Labels

سیدنا معاویہ کے اسلام پر حملے کا رد...شرائط صلح سیدنا حسن

*ایمان سیدنا معاویہ پر حملہ کرنے،شرط توڑنے والا خائن کہنے کا رد اور پیر طیب شاہ گیلانی کو جواب و دعوت انصاف...!!*

تمھید:

مقرر پیر طیب شاہ گیلانی صاحب کی ایک ویڈیو کی فیسبک لنک مجھے ایک شاہ صاحب نے بھیجی اور فرمایا کہ اس کے بارے میں مدلل رد لکھو کہ جلسے میں اور پھر سوشل میڈیا میں یہ غلط نظریہ پھیلا رہا ہے... میں نے عرض کیا قبلہ آپ کیا فرماتے ہیں، شاہ صاحب نے فرمایا ہماری نظر میں تو انہیں شاہ صاحب کہنا بھی توہین ہے کہ یہ رافضیت پھیلا رہے ہیں رافضیت اپنا رہے ہیں، یہ پیر نہیں پیڑ ہیں... شاہ صاحب کو شاہ صاحب کا جواب کافی ہے ہم نسبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال کرتے ہوئے محض علمی جواب پیش کر رہے ہیں

.

مقرر صاحب کی بات کا خلاصہ:

 مقرر پیر طیب شاہ گیلانی فرماتے ہیں کہ صلح حسن کا پردہ رہنے دو ورنہ ممدوح کو مسلمان ثابت کرنا تمھارے لیے مشکل ہو جائے گا اور پھر فرماتے ہیں کہ کوئی پنچایت صلح اس طرح کرے کہ فلاں کام نہ کرو گے اگر کر لیا تو صلح نہ رہی ناں.... متفقہ شرط تھی کہ ولی عہد نہ کرو گے اور وہ ولی عہد کر دیا تو صلح تو نہیں نہ رہی ناں....!!

.

*جواب.و.تحقیق.......!!*

پہلی بات:

 شاہ صاحب آپ نے سیدنا معاویہ کا نام لینا تک گوارا نہ کیا، میں آپ سے کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن غیر سادات جو سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا نام لینا بھی گوارا نہ کریں ان کے بارے میں ضرور کہوں گا کہ ظالمو کیا تمھارے سینے میں اتنا بغض بھرا ہے کہ سیدنا معاویہ کا نام لینا بھی گوارا نہیں کر رہے.....؟؟ ارے او غیر سید ظالمو ذرا غور تو کرو کہ سیدنا معاویہ کا نام نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے لب مبارک پر کتنی دفعہ آیا ہوگا....؟؟ ایک جھلک دیکھیے معاویہ نام لب مبارک پے، قربان جائیے... نیز ان حوالہ جات سے شان معاویہ بھی ثابت ہورہی ہے اور سیدنا معاویہ کا مسلمان مومن ہونا بھی ثابت ہو رہا ہے

.

 النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اللَّهُمَّ عَلِّمْ مُعَاوِيَةَ الْحِسَابَ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یا اللہ معاویہ کو حساب کا علم عطا فرما

(التاریخ الکبیر امام بخاری7/321)

.

ادْعُوا لِي مُعَاوِيَةَ ، فَلَمَّا وَقَفَ عَلَيْهِ ، قَالَ : أَشْهِدُوهُ أَمَرَكُمْ ، أَحْضِرُوهُ أَمَرَكُمْ ، فَإِنَّهُ قَوِيُّ أَمِينٌ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا معاویہ کو بلاؤ جب وہ حاضر ہوئے تو فرمایا معاویہ کو اپنے معاملات میں شامل کیا کرو اس سے مشورہ کیا کرو بے شک وہ قوی(علم و حکمت و تجربے والا) ہے آمین ہے امانت دار ہے

(البحر الزخار بمسند البزاز حدیث2987)

.

النبي صلى الله عليه وسلم انه قال لمعاوية: " اللهم اجعله هاديا مهديا واهد به

صحابی رسول عبدالرحمٰن بن ابی عمیرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے معاویہ رضی الله عنہ کے بارے میں فرمایا: ”اے اللہ! تو ان کو ہدایت دے اور ہدایت یافتہ بنا دے، اور ان کے ذریعہ لوگوں کو ہدایت دے

(ترمذی حدیث3842)

.

 ذرا سوچو ظالمو سیدنا علی اہل بیت صحابہ کرام کے زبان مبارک پر کتنی دفعہ نام معاویہ آیا ہوگا.....؟؟ ایک جھلک ملاحظہ کیجیے

 سَمِعْتُ بْنَ مُنَبِّهٍ عَنِ ابْنِ عباس قال ما رأيت احدا اخلق للملك مِنْ مُعَاوِيَةَ

سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کے میں نے(رسول کریم اور خلفاء راشدین وغیرہ مستحقین کے بعد) معاویہ سے بڑھ کر حکومت کے لیے بادشاہت کے لیے کسی کو عظیم مستحق ترین , لائق ترین اور عظیم  اخلاق والا  نہیں پایا 

(التاریخ الکبیر امام بخاری7/321)

.

