Labels

شب معراج کی تاریخ فضیلت عبادت شب بیداری؟ بدعت؟ چیلنج کا جواب؟

 *شب معراج کےروزے اور شب بیداری کی فضیلیت اور شب بیدراری کرنے کا طریقہ اور بدعت کی تفصیل اور اجتماع اور نوافل کی جماعت کی دلیل و حکم اور معراج کی تاریخ اور مکہ مدینہ میں شب معراج منائی جاتی تھی......!!*

سوال....!!

 کئ احباب ویڈیوز اور تصاویر بھیجیں جس میں دیوبندیوں وہابیوں غیرمقلدوں اہلحدیثوں کی طرف سے چیلنج و اعتراض کیا جا رہا ہے کہ شب معراج 27 رجب کو نہیں ہے، شب معراج کی تاریخ ثابت نہیں ہے، جب تاریخ ثابت نہیں تو شب معراج منانا کہاں سے ثابت ہو گیا یہ بدعت ہے

اور

یہی لوگ بلکہ کئ عوام کہتے ہیں کہ مکہ مدینہ میں شب معراج نہیں منائی جاتی تو ہم کیوں منائیں.....؟؟شب معراج کی شب بیداری اور روزہ رکھنا اور نفل کی جماعت کرانا کہاں سے ثابت ہے؟ بدعت کسے کہتے ہیں...؟؟

.

*جواب و تحقیق......!!*

شب بیداری کیسے کریں اور مسجد میں جمع ہوکر قرآن و حدیث فقہ وغیرہ کا درس سننا سنانا علم پڑھنا پڑھانا نوافل پڑھنا پڑھانا ذکر و اذکار کرنا ان سب کی اصل پے دو حدیثں ہم تحریر کے آخر میں لکھیں گے اور بدعت کی تعریف و تھوڑی تفصیل بھی لکھیں گے...پہلے شب معراج کی تاریخ اور مکہ مدینہ والوں کی شب بیداری کے حوالہ جات پڑہیے

*#پہلی_بات*

 تاریخ میں اگرچہ اختلاف ہے مگر قوی راجح مشھور تاریخ شب معراج 27رجب ہے، اسی پر نجدیوں کے قبضہ سے پہلے مسلمانوں اور بالخصوص مکہ مدینہ والوں کا عمل تھا، اسی رات شب بیداری کرتے تھے...چند حوالہ جات ملاحظہ کیجیے

.

1=دیوبندی اہلحدیث و اہلسنت سب کی معتبر شخصیت عبدالحق محدث دھلوی فرماتے ہیں:

والمشهور في السابعة والعشرين من رجب، وعليه عمل أهل المدينة

 مشہور بات ہے کہ شب معراج 27 رجب ہے اور اسی پر اہل مدینہ عمل ہے کہ عبادات(شب بیداری )کرتے ہیں

(عبد الحق الدِّهْلوي ,لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح ,9/376)

.


2=السابع والعشرين من رجب المعظم - وليلته كانت ليلة المعراج على المشهور من الأقوال

 اقوال میں سے زیادہ مشہور قول یہی ہے کہ 27 رجب شب معراج ہے

(كتاب مرآة الجنان وعبرة اليقظان3/344)


"3=وقيل: كان ليلة السابع والعشرين من رجب" وعليه عمل الناس، قال بعضهم: وهو الأقوى، فإن المسألة إذا كان فيها خلاف للسلف ولم يقم دليل على الترجيح واقترن العمل بأحد القولين أو الاقوال، وتلقى بالقبول فإن ذلك مما يغلب على الظن كونه راجحا

 اور ایک قول یہ ہے کہ شب معراج 27 رجب ہے اور اسی پر لوگوں کا عمل ہے کہ نیکیاں اور عبادات نوافل وغیرہ شب بیداری کرتے ہیں اور اور بعض علماء نے فرمایا ہے کہ یہی تاریخ قوی ترین تاریخ ہے… کیونکہ اسلاف میں جب کسی تاریخ میں اختلاف ہو اور اس میں اگر کسی ایک قول پر اسلاف کا عمل رہا ہوں اور انہوں نے اس قول کو قبول کر لیا ہو تو غالب گمان ہے کہ وہ تاریخ راجح ہے

(شرح الزرقاني على المواهب 2/71)

.

4=وكان الإسراء به صلّى الله عليه وسلّم والمعراج ليلة سبع وعشرين من رجب

 نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کرائی گئی 27 رجب کو

(كتاب نهاية الإيجاز في سيرة ساكن الحجاز1/138)

.

؛5= قَدِ اشْتَهَرَ بَيْنَ الْعَوَامِّ أَنَّ لَيْلَةَ السَّابِعِ وَالْعِشْرِينَ مِنْ رَجَبٍ هِيَ لَيْلَةُ الْمِعْرَاجِ النَّبَوِيِّ وَمَوْسِمُ الرَّجَبِيَّةِ مُتَعَارَفٌ فِي الْحَرَمَيْنِ الشَّرِيفَيْنِ يَأْتِي النَّاسُ فِي رَجَبٍ مِنْ بَلادٍ نَائِيَةٍ لِزِيَارَةِ الْقَبْرِ النَّبَوِيِّ فِي الْمَدِينَةِ وَيَجْتَمِعُونَ فِي اللَّيْلَةِ الْمَذْكُورَةِ، وَهُوَ أَمْرٌ مُخْتَلَفٌ فِيهِ بَيْنَ الْمُحَدِّثِينَ وَالْمُؤَرِّخِينَ فَقِيلَ كَانَ ذَلِكَ فِي رَبِيعٍ الأَوَّلِ، وَقِيلَ فِي رَبِيعٍ الآخِرَةِ، وَقِيلَ فِي ذِي الْحَجَّةِ وَقِيلَ فِي شَوَّالٍ، وَقِيلَ فِي رَمَضَانَ، وَقِيلَ فِي رَجَبٍ فِي لَيْلَةِ السَّابِعِ وَالْعِشْرِينَ وَقَوَّاهُ بَعْضُهُمْ

 مشہور اور متعارف ہے کہ مکہ اور مدینہ کے لوگ 27 رجب کو جمع ہوتے ہیں اور عبادات کرتے ہیں، زیارت  قبر نبوی کرتے ہیں اسی وجہ سے عوام میں مشہور ہے کہ رجب کی ستائیسویں شب شب معراج ہے اگرچہ شب معراج کی تاریخ میں اختلاف ہے بعض نے فرمایا ربیع الاول میں تھی بعض نے فرمایا ربیع الآخر ہے، بعض نے فرمایا ذوالحجہ، بعض نے فرمایا شوال ہے بعض نے رمضان کا کہا ، بعض نے 27 رجب کو شب معراج قرار دیا ہے اور بعض علماء نے اس کو قوی ترین قرار دیا ہے

(كتاب الآثار المرفوعة في الأخبار الموضوعة ص77)

.

6=ليْلَة الْإِسْرَاء إِلَى بَيت الْمُقَدّس بِمَكَّة بعد النُّبُوَّة بِعشر سِنِين وَثَلَاثَة أشهر لَيْلَة سبع وَعشْرين من رَجَب

 شب معراج 27 رجب ہے

(كتاب الإقناع في حل ألفاظ أبي شجاع2/556)


.

7=السابع والعشرين من رجب ليلة الإسراء والمعراج به- صلى الله عليه وسلم

شب معراج 27 رجب ہے

(المواهب اللدنية بالمنح المحمدية3/145)

.

8=السابع والعشرين من رجب، وكانت ليلة المعراج

 27 رجب اور یہ شب معراج ہے

(نزهة الأنظار في عجائب التواريخ والأخبار1/406)

.

9=السَّابِع وَالْعِشْرين من رَجَب...قلت: قَالَ ابْن خلكان وَلَيْلَته لَيْلَة الْمِعْرَاج

 27 رجب.... میں مصنف کہتا ہوں کہ ابن خلکان نے کہا ہے کہ یہ شب معراج تھی

(كتاب تاريخ ابن الوردي2/95)

.

10=السابع والعشرين من رجب، وليلته كانت ليلة المعراج

 27 رجب اور یہ شب معراج تھی

(كتاب وفيات الأعيان7/179)

.

11=قاضی سلیمان منصور پوری کو اہل حدیث کے علماء میں شمار کیا جاتا ہے اور دارالعلوم دیوبند کی ویب سائٹ میں اسے معتبر عالم کہا گیا ہے…انکا نظریہ تھا کہ:

وقال الزرقاني: إن الإمام ابن عبد البر والإمام ابن قتيبة الدينوري والإمام النووي (تبعا للرافعي) حددوا شهر رجب للمعراج.وقال الحافظ عبد الغني المقدسي (ت ٦٠٠ هـ) أن الراجح هو السابع والعشرين من رجب، وذكر أن الاتفاق عملا كان على ذلك دائما (٣).وخلاصة الأقوال السابقة أن واقع المعراج كان في السابع والعشرين من رجب عام ٥٢ من ولادة النبي

 علامہ زرقانی علامہ ابن عبدالبر امام ابن قتیبہ امام نووی امام رافعی کے مطابق معراج رجب کے مہینے میں تھی اور امام عبدالغنی مقدسی نے فرمایا کہ راجح یہ ہے کہ 27 رجب میں شب معراج ہے اور مزید فرمایا کہ اس پر ہمیشہ سے عمل ہوتا چلا آرہا ہے کہ لوگ عبادات کرتے ہیں، تمام اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ معراج کا واقعہ 27 رجب میں ہوا تھا

(اہلحدیث غیر مقلدین وغیرہ کی معتبر کتاب رحمة للعالمين ص705)

.

12=ليلة السابع والعشرين من رجب..وهي ليلة المعراج الذي شرف الله به هذه الأمة

 رجب کی ستائیسویں شب.... جو معراج کی رات ہے کہ اللہ نے اس امت کو یہ عظیم الشان رات عطا فرمائی

(تنبيه الغافلين عن أعمال الجاهلين وتحذير السالكين من أفعال الجاهلين ص497)

.

13=وكان يأتي المدينة ببركة النبي صلى الله عليه وسلم نسيم بارد. وكان انطفاؤها في السابع والعشرين من شهر رجب ليلة الإسراء والمعراج

 ایک طرف یہ بہت بڑی آگ تھی لیکن مدینے میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے ٹھنڈی ہوائیں چلتی تھیں اور یہ آگ 27 رجب میں بجھ گئی ، 27 رجب کہ جو شب معراج ہے

(إظهار الحق4/1017)

.

