*زکواۃ فطرانہ کتنا اور کس کو دیں اور نہ دیں تو....؟؟ سادات، مدارس، علماء طلباء غرباء محافل مجالس نیاز ترقیاتی سیاسی کام،کس پے کتنا خرچ کریں…ترجیحات ....؟؟ اور اپنے حالات تنگ ہوں تو بھی صدقہ و ایثار کیجیے......!!*
دو کام فورا شروع کیجیے:
قرآن مجید کی تلاوت شروع کر دیجیے، قرآن پاک کو مستند تفسیر کے ذریعے سمجھنا شروع کر دیجیے تاکہ تراویح وغیرہ میں قرآن سننے،روز مرہ تلاوت کرنے کا مزہ دوبالا ہوجائے...زکواۃ نکالنا شروع کر دیجیے تاکہ رمضان سے پہلے غریب غرباء اور مدارس وغیرہ کو صدقہ خیرات زکواۃ کے ذریعے خوشحالی میسر ہو.....تاکہ رمضان المبارک میں غرباء کا خرچہ آسان ہو اور انہیں رمضان میں زیادہ محنت مزدوری کی حاجت نا پڑے اور وہ آسانی سے روزے رکھ سکیں
إذا نظروا إلى هلال شعبان أكبوا على المصاحف يقرؤونها، وأخرج المسلمون زكاة أموالهم ليتقوى بها الضعيف والمسكين على صيام شهر رمضان(غنیۃ الطالبین)كان أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا استهلوا شعبان أكبوا على المصاحف فعرضوها، وأخرج المسلمون زكاة أموالهم يقوون المسكين والضعيف على صيام شهر رمضان،(ترغیب ترہیب)
(ماخذ و دلیل غنیۃ الطالبین جلد 1 صفحہ,341,،342
و الترغيب والترهيب لقوام السنة 2/350)
.
*زکواۃ فطرانہ کس پر لازم ہے.......؟؟*
أَنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً فِي أَمْوَالِهِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بے شک اللہ تعالی نے مسلمانوں پر صدقہ(زکواۃ فطرانہ) لازم کیا ہے کہ جو امیروں سے لیا جائے گا اور غریبوں کو دیا جائے گا
(بخاری حدیث1395)
.
.
*زکواۃ کا آسان حساب*
کچھ لوگ زکواۃ کا حساب لگانے میں دشواری محسوس کرتے ہیں... انتھائی آسان طریقہ حدیث مبارکہ سے پیش ہے..
الحدیث،ترجمہ:
اپنے مال کا چالیسواں حصہ زکواۃ ادا کرو..(ابو داود حدیث نمبر 1572) کل رقم کو چالیس پر تقسیم کریں جو جواب آئے وہ زکواۃ ہے.......!!
.
*بہتر ہے غریب متوسط بھی زکواۃ فطرانہ نفلی صدقہ دیا کریں اگر دینا ان پر لازم نہیں........؟؟*
غریب پر فطرانہ زکواۃ واجب نہیں مگر بہتر ہے کہ کم سے کم
کم مقدار والا فطرانہ تو ادا کریں
الحدیث:
وَأَمَّا فَقِيرُكُمْ فَيَرُدُّ اللَّهُ تَعَالَى عَلَيْهِ أَكْثَرَ مِمَّا أَعْطَى
ترجمہ:
اگر غریب یہ صدقہ(فطرانہ) ادا کرے تو بے شک اللہ تعالیٰ اسے اس سے کہیں زیادہ نوازے گا..(ابوداؤ حدیث1619)
.
*کم سے کم فطرانہ کی مقدار یہ ہے......!!*
سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ:
فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم هذه الصدقة صاعا من تمر، أو شعير، أو نصف صاع من قمح
ترجمہ:
فطرانہ رسول کریم.صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر فرمایا ہے ایک صاع کجھور یا جؤ یا آدھا صاع گندم
(ابو داود حدیث نمبر1622)
.
صاع ایک پیمانہ ہے.. آج کل کے وزن کے حساب سے ایک صاع میں تقریبا 4کلو 100گرام پڑتے ہیں.. اور آدھے صاع میں 2 کلو50 گرام پڑتے ہیں..(از فتاوی فیض الرسول 1/510)
.
اس طرح فطرانہ کی مقدار یہ بنتی ہے کہ
چار کلو سو گرام کجھور یا جؤ... یا دوکلو پچاس گرام گندم یا گندم کا آٹا
یا
مذکورہ چیزوں میں سے کسی کی قیمت ادا کرنا صدقہ فطر،فطرانہ کہلاتا ہے
.
مختلف ممالک علاقوں شہر صوبے میں ان چیزوں کے ریٹ مین کچھ کمی بیشی ہوتی ہے تو اس لیے فطرانہ کی رقم میں بھی کمی بیشی ہوتی ہے....اپنے علاقے میں مذکورہ اشیاء کی مذکورہ مقدار کا ریٹ پوچھیے اور احتیاطاً اس سے تھوڑا زیادہ رقم مکس کرکے فطرانہ ادا کیجیے
.
*زکواۃ فطرانہ نفلی صدقہ اور تعاون کس سے کریں...؟؟ اور کس سے نہیں.....؟؟*
زکواۃ فطرانہ نفلی صدقہ غرباء و مدارس و علماء و طلباء و مبلغین امام مسجد لکھاری سوشلی مجاہدین واعظ وغیرہ مستحقین کو دیجیے....اہلسنت کے ساتھ ووٹ و حمایت و شرکت جانی مالی حوصلاتی وغیرہ ہر جائز تعاون کیجیے مگر گستاخ گمراہ بدعقیدہ مکار نااہل کو نہ زکواۃ فطرہ تعاون نہ دیجیے،انکی مالی جانی حوصلاتی حمایتی مدد نہ کیجیے، ایسوں کو ووٹ نہ دیجیے، ایسوں کی تشہیر نہ کیجیے، ایسوں کے جلسے جلوس میں شرکت نہ کیجیے
القرآن:
وَ تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡبِرِّ وَ التَّقۡوٰی ۪ وَ لَا تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡاِثۡمِ وَ الۡعُدۡوَانِ
تقوی پرہیزگاری اور نیکی بھلائی میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور سرکشی اور گناہ(ظلم زیادتی برائی گمراہی)میں ایک دوسرے کی مدد نا کرو...(سورہ مائدہ آیت2)
.