جبریل بھی معاویہ فرما رہے ہیں...پڑہیے تو

الحدیث:

جَاءَ جِبْرِيلُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، اسْتَوْصِ مُعَاوِيَةَ ; فَإِنَّهُ أَمِينٌ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ، وَنِعْمَ الْأَمِينُ هُوَ

جناب جبریل رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: اے محمد! معاویہ سے خیر خواہی کرو کیونکہ وہ اللہ کی کتاب پر امین ہیں اور وہ کیا ہی اچھے امین ہیں۔

(الطبراني ,المعجم الأوسط ,4/175حدیث3902)

(جامع الأحاديث ,1/200حدیث321)

.

* معاویہ نام تو اہل بیت میں تھا ذرا سوچئیے اہل بیت اطہار کتنی دفعہ سیدنا معاویہ کا نام لیتے ہو نگے.....؟؟*

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ کی ایک بیٹی رملہ کی جس سے شادی ہوئی اس کا نام معاویہ بن مروان ہے یعنی حضرت علی کے داماد کا نام معاویہ ہے

وكانت رملة بنت علي عند أبي الهياج، واسمه عبد الله، بن أبي سفيان بن الحارث بن عبد المطلب، ولدت له؛ وقد انقرض ولد أبي سفيان بن الحارث؛ ثم خلف عليها معاوية بن مروان

(نسب قریش ص45)

.


حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ کے بھائی حضرت جعفر طیار کے پوتے کا نام معاویہ بن عبداللہ بن جعفر ہے

مُعَاوِيَة بْن عَبْد اللَّه بْن جَعْفَر بْن أَبِي طالب

(التاريخ الكبير للبخاري - ت المعلمي اليماني7/331)

.##################

*دوسری بات.......!!*

 آپ خود کہہ رہے ہیں کہ پردا رہنے دو اور پھر خود ہی تضاد بیانی کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ یہ پردہ ختم ہوچکا صلح توڑ دی....گویا آپ کے مطابق سیدنا معاویہ کا ایمان ہی ثابت نہیں جبکہ رسول کریم اللہ علیہ وسلم کے مطابق تو سیدنا معاویہ جنتی قرار پائے ہیں، ایسی تضاد بیانی کو حدیث پاک کی خلاف ورزی اور حدیث کا انکار و منافقت نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے.....؟؟

الحدیث:

أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ البَحْرَ قَدْ أَوْجَبُوا

میری امت کا پہلا گروہ کہ جو بحری جہاد کرے گا ان کے لئے جنت واجب ہے 

(صحيح البخاري,4/42حدیث2924)

(المعجم الكبير  للطبراني حدیث323)

(دلائل النبوة للبيهقي مخرجا 6/452)

(مستدرك للحاکم4/599حدیث8668)

۔

أَرَادَ بِهِ جَيش مُعَاوية،وَإِنَّمَا مَعْنَاهُ: أوجبوا اسْتِحْقَاق الْجنَّة

مذکورہ حدیث میں جنتی گروہ سے مراد سیدنا معاویہ کا گروہ ہے اور اس کا معنی یہ ہے کہ جنت کا مستحق ہونا واجب ہوگیا 

(عمدة القاري شرح صحيح البخاري14/198ملتقطا)

.

أَوَّلَ مَا رَكِبَ الْمُسْلِمُونَ الْبَحْرَ مَعَ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ،

 سب سے پہلے مسلمانوں نے جو بحری جہاد کیا وہ معاویہ بن سفیان کے ساتھ کیا 

(سنن ابن ماجه ,2/927)

.

أَوَّلَ مَا رَكِبَ الْمُسْلِمُونَ الْبَحْرَ مَعَ مُعَاوِيَةَ،

سب سے پہلے مسلمانوں نے جو بحری جہاد کیا وہ معاویہ بن سفیان کے ساتھ کیا 

(صحيح ابن حبان - محققا10/468)

.

 أَوَّلَ مَا رَكِبَ الْمُسْلِمُونَ الْبَحْرَ مَعَ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ

سب سے پہلے مسلمانوں نے جو بحری جہاد کیا وہ معاویہ بن سفیان کے ساتھ کیا 

(دلائل النبوة للبيهقي محققا6/451)

.

أَوَّلُ مَا رَكِبَ الْمُسْلِمُونَ الْبَحْرَ مَعَ مُعَاوِيَةَ

سب سے پہلے مسلمانوں نے جو بحری جہاد کیا وہ معاویہ بن سفیان کے ساتھ کیا 

(فتح الباري لابن حجر11/75)

.

