فاتحہ سوئم چہلم گیارویں ایصال ثواب بدعت کی تحقیق؟ کتنا کہاں خرچ کرنا بہتر؟

*فاتحہ سوئم چہلم گیارویں بدعت کی مختصر تحقیق.........!!*

سوال:

سوئم چہلم پے آپ کی پردلیل تحریر درکار ہے نیز قرآن میں جو ہے کہ انسان کے لیے صرف وہی ہے جو اس نے خود کیا...اس کا جواب بھی عطاء فرمائیں

.

جواب:

فاتحہ سوئم چہلم  گیارویں وغیرہ پے علماء اہلسنت نے باقاعدہ کتب و رسائل لکھے ہیں، مکتبہ سے کتب خریدیں ، مطالعہ کریں...کم سے کم پی ڈی ایف بکس تو ضرور پڑہیں، marfat ڈاٹ کام پے جائیں اور سرچ کے خانے میں esal یا fatiha یا sawab وغیرہ لکھ کر سرچ کریں کافی کتب آجائیں گی

ہم یہاں اسلاف کی کتب سے تبرک کے طور کچھ لکھ رہے ہیں اللہ اسے قبول فرمائے ، نفع بخش بنائے

①وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ

اور وہ جو ان کے بعد آئے عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے انہیں بخش دے

[سورہ الْحَشْرِ: آیت 10]

اگر زندہ کی دعا مردہ کے لیے فائدہ مند نہ ہوتی تو یہ دعا کرنا فضول کہلاتا....آیت میں مقام مدحت و انداز اثبات سے ثابت ہوتا ہے کہ دعا و استعغفار سے وفات شدگان کو فائدہ ہوتا ہے بشرطیکہ مومن ہوں جیسا کہ نمبر④کی حدیث پاک میں وضاحت ہے

.

②الحدیث:

إِنَّ الرَّجُلَ لَتُرْفَعُ دَرَجَتُهُ فِي الْجَنَّةِ فَيَقُولُ: أَنَّى هَذَا؟ فَيُقَالُ: بِاسْتِغْفَارِ وَلَدِكَ لَكَ

ترجمہ:

جنت میں کسی کا درجہ بلند ہوگا تو وہ پوچھے گا یہ کیسے...؟؟ اس سے کہا جائے گا کہ تیری اولاد نے تیرے لیے استغفار کیا(یہ اسکا نفع ہے)

(سنن ابن ماجه ,2/1207حدیث3660)

(مسند أحمد 16/356حدیث10610)

جب استغفار فائدہ مند ہو سکتا ہے تو پھر دیگر صدقات و ایصال ثواب بھی فائدہ مند ہو سکتے ہیں بلکہ ہوتے ہیں جیسا کہ احادیث کے حوالے سے ہم بیان کریں گے


.

③قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اقْرَءُوا يس عَلَى مَوْتَاكُم

ترجمہ

نبی پاک صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے فرمایا کہ اپنے مُردوں(قریب المرگ اور بعد از موت و بعد از دفن میت مُردوں) پے سورہ یس پڑھو

(سنن أبي داود ,3/191حديث3121)

(مستدرک حدیث2074نحوہ)

(ابن ماجہ حدیث1448نحوہ)

أَيْ عَلَى مَنْ حَضَرَهُ الْمَوْتُ أَوْ بَعْدَ الْمَوْتِ أَيْضًا

ترجمہ:

 یعنی جو قریب المرگ ہوں اور جو وفات پا جائیں دونوں حالتوں میں ان پر سورہ یس پڑھو

(حاشية السندي على سنن ابن ماجه ,1/442)

سورہ یس کی تلاوت کا اہم نفع ہے جو اسکی خصوصیت آئی ہے جب یس کا نفع ہے تو دیگر سورتوں و صدقات وغیرہ کا بھی نفع پہنچے گا



④ایک صحابی رضی اللہ تعالی عنہ کی والدہ وفات پا گئیں صحابی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں سوال کیا 

فَهَلْ لَهَا أَجْرٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا؟ قَالَ: «نَعَمْ»

اگر میں اپنی وفات شدہ والدہ کی طرف سے صدقہ( ایصال ثواب )کروں تو کیا اس کو اجر.و.ثواب ملے گا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جی ہاں 

(بخاري حدیث1388)

.

⑤إِنَّهُ لَوْ كَانَ مُسْلِمًا فَأَعْتَقْتُمْ عَنْهُ أَوْ تَصَدَّقْتُمْ عَنْهُ أَوْ حَجَجْتُمْ عَنْهُ بَلَغَهُ ذَلِكَ

ترجمہ

میت مسلمان ہوتو اس کےلیےغلام آزاد کرو یا صدقہ کرو یا حج کرو اسےاسکا ثواب پہنچتا ہے

(سنن أبي داود ,3/118 حدیث2883)

.

⑥إن أبي مات وترك مالاً ولم يُوصِ فهل يُكفِّر عنه أن أتصدق عنه؟ قال: ((نعم))

ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے  عرض کیا کہ میرا والد انتقال کر گیا ہے اور مال چھوڑ گیا اور اس نے وصیت نہیں کی...کیا اس کے گناہ بخشے جائیں گے اگر میں اس کی طرف سے صدقہ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“

(مسلم حدیث4219)

.

⑦زندہ کے لیےبھی ایصال ثواب جائز بلکہ بہتر..........!!

مَنْ يَضْمَنُ لِي مِنْكُمْ أَنْ يُصَلِّيَ لِي فِي مَسْجِدِ الْعَشَّارِ رَكْعَتَيْنِ، أَوْ أَرْبَعًا، وَيَقُولَ هَذِهِ لِأَبِي هُرَيْرَةَ

ترجمہ:

تم میں سے کون ہے جو اپنے ذمے لے کہ وہ مسجد عشار میں دو رکعت پڑھے یا چار رکعت پڑھے اور کہے کہ یہ ابوہریرہ کے لیے ہے 

(سنن أبي داود ,4/113روایت4308)

جب زندہ کو ایصال ثواب ہوسکتا ہے تو وفات شدگان کو بھی بدرجہ اولیٰ ایصال ثواب پہنچتا ہے

.

⑧الحديث:

ثُمَّ أَخَذَ جَرِيدَةً رَطْبَةً، فَشَقَّهَا بِنِصْفَيْنِ، ثُمَّ غَرَزَ فِي كُلِّ قَبْرٍ وَاحِدَةً، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لِمَ صَنَعْتَ هَذَا؟ فَقَالَ: «لَعَلَّهُ أَنْ يُخَفَّفَ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا»

ترجمہ:

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کھجور کی ایک  ہری ڈالی لی اور اس کے دو ٹکڑے کرکے دونوں قبر پر ایک ایک ٹکڑا گاڑ دیا۔ صحابہ کرام نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! آپ نے ایسا کیوں کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ امید ہے کہ اس وقت تک کے لیے ان پر عذاب کچھ ہلکا ہو جائے جب تک یہ خشک نہ ہوں۔

(صحيح البخاري ,2/95 حدیث1361)

اس حدیث پاک سے ایصال ثواب کو ثابت کرتے ہوئے علماء نے لکھا کہ:

فيه دليل على استحباب تلاوة القرآن على القبور، لأنه إذا كان يرجى أن يخفف عن الميت بتسبيح الشجر، فتلاوة القرآن أعظم رجاء وأكثر بركة

ترجمہ:

اس حدیث پاک میں دلیل ہے کہ قرآن پاک قبروں پر پڑھنا مستحب و ثواب ہے کیونکہ جب یہ امید ہے کہ سبزہ(ڈالی تازہ پھول سبزہ) کی تسبیح سے عذاب میں کمی کی امید ہے تو قرآن تو اس سے زیادہ برکت والا ہے زیادہ امید والا ہے

(أعلام الحديث شرح صحيح البخاري1/274)

(عمدة القاري شرح صحيح البخاري ,3/118)

(إكمال المعلم بفوائد مسلم2/120نحوہ)

دیوبندی کتاب احسن الفتاوی4/205بحوالہ تحقیق لاجواب ص58)

.