الحدیث:
السَّمْعُ وَالطَّاعَةُ عَلَى الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ فِيمَا أَحَبَّ وَكَرِهَ، مَا لَمْ يُؤْمَرْ بِمَعْصِيَةٍ، فَإِذَا أُمِرَ بِمَعْصِيَةٍ، فَلَا سَمْعَ وَلَا طَاعَةَ
پسند ہو نہ ہو، دل چاہے نہ چاہے ہر حال میں اہل حق مستحقین کی سنو اور مانو(اطاعت کرو جانی مالی وقتی ہر جائز تعاون کرو)بشرطیکہ معاملہ گناہ و گمراہی کا نہ ہو، گناہ و گمراہی پے نہ سنو نہ مانو(گمراہوں کو جلسوں میں بلاؤ نہ انکی بتائی ہوئی معلومات پے بھروسہ کرو نہ عمل کرو، ہرقسم کا ان سے نہ تعاون کرو)
(بخاری حدیث7144)
.
بخل،کنجوسی سےبڑھ کر کوئی بیماری نہیں(بخاری روایت4383)جو سادات اور اہلسنت علماء مشائخ مبلغین لکھاری سوشلی و غیرسوشلی ورکرز علمی و اصلاحی و سیاسی خدمات سرانجام دینے میں کوئی کنجوسی سستی نہیں کرتے لالچ نہیں رکھتے،آپ بھی انکی اور غرباء کی جانی مالی حوصلاتی مدد کرنے میں سخاوت کیجیے…حسد تکبر بےوفائی مفاد پرستی بخل کنجوسی سےبچیے…عبادت خدمات سخاوت و صدقہ کیجیےاور ڈھیروں اجر، سکون، خوشیاں، عزت، دعائیں، دوست پائیے
.
الحدیث:
مَنْ أَحَبَّ لِلَّهِ، وَأَبْغَضَ لِلَّهِ، وَأَعْطَى لِلَّهِ، وَمَنَعَ لِلَّهِ ؛ فَقَدِ اسْتَكْمَلَ الْإِيمَانَ
جو اللہ(اسلام کے حکم)کی وجہ سے محبت کرے اور(سمجھانے کے ساتھ ساتھ) اللہ(اسلام کے حکم)کی وجہ سے(مستحق برے ضدی فسادی سے)بغض و نفرت رکھے اور (مستحق و اچھوں) کی امداد کرے اور (نااہل و بروں) کی امداد نہ کرے تو یہ تکمیل ایمان میں سے ہے(ابوداود حدیث4681)
الا یہ کہ مدارت الناس کے تحت نفلی تعاون کیجیے تاکہ حسن اخلاق اور معاشرتی بھلائی یعنی خرچ و سخاوت کو دیکھ کر اسلام کے قریب ہوں...بائیکاٹ و مزمت بھی لازم مگر احتیاط کے ساتھ تائید کییے بغیر قربت حسن اخلاق سے پیش آئیے نفلی صدقہ تحفہ دیجیےتاکہ آپ اسلام کی صحیح تعلیم انکو دے سکیں اچھا بنا سکیں، اسلام کی طرف راغب کر سکیں، اسلام پے استقامت کا باعث بنیں تاکہ گستاخ گمراہ آپ حسن اخلاق کو دیکھ کر آپ کی معاشرتی بھلائی یعنی خرچ و سخاوت سے متاثر ہوکر اسلام کی سچی تعلیمات کے قریب ہوں.......!!
قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " رَأْسُ الْعَقْلِ الْمُدَارَاةُ
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عقلمندی کا سرچشمہ یہ ہے کہ مدارت الناس(نرمی حسن اخلاق ، قریب کرنے کی حکمت)کی جائے
[البيهقي، أبو بكر ,شعب الإيمان ,11/23]
[السيوطي ,الجامع الصغير وزيادته , 6814]
.
المداراة والإيناس ليدوموا على الإسلام
مداراۃ الناس اور ان کے ساتھ انسیت رکھنا اس لیے ہے کہ تاکہ لوگ اسلام پر قائم و دائم رہیں اسلام و اچھائی کی طرف راغب ہوں
[ابن الأثير، أبو السعادات ,جامع الأصول ,8/384]
.
*زکواۃ فطرانہ نفلی صدقہ تحفہ جانی مالی حوصلاتی تعاون کے کچھ فضائل پڑہیے...اور خرچ نہ کرنے کا وبال پڑہیے......!!*
القرآن:
فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَاَنْفَقُوْ لَھُمْ اَجْرٌ کَبِیْرٌ
تم میں سے جو ایمان لائیں اور (عوام غرباء فلاح میں راشن پیسہ مال زکواۃ فطرہ نفلی صدقہ تعاون اسی طرح علم شعور وقت )خرچ کریں ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے
(سورہ الحدید آیت7)
.
القرآن:
وَاَنْفِقُوْا مِنْ مَّا رَزَقْنٰکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ فَیَقُوْلَ رَبِّ لَوْلَآ اَخَّرْتَنِیْٓ اِلٰٓی اَجَلٍ قَرِیْبٍلا فَاَصَّدَّقَ وَاَکُنْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ
ترجمہ:
اور(اللہ کی راہ میں، اللہ کے بندو میں) خرچ کرو اس میں سے جو رزق ہم نے تم کو عطا کیا ہے قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے پھر وہ کہنے لگے اے میرے ربّ! تُو نے مجھے تھوڑی مدت تک کی مہلت کیوں نہ دے دی کہ میں صدقہ و خیرات کر لیتا اور صالحین میں سے ہو جاتا
(سورہ المنافقون آیت 10)
آخرت کی حسرت سے بچیے، بخل کنجوسی من موجی سے بچیے، اللہ کی راہ میں، غرباء مدارس و فلاح میں خرچ کیجیے
.
القرآن:
وَ لَا یُنۡفِقُوۡنَہَا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ۙ فَبَشِّرۡہُمۡ بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ..یَّوْمَ یُحْمٰى عَلَیْهَا فِیْ نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوٰى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَ جُنُوْبُهُمْ وَ ظُهُوْرُهُمْؕ-
جو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں وعید و ڈر سنا دو درد ناک عذاب کی کہ جس دن وہ(مال جسکی زکواۃ ادا نہ کی گئ اسے) تپایا جائے گا جہنم کی آگ میں پھر اس سے ان کی پیشانیاں اور کروٹیں اور پیٹھیں داغیں گے
(سورہ توبہ آیت34.35)
.