وَكَانَ أَوَّلَ مَنْ غَزَاهُ مُعَاوِيَةُ فِي زَمَنِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْهِمَا

سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے سب سے پہلے بحری جہاد کیا سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں 

(الشريعة للآجري تحت الحدیث1922)

.

أول من غزا البحر معاوية في زمن عثمان،

سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے سب سے پہلے بحری جہاد کیا سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں

(ذخيرة العقبى في شرح المجتبى26/284)

.

أَوَّلَ مَا رَكِبَ الْمُسْلِمُونَ الْبَحْرَ مَعَ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ

سب سے پہلے مسلمانوں نے جو بحری جہاد کیا وہ معاویہ بن سفیان کے ساتھ کیا

(البداية والنهاية ط الفكر6/222)

.

 أَوَّلُ مَنْ غَزَا فِي الْبَحْرِ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ زَمَانَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ

سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے سب سے پہلے بحری جہاد کیا سیدنا عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے میں

(تاريخ الطبري4/260)


.

هذا الحديث منقبة لمعاوية لأنه أول من غزا في البحر

یہ حدیث سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی منقبت ثابت کرتی ہے کیونکہ سیدنا معاویہ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے بحری جہاد کیا 

(السراج المنير شرح الجامع الصغير,2/205)

.

وَفِيهِ فَضْلٌ لِمُعَاوِيَةَ إِذْ جَعَلَ مَنْ غَزَا تَحْتَ رَايَتِهِ مِنَ الْأَوَّلِينَ

یعنی اس حدیث پاک سے معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کیونکہ انہی کے جھنڈے تلے مسلمانوں نےسب سے پہلے بحری جہاد کیا

(الاستذکار لابن عبد البر5/128)

.#################

*تیسری بات......!!*

 سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ میرا بیٹا صلح کراے گا دو مسلمان گروہوں کے درمیان... اس کا مطلب ہوا کہ یہ صلح قائم رہے گی اور دونوں گروہ مسلمان ہونگے ورنہ صلح ٹوٹ جائے تو صلح کہاں رہی آپ کے مطابق بھی.....لیھذا اس حدیث پاک کا تقاضہ ہے کہ یہ صلح قائم رہی جبکہ آپ کہہ رہے کہ صلح قائم نہ رہی جوکہ آپ کی بظاہر حدیث پاک کی خلاف ورزی کہلائے گی، حدیث پاک کا انکار کہلائے گا، ایک بشارت نبوی کا انکار کہلائے گا...اللہ کی پناہ

الحديث:

إِنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ، وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ

 نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بےشک یہ میرا بیٹا حسن سردار ہے اللہ تعالی اس کے ذریعہ سے دو عظیم مسلمان گروہوں کے درمیان صلح فرمائے گا

(بخاری حدیث2704)

.###############

*چوتھی بات......!!*

 سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی حیات مبارکہ میں یزید کو اپنا جانشین بنایا اس وقت یزید پلید نہ تھا... اگر سیدنا معاویہ نے کسی شرط کو توڑا ہوتا تو سیدنا حسن اور حسین رضی اللہ عنھما اسی وقت فورا آواز اٹھاتے جب کہ انہوں نے آواز نہیں اٹھائی اس کا مطلب کہ شرط کو توڑا نہیں گیا جب کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ شرط کو توڑا گیا... سیدنا معاویہ نے جب یزید کو ولی عہد اپنی حیات میں ولی عہد بنایا تو اس وقت سیدنا حسین نے آواز نہ اٹھائی اس کا مطلب یہ ہے کہ شرائط صلح حسن میں ولی عہد نہ کرنے کی کوئی شرط نہ تھی، جبکہ آپ کہہ رہے ہیں کہ ولی عہد نہ کرنے کی شرط تھی... یہ آپ کے تضادات ہیں جنہیں ہم ادباً آپ کی منافقت و دلی بغض نہیں کہہ رہے

سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے متفقہ شرائط کو نہیں توڑا ورنہ یقینا سیدنا حسن اور حسین چپ نہ  بیٹھتے...

.هذا ما صالح عليه الحسن بن علي بن أبي طالب معاوية بن أبي سفيان: صالحه على أن يسلم إليه ولاية أمر المسلمين، على أن يعمل فيهم بكتاب الله وسنة رسوله صلى الله عليه وآله وسيرة الخلفاء الصالحين

(شیعوں کے مطابق)امام حسن نے فرمایا یہ ہیں وہ شرائط جس پر میں معاویہ سے صلح کرتا ہوں، شرط یہ ہے کہ معاویہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ اور سیرتِ نیک خلفاء کے مطابق عمل پیرا رہیں گے

(شیعہ کتاب بحار الانوار جلد44 ص65)

سیدنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے "نیک خلفاء کی سیرت" فرمایا جبکہ اس وقت شیعہ کے مطابق فقط ایک خلیفہ برحق امام علی گذرے تھے لیکن سیدنا حسن "نیک خلفاء" جمع کا لفظ فرما رہے ہیں جسکا صاف مطلب ہے کہ سیدنا حسن کا وہی نظریہ تھا جو سچے اہلسنت کا ہے کہ سیدنا ابوبکر و عمر و عثمان و علی رضی اللہ عنھم خلفاء برحق ہیں تبھی تو سیدنا حسن نے جمع کا لفظ فرمایا...اگر شیعہ کا عقیدہ درست ہوتا تو "سیرت خلیفہ" واحد کا لفظ بولتے امام حسن....اور دوسری بات یہ بھی کہ سیدنا معاویہ خلفاء راشدین کی راہ حق پے چلے، متفقہ شرائط پر عمل کیا، شرائط نہ توڑیں، ولی عہد کرنے کی کوئی شرط متفقہ طور پر نہ تھی ورنہ سیدنا حسن حسین رضی اللہ تعالیٰ عنھما ضرور بیعت توڑ دیتے،سیدنا حسن حسین کی صلح رسول کریم کی صلح ہے جو سیدنا معاویہ کو عادل بادشاہ بنا دیتی ہے

.#################

*پانچویں بات.......!!*

شرائط صلح امام حسن

فأرسل إليه الحسن يبذل له تسليم الأمر إليه، على أن تكون له الخلافة من بعده، وعلى ألا يطالب أحدًا من أهل المدينة والحجاز والعراق بشيء مما كان أيام أبيه، وعلى أن يقضي ديونه، فأجاب معاوية إلى ما طلب، فاصطلحا على ذلك فظهرت  المعجزة النبوية في قوله صلى الله عليه وسلم: "يصلح الله به بين فئتين من المسلمين"

(پہلی شرط:)

سیدنا حسن نے سیدنا معاویہ کی طرف پیغام بھیجا کہ وہ سیدنا معاویہ کو خلافت اور حکومت دینے کے لیے تیار ہیں ان شرائط پر کہ سیدنا معاویہ کے بعد حکومت سیدنا حسن کو ملے گی

اور

(دوسری شرط)

اہل مدینہ، اہل حجاز اور اہل عراق سے(محض اختلاف و گروپ کی وجہ سے)کوئی مطالبہ مواخذہ نہیں کیا جائے گا(شرعا جو مواخذہ ہوگا وہ کیا جائے گا)

اور

(تیسری شرط)

ایک شرط یہ تھی کہ سیدنا معاویہ حضرت امام حسن کا قرض چکائیں گے تو حضرت معاویہ نے ان شرائط پر صلح کرلی تو معجزہ نبوی ظاہر.و.پورا ہوا کہ جو آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا تھا کہ اللہ تعالی میرے اس بیٹے کے ذریعے سے دو مسلمان گروہوں کے درمیان صلح کرائے گا 

(تاريخ الخلفاء ص147)

(سمط النجوم العوالي3/89)

(أسد الغابة ط الفكر1/491)

(تهذيب الأسماء واللغات1/159)

.

(چوتھی شرط)

وإني قد أخذت لكم على معاوية أن يعدل فيكم

امام حسن نے فرمایا کہ میں نے سیدنا معاویہ سے یہ عہد لیا ہے کہ وہ تم میں عدل کا معاملہ کریں گے 

(الطبقات الكبرى-متمم الصحابة1/326)

.

.

(پانچویں غیر متفقہ غیر ثابت شرط)

*#غیر متفقہ غیرثابت شرط کہ ولی عہد نہ کریں گے:*

صالحه عَلَى أن يسلم إِلَيْهِ ولاية أمر المسلمين عَلَى أن يعمل فِيهَا بكِتَاب اللَّهِ وسنة نبيه وسيرة الخلفاء الصالحين؟! وعلى أنه ليس لمعاوية أن يعهد لأحد من بعده، وأن يكون الأمر شورى....ردھما الی معاویہ

سیدنا امام حسن نے اس بات پر صلح کی کہ سیدنا معاویہ کو وہ حکومت دیں گےاس شرط پر کہ سیدنا معاویہ عمل کریں گے کتاب اللہ پر نبی پاک کی سنتوں پر اور خلفائے راشدین کی سیرت پر۔۔۔۔۔۔اور سیدنا معاویہ اپنے بعد کسی کو مقرر نہ کریں گے بلکہ معاملہ شوری پر چھوڑیں گے۔۔۔یہ شرائط لکھ کر سیدنا معاویہ کی طرف خط بھیجا  

(أنساب الأشراف للبلاذري3/42)

.