14=وقد جرى عملُ المسلمين على متابعة ما اختاره الحافظ عبد الغني المقدسي، فجعلوا ليلة سبع وعشرين من رجب ليلة ذكرى الإسراء، ولعل الله قد وفقهم في هذا العمل فيكون ترجيحًا لذلك الاختيار

 امام حافظ عبدالغنی مقدسی نے جو اختیار فرمایا کہ 27 رجب اور شب معراج ہے تو مسلمانوں کا عمل بھی اس پر جاری ہوا... شاید کہ اللہ تعالی نے لوگوں کو اس عمل کی توفیق عطاء فرمائی تو مسلمانوں کا یہ عمل اس بات کی ترجیح ہے کہ 27 رجب شب معراج ہے

(جمهرة مقالات ورسائل الشيخ الإمام محمد الطاهر ابن عاشور1/481)

.

15=وجزم الحافظ ابن حجر بأنه ليلة السابع والعشرين من رجب، وعليه عمل أهل الأمصار

 امام ابن حجر نے یقین کے ساتھ یہ فرمایا ہے کہ 27 رجب شب معراج ہے اور اسی پر لوگوں کا ، مسلمانوں کا عمل ہے(کہ 27 رجب کو عبادات کرکے شب بیداری کرکے یہ رات مناتے ہیں)

(كتاب الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي1/654)

.

16=أنه كان في سبعة وعشرين من شهر رجب على وفق ما هم عليه في الحرمين الشريفين من العمل

 ایک قول کے مطابق 27 رجب شب معراج ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ حرمین شریفین مکہ مدینہ کے لوگ اسی رات شب بیداری کرتے ہیں نوافل پڑھتے ہیں عبادات کرتے ہیں

(شرح الشفا للقاری ,1/394)

.

*#دوسری_بات*

شب قدر کی تاریخ کنفرم نہیں لیکن قوی امکان کے تحت 27 رمضان کو شب بیداری و عبادات کرنا سب کے ہاں اچھا و بہتر ہے...اسی طرح شب معراج کی تاریخ متعین نہ بھی ہو تو راجح قوی بلکہ ممکنہ تاریخ پر شب بیداری عبادات کرنا جائز و ثواب کہلائے گا اور قوی راجح تاریخ شب معراج کی ستائیس رجب ہے جیسے کہ اوپر بیان ہوا

.

وہابیوں اہلحدیثوں غیر مقلدوں کا معتبر عالم ابن عثیمین لکھتا ہے:

كل هذا ممكن أن تكون فيه ليلة القدر، والإنسان مأمور بأن يحرص فيها على القيام، سواء مع الجماعة إن كان في بلد تقام فيه الجماعة، فهو مع الجماعة أفضل

 ممکن ہے کہ 27 رمضان کو شب قدر ہو تو انسان کو یہ حکم ہے کہ اس رات قیام کرے عبادات کرے نوافل پڑھے اکیلے پڑھے یا جماعت کے ساتھ... مل کر عبادات کریں تو یہ افضل ہے

(كتاب مجموع فتاوى ورسائل العثيمين20/66)

.

اس رات کی تعیین میں بھی اختلاف ہے کہ وہ کون سی رات ہے، رمضان کے اخیر عشرے کی طاق راتوں میں اس کو تلاش کرنا چاہیے، اورتلاش کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان راتوں میں جاگ کر انفرادی طور پر نماز، تلاوت اوردعا وذکر کا اہتمام کرنا چاہیے، رمضان کی ستائیسویں شب کو اس کا امکان زیادہ ہے

(دار الافتاء دیوبند جواب نمبر: 16814فتوی(م):1617)

.

یہ مبارک رات رمضان کے آخری عشرہ کی پانچ طاق راتوں میں سے کوی ایک ہے بلکہ اس بات کا بھی ظن حاصل ہوتا ہے کہ وہ طاق رات ستائیسویں رمضان کی ہے....اس رات میں بھی دنیا کی رغبتوں سے بے نیاز ہوکر ،اذکار و اعمال میں مشغول رہے کثرت سے نفل نمازیں پڑھے، قرآن کی تلاوت کرے۔ دل کو حسد، بغض، کینہ، عداوت، غرور، تکبر کی آلائشوں سے پاک رکھے

(دیوبند کی کتاب...رمضان المبارک کے فضائل و مسائل جلد دوم ص187..189)

.

 ان حوالہ جات میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ غالب گمان کے طور پر شب قدر کی تاریخ مقرر کی گئ اور انفرادی و اجتماعی عبادت کا بھی حکم دیا گیا.... اسی طرح شب معراج میں بھی غالب گمان یہی ہے کہ 27 رجب کو ہے تو اس رات میں بھی عبادت اجتماعی یا انفرادی طور پر کرنی چاہیے

.

*#اگر کوئی کہے کہ شب قدر میں عبادات کا حکم حدیث پاک میں ہے لیکن شب معراج میں عبادت کا حکم نہیں....تو اسکا جواب یہ ہے کہ ہر شب نفلی عبادات و درود ذکر اذکار کرنے کی شریعت نے ترغیب دی ہے اور ضعیف حدیث میں شب معراج میں بالخصوص شب بیداری عبادات کی ترغیب ہے اور فضائل میں ضعیف حدیث مقبول و معمول ہے تو لیھذا ستائیس رجب شب معراج  کو مطالعہ علم و وعظ و عبادات  صدقہ خیرات شب بیداری  کرنی چاہیے*

.

*شب معراج کے متعلق  دو احادیث مبارکہ*

الحدیث:

فى رجب يوم وليلة من صام ذلك اليوم وقام تلك الليلة كان كمن صام من الدهر مائة سنة وقام مائة سنة وهو لثلاث بقين من رجب

ترجمہ:

رجب میں ایک ایسا دن ہے اور ایک ایسی رات ہے کہ جس نے اس دن روزہ رکھا اور اس رات قیام اللیل(عبادات،شب بیداری) کی تو گویا اس نے زمانے میں سے سو سال روزے رکھے اور سو سال قیام اللیل کیا،اور وہ ستائیس رجب ہے.

(شعب الایمان حدیث3811)

(تبیین العجب ص43)

(كنز العمال حدیث35169)

(فضل رجب لابن عساكر ص315)

(جامع الأحاديث حدیث14813)

.

امام ابن حجر نے اسکی سند پر تفصیلی کلام کیا…موضوع متھم کذاب وغیرہ کا حکم نہ لگایا بلکہ نکارت ضعیف کا حکم لگایا

(تبیین العجب ص43)

.

امام ابن عراق نے امام ابن حجر کی جرح کو برقرار رکھتے ہوئے ضعیف قرار دیا

(تنزيه الشريعة المرفوعة2/161)

.

امام سیوطی نے ضعیف قرار دیا

(الدر المنثور في التفسير بالمأثور4/186)

.

امام ابن عساکر نے غریب ضعیف قرار دیا

(فضل رجب لابن عساكر ص315)

.

علامہ لکھنوی نے کذاب یا متھم بالکذب کی جرح نہ کی، ضعیف نکارت کی جرح کو برقرار رکھا 

(الآثار المرفوعة في الأخبار الموضوعة ص60)

.

امام بیھقی نے ضعیف قرار دیا

(شعب الإيمان5/345)

.

الحدیث:

بعثت نبياً في السابع والعشرين من رجب فمن صام ذلك اليوم كان له كفارة ستين شهراً

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ 27 رجب کو میں نبی مبعوث ہوا تو جو شخص اس دن کا روزہ رکھے گا اس کے لیے ساٹھ مہینوں کا کفارہ ہوگا

(تبین العجب ص44..تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة2/161)

.

امام ابن حجر نے ضعیف نکارت کا حکم لگایا...موضوع متھم متروک وغیرہ کا حکم نہ لگایا(تبین العجب ص44)

.

امام ابن عراق نے ضعیف نکارت کا حکم لگایا...موضوع متھم متروک وغیرہ کا حکم نہ لگایا(تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة2/161)

.

فضائل میں حدیث ضعیف پے عمل جائز و ثواب ہے

اصول:

يتْرك)أَي الْعَمَل بِهِ فِي الضَّعِيف إِلَّا فِي الْفَضَائِل

فضائل کے علاوہ میں حدیث ضیف پر عمل نہ کیا جائے گا مگر فضائل میں ضعیف حدیث پر عمل کرنا جائز ہے

(شرح نخبة الفكر للقاري ص185)

.

قال العلماءُ من المحدّثين والفقهاء وغيرهم: يجوز ويُستحبّ العمل في الفضائل  والترغيب والترهيب بالحديث الضعيف ما لم يكن موضوعاً

علماء محدثین فقہاء وغیرہ نے فرمایاکہ فضائل ،ترغیب و ترہیب میں جائز ہے مستحب و ثواب ہے ضعیف حدیث پے عمل کرنا بشرطیکہ موضوع و من گھڑت نہ ہو 

(الأذكار للنووي ص36)

.

*#شب_بیدری کیسے کریِں......................!!*

روزانہ ورنہ کم از کم بابرکت راتوں جیسے شب قدر شب معراج شب برات وغیرہ میں شب بیداری کرنی چاہیے...گھر میں بھی یہ عبادات و شب بیداری کرسکتے ہیں اور بہتر ہے کہ مسجد میں اجتماعی شب بیداری میں شامل ہوں تاکہ بہت کچھ سیکھنے کو بھی ملے اور سستی بھی نہ ہو....کچھ نوافل ذکر و اذکار درج ذیل ہیں جو ہوسکے تو روزانہ ورنہ کم سے کم بابرکت راتوں میں تو ضرور ادا کرنے چاہیے.....*#مگر یاد رہے کہ شب بیداری ، نفلی عبادات کو فرض واجب مت سمجھیے، مروجہ طریقے سے سنت مت سمجھیے بلکہ جائز و ثواب سمجھیے کہ جسکی اصل احادیث سے ثابت ہے*

.