الحديث:
مَنْ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَلَمْ يُؤَدِّ زَكَاتَهُ مُثِّلَ لَهُ مَالُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ شُجَاعًا أَقْرَعَ لَهُ زَبِيبَتَانِ ، يُطَوَّقُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثُمَّ يَأْخُذُ بِلِهْزِمَيْهِ " يَعْنِي بِشِدْقَيْهِ " ثُمَّ يَقُولُ : أَنَا مَالُكَ، أَنَا كَنْزُكَ.
جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور وہ اس کی زکوٰۃ ادا نہ کرے تو قیامت کے دن وہ مال گنجے سانپ کی صورت میں کر دیا جائے گا جس کے سر پر دو چتیاں ہوں گی (یعنی دو نشان ہوں گے )، وہ سانپ اس کے گلے میں طوق بنا کر ڈال دیا جائے گا ۔پھر اس (یعنی زکوٰۃ نہ دینے والے )کی باچھیں پکڑے گا اور کہے گا : ’’میں تیرا مال ہوں ،میں تیرا خزانہ ہوں۔‘‘
(بخاری حدیث1403)
.
القرآن:
وَ لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ قَالُوۡا سَمِعۡنَا وَ ہُمۡ لَا یَسۡمَعُوۡنَ
انکی طرح مت ہونا جو سن کر "ان سنی" کرتےہیں(سورہ انفال آیت21)حق و پکار سن کر اَن سنی کرنےوالے بےرخی،من موجی،بےرحمی کرنےوالےاسلام و انسانیت کےمجرم ہیں…کلیجہ منہ کو آتا ہے جب کوئی دینی یا دنیاوی شخص لیڈر امیر دوست رشتےدار کوئی بھی سن کر بھی نہ سنے،بےتوجہی،بےرحمی کرے
.
الحدیث:
مَا خَالَطَتِ الصَّدَقَةُ مَالًا إِلَّا أَهْلَكَتْهُ
زکوۃ کا مال جس مال میں ملا ہوگا(مثلا زکواۃ ابھی تک ادا نہ کی ہوگی یا مستحق نہ ہوکر زکواۃ لیکر اپنے مال میں اسکو جمع کرے گا تو)اس حلال مال کو بھی یہ عمل تباہ و برباد(بےبرکت کردیگا ،مشکلات مصائب بیماریوں کا باعث) کر دے گا...(السنن الكبرى - البيهقي4/268)
.
زکوٰۃ ادا نہ کرنے والی قوم کو اجتماعی نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے
الحدیث:
مَا مَنَعَ قَوْمٌ الزَّكَاةَ إِلَّا ابْتَلَاهُمُ اللَّهُ بِالسِّنِينَ»
جو قوم زکوٰۃ نہ دے گی اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اسے قحط(بےبرکتی،فقر و غربت،تنگی،معاشی معاشرتی تباہی، بےسکونی وغیرہ مصائب)میں مبتلاء فرمائے گا۔(طبرانی اوسط حدیث4577)
.
الحدیث:
قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ : أَنْفِقْ أُنْفِقْ عَلَيْكَ
اللہ فرماتا ہے تم میرے بندو پے(علم مال پیسہ دولت راشن شعور مدد تعاون زکواۃ فطرانہ نفلی صدقہ) خرچ کرو ، میں تجھ کو (رحمت نعمت برکت و اجر) بہت عطاء کروں گا
(بخاری حدیث4684)
.
الحدیث
إِنَّ الْمُؤْمِنَ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا
ترجمہ:
(سچے کامل)مسلمان آپس میں ایک عمارت(کی اینٹوں)کی طرح ہیں کہ ایک دوسرے کو تقویت(مدد و سہارا)دیتے ہیں..(بخاری حدیث481)
.
الحدیث
الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ، لَا يَظْلِمُهُ، وَلَا يُسْلِمُهُ
ترجمہ:
مسلمان مسلمان کا بھائی ہےوہ اپنےبھائی پےنہ ظلم کرے،نہ ظلم ہونےدے،نہ مسلمان بھائی کو بےیار.و.مددگار چھوڑے(بخاری حدیث2442)غرباء و مدارس و علماء لکھاری مبلغین امام مسجد وغیرہ کو بےیار و مددگار مت چھوڑیے...خاص کر جنگوں زلزلوں شدید بارشون سیلابوں غربت وغیرہ میں اپنے مسلمان بھائیوں کو بے یار و مددگار ہرگز مت چھوڑیے، عسکری جانی مالی حوصلاتی مدد کیجیے،ظلم و مہنگائی مت کیجیے
.
أَجْوَدَ النَّاسِ بِالْخَيْرِ، وَكَانَ أَجْوَدُ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ
نبی پاکﷺسب سےزیادہ سخی تھے(طعام راشن امداد علم شعور اچھی تربیت وغیرہ دیتے تھے)رمضان میں تو بہت سخاوت کرتےتھے(بخاری1902)
.
لوگوں میں بہترین وہ ہیں جو(علمی مالی وغیرہ جائز)نفع زیادہ پہنچاتےہوں(جامع صغیر حدیث5600)سچوں کے تعاون کیجیے انکی کتب تحریرات بیانات پھیلائیے عمل کیجیے،جانی مالی حوصلاتی وقتی ہر طرح کے جائز تعاون کیجیے…ضرور کیجیے
.
*اپنے حالات تنگ ہوں تب بھی تعاون و ایثار صدقہ خیرات کریں کہ اسکی بڑی شان ہے.......!!*
القرآن:
وَ یُؤۡثِرُوۡنَ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ وَ لَوۡ کَانَ بِہِمۡ خَصَاصَۃٌ ؕ ۟ وَ مَنۡ یُّوۡقَ شُحَّ نَفۡسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ
جو اپنی ضرورت و تنگی کےباوجود دوسروں کو ترجیح دیتےہیں،جو لالچ سے بچائےگئےوہی کامیاب ہیں(سورہ حشر9)خود کو،اپنےبچوں کو،ماتحتوں کو،دوستوں کو مفادی مطلبی لالچی مت بنائیے…ایثار کرنے والا،جائز دینےوالا،جائز کام آنےوالا،احترام کرنےوالا باوفا،حلال کماؤ،ہنرمند،سچا،نیک سخی بنائیے،سکھائیے،ایسی تربیت پھیلائیے،عمل کیجیے،عمل کرائیے…اچھا معاشرہ ماحول بنائیے،بنائےرکھیے
.