متنازعہ شرط نہ منظور ہوکر صلح ہوئی:

فَلَمَّا أَتَتِ الصَّحِيفَةُ إِلَى الْحَسَنِ اشْتَرَطَ أَضْعَافَ الشُّرُوطِ الَّتِي سَأَلَ مُعَاوِيَةَ قَبْلَ ذَلِكَ وَأَمْسَكَهَا عِنْدَهُ، فَلَمَّا سَلَّمَ الْحَسَنُ الْأَمْرَ إِلَى مُعَاوِيَةَ طَلَبَ أَنْ يُعْطِيَهُ الشُّرُوطَ الَّتِي فِي الصَّحِيفَةِ الَّتِي خَتَمَ عَلَيْهَا مُعَاوِيَةُ، فَأَبَى ذَلِكَ مُعَاوِيَةُ وَقَالَ لَهُ: قَدْ أَعْطَيْتُكَ مَا كُنْتَ تَطْلُبُ فَلَمَّا اصْطَلَحَا

جو صحیفہ امام حسن کی طرف معاویہ نے روانہ کیا تھا جس پر مہر لگائی تھی امام حسن نے مذکورہ شرائط کے علاوہ کئ شرائط لگا دی تو حضرت معاویہ نےان(زائد)شرائط کو پورا کرنے سے انکار کر دیا پھر جب(زائد متنازع شرائط کو نکال کر ) دونوں نے صلح کرلی

(الكامل في التاريخ ج3 ص6)

۔

تفصیل:

یہ پانچویں شرط کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کتاب اللہ پر عمل کریں گے سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کریں گے اور خلفائے راشدین کی سنت پر عمل کریں گے تو سیدنا معاویہ کی حکومت سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کی طرح تھی، سیدنا معاویہ سیدنا عمر کے نقش قدم پر چلے۔۔۔باقی رہی بات یہ کہ سیدنا معاویہ اپنے بعد کسی کو ولی عہد بنا کر نہ جائیں گےتو اس شرط کے غیرمتفقہ غیرموجود مردود ہونے کی چار وجوہات ہیں

①ایک وجہ یہ ہے کہ سب سے پہلی شرط یہ تھی کہ حکومت سیدنا معاویہ کے بعد سیدنا حسن کو ملے گی شوری کا تو تذکرہ ہی نہیں تھا جبکہ یہ پانچویں شرط شوری کا بتا رہی ہے لیھذا یہ شرط پہلی شرط کے خلاف و مردود ہے…پہلی شرط میں یہ ہے کہ سیدنا حسن کو بعد از سیدنا معاویہ خلافت ملے گی، پہلی شرط میں یہ نہیں لکھا کہ سیدنا حسین کو حکومت ملے گی لیھذا سیدنا حسن کی وفات ہوگئ تو پہلی شرط خود بخود کالعدم ہوگئ اس لیے سیدنا معاویہ نے اجتہاد کرتے ہوئے یزید کے لیے بیعت لی...ولی عہد کو زیادہ سے زیادہ سیدنا معاویہ کا اجتہادی معاملہ کہا جاسکتا ہے مگر سیدنا معاویہ کو بدعہد خائن دھوکےباز نہیں کہا جاسکتا

②اور کسی کو  ولی عہد مقرر نہ کرنے کی یہ شرط کسی معتبر تاریخ کی کتاب میں بھی نہیں آئی۔۔۔

③نیز یہ بھی کتابوں میں آیا ہے کہ کچھ شرطیں ایسی تھی کہ جن کو سیدنا معاویہ نے رد کر دیا تھا تو عین ممکن ہے کہ یہ بھی انہی شرائط میں سے ہوں کہ جن کو سیدنا معاویہ نے رد کر دیا اور اس کے بعد سیدنا حسن نے بھی قبول فرما کر ان سے صلح ہو گئی ہو

④ سیدنا معاویہ نے اپنی حیات مبارکہ میں ہی یزید کو ولی عہد کیا تھا اگر یہ شرط کی خلاف ورزی ہوتی تو سیدنا حسین فورا معاہدے کی خلاف ورزی پر احتجاج کرتے آواز اٹھاتے جبکہ سیدنا حسین نے ایسا نہیں کیا اس کا مطلب ایسی کوئی بھی شرط نہیں تھی

.################

*چھٹی بات......!!*

 آپ کہہ رہے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے ایمان کی صرف ایک دلیل ہے صلح حسن... جبکہ سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ کی صلح بھی سیدنا معاویہ کے ایمان کی واضح دلیل ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اور بھی کئی دلائل ہیں جن سے سیدنا معاویہ کا ایمان ثابت ہوتا ہے جیسے کہ آیت مبارکہ ہے کہ جو فتح مکہ سے پہلے ایمان لائے جو بعد میں ایمان لائے ان سب صحابہ کرام کے لئے جنت کا وعدہ ہے... پھر صحیح بخاری کی حدیث پاک کہ نبی پاک نے اول سمندری جہاد کرنے والوں کے لیے جنت کی بشارت دی ہے یہ بھی سیدنا معاویہ کے ایمان کی دلیل ہے مسلمان جنتی ہونے کی دلیل ہے، پھر سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق احادیث مبارکہ اور صحابہ کرام کے اقوال اور اسلاف کے اقوال تابعین کے اقوال یہ سب واضح کرتے ہیں کہ سیدنا معاویہ مسلمان تھے ایمان والے تھے یہ سب بھی دلائل ہیں حتی کہ شیعہ کتب میں بھی یہ بات لکھی کہ سیدنا معاویہ کی وفات پر امام حسین نے ان للہ پڑھا جو کہ کسی مسلمان کی وفات پر پڑھا جاتا ہے

.