⑨الحدیث:

مَا الْمَيِّتُ فِي الْقَبْرِ إِلَّا كَالْغَرِيقِ الْمُتَغَوِّثِ يَنْتَظِرُ دَعْوَةً تَلْحَقُهُ

ترجمہ:

میت قبر میں اس شخص کی طرح ہوتا ہے جو ڈوب رہا ہو مدد کے لیے پکار رہا ہو، میت بھی انتظار میں ہوتا ہے کہ اسے دعا(اور صدقہ تلاوت وغیرہ ایصال ثواب) پہنچے

(شعب الإيمان حدیث8855)

(مشكاة المصابيح حدیث2355)

(جامع الاحادیث حدیث19826)

.========================

وَفِي دُعَاءِ الْأَحْيَاءِ وَصَدَقَاتِهِمْ مَنْفَعَةٌ لِلْأَمْوَاتِ

زندہ لوگ جب دعا کریں اور صدقات کریں ایصال ثواب کریں  تو اس کا فائدہ مُردوں کو ہوتا ہے 

[عقيدة الطحاوية مع الشرح ,2/663]

.

الْأَفْضَلُ لِمَنْ يَتَصَدَّقُ نَفْلًا أَنْ يَنْوِيَ لِجَمِيعِ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ لِأَنَّهَا تَصِلُ إلَيْهِمْ وَلَا يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِهِ شَيْءٌ اهـ هُوَ مَذْهَبُ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ

افضل ہیں کہ جب صدقہ ایصال ثواب کرے تو تمام مومنین و مومنات کو ایصال ثواب کرے ان سب کو ثواب پہنچے گا اور ایصال ثواب کرنے والے کے ثواب میں بھی کوئی کمی نہ ہوگی یہی اہل سنت والجماعت کا مذہب ہے 

(فتاوی شامی حنفی (رد المحتار) ,2/243)


.

فَإِنَّ مَنْ صَامَ أَوْ صَلَّى أَوْ تَصَدَّقَ وَجَعَلَ ثَوَابَهُ لِغَيْرِهِ مِنْ الْأَمْوَاتِ وَالْأَحْيَاءِ جَازَ وَيَصِلُ ثَوَابُهَا إلَيْهِمْ عِنْدَ أَهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ كَذَا فِي الْبَدَائِعِ وَبِهَذَا عُلِمَ أَنَّهُ لَا فَرْقَ بَيْنَ أَنْ يَكُونَ الْمَجْعُولُ لَهُ مَيِّتًا أَوْ حَيًّا

ترجمہ:

بے شک جو شخص روزہ رکھے اور نماز پڑھے یا صدقہ خیرات کرے اور اس کا ثواب مُردوں میں سے یا زندوں میں سے کسی کے لئے ایصال ثواب کر دے تو ان سب کو ثواب پہنچتا ہے اہل سنت والجماعت کے مطابق... اسی طرح  الْبَدَائِعِ میں ہے۔۔۔۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ زندوں کو بھی اور مردوں کو بھی ایصال ثواب کیا جا سکتا ہے 

(البحر الرائق شرح كنز الدقائق ,3/63)

.

يصله ثوابُ الدعاء، وثوابُ  الصدقة بالِإجماعْ

میت کو دعا اور صدقے کا ثواب پہنچتا ہے اس پر تمام علماء کا اجماع ہے 

(فتاوى النووي الشافعی ص83)

.

فتادی دیوبند میں ہے کہ:

میت کو ثواب صدقہ و خیرات و تلاوت قرآن شریف وغیرہ پہنچتا ہے..(فتاوی دار العلوم دیوبند5/430 بحوالہ تحقیق لاجواب ص88)

.

الإتيوبي شرح مسلم میں ابن تیمیہ وہابی کا قول نقل کرتےہوئے لکھتا ہے کہ:

فأجاب: الحمد لله رب العالمين، ليس في الآية، ولا في الحديث أن الميت لا ينتفع بدعاء الخلق له، وبما يُعمَل عنه من البرّ، بل أئمة الإسلام متفقون على انتفاع الميت بذلك۔۔۔وقد دَلَّ عليه الكتاب، والسنة، والإجماع، فمَن خالف ذلك كان من أهل البدع

ترجمہ:

ابن تیمیہ نے جواب دیا کہ تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں کسی آیت یا کسی حدیث میں یہ نہیں ہے کہ مخلوق کی دعا اور نیک اعمال(تلاوت ذکر درود حج زکوۃ صدقہ خیرات نوافل  وغیرہ) سے مردہ کو فائدہ نہیں ہوتا

بلکہ

ائمہ اسلام اس بات پر متفق ہیں کہ ان تمام نیک کاموں کا ثواب میت کو پہنچتا ہے۔۔۔اس پر قرآن و سنت اور اجماع دلیل ہے تو جو نہ مانے وہ بدعتی ہے

(البحر المحيط الثجاج في شرح صحيح الإمام مسلم بن الحجاج ,19/317ملتقطا)

.

أَنَّ لِلْإِنْسَانِ أَنْ يَجْعَلَ ثَوَابَ عَمَلِهِ لِغَيْرِهِ صَلَاةً كَانَ أَوْ صَوْمًا أَوْ حَجًّا أَوْ صَدَقَةً أَوْ قِرَاءَةَ قُرْآنٍ أَوْ ذِكْرًا أَوْ أَيَّ أَنْوَاعِ الْقُرَبِ وَهَذَا هُوَ الْقَوْلُ الْأَرْجَحُ

بےشک ایک انسان دوسرے کو اپنے اعمال کا ثواب ایصال کرسکتا ہے(مومن کو ہر طرح کا ایصال ثواب پہنچتا ہے) نماز روزے حج صدقہ تلاوت ذکر وغیرہ مختلف قسم کے نیک کام کے ثواب کو ایصال کرسکتا ہے یہی مذہب راجح و قوی ہے

(وہابی و اہل حدیث کتب سبل السلام1/509 فتاوی ثنائیہ2/35..فتاوی علماء حدیث.5/363بحوالہ تحقیق لاجواب ص78)

.

اہلسنت اور وہابی اہلحدیث وغیرہ میں اختلاف بس اس قدر ہے کہ وہابیوں اہلحدیثوں وغیرہ کے مطابق فاتحہ ایصال ثواب کا دن مقرر نہیں کرسکتے جبکہ اہلسنت کہتے ہیں کہ دن مقرر کرنا سہولت کے طور پر ہے اور باقی ایام بھی فاتحہ ہوتی رہتی ہے.... *گیارواں تیسرا چالیسوان دن کیوں.........؟؟*

اصل فاتحہ ایصال ثواب مذکورہ احادیث و آیات سے ثابت ہے اور تیسرے دن و چہلم و گیارویں کی مناسبت و تعیین عرف و عادات مسلمین و صالحین سے ثابت و جائز جسکی اصل سنت  و آثار سے ثابت ہے...

جیسے سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وعظ کے لیے جمعرات کا دن مقرر فرمایا یہ تعیین سہولت کے طور پر تھی ، اس تعیین کا ثبوت کسی حدیث پاک میں نہیں

كَانَ عَبْدُ اللَّهِ يُذَكِّرُ النَّاسَ فِي كُلِّ خَمِيسٍ

سیدنا عبداللہ ابن عباس لوگوں کو ہر جمعرات وعظ فرماتے

(صحيح البخاري ,1/25روایت70)

لیھذا سہولت کے لیے سوئم چہلم گیارویں کی تعیین جائز ہے بشرطیکہ اس کو ضروری بھی نہ سمجھا جائے، اگر کہیں ضروری سمجھا جاتا ہو تو فاتحہ سے منع نہ کریں گے بلکہ وضاحت پھیلائیں گے بتائیں گے کہ مسلمانوں سوئم چہلم گیارواں دن مقرر کرنا سہولت و مناسبت کے لیے ہے جائز ہے فرض واجب ضروری نہیں....سہولت کے لیے دن مقرر کرنے کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ دیوبندیوں کے ہاں ہر سال دن مقرر کرکے رائےونڈ اجتماع ہوتا ہے، ختم بخاری و دستاربندی کا دن مقرر کیا جاتا ہے مگر اسے کوئی بدعت نہیں کہتا اسی طرح فاتحہ کا سہولت کے لہے تیسرا چالیسواں گیارواں دن مقرر کرنا اور باقی دنوں میں بھی فاتحہ ایصال ثواب کرتے رہنا بالکل جائز ہے....مزید تحقیق و تفصیل کے لیے دیکھیے فتاوی رضویہ جلد9 ص585 اور کتاب سعیدالحق ، کتاب تحقیق لا جواب, گیارویں شریف وغیرہ

.========================

*تعزیت کی فضیلیت اور تین دن تعزیت........!!*

الحدیث:

مَا مِنْ مُؤْمِنٍ يُعَزِّي أَخَاهُ بِمُصِيبَةٍ إِلَّا كَسَاهُ اللَّهُ سُبْحَانَهُ مِنْ حُلَلِ الْكَرَامَةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ

ترجمہ:

کوئی اپنے مسلمان بھائی کے دکھ و مصیبت میں "شرعی تعزیت" کرے تو اللہ سبحانہ تعالیٰ قیامت کے اسے عزت و کرامت کا جبہ پہنائے گا

(ابن ماجہ حدیث1601)

.