دو رکعت تحیۃ الوضو کی نیت سے اور دو رکعت تحیۃ المسجد کی نیت سے پٍڑہیے:

تحیۃ الوضو اور تحیۃ المسجد مشروع اور نہایت فضیلت والے اعمال میں سے ہیں۔ عقبہ بن عامررضی الله عنہ کی حدیث میں رسول اللہ کا فرمان ہےجو مسلمان آدمی وضو کرتا ہے، بہت اچھا وضو کرتا ہے پھر کھڑا ہوتا ہے اور دو رکعت ادا کرتا ہے اپنے دل اور منہ سے (یعنی ظاہری اور باطنی طور پر) ان دو رکعتوں پر متوجہ ہونے والا ہے تو اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے۔۔۔ 

(مسلم، کتاب الطہارۃ، باب الذکر المستحب عقب الوضوء، ح:۴۳۲)


ابو ہریره رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فجر کی نماز کے وقت بلال رضی الله عنہ سے فرمایا:اے بلال مجھے اپنا وہ عمل بیان کرو جو تم نے اسلام میں کیا اور تجھے اس پر ثواب کی بہت امید ہے، یقیناًمیں نے اپنے آگے جنت میں تیرے چلنے کی آواز سنی ہے۔ بلال رضی الله عنہ نے کہا مجھے جس عمل پر ثواب کی بہت امید ہے وہ یہ ہے کہ میں نے رات یا دن جب بھی وضو کیا تو اس وضو کے ساتھ جس قدر نماز میرے مقدر میں تھی میں نے ضرور پڑھی۔

(بخاری، کتاب التہجد، باب فضل الطہور باللیل و النھار، ح: ۹۴۱۱)


ابو قتادہ رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا:جب تم میں سے کوئی ایک مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت پڑھ لے۔ 

(بخاری، کتاب الصلوٰۃ، باب اذا دخل احدکم المسجد فلیرکع رکعتین:ح۴۴۴، مسلم:۴۱۷)

.

① ان بابرکت راتوں میں مستند کتاب تحریر تقریر سے علم سیکھیے، سکھائیے، کچھ آیات کی مستند تفسیر پڑہیے سمجھیے عمل کیجیے..علمی اصلاحی تقریر کیجیے سنیے عمل کیجیے

تلخیصِ حدیث:

ایک آیت کا علم سیکھنا 100 رکعت سےبہتر ہے اور علم کا ایک باب سیکھنا ایک ہزار رکعت سےبہتر ہے

(ابن ماجہ حدیث219ملخصا)

ہر روز اور بابرکت و بافضیلت ایام و شب اور بالخصوص آج کی رات نوافل وغیرہ کےساتھ ساتھ مستند کتاب،مستند تفسیر،تحریر،تقریر سےعلم بھی ضرور سیکھیےسکھائیے

.

.

②مغرب کے بعد نوافل:

1:مغرب کے بعد چار رکعت:

جو شخص بعد مغرب کلام کرنے سے پہلے دو رکعتیں پڑھے، اس کی نماز علیین میں اٹھائی جاتی ہے۔'' اور ایک روایت میں ''چار رکعت ہے'مشکاۃ المصابيح''، کتاب الصلاۃ، باب السنن و فضائلھا، الحديث: ۱۱۸۴، ۱۱۸۵، ج ۱، ص۳۴۵.

.

2:مغرب ک بعد چھ رکعت:

جو شخص مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھے اور ان کے درمیان میں کوئی بری بات نہ کہے، تو بارہ برس کی عبادت کی برابر کی جائیں گی...''جامع الترمذي''، أبواب الصلاۃ، باب ماجاء في فضل التطوع... إلخ، الحديث: ۴۳۵، ج۱، ص۴۳۹.

.

3مغرب کےبعد بیس رکعت:

جو مغرب کے بعد بیس رکعتیں پڑھے، اللہ تعالی اس کے ليے جنت میں ایک مکان بنائے گا۔'جامع الترمذي''، أبواب الصلاۃ، باب ماجاء في فضل التطوع... إلخ، الحديث ۴۳۵، ج۱، ص۴۳۹.


③عشاء و تراویح کے بعد نوافل و اذکار:

1:سو رکعت:

 وأحيوا ليلتهم حتى الصباح بالقراءة في المسجد الحرام، حتى يختموا القرآن كله، ويصلوا، ومن صلى منهم تلك الليلة مائة ركعة يقرأ في كل ركعة بالحمد، وقل هو الله أحد عشر مرات

ترجمہ:

اہل مکہ شب بیداری کرتے تلاوت کرتے ہوئے یہاں تک کہ ختم القرآن مکمل کرتے اور نمازیں(نوافل) ادا کرتے ہیں... ان میں سے کوئی سو رکعت اس طرح پڑھتا کہ ہر رکعت میں الحمد اور دس بار سورہ اخلاص پڑھتا

(اخبار مکہ للفاکہی جلد3 صفحہ 64)

.

''قیام اللیل کو اپنے اوپر لازم کر لو کہ یہ اگلے نیک لوگوں کا طریقہ ہے اور تمھارے رب (عزوجل) کی طرف قربت کا ذریعہ اور سیآت کا مٹانے والا اور گناہ سے روکنے والا۔('جامع الترمذي''، کتاب الدعوات، باب فی دعاء النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، الحدیث: ۳۵۶۰، ج۵، ص۳۲۲.

' اور

سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت میں یہ بھی ہے، کہ ''بدن سے بیماری دفع کرنے والا ہے۔''

المعجم الکبير''، باب السین، الحدیث: ۶۱۵۴، ج ۶، ص۲۵۸

.

2:صلاۃ الحاجات:اپنی دوسروں کی بخشش و مغفرت رزق میں برکت عمرمیں برکت  بلاؤں بیماریوں سے نجات وحفاظت وغیرہ جائز مقاصد کے پورا ہونے کے لیےصلاۃالحاجات پڑھ کر دعا کریں:

ابو داود حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی، کہتے ہیں: ''جب حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو کوئی امر اہم پیش آتا تو نماز پڑھتے۔' اس کے ليے دو رکعت یا چار پڑھے۔ حدیث میں ہے: ''پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ اور تین بار آیۃ الکرسی پڑھے اور باقی تین رکعتوں میں سورۂ فاتحہ اورقل ھو اللہ اورقل اعوذ برب الفلق اورقل اعوذ برب الناس

ایک ايک بار پڑھے''سنن أبي داود''، کتاب التطوع، باب وقت قیام النبي صلی اللہ علیہ وسلم من اللیل، الحدیث: ۱۳۱۹

.

حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں: ''جس کی کوئی حاجت اللہ (عزوجل) کی طرف ہو یا کسی بنی آدم کی طرف تو اچھی طرح وضو کرے پھر دو رکعت نماز پڑھ کر اللہ عزوجل کی ثنا کرے اور نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم پر درود بھیجے پھر یہ پڑھے:

لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ الحَلِيمُ الكَرِيمُ، سُبْحَانَ اللهِ رَبِّ العَرْشِ العَظِيمِ، الحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ العَالَمِينَ، أَسْأَلُكَ مُوجِبَاتِ رَحْمَتِكَ، وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِكَ، وَالغَنِيمَةَ مِنْ كُلِّ بِرٍّ، وَالسَّلاَمَةَ مِنْ كُلِّ إِثْمٍ، لاَ تَدَعْ لِي ذَنْبًا إِلاَّ غَفَرْتَهُ، وَلاَ هَمًّا إِلاَّ فَرَّجْتَهُ، وَلاَ حَاجَةً هِيَ لَكَ رِضًا إِلاَّ قَضَيْتَهَا يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ.

جامع الترمذي''، أبواب الوتر، باب ماجاء في صلاۃ الحاجۃ، الحدیث: ۴۷۸، ج۲، ص۲۱.


.

.

3:صلاۃ التوبۃ

ابو داود و ترمذی و ابن ماجہ اور ابن حبان اپنی صحیح میں ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی، کہ حضور (صلی اللہ تعالی علیہ وسلم) فرماتے ہیں: ''جب کوئی بندہ گناہ کرے پھر وضو کر کے نماز پڑھے پھر استغفار کرے، اللہ تعالی اس کے گناہ بخش دے گا۔'' پھر یہ آیت پڑھی۔

( والذین اذا فعلوا فاحشۃ او ظلموا انفسہم ذکروا اللہ فاستغفروا لذنوبہم ومن یغفر الذنوب الا اللہ ولم یصروا علی ما فعلوا وہم یعلمون ﴿۱۳۵﴾

جامع الترمذي''، أبواب الصلاۃ، باب ماجاء في الصلاۃ عند التوبۃ، الحدیث: ۴۰۶، ج۱، ص۴۱۴. پ۴، ال عمرن: ۱۳۵.

.

.

4:شب قدر میں ایک دعا کا ورد کم سے کم 313یا اس سے بھی زیادہ:

ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا،

اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ یہ لیلۃ القدر ہے ،تومیں کیا پڑھوں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ دعا پڑھو:

"اللَّهُمَّ إِنَّكَ عُفُوٌّ كَرِيمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي"

(ترمذی ،الدعوات باب 88 ،رقم:313)

"اے اللہ! توبہت معاف کرنے والا ہے ،معاف کرنا تجھے پسند ہے،پس تو مجھے معاف فرمادے"

.

.

5:اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی جو قران مجید کے اول یا اخر میں اکثر لکھے ہوتے ہیں ان کا کثرت سے ورد

کیجیے


6:سید الاستغفار:

کثرت سے استغفار کیجیے

313 یا 100 مرتبہ استغار کیجیے یا سید الاستغفار پڑہیے یا اس سے بھی زیادہ پڑہیے ورد کیجیے.....ایک دفعہ تو لازمی پڑہیے...سید الاستغفار یہ دعا ہے

اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي لاَ إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، خَلَقْتَنِي وَأَنَا عَبْدُكَ، وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ، أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ، وَأَبُوءُ لَكَ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي، فَإِنَّهُ لاَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ

یہ دعا یقین کے دن میں پڑھی جائے اور اس دن وفات پا جائے تو جنتی....رات کو پڑہے اس رات انتقال ہوجائے تو جنتی

(بخاری حدیث6306، مسلم حدیث2702)

.

حدثنا هشام بن عمار، حدثنا الوليد بن مسلم، حدثنا الحكم بن مصعب، حدثنا محمد بن علي بن عبد الله بن عباس، عن ابيه، انه حدثه، عن ابن عباس، انه حدثه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من لزم الاستغفار، جعل الله له من كل ضيق مخرجا، ومن كل هم فرجا، ورزقه من حيث لا يحتسب".

ترجمہ:

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی استغفار کا التزام کر لے ۱؎ تو اللہ اس کے لیے ہر تنگی سے نکلنے اور ہر رنج سے نجات پانے کی راہ ہموار کر دے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا، جس کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتا(ابوداود حدیث1518)


.

