*متعہ کا حرام ہونا قرآن و حدیث و کتب شیعہ سےاور سیدنا ابن عباس کا رجوع اور کیا سیدہ اسماء بنت ابی بکر نے متعہ کیا جس سےسیدنا عبداللہ بن زبیر پیدا ہوئے....؟؟کیا متعہ کا جواز قران میں ہے…؟؟ اور شیعوں کا متعہ کا فتوی دراصل صحابہ و اہلبیت عورتوں کی عزت پامالی اور مسلمان عورتوں کی عزت پامال کرنا،عیاشی کرنا ہے......!!*
.
سوال:
نہ جانے کس مناسب سے کچھ شیعہ ذاکروں کی ویڈیوز وائرل ہو رہی ہیں اور کئ احباب نے مجھے بھیجیں اور فرمایا کہ اس کا جواب لکھیں...وڈیوز میں شیعہ نام نہاد علماء و ذاکرین کہہ رہے ہیں کہ اہلسنت کتب میں لکھا ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما مرتے دم تک متعہ کو جائز کہتے تھے اور فتح الباری میں ہے کہ سیدنا ابن عباس کا رجوع کا تذکرہ جس روایت میں ہے وہ ضعیف ہے رجوع نہ کرنے کا فتوی ہی صحیح ہے اور متعہ کا ذکر قرآن میں ہے قرآن میں اجورہن ہے اور اجور اجرت کی جمع ہے اور اجرت متعہ میں ہوتی ہے، نکاح میں مھر ہوتا ہے اور ابوبکر کی بیٹی اسماء نے متعہ کیا جس سے تمھارے عظیم الشان صحابی عبداللہ بن زبیر پیدا ہوئے اور تم ہم شیعہ پر اعتراض کرتے ہو، اپنے گھر کی خبر لو
.
*جواب.و.تحقیق.....!!*
*پہلی بحث.....!!*
قرآن سے متعہ ثابت نہیں بلکہ ایات مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ متعہ جائز نہیں
.
شیعہ ذاکرین ماکرین یہ آیت متعہ کے جائز ہونے پر پیش کر رہے ہیں...القرآن:
فَمَا اسۡتَمۡتَعۡتُمۡ بِہٖ مِنۡہُنَّ فَاٰتُوۡہُنَّ اُجُوۡرَہُنَّ
لفظی ترجمہ: تو جن عورتوں سے تم نفع اٹھا لو تو ان کو ان کے اجور دے دو...(نساء آیت24)
شیعہ ذاکرین ماکرین سوشلی شیعہ کہہ رہے ہیں کہ اس آیت میں اجورہن ہے اور اجور اجرت کی جمع ہے اور اجرت متعہ میں ہوتی ہے، نکاح میں مھر ہوتا ہے
.
*پہلا جواب*
تم شیعہ کی تفاسیر میں لکھا ہے کہ اجورہن سے مراد حق مہر بھی ہوتا ہے مثلا قرآن پاک میں ہے
.اَنۡ تَنۡکِحُوۡہُنَّ اِذَاۤ اٰتَیۡتُمُوۡہُنَّ اُجُوۡرَہُنَّ
تم ان عورتوں سے نکاح کرو بشرطیکہ تم ان کے حق مہر دو
(سورہ ممتحنۃ آیت10)
.
شیعہ تفسیر میں ہے کہ:
والاجر المهر
اجرت سے مراد حق مہر ہے
(شیعہ کتاب تفسير الميزان - السيد الطباطبائي19/241)
.
جب اجور سے مراد حق مہر بھی ہوتا ہے تو آیت میں احتمال اگیا کہ اجور سے مراد اجرت ہے یا حق مہر.....؟؟ تو لیجیے شیعہ تفسیر میں ہے کہ اس آیت میں اجور سے مراد حق مھر ہے..
( فآتوهن أجورهن ) يعني مهورهن
ان کے اجور دے دو یعنی حق مہر دے دو
(شیعہ کتاب التبيان في تفسير القرآن،الشيخ الطوسي،3/166)
.
لیھذا تمھاری کتب کے مطابق اجور سے مراد حق مھر ہے اور تمھارے قاعدے کے مطابق مھر نکاح میں ہوتا ہے متعہ میں مھر نہیں ہوتا، اجرت ہوتی ہے تو ثابت ہوا کہ آیت میں نکاح مراد ہے متعہ مراد نہیں
.
*دوسرا جواب*
بعض شیعہ کہتے ہیں کہ اجور سے سے مراد حق مہر ہے اور متعہ میں بھی حق مھر ہوتا ہے
اسکا جواب یہ ہے کہ آیت میں ہے کہ جب تم نفع اٹھاؤ تو مھر دے دو...اب اگر نفع سے مراد متعہ کرکے نفع(جماع لذت) ہے تو معنی ہونگے کہ متعہ میں مھر اس وقت دینا لازم ہے جب جماع وغیرہ کرکے نفع اٹھایا جائے جبکہ کتب شیعہ میں دو ٹوک لکھا ہے کہ متعہ کیا اور نفع نہ اٹھایا تو بھی حق مھر دینا ہوگا
حوالہ:
وإنما يجب كمال المهر بنفس العقد في نكاح المتعة خاصة
ترجمہ:
متعہ کا عقد(ایجاب و قبول) کرتے ہی تمام کا تمام مھر لازم ہوجاتا ہے اور یہ حکم صرف متعہ کے ساتھ خاص ہے(کہ اصلی نکاح کا حکم یہ ہے کہ نفع نہ اٹھایا تو آدھا حق مھر دینا ہوتا ہے)
(شیعہ کتاب تفسير جوامع الجامع1/389)
لیھذا
اس آیت سے ثابت ہوا کہ نفع اٹھاؤ تو مھر دو، یہ حکم اصلی نکاح کا ہے، متعہ میں بغیر نفع اٹھائے بھی پورا مھر دینا ہوتا ہے تو آیت میں اصلی نکاح کا بیان ہے، اس سے متعہ ثابت نہیں ہوتا
.