*ریا کاری دکھاوے واہ واہ کے لیے خرچ کرنا، چمچہ گیری مفاد پرستی میں خرچ کرنا، اپنا غلام بنانے کے خرچ کرنا اسلام و انسانیت کے خلاف ہے...اسلام و مفید انسانیت کے لیے اللہ کی رضا کے لیے خرچ کیجیے*
الحديث:
قُلْتُ: «يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ عَمِّي هِشَامَ بْنَ الْمُغِيرَةِ كَانَ يُطْعِمُ الطَّعَامَ، وَيَصِلُ الرَّحِمَ، وَيَفْعَلُ وَيَفْعَلُ، فَلَوْ أَدْرَكَكَ أَسْلَمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَانَ يُعْطِي لِلدُّنْيَا وَحَمْدِهَا وَذِكْرِهَا،
(مجمع الزوائد حدیث465)
فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبِي كَانَ يَصِلُ الرَّحِمَ، وَيَحْمِلُ الْكَلَّ، وَيُطْعِمُ الطَّعَامَ. قَالَ: فَهَلْ أَدْرَكَ الْإِسْلَامَ؟ قَالَ: " لَا " قَالَ: " فَإِنَّ أَبَاكَ كَانَ يُحِبُّ أَنْ يُذْكَرَ فَذُكِرَ..(مجمع الزوائد حدیث468)
دونوں احادیث مبارکہ کا خلاصہ ہے کہ:اسےسخاوت،لوگوں کی امداد،صلہ رحمی خدمات وغیرہ کچھ فائدہ نہ دیں گےکیونکہ وہ یہ سب واہ واہ،دنیاوی مفاد و مطلبیت اور لوگوں کو اپنا خوشامدی چاپلوس بنانےکےلیےکرتا تھا(مجمع زوائد حدیث465..468ملخصا)دینی دنیاوی خدمات وغیرہ اس لیےکرنا کہ لوگ غلام خوشامدی،واہ واہ کرنےوالےچاپلوس بنیں یا طاقت شہرت مفاد مطلبیت مقصد ہوتو سب خدمات مردود و مذموم ہیں…خوشامدی چاپلوس چمچے مردہ باد…مخلص حق گو معاون زندہ باد
.
*نفلی صدقہ زکواۃ فطرانہ،مدارس علماء و طلباء.......!!*
القرآن:
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْعٰمِلِیْنَ عَلَیْهَا وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الْغٰرِمِیْنَ وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِؕ
ترجمہ:
صدقات(زکواۃ فطرانہ کفارہ وغیرہ فرض واجب صدقات) فقراء کے لیے ہیں، مساکین کے لیے ہیں ، عاملین(جو زکواۃ کی وصولی کےلیے مقرر ہوں) اور مولفۃ القلوب کے لیے ہیں اور غلام و لونڈیان آزاد کرانے کے لیے ہیں اور مقروض کے لیے ہیں اور اللہ کی راہ والوں کے لیے ہیں اور مسافر کے لیے ہیں
(سورہ توبہ آیت60)
.
فالاولى ان لا يخص فى سبيل الله بالحج ولا بالغزو بل يترك أعم منهما ومن ساير أبواب الخير فمن أنفق ماله فى طلبة العلم صدق انه أنفق فى سبيل الله
آیت میں جو ہے کہ صدقہ(زکوٰۃ فطرہ وغیرہ) اللہ کی راہ والوں کو دیا جا سکتا ہے تو اس سے مراد صرف حج اور غزوہ و جہاد نہیں بلکہ یہ عام ہے تمام ابواب خیر سے، پس جس نے طالب علموں(مدارس) پر صدقہ(زکوٰۃ فطرہ کفارہ نفلی صدقہ مال)خرچ کیا بےشک اس نے اللہ کی راہ میں خرچ کیا
(التفسير المظهري ,4/239)
.
*پہلا مدرسہ............؟؟*
وَأَهْلُ الصُّفَّةِ أَضْيَافُ الْإِسْلَامِ......إِذَا أَتَتْهُ صَدَقَةٌ بَعَثَ بِهَا إِلَيْهِمْ، وَلَمْ يَتَنَاوَلْ مِنْهَا شَيْئًا، وَإِذَا أَتَتْهُ هَدِيَّةٌ أَرْسَلَ إِلَيْهِمْ، وَأَصَابَ مِنْهَا وَأَشْرَكَهُمْ فِيهَا
اصحاب صفہ اسلام کے مہمان ہیں( اللہ کے مہمان ہیں).....جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صدقہ آتا تو اصحاب صفہ کو دیتے آپ علیہ الصلاۃ والسلام صدقے میں سے کچھ بھی تناول نہ فرماتے اور اگر ہدیہ آتا تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام اصحاب صفہ کی طرف بھیجتے اور خود بھی تناول فرماتے اور ان کے ساتھ شریک ہوتے
(بخاری6452)
.
علماء کرام نے لکھا کہ صفہ گویا کہ اسلام کا پہلا عظیم الشان مدرسہ تھا اور اس میں رہنے والے صحابہ کرام عظیم الشام اولین مصروف طالب علم تھے
لِأَنَّ طَلَبَ الْعِلْمِ لَيْسَ إلَّا اسْتِفَادَةَ الْأَحْكَامِ وَهَلْ يَبْلُغُ طَالِبٌ رُتْبَةَ مَنْ لَازَمَ صُحْبَةَ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - لِتَلَقِّي الْأَحْكَامِ عَنْهُ كَأَصْحَابِ الصُّفَّةِ، فَالتَّفْسِيرُ بِطَالِبِ الْعِلْمِ وَجِيهٌ خُصُوصًا وَقَدْ قَالَ فِي الْبَدَائِعِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ جَمِيعُ الْقُرَبِ فَيَدْخُلُ فِيهِ كُلُّ مَنْ سَعَى فِي طَاعَةِ اللَّهِ وَسَبِيلِ الْخَيْرَاتِ إذَا كَانَ مُحْتَاجًا
( دو ٹوک الفاظ میں واضح الفاظ میں یہ نہیں آیا کے طالب علموں پر خرچ کرو مدرسوں پر خرچ کرو کیونکہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام کے دور مبارک میں مروجہ طریقے سے مدارس اور طالبعلم موجود نہ تھے لیکن غور کیا جائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں ایک طرح سے مدرسہ موجود تھا اور طالب علم موجود تھے)طالب علم اسی کو کہتے ہیں کہ دین و احکام سیکھنے کے لئے جو اپنے آپ کو وقف کرے تو اصحاب صفہ احکام سیکھنے دین سیکھنے کے لیے وقف تھے گویا وہ اولین عظیم الشان طالبعلم تھے اور صفہ گویا کہہ پہلا مدرسہ تھا.. لہذا فی سبیل اللہ خرچ کرنے سے مراد طالبعلم و مدارس مراد لیا جائے تو بھی یہ صحیح ہے بلکہ فی سبیل اللہ سے مراد مطلقا اللہ کی راہ والے مراد ہیں بشرطیکہ حاجت مند ہوں
(دیکھیے رد المحتار ,2/343 مشرحا ماخوذا)
(درر الحكام شرح غرر الأحكام ,1/189مشرحا ماخوذا)
.