دعا کا ودر کیجیے،توبہ استغفار کیجیے،درج ذیل دعاؤں کا ورد کیجیے


لا الہ الا اللہ وحدہٗ لا شریک لہٗ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شیئ قدیر و سبحن اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قوۃ الا باللہ رب اغفرلی

.

سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ

(100 یا اس سے زائد مرتبہ کہیے حدیث پاک میں ہے کہ گناہ جتنے بھی ہوں معاف ہوجاتے ہیں...(بخاری حدیث6405)

.

سُبْحَانَ اللَّهِ العَظِيمِ، سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ

کا ورد کیجیے حدیث پاک میً ہے کہ یہ دو کلمے زبان پے ہلکے مگر اللہ کو محبوب اور میزان میں بھاری ہیں..(بخاری حدیث6406)

.

لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ المُلْكُ وَلَهُ الحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ.....(100 دفعہ یا اس سے زیادہ ورد کیجیے دس غلام آزاد کرنے کا ثواب ملتا ہے 100نیکیاں ہیں 100گناہ معاف ہوتے ہیں(بخاری حدیث6403)

.

.

7:آیات، بعض سورتوں کی تلاوت کے فضائل

100تا1000آیات پڑھنے کی فضیلت:

«من قرأ مائة آية في ليلة لم يكتب من الغافلين، ومن قرأ بمائتي آية كتب من القانتين، ومن قرأ خمسمائة آية إلى ألف آية أصبح له قنطار من الأجر،

ترجمہ:

جس نے رات میں سو آیات تلاوت کیں وہ غافلین میں نہیں لکھا جائے گا اور جس نے دو سو آیات تلاوت کیں وہ قانتین  میں لکھا جائے گا اور جس نے پانچ سو سے ایک ہزار تک آیات تلاوت کیں اس کے لیے اجر و ثواب کے ڈھیر...(المصنف استاد بخاری حدیث30082)

مختلف جگہوں سے سو دو سو پانچ سو ہزار آیات کی تلاوت روزانہ کی جائے تو بہتر ورنہ بابرکت راتوں میں تو یہ ہندسے ضرور پورے کرنے چاہیے

.

سورہ یسین

ہر چیز کے لیے دل ہے اور قرآن کا دل یس ہے، جس نے یس پڑھی دس مرتبہ قرآن پڑھنا اللہ تعالی اس کے لیے لکھے گا

الترمذي''،کتاب فضائل القرآن، باب ما جاء في فضل سورۃ یس، الحدیث:۲۸۹۶،

.

جو شخص ﷲتعالی کی رضا کے لیے یس پڑھے گا، اس کے اگلے گناہوں کی مغفرت ہوجائے گی۔ لہذا اس کو اپنے مردوں کے پاس پڑھو۔ (شعب الإیمان''، باب في تعظیم القرآن، فصل في فضائل السور.. الخ، الحدیث:۲۴۵۸

.

آیۃ الکرسی کا ورد کیجیے:

جو شخص کوتک اورآیۃ الکرسی صبح کو پڑھ لے گا، شام تک محفوظ رہے گا اور جو شام کو پڑھ لے گا، صبح تک محفوظ رہے گا۔الترمذي''،کتاب فضائل القرآن، باب ماجاء في سورۃ البقرۃ وآیۃ الکرسی، الحدیث:۲۸۸۸،

.

سورہ ملک پڑھیے:

قرآن میں تیس آیت کی ایک سورت ہے، آدمی کے لیے شفاعت کرے گی یہاں تک کہ اس کی مغفرت ہوجائے گی۔ وہتبرک الذی بیدہ الملک کہے(سورہ ملک پڑھے)

سنن الترمذي''،کتاب فضائل القرآن، باب ماجاء في فضل سورۃ الملک،الحدیث:۲۹۰۰

.

سورہ واقعہ کی فضیلت:

جو شخص سورہ واقعہ ہر رات میں پڑھ لے گا، اس کو کبھی فاقہ نہیں پہنچے گا۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ اپنی صاحب زادیوں کو حکم فرماتے تھے کہ ہر رات میں اس کو پڑھا کریں(''شعب الإیمان''،باب في تعظیم القرآن، فصل في فضائل السور والآیات، الحدیث:۲۴۹۹

.

سو دفعہ قل شریف پڑیے

سو مرتبہ قل ہو اللہ احدپڑھے، قیامت کے دن رب تبارک و تعالی اس سے فرمائے گاکہ ''اے میرے بندے!اپنی دہنی جانب جنت میں چلا جا۔'

ترمذی حدیث،۲۹۰۷

.

. کیا تم اس سے عاجز ہو کہ رات میں تہائی قرآن پڑھ لیا کرو؟ لوگوں نے عرض کی، تہائی قرآن کیونکر کوئی پڑھ لے گا؟ فرمایا کہ ''قل ہو اللہ احد

تہائی کی برابر ہے۔''

'صحیح مسلم''،کتاب صلاۃ المسافرین...إلخ، باب فضل قراء ۃ قل ہو اللہ احد...إلخ، الحدیث:۲۵۹۔(۸۱۱)

.

.

اذا زلزلت نصف قرآن کی برابر ہے اور'قل ہو اللہ احدتہائی قرآن کی برابر ہے اورقل یایہا الکفرون چوتھائی کی برابر۔

'سنن الترمذي''،کتاب فضائل القرآن، باب ماجاء في إذا زلزلت، الحدیث:۲۹۰۲


8صلاۃ التسبیح انفرادی و اجتماعی طور پے پڑہیے،

طریقہ و فضیلت:

حدّثنا عبد الرحمن بن بشر بن الحکم النیسابوریّ ، حدّثنا موسی بن عبد العزیز ، حدّثنا الحکم بن أبان عن عکرمۃ عن ابن عبّاس : أنّ رسول  اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم قال للعبّاس بن عبد المطّلب : یا عبّاس ! یا عمّاہ ! ألا أعطیک ؟ ألا أمنحک ؟ ألا أحبوک ؟ ألا أفعل بک عشر خصال ؟ إذا أنت فعلت ذلک غفر اللّٰہ لک ذنبک أوّلہ وآخرہ ، قدیمہ وحدیثہ ، خطأہ وعمدہ ، صغیرہ وکبیرہ ، سرّہ وعلانیتہ ، عشر خصال ؛ أن تصلّی أربع رکعات ، تقرأ فی کلّ رکعۃ فاتحۃ الکتاب وسورۃ ، فإذا فرغت من القراء ۃ فی أوّل رکعۃ وأنت قائم ، قلت سبحان اللّٰہ والحمد للّٰہ ولا إلہ إلّا اللّٰہ واللّٰہ أکبر خمس عشرۃ مرّۃ ، ثمّ ترکع ، فتقولہا وأنت راکع عشرا ، ثمّ ترفع رأسک من الرکوع ، فتقولہا عشرا ، ثمّ تہوی ساجدا ، فتقولہا وأنت ساجد عشرا ، ثمّ ترفع رأسک من السجود ، فتقولہا عشرا ، ثمّ تسجد فتقولہا عشرا ، ثمّ ترفع رأسک فتقولہا عشرا ، فذلک خمس وسبعون فی کلّ رکعۃ ، تفعل ذلک فی أربع رکعات ، إن استطعت أن تصلّیہا فی کلّ یوم مرّۃ ، فافعل ، فإن لم تفعل ، ففی کلّ جمعۃ مرّۃ ، فإن لم تفعل ففی کلّ شہر مرّۃ ، فإن لم تفعل ففی کلّ سنۃ مرّۃ ، فإن لم تفعل ففی عمرک مرّۃ ۔

”سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا ، اے عباس ، اے میرے چچا ! کیا میں آپ کو تحفہ نہ دوں ، کیا میں آپ کو گراں مایہ چیز مفت میں عطا نہ کردوں ، کیا میں آپ کے لیے دس خصلتیں بیان نہ کردوں کہ جب آپ ان کو کریں تو اللہ تعالیٰ آپ کے اول وآخر ، قدیم وجدید ، غلطی سے سر زد ہونے والے اورجان بوجھ کر کیے ہوئے ، صغیرو کبیرہ ، مخفی وظاہری تمام گناہ معاف کردے ؟ وہ دس خصلتیں یہ ہیں کہ آپ چار رکعات ادا کریں۔ ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ اورایک سورت پڑھیں ، پھرپہلی رکعت میں قرائت سے فارغ ہوکر قیام کی حالت میں ہی پندرہ دفعہ یہ دعا پڑھیں : سُبْحَانَ اللّٰہِ ، وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ ، وَلاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ ، وَاللّٰہُ أَکْبَرُ (اللہ تعالیٰ پاک ہے ، تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں ، اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور اللہ سب سے بڑا ہے)، پھر آپ رکوع کریں اور(رکوع کی تسبیحات کے بعد)رکوع کی حالت میں دس مرتبہ یہ دعا پڑھیں ، پھرآپ رکوع سے سراٹھائیں اور دس مرتبہ یہ دعا پڑھیں ، پھر آپ سجدے کے جھک جائیں اور سجدے کی حالت میں (تسبیحات کے بعد)دس مرتبہ یہ دعا پڑھیں ، پھر آپ سجدے سے اپنا سراٹھائیں اور دس مرتبہ یہ دعا پڑھیں ، پھر آپ دوسرا سجدہ کریں اوردس مرتبہ یہ دعا پڑھیں ، پھرآپ سجدے سے سر اٹھائیں اوردس مرتبہ یہ دعا پڑھیں ۔ یہ ہررکعت میں کل پچھتر تسبیحات ہوجائیں گی ۔ چاروں رکعتوں میں اسی طرح کریں ۔ اگر آپ روزانہ یہ نماز پڑھ سکتے ہیں تو روزانہ پڑھیں ، ورنہ ہر ہفتے ، ورنہ ہر مہینے ایک مرتبہ پڑھ لیں ۔ اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو سال میں ایک مرتبہ اوراگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو زندگی میں ایک مرتبہ یہ نماز پڑھ لیں۔”(سنن ابی داو،د : ١٢٩٧، سنن ابن ماجہ : ١٣٨٧، صحیح ابن خزیمۃ : ١٢١٦، المعجم الکبیر للطبرانی : ١١٦٢٢، المستدرک للحاکم : ١/٣١٨،  وسندہ، حسنٌ)

.

9:کثرت سے درود پڑہیے اپنے لیے دوسروں کے لیے خوب دعائیں مانگیے،استغفار کیجیے…

الحدیث:إِذَا تَمَنَّى أَحَدُكُم فَلْيُكثِر

ترجمہ

جب تم دعا کرو تو کثرت سے دعا کرو...(ابن حبان حدیث2403)

.


