رمضان عید شادی میلاد حج عمرہ یوم ولادت وغیرہ کی مبارکبادی…؟؟ خوشی؟اور چاند کی احتیاط؟

*ویلکم کیجیے،کیا رمضان کی مبارکباد دینے سے جنت واجب ہوجاتی ہے....؟؟رمضان شریف میلاد عید شادی وغیرہ کی خوشی اور رمضان کی خوشخبری و مبارکبادی…؟؟ جمعہ عید شادی اولاد خوشی نعمت وغیرہ پے مبارکبادی....؟؟ استقبالِ رمضان…؟؟ سلامی روزہ…؟؟ چاند دیکھنے کی دعا و احتیاط.....؟؟*

#خوشی

القرآن:

قُلۡ بِفَضۡلِ اللّٰہِ وَ بِرَحۡمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلۡیَفۡرَحُوۡا

 کہہ دو کہ اللہ کے فضل اور اللہ کی رحمت پر مومنوں کو خوشی کرنی چاہیے

(سورہ یونس آیت58)

.

وإما الجنسُ وهما داخلان فيه دخولاً أولياً

 آیت میں ہر اسلامی  فضل اور اسلامی رحمت پے خوش ہونا مراد ہوسکتا ہے لیھذا دونوں(اسلام و قرآن) بھی اس میں بدرجہ اولی شامل ہیں

(تفسیر ابی سعود4/156)

اسلام پے دلی خوشی کیجیے

قرآن پڑھنے سننے سمجھنے سے دلی مسرت ہو

رمضان المبارک جمعہ مبارک پے دل خوش ہونا چاہیے

عید پے میلاد پے بابرکت و رحمت کے دنوں پے دلی خوشی کرنی چاہیے

شادی پے ، اولاد ہونے پے خوشی ہونی چاہیے

یوم ولادت یوم ازادی و دیگر ایام وغیرہ پے خوشی جائز ہے

الغرض 

ہر اسلامی نعمت و رحمت و فضل کے مواقع پے، ایسے دنوں پے نیکیوں پے دل خوش ہونا چاہیے،خوشی کا جائز طریقے سے اظہار کرنا چاہیے، مبارکباد دینی لینی چاہیے

.

الحدیث:

مَنْ سَرَّتْهُ حَسَنَتُهُ وَسَاءَتْهُ سَيِّئَتُهُ فَذَلِكُمُ الْمُؤْمِنُ

 نیکی پے جسے خوشی ہو اور براہی ہو جانے پر اسے دکھ ہو تو وہ مومن ہے..(ترمذی حدیث2165)


.

*رمضان مبارک کی خوشخبری مبارکبادی....!!*

يُبَشِّرُ أَصْحَابَهُ : " قَدْ جَاءَكُمْ رَمَضَانُ، شَهْرٌ مُبَارَكٌ، افْتَرَضَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ صِيَامَهُ، تُفْتَحُ فِيهِ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ، وَتُغْلَقُ فِيهِ أَبْوَابُ الْجَحِيمِ، وَتُغَلُّ فِيهِ الشَّيَاطِينُ، فِيهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ، مَنْ حُرِمَ خَيْرَهَا فَقَدْ حُرِمَ

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام کو رمضان مبارک کی خوشخبری اور مبارکباد دیتے ہوئے فرماتے کہ

 رمضان کا مہینہ آیا ہے یہ مہینہ مبارک مہینہ ہے، اس کے روزے تم پر اللہ نے فرض کییے ہیں، اس مبارک مہینے میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیطانوں کو جکڑ لیا جاتا ہے اور اس میں ایک رات ہے جو ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے، جو اس کی بھلائی سے محروم رہا وہ بہت بڑا محروم رہا

(مسند احمد حدیث8991)

(استاد بخاری المصنف ابن ابی شیبہ2/270نحوہ)

.

.قال بعض العلماء: هذا الحديث أصل في تهنئة الناس بعضهم بعضا بشهر رمضان

 امام زرقانی فرماتے ہیں کہ لوگ ایک دوسرے کو رمضان مہینے کی مبارکباد دیتے ہیں بعض علماء نے فرمایا کہ یہ حدیث ان کے لئے اصل اور دلیل ہے

(شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية11/223)

.

