ہیں، محتاج و بےبس ظاہر کرتے ہیں، غیر اللہ کی تعظیم کو مطلقا شرک و بدعت شرک و بدعت کہتے ہیں وہ ٹھیک نہیں...ہرگز نہیں.......کم سے کم گمراہ تو ضرور ہیں بلکہ کبھی توہین کفر بھی ہوجاتی ہے....اسی طرح بعض اہلسنت و اکثر شیعہ میں سے وہ جاہل ، کم علم ، بےاحتیاطی و غلو کرنے والے حضرات بھی ٹھیک نہیں جو انبیاء کرام علیھم السلام،صحابہ کرام اہلبیت کرام علیھم الرضوان اور اولیاء کرام کی تعظیم میں حد سے بڑھ جائیں، انہیں سجدے کرتے پھریں،انکی منتیں مانگتے پھریں، تعزیے نوحے ماتم کرتے پھریں.......!!
لیکن
یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ تعظیم میں بڑھ جانا کبھی مکروہ ہوتا ہے کبھی گناہ اور کبھی گمراہی اور کبھی کفر و شرک، لیھذا ذرا ذرا سی بات پر شرک کفر، شرک کفر کے فتوے لگانے والے فسادی ہیں.........!!
جب
اہلبیت و صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین اور انبیاء کرام علیہم الصلاۃ و السلام حتی کہ سیدالانبیاء فداہ روحی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں احتیاط و سچائی لازم تو پھر امتی یعنی علماء مشائخ صوفیاء مرشد استاد سادات شہداء وغیرہ کی تعریف و شان بیان کرنے میں بھی اسلامی حد، احتیاط و سچائی بدرجہ اولی لازم ہے.......!!
.
شیعہ اپنی طرف سے احادیث روایات اقوال قصے کہانیاں بنا کر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم و اہلبیت کی طرف منسوب کرتے ہیں جوکہ بعض اوقات کفر ورنہ گمراہی و گناہ ہے
لعنهم الله قد وضعوا أخبارا
اللہ کی لعنت ہو مفوضہ(شیعوں کے ایک فرقے پر) جنہوں نے
جھوٹی روایات(من گھڑت احادیث اقوال قصے)گھڑ لی ہیں
(شیعہ کتاب من لا يحضره الفقيه - الشيخ الصدوق1/290)
(شیعہ کتاب وسائل الشيعة - الحر العاملي5/422)
.
الناس ﺃﻭﻟﻌﻮﺍ ﺑﺎﻟﻜﺬﺏ ﻋﻠﻴﻨﺎ
امام جعفر صادق فرماتے ہیں کہ لوگ(شیعہ) جو(بظاہر)ہم اہلبیت کے محب کہلاتے ہیں انہوں نے اپنی طرف سے باتیں، حدیثیں اقوال قصے گھڑ لی ہیں اور ہم اہلبیت کی طرف منسوب کر دی ہیں جوکہ جھوٹ ہیں(شیعہ کتاب رجال کشی ﺹ135, 195،شیعہ کتاب بحار الانوار 2/246,....2/250)
لیھذا
شیعہ کی بیان کردہ روایات احادیث قصے وہی معتبر ہیں جو قرآن و سنت و مستند تاریخ کے موافق ہوں ورنہ جھوٹ و غیرمقبول کہلائیں گے
.
بأصحاب نبيكم لا تسبوهم الذين لم يحدثوا بعده حدثا ولم يؤووا محدثا، فإن رسول الله (صلى الله عليه وآله) أوصى بهم
ترجمہ:
حضرت علی وصیت و نصیحت فرماتے ہیں کہ تمھارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے متعلق میں تمھیں نصیحت و وصیت کرتا ہوں کہ انکی برائی نہ کرنا ، گالی لعن طعن نہ کرنا(کفر منافقت تو دور کی بات) انہوں نے نہ کوئی بدعت نکالی نہ بدعتی کو جگہ دی،بےشک رسول کریم نے بھی صحابہ کرام کے متعلق ایسی نصیحت و وصیت کی ہے.(شیعہ کتاب بحار الانوار22/306)
.