الحدیث:

رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " إذا دعا الرجل لأخيه بظهر الغيب، قالت الملائكة: آمين، ولك بمثل

ترجمہ

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان بھائی دوسرے مسلمان بھائی کے لیے پس پشت دعا مانگتا ہے تو ملائکہ آمین کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو مانگا وہ تجھے بھی ملے گا 

(ابوداود حدیث1534)

.


الحدیث:

إنالدعاء ينفع مما نزل ومما لم ينزل، فعليكم عباد الله بالدعاء

ترجمہ:

بے شک دعا نفع، فائدہ دیتی ہے ان(بلاؤں مصیبتوں واقعات) میں جو نازل ہوچکے اور جو نازل نہیں ہوئے(ان سب میں دعا فائدہ دیتی ہے.. تو اے اللہ کے بندو دعا(دعا کرنا، دعا کرانا) لازم کر لو...(ترمذی حدیث3548)

.

الحدیث:

إذا صلَّى أحدُكُمْ فَلْيَبْدَأْ بِتَحْمِيدِ اللهِ والثَّناءِ عليهِ ثُمَّ لَيُصَلِّ على النبيِّ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ ثُمَّ لَيَدْعُ بَعْدُ بِما شاءَ

ترجمہ:

جب تم میں سے کوئی دعا کرے تو سب سے پہلے اللہ کی حمد و ثناء بیان کرے پھر مجھ (یعنی نبی پاک )پر درود بھیجے پھر جو چاہے دعا کرے..(الترمذي:3447)

.


الحدیث:

من صلى عليَّ صلاةً واحدةً صلَّى الله عليه عشرَ صلواتٍ، وحُطَّت عنه عشرُ خطيئاتٍ، ورُفعَت له عشرُ درجاتٍ

ترجمہ:

جس نے مجھ پر ایک بار دروز بھیجا اللہ اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا دس خطائیں معاف فرمائے گا دس درجات بلند فرمائے گا(تو جتنا زیادہ درود پڑھو اتنا زیادہ اجر و فائدہ)

([النسائي:1296]،


.

11:دیگر کچھ وظائف

وظیفہ نمبر①:*

اس دعا کی کثرت سے ورد کیجیے :

*"اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ البَرَصِ، وَالْجُنُونِ، وَالْجُذَامِ، وَمِنْ سَيِّئِ الْأَسْقَامِ."*

*(ابوداود حدیث1554)*

.

.

*وظیفہ②:*

الحدیث، ترجمہ :

سورہ فاتحہ ہر مرض (ہر نقصان دہ چیز، نظر، جن، جادو اور بیماریوں) سے شفاء ہے

*(بیہقی1/357)*

.

*وظیفہ③:*

الحدیث، ترجمہ :

آیۃُ الکرسی صبح کو پڑھو تو شام تک اور شام کو پڑھو تو صبح تک (ہر نقصان دہ چیز یعنی جن، جادو، نظر اور بیماریوں وغیرہ) سے نجات ہے..

*(بیہقی1/359)*


.

*وظیفہ④:*

الحدیث:

*عَن ْعَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا اشْتَكَى يَقْرَأُ عَلَى نَفْسِهِ بِالْمُعَوِّذَاتِ، وَيَنْفُثُ، فَلَمَّا اشْتَدَّ وَجَعُهُ كُنْتُ أَقْرَأُ عَلَيْهِ، وَأَمْسَحُ بِيَدِهِ رَجَاءَ بَرَكَتِهَا.*

ترجمہ :

سیدہ طیبہ طاہرہ بی بی عائشہ فرماتی ہیں کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کچھ بھی تکلیف و بیماری ہوتی تو چار قل شریف پڑھ کر اپنے اوپر دم فرما دیتے، جب آپ علیہ الصلاۃ والسلام شدید بیمار ہوئے تو میں(بی بی عائشہ رضی اللہ عنھا) چار قل پڑھ کر دم کرتی اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنا ہاتھ انہی کے جسم پر پھیرتی، ان کے ہاتھ کی برکت کی امید سے...

*(بخاری حدیث5016)*


نظر، جن، جادو اور برے تعویذات کا خطرہ ہو یا محسوس ہو کہ نظر لگی ہے یا محسوس ہو کہ جنات کا اثر ہوا ہے یا محسوس ہو کہ جادو کا اثر ہے، 

یا 

کسی بیماری کے لگنے کا خدشہ ہو

 یہ سب محسوس ہو یا ان سب کا خطرہ و خدشہ ہو یا وہم و گمان ہو تویقین کامل کے ساتھ  سورہ فاتحہ یا ایۃ الکرسی یا چار قل پڑھ کر دم کیجیے یا کسی نیک سے پڑھوا کر دم کرائیے اور ساتھ ساتھ دنیاوی علاج بھی کرائیے کہ نظر، جن جادو اور برے تعویذات کی وجہ سے کبھی کبھار بیماریاں بھی لگ جاتی ہیں تو دم و دعا کے ساتھ دوا بھی برحق و لازم ہے۔

.

وظیفہ⑤:

الحدیث:

مَنْ رَأَى صَاحِبَ بَلاَءٍ، فَقَالَ: الحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي عَافَانِي مِمَّا ابْتَلاَكَ بِهِ، وَفَضَّلَنِي عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقَ تَفْضِيلاً، إِلاَّ عُوفِيَ مِنْ ذَلِكَ البَلاَءِ

ترجمہ:

جو کسی مصیبت.و.بیماری زدہ کو دیکھےاور(دوا احتیاط کے ساتھ ساتھ یہ دعا)پڑھے الحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي عَافَانِي مِمَّا ابْتَلاَكَ بِهِ، وَفَضَّلَنِي عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقَ تَفْضِيلاً

تو اس مصیبت و بیماری سےمحفوظ کیا جائے گا(ان شاء اللہ عزوجل)(ترمذی حدیث3431)

.

*وظیفہ⑥:*

الحدیث،ترجمہ:

جو(احتیاط و دوا کے ساتھ ساتھ)صبح شام تین تین بار

بِسْمِ اللَّهِ الَّذِي لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ، فِي الْأَرْضِ، وَلَا فِي السَّمَاءِ، وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ


پڑھے تو (ان شاء اللہ عزوجل) اچانکی بلاء(اچانک مصیبت، اچانک بیماری، اچانک موت ، ہارٹ اٹیک، فالج، اچانک وائرس کے حملے) سے محفوظ رہے گا...(ابو داؤد حدیث5088)

.


*وظیفہ⑦:*

نمازِ حاجات پڑھیے اور کامل یقین کے ساتھ دعا کیجیے۔

الحدیث :

*"كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا حَزَبَهُ أَمْرٌ صَلَّى"*

ترجمہ تفسیری :

رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کوئی تکلیف و مشکل ہوتی، کوئی حاجت ہوتی تو (دو رکعت) نفل نمازِ حاجات ادا فرماتے

*(ابو داود حدیث1319)*

.

*نمازِ حاجات کا طریقہ①:*

تازہ وضو کیجیے، اچھے طریقے سے وضو کیجیے، دو رکعت نفل پڑھیے اور یہ دعا پڑھیے:

*"اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِمُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ، يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي قَدْ تَوَجَّهْتُ بِكَ إِلَى رَبِّي فِي حَاجَتِي هَذِهِ لِتُقْضَى،اللَّهُمَّ فَشَفِّعْهُ فِيَّ"*

 اور پھر اپنی من پسند اچھی دعا مانگیے، نظر، جن اور  جادو وغیرہ سے حفاظت کی دعا مانگیے..

*(دیکھیے ابن ماجہ حدیث1385)*

.

*نمازِ حاجات کا طریقہ②:*

تازہ وضو کیجیے، اچھی طرح وضو کیجیے پھر دو رکعت نفل حاجات پڑھیے

پھر اللہ پاک کی ثناء کیجیے

پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھیے

پھر یہ دعا پڑھیے

*"لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْحَلِيمُ الْكَرِيمُ، سُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، أَسْأَلُكَ مُوجِبَاتِ رَحْمَتِكَ، وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِكَ، وَالْغَنِيمَةَ مِنْ كُلِّ بِرٍّ، وَالسَّلَامَةَ مِنْ كُلِّ إِثْمٍ، لَا تَدَعْ لِي ذَنْبًا إِلَّا غَفَرْتَهُ، وَلَا هَمًّا إِلَّا فَرَّجْتَهُ، وَلَا حَاجَةً هِيَ لَكَ رِضًا إِلَّا قَضَيْتَهَا، يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ"*

پھر اپنی من پسند ، اچھی دعا مانگیے، نظر، جن اور جادو وغیرہ سے حفاظت کی دعا مانگیے۔

*(دیکھیے ترمذی حدیث479)

.

.

سوال:

*صلاۃ التسبیح یا دیگر نوافل کی جماعت کرانے کی کیا دلیل و حکم ہے......؟؟*

.

جواب:

بخاری باب نوافل کی جماعت میں ایک واقعے کے ساتھ حدیث پاک ہے کہ ایک صحابی نے عرض کیا یارسول اللہ بارش سیلاب ندی وغیرہ مجبوریوں کی وجہ سے کبھی مسجد نہیں جا پاتا تو آپ صلی اللہ علیک وسلم میرے گھر تشریف لائیں اور گھر کے ایک مخصوص حصے میں نماز ادا کریں تاکہ اس جگہ.کو میں نماز کے لیے خاص کر دوں.. آپ علیہ السلام اگلے دن سیدنا ابوبکر صدیق کے ہمراہ انکے گھر تشریف لے گئے.. پھر آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کس جگہ نماز پڑھوں.. انہوں نے گھر کا ایک خاص حصہ کی طرف اشارہ کیا.. صحابہ کرام نے صف باندھی اور آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے  نفل کی جماعت کرائی..

(بخاری حدیث1186ملخصا)

.

اس حدیث کے تحت بہت سارے مسائل علماء نے ثابت کیے ہیں.. شارح بخاری علامہ عینی نے کوئی 55فوائد و مسائل ثابت کیے.. ان میں سے چند یہ ہیں

1:نفل کی جماعت کا ثبوت

2:تبرکات کا ثبوت

3:واقعی مجبوری ہوتو گھر میں فرض ادا کرنے کا ثبوت

4:بڑوں،بزرگوں کا ادب اور چھوٹوں پر ماتحتوں پر شفقت

5:سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت

.