نوٹ:

 وہ جو ایک میسج مشہور ہے کہ جس نے رمضان کی سب سے پہلے خوشخبری سنائی اس کے لیے جنت واجب ہے تو ایسی کوئی بھی حدیث ہمیں نہیں ملی اور نہ ہی کسی معتبر اسلاف  کا ایسا قول ہماری نظر سے گزرا لہذا ایسے میسج کو فارورڈ نہیں کر سکتے،ہرگز نہیں....اگر آپ مستند عالم نہیں تو کوئی بھی میسج یا تحریر ہو اسے مستند عالم سے تصدیق کرائیے پھر پھیلائیے

الحديث:

كَفَى بِالْمَرْءِ كَذِبًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ 

کسی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات پھیلاتا پھرے

(مسلم حدیث5)

.

*حج عمرہ کی مبارکبادی.......!!*

حج یا عمرہ کرنے والے کا استقبال کرنا، مبارک باد دینا، اس سلسلے میں پروگرام رکھنا جائز و ثواب ہے بشرطیکہ اسراف و تکبر و شہرت مقصود نہ ہو...(دلیل بخاری حدیث1798)

.

*جمعہ کی مبارکبادی.....!!*

الحدیث،ترجمہ:

جس نےجمعہ نماز ترک کی اسکےلیےکوئی برکت نہیں…اسکی نماز،زکاۃ،حج،روزہ اور کوئی نیکی قبول نہیں یہاں تک کہ توبہ کرے(ابن ماجہ حدیث1081ملخصا)

.

اس حدیث پاک کا مفھوم بنتا ہے کہ جو جمعہ نماز پڑھے اس کے لیے برکت.و.مبارک ہے، اس حدیث پاک سے اشارتاً ثابت ہوتا ہے کہ جمعہ مبارک کہنا جائز.و.ثواب ہے

.

*نکاح کی مبارکبادی......!!*

الحدیث:

أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا رَفَّأَ قَالَ : " بَارَكَ اللَّهُ لَكُمْ، وَبَارَكَ عَلَيْكُمْ، وَجَمَعَ بَيْنَكُمَا فِي خَيْرٍ

 بےشک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نکاح کی مبارکباد دیتے تھے اور دعا دیتے تھے کہ اللہ تمھارے لیے برکت فرمائے اور اللہ تعالی تم پر برکت فرمائے اور تمہیں خیر میں جمع فرمائے

(ابن ماجہ حدیث1905باب نکاح کی مبارکبادی دینا)

 برکت سے مراد ہر قسم کی برکت ہے دنیاوی جانی مالی اولادی برکتیں اور  دینی برکتیں اور معاشی معاشرتی خوشیاں برکتیں، اتحاد و اتفاق والی برکتیں سب برکتوں کو شامل ہے یہ دعا و مبارکبادی......!!

.

*بیٹا بیٹی کی مبارکبادی.......!!*

أَنَّ رَجُلًا مِمَّنْ كَانَ يُجَالِسُ الْحَسَنَ وُلِدَ لَهُ ابْنٌ فَهَنَّأَهُ 

 سیدنا حسن بصری رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس ایک شخص حاضر ہوا کرتا تھا اس کو بیٹا پیدا ہوا تو سیدنا حسن نے انہیں مبارکباد دی

(الدعاء طبرانی روایت945)

.