نهينا أن نحد أكثر من ثلاث

ترجمہ:

ہمیں (وفات کے فورا بعد والے)تین دن سے زیادہ سوگ.و.غم کرنے سے روکا گیا ہے..(بخاری حدیث1279)

جب سوگ و غم کے اظہار کی تین دن اجازت ہے تو ان تین دنوں میں تعزیت و تسلی دینا بھی ثابت ہوگیا....اسی لیے فقہاء علماء کرام نے لکھا کہ:

التعزية لصاحب المصيبة حسن فلا بأس بأن يجلسوا في البيت أو المسجد والناس يأتونهم ويعزونهم...وأكثرهم أنه يعزى إلى ثلاثة أيام

لواحقین سے تعزیت کرنا اچھا و ثواب ہے، لواحقین گھر میں یا مسجد میں بیٹھیں اور لوگ آئیں تعزیت کریں اس میں کوئی حرج نہیں...اکثر علماء کا فرمان ہے کہ تعزیت تین دن کی جائے

(البناية شرح الهداية ,3/260ملتقطا)

.

ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ وَيُكْرَهُ بَعْدَهَا إلَّا أَنْ يَكُونَ الْمُعَزِّي أَوْ الْمُعَزَّى إلَيْهِ غَائِبًا فَلَا بَأْسَ بِهَا

تین دن کے بعد تعزیت مکروہ ہے...ہاں اگر تعزیت کرنے والا یا جس سے تعزیت جائے وہ غائب ہوں تو بعد میں آنے پر تعزیت کرنے میں حرج نہیں

(الفتاوى الهندية ,1/167)

دکھ میں بن بلائے جانا چاہیے، دکھ ونڈانہ چاہیے،تعزیت کرنی چاہیے، تسلی دینی چاہیے، حسب طاقت مدد کرنی چاہیے…مریض کی عیادت کرنی چاہیے....وفات یا بیماری پے محض دور سے تعزیت و دعا کافی معلوم نہیں لگتی، اگر مشکل و عذر و مجبوری نہ ہو تو عیادت تعزیت و دعا کے لیے ضرور ضرور ضرور جانا چاہیے…

.

*سڑک پےتعزیت منع کیوں اور کب.....؟؟*

گھر مسجد میں تعزیت کے لیے بیتھنے کو جائز لکھنے کے ساتھ ساتھ فقہاء کرام نے لکھا کہ سڑک پر قناطیں لگا کر، قالینیں بچھا کر تعزیت کے لیے بیٹھنا برا ہے....پہلے عبارت ملاحظہ کیجیے

وَلَا بَأْسَ لِأَهْلِ الْمُصِيبَةِ أَنْ يَجْلِسُوا فِي الْبَيْتِ أَوْ فِي مَسْجِدٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ وَالنَّاسُ يَأْتُونَهُمْ وَيُعَزُّونَهُمْ وَيُكْرَهُ الْجُلُوس عَلَى بَابِ الدَّارِ وَمَا يُصْنَعُ فِي بِلَادِ الْعَجَمِ مِنْ فَرْشِ الْبُسُطِ وَالْقِيَامِ عَلَى قَوَارِعِ الطُّرُقِ مِنْ أَقْبَحِ الْقَبَائِحِ

لواحقین تین دن گھر میں یا مسجد میں بیٹھیں اور لوگ آئیں تعزیت کریں اس میں کوئی حرج نہیں....گھر کے دروازوں پے تعزیت کے لیے بیٹھنا مکروہ ہے اور وہ جو عجم میں ہے کہ قالینیں بچھاتے ہیں راستوں کے بیچوں بیچ بیٹھتے ہیں یہ بہت برا ہے

(الفتاوى الهندية ,1/167)

مسجد گھر میں تعزیت کے لیے بیٹھنے کو ثواب لکھنے کے ساتھ جو یہ مکروہ لکھا ہے اسکی کیا وجہ ہے......؟؟ سرعام تعزیت وجہ ہے...؟؟ تو مسجد میں بھی سرعام تعزیت ہوتی ہے پھر وہ کیوں ثواب....؟؟

غور کیا جائے تو پہلے کے گھر بڑے ہوا کرتے تھے تو بلاعذر و بلااجازت راستے بند کرکے تعزیت کے لیے بیٹھنے کو مکروہ لکھا گیا

جبکہ

ہمارے دور میں شہروں کے گھر بہت چھوٹے ہوتے ہیں اس لیے گھر سے باہر راستے پر بیٹھنا مجبوری بھی ہے اور عرف میں اسکی اجازت بھی ہے اور لوگوں کی حق تلفی بھی نہیں کہ لوگ اسکی اجازت دیتے ہیں لیھذا ہمارے دور میں اگر کسی کا گھر چھوٹا ہو ، اہل محلہ کی اجازت ہو تو کچھ راستہ بھی چھوڑا جائے یا نعم البدل راستہ موجود ہو تو راستے میں ٹینٹ لگا کر تعزیت و فاتحہ خیرات ممنوع نہ کہلائے گی

.=========================

*فاتحہ تیجہ میں کتنا خرچ کریں،کیا امیر کھا سکتا ہے..؟؟*

 فاتح ایصال ثواب خیرات تیجہ سوئم چہلم وغیرہ سب نفلی صدقہ ہیں، بہتر ہے فقط غرباء کو کھلائیں مگر امیروں غریبوں سب کو کھلانا جائز بھی ہے

وَأَمَّا صَدَقَةُ التَّطَوُّعِ فَيَجُوزُ صَرْفُهَا إلَى الْغَنِيِّ

 اور نفلی صدقہ امیر کو بھی دے سکتے ہیں کھلا سکتے ہیں

(بدائع صنائع2/47)

.

نجدیوں وہابیوں غیرمقلدوں کا معتبر عالم ابن حزم لکھتا ہے:

وَالصَّدَقَةُ لِلتَّطَوُّعِ عَلَى الْغَنِيِّ جَائِزَةٌ وَعَلَى الْفَقِيرِ

 اور نفلی صدقہ امیر غریب سب کو دینا کھلانا جائز ہے

(المحلى بالآثار8/124)

.

فتوی:

سوئم چہلم پے امیر غریب سب شرکت کر سکتے،کھانا کھا سکتے ہیں مگر سوئم چہلم پے غرباء کو کھلانا بہتر…تفخر ، دکھاوا، ایک دوسرے سے خرچے میں سبقت و تکلفات نہ کرنا لازم(دیکھیے فتاوی رضویہ 9/594,610)

بہتر ہے کہ چھوٹا موٹا سوئم پےاکتفاء کیا جائے اور بقایا رقم سے کوئی علمی دینی شعوری ترقی کے اچھے کام و خدمات پے خرچ کرکے،  غرباء کی اچھی امداد پے خرچ کرکے، مدارس و کتب پےخرچ کرکے، سچے سرگرم علماء مبلغین پے خرچ کرکے دعا کیجیے کہ یا اللہ یہ جو جرچ کیا اسکا ثواب تمام مسلمانوں سمیت فلاں فلاں کو عطاء فرما…ایصال ثواب فقط کھانا کھلانے کا نام نہیں...بلکہ مدارس کتب علم شعور علماء غرباء کو رقم دے کر یا راشن دے کر یا کچھ بھی دے کر اور نفل پڑھ کر قران درود ذکر پڑھ کر وغیرہ وغیرہ نیکیاں کرکے بھی ان نیکیوں کو میت کے لیے ایصال ثواب کیا جاسکتا ہے

.