.وكان أهل الصفة يقومون بفروض عظيمة، منها تلقى القرآن والسنة، فكانت الصفة مدرسة للإسلام، فكانت نفقتهم على سائر المسلمين...
اصحاب صفہ( نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک میں اور بعد کے دور میں) عظیم فرائض میں مشغول تھے یعنی قران و سنت میں مصروف تھے تو گویا صفہ اسلام کا (پہلا) مدرسہ تھا اور اس کا خرچہ مسلمانوں پر تھا
( الأنوار الكاشفة لما في كتاب «أضواء على السنة»ص145)
.
*بعض علماء کرام کے مطابق طالب علم مدرس مفتی عالم قاضی (اور امام مسجد) اگرچے غریب نہ ہوں پھر بھی زکواۃ فطرہ وغیرہ بقدر حاجت لے سکتے ہیں*
ان علماء کی دو دلیلیں ہیں
دلیل نمبر ایک:الحدیث:
لَا تَحِلُّ الصَّدَقَةُ لِغَنِيٍّ إِلَّا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَوِ ابْنِ السَّبِيلِ، أَوْ جَارٍ فَقِيرٍ يُتَصَدَّقُ عَلَيْهِ فَيُهْدِي لَكَ أَوْ يَدْعُوكَ
جو فقیر و مسکین نہ ہو وہ زکواۃ نہیں لے سکتا مگر جو اللہ کی راہ میں مصروف(عالم مدرس طالب علم مجاہد مبلغ امام مسجد مفتی)ہو وہ غریب نہ ہوکر بھی لے سکتا ہے اور مسافر اور فقیر پڑوسی جو غنی کو تحفتاً دے دے
(ابوداود حدیث1637)
اسکی سند ضعیف ہے مگر قیاس اور ضعیف حدیث مل کر قابل فتوی قول بن سکتے ہیں
دلیل نمبر دو:قیاس
قرآن و حدیث سنت و فقہ کی رو سے عاملِ زکوٰۃ یعنی جس کو زکواۃ وصولی کے لیے مقرر کیا گیا ہو وہ غریب نہ ہو کر بھی زکواۃ میں سے قدر حاجت لے سکتا ہے...اس پر قیاس یوں کیا گیا کہ کیونکہ عامل زکواۃ نے زکواۃ وصولی کے لیے خود کو مصروف کر رکھا ہے تو اسی طرح دینی خدمات میں مصروف علماء طلباء مجاہد لکھاری امام مسجد مفتی مبلغین بھی غریب نہ ہو کر بھی قدر حاجت زکواۃ فطرانہ میں سے لے سکتے ہیں
وَلاَ يُشْتَرَطُ فِيمَنْ يَأْخُذُ مِنَ الْعَامِلِينَ مِنَ الزَّكَاةِ الْفَقْرُ
(تمام علماء کا قرآن و سنت حدیث کی بنیاد پر متفقہ فتوی ہے کہ)عاملِ زکواۃ غریب نہ ہوکر بھی زکواۃ میں سے لے سکتا ہے
(الموسوعة الفقهية الكويتية ,23/318)
.
عاملِ زکواۃ(زکواۃ وصول کرنے والے) پر قیاس کے چند حوالے ملاحظہ کیجیے:
ويجوز للعامل الأخذ وإن كان غنيا لأنه فرغ نفسه لهذا العمل فيحتاج إلى الكفاية قال في المنح وبهذا التعليل يقوى ما نسب للواقعات من أن طالب العلم يجوز له أخذ الزكاة ولو غنيا إذا فرغ نفسه لإفادة العلم واستفادته لعجزه عن الكسب والحاجة داعية إلى ما لا بد منه
زکوۃ وصول کرنے کے لئے جس کو مقرر کیا گیا ہو اگرچہ وہ غریب نہ ہو پھر بھی وہ زکوٰۃ میں سے لے سکتا ہے کیونکہ اس نے اپنے آپ کو اس عمل کے لیے مصروف کردیا ہے تو اس کو قدر حاجت کی ضرورت ہے، اس علت کو دیکھا جائے تو وہ جو فتوی میں ہے کہ طالب علم غریب نہ ہو کر بھی زکوۃ لے سکتا ہے وہ فتوی قوی لگتا ہے کیونکہ طالب علم نے اپنے آپ کو علم حاصل کرنے اور علم پھیلانے کے لئے مشغول کر دیا ہے تو اس کے لیے قدر حاجت لینا جائز ہوگا
(حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح ,page 720)
.