*تیسرا جواب*
القرآن:
مَنۡ لَّمۡ یَسۡتَطِعۡ مِنۡکُمۡ طَوۡلًا اَنۡ یَّنۡکِحَ الۡمُحۡصَنٰتِ الۡمُؤۡمِنٰتِ فَمِنۡ مَّا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ
تم میں سے جو محصنات عورتوں سے نکاح کی طاقت نہ رکھتا ہو تو وہ لونڈیوں سے(نکاح کرے یا لونڈیوں سے حاجت پوری کرے)
(نساء آیت25)
شیعہ کے مطابق ایک مٹھی کجھور گندم اناج دے کر بھی متعہ ہوسکتا ہے، اتنا آسان ہے متعہ
سألت أبا عبد الله ( عليه السلام ) عن أدنى مهر المتعة ما هو ؟ قال : كف من طعام دقيق أو سويق أو تمر
شیعوں کے مطابق امام جعفر صادق سے سوال کیا گیا کہ متعہ کا حق مہر کم سے کم کتنا ہے تو آپ نے فرمایا کہ ایک مٹھی کسی بھی طعام کی ہو مثلا ایک مٹھی آٹا یا ستو یا ایک مٹھی کھجور وغیرہ
(شیعہ کتاب اصول کافی5/457)
.
اب اگر آیت میں اللہ تعالی نے نکاح متعہ کو اتنا آسان بنایا ہوتا تو پھر دوسری آیت میں اللہ تعالی نے مسلمانوں کو ازدواجی حاجت کو پورا کرنے کے فقط دو طریقے کیوں بتائے...؟؟ ایک طریقہ نکاح اصلی کا اور دوسرا طریقہ لونڈیوں سے ہمبستری کا....اگر متعہ بھی جائز ہوتا تو آیت میں فقط دو طریقے نہ بتائے جاتے بلکہ کہا جاتا کہ اگر نکاح نہیں کرسکتے تو اسان سا متعہ کرو یا اسان سا طریقہ ہے کہ لونڈیوں سے حاجت پوری کرو.......آیت میں متعہ کا نہ بتانا ہی دلیل ہے کہ متعہ جائز ہونے کا ذکر قرآن کی کسی آیت میں نہیں...بلکہ ایت میں ہے کہ
القرآن:
اِلَّا عَلٰۤی اَزۡوَاجِہِمۡ اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُہُمۡ فَاِنَّہُمۡ غَیۡرُ مَلُوۡمِیۡنَ⑥فَمَنِ ابۡتَغٰی وَرَآءَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡعٰدُوۡنَ
اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں بیویوں اور لونڈیوں کے علاوہ کہ ان دو صورتوں میں حاجت پوری کرنے میں ملامت نہیں، اس(لونڈی اور بیوی) کے علاوہ کوئی طریقہ حاجت پوری کا تلاش کریں تو وہی اللہ کی بیان کردہ حدود سے بڑھنے والے ہیں
(سورہ مومنون آیت6..7)
اس آیت مبارکہ میں دو ٹوک ہے کہ بیویوں اور لونڈیوں کے علاوہ کوئی بھی صورت نہیں ہے حاجت پوری کرنے کی لہذا مشت زنی اور متعہ وغیرہ کوئی بھی جائز نہیں ہے
.
مفسر قرآن شیخ الحدیث علامہ غلام رسول سعیدی علیہ الرحمۃ متعہ کے ناجائز ہونے کی ایک دلیل یہ لکھتے ہیں کہ:
اللہ تعالی فرماتا ہے : -
(آیت) ” فانکحوا ماطاب لکم من النساء مثنی وثلاث وربع فان خفتم الا تعدلوا فواحدۃ وما ملکت ایمانکم “۔ (النساء : ٣)-
ترجمہ ؛ جو عورتیں تم کو پسند ہیں ان سے نکاح کرو ‘ دو دو سے تین تین سے اور چار چار سے اور اگر تمہیں یہ خدشہ ہو کہ ان کے درمیان انصاف نہیں کرسکو گے تو صرف ایک نکاح کرو یا اپنی کنیزوں پر اکتفاء کرو۔ -یہ آیت سورة نساء سے لی گئی ہے جو مدنی سورت ہے اور ہجرت کے بعد نازل ہوئی ہے اس آیت میں اللہ تعالی نے قضاء شہوت کی صرف دو جائز صورتیں بیان فرمائی ہیں کہ وہ ایک سے چار تک نکاح کرسکتے ہیں ‘ اور اگر ان میں عدل قائم نہ رکھ سکیں تو پھر اپنی باندیوں سے نفسانی خواہش پوری کرسکتے ہیں اور بس ! اگر متعہ بھی قضاء شہوت کی جائز شکل ہوتا تو اللہ تعالی اس کا بھی ان دو صورتوں کے ساتھ ذکر فرما دیتا اور اس جگہ متعہ کا بیان نہ کرنا ہی اس بات کا بیان ہے کہ وہ جائز نہیں ہے۔ اوائل اسلام سے لے کر فتح مکہ تک متعہ کی جو شکل معمولی اور مباح تھی اس آیت کے ذریعہ اس کو منسوخ کردیا گیا۔ -شیعہ حضرات کو اگر شبہ ہو کہ اس آیت میں لفظ نکاح متعہ کو بھی شامل ہے لہذا نکاح کے ساتھ متعہ کا جواز بھی ثابت ہوگیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ نکاح کی حد صرف چار عورتوں تک ہے اور متعہ میں عورتوں کی تعداد کے لئے کوئی قید نہیں ہے۔ اس کی مزید تفصیل یہ ہے کہ نکاح اور متعہ دو الگ الگ حقیقتیں ہیں نکاح میں عقد دائمی ہوتا ہے اور متعہ میں عقد عارضی ہوتا ہے نکاح میں منکوحات کی تعداد محدود ہے اور متعہ میں کوئی حد نہیں۔ نکاح میں نفقہ ‘ سکنی ‘ نسب اور میراث لازم ہوتے ہیں اور ایلاء ظہار ‘ لعان اور طلاق عارض ہوتے ہیں اور متعہ میں ان میں سے کوئی امر لازم نہیں ہے نہ عارض۔ لہذا نکاح اور متعہ دو متضاد حقیقتیں ہیں اور نکاح سے متعہ کا ارادہ غیر معقول ہے۔
(تبیان القرآن تفسیر سورہ نساء ایت24بحذف)
.