مسئلہ:

لنگر،نیاز،عرس،فاتحہ وغیرہ پر خرچ کرنےپے1کےبدلے10نیکیاں ہیں(دلیل سورہ انعام160)اور طالب علم دین(و برحق سرگرم مدارس علماء لکھاری علم و شعور جہاد)پر خرچ کرنےمیں1کے بدلے700 یا اس سےبھی زیادہ نیکیاں ملیں گی(دلیل سورہ بقرہ261)(فتاوی رضویہ246 ،10/305ملخصا) لنگر،نیاز،عرس،فاتحہ پے زکواۃ فطرہ خرچ نہیں کرسکتے البتہ ان پے نفلی صدقہ نیاز خرچ کرسکتے ہیں…زیادہ بہتر ، زیادہ مفید پر زیادہ خرچ کیجیے، معتبر سرگرم سادات و علماء و مدارس و مبلغین و امام مسجد و علمی اصلاحی جگہوں کتابوں علم و شعور پڑھنے پڑھانے پھیلانے پے زیادہ خرچ کیجیے، اور اس کے ساتھ ساتھ دیگر غرباء پے زکواۃ فطرہ نفلی صدقہ بھی ضرور خرچ کیجیے اور فلاحی ترقیاتی کاموں محلفوں عرس فاتحہ لنگر پے نفلی صدقہ کم خرچ کیجیے کہ حاجت زیادہ نہیں الا یہ کہ کسی علمی اصلاحی و اسلام کہ سربلندی کی محفل کا فائدہ زیادہ ہوتو اس پے زیادہ خرچ کیا جانا چاہیے...بظاہر کم مفید پے بھی کم خرچِ صحیح کیجیے کہ نا جانے کونسی ادا اور نیکی مقبول و محبوب ہو جائے…اچھی سیاست پے جب حاجت ہو تو ضرور نفلی صدقہ تعاون خرچ کیجیے

.

الْأَفْضَلِيَّةُ مِنَ الْأُمُورِ النِّسْبِيَّةِ، وَكَانَ هُنَاكَ أَفْضَلَ لِشِدَّةِ الْحَرِّ وَالْحَاجَةِ وَقِلَّةِ الْمَاءِ

 نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف امور کو افضل صدقہ قرار دیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی صدقہ کس نسبت سے افضل ہوتا ہے اور کوئی صدقہ کس نسبت سے افضل ہوتا ہے اور اس حدیث پاک میں افضل صدقہ پانی اس لیے ہے کہ اس کی حاجت زیادہ تھی

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ,4/1342)

تو

وقت و حالات کے مطابق ضرورت و نفع کو دیکھ کر اس میں زیادہ خرچ کرنے کو ترجیح دینی چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ

 تھوڑا تھوڑا کرکے ہر نیکی میں دیں، وقتا فوقتا صدقہ کریں، وقتا فوقتا قران پڑہیں حدیث پڑہیں معتبر کتب سے قران و حدیث کو سمجھیں سمجھائیں پھیلاءیں عمل کریں نوافل درود پڑہیں نیکیان کریں گناہوں سے بچیں، حسن اخلاق اپنائیں، علم و شعور اگاہی پھیلائیں، مدد کریں، فلاحی کام کریں. غرباء کو جس کی حاجت زیادہ ہو وہ دیں...جس کا نفع عام و زیادہ ہو وہ کریں، مدارس میں دیں.. علماء لکھاری مبلغین کی مدد کریں.......کسی بھی نیکی کو کمتر نہ سمجھیں کہ نہ جانے کونسی نیکی کونسی ادا اللہ کے ہاں محبوب و مقبول ہوجائے...

الحدیث:لَا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوفِ شَيْئًا،

کسی بھی نیکی کو کمتر نہ سمجھو

(مسلم حدیث2626...6690)


.=======================

*انسان کے لیے صرف وہی ہے جو اس نے خود کیا....؟؟*

ایت میں ہے کہ انسان کے لیے صرف وہی ہے جو اس نے خود کیا...اس سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ دوسروں کے نیک اعمال و ایصال و ثواب کا فائدہ میت کو نہیں ملے گا...اس کے متعدد جوابات دییے گئے ہیں

جواب①:یہ آیت منسوخ ہے

جواب②:آیت کے سیاق و سباق میں غور کیا جاءے تو ترجمہ یہ بنے گا کہ صحف ابراہیم و موسی میں یہ ہے کہ انسان کے لیے صرف وہی ہے جو اس نے خود کیا...یعنی یہ حکم پہلے کی شریعتوں کا ہے، ہماری شریعت میں دوسروں کا ایصال کردہ ثواب زندہ و مردہ کو ملتا ہے بشرطیکہ مسلمان ہو

جواب③:یہ آیت کفار کے بارے میں ہے کہ انہیں ایصال ثواب کا فائدہ نہ ملے گا جبکہ مومن کو ملے گا

.

علامہ قرطبی لکھتے ہیں

 وَقَالَ الرَّبِيعُ بْنُ أَنَسٍ: (وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسانِ إِلَّا مَا سَعى) يَعْنِي الْكَافِرَ وَأَمَّا الْمُؤْمِنُ فَلَهُ مَا سَعَى وَمَا سَعَى لَهُ غَيْرُهُ. قُلْتُ: وَكَثِيرٌ مِنَ  الْأَحَادِيثِ يَدُلُّ عَلَى هَذَا الْقَوْلِ، وَأَنَّ المؤمن يصل إليه ثَوَابِ الْعَمَلِ الصَّالِحِ مِنْ غَيْرِهِ

الرَّبِيعُ بْنُ أَنَسٍ نے کہا ہے کہ انسان کے لیے صرف وہی ہے جو اس نے خود کیا... یہ کافر انسان کے متعلق ہے اور جہاں تک تعلق ہے مومن کا تو اسے اپنے اعمال کا ثواب ملتا ہے اور دیگر لوگوں کے اعمال کا ایصال کردہ ثواب ملتا ہے...میں یعنی امام قرطبی کہتا ہوں کہ اس قول پر کثیر احادیث دلالت کرتی ہیں کہ مومن کو دوسروں کے نیک اعمال کا ایصال کردہ ثواب ملتا ہے

(تفسير القرطبي17/114)

.

وَهَذَا أَيْضًا فِي صُحُفِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى...وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: هَذَا مَنْسُوخُ الْحُكْمِ فِي هَذِهِ الشَّرِيعَةِ، بِقَوْلِهِ: "أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ"، (الطُّورِ-21)وَقَالَ عِكْرِمَةُ: كَانَ ذَلِكَ لِقَوْمِ إِبْرَاهِيمَ  وَمُوسَى، فَأَمَّا هَذِهِ الْأُمَّةُ فَلَهُمْ مَا سَعَوْا وَمَا سَعَى لَهُمْ غَيْرُهُمْ،

انسان کے لیے صرف وہی ہے جو اس نے خود کیا یہ صحف ابراہیم و موسی کا حکم ہے یعنی ہماری شریعت کا حکم نہیں...سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یہ حکم ہماری شریعت میں منسوخ ہےأَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ"، (الطُّورِ-21) ناسخ ہے....سیدنا عکرمہ نے فرمایا کہ یہ حکم کہ انسان کے لیے صرف وہی ہے جو اس نے خود کیا یہ صحف ابراہیم و موسی کا حکم ہے جبکہ ہماری شریعت میں اپنے اعمال کا ثواب ملتا ہے اور دیگر لوگوں کا ایصال کردہ ثواب ملتا ہے

(تفسير البغوي - طيبة7/416ملتقطا)

.=========================

  *بدعت کی تحقیق اور تفرقہ کا ایک حل....!!*

سوال:

کیا میلاد فاتحہ شب براءت ،شب معراج، شب قدر کی سالانہ عبادات و شب بیداری ، کونڈے ایصال ثواب وغیرہ سنت ہیں یا بدعت..؟؟

بدعت کس کو کہتے ہیں...؟؟

.

جواب:

میلاد فاتحہ سوئم چہلم گیارویں عرس کونڈے ایصال ثواب دعا بعد جنازہ، اذان سے قبل درود شب براءت ،شب معراج، شب قدر کی سالانہ عبادات و شب بیداری وغیرہ وہ کام جو اہلسنت کرتے ہیں یہ سب مروجہ صورت میں جائز و ثواب ہیں مگر انکی اصل قرآن و سنت سے ثابت ہے، یہ کام مروجہ صورت کے ساتھ سنت نہیں بلکہ جائز و ثواب ہیں... سنت کے علاوہ جائز و ثواب بھی اسلام کی تعلیمات کا حصہ ہیں.. یہ تمام امور شرعا اصلا بدعت و گناہ نہیں..