فنعى الوليد إليه معاوية فاسترجع الحسين...سیدنا حسین کو جب سیدنا معاویہ کی وفات کی خبر دی گئ تو آپ نےاِنَّا لِلّٰہِ وَ  اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ پڑھا…(شیعہ کتاب اعلام الوری طبرسی1/434) مسلمان کو کوئی مصیبت،دکھ ملےتو کہتے ہیں اِنَّا لِلّٰہِ وَ  اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ(سورہ بقرہ156)ثابت ہوا سیدنا معاویہ امام حسین کے مطابق کافر ظالم منافق خائن بدعہد عہد توڑنے والے دشمن برے ہرگز نہ تھے

.################

*ساتویں بات.......!!*

 سیدنا ابوبکر صدیق سیدنا عمر فاروق سیدنا عثمان سیدنا علی سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین وغیرہ  کسی بھی صحابی کے متعلق کوئی شخص گستاخی کرے کفر منافقت کی بات کرے، ان میں سے کسی کے ایمان پر یا کسی بھی صحابی کے ایمان پر شک کرے تو علماء نے اسلاف نے فرمایا ہے کہ اس شخص کے مسلمان ہونے پر شک کرو وہ رافضی ہے بدمذہب ہے اسے بائیکاٹ کرو، اس کے پیچھے نماز نہ پڑھو اس کی باتیں نہ سنو، اور مزید علماء اہلسنت کا کیا فتویٰ ہے ملاحظہ کیجئے

قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ: أَيُّهُمَا أَفْضَلُ: مُعَاوِيَةُ أَوْ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ؟ فَقَالَ: «مُعَاوِيَةُ أَفْضَلُ، لَسْنَا نَقِيسُ بِأَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدًا» . قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِيَ الَّذِينَ بُعِثْتُ فِيهِمْ

 امام احمد بن حنبل سے سوال کیا گیا کہ سیدنا معاویہ افضل ہیں یا عمر بن عبدالعزیز، امام احمد بن حنبل نے فرمایا ہے کہ سیدنا معاویہ افضل ہیں... ہم کسی غیر صحابی(حتی کہ عظیم الشان تابعی وغیرہ جیسے عمر بن عبدالعزیز)کو(سیدنا معاویہ وغیرہ)کسی صحابی کے برابر نہیں کرسکتے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ سب سے افضل ترین وہ لوگ(صحابہ) ہیں کہ جن میں میں ظاہری حیات رہا

(السنة لأبي بكر بن الخلال2/434)

.

ثابت ہوا سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فضیلت والے صحابی ہیں اور عظیم الشان تابعی سیدنا عمر بن عبدالعزیز سے بھی زیادہ افضل قرار دیا اور عظمت والا صحابی قرار دیا سیدنا معاویہ کو امام احمد بن حنبل نے

: قلتُ لأبي عبد اللَّه: أيهما أفضل: معاوية أو عمر بن عبد العزيز؟فقال: معاوية أفضل، لسنا نقيس بأصحاب رسول اللَّه -صلى اللَّه عليه وسلم- أحدًا؛ قال النبي -صلى اللَّه عليه وسلم-: "خيرُ الناسِ قرني الذي بعثتُ فيهم

 امام احمد بن حنبل کے بیٹے کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد صاحب سے پوچھا کہ کون افضل ہے سیدنا معاویہ یا عمر بن عبدالعزیز.....؟؟ امام احمد بن حنبل نے فرمایا سیدنا معاویہ افضل ہیں اور فرمایا کہ ہم وہ لوگ نہیں کہ جو صحابہ کرام کے برابر کسی(تابعی وغیرہ) کو کہیں، صحابہ کرام تو وہ عظیم شخصیت ہیں جن کے بارے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بہترین لوگ وہ ہیں کہ جن میں مجھے مبعوث کیا گیا

(كتاب الجامع لعلوم الإمام أحمد - العقيدة4/465)

.

 امام احمد بن حنبل نے سیدنا معاویہ کو فضیلت والا صحابی قرار دیا جیسے کہ اوپر حوالہ جات گذرے اور پھر امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ کسی بھی ایک صحابی کی کوئی توہین کرے تو اس کو اسلام پر مت سمجھو

قَالَ لِي أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: يَا أَبَا الْحَسَنِ، إِذَا رَأَيْتَ رَجُلًا يَذْكُرُ أَحَدًا مِنَ الصَّحَابَةِ بِسُوءٍ فَاتَّهِمْهُ عَلَى الْإِسْلَامِ

 راوی کہتے ہیں کہ مجھے امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ جب تم کسی شخص کو دیکھو کہ کسی بھی ایک صحابی کو برے الفاظ سے یاد کرے تو اس کے ایمان پر شک  کرو

( البداية والنهاية ت التركي11/450)

.