=========================
*دوسری بحث......!!*
متعہ حلال ہوا پھر حرام ہوا پھر حلال ہوا پھر قیامت تک کےلیے حرام ہوا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے...اس پر قرآن و سنت سے علماء اہلسنت نے کتب تک لکھی ہیں میں یہاں صرف دو حوالوں پر اکتفاء کرتا ہوں
صحیح مسلم میں ہے کہ
باب نِكَاحِ الْمُتْعَةِ وَبَيَانِ أَنَّهُ أُبِيحَ ثُمَّ نُسِخَ ثُمَّ أُبِيحَ ثُمَّ نُسِخَ وَاسْتَقَرَّ تَحْرِيمُهُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ:
باب: متعہ کے حلال ہونے کا پھر حرام ہونے کا پھر حلال ہونے کا اور پھر قیامت تک حرام رہنے کا بیان۔
۔
فَقَالَ : " يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي قَدْ كُنْتُ أَذِنْتُ لَكُمْ فِي الِاسْتِمْتَاعِ مِنَ النِّسَاءِ، وَإِنَّ اللَّهَ قَدْ حَرَّمَ ذَلِكَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ
ترجمہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے لوگوں میں نے عورتوں سے متعہ کرنےکو حلال کیا تھا لیکن اب سے قیامت تک کے لیے اللہ نے اس کو حرام کر دیا ہے
(مسلم حدیث3422)
.
الحدیث
أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ الْمُتْعَةِ، وَقَالَ: «أَلَا إِنَّهَا حَرَامٌ مِنْ يَوْمِكُمْ هَذَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ،
بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعہ سے منع فرمایا اور فرمایا کہ خبردار یہ آج کے دن سے قیامت کے دن تک کے لئے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حرام ہے
[صحيح مسلم حدیث1406]
.
عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ قَالَ : نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمُتْعَةِ
ترجمہ:
حضرت علی نے فرمایا کہ رسول کریم نے متعہ کو حرام کر دیا تھاَ..(بخاری حدیث5523)
امام بخاری فرماتے ہیں:
قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: «وَبَيَّنَهُ عَلِيٌّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ مَنْسُوخٌ
امام بخاری کہتے ہیں کہ حضرت علی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بیان فرمایا کہ متعہ منسوخ ہوچکا
[صحيح البخاري ,7/13]
.
=====================
*تیسری بحث.......!!*
*سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا رجوع ثابت ہے......!!*
سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ کا رجوع صحیح و ثابت ہے حتی کہ صحاح ستہ میں اس رجوع کا تذکرہ ہے...امام ترمذی فرماتے ہیں:
①وَإِنَّمَا رُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ شَيْءٌ مِنَ الرُّخْصَةِ فِي المُتْعَةِ، ثُمَّ رَجَعَ عَنْ قَوْلِهِ حَيْثُ أُخْبِرَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «
سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ متعہ کے متعلق رخصت کا قول کرتے تھےمگر جب ان کو (کثرت سے)احادیث سنائی گئی تو انہوں نے رجوع کر لیا تھا
[سنن الترمذي ت شاكر ,3/421تحت الحدیث1121]
۔
②مَا خَرَجَ ابْنُ عَبَّاسٍ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا - مِنْ الدُّنْيَا حَتَّى رَجَعَ عَنْ قَوْلِهِ فِي الصَّرْفِ وَالْمُتْعَةِ فَثَبَتَ النَّسْخُ بِاتِّفَاقِ الصَّحَابَةِ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ
سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ دنیا سے رخصت نہ ہوئے حتی کہ انہوں نے رجوع کر لیا متعہ اور بیع صرف سے تو متعہ کےمنسوخ ہونے پر(سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما وغیرہ) تمام صحابہ کا اجماع ہے
[المبسوط للسرخسي ,5/152]
.