نوافل صلاۃ التسبیح وغیرہ الگ بھی پڑھنا چاہیے اور جماعت کے ساتھ بھی پڑھ سکتے ہیں.. بلکہ دونون پر عمل کرنا چاہیے ڈبل ثواب ہوگا.. ان.شاء.اللہ

فقہ کی تقریبا ہر کتاب مین لکھا ہے کہ:

کبھی کبھار نفل کی جماعت ہوجایا کرے.. یا بغیرتداعی کے نوافل کی جماعت ہوتو جائز و ثواب ہے،اگر تداعی ہو تو مکروہ تنزیھی ہے مگر گناہ نہیں..

(دیکھیے فتاوی شامی جلد2 صفحہ604... فتاوی رضویہ جلد7 صفحہ430)

.

تداعی مطلب خاص نوافل کی جماعت ہی کے لیے بلانا...عام اجتماعات میں خاص نوافل ہی کے لیے نہین بلایا جاتا بلکہ اسلامی محفل کے لیے بلایا جاتا ہے اور ضمنا نوافل کی جماعت کرائی جاتی ہے

لیکن

یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ بعض علماء نے فرمایا ہے کہ تداعی کے ساتھ جماعت ہو تو بھی عوام کو مت روکو...تداعی کے ساتھ نوافل عبادت کرنے دو، یہی فی زمانہ بہتر ہے کہ ممانعت قطعی نہیں اور ترغیب و تکثیر بھی ہے

.

فتاوی رضویہ میں در مختار اور الحدیقہ الندیہ کے حوالے سے ہےکہ:

ًبہت اکابردین سے جماعت نوافل بالتداعی ثابت ہے اور عوام فعل خیر سے منع نہ کئے جائیں گے علمائے امت وحکمائے ملت نے ایسی ممانعت سے منع فرمایا ہے درمختارمیں ہے:

اما العوام فلایمنعون من تکبیر والتنفل اصلا لقلۃ رغبتھم فی الخیرات(عوام کو تکبیرات اور نوافل سے کبھی بھی منع نہ کیاجائے کیونکہ پہلے ہی نیکیوں میں ان کی رغبت کم ہوتی ہے)حدیقہ ندیہ میں ہے:

ومن ھذا القبیل نھی الناس عن صلٰوۃ الرغائب بالجماعۃ وصلٰوۃ لیلۃ القدر ونحوذلك وان صرح العلماء بالکراھۃ بالجماعۃ فیھا فلایفتی بذلك العوام لئلا تقل رغبتھم فی الخیرات وقد اختلف العلماء فی ذلك فصنف فی جوازھا جماعۃ من المتاخرین وابقاء العوام راغبین فی الصلٰوۃ اولٰی من تنفیرھم

اسی قبیل سے نماز رغائب کاجماعت کے ساتھ اداکرنا اور لیلۃ القدر کے موقع پر نماز وغیرہ بھی ہیں اگرچہ علماء نے ان کی جماعت کے بارے میں کراہت کی تصریح کی ہے مگر عوام میں یہ فتوٰی نہ دیاجائے تاکہ نیکیوں میں ان کی رغبت کم نہ ہو، علماء نے اس مسئلہ میں اختلاف کیا ہے اور متاخرین میں سے بعض نے اس کے جواز پر لکھا بھی ہے، عوام کونماز کی طرف راغب رکھنا انہیں نفرت دلانے سے کہیں بہتر ہوتا ہے

(فتاوی رضویہ جلد 7 ص,465,466, در مختار1/144 الحدیقۃ الندیہ2/150ملتقطا)

.

*مسجد میں جمع ہوکر قرآن و حدیث فقہ وغیرہ کا درس سننا سنانا علم پڑھنا پڑھانا نوافل پڑھنا پڑھانا ذکر و اذکار کرنا ان سب کی اصل یہ دو احادیث مبارکہ بھی ہیں*

حدیث①

وما اجتمع قوم في بيت من بيوت الله يتلون كتاب الله ويتدارسونه بينهم إلا نزلت عليهم السكينة وغشيتهم الرحمة وحفتهم الملائكة، وذكرهم الله فيمن عنده

 لوگ جمع ہو کر اللہ کے گھر(مسجد) میں تلاوت کریں، قرآن (اور قرآن کے متعلقات یعنی حدیث فقہ و تصوف وغیرہ کا) درس دیں وعظ و بیان کریں تو ان پر اللہ کی رحمت اترے گی اور رحمت ان کو ڈھانپ لے گی اور فرشتے ان کو گھیر لیں گے اور اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا ذکر کرے گا اپنے پاس رہنے والوں میں (یعنی فرشتوں میں)

(مسلم حدیث6853)

.

حدیث②

" لا يقعد قوم يذكرون الله عز وجل إلا حفتهم الملائكة، وغشيتهم الرحمة، ونزلت عليهم السكينة وذكرهم الله فيمن عنده "،

‏‏‏‏ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو لوگ(مسجد یا کسی اور جگہ مل)بیٹھ کر اللہ کا ذکر کریں تو ان کو فرشتے گھیر لیتے ہیں اور رحمت ڈھانپ لیتی ہے اور سکینہ (اطمینان اور دل کی خوشی) ان پر اترتی ہے اور اللہ تعالیٰ فرشتوں میں ان کا ذکر کرتا ہے

(مسلم حدیث6855)

.

 ان دونوں احادیث مبارکہ اور دیگر احادیث مبارکہ سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ ہر دن یا کسی وقت یا مخصوص ایام و راتوں میں مسجد یا کسی جگہ مل بیٹھ کر قران پڑھنا سننا، ذکر کرنا وعظ تقریر کرنا سننا، علم پھیلانا، نوافل عبادات پڑھنا پڑھانا وغیرہ یہ سب کچھ بری بدعت نہیں جائز و ثواب ہے...کیونکہ یا نیا اچھا طریقہ بدعت نہین کہ اسکی اصل مذکوعہ احادیث ہیں، بدعت حقیقتا وہ ہوتی ہے جسکی اصل نہ ہو...حدیث پاک میں ہے:

من سن في الإسلام سنة حسنة، فعمل بها بعده، كتب له مثل أجر من عمل بها، ولا ينقص من أجورهم شيء

ترجمہ:

جس نے اسلام میں نیا اچھا طریقہ جاری کیا تو اس کے بعد

جو جو  اس پر عمل کرے گا ان سب کا ثواب اسے ملے گا اور عمل کرنے والوں کے ثواب میں بھی کمی نا آے گی

(مسلم حدیث نمبر1017...6800)

یہ حدیث پاک ابن ماجہ سنن نسائی وغیرہ بہت کتابوں میں بھی ہے

.

ان دونوں احادیث مبارک سے ثابت ہوتا ہے کہ:

①جو کام سنت نا ہو وہ معاف اور جائز کہلائے گا...لیھذا یہ کہنا کہ فلان کام سنت نہیں اس لیے بدعت ہے، یہ کہنا غلط ہے کیونکہ حدیث پاک کی روشنی سے واضح ہے کہ جو سنت نا ہو وہ معاف اور جائز کہلائے گا... ہاں اگر سنت نا ہو اور جائز بھی نا ہو بلکہ اسلام کے اصولوں کے خلاف ہو تب بدعت و گناہ کہلائے گا

.

②اگر کوئی آپ سے کہے کہ فلاں کام سنت نہیں بدعت ہے تو آپ فورا جواب دیں کہ ٹھیک ہے سنت نہیں تو کیا جائز بھی نہیں...؟؟

.

③بے شک سنت کی عظمت ہے مگر اسی سنت نے ہمیں سکھایا ہے کہ سنت کے علاوہ جائز بھی کوئی چیز ہے... لیھذا سنت سنت کی رٹ لگانے کے ساتھ ساتھ جائز جائز کی رٹ لگانا بھی ضروری ہے

.

④ان احادیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ وہ عبادت وہ نیک کام جسکا کوئی ایک طریقہ مقرر نا ہو تو اس کے نئے طریقے بدعت نہیں بلکہ اس کے نئے پرانے سب طریقے جائز ہیں....ہاں جس کام جس عبادت کے طریقے اسلام نے متعین و مخصوص کر دیے ہیں ان میں نیا طریقہ نکالنا ٹھیک نہیں... جیسے نماز روزے کے نئے طریقے نکالنا ٹھیک نہیں مگر صدقہ خیرات ذکر اذکار درود میلاد فاتحہ ایصال ثواب شب براءت ،شب معراج، شب قدر کی سالانہ عبادات و شب بیداری وغیرہ کے نئے پرانے سب طریقے جائز ہیں بشرطیکہ اسلام کے کسی اصول کے خلاف نا ہوں..

.

*نئے طریقے بدعت نہیں تو #پھر_آخر_بدعت_ہے_کیا.....؟؟*

دراصل بدعت کی تعریف واضح الفاظ میں کسی آیت کسی حدیث میں نہیں آئی، جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جو کام صحابہ کرام نے نہیں کیا وہ بدعت ہے ہم انہیں کہتے ہیں کہ کسی حدیث میں یہ دکھا دیں کہ بدعت وہ ہے جو کام صحابہ کرام نے نا کیا ہو...؟؟

کچھ لوگ کہتے ہیں جو سنت نہیں وہ بدعت ہے، یہ بھی ٹھیک نہیں کیونکہ اوپر احادیث کی زبانی بتایا جا چکا ہے کہ جو کام سنت نا ہو وہ جائز بھی کہلا سکتا ہے، سنت کے بعد جائز بھی ایک قیمتی چیز ہے

.

*پھر آخر بدعت ہے کیا.....؟؟*

آیات تفاسیر احادیث میں غور کرکے بدعت کی تعریف اخذ کی گئ ہے جسے علماء کرام نے جامع انداز میں کچھ یوں بیان فرمایا ہے کہ:المراد بھا ما احدث ولیس لہ اصل فی الشرع،،ویسمی فی عرف الشرع بدعۃ، وماکان لہ اصل یدل علیہ الشرع فلیس ببدعۃ فالبدعۃ فی عرف الشرع مذمومۃ بخلاف اللغۃ

ترجمہ:

بدعت اس نئ چیز کو کہتے ہیں جسکی شریعت میں کوئ اصل نا ہو،،شریعت میں اسی کو بدعت کہا جاتا ہے

اور

جس نئے کام کی اصل ہو کہ اس پر شریعت رہنمائ کرے وہ تو بدعت نہیں، بدعۃ شریعت میں مذموم ہی ہوتی ہے"با خلاف لغت(اور ظاہری بدعت) کے"

(فتح الباری 13/253،اصول الایمان ص126

اصول الرشاد ص64 مرعاۃ،عمدۃ القاری، مجمع بحار الانوار

فتح المبین،وغیرہ بہت کتابوں میں بھی یہی تعریف ہے

جن تین کتابوں کا مکمل حوالہ لکھا ہے وہ اس لیے کہ پہلی کتاب تمام کے ہاں معتبر ہے خاص کر اہل حدیث کے لیے

اور دوسری کتاب وہابیوں کی ہے سعودی عرب کی حکومت نے چھاپی ہے اور تیسری کتاب امام اہلسنت سیدی احمد رضا کے والد صاحب کی کتاب ہے)

.