يُستحبّ تهنئةُ المولودِ لهُ، قال أصحابنا: ويُستحبّ أن يُهَنَّأ بما جاء عن الحسن١ [البصري] رضي الله عنهُ، أنَّه علَّم إنساناً التهنئة، فقال: قُل: باركَ الله لكَ في الموهوب لك، وشكرتَ الواهبَ، وبلغَ أشدَّه٢، ورُزقت برهُ...ويُسْتَحَبُّ أن يردّ على المهنئ، فيقولُ: باركَ الله لك، وبارَك عليك، أو: جزاك الله خيراً، ورزقك الله مثلهُ؛ أو: أجزلَ اللهُ ثوابَك؛ ونحو هذا

 امام نووی فرماتے ہیں کہ جسے اولاد(بیٹا یا بیٹی)پیدا ہو اسے مبارکباد دینا جائز و ثواب ہے، مبارکبادی کے مختلف الفاظ ہو سکتے ہیں مثلا یوں کہے کہ اللہ تعالی آپ کو اولاد میں برکتیں دے اور شکر کی توفیق دے اور اللہ کرے آپ کی اولاد اچھی عمر کو پہنچے اور آپ اولاد کی حسنِ سلوکی پائیں... اور بہتر ہے ثواب ہے کہ جسے مبارکباد دی گئی ہے وہ یوں کہے کہ اللہ تعالی آپ کے لئے بھی برکت دے آپ کو برکت دے اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر دے اللہ تعالی آپ کو بھی اس جیسی اولاد عطا فرمائے یا پھر کہے کہ اللہ تعالی آپ کو بہت بڑی جزا دے یا اس قسم کے دیگر الفاظ

(الأذكار للنووي ط ابن حزم ص469ملخصا)

.

*عید کی مبارکبادی.......!!*

عید کے دن خوشی کا اظہار کرنا ،لوگوں کا آپس میں عید ملنا ، عید ملنے جانا اور ایک دوسرے کو عید کی مبارکباد دینا مستحب و ثواب ہے،مختلف مناسب اچھے الفاظوں سے عید کی مبارکبادی دے سکتے ہیں…مثلا کسی بھی زبان میں کہےکہ اللہ قبول فرمائے،یا تَقَبَّلَ اللهُ مِنَّا وَ مِنْكَ کہےکہ بعض صحابہ کرام علیھم الرضوان و تابعین عظام سے یہ مبارکبادی منقول ہے(دیکھیےشعب الایمان3446،طبرانی کبیر123)عید مبارک کہہ کر بھی مبارکباد دینا جائز.و.ثواب ہے(فتاوی شامی3/56)

.

*ہر جائز خوشی و نعمت کے موقعہ و دن پے مبارکبادی...!!*

فَيَتَلَقَّانِيَ النَّاسُ فَوْجًا فَوْجًا يُهَنُّونِي بِالتَّوْبَةِ

 صحابی فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام گروہ در گروہ آتے اور مجھے مبارکباد دیتے کہ تمہاری توبہ قبول ہو گئی ہے

(بخاری4418)

.

اس واقعہ کو دلیل بنا کر امام عینی فرماتے ہیں:

واستحباب التبشير عِنْد تجدّد النِّعْمَة واندفاع الْكُرْبَة

نعمت رحمت ملنے یا نعمت رحمت دوبارہ آنے یا مشکل دور ہونے کے تمام مواقع پے مبارکبادی دینا ثواب ہے،یہ حکم بخاری کی مذکورہ روایت سے ثابت ہوتا ہے

(عمدۃ القاری شرح بخاری 18/55)

.

الحدیث:

وإنْ أصابَهُ خَيْرٌ هَنَّأْتَهُ وإنْ أصابَتْهُ مُصِيبَةٌ عَزَّيْتَهُ

 پڑوسی کے حقوق میں سے ہے کہ اگر اسے کوئی خوشی یا بھلائی ملے تو آپ اسے مبارکباد دیں اگر اسے کوئی دکھ پہنچے تو آپ اس کی تعزیت کریں،دکھ و غم ہلکا کریں

(الجامع الصغير وزيادته حدیث6474)

.

امام ابن حجر عسقلانی مذکورہ دونوں احادیث و دیگر احادیث کو دلیل بناتے ہوئے لکھتے ہیں

يستدل لعموم التهنئة لما يحدث من النعم أو يندفع من النقم

 ان تمام دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ نئ نعمت ملے یا دوبارہ ملے یا کوئی مشکل و دکھ تکلیف بیماری دور ہو تو ان سب مواقع پر مبارکباد دینی چاہیے

(جزء فی التھنیۃ ابن حجر عسقلانی ص46)

.