③حدثنا عبد الجبار بن العلاء، قال: ثنا سفيان، عن جابر الجعفي، قال: "رجع ابن عباس رضي الله عنهما عن قوله في المتعة،
سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے متعہ کے مسئلے میں رجوع کر لیا تھا
(اخبار مکہ روایت1714)
،
④روى أيوب بن موسى، عن يونس، عن ابن شهاب أنّه قال: ما مات ابن عباس حتى رجع عن هذا الفتيا...
سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ وفات نہ پائے مگر یہ کہ آپ نے متعہ وغیرہ فتووں سے رجوع کرلیا
(مستخرج ابی عوانہ11/227)
.
⑤حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُقْبَةَ، أَخُو قَبِيصَةَ بْنِ عُقْبَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: " إِنَّمَا كَانَتِ المُتْعَةُ فِي أَوَّلِ الإِسْلَامِ.....حَتَّى إِذَا نَزَلَتِ الآيَةُ: {إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ} [المؤمنون: 6] "، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: «فَكُلُّ فَرْجٍ سِوَى هَذَيْنِ فَهُوَ حَرَامٌ»
سیدنا ابن عباس فرماتے ہیں کہ متعہ صرف اول اسلام میں حلال تھا پھر آیت نازل ہوئی {إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ} [المؤمنون: 6]تو بیوی اور لونڈی کے علاوہ متعہ وغیرہ کے ذریعے جماع حرام ہوگیا
[سنن الترمذي ت شاكر ,3/422]
⑥وجوزها ابن عباس رضي الله عنهما ثم رجع عنه
سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے متعہ کو جائز قرار دیا تھا پھر انہوں نے اس سے رجوع کر لیا
[تفسير البيضاوي = أنوار التنزيل وأسرار التأويل ,2/69]
.
⑦وروي عنه أنه قال: إن الناس هذا قد أكثروا في المتعة، فقال: إنها لا تحل إلا لمن اضطر إليها؛ كالميتة، والدم، ولحم الخنزير؛ فدل قوله: إنها بمنزلة الميتة على أنه رجع عن قوله الأول؛ فإن كانت المتعة في حال غير الضرورة حرامًا فهي في حال الضرورة حرام، وإنما أحل اللَّه المحرم في الضرورة إذا خاف الرجل على تلف نفسه، وليس في ترك الوطء خوف تلف نفسه.
وروي عن ابن عَبَّاسٍ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - في قوله - تعالى -: (فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ) قال: نسخها: (يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ. . .) الآية.هذا يدل على أنه رجع عن قوله الأول.
سیدنا ابن عباس فرماتے ہیں کہ میں نے متعہ وغیرہ کے حلال ہونے کے فتوے تو ایسے نہیں دیے میں نے تو یہ فتوی دیا کہ انتہائی شدید مجبور کے لیے متعہ حلال ہے خبردار آگاہ ہو جاؤ متعہ حرام ہے جیسے کہ مردہ حرام ہے خون حرام ہے خنزیر کا گوشت حرام ہے
سیدنا ابن عباس کے اس فتوے سے واضح ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے جائز والے فتوے سے رجوع کرلیا کیونکہ مردہ تو اس وقت حلال ہوتا ہے جب بھوک کی وجہ سے مرنے کا خطرہ ہو جبکہ شہوت کی وجہ سے مرنے کا کوئی خطرہ نہیں تو متعہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حرام ہے اس کی حلال ہونے کی کوئی صورت نہیں
نیز متعہ کی حلت پر دلالت کرنے والی شاذ قرات کے متعلق ابن عباس نے فرمایا کہ یہ منسوخ ہوچکی لہذا اس سے بھی واضح ہوتا ہے کہ سیدنا ابن عباس نے اپنے پہلے والے قول سے رجوع کرلیا
[تفسير الماتريدي = تأويلات أهل السنة ,3/116]
.
⑧..أخبرَنا أبو نَصرِ ابنُ قَتادَةَ، أخبرَنا أحمدُ بنُ إسحاقَ بنِ شَيبانَ البَغدادِيُّ ثُمَّ الهَرَوِيُّ، أخبرَنا مُعاذُ بنُ نَجدَةَ، حدثنا خَلَّادُ بنُ يَحيىَ، حدثنا سفيانُ، عن لَيثٍ، عن خَتَنِه، عن سعيدِ بنِ جُبَيرٍ، عن ابنِ عباسٍ أنَّه قال فى المُتعَةِ: هِىَ حَرامٌ كالمَيتَةِ والدَّمِ ولَحمِ الخِنزيرِ...ورُوِىَ ذَلِكَ عن القاسِمِ بنِ الوَليدِ عن ابنِ عباسٍ
سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ متعہ حرام ہے جیسے کہ مردہ حرام ہے خون حرام ہے خنزیر کا گوشت حرام ہے
[السنن الكبرى للبيهقي ت التركي ,14/393]
.
⑨علامہ ابن حجر علیہ الرحمۃ نے فتح الباری میں رجوع کی روایت کو ضعیف نہیں کہا بلکہ ابن بطال کا قول نقل کیا کہ رجوع کی روایت ضعیف ہے....انکا اپنا رجحان یہ معلوم ہوتا ہے کہ رجوع صحیح ثابت ہے اپنی دوسری کتاب میں فرماتے ہیں
وَأَخْرَجَ الْبَيْهَقِيُّ مِنْ طَرِيقِ الزُّهْرِيِّ قَالَ مَا مَاتَ ابْنُ عَبَّاسٍ حَتَّى رَجَعَ عَنْ هَذِهِ الْفُتْيَا وَذَكَرَهُ أَبُو عَوَانَةَ فِي صَحِيحِهِ
علامہ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے وفات نہ پائی مگر یہ کہ آپ نے ان(متعہ بیع صرف وغیرہ) فتووں سے رجوع کرلیا۔۔۔اس کو ابوعوانہ نے اپنی صحیح میں لکھا ہے
(التلخیص الحبیر3/346)
.