.

فرقہ واریت یا اختلاف کی ایک بڑی وجہ وہ سوچ ہے جو معاشرے میں پھیلا دی گئ ہے اور مسلسل پھیلائی جا رہی ہے کہ جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا اور جو کام صحابہ کرام نے نہیں کیا وہ بدعت ہے... جو کام سنت نہین وہ بدعت ہے کہہ دیا جاتا ہے..لیھذا اذان سے پہلے درود و سلام، دعا بعد نماز جنازہ، میلاد فاتحہ شب بیداری وغیرہ وغیرہ سب بدعت ہیں..پھر یہ بدعت وہ بدعت ایک لمبی لسٹ شروع کردی جاتی ہے

جو امت میں تفرقہ کا کلیدی کردار ادا کرتی ہے.. لیھذا ان مسائل میں اتفاق کیا جائے تو *بہت بڑا #اتحاد* ہوسکتا ہے..

.

حدیث پاک میں ہے کہ:

وما سكت عنه فهو مما عفا عنه

ترجمہ:

جس چیز کے متعلق(قرآن و احادیث میں)خاموشی ہو(مطلب دوٹوک حلال یا دوٹوک حرام نہ کہا گیا ہو تو)وہ معاف ہے، جائز ہے... (ابن ماجہ حدیث3368)

یہ حدیث ترمذی اور ابوداؤد وغیرہ بہت کتابوں میں ہے

.

حدیث پاک میں ہے:

من سن في الإسلام سنة حسنة، فعمل بها بعده، كتب له مثل أجر من عمل بها، ولا ينقص من أجورهم شيء

ترجمہ:

جس نے اسلام میں نیا اچھا طریقہ جاری کیا تو اس کے بعد

جو جو  اس پر عمل کرے گا ان سب کا ثواب اسے ملے گا اور عمل کرنے والوں کے ثواب میں بھی کمی نا آے گی

(مسلم حدیث نمبر1017...6800)

یہ حدیث پاک ابن ماجہ سنن نسائی وغیرہ بہت کتابوں میں بھی ہے

.

ان دونوں احادیث مبارک سے ثابت ہوتا ہے کہ:

①جو کام سنت نا ہو وہ معاف اور جائز کہلائے گا...لیھذا یہ کہنا کہ فلان کام سنت نہیں اس لیے بدعت ہے، یہ کہنا غلط ہے کیونکہ حدیث پاک کی روشنی سے واضح ہے کہ جو سنت نا ہو وہ معاف اور جائز کہلائے گا... ہاں اگر سنت نا ہو اور جائز بھی نا ہو بلکہ اسلام کے اصولوں کے خلاف ہو تب بدعت و گناہ کہلائے گا

.

②اگر کوئی آپ سے کہے کہ فلاں کام سنت نہیں بدعت ہے تو آپ فورا جواب دیں کہ ٹھیک ہے سنت نہیں تو کیا جائز بھی نہیں...؟؟

.

③بے شک سنت کی عظمت ہے مگر اسی سنت نے ہمیں سکھایا ہے کہ سنت کے علاوہ جائز بھی کوئی چیز ہے... لیھذا سنت سنت کی رٹ لگانے کے ساتھ ساتھ جائز جائز کی رٹ لگانا بھی ضروری ہے

.

④ان احادیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ وہ عبادت وہ نیک کام جسکا کوئی ایک طریقہ مقرر نا ہو تو اس کے نئے طریقے بدعت نہیں بلکہ اس کے نئے پرانے سب طریقے جائز ہیں....ہاں جس کام جس عبادت کے طریقے اسلام نے متعین و مخصوص کر دیے ہیں ان میں نیا طریقہ نکالنا ٹھیک نہیں... جیسے نماز روزے کے نئے طریقے نکالنا ٹھیک نہیں مگر صدقہ خیرات ذکر اذکار درود میلاد فاتحہ ایصال ثواب شب براءت ،شب معراج، شب قدر کی سالانہ عبادات و شب بیداری وغیرہ کے نئے پرانے سب طریقے جائز ہیں بشرطیکہ اسلام کے کسی اصول کے خلاف نا ہوں..

.

*نئے طریقے بدعت نہیں تو #پھر_آخر_بدعت_ہے_کیا.....؟؟*

دراصل بدعت کی تعریف واضح الفاظ میں کسی آیت کسی حدیث میں نہیں آئی، جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جو کام صحابہ کرام نے نہیں کیا وہ بدعت ہے ہم انہیں کہتے ہیں کہ کسی حدیث میں یہ دکھا دیں کہ بدعت وہ ہے جو کام صحابہ کرام نے نا کیا ہو...؟؟

کچھ لوگ کہتے ہیں جو سنت نہیں وہ بدعت ہے، یہ بھی ٹھیک نہیں کیونکہ اوپر احادیث کی زبانی بتایا جا چکا ہے کہ جو کام سنت نا ہو وہ جائز بھی کہلا سکتا ہے، سنت کے بعد جائز بھی ایک قیمتی چیز ہے

.

*پھر آخر بدعت ہے کیا.....؟؟*

آیات تفاسیر احادیث میں غور کرکے بدعت کی تعریف اخذ کی گئ ہے جسے علماء کرام نے جامع انداز میں کچھ یوں بیان فرمایا ہے کہ:المراد بھا ما احدث ولیس لہ اصل فی الشرع،،ویسمی فی عرف الشرع بدعۃ، وماکان لہ اصل یدل علیہ الشرع فلیس ببدعۃ فالبدعۃ فی عرف الشرع مذمومۃ بخلاف اللغۃ

ترجمہ:

بدعت اس نئ چیز کو کہتے ہیں جسکی شریعت میں کوئ اصل نا ہو،،شریعت میں اسی کو بدعت کہا جاتا ہے

اور

جس نئے کام کی اصل ہو کہ اس پر شریعت رہنمائ کرے وہ تو بدعت نہیں، بدعۃ شریعت میں مذموم ہی ہوتی ہے"با خلاف لغت(اور ظاہری بدعت) کے"

(فتح الباری 13/253،اصول الایمان ص126

اصول الرشاد ص64 مرعاۃ،عمدۃ القاری، مجمع بحار الانوار

فتح المبین،وغیرہ بہت کتابوں میں بھی یہی تعریف ہے

جن تین کتابوں کا مکمل حوالہ لکھا ہے وہ اس لیے کہ پہلی کتاب تمام کے ہاں معتبر ہے خاص کر اہل حدیث کے لیے

اور دوسری کتاب وہابیوں کی ہے سعودی عرب کی حکومت نے چھاپی ہے اور تیسری کتاب امام اہلسنت سیدی احمد رضا کے والد صاحب کی کتاب ہے)

.

سیدنا عمر کا فتوی اور جمھور صحابہ کرام کا عدم انکار:

نِعْمَ الْبِدْعَةُ هَذِهِ

یہ کیا ہی اچھی بدعت ہے

(بخاری جلد2 صفحہ707)

یہ فتوی دیگر بہت کتابوں میں بھی ہے

 سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے بدعت کو کیا ہی اچھی بدعت کہا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ بظاہر کوئی چیز بدعت ہوتی ہے لیکن اس کی اصل شریعت میں ہوتی ہے تو وہ اچھی بدعت کہلاتی ہے اور اس پر جمھور صحابہ کرام علیھم الرضوان نے انکار بھی نہیں کیا تو اکثر صحابہ کرام کے مطابق بدعت اچھی بھی ہوتی ہے... بعض صحابہ کرام سے جو مروی ہے کہ انہوں نے بعض نیک کاموں کو بدعت کہا تو یہ ان کا  غیر مفتی بہ یا مؤول قول کہلائے گا

.