*خلاصه....!!*

میلاد کی خوشی و مبارکبادی

رمضان مبارک کی خوشی و مبارکبادی

اچھی علمی اصلاحی محفل و پروگرام کی خوشی و مبارکبادی

شادی اولاد یوم ولادت کی خوشی و مبارکبادی

تراویح روزہ نماز حج عمرہ جمعہ یوم عرفہ شب براءت شب معراج میلاد  کی خوشی و مبارکبادی

سبق و کورس شروع کرنے مکمل کرنے کی خوشی و مبارکبادی

نئے سال و نئے ماہ کی خوشی و مبارکبادی

کاروبار میں برکت اچھی دولت کی خوشی و مبارکبادی

خوشیاں ملنے رحمت نعمت ملنے بیماری مشکلات دور ہونے پے خوشی و مبارکبادی

الغرض

ہر نعمت رحمت سعادت جائز خوشی کے مواقع  پے خوشی و مبارکبادی اسلامی حدود میں ہو، اچھی نیت سے ہو،تکبر طلبِ شہرت غرور اسراف وغیرہ برائیوں سے پاک ہو تو جائز و ثواب ہے

وَالتَّهْنِئَةُ تَكُونُ بِكُل مَا يُسِرُّ وَيُسْعِدُ مِمَّا يُوَافِقُ شَرْعَ اللَّهِ تَعَالَى، وَمِنْ ذَلِكَ: التَّهْنِئَةُ بِالنِّكَاحِ، وَالتَّهْنِئَةُ بِالْمَوْلُودِ، وَالتَّهْنِئَةُ بِالْعِيدِ وَالأَْعْوَامِ وَالأَْشْهُرِ، وَالتَّهْنِئَةُ بِالْقُدُومِ مِنَ السَّفَرِ، وَالتَّهْنِئَةُ بِالْقُدُومِ مِنَ الْحَجِّ أَوِ الْعُمْرَةِ، وَالتَّهْنِئَةُ بِالطَّعَامِ، وَالتَّهْنِئَةُ بِالْفَرَجِ بَعْدَ الشِّدَّةِ

یعنی

 ہر خوشی اور سعادت نعمت رحمت کے مواقع پر مبارک باد دینی چاہیئے بشرطیکہ کی اسلام کی خلاف ورزی کا طریقہ نہ ہو....جیسے نکاح کی مبارکبادی، اولاد پیدا ہونے کی مبارکبادی، نئے سال نئے مہینے کی مبارکبادی ، عید کی مبارکبادی سفر سے واپسی کی مبارکبادی، حج یا عمرہ کی مبارکباددی، طعام کی مبارکبادی، خوشحالی دولتمندی کی مبارکبادی وغیرہ وغیرہ

(الموسوعة الفقهية الكويتية14/97)

.

*چاند مبارکبادی اور احتیاط.........؟؟*

نئے قمری سال یا نئے قمری مہینے کے شروع ھونے پے نبی پاک صلی اللہ علیہ و علی الہ واصحابہ اجمین کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم اجمعین اس دعا کی تعلیم فرماتے تھے:

اللَّهُمَّ أَدْخِلْهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ وَالْإِيمَانِ، وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ،وَرِضْوَانٍ مِنَ الرَّحْمَنِ،وَجَوَازٍ مِنَ الشَّيْطَانِ(طبرانی6241)

اور بھی دعائیں،معتبر وظائف ہیں وہ بھی پڑھ سکتے ہیں

.

خیال رہے کہ چاند کی طرف ہاتھ کرکے یا چاند کی طرف رخ کرکے دعا نہیں مانگنی چاہیے...اسی طرح چاند کی طرف تنکا پھینکنا یا چاند سے کچھ مانگنا بھی بہت بری جہالت ہے....نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم چاند دیکھ کر اس سے رخ ہٹا لیتے،پھر دعا فرماتے( دیکھیے ابوداود 2/339، فتاوی رضویہ10/458,459)

.