مذکورہ حوالہ جات میں سے کچھ صحیح اور کچھ یا اکثر ضعیف ہوں تو بھی ہمارا مدعی ثابت کہ تمام سنی شیعہ علماء کے مطابق تعدد طرق ، کثرت طرق کی وجہ سے ضعف ختم ہوجاتا ہے
وقد يكثر الطرق الضعيفة فيقوى المتن
ترجمہ:
تعدد طرق سے ضعف ختم ہو جاتا ہے اور متن قوی(معتبر مقبول صحیح و حسن)ہوجاتا ہے
(شیعہ کتاب نفحات الازھار13/55)
یہاں بھی رجوع کے متعلق کثرت طرق تعدد طرق ہے لیھذا ضعیف تھے بھی تو بھی ضعف ختم اور رجوع کا قول ہی صحیح و ثابت کہلائے گا......!!
.=======================
*چوتھی بحث.........!!*
*سیدہ اسماء بنت ابی بکر نے متعہ کیا اور متعہ سے سیدنا عبداللہ بن زبیر پیدا ہوئے،شیعہ کے اس اعتراض کا جواب...!!*
شیعہ یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ اسماء بنت ابی بکر نے متعہ کیا اور اس سے عبداللہ بن زبیر پیدا ہوئے
دَخَلْنَا عَلَى أَسْمَاءَ ابْنَةِ أَبِي بَكْرٍ، فَسَأَلْنَاهَا عَنْ مُتْعَةِ النِّسَاءِ، فَقَالَتْ: «فَعَلْنَاهَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»
راوی کہتے ہیں کہ ہم اسماء بنت ابی بکر کے پاس حاضر ہوئے اور ہم نے ان سے سوال کیا عورتوں کے ساتھ متعہ کرنے کے بارے میں تو انہوں نے فرمایا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں متعہ کیا
(السنن الكبرى - النسائي - ط الرسالة5/233)
.
*تحقیق.و.جواب*
شیعوں کے مطابق سیدنا علی نے فرمایا
وَلَقَدْ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللهِ(صلى الله عليه وآله وسلم) ; نَقْتُلُ آبَاءَنَا وَأَبْنَاءَنَا وَإِخْوَانَنَا وَأَعْمَامَنَا
شیعوں کے مطابق سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ وسلم کی معیت میں اپنے آباء و اجداد اور اپنے بیٹوں اور اپنے بھائیوں اور اپنے چچاؤں کو قتل کرتے تھے
(شیعہ کتاب نہج البلاغۃ1/46)
کیا تم شیعوں کے مطابق اس روایت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا علی نے اپنے بیٹے حسن حسین، اپنے والد اپنے بھائیوں، اپنے چچاؤں کو قتل کیا......؟؟ ہرگز نہیں.... یہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ اپنی طرف نسبت نہیں کر رہے بلکہ مسلمانوں کی طرف مجموعی صورتحال کا تذکرہ کر رہے ہیں کہ مجموعی صورتحال کے طور پر کوئی اپنے والد سے لڑتا تھا کوئی اپنے بیٹے سے لڑتا تھا کوئی کسی سے لڑتا تھا کوئی کس سے لڑتا تھا
.
ایسے ہی سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالی عنہما صورت حال کی طرف اشارہ کر رہی ہیں کہ صورت حال یہ تھی کہ بعض صحابہ کرام نے متعہ کیا اس وقت کہ جب عارضی طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے متعہ کی اجازت دی تھی... سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالی عنہما خاص اپنے متعلق نسبت نہیں کر رہیں کہ میں نے متعہ کیا...ہرگز نہیں
کیونکہ
اہلسنت و شیعہ کتب میں دوٹوک لکھا ہے کہ سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنھما نے نکاح کیا اور سیدنا عبداللہ بن زبیر پیدا ہوئے بہت عرصے بعد جگھڑے یا بڑھاپے کی وجہ سے ان کو ان کے شوہر نے طلاق دے دی تھی جب کہ متعہ میں طلاق نہیں ہوتی
.
شیعہ محقق نے نکاح اور متعہ کے الگ الگ باب لکھے ص246پے متعہ کا باب لکھا اور ص152 میں نکاح کا باب باندھا اور نکاح کے باب میں لکھتا ہے:
و زوج بنتيه رقية و أم كلثوم عثمان، لما ماتت الثانية، قال: لو كانت ثالثة لزوجناه إياها، و تزوج الزبير أسماء بنت أبى بكر
شیعہ محقق لکھتا ہے کہ
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹیوں میں سے رقیہ اور ام کلثوم کا نکاح یکے بعد دیگرے عثمان سے کرایا جب دونوں کی وفات ہوگئی تو سید عالم نے فرمایا کہ اگر میری تیسری بیٹی(غیر شادی شدہ اس وقت)ہوتی تو میں اس کی شادی بھی عثمان سے ضرور کرواتا.. اور زبیر نے اسماء بنت ابی بکر سے نکاح کیا
(شیعہ کتاب المبسوط في فقه الإمامية، کتاب النکاح4/159)
یہاں دو باتیں ثابت ہوئیں ایک بات یہ ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی فقط ایک بیٹی نہیں تھی، یہ ان شیعوں کا رد ہے جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی فقط ایک بیٹی مانتے ہیں... دوسری بات یہ ثابت ہوئی کہ نکاح کے باب میں شیعہ محقق نے یہ تسلیم کیا کہ سیدنا زبیر نے نکاح کیا اسماء بنت ابی بکر سے اور شیعہ محقق نے کئ ابواب بعد متعہ کا باب الگ لکھا....جس سے ثابت ہوا کہ سیدہ اسماء بنت ابی بکر نے نکاح کیا تھا، متعہ نہیں کیا تھا
.