سیدنا عمر کا فتوی اور جمھور صحابہ کرام کا عدم انکار:

نِعْمَ الْبِدْعَةُ هَذِهِ

یہ کیا ہی اچھی بدعت ہے

(بخاری جلد2 صفحہ707)

یہ فتوی دیگر بہت کتابوں میں بھی ہے

 سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے بدعت کو کیا ہی اچھی بدعت کہا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ بظاہر کوئی چیز بدعت ہوتی ہے لیکن اس کی اصل شریعت میں ہوتی ہے تو وہ اچھی بدعت کہلاتی ہے اور اس پر جمھور صحابہ کرام علیھم الرضوان نے انکار بھی نہیں کیا تو اکثر صحابہ کرام کے مطابق بدعت اچھی بھی ہوتی ہے... بعض صحابہ کرام سے جو مروی ہے کہ انہوں نے بعض نیک کاموں کو بدعت کہا تو یہ ان کا  غیر مفتی بہ یا مؤول قول کہلائے گا

.

سنی وہابی نجدی شیعہ اہل حدیث وغیرہ تمام کی کتابوں میں "موضوع حدیث" لفظ بولا جاتا ہے جبکہ حقیقت میں کوئ "حدیث" موضوع نہیں ہوتی ..اسکو فقط ظاہر کے لحاظ سے اور لغت و معنی مجاز کے لحاظ سے "حدیث" کہا جاتا ہے

اسی طرح "اچھی بدعت" حقیقت میں بدعت نہیں اسے فقط ظاہر کے لحاظ سے لغت و مجاز کے لحاظ سے بدعت کہا جاتا ہے... اوپر صحابہ کرام کے فتوے میں جو اچھی بدعت فرمایا گیا وہ بھی حقیقت میں بدعت نہیں...اسے ظاہر و لغت کے لحاظ سے بدعت فرمایا گیا ہے... بدعت کی جو پانچ اقسام بتائی جاتی ہیں وہ بھی دراصل ظاہر و لغت کے لحاظ سے ہیں ورنہ بدعت حسنہ حقیقتا بدعت ہی نہیں، بدعت کی تعریف میں"بخلاف لغت کے" الفاظوں میں اسی چیز کو بیان کیاگیا ہے

.

*وہابیوں اہلحدیثوں غیرمقلدوں نجدیوں کا امام ابن تیمیہ پہلے اپنا نظریہ  لکھتا ہے اور پھر بطور دلیل یا نقل امام شافعی کے قول کو برقرار رکھتا ہے کہ*

 وَمَا خَالَفَ النُّصُوصَ فَهُوَ بِدْعَةٌ بِاتِّفَاقِ الْمُسْلِمِينَ وَمَا لَمْ يُعْلَمْ أَنَّهُ خَالَفَهَا فَقَدْ لَا يُسَمَّى بِدْعَةً قَالَ الشَّافِعِيُّ - رَحِمَهُ اللَّهُ -: الْبِدْعَةُ بِدْعَتَانِ: بِدْعَةٌ خَالَفَتْ كِتَابًا وَسُنَّةً وَإِجْمَاعًا وَأَثَرًا عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَهَذِهِ بِدْعَةُ ضَلَالَةٍ. وَبِدْعَةٌ لَمْ تُخَالِفْ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ فَهَذِهِ قَدْ تَكُونُ حَسَنَةً لِقَوْلِ عُمَرَ: نِعْمَتْ الْبِدْعَةُ هَذِهِ هَذَا الْكَلَامُ أَوْ نَحْوُهُ رَوَاهُ البيهقي بِإِسْنَادِهِ الصَّحِيحِ فِي الْمَدْخَلِ

جو نص شرعی یعنی( قرآن و حدیث) خلاف ہو وہ بدعت ہے اس پر سب کا اتفاق ہے اور جس کے بارے میں یہ معلوم نہ ہو کہ وہ نص کے خلاف ہے تو اس کو بدعت نہیں کہیں گے... امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں ایک بدعت وہ ہے کہ جو کتاب اللہ اور سنت کے خلاف ہو یا اجماع کے خلاف ہو یا(جمھور) صحابہ کرام کے اقوال کے خلاف ہو تو یہ بدعت گمراہی ہے اور دوسری بدعت وہ ہے کہ جو ان چیزوں کے خلاف نہ ہو تو یہ بدعت حسنہ ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ سیدنا عمر نے فرمایا تھا کہ یہ کیا ہی اچھی بدعت ہے، اس قسم کی بات کو امام بیہقی نے سند صحیح کے ساتھ روایت کیا ہے

( مجموع الفتاوى ابن تيميه20/163)

.

*کل بدعۃ ضلالۃ(ہر بدعت گمراہی ہے)کی وضاحت انہی ابن تیمیہ وہابی سے سنیے...لکھتا ہے*

عَنْهُ فَيَعُودُ الْحَدِيثُ إلَى أَنْ يُقَالَ: " كُلُّ مَا نُهِيَ عَنْهُ " أَوْ " كُلُّ مَا حُرِّمَ " أَوْ " كُلُّ مَا خَالَفَ نَصَّ النُّبُوَّةِ فَهُوَ ضَلَالَةٌ " وَهَذَا أَوْضَحُ مِنْ أَنْ يَحْتَاجَ إلَى بَيَانٍ بَلْ كُلُّ مَا لَمْ يُشْرَعْ مِنْ الدِّينِ فَهُوَ ضَلَالَةٌ. وَمَا سُمِّيَ " بِدْعَةً " وَثَبَتَ حُسْنُهُ بِأَدِلَّةِ الشَّرْعِ فَأَحَدُ " الْأَمْرَيْنِ " فِيهِ لَازِمٌ: إمَّا أَنْ يُقَالَ: لَيْسَ بِبِدْعَةِ فِي الدِّينِ وَإِنْ كَانَ يُسَمَّى بِدْعَةً مِنْ حَيْثُ اللُّغَةُ. كَمَا قَالَ عُمَرُ: " نِعْمَت الْبِدْعَةُ هَذِهِ " وَإِمَّا أَنْ يُقَالَ: هَذَا عَامٌّ خُصَّتْ مِنْهُ هَذِهِ الصُّورَةُ لِمُعَارِضِ رَاجِحٍ كَمَا يَبْقَى فِيمَا عَدَاهَا عَلَى مُقْتَضَى الْعُمُومِ كَسَائِرِ عمومات الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ، وَهَذَا قَدْ قَرَّرْته فِي " اقْتِضَاءِ الصِّرَاطِ الْمُسْتَقِيمِ " وَفِي " قَاعِدَةِ السُّنَّةِ وَالْبِدْعَةِ " وَغَيْرِهِ.

خلاصہ

 ہر بدعت گمراہی ہے تو اس کا جواب یہ ہوسکتا ہے کہ جس کی اصل ثابت نہ ہو وہ بدعت ہے اور ایسی ہر بدعت گمراہی ہے اور جس کی اصل ثابت ہو وہ بدعت ہی نہیں ہے تو وہ لغت و ظاہر کے اعتبار سے بدعت ہے اور وہ گمراہی نہیں ہے ، وہ بدعت حسنہ ہے... یا پھر یہ کہا جائے گا کہ ہر بدعت گمراہی ہے اس عموم سے بدعت حسنہ مستثنی ہے جیسے کہ قرآن و حدیث کے کئ عموم ہوتے ہیں اور اس سے کچھ چیزیں مستثنی ہوتی ہیں

( مجموع الفتاوى ابن تيميه10/370)

.

*ابن حزم اور بدعت قولی فعلی بدعت حسنہ*

البدعة: كل ما قيل أو فعل مما ليس له أصل في ما نسب إليه، وهو في الدين كل ما لم يأت [في القرآن ولا] عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، إلا منها ما يؤجر عليه صاحبه ويعذر فيما قصد به الخير، ومنها ما يؤجر عليه صاحبه جملة ويكون حسنا

 بدعت ہر اس قول کو کہتے ہیں ہر اس فعل کو کہتے ہیں کہ جس کی اصل ثابت نہ ہو... شریعت میں بدعت وہ ہے کہ جس کی اصل قرآن و سنت سے ثابت نہ ہو... جس کی اصل ثابت ہو تو وہ بدعت حسنہ ہے اس پر اجر دیا جاتا ہے

(رسائل ابن حزم4/410)

.

*ابن جوزی اور بدعت*

 ومتى أسند المحدث إِلَى أصل مشروع لم يذم

 جس بدعت کی اصل ثابت ہو اس کی مذمت نہیں ہے( وہ تو دراصل بدعت ہے ہی نہیں اسے تو ظاہر اور لغت کے اعتبار سے بدعت کہا جاتا ہے)

(ابن جوزي تلبيس إبليس ص18)

.

*وہابیوں اہلحدیثوں غیرمقلدوں نجدیوں کا امام شوکانی علامہ ابن حجر کی عبارت لکھتا ہے اور اسکی نفی نہیں کرتا جسکا صاف مطلب ہے کہ یہ عبارت، یہ نظریہ بھی یا یہی نظریہ ٹھیک ہے*

وَالتَّحْقِيقُ أَنَّهَا إنْ كَانَتْ مِمَّا يَنْدَرِجُ تَحْتَ مُسْتَحْسَنٍ فِي الشَّرْعِ فَهِيَ حَسَنَةٌ، وَإِنْ كَانَتْ مِمَّا يَنْدَرِجُ تَحْتَ مُسْتَقْبَحٍ فِي الشَّرْعِ فَهِيَ مُسْتَقْبَحَةٌ، وَإِلَّا فَهِيَ مِنْ قِسْمِ الْمُبَاحِ، وَقَدْ تَنْقَسِمُ إلَى الْأَحْكَامِ الْخَمْسَةِ

 تحقیق یہ ہے کہ جو ظاہر اور لغت کے اعتبار سے بدعت ہو تو اس کی تقسیم کچھ یوں ہوگی کہ اگر وہ شریعت کے کسی اصول کے  تحت اچھی درج ہو سکتی ہو تو وہ بدعت حسنہ ہے اور اگر وہ شریعت کے کسی اصول کے تحت بری ہو تو وہ بری بدعت ہے اگر یہ دونوں صورتیں نہ ہو تو وہ بدعت مباحہ ہے اور بدعت کی پانچ قسمیں بیان کی جاتی ہے

(كتاب نيل الأوطار3/65)

.