سنی وہابی نجدی شیعہ اہل حدیث وغیرہ تمام کی کتابوں میں "موضوع حدیث" لفظ بولا جاتا ہے جبکہ حقیقت میں کوئ "حدیث" موضوع نہیں ہوتی ..اسکو فقط ظاہر کے لحاظ سے اور لغت و معنی مجاز کے لحاظ سے "حدیث" کہا جاتا ہے

اسی طرح "اچھی بدعت" حقیقت میں بدعت نہیں اسے فقط ظاہر کے لحاظ سے لغت و مجاز کے لحاظ سے بدعت کہا جاتا ہے... اوپر صحابہ کرام کے فتوے میں جو اچھی بدعت فرمایا گیا وہ بھی حقیقت میں بدعت نہیں...اسے ظاہر و لغت کے لحاظ سے بدعت فرمایا گیا ہے... بدعت کی جو پانچ اقسام بتائی جاتی ہیں وہ بھی دراصل ظاہر و لغت کے لحاظ سے ہیں ورنہ بدعت حسنہ حقیقتا بدعت ہی نہیں، بدعت کی تعریف میں"بخلاف لغت کے" الفاظوں میں اسی چیز کو بیان کیاگیا ہے

.

*وہابیوں اہلحدیثوں غیرمقلدوں نجدیوں کا امام ابن تیمیہ پہلے اپنا نظریہ  لکھتا ہے اور پھر بطور دلیل یا نقل امام شافعی کے قول کو برقرار رکھتا ہے کہ*

 وَمَا خَالَفَ النُّصُوصَ فَهُوَ بِدْعَةٌ بِاتِّفَاقِ الْمُسْلِمِينَ وَمَا لَمْ يُعْلَمْ أَنَّهُ خَالَفَهَا فَقَدْ لَا يُسَمَّى بِدْعَةً قَالَ الشَّافِعِيُّ - رَحِمَهُ اللَّهُ -: الْبِدْعَةُ بِدْعَتَانِ: بِدْعَةٌ خَالَفَتْ كِتَابًا وَسُنَّةً وَإِجْمَاعًا وَأَثَرًا عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَهَذِهِ بِدْعَةُ ضَلَالَةٍ. وَبِدْعَةٌ لَمْ تُخَالِفْ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ فَهَذِهِ قَدْ تَكُونُ حَسَنَةً لِقَوْلِ عُمَرَ: نِعْمَتْ الْبِدْعَةُ هَذِهِ هَذَا الْكَلَامُ أَوْ نَحْوُهُ رَوَاهُ البيهقي بِإِسْنَادِهِ الصَّحِيحِ فِي الْمَدْخَلِ

جو نص شرعی یعنی( قرآن و حدیث) خلاف ہو وہ بدعت ہے اس پر سب کا اتفاق ہے اور جس کے بارے میں یہ معلوم نہ ہو کہ وہ نص کے خلاف ہے تو اس کو بدعت نہیں کہیں گے... امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں ایک بدعت وہ ہے کہ جو کتاب اللہ اور سنت کے خلاف ہو یا اجماع کے خلاف ہو یا(جمھور) صحابہ کرام کے اقوال کے خلاف ہو تو یہ بدعت گمراہی ہے اور دوسری بدعت وہ ہے کہ جو ان چیزوں کے خلاف نہ ہو تو یہ بدعت حسنہ ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ سیدنا عمر نے فرمایا تھا کہ یہ کیا ہی اچھی بدعت ہے، اس قسم کی بات کو امام بیہقی نے سند صحیح کے ساتھ روایت کیا ہے

( مجموع الفتاوى ابن تيميه20/163)

.

*کل بدعۃ ضلالۃ(ہر بدعت گمراہی ہے)کی وضاحت انہی ابن تیمیہ وہابی سے سنیے...لکھتا ہے*

عَنْهُ فَيَعُودُ الْحَدِيثُ إلَى أَنْ يُقَالَ: " كُلُّ مَا نُهِيَ عَنْهُ " أَوْ " كُلُّ مَا حُرِّمَ " أَوْ " كُلُّ مَا خَالَفَ نَصَّ النُّبُوَّةِ فَهُوَ ضَلَالَةٌ " وَهَذَا أَوْضَحُ مِنْ أَنْ يَحْتَاجَ إلَى بَيَانٍ بَلْ كُلُّ مَا لَمْ يُشْرَعْ مِنْ الدِّينِ فَهُوَ ضَلَالَةٌ. وَمَا سُمِّيَ " بِدْعَةً " وَثَبَتَ حُسْنُهُ بِأَدِلَّةِ الشَّرْعِ فَأَحَدُ " الْأَمْرَيْنِ " فِيهِ لَازِمٌ: إمَّا أَنْ يُقَالَ: لَيْسَ بِبِدْعَةِ فِي الدِّينِ وَإِنْ كَانَ يُسَمَّى بِدْعَةً مِنْ حَيْثُ اللُّغَةُ. كَمَا قَالَ عُمَرُ: " نِعْمَت الْبِدْعَةُ هَذِهِ " وَإِمَّا أَنْ يُقَالَ: هَذَا عَامٌّ خُصَّتْ مِنْهُ هَذِهِ الصُّورَةُ لِمُعَارِضِ رَاجِحٍ كَمَا يَبْقَى فِيمَا عَدَاهَا عَلَى مُقْتَضَى الْعُمُومِ كَسَائِرِ عمومات الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ، وَهَذَا قَدْ قَرَّرْته فِي " اقْتِضَاءِ الصِّرَاطِ الْمُسْتَقِيمِ " وَفِي " قَاعِدَةِ السُّنَّةِ وَالْبِدْعَةِ " وَغَيْرِهِ.

خلاصہ

 ہر بدعت گمراہی ہے تو اس کا جواب یہ ہوسکتا ہے کہ جس کی اصل ثابت نہ ہو وہ بدعت ہے اور ایسی ہر بدعت گمراہی ہے اور جس کی اصل ثابت ہو وہ بدعت ہی نہیں ہے تو وہ لغت و ظاہر کے اعتبار سے بدعت ہے اور وہ گمراہی نہیں ہے ، وہ بدعت حسنہ ہے... یا پھر یہ کہا جائے گا کہ ہر بدعت گمراہی ہے اس عموم سے بدعت حسنہ مستثنی ہے جیسے کہ قرآن و حدیث کے کئ عموم ہوتے ہیں اور اس سے کچھ چیزیں مستثنی ہوتی ہیں

( مجموع الفتاوى ابن تيميه10/370)

.

*ابن حزم اور بدعت قولی فعلی بدعت حسنہ*

البدعة: كل ما قيل أو فعل مما ليس له أصل في ما نسب إليه، وهو في الدين كل ما لم يأت [في القرآن ولا] عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، إلا منها ما يؤجر عليه صاحبه ويعذر فيما قصد به الخير، ومنها ما يؤجر عليه صاحبه جملة ويكون حسنا

 بدعت ہر اس قول کو کہتے ہیں ہر اس فعل کو کہتے ہیں کہ جس کی اصل ثابت نہ ہو... شریعت میں بدعت وہ ہے کہ جس کی اصل قرآن و سنت سے ثابت نہ ہو... جس کی اصل ثابت ہو تو وہ بدعت حسنہ ہے اس پر اجر دیا جاتا ہے

(رسائل ابن حزم4/410)

.

*ابن جوزی اور بدعت*

 ومتى أسند المحدث إِلَى أصل مشروع لم يذم

 جس بدعت کی اصل ثابت ہو اس کی مذمت نہیں ہے( وہ تو دراصل بدعت ہے ہی نہیں اسے تو ظاہر اور لغت کے اعتبار سے بدعت کہا جاتا ہے)

(ابن جوزي تلبيس إبليس ص18)

.

*وہابیوں اہلحدیثوں غیرمقلدوں نجدیوں کا امام شوکانی علامہ ابن حجر کی عبارت لکھتا ہے اور اسکی نفی نہیں کرتا جسکا صاف مطلب ہے کہ یہ عبارت، یہ نظریہ بھی یا یہی نظریہ ٹھیک ہے*

وَالتَّحْقِيقُ أَنَّهَا إنْ كَانَتْ مِمَّا يَنْدَرِجُ تَحْتَ مُسْتَحْسَنٍ فِي الشَّرْعِ فَهِيَ حَسَنَةٌ، وَإِنْ كَانَتْ مِمَّا يَنْدَرِجُ تَحْتَ مُسْتَقْبَحٍ فِي الشَّرْعِ فَهِيَ مُسْتَقْبَحَةٌ، وَإِلَّا فَهِيَ مِنْ قِسْمِ الْمُبَاحِ، وَقَدْ تَنْقَسِمُ إلَى الْأَحْكَامِ الْخَمْسَةِ

 تحقیق یہ ہے کہ جو ظاہر اور لغت کے اعتبار سے بدعت ہو تو اس کی تقسیم کچھ یوں ہوگی کہ اگر وہ شریعت کے کسی اصول کے  تحت اچھی درج ہو سکتی ہو تو وہ بدعت حسنہ ہے اور اگر وہ شریعت کے کسی اصول کے تحت بری ہو تو وہ بری بدعت ہے اگر یہ دونوں صورتیں نہ ہو تو وہ بدعت مباحہ ہے اور بدعت کی پانچ قسمیں بیان کی جاتی ہے

(كتاب نيل الأوطار3/65)

.