وَهَذَا التَّعْلِيلُ يُقَوِّي مَا نُسِبَ إلَى بَعْضِ الْفَتَاوَى مِنْ أَنَّ طَالِبَ الْعِلْمِ يَجُوزُ لَهُ أَنْ يَأْخُذَ مَالَ الزَّكَاةِ وَإِنْ كَانَ غَنِيًّا إذَا فَرَّغَ نَفْسَهُ لِإِفَادَةِ الْعِلْمِ وَاسْتِفَادَتِهِ لِكَوْنِهِ عَاجِزًا عَنْ الْكَسْبِ، وَالْحَاجَةُ دَاعِيَةٌ إلَى مَا لَا بُدَّ مِنْهُ كَالْقَاضِي وَالْمُفْتِي
(زکوۃ وصول کرنے کے لئے جس کو مقرر کیا گیا ہو اگرچہ وہ غریب نہ ہو پھر بھی وہ زکوٰۃ میں سے لے سکتا ہے کیونکہ اس نے اپنے آپ کو اس عمل کے لیے مصروف کردیا ہے تو اس کو قدر حاجت کی ضرورت ہے،)اس علت کو دیکھا جائے تو وہ جو فتوی میں ہے کہ طالب علم غریب نہ ہو کر بھی زکوۃ لے سکتا ہے وہ فتوی قوی لگتا ہے کیونکہ طالب علم نے اپنے آپ کو علم حاصل کرنے اور علم پھیلانے کے لئے مشغول کر دیا ہے تو اس کے لیے قدر حاجت لینا جائز ہوگا...اسی طرح قاضی و مفتی(اسی طرح امام مسجد علماء مبلغین وغیرہ) کے لیے بھی جائز ہوگا
(مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر ,1/220)
.
تَعْلِيلِ حِلِّ الدَّفْعِ لِلْعَامِلِ الْغَنِيِّ بِأَنَّهُ فَرَّغَ نَفْسَهُ لِهَذَا الْعَمَلِ فَيَحْتَاجُ إلَى الْكِفَايَةِ إلَخْ قَالَ: وَبِهَذَا التَّعْلِيلِ يَقْوَى مَا نُسِبَ إلَى بَعْضِ الْفَتَاوَى أَنَّ طَالِبَ الْعِلْمِ يَجُوزُ لَهُ أَنْ يَأْخُذَ الزَّكَاةَ، وَإِنْ كَانَ غَنِيًّا إذَا فَرَّغَ نَفْسَهُ لِإِفَادَةِ الْعِلْمِ وَاسْتِفَادَتِهِ لِكَوْنِهِ عَاجِزًا عَنْ الْكَسْبِ، وَالْحَاجَةُ دَاعِيَةٌ إلَى مَا لَا بُدَّ مِنْهُ، وَهَكَذَا رَأَيْته بِخَطٍّ مَوْثُوقٍ وَعَزَاهُ إلَى الْوَاقِعَاتِ، وَاَللَّهُ - تَعَالَى - أَعْلَمُ اهـ..قُلْت: وَقَدْ رَأَيْته أَيْضًا فِي جَامِعِ الْفَتَاوَى مَعْزِيًّا إلَى الْمَبْسُوطِ وَنَصُّهُ: وَفِي الْمَبْسُوطِ لَا يَجُوزُ دَفْعُ الزَّكَاةِ إلَى مَنْ يَمْلِكُ نِصَابًا إلَّا إلَى طَالِبِ الْعِلْمِ....
زکوۃ وصول کرنے کے لئے جس کو مقرر کیا گیا ہو اگرچہ وہ غریب نہ ہو پھر بھی وہ زکوٰۃ میں سے لے سکتا ہے کیونکہ اس نے اپنے آپ کو اس عمل کے لیے مصروف کردیا ہے تو اس کو قدر حاجت کی ضرورت ہے، اس علت کو دیکھا جائے تو وہ جو فتوی میں ہے کہ طالب علم غریب نہ ہو کر بھی زکوۃ لے سکتا ہے وہ فتوی قوی لگتا ہے کیونکہ طالب علم نے اپنے آپ کو علم حاصل کرنے اور علم پھیلانے کے لئے مشغول کر دیا ہے تو اس کے لیے قدر حاجت لینا جائز ہوگا...
امام ابن نجیم فرماتے ہیں کہ جامع الفتاوی میں مبسوط کی طرف منسوب فتوی ہے کہ طالب علم اگرچے غریب نہ ہو مالک نصاب تو بھی وہ زکوٰۃ لے سکتا ہے.....
(البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري ,2/260)
.
عدم جواز کے دلائل کا یہی جواب دیا جاتا کہ جس طرح عاملین زکواۃ مستثنی ہیں اسی طرح مذکورہ افراد بھی مستثنی ہیں
.
*اس مدلل فتوی کے مطابق اسلام و علم کے لیے سرگرم طلباء علماء مدرسین امام مسجد مبلغ لکھاری غریب نہ ہوکر بھی بقدر حاجت زکواۃ فطرہ لے سکتے ہیں،لینے والے دینے والے عظیم ثواب کمائیں گے…مگر سلام ہے علماء کو کہ ڈائریکٹ زکواۃ فطرہ استعمال میں نہیں لاتے بہتر طریقے اپنا کر استعمال میں لاتے ہیں*
.
*ریڑھ کی ہڈی کے مہروں کی طرح............؟؟*
احسان.و.بھلائی کا بدلہ احسان.و.بھلائی ہے(سورہ الرحمٰن آیت60) دینی خدمات میں سرگرم سچے بھلے لوگ و ادارے مستحق ہیں کہ ہم ان کے ساتھ بھلائی کریں،جانی مالی وقتی حوصلاتی تعاون کریں…معتبر اہلسنت سرگرم مدارس، علماء، خطباء، امام مسجد،لکھاری وغیرہ میں سے ہر ایک ریڑھ کی ہڈی کے مہرے کی طرح ہیں انہیں مالی تعاون کریں کرائیں مضبوط بنائیں،مدارس میں بچے داخل کرائیں
.
*ترجیحات......؟؟ طلباء.و مدارس میں صدقے کا ثواب ایک کے بدلے سات سو یا اس سے بھی بڑھ کر.........!!*
زکاۃ فطرانہ صدقات تحائف و تعاون عام طور پر مستحق غریب رشتے دار اور دیگر غرباء اور مدارس میں دے سکتے ہیں
مگر
بہتر ہے کہ اچھےغیور خود'دار غرباء و سرگرم مدارس و طلباء و علماء مبلغین امام مسجد وغیرہ کو تو دھونڈ دھونڈ کر دیں
اور خوب اجر پائیں…ایک کے بدلے سات سو اور اس سے بھی زیادہ اجر پائیں....!!