*کل بدعۃ ضلالۃ کا جواب و وضاحت*

فإن قلت: ففي الحديث: "كل بدعة ضلالة "؟ قلت: أراد بدعة لا أصل لها في الإسلام؛ بدليل قوله: "من سنَّ سُنَّةً حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها إلى يوم القيامة

 حدیث میں جو ہے کہ ہر بدعت گمراہی ہے تو اس سے مراد وہ ہے کہ جس کی اصل ثابت نہ ہو وہ گمراہی ہے (کیونکہ بدعت جس کی اصل ثابت ہو وہ گمراہی نہیں)کیونکہ حدیث پاک میں ہے کہ جس نے نیا اچھا طریقہ جاری کیا تو اسے اجر ملے گا اور عمل کرنے والوں کا اجر بھی ملے گا قیامت تک

(الكوثر الجاري إلى رياض أحاديث البخاري4/331)

.

: شر الأمور محدثاتها: يعني: المحدثات التي ليس لها في الشريعة أصل يشهد لها بالصحة والجواز، وهي المسمّاة بالبدع؛ ولذلك حكم عليها بأن كل بدعة ضلالة. وحقيقة البدعة: ما ابتُدئ وافتُتح من غير أصل شرعي، وهي التي قال فيها - صلى الله عليه وسلم -: من أحدث في أمرنا ما ليس منه فهو ردّ

 تمام نئے امور میں سے گندی چیز بدعت ہے... نئے امور جو برے ہیں ان سے مراد وہ ہیں کہ جن کی اصل شریعت میں ثابت نہ ہو اسی کو بدعت کہتے ہیں اور اسی لئے کہتے ہیں کہ ہر بدعت گمراہی ہے یہی بدعت کی حقیقت ہے حدیث پاک میں ہے کہ جو ہمارے دین میں نئی چیز پیدا کرے تو وہ مردود ہے تو اس سے مراد بھی یہی بدعت ہے کہ جس کی اصل ثابت نہ ہو

(القرطبی..المفهم لما أشكل من تلخيص كتاب مسلم2/508)

.

، ومتى استند المحدث إلى أصل مشروع لم يذم...متى تكون البدعة حسنة؟فالبدعة الحسنة متفق على جواز فعلها والاستحباب لها رجاء الثواب لمن حسنت نيته فيها، وهي كل مبتدع موافق لقواعد الشريعة غير مخالف لشيء

 ہر وہ نیا کام کہ جس کی اصل ثابت ہو تو اس کی مذمت نہیں ہے... بدعت کب حسنہ ہو جاتی ہے کہ اس پر عمل جائز ہو جائے اور ثواب کی امید ہو تو بظاہر جو بدعت ہو وہ اگر شرعی قواعد کے موافق ہو تو بدعت حسنہ ہے

(حقيقه السنة والبدعة للسيوطي ص92)

.

ما ليس له أصلٌ في الشرع، وإنما الحامل عليه مجرد الشهوة أو الإرادة، فهذا باطلٌ قطعًا، بخلاف محدَثٍ له أصلٌ في الشرع إما بحمل النظير على النظير، أو بغير ذلك؛ فإنه حسنٌ....فالحاصل: أن البدعة منقسمةٌ إلى الأحكام الخمسة؛ لأنها إذا عرضت على القواعد الشرعية. . لم تخل عن واحدٍ من تلك الأحكام

 ہر وہ بدعت کہ جس کی شریعت میں اصل ثابت نہ ہو بلکہ اس پر عمل کرنے کے لیے خواہش نفس ہی ہو تو یہ قطعاً باطل بدعت ہے اور وہ نیا کام کہ جو بظاہر بدعت ہو لیکن اس کی شریعت میں اصل موجود ہو تو وہ بدعت حسنہ ہے... الحاصل بدعت کی پانچ قسمیں ہیں کیونکہ بدعت کو قواعد شریعت پر پرکھا جائے گا تو پانچ قسمیں بنیں گی

(الفتح المبين بشرح الأربعين لابن حجر الہیثمی ص476)

.

وَمَا كَانَ مِنْ بِدْعَةٍ لَا تُخَالِفُ أَصْلَ الشَّرِيعَةِ وَالسُّنَّةِ فَتِلْكَ نِعْمَتِ الْبِدْعَةُ

 وہ بدعت کے جو شریعت کے اصولوں کے خلاف نہ ہو تو وہ کیا ہی اچھی بدعت ہے

(كتاب الاستذكار لابن عبد البر 2/67)

.

وَصَفَهَا بِنِعْمَتْ لِأَنَّ أَصْلَ مَا فَعَلَهُ سُنَّةً

 جس کی اصل سنت سے ثابت ہو تو وہ کیا ہی اچھی بدعت ہے

(شرح الزرقاني على الموطأ1/418)

.

وَإِنْ لَمْ تُوجَدْ فِي الزمان الأول، فأصولها موجودة

 بدعت حسنہ کے مروجہ طریقے کہ جو بظاہر پہلے کے زمانے میں نہ تھے لیکن اس کے اصول موجود تھے تو اس لیے یہ اچھی بدعت ہیں

(الاعتصام للشاطبي ت الشقير والحميد والصيني1/48)

.

، وإلا فقد عرفت أن من البدع ما هو واجب....، أو مندوب

 ورنہ آپ جانتے ہیں کہ بدعت کی ایک قسم واجب بھی ہوتی ہے اور ایک قسم اچھی بھی ہوتی ہے

(عبدالحق محدث دہلوی، لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح1/507)

.

وَعَنْ زَيْنِ الْعَرَبِ الْبِدْعَةُ مَا أُحْدِثَ عَلَى غَيْرِ قِيَاسِ أَصْلٍ مِنْ أُصُولِ الدِّينِ.وَعَنْ الْهَرَوِيِّ الْبِدْعَةُ الرَّأْيُ الَّذِي لَمْ يَكُنْ لَهُ مِنْ الْكِتَابِ وَلَا مِنْ السُّنَّةِ سَنَدٌ ظَاهِرٌ أَوْ خَفِيٌّ مُسْتَنْبَطٌ وَقِيلَ عَنْ الْفِقْهِيَّةِ الْبِدْعَةُ الْمَمْنُوعَةُ مَا يَكُونُ مُخَالِفًا لِسُنَّةٍ أَوْ لِحِكْمَةِ مَشْرُوعِيَّةِ سُنَّةٍ فَالْبِدْعَةُ الْحَسَنَةُ لَا بُدَّ أَنْ تَكُونَ عَلَى أَصْلٍ وَسَنَدٍ ظَاهِرٍ أَوْ خَفِيٍّ أَوْ مُسْتَنْبَطٍ

 خلاصہ

 امام زین العرب فرماتے ہیں کہ حقیقتا شرعا بدعت اس کو کہتے ہیں کہ جو اصول دین کے قیاس سے ثابت نہ ہو، امام ھروی فرماتے ہیں کہ شرعا بدعت وہ ہے کہ جس کی قرآن اور سنت سے اصل ظاہر نہ ہو یا جسکی خفی اصل ثابت نہ ہو یا جسکی مستنبط اصل نہ ہو تو وہ شرعا بدعت ہے برائی ہے وگرنہ جسکی اصل ظاہر یا اصل خفی یا اصل مستنبط موجود ہو وہ بدعت حسنہ ہے

( بريقة محمودية في شرح طريقة محمدية وشريعة نبوية في سيرة أحمدية1/87)

.

فكم من محدث حسن كما قيل في إقامة الجماعات في التراويح إنها من محدثات عمر رضي الله عنه وأنها بدعة حسنة إنما البدعة المذمومة ما يصادم السنة القديمة أو يكاد يفضي إلى تغييرها

 کئ ایسے نئے امور ہوتے ہیں کہ جو بدعت حسنہ کہلاتے ہیں جیسے کہ تراویح کی (مستقل)جماعت کروانا یہ سیدنا عمر کی بدعات حسنہ میں سے ہے ... حقیقی بدعت تو وہ ہے یا بدعت مذمومہ تو وہ ہے کہ جو سنت قدیمہ کے خلاف ہو یا سنت کو تغیر کرنے والی ہو

(الغزالي ,إحياء علوم الدين ,1/276)



.

لَكِنْ قَدْ يَكُونُ بَعْضُهَا غَيْرَ مَكْرُوهٍ فَيُسَمَّى بِدْعَةً مُبَاحَةً وَهُوَ مَا شَهِدَ لِجِنْسِهِ أَصْلٌ فِي الشَّرْعِ

 جو کام بظاہر بدعت ہو لیکن وہ مکروہ نہیں ہوتے تو اس کو بدعت مباحہ کہتے ہیں وہ وہ ہے کہ جس کی اصل شریعت میں ثابت ہو

(فقه حنفي البحر الرائق 3/258)


.

البدعة منقسمة إلى واجبة ومحرمة ومندوبة ومكروهة ومباحة, قال: والطريق في ذلك أن تعرض البدعة على قواعد الشريعة, فإن دخلت في قواعد الإيجاب .. فهي واجبة أو في قواعد التحريم .. فمحرمة, أو المندوب .. فمندوبة, أو المكروه .. فمكروهة, أو المباح .. فمباحة

 بدعت کی درج ذیل قسمیں ہے واجب مکروہ حرام مستحب مباح.... اس کی صورت یہ ہے کہ بدعت کو شریعت کے قواعد پر پرکھا جائے گا اگر وہ واجب کے قواعد میں ہو تو بدعت واجبہ ہے اگر وہ حرام کے قواعد میں ہو تو بدعت حرام ہے اور اگر وہ مستحب کے زمرے میں آتی ہوں تو بدعت مستحب ہے اور اگر وہ مکروہ کے تحت آتی ہو تو مکروہ ھے ورنہ مباح ہے

(فقہ شافعی النجم الوهاج في شرح المنهاج10/323)

(فقہ حنفی رد المحتار,1/560 نحوہ)

.

✍تالیف و تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.