فتاوی عالمگیری میں ہے کہ:

وتكره الإشارة إلى الهلال عند رؤيته تعظيما له أما إذا أشار إليه ليريه صاحبه فلا بأس به

ترجمہ:

چاند دیکھتے وقت اسکی طرف اشارہ کرنا اس وقت مکروہ ہے کہ جب چاند کی تعظیم مقصد ہو، اور اگر دوسروں کو چاند دکھانے کے لیے اشارہ کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں

(فتاوی عالمگیری جلد5 ص380)

.

*چھوٹا یا بڑا چاند...........؟؟*

ایک سوچ:

چاند نظر آنے کے کافی امکان ہوتے ہیں مگر نظر نہیں آتا پھر اگلے دن پہلی تاریخ کے واضح یا بڑے چند کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ یہ تو دو دن کا ہے...؟؟

جواب:

 یہ خیال ٹھیک نہیں...پہلی تاریخ کا چاند کبھی بہت باریک اور کم وقت تک نظر آنے والا ہوتا ہے اور کبھ کچھ بڑا ہوتا ہے،دیر تک نظر آتا ہے..

الحدیث:

سیدنا ابن عباس سے روایت ہے کہ

إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: إن الله مده للرؤية، فهو لليلة رأيتموه

ترجمہ:

بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اس(پہلی تاریخ کے)چاند کو اللہ نے بڑا(یا زیادہ دیر تک نظر آنے والا) کیا ہے دیکھنے کے لیے،یہ اسی رات کا ہے جس رات دیکھو

(مسلم حدیث نمبر1018 باب چاند کے چھوٹے بڑے ہونے کا اعتبار نہیں)اب تو سائنسی لحاظ سے بھی ثابت ہوگیا ہے کہ پہلی تاریخ کا چاند تھوڑا بڑا اور واضح ہوسکتا ہے..

.

*استقبال رمضان......!!*

محفل رکھ کر، فضائل بیان کرکے، راشن تقسیم کرکے، امداد کرکے،مختلف جائز طریقوں سے رمضان کا استقبال کرنا خوشی کا اظہار کرنا جائز ہے مگر رمضان المبارک سے ایک دو دن پہلے کا روزہ رکھ کر استقبال کرنا ٹھیک نہیں کیونکہ اس استقبالی سلامی روزہ سے حدیث پاک میں منع کیا گیا ہے

الحدیث:

لا يتقدمن أحدكم رمضان بصوم يوم أو يومين، إلا أن يكون رجل كان يصوم صومه، فليصم ذلك اليوم

ترجمہ:

تم میں سے کوئی بھی رمضان سے ایک دو دن پہلے کا روزہ ہرگز نہ رکھے سوائے اس کے کہ کسی دن(مثلا پیر،جمعرات وغیرہ) کا روزہ رکھا کرتا تھا وہ دن رمضان سے1,2دن پہلے آگیا تو وہ اپنے اس دن کا روزہ رکھ سکتا ہے

(بخاری حدیث نمبر1914)

.

بشروا ولاتنفروا…خوشخبریاں سناؤ(اکثر فضائل و برکات سنا کر عبادات،نیکیوں کی طرف مائل کرو)اور متنفر مت بناؤ(لیکن کوئی حق بیانی کی وجہ سے متنفر ہوتو اسکا قصور ہے،سلیقے سےحق بیانی کرنے والے کا قصور نہیں)(مسلم حديث4525)رمضان کریم شب معراج شب براءت شب قدر وغیرہ میں روزہ نوافل ذکر عبادات کرنے والوں کو طعنے مت ماریے،ویلکم کیجیے،استقامت کی دعا دیجیے…سارا سال گناہ اب نیک اس شیطانی وسوسے میں مت آئیے،گناہ گار کی بھی نیکیاں فرض واجب سنتیں ادا ہوتی ہیں،قبولیت کی دعا تو نیک.و.گناہ گار ہر ایک کو کرنی چاہیے

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App,twitter nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574

Tags

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.