*کل بدعۃ ضلالۃ کا جواب و وضاحت*

فإن قلت: ففي الحديث: "كل بدعة ضلالة "؟ قلت: أراد بدعة لا أصل لها في الإسلام؛ بدليل قوله: "من سنَّ سُنَّةً حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها إلى يوم القيامة

 حدیث میں جو ہے کہ ہر بدعت گمراہی ہے تو اس سے مراد وہ ہے کہ جس کی اصل ثابت نہ ہو وہ گمراہی ہے (کیونکہ بدعت جس کی اصل ثابت ہو وہ گمراہی نہیں)کیونکہ حدیث پاک میں ہے کہ جس نے نیا اچھا طریقہ جاری کیا تو اسے اجر ملے گا اور عمل کرنے والوں کا اجر بھی ملے گا قیامت تک

(الكوثر الجاري إلى رياض أحاديث البخاري4/331)

.

: شر الأمور محدثاتها: يعني: المحدثات التي ليس لها في الشريعة أصل يشهد لها بالصحة والجواز، وهي المسمّاة بالبدع؛ ولذلك حكم عليها بأن كل بدعة ضلالة. وحقيقة البدعة: ما ابتُدئ وافتُتح من غير أصل شرعي، وهي التي قال فيها - صلى الله عليه وسلم -: من أحدث في أمرنا ما ليس منه فهو ردّ

 تمام نئے امور میں سے گندی چیز بدعت ہے... نئے امور جو برے ہیں ان سے مراد وہ ہیں کہ جن کی اصل شریعت میں ثابت نہ ہو اسی کو بدعت کہتے ہیں اور اسی لئے کہتے ہیں کہ ہر بدعت گمراہی ہے یہی بدعت کی حقیقت ہے حدیث پاک میں ہے کہ جو ہمارے دین میں نئی چیز پیدا کرے تو وہ مردود ہے تو اس سے مراد بھی یہی بدعت ہے کہ جس کی اصل ثابت نہ ہو

(القرطبی..المفهم لما أشكل من تلخيص كتاب مسلم2/508)

.

*بدعت کی تعریف و تنقیح پے مزید کچھ حوالے*

، ومتى استند المحدث إلى أصل مشروع لم يذم...متى تكون البدعة حسنة؟فالبدعة الحسنة متفق على جواز فعلها والاستحباب لها رجاء الثواب لمن حسنت نيته فيها، وهي كل مبتدع موافق لقواعد الشريعة غير مخالف لشيء

 ہر وہ نیا کام کہ جس کی اصل ثابت ہو تو اس کی مذمت نہیں ہے... بدعت کب حسنہ ہو جاتی ہے کہ اس پر عمل جائز ہو جائے اور ثواب کی امید ہو تو بظاہر جو بدعت ہو وہ اگر شرعی قواعد کے موافق ہو تو بدعت حسنہ ہے

(حقيقه السنة والبدعة للسيوطي ص92)

.

ما ليس له أصلٌ في الشرع، وإنما الحامل عليه مجرد الشهوة أو الإرادة، فهذا باطلٌ قطعًا، بخلاف محدَثٍ له أصلٌ في الشرع إما بحمل النظير على النظير، أو بغير ذلك؛ فإنه حسنٌ....فالحاصل: أن البدعة منقسمةٌ إلى الأحكام الخمسة؛ لأنها إذا عرضت على القواعد الشرعية. . لم تخل عن واحدٍ من تلك الأحكام

 ہر وہ بدعت کہ جس کی شریعت میں اصل ثابت نہ ہو بلکہ اس پر عمل کرنے کے لیے خواہش نفس ہی ہو تو یہ قطعاً باطل بدعت ہے اور وہ نیا کام کہ جو بظاہر بدعت ہو لیکن اس کی شریعت میں اصل موجود ہو تو وہ بدعت حسنہ ہے... الحاصل بدعت کی پانچ قسمیں ہیں کیونکہ بدعت کو قواعد شریعت پر پرکھا جائے گا تو پانچ قسمیں بنیں گی

(الفتح المبين بشرح الأربعين لابن حجر الہیثمی ص476)

.

أَنَّ الْبِدْعَةَ الْمَذْمُومَةَ مَا لَيْسَ لَهَا أَصْلٌ مِنَ الشَّرِيعَةِ يُرْجَعُ إِلَيْهِ، وَهِيَ الْبِدْعَةُ فِي إِطْلَاقِ الشَّرْعِ، وَأَمَّا الْبِدْعَةُ الْمَحْمُودَةُ فَمَا وَافَقَ السُّنَّةَ، يَعْنِي: مَا كَانَ لَهَا أَصْلٌ مِنَ السُّنَّةِ يُرْجَعُ إِلَيْهِ، وَإِنَّمَا هِيَ بِدْعَةٌ لُغَةً لَا شَرْعًا

 شریعت میں جو بدعت کی مذمت ہے تو اس سے مراد وہ بدعت ہے کہ جس کی شریعت میں کوئی اصل موجود نہ ہو اور وہ نیا کام کے جو بظاہر بدعت ہو لیکن وہ اچھا ہو تو وہ بدعت حسنہ ہے جس کی سنت سے اصل ثابت ہو.... بدعت حسنہ دراصل بدعت ہی نہیں اسے لغوی اعتبار سے،(ظاہری اعتبار سے)بدعت کہا جاتا ہے شرعی اعتبار سے وہ بدعت نہیں ہے

(كتاب جامع العلوم والحكم ت الأرنؤوط2/131)

.

وَمَا كَانَ مِنْ بِدْعَةٍ لَا تُخَالِفُ أَصْلَ الشَّرِيعَةِ وَالسُّنَّةِ فَتِلْكَ نِعْمَتِ الْبِدْعَةُ

 وہ بدعت کے جو شریعت کے اصولوں کے خلاف نہ ہو تو وہ کیا ہی اچھی بدعت ہے

(كتاب الاستذكار لابن عبد البر 2/67)

.

) فالبَدْعَةُ بِدْعَتَانِ: بِدْعَةُ هُدَى، وبِدْعَةُ ضَلاَلَةٍ، وبِدْعَةُ الضَّلاَلةِ كُلُّ مَا ابْتُدِعَ على غَيْرِ سُنَّةِ

 بدعت کی دو قسمیں ہیں نمبر1 ہدایت والی بدعت ، نمبر2 گمراہی والی بدعت، گمراہی والی بدعت وہ ہے کہ جو سنت کے خلاف ہو

(كتاب تفسير الموطأ للقنازعي1/87)

.

وَصَفَهَا بِنِعْمَتْ لِأَنَّ أَصْلَ مَا فَعَلَهُ سُنَّةً

 جس کی اصل سنت سے ثابت ہو تو وہ کیا ہی اچھی بدعت ہے

(شرح الزرقاني على الموطأ1/418)

.

وَإِنْ لَمْ تُوجَدْ فِي الزمان الأول، فأصولها موجودة

 بدعت حسنہ کے مروجہ طریقے کہ جو بظاہر پہلے کے زمانے میں نہ تھے لیکن اس کے اصول موجود تھے تو اس لیے یہ اچھی بدعت ہیں

(الاعتصام للشاطبي ت الشقير والحميد والصيني1/48)

.


الْبِدْعَة مَا لَيْسَ بمكروه فتسمى بِدعَة مُبَاحَة وَهُوَ مَا يشْهد لحسنه أصل الشَّرْع

 ظاہر اور لغت کے اعتبار سے جو بدعت ہو لیکن وہ مکروہ نہ ہو تو اس کو بدعت مباحہ کہتے ہیں اور یہ وہ ہے کہ جس کی اصل شریعت سے ثابت ہو

(الصنعاني ،ثمرات النظر في علم الأثر ص46)

.