حتی کہ امام احمد بن حنبل کے مطابق جو سیدنا معاویہ وغیرہ کسی صحابی کے بارے میں برا بھلس کہے تو اس سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے ورنہ بائیکاٹ کا حکم دیا امام احمد بن حنبل نے.... ایسے لوگوں کے بیانات وغیرہ روایات وغیرہ نہ سننے نہ ماننے کا حکم دیا امام احمد بن حنبل نے... اور امام احمد بن حنبل نےحکم دیا کہ لوگوں میں ایسوں کی مذمت کی جائے جو سیدنا معاویہ وغیرہ کے متعلق توہین کریں یا بے ادبی کریں

يقول لأبي عبد اللَّه: جاءني كتاب من الرقة أن قومًا قالوا: لا نقول: معاوية خال المؤمنين. فغضب وقال: ما اعتراضهم في هذا الموضع؟ يجفون حتى يتوبوا

 ایک خط آیا لوگوں نے پوچھا کہ آپ کیا فرماتے ہیں معاویہ مومنوں کے ماموں ہیں یا نہیں تو امام احمد بن حنبل غضبناک ہو گئے اور فرمایا یہ( یعنی صحابہ کرام) بھی کوئی اعتراض کی جگہ ہیں....؟؟ ایسے لوگوں سے بے رخی اور سختی سے پیش آیا جائے گا ( بائیکاٹ کیا جائے گا) یہاں تک کہ توبہ کریں

(كتاب الجامع لعلوم الإمام أحمد - العقيدة4/464)

.

وَجَّهْنَا رُقْعَةً إِلَى أَبِي عَبْدِ اللَّهِ: مَا تَقُولُ رَحِمَكَ اللَّهُ فِيمَنْ قَالَ: لَا أَقُولُ إِنَّ مُعَاوِيَةَ كَاتَبُ الْوَحْيِ، وَلَا أَقُولُ إِنَّهُ خَالُ الْمُؤْمِنِينَ، فَإِنَّهُ أَخَذَهَا بِالسَّيْفِ غَصْبًا؟ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: هَذَا قَوْلُ سَوْءٍ رَدِيءٌ، يُجَانَبُونَ هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ، وَلَا يُجَالَسُونَ، وَنُبَيِّنُ أَمْرَهُمْ لِلنَّاسِ

 ہم نے ایک خط امام احمد بن حنبل کی جانب سے لکھا کہ آپ کیا فرماتے ہیں اس شخص کے بارے میں جو کہتا ہے کہ میں معاویہ کو کاتب وحی نہیں کہوں گا اور میں انہیں مومنوں کا ماموں نہیں کہوں گا، معاویہ نے طاقت کے زور پر حکومت حاصل کی ہے.... امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ یہ برا قول ہے ردی قول ہے ایسے قول کہنے والے لوگوں سے کنارہ کشی کی جائے گی ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا نہ کیا جائے گا(بائیکاٹ کیا جائے گا) اور ایسے لوگوں کے کرتوت و مذمت ہم لوگوں میں عام کریں گے( تاکہ لوگ ایسے لوگوں خطیبوں لکھاریوں سے کنارہ کشی کریں اور گمراہ نہ ہوں)

(أبو بكر الخلال ,السنة لأبي بكر بن الخلال ,2/434)

.

مبتدع زنديق من سب معاوية أو غيره من الصحابة رضي الله عنهم أجمعين

 جو سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی گستاخی کرے یا کسی اور صحابی کی گستاخی کرے وہ بدمذہب بدعتی زندیق ہے(شرح أصول اعتقاد أهل السنة للالكائي - محمد حسن عبد الغفار62/18)

.


.

إِسْحَاق بْن إِبْرَاهِيمَ قَالَ: سمعت أبا عبد اللَّه يسأل عَنِ الذي يشتم معاوية نصلي خلفه قَالَ: لا ولا كرامة

 سیدنا اسحاق بن ابراہیم فرماتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل سے پوچھا کہ جو شخص سیدنا معاویہ کی گستاخی کرے کیا ہم اس کے پیچھے نماز پڑھیں تو فرمایا ہر گز نہیں..اور اس گستاخِ معاویہ کی کوئی عزت نہیں

(طبقات الحنابلہ1/108)

.


.أَنَّ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: «الرَّافِضِيُّ الَّذِي يَشْتِمُ...وَسَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ: قَالَ مَالِكٌ: " الَّذِي يَشْتِمُ أَصْحَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ لَهُ سَهْمٌ، أَوْ قَالَ: نَصِيبٌ فِي الْإِسْلَامِ "

 امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ رافضی وہ ہے کہ جو کسی بھی صحابی کی گستاخی کرے توہین کرے... ایسے رافضی کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں

(السنة لأبي بكر بن الخلال3/493بحذف)

.