حضرت علی رض اللہ عنہ نے شیعوں سے فرمایا:
رأيت أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم فما أرى أحداً يشبههم منكم لقد كانوا يصبحون شعثاً غبراً وقد باتوا سجداً وقياماً
ترجمہ:
میں(علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ)نے اصحاب محمد یعنی صحابہ کرام(صلی اللہ علیہ وسلم، و رضی اللہ عنھم) کو دیکھا ہے، وہ بہت عجر و انکساری والے، بہت نیک و عبادت گذار تھے(فاسق فاجر ظالم غاصب نہ تھے)تم(شیعوں)میں سے کوئی بھی انکی مثل نہیں...(تمام شیعوں کے مطابق صحیح و معتبر ترین کتاب نہج البلاغہ ص181)
.
قال: وأخرج عن جعفر أيضا أنه قيل له: إن فلانا يزعم أنك تتبرأ من أبي بكر وعمر فقال برء الله من فلان إني لأرجو أن ينفعني الله بقرابتي من أبي بكر
ایک شخص نے کہا امام جعفرصادق سے کہ فلاں آدمی سمجھتا ہے کہ آپ ابو بکر اور عمر سے براءت کرتے ہیں جس پر امام جعفر صادق نے فرمایا کہ (جس نے میرے متعلق کہا ہے کہ براءت کرتا ہوں)اللہ اس سے بری ذمہ ہے(میں براءت نہیں کرتا توہین تنقیص فاسق فاجر ظالم غاصب وغیرہ نہیں سمجھتا بلکہ ایسا اللہ کا پیارا محبوب ولی عظیم الشان صحابی سمجھتا ہوں کہ)بے شک مجھےامید ہےاللہ مجھے نفع دیگا(سیدنا)ابوبکر کےساتھ میری قرابت اور رشتہ داری کی وجہ سے
(شیعہ کتاب الصوارم المھرقہ ص246)
(شیعہ کتاب الإمام جعفر الصادق ص178)
.
سیدنا علی فرماتے ہیں
إنه بايعني القوم الذين بايعوا أبا بكر وعمر وعثمان على ما بايعوهم عليه، فلم يكن للشاهد أن يختار ولا للغائب أن يرد، وإنما الشورى للمهاجرين والأنصار، فإن اجتمعوا على رجل وسموه إماما كان ذلك لله رضى
میری(سیدنا علی کی)بیعت ان صحابہ کرام نے کی ہےجنہوں نےابوبکر و عمر کی کی تھی،یہ مہاجرین و انصار صحابہ کرام کسی کی بیعت کرلیں تو اللہ بھی راضی ہے(اور وہ خلیفہ برحق کہلائے گا) تو ایسی بیعت ہو جائے تو دوسرا خلیفہ انتخاب کرنے یا تسلیم نہ کرنے کا حق نہیں(شیعہ کتاب نہج البلاغۃ ص491)
سیدنا علی کےاس فرمان سے ثابت ہوتا ہے کہ
①خلافت سیدنا علی کے لیے نبی پاک نے مقرر نہ فرمائی تبھی تو سیدنا علی نے صحابہ کرام کی شوری کو اللہ کی رضا و پسند فرمایا
سیدنا علی کےاس فرمان سے ثابت ہوتا ہے کہ
②سیدنا ابوبکر و عمر و عثمان کی خلافت برحق تھی، دما دم مست قلندر سیدنا علی دا چوتھا نمبر
سیدنا علی کےاس فرمان سے ثابت ہوتا ہے کہ
③صحابہ کرام ایمان والے تھے کافر فاسق ظالم نہ تھے ورنہ سیدنا علی انکی مشاورت و ھکم کو برحق نہ کہتے
رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین
.
شیعوں کی معتبر ترین کتاب نہج البلاغۃ میں سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حکم موجود ہے کہ:
ومن كلام له عليه السلام وقد سمع قوما من أصحابه يسبون أهل الشام أيام حربهم بصفين إني أكره لكم أن تكونوا سبابين، ولكنكم لو وصفتم أعمالهم وذكرتم حالهم كان أصوب في القول
ترجمہ:ترجمہ:
جنگ صفین کے موقعے پر اصحابِ علی میں سے ایک قوم اہل الشام (سیدنا معاویہ سیدہ عائشہ وغیرھما رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین) کو برا کہہ رہے تھے، لعن طعن کر رہے تھے
تو
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا:
تمہارا (اہل شام، معاویہ ، عائشہ صحابہ وغیرہ کو) برا کہنا لعن طعن کرنا مجھے سخت ناپسند ہے ، درست یہ ہے تم ان کے اعمال کی صفت بیان کرو...(شیعہ کتاب نہج البلاغۃ ص437)
.