، وإلا فقد عرفت أن من البدع ما هو واجب....، أو مندوب

 ورنہ آپ جانتے ہیں کہ بدعت کی ایک قسم واجب بھی ہوتی ہے اور ایک قسم اچھی بھی ہوتی ہے

(عبدالحق محدث دہلوی، لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح1/507)

.

*بدعت کی تعریف تصوف کی کتب سے*

وَعَنْ زَيْنِ الْعَرَبِ الْبِدْعَةُ مَا أُحْدِثَ عَلَى غَيْرِ قِيَاسِ أَصْلٍ مِنْ أُصُولِ الدِّينِ.وَعَنْ الْهَرَوِيِّ الْبِدْعَةُ الرَّأْيُ الَّذِي لَمْ يَكُنْ لَهُ مِنْ الْكِتَابِ وَلَا مِنْ السُّنَّةِ سَنَدٌ ظَاهِرٌ أَوْ خَفِيٌّ مُسْتَنْبَطٌ وَقِيلَ عَنْ الْفِقْهِيَّةِ الْبِدْعَةُ الْمَمْنُوعَةُ مَا يَكُونُ مُخَالِفًا لِسُنَّةٍ أَوْ لِحِكْمَةِ مَشْرُوعِيَّةِ سُنَّةٍ فَالْبِدْعَةُ الْحَسَنَةُ لَا بُدَّ أَنْ تَكُونَ عَلَى أَصْلٍ وَسَنَدٍ ظَاهِرٍ أَوْ خَفِيٍّ أَوْ مُسْتَنْبَطٍ

 خلاصہ

 امام زین العرب فرماتے ہیں کہ حقیقتا شرعا بدعت اس کو کہتے ہیں کہ جو اصول دین کے قیاس سے ثابت نہ ہو، امام ھروی فرماتے ہیں کہ شرعا بدعت وہ ہے کہ جس کی قرآن اور سنت سے اصل ظاہر نہ ہو یا جسکی خفی اصل ثابت نہ ہو یا جسکی مستنبط اصل نہ ہو تو وہ شرعا بدعت ہے برائی ہے وگرنہ جسکی اصل ظاہر یا اصل خفی یا اصل مستنبط موجود ہو وہ بدعت حسنہ ہے

( بريقة محمودية في شرح طريقة محمدية وشريعة نبوية في سيرة أحمدية1/87)

.

فكم من محدث حسن كما قيل في إقامة الجماعات في التراويح إنها من محدثات عمر رضي الله عنه وأنها بدعة حسنة إنما البدعة المذمومة ما يصادم السنة القديمة أو يكاد يفضي إلى تغييرها

 کئ ایسے نئے امور ہوتے ہیں کہ جو بدعت حسنہ کہلاتے ہیں جیسے کہ تراویح کی (مستقل)جماعت کروانا یہ سیدنا عمر کی بدعات حسنہ میں سے ہے ... حقیقی بدعت تو وہ ہے یا بدعت مذمومہ تو وہ ہے کہ جو سنت قدیمہ کے خلاف ہو یا سنت کو تغیر کرنے والی ہو

(الغزالي ,إحياء علوم الدين ,1/276)



.

*بدعت کے متعلق فقہ سے ایک ایک حوالہ بطور تبرک......!!*

لَكِنْ قَدْ يَكُونُ بَعْضُهَا غَيْرَ مَكْرُوهٍ فَيُسَمَّى بِدْعَةً مُبَاحَةً وَهُوَ مَا شَهِدَ لِجِنْسِهِ أَصْلٌ فِي الشَّرْعِ

 جو کام بظاہر بدعت ہو لیکن وہ مکروہ نہیں ہوتے تو اس کو بدعت مباحہ کہتے ہیں وہ وہ ہے کہ جس کی اصل شریعت میں ثابت ہو

(فقه حنفي البحر الرائق 3/258)


.

البدعة منقسمة إلى واجبة ومحرمة ومندوبة ومكروهة ومباحة, قال: والطريق في ذلك أن تعرض البدعة على قواعد الشريعة, فإن دخلت في قواعد الإيجاب .. فهي واجبة أو في قواعد التحريم .. فمحرمة, أو المندوب .. فمندوبة, أو المكروه .. فمكروهة, أو المباح .. فمباحة

 بدعت کی درج ذیل قسمیں ہے واجب مکروہ حرام مستحب مباح.... اس کی صورت یہ ہے کہ بدعت کو شریعت کے قواعد پر پرکھا جائے گا اگر وہ واجب کے قواعد میں ہو تو بدعت واجبہ ہے اگر وہ حرام کے قواعد میں ہو تو بدعت حرام ہے اور اگر وہ مستحب کے زمرے میں آتی ہوں تو بدعت مستحب ہے اور اگر وہ مکروہ کے تحت آتی ہو تو مکروہ ھے ورنہ مباح ہے

(فقہ شافعی النجم الوهاج في شرح المنهاج10/323)

(فقہ حنفی رد المحتار,1/560 نحوہ)



.

أحدث في الإسلام مما لا أصل له لا في الكتاب ولا في السنة

 شریعت کی رو سے بدعت وہ ہے کہ جس کی کوئی اصل ثابت نہ ہو قرآن سے اور نہ ہی سنت سے(جس کی اصل ثابت ہو وہ تو بدعت ہی نہیں وہ تو اچھی بدعت و ثواب ہے)

(فقہ حنبلی شرح زاد المستقنع - الشنقيطي - التفريغ210/8)

.

تَقَدَّمَ ذِكْرُ أَصْلِ فِعْلِهَا وَمَا كَانَ كَذَلِكَ فَلَا يَكُونُ بِدْعَةً...أَنَّ الْبِدَعَ قَدْ قَسَّمَهَا الْعُلَمَاءُ عَلَى خَمْسَةِ أَقْسَامٍ:بِدْعَةٌ وَاجِبَةٌ الْبِدْعَةُ الثَّانِيَةُ: بِدْعَةٌ مُسْتَحَبَّةٌ الْبِدْعَةُ الثَّالِثَةُ: وَهِيَ الْمُبَاحَةُ الْبِدْعَةُ الرَّابِعَةُ:وَهِيَ الْمَكْرُوهَةُ الْبِدْعَةُ الْخَامِسَةُ: وَهِيَ الْمُحَرَّمَةُ

 اس کی اصل ثابت ہے تو یہ بدعت نہیں... بے شک بدعت کی علماء نے پانچ قسمیں بنائی ہے بدعت واجب بدعت مستحب بدعت مباح بدعت مکروہ بدعت حرام

(فقہ مالکی المدخل لابن الحاج..290...2/257)

.

الحاصل:

خلاصہ یہ ہے کہ

①سنت کے علاوہ جائز بھی اسلام کا ایک اہم ستون ہے... جائز کو بھلانا گمراہی و تفرقہ کا باعث ہے

②ہر نئ چیز شرعا مذموم بدعت نہیں ہوتی...جو سنت نا ہو وہ بدعت نہیں بلکہ جائز کہلائے گی بشرطیکہ کہ اسلامی اصول کے خلاف نا ہو...بدعت اس نئ چیز کو کہتے ہیں جسکی اصل موجود نہ ہو

③میلاد فاتحہ اذان سے پہلے درود، بعد نماز جنازہ دعا، سوئم چہلم گیارویں عرس کونڈے ایصال ثواب ، شب براءت ،شب معراج، شب قدر کی سالانہ عبادات و شب بیداری وغیرہ جو کام اہلسنت کرتے ہیں وہ برائی و بدعت نہیں کیونکہ انکی اصل قرآن و سنت میں موجود ہے... ذرا غور کیجیے گا کہ مذکورہ کام جس طریقے سے آج کیے جاتے ہیں بالکل اسی طریقے سے پہلے نہیں کیے جاتے تھے مگر ان امور کی اصل قرآن وسنت مین موجود ہے لیھذا یہ موجودہ مروجہ طریقوں کے ساتھ مذکوہ کام سنت نہیں بلکہ جائز و ثواب ہیں مگر انکی اصل قرآن و سنت سے ثابت ہے......!!

.

✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر

whats App nmbr

00923468392475

03468392475

other nmbr

03062524574

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.