أسماء بنت أبي بكر قال:عدّها الشيخ في رجاله في أصحاب الرسول صلّى اللّه عليه و اله.أقول:و هي امّ ابن الزبير.و في الجزري:طلّقها الزبير
شیعہ عالم لکھتا ہے کہ اسماء بنت ابی بکر سیدنا ابن زبیر کی والدہ ہیں اور آپ کو زبیر نے طلاق دے دی تھی
(قاموس الرجال المؤلف : التستري، الشيخ محمد تقي 12/183)
یہاں ثابت ہوا کہ سیدنا عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ متعہ کی اولاد نہ تھے بلکہ سیدہ طیبہ طاہرہ اسماء بنت ابی بکر کا نکاح ہوا تھا جس سے عبداللہ بن زبیر پیدا ہوئے اور کافی عرصہ بعد سیدنا زبیر نے طلاق دی تھی
جبکہ
شیعہ کے مطابق متعہ میں کوئی طلاق نہیں ہوتی...مذکورہ حوالے میں شیعہ عالم کا طلاق کا ذکر کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ سیدہ اسماء بنت ابی بکر الصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنھما کا صحیح نکاح ہوا تھا، متعہ نہ ہوا تھا کیونکہ متعہ میں طلاق نہیں ہوتی
.
عن أبي جعفر عليه السلام في المتعة قال : ليست من الأربع لأنها لا تطلق ولا ترث
شیعوں کے مطابق امام جعفر صادق نے متعہ کے متعلق فرمایا کہ چار سے زائد عورتوں سے ہو سکتا ہے اور اس میں کوئی طلاق نہیں اور اس میں کوئی وراثت جاری نہیں ہوگی
(تهذيب الأحكام... الشيخ الطوسي7/259)
.
ایک روایت میں ہے کہ:
ضرب الزُّبَيْرُ أَسْمَاءَ، فَصَاحَتْ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، فَأَقْبَلَ، فَلَمَّا رَآهُ قَالَ: أُمَّكَ طَالِقٌ إِنْ دَخَلَتْ! قَالَ: أَتَجْعَلُ أُمِّي عُرْضَةً لِيَمِينِكَ، فَاقْتَحَمَ عَلَيْهِ وَخلَّصَهَا، فَبَانَتْ مِنْهُ
سیدنا زبیر اور سیدہ اسماء کا جھگڑا ہوا تو سیدنا زبیر سیدہ اسماء کو مارنے لگے، سیدہ اسماء نے بیٹے کو پکارا، سیدنا زبیر نے دیکھا کہ اس کا بیٹا آرہا ہے تو انہوں نے فرمایا کہ اگر تو ہمارے پاس داخل ہوا تو تیری ماں کو طلاق ہے، لیکن سیدنا ابن زبیر نہ رکے اور داخل ہوگئے اور ماں کو چھڑا لیا اور اس طرح سیدہ اسماء کو طلاق واقع ہوگئ
(تاريخ الإسلام - ط التوفيقية5/213)
.
تزوجها الزُّبَيْرُ بْنُ الْعَوَّامِ بْنِ خُوَيْلِدِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى بْنِ قصي فولدت له عبد الله وعروة والمنذر وعاصمًا والمهاجر وخديجة الكبرى وأم الحسن وعائشة...
أَنَّ الزُّبَيْرَ طَلَّقَ أَسْمَاءَ
سیدنا زبیر نے سیدہ اسماء بنت ابی بکر سے نکاح کیا تو ان کے ہاں عبداللہ کی ولادت ہوئی اور عروہ پیدا ہوئے اور منذر پیدا ہوئے اور عاصم اور مھاجر اور خدیجہ اور ام حسن اور عائشہ پیدا ہوئے اور سیدنا زبیر نے سیدہ اسماء کو طلاق دے دی
(الطبقات الکبری196..8/199)
.