ثابت ہوا سیدنا معاویہ سیدہ عائشہ وغیرہ صحابہ کرام کی تعریف و توصیف کی جائے، شان بیان کی جائے....یہی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو پسند ہے....ثابت ہوا کہ سیدنا معاویہ سیدہ عائشہ وغیرہھما صحابہ کرام پر لعن طعن گالی و مذمت کرنے والے شیعہ ذاکرین ماکرین رافضی نیم راضی محبانِ اہلِ بیت نہیں بلکہ نافرمان و مردود ہیں،انکےکردار کرتوت حضرت علی کو ناپسند ہیں..سخت ناپسند
.
ان عليا لم يكن ينسب أحدا من أهل حربه إلى الشرك ولا إلى النفاق ولكنه كان يقول: هم إخواننا بغوا علينا
ترجمہ:
بےشک سیدنا علی اپنےاہل حرب(سیدنا معاویہ،سیدہ عائشہ اور انکےگروہ)کو نہ تو مشرک کہتےتھےنہ منافق…بلکہ فرمایا کرتےتھےکہ وہ سب ہمارےبھائی ہیں مگر(مجتہد)باغی ہیں(شیعہ کتاب بحارالانوار32/324)
(شیعہ کتاب وسائل الشیعۃ15/83)
(شیعہ کتاب قرب الاسناد ص94)
سیدنا ابوبکر و عمر، سیدنا معاویہ وغیرہ صحابہ کرام کو کھلےعام یا ڈھکے چھپے الفاظ میں منافق بلکہ کافر تک بکنے والے،توہین و گستاخی کرنےوالےرافضی نیم رافضی اپنےایمان کی فکر کریں…یہ محبانِ علی و اہلبیت نہیں بلکہ نافرمانِ علی ہیں،نافرمانِ اہلبیت ہیں
.
فنعى الوليد إليه معاوية فاسترجع الحسين...سیدنا حسین کو جب سیدنا معاویہ کی وفات کی خبر دی گئ تو آپ نےاِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ پڑھا…(شیعہ کتاب اعلام الوری طبرسی1/434) مسلمان کو کوئی مصیبت،دکھ ملےتو کہتے ہیں اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ(سورہ بقرہ156)ثابت ہوا سیدنا معاویہ امام حسین کے مطابق کافر ظالم منافق دشمن برے ہرگز نہ تھے جوکہ مکار فسادی نافرمان دشمنان اسلام گستاخانِ معاویہ کے منہ پر طمانچہ ہے
.
هذا ما صالح عليه الحسن بن علي بن أبي طالب معاوية بن أبي سفيان: صالحه على أن يسلم إليه ولاية أمر المسلمين، على أن يعمل فيهم بكتاب الله وسنة رسوله صلى الله عليه وآله وسيرة الخلفاء الصالحين
(شیعوں کے مطابق)امام حسن نے فرمایا یہ ہیں وہ شرائط جس پر میں معاویہ سے صلح کرتا ہوں، شرط یہ ہے کہ معاویہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ اور سیرتِ نیک خلفاء کے مطابق عمل پیرا رہیں گے
(شیعہ کتاب بحار الانوار جلد44 ص65)
سیدنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے "نیک خلفاء کی سیرت" فرمایا جبکہ اس وقت شیعہ کے مطابق فقط ایک خلیفہ برحق امام علی گذرے تھے لیکن سیدنا حسن "نیک خلفاء" جمع کا لفظ فرما رہے ہیں جسکا صاف مطلب ہے کہ سیدنا حسن کا وہی نظریہ تھا جو سچے اہلسنت کا ہے کہ سیدنا ابوبکر و عمر و عثمان و علی رضی اللہ عنھم خلفاء برحق ہیں تبھی تو سیدنا حسن نے جمع کا لفظ فرمایا...اگر شیعہ کا عقیدہ درست ہوتا تو "سیرت خلیفہ" واحد کا لفظ بولتے امام حسن....اور دوسری بات یہ بھی اہلسنت کی ثابت ہوئی کہ "قرآن و سنت" اولین ستون ہیں کہ ان پے عمل لازم ہے جبکہ شیعہ قرآن و سنت کے بجائے اکثر اپنی طرف سے اقوال گھڑ لیتے ہیں اور اہلبیت کی طرف منسوب کر دیتے ہیں،جیسے کہ اوپر شیعہ کتب سے حوالے لکھے.......!!
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
whats App,twitter nmbr
00923468392475
03468392475
other nmbr
03062524574