مسئلہ:
لنگر،نیاز،عرس،فاتحہ وغیرہ پر خرچ کرنےپے1کےبدلے10نیکیاں ہیں(دلیل سورہ انعام160)اور طالب علم دین(و برحق سرگرم مدارس علماء لکھاری علم و شعور جہاد)پر خرچ کرنےمیں1کے بدلے700 یا اس سےبھی زیادہ نیکیاں ملیں گی(دلیل سورہ بقرہ261)(فتاوی رضویہ246 ،10/305ملخصا) لنگر،نیاز،عرس،فاتحہ پے زکواۃ فطرہ خرچ نہیں کرسکتے البتہ ان پے نفلی صدقہ نیاز خرچ کرسکتے ہیں…زیادہ بہتر ، زیادہ مفید پر زیادہ خرچ کیجیے، معتبر سرگرم سادات و علماء و مدارس و مبلغین و امام مسجد و علمی اصلاحی جگہوں کتابوں علم و شعور پڑھنے پڑھانے پھیلانے پے زیادہ خرچ کیجیے، اور اس کے ساتھ ساتھ دیگر غرباء پے زکواۃ فطرہ نفلی صدقہ بھی ضرور خرچ کیجیے اور فلاحی ترقیاتی کاموں محلفوں عرس فاتحہ لنگر پے نفلی صدقہ کم خرچ کیجیے کہ حاجت زیادہ نہیں الا یہ کہ کسی علمی اصلاحی و اسلام کہ سربلندی کی محفل کا فائدہ زیادہ ہوتو اس پے زیادہ خرچ کیا جانا چاہیے...بظاہر کم مفید پے بھی کم خرچِ صحیح کیجیے کہ نا جانے کونسی ادا اور نیکی مقبول و محبوب ہو جائے…اچھی سیاست پے جب حاجت ہو تو ضرور نفلی صدقہ تعاون خرچ کیجیے
.
الْأَفْضَلِيَّةُ مِنَ الْأُمُورِ النِّسْبِيَّةِ، وَكَانَ هُنَاكَ أَفْضَلَ لِشِدَّةِ الْحَرِّ وَالْحَاجَةِ وَقِلَّةِ الْمَاءِ
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف امور کو افضل صدقہ قرار دیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی صدقہ کس نسبت سے افضل ہوتا ہے اور کوئی صدقہ کس نسبت سے افضل ہوتا ہے اور اس حدیث پاک میں افضل صدقہ پانی اس لیے ہے کہ اس کی حاجت زیادہ تھی
(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ,4/1342)
تو
وقت و حالات کے مطابق ضرورت و نفع کو دیکھ کر اس میں زیادہ خرچ کرنے کو ترجیح دینی چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ
تھوڑا تھوڑا کرکے ہر نیکی میں دیں، وقتا فوقتا صدقہ کریں، وقتا فوقتا قران پڑہیں حدیث پڑہیں معتبر کتب سے قران و حدیث کو سمجھیں سمجھائیں پھیلاءیں عمل کریں نوافل درود پڑہیں نیکیان کریں گناہوں سے بچیں، حسن اخلاق اپنائیں، علم و شعور اگاہی پھیلائیں، مدد کریں، فلاحی کام کریں. غرباء کو جس کی حاجت زیادہ ہو وہ دیں...جس کا نفع عام و زیادہ ہو وہ کریں، مدارس میں دیں.. علماء لکھاری مبلغین کی مدد کریں.......کسی بھی نیکی کو کمتر نہ سمجھیں کہ نہ جانے کونسی نیکی کونسی ادا اللہ کے ہاں محبوب و مقبول ہوجائے...
الحدیث:لَا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوفِ شَيْئًا،
کسی بھی نیکی کو کمتر نہ سمجھو
(مسلم حدیث2626...6690)
.
*سادات کرام کی خدمت.........!!*
وَإِنَّا لَا تَحِلُّ لَنَا الصَّدَقَةُ
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بے شک ہمارے لیے(سادات کرام کے لیے) صدقہ(زکواۃ فطرہ وغیرہ فرض واجب صدقہ) حلال نہیں ہے
(ابوداود حدیث1650)
.
نفلی صدقہ یعنی ہدیہ تحفہ سادات کرام کو دیا جاسکتا ہے بلکہ مستحق سید کو لازمی دینا چاہیے…حتی کہ زکواۃ فطرہ اگر کسی غریب کو دیا جائے اور وہ غریب تحفے ہدیے کے طور پر سادات کرام کو دے دے تو بھی یہ حیلہ طریقہ جائز ہے سنت سے ثابت ہے
أُتِيَ بِلَحْمٍ تُصُدِّقَ بِهِ عَلَى بَرِيرَةَ، فَقَالَ : " هُوَ عَلَيْهَا صَدَقَةٌ وَهُوَ لَنَا هَدِيَّةٌ
بریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کو صدقے کا گوشت ملا(اور آپ رضی اللہ تعالی عنہا نے نبی پاک کو تحفے ہدیے کے طور پر پیش کیا تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے تناول فرمایا)اور فرمایا کہ یہ بریرہ کے لیے صدقہ ہے لیکن ہمارے لیے ہدیہ ہے
(بخاری حدیث1495)
لہذا سادات کرام اور وہ علماء مفتی لکھاری امام مسجد جو غریب نہ ہو ان کا خصوصی خیال رکھیے اور نفلی صدقہ دیتے رہیے، تحفے ہدیے کے طور پر خدمت کیا کیجیے اور اگر زکوۃ فطرہ انکو دینا ہو تو کسی معتبر عالم فاضل یا معتبر تنظیم ٹرسٹ سے کہیے کہ میرے پاس زکواۃ فطرہ کے پیسے ہیں اور میں فلاں کو دینا چاہتا ہوں تو آپ حیلہ شرعی کر دیجیے یا کرا دیجیے اور فلاں سید عالم مفتی امام مسجد لکھاری کے گھرانے کو ہدیہ پیش کیجیے........!!
.
اہم نوٹ:
احسان جتا کر،تکلیف پہنچا کر اپنےصدقات باطل نہ کرو(سورہ بقرہ آیت264)زکاۃ،فطرہ لینےوالےمولوی،مدارس،غرباء وغیرہ پر احسان نہ جتاؤ…انکو کمتر نہ سمجھو
.