يا أبا عبد الله: إن ههنا رجل يُفضِّلُ عمر بن عبد العزيز على معاوية بن أبي سفيان، فقال أحمد: لا تجالسه، ولا تؤاكله ولا تشاربه، وإذا مرض فلا تعُده

 امام احمد بن حنبل سے ایک شخص نے عرض کی کے ایک شخص کہتا ہے کہ عمر بن عبدالعزیز معاویہ بن ابی سفیان سے افضل ہے تو امام احمد بن حنبل نے فرمایا کہ ایسے شخص کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا مت رکھ اور اس کے ساتھ کھانا پینا مت رکھ اور جب وہ مریض ہو جائے تو اس کی عیادت نہ کر(مطلب مکمل بائیکاٹ کر)

(ذیل طبقات الحنابلۃ1/301)

.

ائمہ کا یہ فتوی حدیث پاک سے ثابت ہے کہ رسول کریم نے فرمایا:

مَنْ سَبَّ أَصْحَابِي فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے میرے صحابہ کی گستاخی کی اس پر اللہ کی لعنت ہے

(استاد بخاری المصنف - ابن أبي شيبة - ت الحوت6/405)

(فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل2/908نحوہ)

(جامع الأحاديث سیوطی16/149نحوہ)

(السنة لابن أبي عاصم2/483نحوہ)

.

الحدیث:

فَلَا تُجَالِسُوهُمْ، وَلَا تُؤَاكِلُوهُمْ، وَلَا تُشَارِبُوهُمْ، وَلَا تُنَاكِحُوهُمْ، وَلَا تُصَلُّوا مَعَهُمْ، وَلَا تُصَلُّوا عَلَيْهِمْ

ترجمہ:

بدمذہبوں گستاخوں کے ساتھ میل جول نہ رکھو، ان کے ساتھ کھانا پینا نہ رکھو، ان سے شادی بیاہ نہ کرو، ان کے معیت میں(انکے ساتھ یا ان کے پیچھے) نماز نہ پڑھو(الگ پرھو)اور نہ ہی انکا جنازہ پڑھو

[السنة لأبي بكر بن الخلال ,2/483حدیث769]

.

الحدیث:

فلا تناكحوهم ولا تؤاكلوهم ولا تشاربوهم ولا تصلوا معهم ولا تصلوا عليهم

ترجمہ:

بدمذہبوں گستاخوں کے ساتھ شادی بیاہ نہ کرو، ان کے ساتھ کھانا پینا نہ رکھو، ان کے معیت میں (انکے ساتھ یا ان کے پیچھے) نماز نہ پڑھو(الگ پرھو)اور نہ ہی انکا جنازہ پڑھو

[جامع الأحاديث ,7/431حدیث6621]

.

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا

وَإِذَا عَمِلْتَ سَيِّئَةً فَأَحْدِثْ عِنْدَهَا تَوْبَةً، السِّرُّ بِالسِّرِّ، وَالْعَلَانِيَةُ بِالْعَلَانِيَةِ»

 اعلانیہ برائی کی(کفر گمراہی کی یا گناہ کیا) تو اس کی توبہ اعلانیہ کر اور اگر برائی پوشیدہ طور پر کی تو اس کی توبہ بھی پوشیدہ طور پر کر

(الزهد لأحمد بن حنبل حدیث141)

(الجامع الصغير وزيادته حدیث8185)

(كتاب المعجم الكبير للطبراني20/159)

.

*توجہ طلب عرض*

 امید ہے آپ بھی جانتے ہوں گے کہ اعلانیہ غلط بیان کیا جائے تو اس کا مداوا بھی اس طرح ہوتا ہے کہ اعلانیہ توبہ کی جاتی ہے اور ایسے نظریات و عمل و قول سے رجوع کیا جاتا ہے تاکہ عوام و خواص سب کو ایسے نظریات عمل و اقوال سے روکا جاسکے اور گمانوں کا بھی سد باب کیا جاسکے

تو

آپ بےشک میری نہ سنیں مگر معتبر اہلسنت مفتیان کرام و علماء عظام سے پوچھیں، کچھ سادات بھی معتبر اہلسنت عالم و مفتی ہیں ان سے ہی پوچھ لیں کہ آپ کیا کہہ گئے اور اسکا کیا حکم ہے، توبہ تجدید ایمان تجدید نکاح و توبہ کا اعلان اور روک ٹوک آپ پر لازم ہے یا نہیں پوچھیے ان سے…یا خود ہی سوچیے کہ اپ کیا کہہ گئے اور توبہ رجوع اعلانیہ کیجیے، دوسروں کو ایسے نظریات و اقوال سے روکیے

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App,twitter nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.