أَسْلَمَتْ أَسْمَاءُ قَدِيمًا، وَهُمْ بِمَكَّةَ فِي أَوَّلِ الْإِسْلَامِ، وَهَاجَرَتْ هِيَ وَزَوْجُهَا الزُّبَيْرُ، وَهِيَ حَامِلٌ مُتِمٌّ بِوَلَدِهَا عَبْدِ اللَّهِ، فَوَضَعَتْهُ بِقُبَاءٍ، أَوَّلَ مَقْدِمِهِمِ الْمَدِينَةَ، ثُمَّ وَلَدَتْ لِلزُّبَيْرِ بَعْدَ ذَلِكَ عُرْوَةَ، وَالْمُنْذِرَ، ثُمَّ لَمَّا كَبُرَتْ طَلَّقَهَا الزُّبَيْرُ، وَقِيلَ: بَلْ قَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ ابْنُهُ: إِنَّ مِثْلِي لَا تُوطَأُ أُمُّهُ. فَطَلَّقَهَا الزُّبَيْرُ، وَقِيلَ: بَلِ اخْتَصَمَتْ هِيَ وَالزُّبَيْرُ، فَجَاءَ عَبْدُ اللَّهِ لِيُصْلِحَ بَيْنَهُمَا، فَقَالَ الزُّبَيْرُ: إِنْ دَخَلْتَ فَهِيَ طَالِقٌ. فَدَخَلْتُ فَبَانَتْ
سیدہ اسماء بنت ابی بکر بہت پہلے اسلام لا چکی تھیں، سیدنا زبیر سے نکاح ہوا تھا اور انہیں کے ساتھ ہجرت کی اور اس وقت وہ حاملہ تھی جس سے عبداللہ بن زبیر پیدا ہوئے...اسکے بعد ان کے ہاں عروہ اور منذر پیدا ہوئے... پھر جب بوڑھی ہوگئیں تو آپ کو سیدنا زبیر نے طلاق دے دی اور کہا گیا ہے کہ سیدنا زبیر اور سیدنا اسماء کا جھگڑا ہوا اور ان کے بیٹے عبداللہ صلح کرانے کے لیے آنے لگے تو سیدنا زبیر نے فرمایا کہ اگر تو ہمارے پاس آیا تو اسماء کو طلاق ہے، سیدنا عبداللہ بن زبیر داخل ہوئے اور اس طرح سیدنا زبیر اور سیدہ اسماء میں طلاق واقع ہوگی
(البداية والنهاية ت التركي12/223)
.
========================
*پانچویں بحث......!!*
*#متعہ_دراصل عزت پامالی ہے اور متعہ حرام ہونے کا ذکر شیعہ کتب میں بھی ہے*
ایک طرف شیعہ کتب میں متعہ کی بہت بڑی فضیلت ہے...لکھتے ہیں
أن المؤمن لا يكمل حتى يتمتع
مومن( اور اسی طرح مومن عورت)کا ایمان اس وقت مکمل ہوتا ہے جب وہ متعہ(پیسے وغیرہ اجرت دیکر زنا)کرے
(شیعہ کتاب وسائل الشيعة الحر العاملي 21/14)
(شیعہ کتاب من لا يحضره الفقيه - الشيخ الصدوق 3/466)
.
: للمتمتع ثواب؟ قال: إن كان يريد بذلك وجه الله تعالى وخلافا على من أنكرها لم يكلمها كلمة إلا كتب الله له بها حسنة، ولم يمد يده إليها إلا كتب الله له حسنة، فإذا دنا منها غفر الله له بذلك ذنبا، فإذا اغتسل غفر الله له بقدر ما مر من الماء على شعره
ترجمہ:
متعہ(پیسے وغیرہ اجرت دیکر زنا)کرنے والوں کو ثواب ملے گا.....؟؟ ہاں اسے ثواب ملے گا اگر وہ اللہ کی رضا کے لئے اور فلاں کی مخالفت میں متعہ کرے، جس عورت سے متعہ کرے گا اس کے ساتھ بات چیت کرے گا تو ہر بات کے بدلے میں اسے نیکی ملے گی اور اس کی طرف ہاتھ بڑھائے گا تو اس پر نیکی ملے گی اور اس سے قربت کرے گا تو اللہ تعالی اس کے گناہ معاف کر دے گا اور جب وہ غسل کرے گا تو اللہ تعالی اس کے اتنے سارے گناہ معاف کر دے گا کہ جو پانی کے قطرے اس کے جسم کے بالوں پر بہیں گے
(شیعہ کتاب وسائل الشيعة الحر العاملي 21/13)
(شیعہ کتاب من لا يحضره الفقيه - الشيخ الصدوق 3/463)
.
وإذا أراد التمتع بامرأة، فليطلب امرأة عفيفة مؤمنة....ولا بأس أن يتمتع الرجل بالفاجرۃ
اگر تم متعہ(پیسے وغیرہ اجرت دیکر زنا) کرنا چاہو تو پاکدامن مومنہ کو تلاش کرکے اس سے متعہ کرو اور بری عورت سے بھی متعہ کر سکتے ہو
(شیعہ کتاب النهاية - الشيخ الطوسي ص490)
*#صحابیات_اہلبیت و مومن عورتوں کی عزت پامالی*
اب ہمارا سوال ہے شیعوں سے کہ کیا اہل بیت اور صحابہ کرام کی عورتیں پاک دامن نہیں تھیں....؟؟ کیا وہ مومنہ نہیں تھی...؟؟ اگر انہوں نے متعہ(ایک قسم کا زنا) نہیں کیا تمہارے مطابق تو ان کا ایمان کامل نہ ہوا تمہارے مطابق کیونکہ تمھارے مطابق ایمان کامل اس وقت ہوتا ہے جب کوئی متعہ (ایک قسم کا زنا)کرتا ہے.... گویا یہ تمہاری بہت بڑی گستاخی اور عزت پامالی ہے کہ تم نے صحابہ کرام کی عورتوں اور اہل بیت کی عورتوں کی طرف منسوب کردیا کہ وہ یا تو متعہ کرنے والی زنا کرنے والی تھی نعوذباللہ یا پھر وہ کامل ایمان والی نہ تھیں.... دراصل تم نے یہ مومن عورتوں کی عزت پامالی کرنے کے لئے اور اپنی عیاشی کے لیے فتوی گھڑ لیا کہ متعہ کرنا چاہیے
جب کہ
*ہم تمہاری کتابوں سے ثابت کریں گے کہ متعہ نہیں کر سکتے..... ہرگز نہیں کرسکتے*
حرم رسول الله صلى الله عليه وآله لحوم الحمر الأهلية ونكاح المتعة.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھریلو گدھے اور نکاح متعہ کو حرام کردیا
(شیعہ کتاب الاستبصار - الشيخ الطوسي 3/142)
(شیعہ کتاب وسائل الشيعة- الحر العاملي 21/12)
شیعہ اس حدیث پاک کے متعلق بکواس کرنے لگے کہ یہ تقیہ (ایک قسم کا جھوٹ بیان) کرتے ہوئے لکھی گئ ہے......ارے گستاخو مکارو عیاشو کیا کسی بھی طرح رسول کریم کی طرف جھوٹ منسوب کرنا جائز سمجھتے ہو....افسوس ہے تم پر.... پھر تو تمھاری پوری کتابیں غیر معتبر کہ جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جھوٹ بول سکتے ہو تو ائمہ و اہل بیت کے متعلق کتنے جھوٹ بولتے ہو گے تم لوگ...؟؟ بلکہ حقیقت یہی ہے کہ اکثر تم لوگوں نے اپنی طرف سے جھوٹ بیان کر لیے ہیں اور ان کو رسول کریم اور سیدنا علی اور امام جعفر صادق و دیگر اہل بیت کی طرف منسوب کر دیا ہے
.