*طلباء اور والدین سرپرست کے لیے پیغام.....!!*
عالم کورس مکمل توجہ ، کثیر و دقیق مطالعہ تدبر تحشیہ تخریج توجیہ تطبیق کی عادات کے ساتھ مکمل کیجیے یا چار پانچ درجے پڑہیے بنیادی علم حاصل کیجیے پھر بعض علم دین پھیلانے میں وقف و ماہر ہوں اور بعض استاد لیچکرار ڈاکٹر انجنئیر مفتی واعظ مصنف تاجر پولیس فوجی ، سیاستدان ، صحافی، سائنسدان شاعر نعت خواں کچھ بھی اچھا بنیں…،مختلف شعبوں میں جائیں چھا جائیں اور اسکے ساتھ ساتھ علم و شعور لیتے رہنے پھیلاتے رہنے سے تاحیات وابستگی بھی رکھیں
.
آپ اگر والد ہیں سرپرست ہیں مدرسے کے بڑے ہیں تو اپنے بیٹے ماتحت طالب علم کو سمجھائیے اسے تعلیم بھرپور توجہ و نگرانی میں رب کی رضا کے لیے دلوائیے... تاکہ آپ کا بیٹا ، آپ کا اسٹودنٹ مکمل توجہ سے علم حاصل کرکے قابل علمی عملی شخصیت بنے
پھر
کچھ دینی ماہر بنیں اور کچھ دیگر شعبوں کے اچھے ماہر بنیں..........!!
.
*کافی علم حاصل کرنے کے بعد کچھ اہل علم غربت تصوف فقیری اپنائیں تو کچھ اہل علم خوب دولت کما کر اسلام پے لٹائیں تو کچھ اہل علم دینی علم و تحقیق پے توجہ دیں تو کچھ اہل علم کفار ملحدین مکار گمراہوں کے رد میں مگن ہوں تو کچھ تصوف و اصلاح پے خاص توجہ دیں تو کچھ سیاست تجارت دولت جدت ٹیکنالوجی دنیا نوکری پولیس فوج طب سائنس فلکیات ایٹمی جوہری طاقت فزکس و اسکول کالج یونیورسٹی وغیرہ ہر میدان میں کچھ نہ کچھ اہلسنت جائیں، چھا جائیں...لیکن دوٹوک یا اشارتاً ایک دوسرے کی تائید و حمایت بھی کریں.......!!*
القرآن..ترجمہ:
جو قوت،طاقت ہوسکے تیار رکھو..(انفال60)
آیت مبارکہ مین غور کیا جائے تو ایک بہت عظیم اصول بتایا گیا ہے... جس میں معاشی طاقت... افرادی طاقت... جدید ہتھیار کی طاقت... دینی علوم و مدارس کی طاقت، جدید تعلیم و ترقی کی طاقت.... علم.و.شعور کی طاقت... میڈیکل اور سائنسی علوم کی طاقت... جدید فنون کی طاقت... اقتدار میں اچھے لوگوں کو لانے کی طاقت.. احتیاطی تدابیر مشقیں جدت ترقی
اور دیگر طاقت و قوت کا انتظام کرنا چاہیے...اس ایت مبارکہ سے اچھی جدت و ٹیکنالوجی اچھی دولت طاقت سب کا ثبوت ہے
.
ایک دفعہ آپ علیہ الصلاۃ والسلام کے پاس *دولتمندی* کا تذکرہ ہوا تو آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
لا بأس بالغنى لمن اتقى، والصحة لمن اتقى خير من الغنى، وطيب النفس من النعيم
ترجمہ:
دولت مندی(جائز طریقے سے دولت پیسہ کمانے) میں کوئی مضائقہ نہیں اُس کے لیے جو تقوی کرے، اور صحت دولت سے بہتر ہے اُس کے لیے جو تقوی کرے،اور اچھی طبیعت(خوش اخلاقی، پاکیزہ طبیعت) نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے
(ابن ماجہ حدیث2141)
الحدیث،ترجمہ:
کیا ہی اچھا ہے وہ "اچھا مال" (وہ پاکیزہ، حلال مال.و.دولت) جو اچھے شخص کے پاس ہو..(مسند احمد حدیث7309)
.
الحدیث،ترجمہ:
(دینی دنیاوی جسمانی معاشی طبی ٹیکنالوجی وغیرہ ہر جائز و مناسب میدان میں)طاقت حاصل کرنے والا مومن کمزور سےزیادہ بہتر و اللہ کو زیادہ محبوب ہے..(مسلم حدیث2664)
عبادات و دینی علم لینا دینا و عمل کرنے کے ساتھ ساتھ جائز دولت طاقت طب ٹیکنالوجی علوم فنون سیاست عدالت فوج و جائز دنیا میں چھا جانا...سخاوت کرنا..امداد علم شعور لینا دینا،جدت محنت "مناسب جائز تفریح" ترقی احتیاط دوا دعاء عبادت توبہ استغفار اور سچوں اچھوں کو دولت و اقتدار میں لانا وغیرہ سب پے عمل کرنا چاہیے کہ وقت کا صحیح استعمال اور مسائل کا یہی بہترین حل ہے اور ترقی کی یہی راہ ہے
.
فتاوی رضویہ میں ہے
*جدت* ممنوع نہیں بشرطیکہ کسی ممنوع شرعی میں شامل نہ ہو(فتاوی رضویہ22/191)
اسلام جدت ، جدید تعلیم.و.ٹیکنالوجی اچھی پاکیزہ معیشت دولت کےخلاف نہیں بلکہ اسےکسی حد تک ضروری تک قرار دیتا ہے
مگر
جدت و تعلیم کے نام پر خفیہ سیکیولرازم، لبرل ازم ،فحاشی بےحیائی غلامی ایجنٹی منافقت،کھلی آزادی کےخلاف ہے
.
مدارس کی جدت اچھا اقدام ہے
مگر
اسکول کالج یونیورسٹی کےنصاب.و.نظام کی ترقی و اسلامئیزیشن اولین ترجیحی فریضہ ہے
.
نوٹ:
لائکس ویوز شیئر کمنٹ کی نایابی کمی سے دل چھوٹا نہ کیجیے..حق سچ مستند مصدقہ ذرائع سے لکھتے پھیلاتےشئیر کرتے رہیے اس امید پر کہ شاید ہم ہدایت کا باعث بنیں، الحدیث..ترجمہ:اللہ کی قسم تمھاری وجہ سے کسی ایک کو بھی ہدایت مل جائے تو یہ تمھارے لیے سرخ(انتھائی قیمتی)اونٹوں سے بہتر ہے..(بخاری حدیث2942)
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
whats App,twitter nmbr
00923468392475
03468392475
other nmbr
03062524574