تمتع (2) بالمؤمنة فتذلها.قال الشيخ: هذا شاذ، ويحتمل أن يكون المراد به إذا كانت المرأة من أهل بيت الشرف يلحق أهلها العار ويلحقها الذل ويكون ذلك مكروها
شیعوں کے مطابق فتوی ہے کہ مومنہ سے متعہ مت کرو کہ اسکی عزت پامالی ہے... اس فتوی میں مومنہ سے مراد پاک دامن عورت اور عزت والی عورت مراد ہے کہ جس سے متعہ کرنے سے اس کی اور اسکے اہلخانہ کی عزت پامالی ہوگی
(شیعہ کتاب وسائل الشيعة- الحر العاملي21/26)
.
: سألت أبا عبد الله عليه السلام عن المتعة فقال: لا تدنس نفسك بها
شیعہ کے مطابق کسی نے سیدنا امام جعفر صادق سے متعہ کرنے کے بارے میں پوچھا تو سیدنا امام جعفر صادق نے فرمایا کہ متعہ کے ذریعہ سے اپنے آپ کو عیب دار گندہ پلید مت کر
(شیعہ کتاببحار الأنوار - العلامة المجلسي - ج ١٠٠ - الصفحة ٣١٨)
.
إذا كانت المرأة من أهل بيت الشرف فإنه لا يجوز التمتع بها لما يلحق أهلها من العار ويلحقها هي من الذل ويكون ذلك مكروها دون أن يكون محظورا
کوئی مومنہ عزت والی شرف والی ہو تو اس کے ساتھ متعہ کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ اسے اور اس کے اہل خانہ کی عزت پامالی ہوگی تو اس کے ساتھ متعہ کرنا جائز نہیں
(شیعہ تهذيب الأحكام - الشيخ الطوسي7/253)
(شیعہ کتاب الاستبصار - الشيخ الطوسي3/143)
(شیعہ کتاب جامع أحاديث الشيعة -21/30)
.
القرآن:
لِلّٰہِ الۡعِزَّۃُ وَ لِرَسُوۡلِہٖ وَ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ
اللہ کے لئے عزت ہے اور رسول کے لئے عزت ہے اور ایمان والوں(مومن مردوں اور مومنہ عورتوں کے لیے) عزت ہے
(سورہ منافقون آیت8)
.
اوپر تم شیعوں کا فتوی گذرا کہ مومنہ سے ، عزت و شرف والی سے متعہ کرنا جائز نہیں ہے... اور پھر ہم نے قرآن سے بتایا کہ ہر مومن مرد اور مومنہ عورت کو عزت و شرف حاصل ہے
لیھذا
ثابت ہوا کہ کسی بھی مومن مومنہ کے ساتھ متعہ کرنا جائز نہیں ہے... اور پھر اوپر ہم نے یہ حدیث بھی تمھاری کتب سے بتائی کہ نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے متعہ کو حرام کردیا تھا چاہے کوئی بھی عورت ہو، عزت والی ہو یا عزت والی نہ ہو ہر ایک کے لیے متعہ جائز نہیں ہے
لیکن
تم منافق مکار عیار گستاخ عیاش فتوی لکھتے رہتے ہو ،ایک طرح سے خفیتا باتیں پھیلاتے رہتے ہو کہ جو متعہ نہیں کرے گا وہ کامل ایمان والا ہی نہیں ہوگا لہذا عوام کو کہتے ہو متعہ کرو متعہ کرو تو یہ تم عیاشی کرتے ہو، تو یہ تمہاری فحاشی و عیاشی ہے، فحاشی و زنا کو پھیلانا ہے، اسلام و مسلمین کی عزت پامالی کرنا ہے..اگرچہ سچے اہل اسلام یعنی اہلسنت کی تنقید سے بچنے کے لیے تقیہ و جھؤٹ کا سہارا لیکر تم حیاء و پردہ کا درس دیتے عمل کرواتے ہو مگر اندر ہی اندر اصل مکروہ چہرہ تمھارا عیاشی فحاشی ہی ہے
.
ﷺ
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
whats App,twitter nmbr
00923468392475
03468392475
other nmbr
03062524574